• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلیمان بن موسی الدمشقی الاموی

شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی امام ابو داود رحمہ اللہ کی نظر میں :

لا بأس بہ، ثقۃ (سؤالات الآجري 5/18)


امام ابو داود کہتے ہیں سلیمان بن موسی میں کوئی حرج نہیں ثقہ ہے ـ

امام ابو داود کے نزدیک سلیمان بن موسی اگرچہ ثقہ ہے لیکن پہر بھی ان سے مروی ایک حدیث کو منکر کہا ـ دیکھیے
حدثنا أحمد بن عبيد الله الغداني حدثنا الوليد بن مسلمحدثنا سعيد بن عبد العزيز عن سليمان بن موسى عن نافع قال سمع ابن عمر مزمارا قال فوضع إصبعيه على أذنيه ونأى عن الطريق وقال لي يا نافع هل تسمع شيئا قال فقلت لا قال فرفع إصبعيه من أذنيه وقال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم فسمع مثل هذا فصنع مثل هذا قال أبو علي اللؤلؤي سمعت أبا داود يقول هذا حديث منكر
(سنن ابو داود حدیث 4924 )


اس حدیث پر نکارت کا حکم لگانے کے احتمالات :
1-اس حدیث کے دیگر طرق اور رجال کو دیکھنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے امام ابو داود اس حدیث کو نافع سے سلیمان بن موسی کے علاوہ نہیں جانتے تھے جو امام نافع کے محفوظ احادیث ان کے ثقہ تلامذہ کے پاس تھے اور نہ ان کے شہر یعنی مدینہ کے کسی تلامذہ سے جانتے تھے ـ

2- سلیمان بن موسی نافع کے تلامذہ میں طبقہ اولی میں شمار نہیں کیے جاتے، دوسرے طبقہ میں بھی نہیں بلکہ آپ کا مقام طبقہ ثلاثہ میں ہوتا ہے ـ
ذكره بن المديني في الطبقة الثالثة من أصحاب نافع (تهذيب التهذيب 4/227)
ترجمہ : حافظ ابن حجر کہتے ہیں ابن المدینی نے سلیمان بن موسی کا أصحاب نافع میں تیسرے طبقہ میں تذکرہ کیا ہے ـ

اس حدیث کے دوسرے طرق دیکھتے ہیں جو امام ابو داود رحمہ اللہ نے خود اس حدیث کے بعد لائے ہیں

حدثنا محمود بن خالد حدثنا أبي حدثنا مطعم بن المقدام قال حدثنا نافع قال كنت ردف ابن عمر إذ مر براع يزمر فذكر نحوه قال أبو داود أدخل بين مطعم ونافع سليمان بن موسى
اس میں تو خود امام ابو داود نے کہا کہ مطعم اور نافع کے درمیان سلیمان بن موسی کو داخل کیا گیا ـ
حدثنا أحمد بن إبراهيم حدثنا عبد الله بن جعفر الرقي قال حدثنا أبو المليح عن ميمون عن نافع قال كنا مع ابن عمر فسمع صوت زامر فذكر نحوه قال أبو داود وهذا أنكرها
اس سند میں نکارت کہنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نافع سے روایت کرنے والے میمون بن مهران ہے اور میمون سے ابو الملیح نے روایت کیا لیکن ابو الملیح بھی میمون سے روایت کرنے میں منفرد ہے جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے أمام ابو داود نے نکارت کی بات کہی ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابو الملیح کو اس میں وہم ہوا ہو کہ نافع سے سلیمان بن موسی کے بجائے میمون بن مهران نے روایت کیا ہو لیکن اس طریق میں امام ابو داود نے کوئی وجہ نہیں بتائی ہے ـ
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے
الحدیث المنکر عند نقاد الحدیث ص 656 سے ص 660. عبدالرحمن بن نویفح بن فالح السلمی

اس روایت میں سلیمان بن موسی کے متابع موجود یے اور اصولا سلیمان بن موسی کے متابع ہونے کی وجہ سے یہ حدیث تو صحیح معلوم ہوتی ہے ـ

ہم سلیمان بن موسی امام ابو داود کے نزدیک کیا مقام رکھتے ہیں اس پر بات کررہے تھے اس مکمل بحث سے معلوم ہوا کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ بھی سلیمان بن موسی سے مروی احادیث قبول کرنے میں توقف کرتے تھے اگرچہ کہ امام ابو داود نے انہیں ثقہ کہا ہو ـ
واللہ اعلم
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی امام نسائی رحمہ اللہ کی نظر میں :

امام نسائی رحمہ اللہ نے کہا:

احد الفقہاء لیس بالقوی فی الحدیث (الضعفاء والمترکین للنسائی:ص 49)


سلیمان بن موسی یہ فقہا میں سے ہیں اور حدیث میں قوی نہیں ہے ۔
اور کفایت اللہ سنابلی صاحب خود کہتے ہیں لیس بالقوي حفظ پر جرح ہے (ایام قربانی اور آثار صحابہ مع اشکالات کا ازالہ ص 24)

اگرچہ کہ 'لیس بالقوی' کا مطلب یہ نہیں کہ سلیمان بن موسی ضعیف ہے لیکن "لیس بالقوی" سے کامل درجہ کے قوت بھی باقی نہیں رہتی اسی طرح شیخ معلمی بھی کہتے ہیں۔

وكلمة «ليس بالقوي» إنما تنفي الدرجة الكاملة من القوة،
''لیس بالقوی'' کے الفاظ سے کامل درجے کی قوت کی نفی ہوتی ہے۔(التنكيل 1/ 442)

اسی طرح شیخ البانی بھی کہتے ہیں :
وأما الآخر فهو قول أبي حاتم ليس بالقوي: فهذا لا يعني أنه ضعيف لأنه ليس بمعني ليس بقوي، فبين هذا وبين ما قال فرق ظاهر عند أهل العلم

ترجمہ :امام ابوحاتم کے قول ''لیس بالقوی'' کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ضعیف ہے کیونکہ یہ ''لیس بقوی'' کے معنی میں نہیں ہے ۔اور اہل علم کے نزدیک ان دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔(النصيحة بالتحذير من تخريب ابن عبد المنان لكتب الأئمة الرجيحة للشیخ الالبانی ص 183)

اسی طرح مقبل الوادعي سے لیس بالقوی اور لیس بقوی پر سوال کیا گیا تو شیخ جواب دیتے ہیں
"نعم، هناك فرق بين هذه العبارات، فهي تتفاوت، و(ليس بالقوي) أعلى، و(ليس بقويّ) أدنى... والظاهر أن كليهما يصلح في الشواهد والمتابعات، لكن (ليس بالقوي) أرفع..". ۔(المقترح في اجوب المصطلح ص 93)
جی ہاں، ان عبارتوں کے درمیان فرق ہے، ان کے درجے مختلف ہیں، لیس بالقوی اعلی ہے اور لیس بقوی کمتر ہے،........اور ظاہرا متابعت وشواہد میں دونوں درست ہوتے ہیں ، لیکن ( جس کے بارے میں ) لیس بالقوی ( کہا گیا ہے ، اس کا درجہ ) زیادہ بلند ہےـ

ان تمام اقوال سے معلوم ہوا کہ امام نسائی رحمہ اللہ کا قول "لیس بالقوی" توثیق کا کلمہ تو نہیں ہے جس کی وجہ سے سلیمان بن موسی ،امام نسائی کے نزدیک ثقہ کا مرتبہ نہیں رکھتے۔

امام مزی التہذیب الکمال میں امام نسائی کا سلیمان بن موسی پر ایک مزید قول نقل کرتے ہیں
وقال فی موضع آخر فی حديثه شىء (التهذيب الكمال في أسماء الرجال 12/97)
اور دوسری جگہ فرمایا ان کی حدیث میں کچھ (خرابی) ہے۔

اس پر کفایت اللہ صاحب تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام مزی نے وہ دوسری جگہ کا حوالہ نہیں دیا تو عرض ہے کہ کفایت اللہ صاحب خود ان کی کتاب مسنون رکعات تراویح ص 23 میں عیسی بن جاریہ پر امام ابو داود کی جرح "منکر الحدیث" کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام مزی نے ابو داود سے ہی نقل کیا کہ
وقال فی موضع آخر ما اعرفه روى مناكير (التهذيب الكمال 22/589)

دیکہیے جب اپنے مطلب کے راوی کا دفاع کرنا ہو تو ایسے اقوال معتبر ہوں گے لیکن جب کوئی بات اپنے خلاف جارہی ہو تو حضرت کہیں گے سند نہیں، کتاب کا حوالہ نہیں وغیرہ

اسی طرح مسنون رکعات تراویح ص 72 پر امام مزی کی یزید بن خصیفہ پر نقل کردہ جرح لکھتے ہیں۔
وَقَال أبو عُبَيد الآجري ، عَن أبي داود :قال أحمد : منكر الحديث[تهذيب الكمال للمزي: 32/ 173 ]
سوالات آجری مطبوع ہے اور اس کے تین محققین سے تین نسخہ پرنٹیڈ ہے اور تینوں میں ابو داود رحمہ اللہ کا یزید بن خصیفہ پر یہ قول نہیں ملتا کہ امام احمد نے یزید بن خصیفہ کو منکر الحدیث کہا ہو لیکن حافظ مزی نے یہ قول بالجزم نقل کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قول کی کوئی حقیقت ہےـ ہوسکتا ہے یہ قول کسی معتبر ذرائع سے ان کے پاس موجود تھا یا کوئی ایسی کتاب حافظ مزی کے پاس موجود تھی جو آج موجود نہیں جس کی طرف رجوع کیا جاسکے ـ

یزید بن خصیفۃ پر امام احمد سے تین قول مروی ہے جو ان کے بیٹے اور ابو بکر الاثرم سے اور ابو عبید آجری کا ابو داود سے سوال ہےـ

تہذیب الکمال میں یزید بن خصیفۃ کے ترجمہ کے حاشیہ میں بشار عواد نے امام احمد سے منکر الحدیث کے تعلق سے لکھا ہے
هذا شي لم يثبت عن أحمد فيما أرى ، والله اعلم ، فقد تقدم قول الأثرم عنه، وفي العلل لابنه عبدالله ، أنه قال : ما أعلم إلا خيرا (2/35) وهو توثيق واضح
بشار عواد کہتے ہیں میرا خیال ہے امام احمد سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ـ اس لئے کہ ان کے بارے میں امام اثرم کا قول گزر چکا اور العلل میں امام احمد کے بیٹے سے مروی ہے کہ امام احمد نے کہا میں ان میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتا جو واضح توثیق ہے ـ

اسی طرح وصی اللہ عباس نے بھی بحر الدم لابن عبدالھادی کے ص 133 کے حاشیہ میں یزید بن خصیفۃ پر امام احمد سے منکر الحدیث کے علاوہ ابو بکر الاثرم کا امام احمد سے تاکید کے ساتھ ثقہ والا قول نقل کیا اور امام احمد کے بیٹے کا ان سے ما أعلم إلا خیرا بھی نقل کیاـ

کفایت اللہ سنابلی صاحب خود کہتے ہیں کہ "ثقہ أوثق یا اکثر کے خلاف روایت کرے تو أوثق یا اکثر کی بات ہی لی جائیگی اور ثقہ کے تفرد کو رد کردیا جائے گا" (یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ ص 667)


کفایت اللہ صاحب کے پاس جب اپنے مطلب کی بات آتی ہے تو انہیں کوئی سند کی ضرورت نہیں کوئی دوسری کتاب کا حوالہ کی ضرورت نہیں ،فلاں محدث کی خود کی کتاب میں ہے یا نہیں اس کی بھی ضرورت نہیں اور جب اپنے خلاف بات جاتی ہے تو انہیں کتاب،سند وغیرہ سب درکار ہوتے ہیں اور اپنے اصول پر بھی قائم نہیں رہتے ـ

اس رویہ کو اب کیا کہا جائے ۔۔؟؟؟

امام نسائی کے دونوں قول کے مطابق سلیمان بن موسی کی حدیث میں کچھ خرابی ہے تبھی تو امام نسائی کے نزدیک وہ قوی نہیں ہے جیسا کہ امام نسائی نے اپنی کتاب الضعفاء والمتروکین میں کہا۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
کیا سلیمان بن موسی صحیح مسلم کے راوی ہے؟؟

امام مسلم نے سلیمان بن موسی سے مقدمہ میں روایات لیے ہیں اسی لیے محدثین نے مقدمہ کا راوی بتلایا اور رجال مسلم کے مصنفین نے مسلم کے رجال میں ان کا شمار نہیں کیا ـ

1-ابن منجویہ (المتوفی 428ھ) جنہوں نے رجال مسلم پر کتاب لکھی جس میں انہوں نے سلیمان بن موسی کا ذکر نہیں کیا ـ

2-حافظ مزی کہتے ہیں
روی له مسلم في "مقدمة" كتابه والاربعة (تهذيب الكمال في أسماء الرجال(12/97)
امام مسلم نے مقدمہ میں ان سے روایت لیا ہے اور چاروں)ترمذی، ابو داود، ابن ماجہ، نسائی رحمہم اللہ( نے روایات لیے ہیں ـ

مزید امام مزی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں

ولم یذکر أبو بكر بن منجويه سليمان بن موسى هذا في رجال مسلم ولا غيره من المصنفين في رجال مسلم، ولا نعلم له في الصحيح ذكرا الا ماذكر له مسلم في مقدمة كتابه (تحفة الأشراف 6/97)

ترجمہ :سلیمان بن موسی کو ابن منجویہ نے رجال مسلم میں ذکر نہیں کرتے اور نہ ان کے علاوہ مصنفین ذکر کرتے اور نہ ہم کچھ جانتے میں صحیح میں سوائے امام مسلم نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ان سے جو ذکر کیا ـ

بقول حافظ مزی جس جس نے رجال مسلم پر کتاب لکھی انہوں نے سلیمان بن موسی کو مسلم کے رجال میں ذکر نہیں کیا ـ

3-امام ذھبی
وله شيء في "مقدمة مسلم"(سير أعلام النبلاء 6/154)
ان سے مسلم نے مقدمہ میں کچھ ہے ـ

4- حافظ ابن حجر "مق" نشان سے بتلاتے ہیں کہ یہ مسلم کے مقدمہ کا راوی ہے ـ(لسان المیزان رقم 1070)

شیخ البانی بھی حديث" کل فجاج مکة طريق و منحر" کے تحت لکھتے ہیں

فإن رجاله ثقات رجال مسلم غيرسليمان بن موسى (سلسلة الأحاديث الصحيحة 5/598)
اس کے رجال ثقہ ہیں مسلم کے رجال ہیں سوائے سلیمان بن موسی کے ـ

ان اقوال سے یہ تو معلوم ہوا کہ محدثین مقدمہ اور صحیح کے رجال میں فرق کرتے تھے اور وہ اسلیے کرتے تھے کہ مقدمہ کہ کچھ راوی انہیں امام مسلم کے شرط پر معلوم نہیں ہوتے تھے جیسے

1-یحی بن فلاں
حافظ ابن حجر کہتے ہیں
يحيى ابن فلان عن محمد ابن كعب مجهول له ذكر في مقدمة مسلم من السادسة مق (تقریب التہذیب رقم 7625)
یحی بن فلاں نے محمد بن کعب سے روایت کیا چھٹہ طبقہ کا مجھول راوی ہے مسلم کے مقدمہ میں ذکر آتا ہے ـ

2- یحی بن المتوكل

يحيى ابن المتوكل المدني أبو عقيل بالفتح صاحب بهية بالموحدة مصغر ضعيف من الثامنة مات سنة سبع وستين مق د (تقریب التہذیب رقم 7633)
یحی بن متوکل المدنی ابو عقیل بھیہ کا ساتھی
آٹھویں طبقہ کا ضعیف راوی ہے 67ھ میں انتقال ہوا ـ

یہ مقدمہ مسلم کے رجال امام مسلم کے شرائط پر نہیں اترتے جسکا لحاظ امام مسلم نے اپنی صحیح میں رکھا ہے اسلیے محدثین اور رجال مسلم کے مولفین نے مقدمہ کے رواۃ کو مسلم کے رجال میں شمار نہیں کیا بلکہ ان کو "مق" سے مقدمہ مسلم کا راوی بتلایا ـ

سلیمان بن موسی سے صحیح مسلم میں ان کی روایت نہ ہونے کی بنا پر صحیح کے رجال میں ان کا شمار نہیں کیا جائیگا ـ
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
ابن الجوزی رحمہ اللہ اور سلیمان بن موسی کی توثیق :

ویمکن أن یقال سلیمان ثقة (التحقيق في مسائل الخلاف 1/144)

اور یہ کہنا ممکن ہے کہ سلیمان ٹقہ ہے ـ

ابن الجوزی رحمہ اللہ کا یہ قول سلیمان بن موسی کی امام زہری سے مروی روایت کے تحت ہے اور ابن معین رحمہ اللہ نے کہا ہے جو ہم نے ما قبل دیکھا ہے کہ سلیمان بن موسی، زھری سے روایت کرنے میں ثقہ ہے
قلت له ما حال سليمان بن موسى في الزهري فقال ثقة ( تاریخ ابن معین بروایۃ الدارمی 1/46)

ممکن ہے ابن الجوزی رحمہ اللہ نے زھری سے روایت کرنے میں ثقہ کے قول کا اطلاق سلیمان بن موسی کی مطلق توثیق پر کیا ہوـ
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
حافظ ابن عبدالبر المالکی رحمہ اللہ اور سلیمان بن موسی کی توثیق :

ولو ثبت هذا عن الزهري لم يكن في ذلك حجة لِأَنَّهُ قَدْ نَقَلَهُ عَنْهُ ثِقَاتٌ مِنْهُمْ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى وَهُوَ فَقِيهٌ ثِقَةٌ إِمَامٌ و جعفر بن بن ربيعة والحجاج بن ارطاة ( التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 19/86)

"اگرچہ امام زھری سے یہ ثابت ہے اور اس طرح کی بات کوئی حجت نہیں ہوسکتی کیونکہ اس حدیث کو ان(امام زھری) سے ثقہ رواۃ نے نقل کیا جن میں سلیمان بن موسی جو فقیہ ثقہ امام ہیں اور جعفر بن ربیعہ اور حجاج بن ارطاۃ ہیں "

ابن عبدالبر رحمہ اللہ، ابن علیہ کے قول کا رد کرتے ہوئے کہے رہے ہیں کہ ابن علیہ نے جو کہا وہ بات أن کے علاوہ ایک جماعت ذکر نہیں کرتی اس کے بعد ابن عبدالبر نے زھری سے روایت کے تحت سلیمان بن موسی کو ثقہ کہا یہاں بھی ممکن ہے انہوں نے زھری سے روایت میں توثیق کی ہو کیونکہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ خود دوسری جگہ جس میں سلیمان بن موسی، امام زھری سے روایت نہیں کرتے اس میں ان کی توثیق نہیں کرتے اور کہتے ہیں

وَسُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى وَإِنْ كَانَ أَحَدُ أَئِمَّةِ أَهْلِ الشَّامِ فِي الْعِلْمِ فَهُوَ عِنْدَهُمْ سَيِّئُ الْحِفْظِ (الاستذكار 5/246)

"سلیمان بن موسی اگرچہ اہل شام کے اہل علم میں سے ایک تھے لیکن یہ محدثین کی نظر میں سی الحفظ ہیں ـ"

ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سلیمان بن موسی کو امام زھری کی جس روایت کے تحت ثقہ کہا ہے اس حدیث کو امام زھری سے حجاج بن ارطاۃ نے بھی روایت کیا ہے اور خود ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے حجاج بن ارطاۃ کو دوسری جگہ ضعیف عندهم ليس بحجة کہا (التمہید 15/225) ممکن ہے اس حدیث کو جس میں سلیمان بن موسی کے علاوہ حجاج بن ارطاۃ اور جعفر بن ربیعہ نے بھی روایت کیا ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسی روایت میں توثیق کی ہو کیونکہ جو الزام ابن علية نے ابن جریج عن الزہری کی سند سے سلیمان بن موسی پر لگایا تھا اس کا رد کیا ہو جو اس طرح ہے

رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ بن جُرَيْجٍ جَمَاعَةٌ لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عِلَّةً

وَرَوَاهُ بن عيينة عن بن جريج بإسناده (مثله) وزاد قال بن جُرَيْجٍ فَسَأَلْتُ عَنْهُ الزُّهْرِيَّ فَلَمْ يَعْرِفْهُ وَلَمْ ير واحد هذا الكلام عن بن جريج في هذا الحديث غير بن عُلَيَّةَ فَتَعَلَّقَ بِهِ مَنْ أَجَازَ النِّكَاحَ بِغَيْرِ وَلِيٍّ وَقَالَ هُوَ حَدِيثٌ وَاهٍ إِذْ قَدْ أَنْكَرَهُ الزُّهْرِيُّ الَّذِي عَنْهُ رُوِيَ وَطَعَنُوا بِذَلِكَ عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى فِي حِفْظِهِ قَالُوا لَمْ يُتَابِعْهُ عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنَ الْحُفَّاظِ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ وَقَالَ بِهِ مَنْ لَمْ يُجِزِ النِّكَاحَ إِلَّا بِإِذْنِ وَلِيٍّ

وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لِأَنَّهُ نَقَلَهُ عَنِ الزُّهْرِيِّ ثِقَاتٌ

قَالُوا وَسُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى إِمَامُ أَهْلِ الشَّامِ وَفَقِيهُهُمْ عَنِ الزُّهْرِيِّ

وَقَدْ رَوَاهُ عَنِ الزُّهْرِيِّ كَمَا رَوَاهُ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَلَا يَضُرُّ إِنْكَارُ الزُّهْرِيِّ لَهُ لِأَنَّهُ مَنْ نَسِيَ شَيْئًا بَعْدَ أَنْ حَفِظَهُ لَمْ يَضُرَّ ذَلِكَ مَنْ حَفِظَهُ عَنْهُ( الاستذكار، ٣٩٢/٥)


ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اس حدیث کو ایک جماعت نے ابن جریج سے روایت کرکے اس میں کسی علت کی نشاندہی نہیں کی
اور ابن عیینہ نے اس کو ابن جریج سے اپنی سند سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں یہ زیادتی بیان کی ہے کہ :

ابن جریج نے کہا : کہ پس میں نے زہری سے اس (حدیث ) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس کو نہیں پہچانا اور اس حدیث میں یہ ابن جریج سے یہ کلام کسی نے بھی نقل نہیں کیا سوائے ابن علیہ کے ۔ پس اسی کو ان لوگوں نے دلیل بنایا جو بغیر ولی کے نکاح کو جائز مانتے ہیں اور کہنے لگے کہ یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ زہری جن سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے انہی نے خود اس حدیث کا انکار کیا اور اسی بنا پر سلیمان بن موسی پر اس کے حافظے کے تعلق سے طعن کرنے لگے اور کہا کہ : اصحاب زہری میں سے جو حفاظ ہیں ان میں سے کسی نے بھی ان کی اس حدیث میں متابعت نہیں کی اور جو لوگ نکاح کے جواز کے لیے ولی کا شرط مانتے ہیں انہوں نے اس حدیث کو مانا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ زہری سے اس کو ثقات نے نقل کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ:
سلیمان بن موسی زہری سے روایت کرنے میں اہل شام کے امام اور فقیہ ہیں ۔
اور زہری سے اس روایت کو سلیمان بن موسی کی طرح جعفر بن ربیعہ اور حجاج بن ارطاة نے بھی روایت کیا ہے اور امام زہری کا اس کا انکار کرنا اس کو ضرر نہیں دیتا کیونکہ جو شخص کوئی چیز یاد کرنے کے بعد بھول جائے تو یہ اس شخص کے لئے ضرر ناک نہیں جس نے اس سے وہ بات یاد کرلی ہو ـ"

اس خلاصہ سے یہ سمجھ آرہا ہے کہ انہوں نے ابن علیہ کی سند سے مروی روایت کا رد کیا ہے اور سلیمان بن موسی کی متابعات ہونے کی وجہ سے سلیمان بن موسی پر کی گئی طعن کا بھی رد کیا ہے اسی لیے ممکن ہے سلیمان بن موسی کی توثیق کا اطلاق ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسی امام زھری رحمہ اللہ کی روایت میں کیا ہو باقی مرویات میں نہیں جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھاـ

شیح ابو الحسن السلیمانی جو کہ شیخ البانی اور شیخ مقبل کے مشہور شاگرد ہے سلیمان بن موسی کے تعلق سے کہتے ہیں
ممن أطلق فيه التوثيق، ویمکن حمل إطلاق توثيقه على روايته عن الزهري ومكحول، لقول ابن معين وغيره
"جنہوں نے مطلق سلیمان بن موسی کی توثیق کی ممکن ہے امام زھری اور مکحول کی روایت میں توثیق جو ابن معین وغیرہ کے قول کے مطابق ہے وہاں سے لیا ہوـ"
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
امام دار قطنی اور سلیمان بن موسی کی توثیق :

الدارقطنی: من الثقات الحفاظ (کتاب العلل 5/110 موسوعۃ اقوال الدارقطنی ۳۰۳/۱)

امام دار قطنی رحمہ اللہ نے کہا سلیمان بن موسی ثقہ حفاظ میں سے ہیں ـ

امام دارقطنی نے سلیمان بن موسی سے مروی حدیث اپنی کتاب الأفراد میں ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں ـ

حدثنا عبد الله بن سليمان بن الأشعث، ثنا الحسين بن علي بن مهران، ثنا عصام بن يوسف، ثنا عبد الله بن المبارك، عن ابن جريج، عن سليمان بن موسى، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «المضمضة والاستنشاق في الوضوء الذي لا بد منه» .هذا حديث غريب من حديث الزهري، عن عروة، عن عائشة.

اس کے بعد امام دارقطنی اس حدیث کو غریب کہنے کی وجہ بتلاتے ہیں "تفرد به سليمان بن موسى الدمشقي عنه، ولم يروه عنه غير ابن جريج، وهو غريب من حديث عبد الله بن المبارك، عن ابن جريج، تفرد به عصام بن يوسف عنه"

اس حدیث کو امام زھری سے روایت کرنے میں سلیمان بن موسی الدمشقی منفرد ہے اور ان سے ابن جریج کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا، اور وہ حدیث عبداللہ بن مبارک کے احادیث میں سے غریب ہیں جو انہوں نے ابن جریج سے روایت کیا اور اس کی وجہ امام دارقطنی بتلاتے ہیں کی عصام بن یوسف، ابن المبارک سے روایت کرنے میں منفرد ہے ـ

المضمضۃ والاستنشاق والی روایت کو حسن غریب کہنے کی وجوہات میں امام دارقطنی نے سلیمان بن موسی کے تفرد کو بھی واضح کیا ـ
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
ابن رجب رحمہ اللہ اور سلیمان بن موسی:

ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا :
(سليمان) بن موسى الدمشقي، الفقيه، يروي الأحاديث بألفاظ مستغربة.(شرح علل الترمذي 2/834(
سلیمان بن موسی فقیہ ہیں عجیب الفاظ سے احادیث روایت کرتے ہیں ـ
ابن المدینی رحمہ اللہ نے امام نافع سے روایت کرنے کی بنیاد پر ان کے اصحاب کے طبقات بنائے ہیں جس میں سلیمان بن موسی کو تیسرے طبقہ میں اور موسی بن عقبہ، لیث بن سعد ضحاک بن عثمان وغیرہ کو سلیمان بن موسی کے بعد کے طبقات میں ذکر کیا تو ابن رجب رحمہ اللہ، ابن المدینی رحمہ اللہ کے بنائے ہوئے طبقات کو نقل کرنے کے بعد کہا
وقد خولف في بعض هذا الترتيب، فمن ذلك وتقديم سليمان بن موسى على موسى بن عقبة، والليث والضحاك بن عثمان، ومالك بن مغول، وجويريه، ويونس. (شرح علل الترمذي 2/618)
"اس ترتیب میں ابن المدینی رح سے کچھ اختلاف کیا گیا اور اس میں موسی بن عقبہ، لیث بن سعد اور ضحاک بن عثمان اور مالک بن مغول اور جویریہ اور یونس پر سلیمان بن موسی کو مقدم کیا ـ"

اس کے بعد کہتے ہیں :
وحديث جويرية والليث بن سعد عن نافع مخرج في الصحيحين، وسليمان بن موسى قد تكلم فيه غير واحد، ولم يخرجا له شيئاً.(شرح علل الترمذي 2/618)
" اور جویریہ اور اللیث بن سعد کی نافع سے روایت صحیحین میں لی گئی ہے سلیمان بن موسی پر تو ایک سے زائد لوگوں نے کلام کیا ہے اور صحیحین میں ان سے کچھ بھی نہیں لیا گیا ـ"
ابن رجب رحمہ اللہ کہے رہے ہیں کہ سلیمان بن موسی کی امام نافع سے کیا کسی اور سے بھی کوئی روایت صحیحین میں نہیں لی گئ ـ
اسی طرح ابن رجب رحمہ اللہ، امام نسائی رحمہ اللہ نے امام نافع کے جو طبقات بنائے ہیں اس کو بھی نقل کیا جس میں امام نسائی رحمہ اللہ نے سلیمان بن موسی کو چھٹے طبقہ میں شمار کیا ہے دیکھیے (شرح علل الترمذي 2/619)
ابن رجب اور ایک مقام پر کہتے ہیں
وسليمان بن موسى، مختلف فيه.(فتح الباري لابن رجب 7/189)
سلیمان بن موسی مختلف فیہ راوی ہےـ
وسليمان مختلف في توثيقه.(فتح الباري لابن رجب 9/151)
سلیمان بن موسی کی توثیق میں اختلاف ہے ـ
وسليمان بن موسى، مختلفٌ في أمره.(فتح الباري لابن رجب 7/449)


شیخ ابو الحسن السلیمانی کہتے ہیں کہ اس طرح کی عبارات شواھد اور متابعات والے راوی کے لیے ہوتے ہیں
ملاحضہ کریں
وقد ذهب إلى ما قررته العراقي وغيره من الذين ذكروا ألفاظ الجرح والتعديل، فقد ذكروا لفظة: «فيه اختلاف»، و«فيه خلف»، و«مختلف فيه»، من عبارات الشواهد والمتابعة (اتحاف النبیل 1/233)
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
سلیمان بن موسی امام ابو داود رحمہ اللہ کی نظر میں :

لا بأس بہ، ثقۃ (سؤالات الآجري 5/18)


امام ابو داود کہتے ہیں سلیمان بن موسی میں کوئی حرج نہیں ثقہ ہے ـ

امام ابو داود کے نزدیک سلیمان بن موسی اگرچہ ثقہ ہے لیکن پہر بھی ان سے مروی ایک حدیث کو منکر کہا ـ دیکھیے
حدثنا أحمد بن عبيد الله الغداني حدثنا الوليد بن مسلمحدثنا سعيد بن عبد العزيز عن سليمان بن موسى عن نافع قال سمع ابن عمر مزمارا قال فوضع إصبعيه على أذنيه ونأى عن الطريق وقال لي يا نافع هل تسمع شيئا قال فقلت لا قال فرفع إصبعيه من أذنيه وقال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم فسمع مثل هذا فصنع مثل هذا قال أبو علي اللؤلؤي سمعت أبا داود يقول هذا حديث منكر
(سنن ابو داود حدیث 4924 )


اس حدیث پر نکارت کا حکم لگانے کے احتمالات :
1-اس حدیث کے دیگر طرق اور رجال کو دیکھنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے امام ابو داود اس حدیث کو نافع سے سلیمان بن موسی کے علاوہ نہیں جانتے تھے جو امام نافع کے محفوظ احادیث ان کے ثقہ تلامذہ کے پاس تھے اور نہ ان کے شہر یعنی مدینہ کے کسی تلامذہ سے جانتے تھے ـ

2- سلیمان بن موسی نافع کے تلامذہ میں طبقہ اولی میں شمار نہیں کیے جاتے، دوسرے طبقہ میں بھی نہیں بلکہ آپ کا مقام طبقہ ثلاثہ میں ہوتا ہے ـ
ذكره بن المديني في الطبقة الثالثة من أصحاب نافع (تهذيب التهذيب 4/227)
ترجمہ : حافظ ابن حجر کہتے ہیں ابن المدینی نے سلیمان بن موسی کا أصحاب نافع میں تیسرے طبقہ میں تذکرہ کیا ہے ـ

اس حدیث کے دوسرے طرق دیکھتے ہیں جو امام ابو داود رحمہ اللہ نے خود اس حدیث کے بعد لائے ہیں

حدثنا محمود بن خالد حدثنا أبي حدثنا مطعم بن المقدام قال حدثنا نافع قال كنت ردف ابن عمر إذ مر براع يزمر فذكر نحوه قال أبو داود أدخل بين مطعم ونافع سليمان بن موسى
اس میں تو خود امام ابو داود نے کہا کہ مطعم اور نافع کے درمیان سلیمان بن موسی کو داخل کیا گیا ـ
حدثنا أحمد بن إبراهيم حدثنا عبد الله بن جعفر الرقي قال حدثنا أبو المليح عن ميمون عن نافع قال كنا مع ابن عمر فسمع صوت زامر فذكر نحوه قال أبو داود وهذا أنكرها
اس سند میں نکارت کہنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نافع سے روایت کرنے والے میمون بن مهران ہے اور میمون سے ابو الملیح نے روایت کیا لیکن ابو الملیح بھی میمون سے روایت کرنے میں منفرد ہے جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے أمام ابو داود نے نکارت کی بات کہی ہو یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابو الملیح کو اس میں وہم ہوا ہو کہ نافع سے سلیمان بن موسی کے بجائے میمون بن مهران نے روایت کیا ہو لیکن اس طریق میں امام ابو داود نے کوئی وجہ نہیں بتائی ہے ـ
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے
الحدیث المنکر عند نقاد الحدیث ص 656 سے ص 660. عبدالرحمن بن نویفح بن فالح السلمی

اس روایت میں سلیمان بن موسی کے متابع موجود یے اور اصولا سلیمان بن موسی کے متابع ہونے کی وجہ سے یہ حدیث تو صحیح معلوم ہوتی ہے ـ

ہم سلیمان بن موسی امام ابو داود کے نزدیک کیا مقام رکھتے ہیں اس پر بات کررہے تھے اس مکمل بحث سے معلوم ہوا کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ بھی سلیمان بن موسی سے مروی احادیث قبول کرنے میں توقف کرتے تھے اگرچہ کہ امام ابو داود نے انہیں ثقہ کہا ہو ـ
واللہ اعلم
امام ابو داود رحمہ اللہ کی توثیق کا قول ہم نے پہلے دیکھا نہیں بعد میں دیکھنے کے بعد معلوم ہوا اسے بشار عواد نے تہذیب الکمال کے حاشیہ میں لکھا ہے لیکن سوالات ابو عبید الآجري کے ابھی تک جتنے نسخہ موجود ہے ان میں یہ قول موجود نہیں ہے اور محدثین میں سے بھی کسی نے اس قول کا ذکر نہیں کیا نہ ہی حافظ مغلطائی الحنفي، نہ ہی ابن حجر الشافعي اور نہ ہی امام ذھبی اور نہ ان کے شیخ حافظ مزی رحمھم اللہ نے امام ابو داود سے سلیمان بن موسی کی توثیق نقل کی ـ رہا سوال بشار عواد کا سوالات ابو عبید کے کسی نسخہ سے سلیمان بن موسی کی امام ابو داود سے توثیق کا تو اس قول کو تب ہی قبول کیا جائیگا جب وہ نسخہ منظر عام پر آئے اور اس میں امام ابو داود کی یہ توثیق موجود ہوـ
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
پیارے بھائی کاش آپ ان کو بھی ڈانٹتے جنہوں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔
فقہ حنفی پر فقہی تنقید کو خوشدلی سے قبول کرتے ہیں لیکن کسی معزز شخصیت کی تذلیل جس طرح آپ پسند نہیں کرتے اسی طرح دوسرے بھی پسند نہیں کرتے۔
آئینہ دکھایا ہے تو برا کیوں مان رہے ہو ؟ اگر اتنا ہی شوق ہے دفاع کرنے کا امام ابوحنیفہ کا تو رد کرو ان دلائل کو جہاں سب صحیح اسانید سے ثابت ہے !
ریٹنگ میں خالص سرخ رنگ پر مشتمل صرف دو ہی ریٹنگ ہیں اور سرخ رنگ لگتا ہے ان کا فیرٹ رنگ ہے۔ ابتسامہ
ایسے ہی فیورٹ کلر کی ریٹنگ شاید آپ کے جاننے والے بھی دے چکے ہیں اس فورم پر :) اور مزے کی بات ہے دونوں سرخ رنگ ہی تھے ریٹنگ کے :)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عدیل سلفی بھائی کا مراسلہ غلط تھریڈ میں آگیا ہے!
اسے اور میرے اس مراسلہ کو متعلقہ تھرید میں منتقل کر دیں!
 
Top