• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (قراءت)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
محترم صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے میری دلیل کا اقتباس لیں پھر اس کا رد لکھیں تاکہ عام قاری کو بھی سمجھ آسکے اور ساتھ مفہوم بھ لکھتے جائیں۔ جب آپ میرے تمام دلائل کا جواب دے چکں گے تب میں ان کی قلعی کھولوں گا۔ انشاء اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
الإمام مسلم (261هـ):
قال مسلم بعد روايته لهذا الحديث :" وفي حديث جريرعن سليمان التيمي، عن قتادة من الزيادة "واذا قرأ فأنصتوا " وليس في حديث أحد منهم
امام مسلم رح کی مکمل عبارت کیا ہے اس موقع پر؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,133
پوائنٹ
412
میں نہ مانوں کا علاج تو کسی کے پاس نہیں ہوتا مگر قارئین کرام کے افادہ کے لئے میں مقتدی کے لئے اللہتعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیئے گئے احکامات پھر سے پیش کر دیتا ہوں؛

قراءت کے بارے مقتدی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم

مقتدى کو امام كى اقتداء میں قراءت كى ممانعت ہے
فرمان بارى تعالى جل شانہ ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم كيا جائے(سورة الاعراف)۔
آیت میں یہ حکم مقتدی کو نماز میں کی جانے والی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا ہے۔ قرآنِ پاک کی آیت میں ہے کہ
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ (جب قرآن پڑھا جائے) یہ الفاظ متقاضی ہیں کسی شخص کے بلند آواز سے قراءت کرنے کے۔نماز میں صرف امام بلند آواز سے قراءت کرتا ہے۔ آیت میںفَاسْتَمِعُوا لَهُ (پس اس کو توجہ سے سنو)کا حکم متقاضی ہے کسی کے توجہ کے ساتھ سننے کے۔ نماز میں سننے پر مقتدی مأمور ہوتا ہے اور یہ حکم اس کو ہؤا۔ پھر ارشادِ باری تعالیٰ وَأَنْصِتُوا (اور خاموش رہو) صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم بھی مقتدی ہی کو ہےتاکہ توجہ سے سننے کی تعمیل باحسن و خوبی ہوسکے۔

اوپر درج آیت کی تائید باری تعالیٰ کے اس حکمِ سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نزول قرآن کے وقت جبرائیل امین کے ساتھ آقا علیہ السلام پڑھنا شروع کر دیتے جس سے آپ کو منع کر دیا گیا اور خاموش رہ کر سننے کا حکم دیا گیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآَنَهُ(سورۃ القیامۃ آیت نمبر 18)۔

فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم

صحيح البخاري - (ج 1 / ص 6)
قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنْ التَّنْزِيلِ شِدَّةً وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَنَا أُحَرِّكُهُمَا لَكُمْ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهُمَا وَقَالَ سَعِيدٌ أَنَا أُحَرِّكُهُمَا كَمَا رَأَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَرِّكُهُمَا فَحَرَّكَ شَفَتَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى
{ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ }

مقتدى کو قراءت کے وقت خاموش رہنے کا حکم ہے
صحيح مسلم میں ہے کہ جب امام قراءت كرے تو خاموش رہو(صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب التَّشَهُّدِ فِي الصَّلَاةِ) ۔
صحيح مسلم ہی میں ہے کہ زيد رضى الله تعالى عنہ سے امام كى اقتدا میں مقتدی كى قراءت كا پوچھا گیا تو جواب دیا كہ امام كى اقتدا میں مقتدى پر قراءت میں سے کچھ بھی واجب نہیں(صحيح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ

ابو ہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو جب کہے
سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ(سنن النسائی کتاب الافتتاح بَاب تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ)۔

ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا امام جب امامت کرے اور تكبير کہے تو تكبير کہو اور جب قراءت كرے خاموش رہو اور جب کہے
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ تو کہو آمین اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور جب کہے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہو اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ اور جب سجدہ کرے تو سجدہ کرو اور جب بیٹھ کر نماز پڑھے تو سب بیٹھ کر نماز پڑھو(‡ سنن ابن ماجه کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا باب اذا قرا الامام فانصتوا
توضیح: اس حدیث میں آقا علیہ السلام نے مقتدی کے تمام افعال بڑی تفصیل سے ارشاد فرمائے۔ اس میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا۔

ابو موسى اشعرى رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب امام قراءت كرے تو خاموش رہو اور قعده كرو تو سب سے پہلے تشہد پڑھو(سنن ابن ماجه كتاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا باب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا

ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ سوا اس کے نہیں کہ مقرر كيا گیا ہے امام تاكہ اس كى اقتدا كى جائے۔ جب تکبیر کہے تو تکبیر کہو اور جب قراءت كرے تو خاموش رہو(
مسند أحمد بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
تفہیم: اوپر درج تمام احادیث اس کی متقاضی ہیں کہ قراءتِ امام کے وقت مقتدی خاموشی کے ساتھ امام کی قراءت سنے۔

سورۃ فاتحہ بهى قراءت ہے
سورۃ فاتحہ بهى قراءت ہے اور قراءت کے احکام میں شامل ہے اس کی دلیل درج ذیل احادیث ہیں۔

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نماز میں قراءت (الحمد لله رب العلمين) سے شروع کرتے (صحيح مسلم کتاب الصلاۃ بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ

ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب دوسرى ركعت كو کھڑے ہوتے تو قراءت (
الحمد لله رب العلمين) سے شروع کرتے(صحيح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلاةِ بَاب مَا يُقَالُ بَيْنَ تَكْبِيرَةِ الإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ

انس رضى الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول الله صلى الله عليہ وسلم٬ ابوبكر رضى الله عنہ٬ عمر
رضى الله عنہ اور عثمان رضى الله عنہ قراءت الحمد لله رب العلمين سے شروع کرتے تھے(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ بَاب مَنْ لَمْ يَرَ الْجَهْرَ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

امام کی قراءت مقتدی کے لئے کافی ہے
ابو درداء رضى الله تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے پوچھا گیا كيا ہر نماز میں قراءت ہے؟ رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا كہ ہاں! ايك انصارى نے كہا کہ واجب ہوئی۔ ايک شخص جو رسول صلى الله عليہ وسلم سے قريب تها متوجہ ہؤا کہا جب تمهارى قوم سے تمهارا كوئى امام ہو تو اس كى قراءت تمہیں كافى ہے(سنن النسائي کتاب الافتتاح باب اكْتِفَاءُ الْمَأْمُومِ بِقِرَاءَةِ الإِمَامِ

جابر رضى الله تعالى عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ مقتدی کو امام كى قراءت كافى ہے(
سنن ابن ماجه كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا

عبدالله ابن عمر رضى الله تعالى عنہ سے پوچھا گیا كيا امام كى اقتدا میں مقتدى قراءت كرے؟ انہوں نے كہا تم میں سے جب كوئى امام كى اقتداء میں نماز پڑھے تو اس كو امام كى قراءت كافى ہے
جب اكيلا پڑھے تو قراءت كرے(موطأ مالك كِتَاب النِّداءِ لِلصّلاةِ بَاب تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا جَهَرَ فِيه
رکوع میں ملنے سے رکعت مل جاتی ہے
ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا جس نے (امام کے ساتھ) ركعت (یعنی ركوع) پا لیا اس نے نماز (كى ركعت) پالی(صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ بَاب مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصَّلَاةِ رَكْعَةً

ابوہريرة رضى الله تعالیٰ عنہ سے روايت ہے فرماتے ہیں رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز كى ركعت پالى(
سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ
اب آپ پر لازم ہے کہ ہر ہر قرآنی آیت اور ہر ہر حدیث کا جواب اپنے منہج کے مطابق بغیر تقلید (یعنی دلیل کے ساتھ) دیں۔
یاد رہے کہ دلیل میں صرف قرآن پیش کیجئے گا یا احادیث (جو آپ کے اصول کے مطابق صحیح صریح غیر مجروح اور مرفوع ہوں)۔ عام قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش نہ ہو۔ شکریہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.
محترم جناب بھٹی صاحب!
آپ سے مؤدبانہ التماس ہیکہ براہ کرم آپ ان تمام روایات کو مع متن لکھیں.
امید ہے کہ میرے یہ گزارش قبول کریں گے.
جزاک اللہ خیرا
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
محترم صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے میری دلیل کا اقتباس لیں پھر اس کا رد لکھیں تاکہ عام قاری کو بھی سمجھ آسکے اور ساتھ مفہوم بھ لکھتے جائیں۔ جب آپ میرے تمام دلائل کا جواب دے چکں گے تب میں ان کی قلعی کھولوں گا۔ انشاء اللہ
قیامت کی صبح تک کا وقت ہے آپکے پاس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
امام مسلم رح کی مکمل عبارت کیا ہے اس موقع پر؟

حدثنا سعيد بن منصور، وقتيبة بن سعيد، وأبو كامل الجحدري، ومحمد بن عبد الملك الأموي، - واللفظ لأبي كامل -، قالوا: حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله الرقاشي، قال: صليت مع أبي موسى الأشعري صلاة فلما كان عند القعدة قال رجل من القوم: أقرت الصلاة بالبر والزكاة؟ قال فلما قضى أبو موسى الصلاة وسلم انصرف فقال: أيكم القائل كلمة كذا وكذا؟ قال: فأرم القوم، ثم قال: أيكم القائل كلمة كذا وكذا؟ فأرم القوم، فقال: لعلك يا حطان قلتها؟ قال: ما قلتها، ولقد رهبت أن تبكعني بها فقال رجل من القوم: أنا قلتها، ولم أرد بها إلا الخير فقال أبو موسى: أما تعلمون كيف تقولون في صلاتكم؟ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبنا فبين لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا. فقال: " إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم، فإذا كبر فكبروا، وإذ قال {غير المغضوب عليهم ولا الضالين} [الفاتحة: 7]، فقولوا: آمين، يجبكم الله فإذا كبر وركع فكبروا واركعوا، فإن الإمام يركع قبلكم، ويرفع قبلكم "، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فتلك بتلك وإذا قال: سمع الله لمن حمده. فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد يسمع الله لكم، فإن الله تبارك وتعالى، قال على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم: سمع الله لمن حمده وإذا كبر وسجد فكبروا واسجدوا فإن الإمام يسجد قبلكم ويرفع قبلكم " فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فتلك بتلك، وإذا كان عند القعدة فليكن من أول قول أحدكم: التحيات الطيبات الصلوات لله السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله «


حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا سعيد بن أبي عروبة، ح وحدثنا أبو غسان المسمعي، حدثنا معاذ بن هشام، حدثنا أبي، ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير، عن سليمان التيمي، كل هؤلاء عن قتادة، في هذا الإسناد بمثله وفي حديث جرير، عن سليمان، عن قتادة من الزيادة» وإذا قرأ فأنصتوا " وليس في حديث أحد منهم
فإن الله قال على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم: «سمع الله لمن حمده» إلا في رواية أبي كامل، وحده عن أبي عوانة قال أبو إسحاق: قال أبو بكر: ابن أخت أبي النضر في هذا الحديث. فقال مسلم: تريد أحفظ من سليمان؟ فقال له أبو بكر: فحديث أبي هريرة؟ فقال: هو صحيح يعني وإذا قرأ فأنصتوا فقال: هو عندي صحيح فقال: لم لم تضعه ها هنا؟ قال: ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه
(صحیح مسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب التشهد في الصلاة )
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top