• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سند ِ کتاب اور منہجِ محدثین

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سند کتاب اور منہجِ محدثین

محمد خبیب احمد(ادارہ علوم اثریہ، فیصل آباد )
( ہفت روزہ الاعتصام، لاہور۔جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴، ۲۵ )
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمت ِ محمدیہ کو جن امتیازات سے نوازا ہے ان میں ایک جداگانہ وصف سند کا اہتمام ہے ۔ اساطین اُمت اگر حفظِ سند کا اہتمام نہ کرتے تو یقینا اسلام کے چراغ گل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شمع دان بھی ختم ہو جاتی ۔ اور اس بلدۂ طیبہ کی فصیل میں ملحدین اور مبتدعین کو وضع حدیث کے خطرناک ہتھیاروں سے نقب زنی کا کامیاب موقع مل جاتا۔ اسانید الٹ پلٹ کرنا اور متونِ حدیث خلط ملط کرنا ان کے لیے سہل ہو جاتا ۔ حفظِ اسناد کی صورت میں اس اُمت پر احسانِ عظیم فرمایا گیا۔ حاملین سند کو عزت بخشی گئی ۔ اہل حدیث نے اسے دین کا حصہ قرار دیا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ، چنانچہ شیخ الاسلام عبداللہ بن مبارک (وفات۱۸۱ ھ) فرماتے ہیں :
’’میرے نزدیک سند دین ہے ۔ اگر سند نہ ہوتی تو جس کا جو جی چاہتا وہ کہتا ۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم، رقم: ۳۲،العلل الصغیر للترمذی،ص: ۸۹۰ )
نیز فرمایا:
’’ہمارے درمیان اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق سند کا ہے ۔ ‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اگر سند نہ ہوتی اور محدثین کی جماعت اس کا اہتمام نہ کرتی تو اس اُمت میں دین کی تبدیلی ظاہر ہو جاتی جیسے باقی اُمتوں میں ہوئی ہے ۔‘‘ (المجروحین: ۱/۲۵، مقدمۃ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے یوں توضیح فرمائی:
’’اگر سند اور اس کو طلب کرنے والی اور اس کے حفظ پر انتہائی پابندی کرنے والی یہ جماعت نہ ہوتی تو اسلام کے نشانات قدیم العہد ہو جاتے۔ ملحدین اور مبتدعین کو اس میں جعلی احادیث شامل کرنے کا اور اسانید الٹ پلٹ کرنے کا موقع خوب میسر آتا ۔ جب اخبار (احادیث) اسانید کے وجود سے الگ ہوں گی تو وہ کٹی ہوں گی ۔ ‘‘
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ،ص: ۶)
اسی بنا پر محدثین نے حدیث کے علاوہ تفسیر ، تاریخ ، فقہ ، رجال ، انساب ، لغت ، ادب ، نحو ، اشعار اور حکایات میں سند کا اہتمام کیا ہے ، بلکہ وہ مزاحیہ باتوں کو بھی باسند بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسے خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’التطفیل و حکایات الطفیلیین‘‘ اور ’’البخلاء‘‘ میں سند کو ملحوظ رکھا ہے ۔ حافظ ابن جوزی بھی اس قبیلکی کتابوں میں عام طور پر سند کا اہتمام کرتے ہیں ۔
امام احمد کے شاگرد امام ابو بکر احمد بن محمد بن حجاج، جو مروزی کے نام سے معروف ہیں ، نے أخبار الشیوخ واخلاقهم بھی باسند بیان کی ہے ، اس کی بابت کئی اور مثالیں بھی ذکر کی جا سکتی ہیں۔ محدثین کی سند سے وابستگی کا عالم یہ ہے کہ وہ صرف ایک ایک کلمے کی توضیح کے لیے تین چار سطری سند بیان کرتے ہیں ۔
احادیث کی طویل ترین اسانید پر مشتمل کتب سداسیات، سباعایت، ثمانیات ، تساعیات اور عشاریات بھی اس کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں ۔
یہاں یہ اشارہ بھی ضروری ہے کہ سابقہ ملتیں حفظِ سند کی خوبی سے یکسر تہی دامن تھیں ،یہاں تک کہ ان کی مذہبی کتب کی اسانید بھی نہیں ملتیں۔
سند اور اتصالِ سند کی اہمیت مسلّم ہے جس سے انکار کی مجال نہیں۔ اہل فن کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ہر ہر فن کے لیے علیحدہ علیحدہ اُصولوں کی داغ بیل ڈالی ہے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور دیگر اعیانِ اُمت کی طرف منسوب اقوال کو پرکھنے کے لیے تفریق کرتے ہیں۔ احادیث نبویہ میں بھی ان کا منہج یکساں نہیں ، احکام و عقائد اور فضائل و رقائق وادعیہ سے متعلق منہج ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ پھر احکام سے متعلق احادیث میں ان کا اسلوب ِنقد یکساں نہیں ۔ جو حدیث اپنے موضوع میں اساسی حیثیت کی حامل ہو اس کے اور جو شواہد میں مندرج ہوتی ہے ، اس کے مابین فرق ملحوظ رکھتے ہیں۔ ایک قسم پر طرز تنقید دوسری قسم سے جدا ہے ۔ ان کی دقیق نظری شہادت دیتی ہے کہ اللہ ذوالجلال والاکرام ان کے علم کے تائید کنندہ ہیں۔
ائمہ کرام کے نزدیک اساطین اُمت کے دین سے متعلق اور عمومی بود و باش سے متعلق اقوال و افعال کو پرکھنے میں فرق کیاجائے گا ۔
اُنھوں نے حدیث کی صحت و ضعف معلوم کرنے کے لیے اتصالِ سند ، ثقہ راویان اور عدمِ شذوذوعلت جیسے نہایت سخت اُصول متعارف کروائے ہیں ۔ جو محض حدیث پر حکم لگانے کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان کڑے اُصولوں کو حدیث کے علاوہ کسی اور فن پر لاگو کرے گا تو نتیجتاً اس فن کا معتدبہ ذخیرہ رائیگاں ہو جائے گا اور ایسا فائدہ بہ ذات خود محلِ نظر ہوگا۔ مثال کے طور پر حدیث جانچنے کے اُصول اگر جاہلی اشعار ، راویانِ حدیث کے حالات اور عمومی واقعات پر منطبق کیے جائیں تو شاید بہت کم اشیاء مقرر کردہ معیار پر پوری اتریں، باقی سب کالعدم ہو جائیں ۔ بہ الفاظِ دیگر راویِ حدیث کی ثقاہت و عدالت معلوم کرنے کے جواُصول محدثین نے قائم کیے ہیں انھیں دورِ رواں کے صحافی حضرات پر منطبق کیا جائے تو اس کے نتیجے کا ہر ذی شعور اندازہ کرسکتا ہے۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بالکل یہی معاملہ سند ِ کتاب کا ہے۔ اگر حدیث پر کھنے کے قواعد سند ِ کتاب پر لاگو کیے جائیں تو بہت سی ایسی کتب کا لعدم ہو جائیں گی جن کا محدثین نے اعتبار کیا ہے ۔ مثال کے طور پر کوئی دعویٰ کرے کہ ’’علل الترمذی الکبیر ‘‘ امام ترمذی کی تصنیف نہیں کیوں کہ وہ گم شدہ کتب میں ہے ۔ اور جو کتاب ’’ترتیب العلل الکبیر‘‘ کے نام سے ابو طالب محمود بن علی القاضی (وفات۵۸۵ھ) کی معروف ہے وہ غیر ثابت شدہ ہے ، کیوں کہ اس کی سند میں امام ترمذی کا شاگرد ابو حامد التاجر مجہول ہے ۔ تو کیا ایسا دعویٰ صحیح ہوگا؟ ہم نے اس مضمون میں اسی کا جائزہ لینا ہے ۔
بلاشبہ ابو احمد التاجر احمد بن عبداللہ بن داود المروزی مجہول ہے ۔ کتب تاریخ و رجال میں اس کا ترجمہ موجود نہیں ۔ سند ِ کتاب کے راویوں کی دو قسمیں ہیں:
(۱) اکثریت ان راویوں کی ہے جنھیں محدثین نے اپنی تالیفات میں ذکر کیا ہے ۔
(۲) بعض راوی ایسے ہیں جنھوں نے محض کتب کے سماع پر اکتفا کیا ۔ وہ اپنے شہر سے حصولِ علم کے لیے نہیں نکلے۔
بنا بریں معروف کتب اسماء الرجال میں ان کا ترجمہ موجود نہیں ۔ اورجو تواریخ خاص شہروں کی تھیں ان کا بیشتر حصہ حوادثاتِ زمانہ کی نذر ہو گیا۔ محدثین عظام سند ِ کتاب میں اس قسم کی کمزوری سے چشم پوشی کرتے ہیں اور جگہ جگہ ایسی کتب سے نصوص و اقوال نقل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل صحت ِ کتاب کی چند شرائط ملاحظہ فرمائیے:
صحت ِ کتاب کی شرائط :
اہل فن کسی کتاب یا اس کے قلمی نسخے میں درج ذیل اُصولوں کی پابندی کرتے ہیں :
۱۔ مولف یا مصنف خود ثقہ یا کم ازکم قابل اعتماد ہو ۔
۲۔ کتاب فی الواقع مولف کی ہو۔ جس کی صراحت کبار مترجمین نے کی ہو یا اُنھوں نے مصنف کی سیرت نگاری میں اس کا تذکرہ کیا ہو اورثبوت پر کوئی نقد و تبصرہ نہ کیا ہو ۔
۳۔ محدثین اپنی تالیفات میں اس کتاب کو مولف کی طرف منسوب کرتے ہوں ۔ یا مولف سے جرح و تعدیل کے اقوال نقل کرتے ہوں ۔
۴۔ ناسخ یا مالکِ مخطوط سے مولف تک سند صحیح ، حسن یا کم ازکم قابل اعتبار ہو ۔
۵۔ مخطوط کے ناسخ ، خطِ نسخ ، تاریخ ِ نسخ ، حواشی مخطوط ، محل وقوع کی معرفت ضروری ہے ۔ علماء کے سماعات بھی اس نسخے کو معتبر بنانے میں مدد یتے ہیں کہ کس نے اس کی قراء ت کی ، کس نے سماع کیا اور کس نے اسے روایت کیا ۔ مخطوط نقل کرنے کے بعد اصل سے موازنہ بھی ضروری ہے ۔
۶۔ خود مولف اپنی دیگر کتب میں اُس کتاب کا حوالہ دے یا اس کتاب میں دیگر کتب کی نشان دہی کرے کہ تفصیلی بحث فلاں کتاب میں موجود ہے، اس کی مراجعت کیجیے ۔
۷۔ کسی خارجی قرینے سے اس کتاب کی صحت مشکوک نہ ہو ۔( اس کی تفصیل ابھی آرہی ہے )
جس کتاب یا مخطوط میں یہ شروط پائی جائیں تو اس کی نسبت میں کسی قسم کا شبہ نہیں ۔جتنی شرائط کم ہوتی جائیں گی اسی قدر اس کی حیثیت گھٹتی جائے گی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خارجی قرائین :
کتاب کا غلط انتساب کبھی تو عمداً ہوتا ہے اور کبھی ناسخین مخطوطات کی غلطی یا بک بائنڈرز کی غفلت یا پبلشرز کی کوتاہی کی وجہ سے ہوتاہے۔مصنفین کے ناموں میں مشابہت کی وجہ سے بھی اختلاط پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے نہایت احتیاط کی ضرورت ہے۔
ملحوظ رہے کہ بعض ناشر ین بھی کتاب کی سند اور اس میں مواد کی اسانید حذف کر دیتے ہیں جیسے مواعظ ، آداب اور حکایات کی کتب ہوتی ہیں ۔
1…مولف کے زمانے میں اس کے معاصرین علماء اور تلامذہ میں کتاب معروف نہ ہو اور محدثین اس کی صحت کو مشکوک قرار دیں۔
2…کتا ب مولف کے نظریات و عقائد سے متصادم ہو اور اس کا رجوع بھی ثابت نہ ہو ۔
3…کتاب کا انداز تحریر مولف کے اسلوب نگارش سے مختلف ہو۔
4…کوئی بات خلاف واقع ہو ۔ مثلاً کتاب سے مولف کا دمشق جانا معلوم ہوتا ہو حالانکہ اس کے عمومی حالات ِزندگی اس کی نفی کریں کہ مصنف زندگی بھر بغداد کے مکین رہے، رحلہ علمیہ کے لیے نہیں نکلے۔ یا جس راوی سے کتاب مروی ہو وہ مصنف کی پیدائش سے قبل ہی انتقال کر گیا ہو یا کتاب میں مولف کی وفات کے بعد کے واقعات درج ہوں ۔
5…مولف کا اسلوبِ نگارش اور طرزِ تنقید اس کی شان سے بالا ہو ، خصوصاً اپنے اساتذہ کے بارے میں ۔
6…کتاب کا بعض حصہ بعض سے متصادم ہو ۔ خصوصاً پختہ کار مصنف کی کتاب ۔
7…مصنف نے جس زمانے میں آنکھ کھولی ہو وہ فتنوں کا زمانہ ہو۔ حالات کے تقاضے کے مطابق وہ کتاب و سنت کے دفاع میں کمربستہ ہو گیا۔ غالین ، مبطلین کا ناطقہ بند کر دیا ۔ جب انسان ایسے حالات میں ہو تو وہ طبعی طور پر چٹکلوں ، عجوبوں ، لطیفوں ، مزاحیہ باتوں پر مشتمل کتاب نہیں لکھ سکتا ۔ اس لیے اس قسم کے مواد پر مشتمل کتاب کی مصنف کی طرف نسبت مشکوک ہے ۔
شیخ ابو عبیدہ مشہور نے نسبت ِ کتاب کے بارے میں فرمایا ہے :
’’فالکتاب الذی لا سندلہ ، ولا ذکرلہ فی کتب التراجم، أوفی دور المخطوطات، أولم یشتھر عن صاحبہ من خلال تداول أصحابہ و تلامیذہ لہ ، أونقل من بعدہ منہ، غیر صحیح النسبۃ۔‘‘
(کتب حذر منھا العلماء: ۲/۲۲۳،۲۲۴)
’’جس کتاب کی سند نہ ہو ۔ کتب تراجم یا مخطوطات کے مکتبات میں اس کا ذکر نہ ہو ۔ یا مولف کے معاصرین اور تلامذہ کے مابین کتاب معروف نہ ہو یا کسی نے مابعد اس سے نقل نہ کیا ہو ۔ یہ نسبت کی عدمِ صحت کی دلیل ہے ۔ ‘‘
حاشیے میں رقم طراز ہیں :
’’مخطوط پر صحیح ، مولف تک متصل سند کا وجود ، ناسخ کی معرفت، اس کی لکھائی کا وثوق اور جس کی طرف کتاب منسوب ہے اس کے بری الذمہ نہ ہونے کی دلیل، صحت ِ کتاب کی نشانی ہے ۔ ‘‘
’’یہ ملحوظ رکھا جائے گا کہ کتاب کی شہرت اس کی صحیح سند سے کفایت کرتی ہے ؟ صحیح اس میں تفصیل ہے ۔‘‘
(کتب حذر منھا العلماء : ۲/۲۲۳)
جو کتب منسوب ہیں یا ان کے نام وغیرہ میں جو غلطی ہوئی ہے، علامہ بکر بن عبداللہ ابو زید نے انھیں جمع کیا ہے ۔ اور کتاب کا نام رکھا ہے:’’ معجم المؤلفات المنحولۃ وما وقع فی اسمہ أونسبہ ضرب من الوہم والغلط۔‘‘
(کتب حذر منھا العلماء: ۲/۲۲۵)
ہم عرض کر آئے ہیں کہ محدثین سند ِ کتاب میں کمزوری کو برداشت کرتے ہیں اور دیگر قرائن سے اسے تقویت دیتے ہیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
العلل الکبیر للترمذی:
امام ترمذی نے ’’العلل الکبیر‘‘ لکھی ، جسے ’’العلل المفرد‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے ۔ جو گمشدہ کتب میں شمار ہوتی ہے ۔ اس کتاب میں احادیث اور ان کی علتیں کسی ترتیب پر نہ تھییں ۔ اسے قاضی فقیہ ابو طالب محمود بن علی اصبہانی (وفات۵۸۵ھ) نے فقہی ترتیب کے مطابق ڈھالا ۔ اس سلسلے میں انھوں نے جامع ترمذی کی ترتیب کو ملحوظ رکھا ۔
قاضی ابو طالب کا شمار کبار ائمہ شافعیہ میں ہوتا ہے ۔ ان کے حالات ذیل کی کتب میں ملاحظہ فرمائیں :
وفیات الاعیان لابن خلکان: ۵/۱۷۴، تاریخ الاسلام للذہبی : (حوادث ووفیات : ۵۸۱ھ-۵۹۰ھ،ص:۲۳۰،۲۳۱)، طبقات الشافعیۃ الکبری للسبکی:۷/۲۸۶،۲۸۷، رقم : ۹۸۳ ، طبقات الشافعیۃ للاسنوی: ۲/۱۷۵، طبقات الشافعیۃ لابن قاضی شبہۃ: ۲/۳۸۰، رقم : ۳۴۸، طبقات الفقہاء الشافعیین لابن کثیر: ۲/۷۳۳، رقم: ۲۹، شذرات الذہب: ۴/۲۸۴)
اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ ابو طالب کا ترجمہ ہی کسی نے ذکر نہیں کیا، درست نہیں۔ (مسئولات الترمذی للبخاری حول احادیث فی جامع الترمذی لیوسف بن محمد الدخیل :۱/۱۸۹)
امام ترمذی نے سنن ترمذی کی تالیف سے پہلے کتاب العلل لکھی یا اس کا مواد جمع کیا تھا، جیسا کہ محقق علل الترمذی الکبیر حمزہ دیب مصطفی نے صراحت کی ہے ۔( ترتیب العلل: ۲/۹۸۳)
اس کتاب کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایک ماہر فن کی تصنیف ہے ۔ جس میں وہ اپنی آراء کے ساتھ ساتھ امام العلل امام بخاری کی آراء بھی ذکر کرتے ہیں ، بلکہ یہ کتاب ان سے استفسارات کا مجموعہ ہے ۔ علاوہ ازیں اس میں امام ابو زرعہ رازی اور امام دارمی کی چند آراء بھی موجود ہیں ، بلکہ بعض مقامات پر ان کے علاوہ دیگر ائمہ کا موقف بھی معلوم ہو جاتا ہے ،چنانچہ امام ترمذی نے امام بخاری سے عبداللہ بن محمد بن عقیل کے بارے میں سوال کیا تو اُنھوں نے فرمایا:
’’میں نے امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) اور امام حمیدی کو اس کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے پایاہے۔ وہ مقارب الحدیث ہے ۔ ‘‘
(العلل الکبیر: ۱/۸۱)
گویا ایک راوی کے بارے میں چار ناقدین کی رائے ایک عبارت میں مذکور ہے ۔
پہلی دلیل: محدثین کا اعتماد:
محدثین نے العلل الکبیر سے امام ترمذی اور امام بخاری کے درجنوں اقوال بہ واسطہ امام ترمذی نقل کیے ہیں اور بے شمار مقامات پر صراحت کی ہے کہ یہ کتاب امام ترمذی کی ہے۔ملاحظہ فرمائیے:
1۔امام بیہقی (وفات۴۵۸ھ):
1۔السنن الکبری :۱/۳۰۱،۳۰۲۔ امام بیہقی نے بغیر نسبت کتاب ذکر کیا ہے ۔ یہ قول العلل الکبیر (۱/۴۰۲،۴۰۳) میں ہے ۔
2 ۔ ’’وفی کتاب العلل لابی عیسی الترمذی۔‘‘
(السنن الکبری: ۱/۳۹۱)
3۔ ’’وفی کتاب العلل لابی عیسی الترمذی۔‘‘
(السنن الکبری: ۱/۴۵۶)
العلل میں یہ دونوں قول نہیں ملے ۔
4۔ ’’وفیما قرأت فی کتاب العلل لابی عیسی الترمذی۔‘‘( السنن الکبری:۲/۴۸۸ ۔ دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۲۵۹،۲۶۰)
5۔ ’’وفیما حکی ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ فی کتاب العلل عن محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ۔‘‘
(السنن الکبری:۳/۳۲۸،۳۲۹۔ دیکھیے العلل الکبیر: ۱/۲۹۹)
6۔ ’’قال ابو عیسی الترمذی فی کتاب العلل۔‘‘
(السنن الکبری: ۳/۱۱۔ دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۴۱۱)
7۔ ’’قال ابو عیسی الترمذی فی کتاب العلل۔‘‘
( السنن الکبریٰ: ۴/۸۸۔ مطبوع العلل الکبیرمیں یہ قول نہیں مل سکا )
8۔ ’’ورأیت فی کتاب العلل لابی عیسی الترمذی۔‘‘
(السنن الکبری: ۵/۳۲۴،۳۲۵۔ دیکھیے العلل الکبیر: ۱/۵۰۰)
9۔ ’’قال ابو عیسی الترمذی رحمہ اللہ فی کتاب العلل۔‘‘
(السنن الکبری: ۷/۱۰۸،۱۰۹۔دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۴۲۹، ۴۳۰)
10۔ ’’ذکر ابوعیسی الترمذی فی کتاب العلل۔ ‘‘
(السنن الکبری: ۸/۴۳۔ دیکھیے العلل الکبیر : ۲/۵۸۷)
تلک عشرۃ کاملۃ
یہ اقوال صرف السنن الکبری سے نقل کیے گئے ہیں ۔ امام بیہقی نے اپنی دیگر تصنیفات میں جو اقوال ذکر کیے ہیں وہ ان پر مستزاد ہیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
’’امام بیہقی وغیرہ اکابر علماء نے امام بخاری کی کتاب القراء ۃ سے استدلال کیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ وہ اسے امام بخاری کی تصنیف کردہ کتاب ہی سمجھتے ہیں ۔ ‘‘
(مقدمہ نصر الباری ،ص: ۱۹)
2۔حافظ ابن عبدالبر (وفات۴۶۲ھ):
اِنھوں نے امام بخاری کا قول نقل کیا ہے ۔( التمہید:۱/۳۴)
3۔حافظ ابن عساکر(وفات ۵۷۱ھ):
اِنھوں نے اپنی سند سے امام بخاری کی جرح بہ واسطہ امام ترمذی نقل کی ہے ۔( تاریخ دمشق: ۱۹/۱۲۴)جو العلل الکبیر (۲/۹۵۲، ۹۵۳) میں موجود ہے ۔
حافظ ذہبی نے صراحت کی ہے کہ امام ترمذی نے یہ قول ’’العلل ‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔ (میزان الاعتدال: ۲/۸۴)
نیز ملاحظہ ہو : نور العینین(ص:۱۳۸)، القول المتین(ص:۲۴)
4۔ابو طالب القاضی (وفات۵۸۵ھ):
انھوں نے العلل الکبیر کو جامع ترمذی کی ترتیب پر مرتب کیاہے۔ انھی کی ترتیب شدہ کتاب مطبوع ہے ۔
5۔امام ابن الجوزی (وفات۵۹۷ھ):
انھوں نے ایک حدیث کی تصحیح پر امام علی بن مدینی اور امام بخاری کی رائے بہ واسطہ امام ترمذی نقل کی ہے ۔
(التحقیق لابن الجوزی : ۲/۹۳ ، حدیث: ۱۱۰۳)
امام علی بن المدینی کا قول جامع ترمذی(رقم:۷۷۴) میں ہے ۔ امام بخاری کا قول العلل الکبیر (۱/۳۶۲) میں ہے ۔ امام ابن المدینی نے حضرت شداد اور جناب ثوبان wکی حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
(العلل الکبیر: ۱/۳۶۴)
6۔امام ابن القطان الفاسی (وفات۶۲۸ھ):
ان کی معروف کتاب بیان الوہم والایھام الواقعین فی کتاب الاحکام سے متعدد حوالے پیش خدمت ہیں:
1۔’’وقد ذکر الترمذی فی کتاب العلل أنہ سأل البخاری عن ہذا الحدیث نفسہ۔‘‘
(۲/۴۰۔دیکھیے العلل الکبیر: ۱/۳۸۸)
2۔’’ہو ما ذکر الترمذی عنہ فی کتاب العلل۔‘‘ (۲/۲۶۰۔ از اں بعد امام ابن القطان نے امام بخاری وغیرہ کے قول کی توضیح کی ۔ دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۲۸۸)
3۔’’قال الترمذی فی کتاب العلل۔‘‘ (۲/۳۸۲۔ العلل الکبیر میں یہ قول نہیں مل سکا)
4۔’’ذکر ذلک فی کتاب العلل۔‘‘(۲/۳۸۸)
(دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۳۰۸)
5۔’’ذکرہ الترمذی فی کتاب العلل‘‘ (۲/۳۹۰۔ یہ قول العلل الکبیر میں نہیں مل سکا )
6۔’’والترمذی قد ذکر فی کتاب العلل۔‘‘
(۲/۴۳۹۔دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۴۷۹)
7۔’’وقال الترمذی فی (عللہ)۔‘‘ (۲/۴۴۱)
(دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۱۳۷)
8۔’’قالہ الترمذی فی (عللہ)۔‘‘(۳/۳۲۹)
(دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۱۹۴)
9۔’’وقد ذکر الترمذی عن البخاری أنہ منکر الحدیث۔‘‘ (۳/۱۱۲۔ جب کہ العلل الکبیر (۱/۳۶۶) میں ’’ھو رجل مجہول ‘‘ ہے )
10۔’’وحکی الترمذی عن البخاری۔‘‘
(۳/۵۵۲۔ دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۲۸۸)
11۔’’ وذکر ابو عیسی الترمذی ہذا الحدیث فی کتاب العلل ۔‘‘ (۳/۶۰۲،۶۰۳۔دیکھیے العلل الکبیر : ۲/۹۵۴،۹۵۵)
12۔’’ذکر ذلک الترمذی عنہ فی (عللہ)۔‘‘
(۴/۹۸۔ دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۱۸۷)
13۔’’ھذا ما ذکر الترمذی عن البخاری فی کتاب العلل۔‘‘ (۴/۵۷۷۔دیکھیے العلل الکبیر : ۲/۶۶۶)
14۔’’قال الترمذی فی کتاب العلل۔‘‘
(۵/۵۶۔ دیکھیے العلل الکبیر:۱/۳۰۷،۳۰۸)
15۔’’ذکر ذلک فی کتاب العلل۔‘‘
(۵/۱۳۰۔ دیکھیے العلل الکبیر:۱/۱۲۵)
16۔’’وھو علل الترمذی۔‘‘
(۵/۱۳۳۔ دیکھیے العلل الکبیر:۱/۱۲۵)
17۔’’وذکر الترمذی فی عللہ۔‘‘
(۵/۲۲۵۔ دیکھیے العلل الکبیر:۱/۱۴۳)
18۔’’وقال فی العلل۔‘‘
(۵/۲۶۷،۲۶۸۔ دیکھیے العلل الکبیر:۱/۱۸۴)
19۔’’قال فی کتاب العلل۔‘‘
(۵/۳۸۵۔ دیکھیے العلل الکبیر:۱/۷۱۸)
7۔امام ابن المواق (وفات۶۴۲ھ):
ان کی معروف کتاب کا نام ہے: ’’بغیۃ النقاد النقلۃ فیما أخل بہ کتاب ’’البیان‘‘ وأغفلہ أو ألم بہ فما تممہ ولا کملہ‘‘
یہ کتاب ’’بیان الوہم والایہام‘‘ لابن القطان کا تکملہ ہے، جیسا کہ نام سے واضح ہوتا ہے ۔
1۔’’خرجہ الترمذی فی کتاب العلل۔‘‘
(بغیۃ النقاد النقلۃ: ۲/۳۹۵۔ دیکھیے العلل الکبیر: ۱/۳۲۶)
2۔’’وہکذا ذکر ابو عیسی الترمذی عن البخاری فی العلل۔ ‘‘(بغیۃ النقاد النقلۃ: ۲/۱۸۰-۱۸۱۔دیکھیے العلل الکبیر: ۱؍۲۸۹،۲۹۰)
3۔’’وإنما وقع بہذا اللفظ عند الترمذی فی العلل۔‘‘ (بغیۃ النقاد النقلۃ: ۲/۲۵)
یہ قول العلل الکبیر میں نہیں ملا ۔ اس مقام پر ڈاکٹر محمد خرشافی رقم طراز ہیں :
’’یہ حدیث امام ترمذی کی مطبوع دونوں علل (کبیر، صغیر) میں نہیں ۔ نہ ان کی الجامع الصحیح (سنن ترمذی) میں ہے ۔ ان دونوں کتب میں اس حدیث کا عدمِ وجود امام ترمذی سے روایات کے مختلف ہونے کا سبب ہو سکتا ہے ۔ یاپھر وہ العلل الکبیر میں موجود تھی مگر ابو طالب قاضی نے اپنی کتاب میں اسے مرتب نہیں کیا ۔ ‘‘
(حاشیہ تحقیق بغیۃ النقاد النقلۃ :۲/۲۵)
4۔’’فأورد الحدیث أیضا من علل الترمذی۔‘‘(بغیۃ النقاد النقلۃ:۲/۱۳۲۔یہ قول العلل الکبیر میں نہیں ملا)
8۔امام نووی (وفات۶۷۶ھ):
1۔ ’’وقال الترمذی فی کتاب العلل۔‘‘
(المجموع شرح المہذب:۲/۳۵)
2۔ (المجموع : ۳/۵۳)
3۔ (المجموع : ۵/۱۶،۴۱۷،۴۵۳)
4۔ ’’ونقل البیہقی عن الترمذی یعنی من کتاب العلل لہ۔‘‘ (المجموع: ۹/۲۵۵)
امام نووی کے اس بابت دیگر اقوال ان کی کتاب خلاصۃ الاحکام وغیرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
9۔امام ابن دقیق العید (وفات۷۰۲ھ):
موصوف نے اپنی کتاب ’’الامام فی معرفۃ احادیث الاحکام‘‘ میں تین مقامات پر کتاب العلل للترمذی سے مختلف عبارتیں نقل کی ہیں ۔ اور کتاب کے نام کی صراحت بھی کی ہے ۔
(الامام : ۱/۱۰۹،۱۱۱ ،۲/۶۵)
علامہ ابن دقیق العید نے متعدد مقامات پر امام بیہقی کے ایسے اقوال نقل کیے ہیں جن میں العلل الکبیر للترمذی سے امام بیہقی نے متعدد نصوص ذکر کی ہیں ۔
(الامام : ۱/۱۵۸،۱۶۰،۳۷۴،۵۷۹، ۲/۱۶۶،۱۸۷،۲۲۲،۳۶۶،۳۸۱،۴۹۹،۵۵۱)۔
اسی طرح ایک مقام پر امام ابن القطان الفاسی کی عبارت نقل کی ہے جس میں العلل الکبیر کا حوالہ مذکور ہے ۔
(الامام: ۳/۳۴۳)
علاوہ ازیں امام بخاری کے متعدد اقوال بہ واسطہ امام ترمذی نقل کیے ہیں۔ یا پھر بدون نسبت ہی ذکر کیے ہیں۔(الامام : ۱/۹۸،۱۰۴،۱۰۵،۵۰۷،۲/۵۵،۱۶۲،۱۶۷،۱۹۰،۳۷۷،۳/۳۰۹، ۳۱۰،۳۴۰،۳۴۲)
نوٹ: ’’الامام‘‘ کا ابتدائی حصہ (مخطوط کی جلد اول ) مطبوع ہے۔ اگر پوری کتاب سے ایسے حوالے تلاش کیے جاتے تو یقینا ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا ۔
10۔ امام مزی (وفات ۷۴۲ھ):
امام صاحب رقم طراز ہیں:
’’کتاب العلل للترمذی اس کتاب کے علاوہ ہے جو امام ترمذی نے جامع ترمذی کے آخر میں ذکر کی ہے ۔ ‘‘
(مقدمۃ تہذیب الکمال: ۱/۲۸)
11۔ امام ابن عبدالہادی (وفات۷۴۴ھ):
انھوں نے اپنی کتاب ’’تنقیح التحقیق فی احادیث التعلیق‘‘ میں چھ مقامات پر کتاب العلل کو امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے ۔ (۱/۱۰۴،۲۰۲،۲۷۳،۲/۱۷۱،۲۲۱، ۳۲۱)
اسی طرح انھوں نے امام بیہقی کی وہ عبارتیں نقل کی ہیں جن میں العلل الکبیر کا حوالہ موجود ہے ۔ (۱/۳۳،۳۵،۲/۲۰۵،۲۴۷)
اسی طرح متعدد مقامات پر امام ترمذی کی امام بخاری سے روایت نقل کی ہے، یعنی جن پر امام بخاری نے تبصرہ کیا ہے ۔
(۱/۲۰،۱۵۱،۲/۹۰،۱۳۱،۱۸۹،۲۰۳،۳۲۳،۳/۳۸۷)
حافظ ابن عبدالہادی نے العلل الکبیر کی متعدد نصوص بالواسطہ اور بلاواسطہ نقل کی ہیں ۔( تعلیقۃعلی العلل لابن ابی حاتم: (۴۶،۴۷،۴۸،۶۰،۱۲۱،۱۴۳وغیرہ ۔المحرر فی الحدیث: ۱/۲۹۵ ح: ۴۹۱)
12۔حافظ ذہبی (وفات۷۴۸ھ):
انھوں نے متعدد مقامات پر صراحت کی ہے کہ امام ترمذی نے کتاب العلل میں فرمایا ہے۔(سیر اعلام النبلاء: ۶/۱۴۱، میزان الاعتدال: ۲/۸۴،۳/۷۴، المغنی: ۲/۴۳۴،رقم: ۴۱۲۲، تہذیب التہذیب : ۱/۱۰۹نقلاًعن المزی)
حافظ ذہبی کا بے جا اندیشہ :
حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
’’امام ترمذی نے امام بخاری سے نقل کیا:میں نے احمد ، علی ، اسحاق، ابو عبید اور عام اصحاب کو عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھیں مسلمانوں میں سے کسی نے ترک نہیں کیا ۔ ان کے بعد کون ہوئے ہیں ؟ (جو ان کی روایت ترک کرتے ہیں !) میں کہتا ہوں : امام بخاری سے ان الفاظ کا صدور مجھے بعید ازامکان دکھائی دیتا ہے ۔ اندیشہ ہے کہ ابو عیسیٰ (امام ترمذی) کو وہم ہوا ہو۔ ورنہ امام بخاری عمرو کی طرف مائل نہیں ہوئے ۔ آپ کا امام بخاری کے اس قول ’’ان کے بعد کون ہوتے ہیں ؟‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟پھر اُنھوں نے عمرو سے استدلالاً اور متابعتاً روایت بھی نہیں لی۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء: ۵/۱۶۷)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ خدشہ درست نہیں کہ امام ترمذی کو غلطی لگی ہے ، کیوں کہ التاریخ الکبیر للبخاری (۶/۳۴۲،۳۴۳)میں یوں عبارت ہے :
’’قال البخاری : ورأیت أحمد بن حنبل وعلی بن عبداللّٰہ والحمید وإسحاق بن ابراہیم یحتجون بحدیث عمرو بن شعیب عن أبیہ۔‘‘
یہاں یہ بات محل بحث ہے کہ امام بخاری نے امام احمد، امام ابن مدینی ، امام ابن راہویہ کے ساتھ چوتھا نام کس محدث کا ذکر کیا ہے، امام حمیدی کا یا امام ابو عبید قاسم بن سلام کا ؟
التاریخ الکبیر کے محولہ مقام پر ’’الحمید ‘‘ غلط ہے ۔ صحیح الحمیدی ہے۔التاریخ الکبیر (۶/۳۴۲ المکتبۃ الشاملۃ ) کے ایڈیشن ، جو محمود خلیل کے حواشی کے ساتھ مطبوع ہے ، میں صحیح طور پر واقع ہے۔
حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق (۴۶/۸۷) میں التاریخ الکبیر کے راوی (محمد بن سہل ) سے ’’الحمیدی ‘‘ نقل کیا ہے ۔ حافظ عقیلی نے ’’الحمیدی ‘‘ نقل کیا ہے۔ (الضعفاء الکبیر : ۳/۲۷۴)
حافظ ذہبی نے علل الترمذی الکبیر سے یہی نقل کیا ہے۔ (میزان الاعتدال: ۳/۲۶۴ ، ترتیب العلل الکبیر: (۱/۳۲۵-۳۲۶، رقم: ۱۰۷ ماجاء فی صدقۃ الفطر)
امام بخاری سے احمد بن تمیم بن عباد نے بھی اسی طرح نقل کیاہے۔ (سنن الدارقطنی: ۳/۵۱۔ دوسرا نسخہ : ۲/۶۴۹، رقم : ۲۹۶۸ إسنادہ واہ)
اسی طرح امام بخاری سے ابو بکر عبید اللہ بن محمد بن عبدالعزیز العمری نے نقل کیا ہے ۔ (طبقات الحنابلۃ لابن ابی یعلی: ۱/۲۷۲،۲۷۳)
جب کہ درج ذیل مراجع میں ابو عبید ہے، جو قاسم بن سلام مشہور محدث ہیں :
(تہذیب الکمال للمزی: ۲۲/۶۹ و ۲۳/۳۶۹ نقلاً عن القراء ۃ خلف الامام للبخاری ، سیر اعلام النبلاء: ۵/۱۶۷، بحر الدم لابن عبدلہادی،ص: ۳۲۰، رقم: ۷۶۲ وفیہ ابوعبیدۃ، مغانی الاخیار للعینی: ۲/۳۹۵ ، اسعاف المبطأ برجال الموطأ للسیوطی ،ص: ۸۳ ، رقم : ۲۰۰، شذرات الذہب: ۱/۱۵۵ نقلاً عن المغنی للذہبی )
اس لیے معلوم یہی ہوتا ہے کہ امام بخاری نے کبھی امام حمیدی کا نام ذکر کیا اور کبھی امام ابو عبید کا ۔
باقی رہا معاملہ حافظ ذہبی کا امام ترمذی پر نقد کرنا تو وہ درست نہیں۔ علماء کے ہاں یہ معروف ہے کہ کتنے ایسے راوی جو امام ، ثقہ اور ثبت ہیں مگر امام بخاری ان سے روایت نہیں لیتے ، جیسے امام شافعی اور امام ابو داود طیالسی ہیں ۔ امام صاحب نے کسی جرح کی وجہ سے ان کی روایت ترک نہیں کی ، بلکہ عالی سند یا دیگر خصائص اسناد ہی کی بنا پر دوسرے راویوں کی روایت کو ترجیح دی ہے ، بلکہ محدثین تو اعلیٰ سند کے حصول پر ضعیف راویوں کی روایت بھی ذکر کردیتے ہیں ۔
13۔حافظ ابن تیمیہ (وفات ۷۲۸ھ):
انھوں نے حدیث((أفطر الحاجم والمحجوم۔)) کے تحت امام بخاری کی تصحیح بہ واسطہ امام ترمذی نقل کی ہے ۔ (مجموع الفتاویٰ:۲۵/۲۵۵۔یہ تصحیح العلل الکبیر : ۱/۳۶۳۰۳۶۲میں موجود ہے )
14۔امام ابن القیم (وفات۷۵۱ھ):
موصوف نے کئی مقامات پر بالصراحت کتاب العلل للترمذی سے مختلف اقوال نقل کیے ہیں ۔ (تہذیب سنن ابی داود: ۱/۲۲،۱۱۰، ۱۳۴، زاد المعاد: ۲/۲۷۶،۳۸۵، إغاثۃ اللھفان: ۱/۴۷۷ ، إعلام الموقعین: ۲/۲۵۴،۳/۴۲، الطرق الحکمیۃ،ص: ۳۰۶)
15۔حافظ علائی (وفات۷۶۱ھ):
(جامع التحصیل ،ص: ۱۴۸،۱۵۲،۱۵۵،۱۷۶، ۲۳۱)
16۔علامہ مغلطائی (وفات۷۶۲ھ):
الإکمال للمغلطائی: ۱/۳۱۶، ۲/۲۵،۳/۳۲۰، ۴/۳۲۷، ۶/۱۶۷، ۷/۳۱، ۱۳۷، ۲۲۹، ۲۸۵،إکمال المغلطائی- التراجم الساقطۃ: ۲۶۶۔ تلک عشرۃ کاملۃ ولدینا مزید۔
17۔علامہ زیلعی(وفات ۷۶۲ھ):
نصب الرایۃ : ۱/۴،۲۴، ۱۶۸، ۲۵۹، ۳۷۰،۲/۸۹،۳/۳۰۹، ۳۱۱،۳۹۵،۴/۲۳، ۵۱،۹۷، ۲۱۷، ۳۴۰، ۳۶۶،۱/۱۹۵نقلاً عن البیقہی۔( دیکھیے العلل الکبیر: ۱/۱۹۰)
18۔علامہ زرکشی (وفات۷۹۴ھ):
التذکرۃ فی الاحادیث المشتہرۃ،ص:۱۶۳، النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشی،ص: ۷۱۔ (دیکھیے العلل الکبیر : ۱/۳۳۷)
النکت ،ص: ۱۱۸۔(العلل الکبیر : ۱/۱۸۴بلفظ ’’ہذا حدیث خطأ‘‘)
(حافظ ابن رجب (وفات۷۹۵ھ):
فتح الباری: ۱/۳۰۱،۲/۲۰۹،۴۱۹،۴/۱۳۲،۴۰۵،۶/۲۹۲۔ شرح علل الترمذی: ۲/۸۵۷۔
) حافظ ابن الملقن (وفات۸۰۴ھ):
البدر المنیر: ۲/۴۳۶،۳/۳۴۱،۵/۵۶،۲۴۵، ۵۸۸، التوضیح : ۱۶/۴۲۱۔ (دیکھیے العلل الکبیر: ۱/۵۵۱)
19۔حافظ عراقی (وفات۸۰۶ھ):
التقیید والإیضاح:۱/۴۶۷، تقریب الاسانید مع شرحہ تییسر المجید:۲/۳۴۴،نسخۃ اخری مع شرحہ طرح التثریب: ۶/۱۱۸، وشرح الجامع للترمذی بہ حوالہ طرح التثریب: ۶/۱۱۸، ذیل میزان الاعتدال ،ص: ۱۶۹ترجمہ جابر العلاف۔
20۔حافظ ابو زرعہ بن الحافظ العراقی (وفات۸۲۶ھ):
المدلسین :۱۰۹، طرح التثریب : ۳/۷۱،۶/۱۱۸۔
21۔حافظ بو صیری(وفات ۸۴۰ھ):
مصباح الزجاجۃ: ۱/۱۰۱،ح:۱۴۱،۱/۱۱۰،ح: ۱۶۴، ۱/۱۴۷، ح: ۲۵۵،۱/۳۲۰،ح: ۶۵۶،۱/۳۴۹ ،ح: ۲۱۔
22۔حافظ سبط ابن العجمی (وفات۸۴۱ھ):
التبیین،ص: ۱۲۔
23۔ حافظ ابن الترکمانی ۸۴۵ھ:
الجوہر النقی: ۱۰/۷۲،۱/۳۰۰، ۴/۱۱،۱۲۔
آخری دونوں حوالے الزامی طور پر ذکر کیے گئے ہیں ۔
24۔حافظ ابن حجر (وفات۸۵۲ھ):
تہذیب التہذیب : ۱/۱۷۸،۱۹۳،۲/۱۵۹، ۳/ ۴۷، ۹۸ ، ۲۳۸، ۴/۲۷۷،۵/۶۹،۸۱، ۱۴۶،التلخیص الحبیر: ۱/۱۸۸، رقم : ۲۸۳، ۱/۲۲۵،رقم: ۳۳۶،۲/۴۸۰،رقم: ۷۷۸،۲/۵۵۳،رقم: ۹۵۰،۲/۷۲۱، رقم: ۱۳۰۰،۲/۷۶۰،رقم: ۱۳۹۷، ۳/۱۰۸۷، رقم: ۲۱۷۱،۳/۱۳۷۳، رقم: ۲۹۱۲، ۳/۱۴۰۱،۱۴۰۲،رقم: ۲۹۵۹، ۳/۱۴۱۵، رقم: ۲۹۸۰، ۵/۲۳۱۹،رقم: ۴۹۲۸، ۴۹۲۹)، ۶/۳۲۳۸،رقم: ۶۸۶۰۔
25۔علامہ عینی (وفات۸۵۵ھ):
عمدۃ القاری:۲/۲۴۱،۲۵۲، ۳/۱۱۲،۱۱۵، ۷/۱۴۹، ۹/۹،۱۲۴، ۱۰/۲۶۸،۳۰۵،۱۱/۷۷،۱۳/۲۴۵ ،۲۱/۲۴۶۔
26۔ حافظ سخاوی (وفات۹۰۲ھ):
التحفۃ اللطیفۃ:۲/۵۴، ترجمہ: ۱۲۲۷،فتح المغیث:۱/۸۵۔
27۔ حافظ سیوطی (وفات۹۱۱ھ):
تدریب الراوی :۲/۳۶۴النوع: ۶۰۔
28۔علامہ علی قاری (وفات۱۰۱۴ھ):
مرقاۃ المفاتیح: ۳/۲۹۴،۴/۲۵۴۔
29۔علامہ مناوی (وفات۱۰۳۱ھ):
فیض القدیر: ۱/۴۱،۶۸،۱۱۹، ۲۱۳، ۲۲۷، ۲۶۷، ۳۴۱، ۵۵۵، ۵۵۶،۲/۲۵۸،۲۶۰،۲۹۴،۳۲۲،۳/۲۷،۲۰۹، ۲۸۳،۳۷۶، ۴۰۷، ۴۲۶،۴/۱۶۲،۳۶۹،۴۰۶،۴۳۴،۵۳۳،۵/۵۴، ۹۲، ۱۷۸، ۲۱۴، ۲۴۱، ۳۹۷، ۶/۱۱،۵۵، ۶۲،۶۵،۷۸،۱۲۶، ۱۷۲،۱۸۴،۲۲۳،۲۲۴، ۲۶۳، ۳۴۱،۳۴۵،۴۱۷،۴۶۴۔
30۔علامہ حسین مغربی (وفات۱۱۱۹ھ):
البدر التمام : ۵/۱۵۴۔
31۔علامہ صنعانی (وفات۱۱۸۲ھ):
سبل السلام :۴/۲۰۶۔
32۔امام شوکانی (وفات۱۲۵۰ھ):
نیل الاوطار: ۱/۱۴۵،۲۷۲،۳۰۱،۳/۲۹۷نقلاً عن العراقی،۴/۱۳۱وغیرہ۔ السیل الجرار : ۱/۳۱۷نقلاً عن العراقی،۲/۲۶،۲۷وغیرہ ۔
33۔علامہ محمد عابد سندھی (وفات۱۲۵۷ھ):
انھوں نے اپنی سند سے کتاب العلل کی روایت ذکر کی ہے ۔
(حصر الشار د من اسانید محمد عابد:۱/۳۷۸،رقم : ۷۴۰)
34۔علامہ شمس الحق عظیم آبادی (وفات۱۳۲۹ھ):
غایۃ المقصود فی شرح سنن ابی داود:۱/۹۵۔
(دیکھیے العلل الکبیر:۱/۸۴)
35۔محدث عبدالرحمان مبارک پوری (وفات۱۳۵۳ھ):
تحفۃ الاحوذی: ۱/۳۵۹ح: ۷۰، ۱/۸۰۱، ح:۵۳۶، ۱/۸۶۶، ح:۶۲۱، ۱/۸۷۵، ح:۶۳۶، ۲/ ۱۷۶۲، ح:۲۱۶۷نقلاً عن الحافظ ابن حجر۔ ۱/۸۰۱،ح: ۵۳۶ نقلاً عن النیموی ونقل النیموی عن الزیلعی۔
36۔محدث احمد شاکر (وفات۱۳۷۷ھ):
محدث احمد شاکر نے العلل الکبیر للترمذی کو گم شدہ کتب میں سے قرار دیا ہے ۔ (مقدمۂ تحقیق جامع الترمذی: ۱/۹۰)
37۔علامہ معلمی (وفات۱۳۸۶ھ):
مجموعہ رسائل : ۱۴/۲۰،۲/۳۷۸،۱۱/۲۳۹۔
38۔محدث عبید اللہ رحمانی (وفات۱۴۰۴ھ):
مرعاۃ المفاتیح: ۲/۳۳،۳۴،۲۱۶،۳/۵۱۴، ۲/۳۵۸، ۷/۱۱۴ نقلاً عن البیہقی،۵/۵۵نقلا عن العراقی ،۶/۴۶۷،۴۶۸،۸/۱۸۰نقلاً عن ابن حجر،۶/۴۱۴نقلاً عن العینی،۹/۵۵۱نقلاً عن المناوی ،۵/۴۷ نقلاً عن الشوکانی۔
39۔محدث البانی (وفات۱۴۲۰ھ):
ارواء الغلیل : ۳/۱۰۸،۴/۶۹،۵/۲۱۶نقلاً عن الزیعلی،الضعیفۃ:۱۹۷نقلاً عن الذہبی،الضعیفۃ:۱۳۰۰نقلاً عن المناوی، الصحیحۃ : ۸۹۹ نقلاً عن المناوی۔
اس کے بعد جن محققین نے اس کتاب کو امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے ، ان کا ذکر نہایت طویل ہے ۔ اس لیے ہم اس سے اغماض برتتے ہیں ۔ تحقیق الاحادیث پر مشتمل کوئی بھی کتاب اُٹھالیں اس میں العلل الکبیر کے متعدد حوالے مل جائیں گے ، ان شاء اللہ ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دوسری دلیل :
امام ترمذی ناقل ہیں :
’’قال محمد: ولاأعرف لسفیان الثوری عن حبیب بن أبی ثابت ولا عن سلمۃ بن کھیل ولا عن منصور، و ذکر مشایخ کثیرۃ۔ لاأعرف لسفیان عن ھؤلاء تدلیسا، ماأقل تدلیسہ!‘‘(ترتیب العلل الکبیر : ۲/۹۶۶)
’’امام بخاری نے فرمایا: میں سفیان ثوری کی حبیب بن ابی ثابت ، سلمہ بن کہیل اور منصور سے اور دیگر مشائخ سے تدلیس کرنا نہیں جانتا ۔ ان کی تدلیس کتنی ہی کم ہے ! ‘‘
امام بخاری کا یہ قول درج ذیل محدثین اور محققین نے ذکر کیا ہے ۔ کسی نے اس قول یا اس کے مصدر (العلل الکبیر) کی نفی نہیں کی۔ حالانکہ سبھی کا بنیادی مرجع یہی کتاب ہے :
1۔حافظ ابن عبدالبر۔(التمہید: ۱/۳۵)
2۔ حافظ علائی۔(جامع التحصیل ،ص: ۱۳۰)
3۔ حافظ ابن رجب ۔(شرح علل الترمذی: ۲/۸۵۷)
4۔حافظ ابو زرعہ عراقی۔(المدلسین ،ص: ۱۰۹)
5۔حافظ سبط ابن العجمی ۔(التبیین ،ص: ۱۲)
6۔حافظ ابن حجر۔(النکت :۲/۶۳۱)
7۔حافظ سخاوی۔(فتح المغیث : ۱/۲۱۹)
8۔ذہبیِ عصر علامہ معلمی۔(ملخص طبقات المدلسین ص: ۲۶۷ ،
مجموع الرسائل الحدیثیۃ: ۱۰/۲۶۷ الرسالۃ العاشرۃ)
9۔سید محب اللہ شاہ راشدی۔( مقالات راشدیہ :۱/۳۲۵)
10۔ علامہ ابو عبیدہ مشہور بن حسن۔(بہجۃ المنتفع ،ص: ۳۸۵)
11۔ڈاکٹرخالد بن منصور الدریس۔
(الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ: ۱/۴۷۲۔۴۷۳)
12۔شیخ ابراہیم بن عبداللہ اللاحم۔(الاتصال والانقطاع،ص: ۳۲۱)
13۔شیخ حماد انصاری۔(التدلیس والمدلسون: ۳،۱۰)
14۔شیخ عبداللہ بن یوسف الجدیع۔
( تحریر علوم الحدیث: ۲/۹۷۴-۹۷۵)
15۔شیخ حمزۃ عبداللہ الملیباری۔
(الموازنۃ بین المتقدمین والمتاخرین،ص: ۲۷۵)
16۔ڈاکٹر ابو بکر الکافی ۔(منہج الامام البخاری ،ص: ۲۰۷)
17۔شیخ عبداللہ بن عبدالرحمان السعد۔
(تقدیم منہج المتقدمین ،ص: ۳۷)
18۔ شیخ مسفر بن غرم اللہ الدمینی۔
(التدلیس فی الحدیث،ص: ۱۱۷،۲۶۵)
19۔شیخ محمد بن طلعت ۔(معجم المدلسین :۳۹ نقلا عن الشیخ جدیع وص: ۲۰۶)
20۔شیخ صالح بن سعید عومار الجزائری۔(التدلیس ،ص: ۱۴۹)
21۔ شیخ عدنان علی الخضر۔(الموازنۃ بین منہج الحنفیۃ ومنہج المحدثین فی قبول الاحادیث وردھا،ص: ۳۳۳)
22۔ شیخ محمد بن عبداللہ غبان الصبحی۔
(فتنۃ مقتل عثمان بن عفان : ۲/۸۸۵)
23۔اخی ومحبی الکریم ابن بشیر الحسینوی الاثری الباکستانی۔(موسوعۃ المدلسین ،ص: ۵۵،۵۶)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تیسری دلیل: علل اور جامع ترمذی میں امام بخاری کے اقوال کا موازنہ:
العلل الکبیر کا سرسری نظر سے مطالعہ اور جامع ترمذی سے تقابل کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری کے اکثر اقوال ان دونوں کتب میں یکساں ہیں ، بلکہ بعض مقامات پر الفاظ بھی ایک جیسے ہیں،ملاحظہ ہو :
1۔ العلل الکبیر (۱/۱۰۰،۱۰۱)۔(ترمذی : ۱۷)
2۔العلل الکبیر (۱/۱۰۶)۔(ترمذی: ۲۲)
3۔العلل الکبیر (۱/۱۱۰) ۔(ترمذی : ۲۵)
4۔العلل الکبیر (۱/۱۱۵)۔(ترمذی: ۳۱)
5۔العلل الکبیر (۱/۱۶۰)۔(ترمذی : ۸۴)
چوتھی دلیل: امام ترمذی کے اقوال کا باہمی موازانہ :
سنن ترمذی اور العلل الکبیر چونکہ امام ترمذی کی تصانیف ہیں بہ ایں وجہ اسلوبِ بیان بھی ایک جیسا ہے ۔ البتہ فرق اتنا ضرور ہے کہ ترمذی میں اجمال ہے تو العلل میں تفصیل۔ بالخصوص علل کے حوالے سے العلل الکبیر میں زیادہ وضاحت ہے کیوں کہ یہ کتاب اس فن پر لکھی گئی ہے اور ترمذی میں اصل سنن ہیں ۔
اور کبھی دونوں کی عبارات میں یکسانیت ہوتی ہے ۔
معلوم ہی ہے کہ سنن ، العلل الکبیر اور العلل الصغیر تینوں مستقل کتب ہیں ۔ ان میں ایسے فوائد بھی ہیں جو صرف کسی ایک ہی کتاب کی زینت ہیں ۔
ہمارے سامنے کوئی ایسی مثال نہیں گزری جس سے معلوم ہو کہ امام ترمذی کی رائے یہاں متصادم ہے ، یعنی جامع ترمذی اور العلل الکبیر میں ۔ ان دونوں کتب میں امام ترمذی کے باہمی اقوال کا موازنہ حاضر ہے :
1۔العلل الکبیر (۱/۸۱)۔(ترمذی : ۳)
2 ۔العلل الکبیر (۱/۹۳)۔(ترمذی: ۱۳)
3۔العلل الکبیر (۱/۱۰۱)۔(ترمذی : ۱۷)
4۔العلل الکبیر (۱/۱۱۲)۔(ترمذی : ۲۵)
5۔العلل الکبیر (۱/۱۵۲) ۔(ترمذی: ۸۱)
یہ صرف پانچ مثالیں ہیں ، کئی مثالیں اوربھی پیش کی جاسکتی ہیں ۔
پانچویں دلیل:العلل الکبیر اور امام بخاری کی کتب:
امام ترمذی نے امام بخاری کے جو اقوال اپنی کتاب میں ذکر کیے ہیں وہی من و عن امام بخاری کی اپنی کتب میں موجود ہیں ۔ صرف تین مثالیں پیش ِ خدمت ہیں :
۱:عامر بن اسامہ بن عمیر الہذلی۔(العلل الکبیر:۲/۹۵۸، ترمذی:۲۱۴۷) اور تقابل کیجیے : (التاریخ الکبیر للبخاری: ۳/۳۶۹ ترجمہ : ۱۲۵۱ ، التاریخ الاوسط :۳/۵۹ ، رقم:۱۰۱)
۲:ابوریحانہ شمعون صاحب النبی e۔ (العلل الکبیر : ۲/۹۶۰) اور ملاحظہ فرمائیے: (التاریخ الکبیر : ۴/۲۶۴ ، التاریخ الاوسط :۱/۷۲۰)
۳:ابو الخلیل صالح بن ابی مریم ۔ (العلل الکبیر :۲/۹۶۱ ، ترمذی: ۱۱۳۲، ۳۰۱۷) اور دیکھیے : (التاریخ الکبیر : ۴/۲۸۹)
نیز دیکھیے اسی مقالے میں ذیلی عنوان ’’حافظ ذہبی کا بے جا اندیشہ‘‘
چھٹی دلیل :
کتاب کے مخطوط پر درج ذیل عبارت موجود ہے :
’’کتاب فیہ علل الترمذی الکبیر، رتبہ علی کتٰب الجامع ابو طالب القاضی۔‘‘
’’اس کتاب میں علل الترمذی الکبیر ہے۔ اسے جامع (ترمذی) کی ترتیب پر ابو طالب قاضی نے مرتب کیا ہے ۔ ‘‘
جیسا کہ مخطوط کی نقل سے عیاں ہے۔
(تحقیق کتاب العلل: ۱/۶۷)
نیز ابو طالب قاضی نے بھی صراحت کی ہے کہ میں نے ابو عیسیٰ الترمذی کی کتاب العلل کو جامع ترمذی کی ترتیب کے مطابق ڈھالا ہے ۔ (مقدمہ ترتیب : ۱/۷۳)
ساتویں دلیل :
جو کتب جعلی ، وضعی اورجھوٹی ہیں محدثین نے ان کی قلعی کھول دی ہے۔ وہ ان سے بے خبر نہیں رہے ۔ ماضی قریب میں جب مبتدعین نے مصنف عبدالرزاق کا خود ساختہ جز شائع کیا تو اہل توحید نے ان کی خو ب خوب خبر لی ۔ پوری دنیا میں تعاقب کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ ناشرین کے لیے مُنھ چھپانا مشکل ہو گیا ۔ صرف پاکستان ہی میں چار علماء نے اس کا رد لکھا ۔ جن میں استاذ ارشاد الحق اثری d، حافظ زبیر علی زئی ، مولانا یحییٰ گوندلوی ;اور مولانا محمد داود ارشد dشامل ہیں۔یہ مقالے ’’جعلی جزء کی کہانی اور علمائے ربانی‘‘ کے نام سے مکتبہ اسلامیہ( لاہور ، فیصل آباد) سے شائع ہو چکے ہیں۔
کتب تو ایک طرف رہیں ، محدثین تو احادیث کے الفاظ میں کمی وبیشی برداشت نہیں کرتے ۔ دوستوں نے جب مسند ابی عوانہ، مصنف ابن ابی شیبہ ، سنن ابی داود اور المستدرک للحاکم میں جزوی تحریفات کی جو سعی نامشکور کی ، وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ اہل حق نے ان کا بروقت تعاقب کیا اور ترکی بہ ترکی جواب دیا ۔ (ملاحظہ کیجیے : کتب حذر منھا علماء لابی عبیدۃ مشہور بن حسن،الردود لبکر بن عبداللہ ابی زید، زوابع فی وجہ السنۃ قدیما وحدیثا لصلاح الدین مقبول احمد)
ان کا اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کا علل الترمذی پر نقد نہ کرنا اس کے معتبر ہونے کی دلیل ہے ۔
آٹھویں دلیل :
کتاب العلل دلچسپ قصوں یا افسانوں پر مشتمل کتاب نہیں بلکہ علل الحدیث اور رجال کی معرفت پر مبنی تصنیف ہے جس سے استفادہ اہل علم و محدثین کا وظیفہ ہے ۔ محدثین عوامی کتب کے بارے میں شاید نرم رویہ اختیار کرلیں مگر وہ فن جرح و تعدیل سے متعلق کتب میں نہایت احتیاط برتتے ہیں۔ اس کے باوجود کسی نے اس کتاب کی نسبت میں شک نہیں کیا ۔
امام بیہقی سے لے کر ہنوزیہ کتاب علماء اور محققین کا مرجع رہی ہے، یہ گویا اس کی صحت پر اجماع ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نویں دلیل :
مولانا حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
’’صحت ِ کتاب : روایات وغیرہ کے صحیح ہونے کا علمی معیار یہ ہے کہ اولاً: جن کتابوں میں یہ روایات درج ہیں ان کے مصنفین بہ ذات خود ثقہ اور معتبر ہوں ۔
ثانیاً: ان کتابوں کا مصنفین تک انتساب بالتواتر یا بہ سند صحیح ہو ۔ کتاب کے دیگر نسخوں کو بھی مد نظر رکھا جائے ۔
ثالثاً:ان مصنفین کی بیان کردہ اسانید ، اقوال اور روایات بہ سند، صحیح و متصل ہو اور علت ِ قادحہ سے خالی ہوں۔‘‘
(مقدمہ نور العینین ،ص:۶۱،۶۲ ۔طبع اکتوبر ۲۰۱۲ء)
ان کے اس کلام کے پیش نظر ہم یہ کہیں گے کہ علل الترمذی الکبیر کا انتساب ’’بالتواتر‘‘ ثابت ہے۔ لہٰذا اس کا انکار درست نہیں ۔
ہماری معلومات کے مطابق کسی محدث اور محقق نے اس کتاب کا انکار نہیں کیا ۔ جو لوگ اس کی نسبت میں شک میں مبتلا ہیں ، انھیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں وہ حدیث اور مصطلح الحدیث کی خدمت کی آڑ میں اس فن کے انہدام کی طرف تو قدم نہیں بڑھا رہے ۔ واللّٰہ المستعان وعلیہ التکلان۔
نوٹ: علل الترمذی الکبیر کے علاوہ دیگر ایسی کتب ہمارے مقالے کے ’’حصہ دوم‘‘ میں آئیں گی، ان شاء اللہ العزیز ۔
دوسری مثال:سؤالات ابی عبید الآجری أبا داود السجستانی:
’’سؤالات الآجری فی معرفۃ الرجال وجرحہم وتعدیلہم‘‘ جرح و تعدیل کے متعلق امام ابو داود کے اقوال کا مجموعہ ہے۔ جس میں وہ امام شعبہ ، امام سفیان ثوری ، امام یحییٰ بن سعید القطان، امام عبدالرحمان بن مہدی ، امام یحییٰ بن معین ، امام علی بن مدینی ، امام احمد بن حنبل اور امام احمد بن صالح المصری وغیرہم کی متعدد آراء بھی نقل کرتے ہیں ۔
اسماء الرجال اور جرح و تعدیل پر مشتمل اس کتاب کی تحقیق سب سے پہلے شیخ محمد علی قاسم العمری نے کی ۔ انھیں اس کتاب کا ’’الجزء الثالث‘‘ میسر آیا ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ نے ۱۹۸۳ء میں اسے شائع کیا ۔ جو ایک جلد پر مشتمل ہے ۔
ازا ں بعد ڈاکٹر عبدالعلیم عبدالعظیم بستوسی نے از سرِ نو اِس کتاب کا جائزہ لیا ۔ مخطوط کے باقی حصے کو تلاش کیا ۔ انھیں ’’الجزء الثالث‘‘ کے ساتھ ساتھ الجزء الثانی والثالث والرابع والخامس دستیاب ہوا۔ ان میں سے بھی بعض اجزاء پورے نہیں۔ الجزء الثانی کا ابتدائی حصہ ناقص ہے۔ اس کے باقی حصے کو ناسخین یا جلد سازوں نے بغیر وضاحت کے الجزء الخامس کے آخر میں لگا دیا۔ پھر الجزء الخامس بھی آخر سے نامکمل ہے ۔ محدثین امام ابوداود کے بہت سے اقوال بہ واسطہ آجری نقل کرتے ہیں جو مطبوع کتاب میں نہیں ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیش نظر کتاب ہنوز ناقص طبع ہوئی ہے ۔
اس کتاب سے سند ملاحظہ کیجیے :
’’
سؤالات ابی عبید محمد بن علی بن عثمان الآجری أبا داود سلیمان بن الاشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد،ابن عمرو السجستانی فی معرفۃ الرجال وجرحہم وتعدیلہم۔
روایۃ ابی بکر محمد بن علی بن عدی بن علی بن زحر المنقری عن الآجری۔
روایۃ أبی الحسن احمد بن محمد بن منصور العتیقی کتابۃ عنہ۔
روایۃ أبی الحسین المبارک بن عبدالجبار الصیرفی سماعاً علیہ۔
روایۃ ابی طاہر احمد بن محمد بن احمد بن محمد ابراہیم السِّلَفی الأصبھانی۔

‘‘
(سؤالات الآجری:۱/۲۵۱، ۲۵۳، ۲۵۵، ۴۴۸،۲/۵،۷،۹۶،۹۷،۹۹)
ان راویان کے بارے میں محدثین کی آراء جانیے :
۱:ابو عبید محمد بن علی بن عثمان الآجری البصری:آجری پکی اینٹیں تیار کرنے اور فروخت کرنے والے (بھٹہ مالک ) کو کہاجاتا ہے۔ یا بغداد کی مغربی سمت ایک محلہ ’’درب الآجر‘‘ کی طرف منسوب شخص کو اس نسبت سے پکارا جاتا ہے ۔
(الانساب للسمعانی: ۱/۵۹، معجم البلدان : ۱/۵۱)
امام نووی نے انھیں اور ابو بکر بن داستہ (راوی سنن ابی داود) کو بصری قرار دیا ہے ۔( تہذیب الاسماء واللغات:۲/۲۲۵)
ان کے بصری ہونے کے باوجود خطیب بغدادی نے بھی تاریخ بغداد میں ان کے حالات ذکر نہیں کیے۔ حالانکہ بغداد منبع علم تھا اور یہاں بصریوں کی آمد و رفت رہتی تھی ۔ دیگر محدثین نے بھی ان کی شخصیت پر خاص روشنی نہیں ڈالی۔
حافظ مزی رقم طراز ہیں :
’’حافظ ابو عبید محمد بن علی بن عثمان نے ان (امام ابو داود) سے مفید مسائل بیان کیے ہیں ۔ ‘‘
(تہذیب الکمال: ۱۱/۳۶۱)
متعدد مقامات پر انھیں’’صاحب ابی داود‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ (تہذیب الکمال: ۱۴/۲۴۵، ۲۴/۴۸۹،۲۷/۶۹)
حافظ ذہبی نے بھی انھیں ’’الحافظ‘‘ کا لقب دیا ہے ۔
(سیراعلام النبلاء: ۱۳/۲۰۶)
حافظ ذہبی نے امام اسحاق کے ترجمے میں امام ابوداود کے ایک قول کے تناظر میں فرمایا ہے :ــ
’’ایسا فائدہ جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہم اسے اس لیے ذکر کر رہے ہیں تاکہ اس کا پوسٹ مارٹم کرسکیں۔ ابوعبید محمد بن علی آجری صاحب کتاب’’مسائل ابی داود‘‘ ــ-میری معلومات کے مطابق کسی نے انھیں کمزور قرار نہیں دیا- فرماتے ہیں : میں نے ابو داود سجستانی سے سنا : اسحاق بن راہویہ (کا حافظہ) وفات سے پانچ ماہ پہلے متغیر ہوگیا۔ میں نے اس دوران میں ان سے جو سماع کیا ہے اسے نظر انداز کر دیا ہے۔ یہ حکایت منکر ہے ۔ ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: ۱۱/۳۷۷)
ازاں بعد اس کی وجۂ نکارت ذکر کی ہے ۔
امام ابوداود کا مذکورہ بالاقول سؤالات الآجری کے مطبوعہ حصے میں نہیں ہے ۔ تاہم حافظ خطیب بغدادی نے اسے اپنی سند سے بیان کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد: ۶/۳۵۴،۳۵۵)
امام ابن راہویہ کے تغیر یا اختلاط پر بحث ہمارا موضوع نہیں ، حافظ ذہبی نے اس کا جواب دیا ہے ۔ ہمیں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ حافظ ذہبی کے بہ قول ابو عبید آجری کو کسی نے کمزور قرار نہیں دیا ۔
حافظ ابن حجر نے انھیں ’’الحافظ، راوی المسائل عنہ‘‘ قرار دیا ہے ۔ (تہذیب التہذیب : ۴/۱۷۰)
ڈاکٹر عبدالعلیم عبدالعظیم بستوی لکھتے ہیں:
’’کتا ب السؤالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مولف اور جامع حافظ ، ناقد، عالم ، توانا ، وسیع معلومات کے حامل ، باریک بین اور کہنہ مشق تھے ۔ رجال ، راویان ، ان کی مرویات اور ان کی علل پر ان کی گہری نظر تھی ۔ ‘‘
(مقدمۃ التحقیق السؤلات: ۱/۱۰۱)
اُنھوں نے نہایت بسط سے حافظ ابو عبید آجری کی توثیق پر مختلف قرائین ذکر کیے ہیں۔ (مقدمۃ التحقیق: ۱/۱۰۱-۱۱۱)
۲:محمد بن عدی بن زحر البصری: حافظ آجری کا یہ شاگرد مجہول الحال ہے ۔ اس کا ترجمہ موجود نہیں ہے۔
۳:ابو الحسن احمد بن محمد بن منصور العتیقی(احمد بن ابی جعفر القطیعی) ۔(وفات ۴۴۱ھ): الامام المحدث الثقۃ ۔(سیر اعلام النبلاء: ۱۷/۶۰۲)
۴:ابو الحسین المبارک بن عبدالجبار، ابن الطیور ی(وفات ۵۰۰ھ):بہت بڑے محدث ، مُکثر ، ثقہ اور صدوق راوی تھے ۔ (تفصیلی حالات کے لیے ملاحظہ ہو مقدمۃ التحقیق الطیوریات :۱/۳۱-۷۴)
۵:حافظ السِّلَفی (وفات۵۷۶ھ): نہایت مشہور محدث اور متعدد کتب کے مصنف۔ (ان کے حالات کے لیے ملاحظہ ہو مقدمۃ التحقیق الطیوریات: ۱/۷۷-۱۳۶)
گویا اس سند میں حافظ آجری کے علاوہ محمد بن عدی بن زحر مجہول راوی ہے ۔ سند ِ حدیث کے قانون کے مطابق یہ سند بھی ضعیف ہے ۔ لہٰذا مطبوع سؤالات الآجری غیر ثابت شدہ ہے !!!
خطیب بغدادی کا اس سند سے بیان کرنا :
حافظ خطیب بغدادی نے اس سند سے سؤالات الآجری کی کئی نصوص نقل کی ہیں۔ جنھیں وہ اپنے استاد ابو الحسن احمد بن محمد العتیقی القطیعی سے نقل کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تاریخ بغداد: ۱/۳۹۵۔۲/۹۳، ۱۱۶، ۲۵۸، ۲۸۰، ۲۸۳، ۳۰۹، ۳۹۵، ۳۹۶۔ ۳/۱۵، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۱، ۱۶۴، ۱۸۹ وفیہ محمد بن محمد العتیقی!!!، ۱۹۲، ۲۹۷، ۳۲۶، ۳۷۳، ۴۴۱۔۴/۵۹، ۱۹۶، ۲۷۳۔ ۵/۲۴۲،۲۴۸،۲۶۹،۲۷۵وقال: محمد بن عدی! ۲۸۰، ۴۰۸۔۶/۸۲،۱۱۴،۱۷۵،۱۹۲،۲۳۰،۲۳۲،۲۴۶،۲۶۵،۳۳۶،۳۵۴-۳۵۵۔ ۷/۴، ۱۸، ۲۳، ۲۹، ۹۰، ۱۳۸، ۱۵۱، ۱۵۲، ۲۳۸، ۲۵۱، ۲۵۳، ۲۶۳، ۳۶۵۔۸/۴۳، ۱۵۳، ۱۹۶، ۲۲۲، ۲۲۵، ۲۳۷، ۲۵۶، ۲۶۱، ۲۷۹، ۲۹۳، ۲۹۴، ۲۹۸، ۳۰۰، ۳۰۵، ۳۰۶، ۳۲۸، ۳۵۹، ۳۶۱، ۴۰۰، ۴۰۲، ۴۱۶، ۴۲۷، ۴۵۴، ۴۸۳، ۴۹۴۔۹/۳-۴، ۹، ۱۴، ۲۲، ۳۶، ۳۹، ۵۱، ۶۵، ۷۰، ۷۶، ۸۱، ۸۸، ۱۳۲، ۱۳۳، ۱۷۶، ۲۰۹، ۲۱۸، ۲۲۷، ۲۳۰، ۳۶۴، ۳۷۳، ۲۷۸، ۲۸۴، ۳۰۳، ۳۱۰، ۳۳۷، ۳۴۹، ۴۵۲، ۴۵۸، ۴۷۰۔۱۰/۸، ۱۷، ۱۹، ۲۵، ۲۰۳، ۲۱۲، ۲۱۹، ۲۳۵، ۲۳۸، ۲۵۸، ۲۶۲، ۲۶۳، ۲۶۶، ۳۱۰، ۳۱۷، ۳۹۶، ۴۹۹، ۴۱۹، ۴۲۶، ۴۲۷۔۱۱/۵، ۲۳، ۶۰، ۶۲، ۷۰، ۸۴، ۹۵، ۱۰۵، ۱۲۸، ۱۴۳، ۱۵۱، ۱۶۶، ۱۸۲، ۱۸۳، ۱۸۶، ۱۹۰، ۲۷۸، ۲۷۹، ۳۵۸، ۳۷۱، ۴۱۶، ۴۲۸، ۴۶۴، ۴۶۸۔۱۲/۴۶، ۱۱۶، ۱۱۷، ۱۶۶، ۱۸۲، ۲۰۲، ۲۰۳، ۲۰۶، ۲۳۶، ۲۴۴، ۲۶۰، ۲۶۳، ۲۶۵، ۲۷۳، ۲۷۷، ۲۹۴، ۳۱۲، ۳۵۵، ۴۰۱، ۴۷۲، ۴۷۵، ۴۸۱۔۱۳/۱۰۰، ۱۲۶، ۱۳، ۱۴۸، ۱۷۵، ۱۸۱، ۱۹۳، ۲۲۳، ۲۳۳، ۲۷۷، ۲۸۰، ۲۸۱، ۳۰۳، ۴۳۱، ۴۵۶، ۴۷۵، ۴۷۸، ۴۸۳، ۴۸۴، ۴۸۶۔۱۴/۵، ۵۳، ۷۷، ۸۳، ۹۰، ۱۱۳، ۱۲۴، ۱۲۸، ۱۳۴، ۱۴۴، ۱۷۱، ۱۸۱، ۲۷۰، ۲۷۹، ۳۳۱، ۳۶۴، ۳۷۹)
یہ تاریخ بغداد کے دو صد ایک مقامات کی نشان دہی ہے ۔ ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد ۲۳۳ ہے، یعنی بتیس مقامات اضافی ہیں۔
(موارد الخطیب فی تاریخ بغداد،ص: ۵۴۳)
خطیب بغدادی نے اپنی دیگر کتب میں بھی سؤالات الآجری سے مختلف اقوال اپنی سند سے نقل کیے ہیں۔
حافظ ابن عساکر نے بھی خطیب بغداد ی کی سند سے تاریخ دمشق میں متعدد نصوص نقل کی ہیں۔ اس کا ذکر آئندہ آرہا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حفاظ آجری کی اس کتاب پر اعتماد کرتے تھے بلکہ حافظ ذہبی کا مذکورۃ الصدر قول نقل کرکے اس کا جواب دینا بھی اسی بات کا مؤید ہے، بہ صورت دیگر وہ ویسے ہی سؤالات کا انکار کردیتے۔
سؤالات کی دوسری سند :
سؤالات الآجری کی دوسری سند حسب ذیل ہے :
’’قال الخطیب البغدادی: أخبرنی محمد بن أبی علی الأصبھانی ، أخبرنا ابو علی الحسین بن محمد الشافعی -بالأھواز- أخبرنا ابو عبید محمد بن علی الآجری…‘‘
خطیب بغدادی نے اس سند سے متعدد مقامات پر امام ابوداود کے اقوال نقل کیے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو تاریخ بغداد: ۲/۶۶، ۱۰۲، ۱۷۱، ۱۸۱، ۳۲۷۔ ۳/۲۵۵، ۲۷۴۔۴/۵۔۵/۳۴۴، ۴۲۷۔۶/۸۸، ۲۲۱۔ ۷/۸۳، ۱۲۲، ۱۲۳، ۱۲۹، ۱۳۹، ۳۱۷۔۸/۲۲۱، ۲۴۱، ۲۶۹، ۳۵۷، ۴۲۵، ۴۲۶۔۹/۵۶، ۶۹، ۷۳، ۱۴۴، ۲۱۹، ۲۳۸، ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۶۶، ۳۳۸، ۳۳۹، ۴۷۷، ۴۷۸۔۱۰/۲۲۳، ۲۳۷، ۴۲۱، ۴۲۶، ۴۲۷۔ ۱۱/۴، ۳۶۴ وفیہ محمد بن علی !!! وصوابہ محمد بن ابی علی،۴۴۵۔۱۲/۱۳۶، ۲۴۲، ۲۶۷، ۳۱۰، ۳۲۶، ۴۱۵، ۴۵۴، ۴۶۷، ۴۸۳وفیہ محمد بن علی !،۴۸۷۔ ۱۳/۱۶۹، ۲۱۵، ۴۷۵۔۱۴/۵۳، ۲۲۰، ۲۶۷وفیہ محمد بن علی !!!)
یہ پچپن نصوص ہیں ۔ ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری کے استقرا کے مطابق ۵۸ نصوص ہیں ۔
(موارد الخطیب البغدادی فی تاریخ بغداد،ص: ۵۴۳)
راویان سند پر تبصرہ ملاحظہ ہو :
۱: خطیب بغدادی: یہ معروف اور متقن محدث ہیں ۔
۲: محمد بن ابی علی الاصبہانی( محمد بن الحسن بن احمد ابو الحسین الاہوازی) (وفات ۴۲۸ھ): یہ جھوٹ کی تہمت سے متصف ہے ۔ مگر صحیح السماع ہے جس کی گواہی حافظ بغدادی نے دی ہے ۔ بنا بریں اُنھوں نے اس کے سماع کا اعتبار کیا ہے ۔(تاریخ بغداد: ۲/۲۱۸، ۲۱۹، میزان الاعتدال: ۳/۵۱۶ ترجمہ : ۷۳۸۸، لسان المیزان: ۷/۶۵، ۶۶ بتحقیق ابی غدۃ)
۳: ابو علی الحسین بن محمد الشافعی : ان کے حالات نہیں ملے۔
اگر سند ِ حدیث پر کھنے کا اُصول یہاں بھی منطبق کیا جائے تو یقینا سند ِ کتاب کمزور ٹھہرتی ہے مگر اس کے باوجود محدثین کے ہاں سؤالات الآجری امام ابوداود کی آراء کا معتبر مجموعہ ہے ۔ چند نام ملاحظہ کیجیے:
1… امام ابو احمد حسن بن عبداللہ بن سعید العسکری (وفات۳۸۲ھ) نے براہِ راست حافظ آجری سے امام ابوداود کے تین اقوال نقل کیے ہیں۔ (تصحیفات المحدثین للعسکری :۱/۱۷، ۳۶، ۴۴)
2… حافظ ابن عساکر (وفات۵۷۱ھ): یہ حافظ خطیب بغدادی کی سند سے نقل کرتے ہیں ۔ (تاریخ دمشق:۹/۴۴-۴۵۔ ۱۲/۳۴۵۔۲۲/۱۹۵، ۲۰۱۔ ۳۴/۲۵۰۔ ۴۹/۶۹، ۴۶۱۔ ۵۰/۶۹۔ ۵۱/۳۵۲۔ ۵۳/۲۶۸۔۶۰/۱۳۳۔۶۳/۸۹)
3… حافظ مزی (وفات ۷۴۲ھ)۔(تہذیب الکمال: ۱/ ۴۱۸۔ ۲/۳۳۷۔ ۳/۲۷۴۔ ۴/۸۵، ۴۶۱۔۵/۱۷۰، ۳۴۲، ۵۷۲۔ ۶/۳۲۴۔ ۷/۶۲وغیرہ )
4… حافظ ذہبی (وفات۷۴۸ھ)۔(سیر اعلام النبلاء: ۴/۵۲۸، ۵۷۸۔ ۵/۱۶۹۔ ۷/۳۵۳۔ ۸/۶، ۱۶۔ ۹/۱۵۲، ۲۰۸، ۲۶۶، ۳۵۰، ۳۶۹، ۳۷۳، ۴۰۵، ۴۴۴، ۳۸۲، ۵۲۴، ۵۵۵)
5… حافظ مغلطائی (وفات۷۶۲ھ)۔(اکمال تہذیب الکمال: ۱/۱۰، ۵۲، ۱۶۹، ۳۲۷۔ ۲/۵۳، ۱۱۹، ۱۵۶، ۲۰۲، ۲۳۲، ۲۳۸، ۲۷۷، ۳۱۰، ۳۳۲، ۳۴۴، ۴۱۴)
6…حافظ ابن حجر(وفات ۸۵۲ھ)۔(تہذیب التہذیب: ۱/ ۵۰، ۱۰۰، ۱۱۲۔۴/۱۷۲، ۲۵۷۔ ۵/۱۲۹۔ ۶/۳۴۶۔ ۹/۶۲۔ ۱۰/۲۴۱)
7… حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ابو عبید آجری نے امام ابوداود سے سوالات کے بارے میں مفید کتاب لکھی ہے۔
(اختصار علوم الحدیث،ص: ۴۱)
علاوہ ازیں کئی محدثین اور محققین نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے اورکسی نے اسے ابو عبید کی وجہ سے غیر معتبر نہیں کہا ۔
سؤالات کے مطبوعہ نسخے کے مطابق اہل علم کے سماعات بھی اس کی ثقاہت کو چار چاند لگا دیتے ہیں جو یہاں موجود ہیں ۔ اس کتاب کی صحت ِ نسبت کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالعلیم عبدالعظیم بستوی نے مختلف پہلوئوں سے نہایت وقیع بحث کی ہے۔
(مقدمہ سؤالات :۱/۱۰۱-۱۳۱، مقدمۃ التحقیق از محمد علی قاسم العمری ،ص: ۶۲-۸۱)
حاصل مبحث:
سؤالات الآجری حافظ آجری کی معتبر تصنیف اور امام ابوداود کے اقوال کا مستند ذخیرہ ہے۔ لیکن اگر اسنادی حیثیت ہی کو صحت ِ کتاب کی شرط قرار دیا جائے تو اس کتاب کے علاوہ دیگر کئی ایسی کتب سے ہاتھ دھونا ہوں گے جنھیں محدثین قابل بھروسہ سمجھتے آئے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم خبیب صاحب کے بالا مقالے کا جواب شیخ زبیر صاحب کے شاگرد اور رفیق کار محترم حافظ ندیم ظہیر صاحب نے ماہنامہ الحدیث کے شمارہ نمبر 129۔132 میں آخری 6 صفحات میں درج ذیل عنوان سے رقم فرمایا ہے :
اس تحریر کو بصورت پی ڈی ایف اس لنک سے بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔
( اگر اس کا ٹیکسٹ میسر ہوگیا تو اسی پوسٹ میں اسے پیش کردیا جائے گا ۔ إن شاء اللہ )
خبیب صاحب نے ندیم ظہیر صاحب کی اس تحریر کا کیا جواب دیا ہے ؟ آئندہ شراکتوں میں ملاحظہ کیجیے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
سند ِ کتاب میں منہجی غلطی کا جائزہ

محمد خبیب احمد (ادارہ علوم اثریہ، فیصل آباد)
محدثینِ عظام نے صیانت ِ حدیث کے لیے سند کا قابلِ رشک اہتمام کیا جس کی اہمیت کا کسی بھی انصاف پسند کو انکار نہیں۔ مگر اس سے یہ کشید کرنا کہ تمام مقامات پر حدیث پر کھنے کے بس یہی اصول ہیں، ہمارے نزدیک یہ ایک منہجی غلطی ہے جس کی وضاحت ہم اپنے مضمون ’’سند ِ کتاب اور منہج محدثین ‘‘ (مطبوع: ہفت روزہ الاعتصام، لاہور۔جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴، ۲۵) میں کر چکے ہیں۔ اس کا اکثر حصہ مولانا زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی زندگی میں لکھا جاچکا تھا جو درحقیقت ان کے مضمون ’’جمہور محدثین اور مسئلہ تدلس ‘‘ کے رد میںایک حصے کا جواب تھا۔ ان کا مضمون تین اقساط میں ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، حضرو (شمارہ: ۱۰۱-۱۰۳،جنوری تا مارچ ۲۰۱۳ء )میں شائع ہوا تھا۔ ان کی علالت اور پھر رحلت کے بعد اس سلسلے کو ختم کرنا مناسب سمجھا۔ اور تقریباً سوادو سال بعد نہایت مثبت انداز میں (جس کی گواہی اہلِ علم دیں گے، ان شاء اللہ۔بلکہ مولانا مرحوم سے متعلق حصے کو ویسے ہی علیحدہ کر لیا!) چند اضافوں کے ساتھ ہفت روزہ الاعتصام (لاہور) میں اشاعت کے لیے بھیج دیا۔
محدثِ جلیل علامہ حافظ زبیر علی زئی (نور اللہ مرقدہ و تقبل اللہ حسناتہ و جھودہ) کا شمار پاکستان کے نام وَر علماء اور محققین میں ہوتا ہے جس کی شہادت وسعتِ مطالعہ کی غماز ان کی تالیفات اور تحقیقات دیتی ہیں۔
وسعتِ علمی کے باوجود مصطلح الحدیث کے بعض مسائل میں ان سے شذوذ سرزد ہوئے۔ اگر یہ اُصول ان کی شخصیت تک محدود رہتے تو ہمیں بھی اعتراض نہ ہوتا کہ دیگر اہلِ علم کے شذوذ معروف ہیں۔ مگر جب اُنھوں نے اپنے اُصولوں پر محدثین کے اُصول کا لیبل چسپاں کیا تو ہمیں بھی اظہارِ حق کے لیے قلم کو جنبش دینا پڑی جس پر راقم الحروف کی کتاب ’’مقالاتِ اثریہ‘‘ کے صفحات گواہ ہیں۔
ایسے ہی ان کے ایک تفرد کا دفاع کرنے اور راقم کے مضمون کی تردید کے لیے مولانا مرحوم کے شاگرد خاص مولانا حافظ ندیم ظہیر صاحب نے ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ، حضرو (شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،مئی تا اگست ۲۰۱۵ء ) میں ایک مضمون بہ عنوان ’’مقالہ ’’سند ِ کتاب اور منہجِ محدثین‘‘ پر ایک نظر‘‘ لکھا جو عبارت ہے نفسِ مضمون کے جواب کی بجائے سیاق و سباق کو نظر انداز کر تے ہوئے قلم کاری سے۔
راقم السطور نے اسے قابلِ التفات نہ سمجھا۔ مگر جب ان کا مضمون سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گیا اور مولانا مرحوم کے بعض شاگرد حسبِ افتادِ طبع راقم کو مطعون کرتے ہوئے مولانا ندیم اور مولانا زبیر صاحبان کے بعض مضامین کے جواب کا نہایت شدت سے اصرار کرنے لگے۔
بنا بریں ہم اپنے گزشتہ مضمون ’’سند ِ کتاب اور منہج محدثین ‘‘ کو مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس کے حصہ دوم میں مولانا ندیم صاحب کے غلط طرزِ عمل کی حقیقت پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ۔
 
Top