- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
سند کتاب اور منہجِ محدثین
محمد خبیب احمد(ادارہ علوم اثریہ، فیصل آباد )
( ہفت روزہ الاعتصام، لاہور۔جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴، ۲۵ )
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُمت ِ محمدیہ کو جن امتیازات سے نوازا ہے ان میں ایک جداگانہ وصف سند کا اہتمام ہے ۔ اساطین اُمت اگر حفظِ سند کا اہتمام نہ کرتے تو یقینا اسلام کے چراغ گل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی شمع دان بھی ختم ہو جاتی ۔ اور اس بلدۂ طیبہ کی فصیل میں ملحدین اور مبتدعین کو وضع حدیث کے خطرناک ہتھیاروں سے نقب زنی کا کامیاب موقع مل جاتا۔ اسانید الٹ پلٹ کرنا اور متونِ حدیث خلط ملط کرنا ان کے لیے سہل ہو جاتا ۔ حفظِ اسناد کی صورت میں اس اُمت پر احسانِ عظیم فرمایا گیا۔ حاملین سند کو عزت بخشی گئی ۔ اہل حدیث نے اسے دین کا حصہ قرار دیا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ، چنانچہ شیخ الاسلام عبداللہ بن مبارک (وفات۱۸۱ ھ) فرماتے ہیں :( ہفت روزہ الاعتصام، لاہور۔جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴، ۲۵ )
’’میرے نزدیک سند دین ہے ۔ اگر سند نہ ہوتی تو جس کا جو جی چاہتا وہ کہتا ۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم، رقم: ۳۲،العلل الصغیر للترمذی،ص: ۸۹۰ )
نیز فرمایا:
’’ہمارے درمیان اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق سند کا ہے ۔ ‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم )
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’اگر سند نہ ہوتی اور محدثین کی جماعت اس کا اہتمام نہ کرتی تو اس اُمت میں دین کی تبدیلی ظاہر ہو جاتی جیسے باقی اُمتوں میں ہوئی ہے ۔‘‘ (المجروحین: ۱/۲۵، مقدمۃ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے یوں توضیح فرمائی:
’’اگر سند اور اس کو طلب کرنے والی اور اس کے حفظ پر انتہائی پابندی کرنے والی یہ جماعت نہ ہوتی تو اسلام کے نشانات قدیم العہد ہو جاتے۔ ملحدین اور مبتدعین کو اس میں جعلی احادیث شامل کرنے کا اور اسانید الٹ پلٹ کرنے کا موقع خوب میسر آتا ۔ جب اخبار (احادیث) اسانید کے وجود سے الگ ہوں گی تو وہ کٹی ہوں گی ۔ ‘‘
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ،ص: ۶)
اسی بنا پر محدثین نے حدیث کے علاوہ تفسیر ، تاریخ ، فقہ ، رجال ، انساب ، لغت ، ادب ، نحو ، اشعار اور حکایات میں سند کا اہتمام کیا ہے ، بلکہ وہ مزاحیہ باتوں کو بھی باسند بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جیسے خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’التطفیل و حکایات الطفیلیین‘‘ اور ’’البخلاء‘‘ میں سند کو ملحوظ رکھا ہے ۔ حافظ ابن جوزی بھی اس قبیلکی کتابوں میں عام طور پر سند کا اہتمام کرتے ہیں ۔
امام احمد کے شاگرد امام ابو بکر احمد بن محمد بن حجاج، جو مروزی کے نام سے معروف ہیں ، نے أخبار الشیوخ واخلاقهم بھی باسند بیان کی ہے ، اس کی بابت کئی اور مثالیں بھی ذکر کی جا سکتی ہیں۔ محدثین کی سند سے وابستگی کا عالم یہ ہے کہ وہ صرف ایک ایک کلمے کی توضیح کے لیے تین چار سطری سند بیان کرتے ہیں ۔
احادیث کی طویل ترین اسانید پر مشتمل کتب سداسیات، سباعایت، ثمانیات ، تساعیات اور عشاریات بھی اس کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں ۔
یہاں یہ اشارہ بھی ضروری ہے کہ سابقہ ملتیں حفظِ سند کی خوبی سے یکسر تہی دامن تھیں ،یہاں تک کہ ان کی مذہبی کتب کی اسانید بھی نہیں ملتیں۔
سند اور اتصالِ سند کی اہمیت مسلّم ہے جس سے انکار کی مجال نہیں۔ اہل فن کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے ہر ہر فن کے لیے علیحدہ علیحدہ اُصولوں کی داغ بیل ڈالی ہے ۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور دیگر اعیانِ اُمت کی طرف منسوب اقوال کو پرکھنے کے لیے تفریق کرتے ہیں۔ احادیث نبویہ میں بھی ان کا منہج یکساں نہیں ، احکام و عقائد اور فضائل و رقائق وادعیہ سے متعلق منہج ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ پھر احکام سے متعلق احادیث میں ان کا اسلوب ِنقد یکساں نہیں ۔ جو حدیث اپنے موضوع میں اساسی حیثیت کی حامل ہو اس کے اور جو شواہد میں مندرج ہوتی ہے ، اس کے مابین فرق ملحوظ رکھتے ہیں۔ ایک قسم پر طرز تنقید دوسری قسم سے جدا ہے ۔ ان کی دقیق نظری شہادت دیتی ہے کہ اللہ ذوالجلال والاکرام ان کے علم کے تائید کنندہ ہیں۔
ائمہ کرام کے نزدیک اساطین اُمت کے دین سے متعلق اور عمومی بود و باش سے متعلق اقوال و افعال کو پرکھنے میں فرق کیاجائے گا ۔
اُنھوں نے حدیث کی صحت و ضعف معلوم کرنے کے لیے اتصالِ سند ، ثقہ راویان اور عدمِ شذوذوعلت جیسے نہایت سخت اُصول متعارف کروائے ہیں ۔ جو محض حدیث پر حکم لگانے کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص ان کڑے اُصولوں کو حدیث کے علاوہ کسی اور فن پر لاگو کرے گا تو نتیجتاً اس فن کا معتدبہ ذخیرہ رائیگاں ہو جائے گا اور ایسا فائدہ بہ ذات خود محلِ نظر ہوگا۔ مثال کے طور پر حدیث جانچنے کے اُصول اگر جاہلی اشعار ، راویانِ حدیث کے حالات اور عمومی واقعات پر منطبق کیے جائیں تو شاید بہت کم اشیاء مقرر کردہ معیار پر پوری اتریں، باقی سب کالعدم ہو جائیں ۔ بہ الفاظِ دیگر راویِ حدیث کی ثقاہت و عدالت معلوم کرنے کے جواُصول محدثین نے قائم کیے ہیں انھیں دورِ رواں کے صحافی حضرات پر منطبق کیا جائے تو اس کے نتیجے کا ہر ذی شعور اندازہ کرسکتا ہے۔
Last edited: