- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
۱۳۔ سؤالات أبي داود للإمام أحمد:
امام ابوداود نے امام احمد سے جوسوالات کیے اور امام احمد نے ان کے جو جو ابات دیے، نیز امام ابوداود نے جرح و تعدیل کے بارے میں امام احمد سے جو سنا، اُنھوں نے اس کتاب میں ذکر کر دیا ہے۔ اس مطبوع کتاب میں پانچ صد ستر (۵۷۰) فقرے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کتاب کو کسی نے امام ابوداود یا امام احمد کی تصنیفات میں ذکر نہیں کیا، سوائے فواد سزگین، شیخ البانی اور یاسین محمد السواس کے، اُنھوں نے ذکر کیاہے کہ مکتبہ ظاہر یہ(دمشق) میں اس کا مخطوط موجود ہے۔ جس کی تفصیل محققِ کتاب شیخ زیاد محمد منصور نے مقدمۂ تحقیق میں ذکر کی ہے۔ (سؤالات ،ص: ۱۰۱)
اس کے قلمی نسخے کی سند بھی موجودنہیں، سوائے سند کے کچھ حصے کے۔
ڈاکٹر زیاد رقم طراز ہیں:
(۱) ’’مولف تک نسبت ِ کتاب کی تحقیق: اس کتاب کو اصحابِ مصادر نے امام احمد یا امام ابوداود کی تصنیفات میں ذکر نہیں کیا ،سوائے اس چھوٹے پیمانے کے جس کا ذکر ابھی ہوا کہ مکتبہ ظاہریہ (دمشق، شام ) کی فہرستوں کے ذریعے سے۔‘‘ (مقدمۂ تحقیق،ص: ۱۰۳)
(۲) ’’جو قیمتی نسخہ میرے سامنے ہے، میں اس کی سند پر مطلع نہیں ہوا، سوائے کچھ حصے کے جو کتاب کے بعض ابواب کے شروع میں ہے۔ اس میں ہے: أخبرنا أوحدثنا الحسین حدثنا سلیمان قال: سمعت أحمد وتارۃ: قلت لأحمد۔‘‘(مقدمۂ تحقیق،ص: ۱۲۳)
گویا یہ کتاب بھی شیخ کے اُصول کے مطابق غیر معتبر ہے۔ مگر اس کے باوجود اُنھوں نے اس کتاب کے متعدد حوالے دیے ہیں،مثلاً:
1…مقالات:۴/۴۵۶۔
2…مقالات :۶/۱۳۷-۱۳۹۔
3…فتاویٰ علمیہ :۲/۳۵۳،۳۵۴۔
مولانا موصوف نے اس کتاب کو امام ابوداود کی تالیفات میں ذکر کیا ہے۔ (تحقیقی مقالات :۶/۱۱۹)
۱۴۔ الرسالۃ إلی أہل مکۃ:
امام ابوداود (صاحب السنن) نے سنن ابی داود کے تعارف کے لیے باشندگانِ مکہ کی طرف ایک خط ارسال کیا جو ’’رسالۃ الإمام أبي داود السجستاني إلی أہل مکۃ في وصف سننہ‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔
مولانا زبیر نے اپنی کتاب ’’اہل حدیث؛ ایک صفاتی نام اور اجماع ‘‘ کے تحت چھٹا حوالہ امام ابوداود کا ذکر کیا ہے۔ امام صاحب کا قول نقل کرنے کے بعد یوں حوالہ دیا ہے :
’’رسالۃ أبي داود إلی أہل مکۃ في وصف سننہ، ص:۳۰ و مخطوط،ص:۱۔‘‘
(اہل حدیث ایک صفاتی نام،ص: ۳۰)
نیز امام ابوداود کے حالات ِ زندگی میں ان کی علمی خدمات میں ’’رسالۃ في وصف تألیفہ لکتاب السنن‘‘ کا ذکر کیا ہے۔( تحقیقی مقالات: ۶/۱۱۹)
حالانکہ اس کتاب کو امام ابوداود سے روایت کرنے والے ابو بکر محمد بن عبدالعزیز الہاشمی ہیں۔ (رسالۃ الإمام أبي داود إلی أہل مکۃ في وصف سننہ،ص: ۳۰۔تحقیق: عبدالفتاح أبوغدۃ)
اس راوی کی توثیق موجود نہیں، البتہ امام ابن جُمیع الصیداوي (وفات: ۴۰۲ھ) نے انھیں اپنے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔ (معجم الشیوخ للصیداوي، ص: ۱۲۶، ترجمۃ: ۷۸) اور متذکرہ بالا رسالے کا بھی ذکر کیا ہے۔
شیخِ مکرم کی قائم کردہ کسوٹی پر یہ رسالہ بھی پورا نہیں اترتا، لہٰذا اِسے امام ابوداود کی طرف منسوب کرنا چہ معنی دارد؟
ہمارے نزدیک یہ رسالہ ثابت ہے، چنانچہ امام ابودادرقم طراز ہیں:
’’اس سنن میں کتب کی تعداد اٹھارہ اجزاء پر مشتمل ہے جن میں مراسیل بھی شامل ہیں۔ (ان اٹھارہ) میں سے ایک جز مراسیل پر مبنی ہے۔ ‘‘ (الرسالۃ ،ص: ۵۱)
غور طلب بات یہ ہے کہ سنن ابی داود میں علیحدہ طور پر مراسیل موجود نہیں۔جس کا تقاضا ہے کہ ایک مستقل کتاب موجود ہونی چاہیے۔ اوریہ کتاب ’’کتاب المراسیل ‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوداود نے اسے السنن کے آخر میں درج کیاتھا، ازاں بعد علیحدہ چھپتی رہی۔ جس طرح امام ترمذی نے سنن ترمذی کے آخر میں علل الترمذي الصغیر کو ملحق کیا ہے جواب بھی سنن کے ساتھ مطبوع ہوتی ہے۔
گویا امام ابوداود نے اپنے خط میں جہاں سنن ابی داود کا تعارف کروایا وہاں ’’المراسیل ‘‘ کا بھی ذکر کر دیا۔ اور یہ بات معروف ہے کہ اہلِ علم اپنی ایک کتاب میں دوسری کتب کا اِحالہ کرتے ہیں۔
محدثین کی ایک معتدبہ جماعت نے مصطلح الحدیث اور تخریج الحدیث کی کتب میں اس رسالے کا ذکر کیا ہے یا اس سے امام ابوداود کے اقوال نقل کیے ہیں۔ بلکہ مولانا زبیر کے نقل کردہ دو اقوال ابھی مذکور ہوئے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ مولانا موصوف بھی اسے امام ابوداود ہی کا خط سمجھتے تھے۔
مولانا مرحوم اس خط کو امام ابوداود کا خط قرار دے کر لکھتے ہیں:
’’تنبیہ: سؤالات الآجري کے نام سے جو کتاب مطبوع و مخطوط ہے وہ ابو عبید الآجری (مجہول) کی وجہ سے امام ابوداود سے ثابت ہی نہیں۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات: ۶/۱۱۹)
حالانکہ رسالۃ أبي داود کو امام صاحب سے بیان کرنے والے راوی کی توثیق بھی مطلوب ہے! ان کے اُصول کے مطابق اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ سؤالات الآجري کی امام ابوداود کی طرف نسبت کی نفی اور رسالۃ أبي داود کی صحت ِ نسبت کا اثبات، چہ معنی دارد؟
۱۵۔ تسمیۃ الإخوۃ لأبي داود:
’’تسمیۃ الإخوۃ الذین روي عنہم الحدیث ‘‘ کا شمار بھی امام ابوداود کی تصانیف میں ہوتا ہے۔ آٹھ اوراق پر مشتمل یہ کتابچہ دارالکتب الظاہر یۃ(دمشق) کی زینت تھا جسے ڈاکٹر باسم فیصل الجوابرۃ نے تحقیق کے بعد شائع کیا۔
یہ رسالہ (۹۲۴) فقروں پر مشتمل ہے۔ اس کے راوی بھی ابوعبید آجری ہیں۔ امام ابوداود نے یہ کتاب امام علی بن المدینی کی کتاب ’’تسمیۃ من روي عنہ من أولاد العشرۃ وغیرہم من أصحاب رسول اللّٰہ رحمہ اللہ ‘‘ کو پیشِ نظر رکھ کرمرتب کی ہے جس کی اُنھوں نے وضاحت بھی کی ہے۔
(تسمیۃ الإخوۃ لأبي داود،ص: ۱۶۲)
امام ابوداود کا یہ رسالہ ’’الرواۃ من الإخوۃ والأخوات‘‘ کے ضمن میں مطبوع ہے۔ جسے دارالرایۃ (الریاض) نے ۱۹۸۸ء میں شائع کیا ہے۔ اس مجموعے میں پہلی کتاب امام علی بن مدینی کی، دوسری امام ابوداود کی اور تیسری کتاب خود محقق کی ہے جو ان دونوں کتب پر استدراک ہے۔
امام ابوداود کے رسالے میں ابو عبید آجری کی جہالت کے علاوہ محمد بن علي بن عدي بن زحر المنقريبھی ہے جس پر تبصرہ ’’سؤالات الآجري‘‘ کے تحت گزر چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے اس کتاب کو امام ابوداود کی طرف منسوب کرنے میں شک کا اظہار نہیں کیا!
امام ابوداود نے امام احمد سے جوسوالات کیے اور امام احمد نے ان کے جو جو ابات دیے، نیز امام ابوداود نے جرح و تعدیل کے بارے میں امام احمد سے جو سنا، اُنھوں نے اس کتاب میں ذکر کر دیا ہے۔ اس مطبوع کتاب میں پانچ صد ستر (۵۷۰) فقرے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کتاب کو کسی نے امام ابوداود یا امام احمد کی تصنیفات میں ذکر نہیں کیا، سوائے فواد سزگین، شیخ البانی اور یاسین محمد السواس کے، اُنھوں نے ذکر کیاہے کہ مکتبہ ظاہر یہ(دمشق) میں اس کا مخطوط موجود ہے۔ جس کی تفصیل محققِ کتاب شیخ زیاد محمد منصور نے مقدمۂ تحقیق میں ذکر کی ہے۔ (سؤالات ،ص: ۱۰۱)
اس کے قلمی نسخے کی سند بھی موجودنہیں، سوائے سند کے کچھ حصے کے۔
ڈاکٹر زیاد رقم طراز ہیں:
(۱) ’’مولف تک نسبت ِ کتاب کی تحقیق: اس کتاب کو اصحابِ مصادر نے امام احمد یا امام ابوداود کی تصنیفات میں ذکر نہیں کیا ،سوائے اس چھوٹے پیمانے کے جس کا ذکر ابھی ہوا کہ مکتبہ ظاہریہ (دمشق، شام ) کی فہرستوں کے ذریعے سے۔‘‘ (مقدمۂ تحقیق،ص: ۱۰۳)
(۲) ’’جو قیمتی نسخہ میرے سامنے ہے، میں اس کی سند پر مطلع نہیں ہوا، سوائے کچھ حصے کے جو کتاب کے بعض ابواب کے شروع میں ہے۔ اس میں ہے: أخبرنا أوحدثنا الحسین حدثنا سلیمان قال: سمعت أحمد وتارۃ: قلت لأحمد۔‘‘(مقدمۂ تحقیق،ص: ۱۲۳)
گویا یہ کتاب بھی شیخ کے اُصول کے مطابق غیر معتبر ہے۔ مگر اس کے باوجود اُنھوں نے اس کتاب کے متعدد حوالے دیے ہیں،مثلاً:
1…مقالات:۴/۴۵۶۔
2…مقالات :۶/۱۳۷-۱۳۹۔
3…فتاویٰ علمیہ :۲/۳۵۳،۳۵۴۔
مولانا موصوف نے اس کتاب کو امام ابوداود کی تالیفات میں ذکر کیا ہے۔ (تحقیقی مقالات :۶/۱۱۹)
۱۴۔ الرسالۃ إلی أہل مکۃ:
امام ابوداود (صاحب السنن) نے سنن ابی داود کے تعارف کے لیے باشندگانِ مکہ کی طرف ایک خط ارسال کیا جو ’’رسالۃ الإمام أبي داود السجستاني إلی أہل مکۃ في وصف سننہ‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔
مولانا زبیر نے اپنی کتاب ’’اہل حدیث؛ ایک صفاتی نام اور اجماع ‘‘ کے تحت چھٹا حوالہ امام ابوداود کا ذکر کیا ہے۔ امام صاحب کا قول نقل کرنے کے بعد یوں حوالہ دیا ہے :
’’رسالۃ أبي داود إلی أہل مکۃ في وصف سننہ، ص:۳۰ و مخطوط،ص:۱۔‘‘
(اہل حدیث ایک صفاتی نام،ص: ۳۰)
نیز امام ابوداود کے حالات ِ زندگی میں ان کی علمی خدمات میں ’’رسالۃ في وصف تألیفہ لکتاب السنن‘‘ کا ذکر کیا ہے۔( تحقیقی مقالات: ۶/۱۱۹)
حالانکہ اس کتاب کو امام ابوداود سے روایت کرنے والے ابو بکر محمد بن عبدالعزیز الہاشمی ہیں۔ (رسالۃ الإمام أبي داود إلی أہل مکۃ في وصف سننہ،ص: ۳۰۔تحقیق: عبدالفتاح أبوغدۃ)
اس راوی کی توثیق موجود نہیں، البتہ امام ابن جُمیع الصیداوي (وفات: ۴۰۲ھ) نے انھیں اپنے اساتذہ میں ذکر کیا ہے۔ (معجم الشیوخ للصیداوي، ص: ۱۲۶، ترجمۃ: ۷۸) اور متذکرہ بالا رسالے کا بھی ذکر کیا ہے۔
شیخِ مکرم کی قائم کردہ کسوٹی پر یہ رسالہ بھی پورا نہیں اترتا، لہٰذا اِسے امام ابوداود کی طرف منسوب کرنا چہ معنی دارد؟
ہمارے نزدیک یہ رسالہ ثابت ہے، چنانچہ امام ابودادرقم طراز ہیں:
’’اس سنن میں کتب کی تعداد اٹھارہ اجزاء پر مشتمل ہے جن میں مراسیل بھی شامل ہیں۔ (ان اٹھارہ) میں سے ایک جز مراسیل پر مبنی ہے۔ ‘‘ (الرسالۃ ،ص: ۵۱)
غور طلب بات یہ ہے کہ سنن ابی داود میں علیحدہ طور پر مراسیل موجود نہیں۔جس کا تقاضا ہے کہ ایک مستقل کتاب موجود ہونی چاہیے۔ اوریہ کتاب ’’کتاب المراسیل ‘‘ کے نام سے مطبوع ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوداود نے اسے السنن کے آخر میں درج کیاتھا، ازاں بعد علیحدہ چھپتی رہی۔ جس طرح امام ترمذی نے سنن ترمذی کے آخر میں علل الترمذي الصغیر کو ملحق کیا ہے جواب بھی سنن کے ساتھ مطبوع ہوتی ہے۔
گویا امام ابوداود نے اپنے خط میں جہاں سنن ابی داود کا تعارف کروایا وہاں ’’المراسیل ‘‘ کا بھی ذکر کر دیا۔ اور یہ بات معروف ہے کہ اہلِ علم اپنی ایک کتاب میں دوسری کتب کا اِحالہ کرتے ہیں۔
محدثین کی ایک معتدبہ جماعت نے مصطلح الحدیث اور تخریج الحدیث کی کتب میں اس رسالے کا ذکر کیا ہے یا اس سے امام ابوداود کے اقوال نقل کیے ہیں۔ بلکہ مولانا زبیر کے نقل کردہ دو اقوال ابھی مذکور ہوئے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ مولانا موصوف بھی اسے امام ابوداود ہی کا خط سمجھتے تھے۔
مولانا مرحوم اس خط کو امام ابوداود کا خط قرار دے کر لکھتے ہیں:
’’تنبیہ: سؤالات الآجري کے نام سے جو کتاب مطبوع و مخطوط ہے وہ ابو عبید الآجری (مجہول) کی وجہ سے امام ابوداود سے ثابت ہی نہیں۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات: ۶/۱۱۹)
حالانکہ رسالۃ أبي داود کو امام صاحب سے بیان کرنے والے راوی کی توثیق بھی مطلوب ہے! ان کے اُصول کے مطابق اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ سؤالات الآجري کی امام ابوداود کی طرف نسبت کی نفی اور رسالۃ أبي داود کی صحت ِ نسبت کا اثبات، چہ معنی دارد؟
۱۵۔ تسمیۃ الإخوۃ لأبي داود:
’’تسمیۃ الإخوۃ الذین روي عنہم الحدیث ‘‘ کا شمار بھی امام ابوداود کی تصانیف میں ہوتا ہے۔ آٹھ اوراق پر مشتمل یہ کتابچہ دارالکتب الظاہر یۃ(دمشق) کی زینت تھا جسے ڈاکٹر باسم فیصل الجوابرۃ نے تحقیق کے بعد شائع کیا۔
یہ رسالہ (۹۲۴) فقروں پر مشتمل ہے۔ اس کے راوی بھی ابوعبید آجری ہیں۔ امام ابوداود نے یہ کتاب امام علی بن المدینی کی کتاب ’’تسمیۃ من روي عنہ من أولاد العشرۃ وغیرہم من أصحاب رسول اللّٰہ رحمہ اللہ ‘‘ کو پیشِ نظر رکھ کرمرتب کی ہے جس کی اُنھوں نے وضاحت بھی کی ہے۔
(تسمیۃ الإخوۃ لأبي داود،ص: ۱۶۲)
امام ابوداود کا یہ رسالہ ’’الرواۃ من الإخوۃ والأخوات‘‘ کے ضمن میں مطبوع ہے۔ جسے دارالرایۃ (الریاض) نے ۱۹۸۸ء میں شائع کیا ہے۔ اس مجموعے میں پہلی کتاب امام علی بن مدینی کی، دوسری امام ابوداود کی اور تیسری کتاب خود محقق کی ہے جو ان دونوں کتب پر استدراک ہے۔
امام ابوداود کے رسالے میں ابو عبید آجری کی جہالت کے علاوہ محمد بن علي بن عدي بن زحر المنقريبھی ہے جس پر تبصرہ ’’سؤالات الآجري‘‘ کے تحت گزر چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے اس کتاب کو امام ابوداود کی طرف منسوب کرنے میں شک کا اظہار نہیں کیا!