- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
کتاب الجہاد لعبد اللّٰہ بن المبارک:
مولانا ندیم صاحب رقم طرازہیں:
’’کتاب الجہاد لابن المبارک بہ سند صحیح ثابت نہ ہونے کی بنا پر متروک قرار پائی ہے۔ (دیکھیے تحریر علوم الحدیث: ۲/۸۷۹)۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،ص: ۱۳۳)
امام بن المبارک سے کتاب الجہاد کو روایت کرنے والا راوی سعید بن رحمہ بن نعیم المصصي ابو عثمان ہے۔ (کتاب الجہاد، ص: ۲۷) جو بلاشبہ ضعیف راوی ہے۔ حافظ ابن حبان فرماتے ہیں:
’’وہ محمد بن حمیر سے ایسی چیزیں روایت کرتا ہے جس میں اس کی متابعت نہیں۔ اس سے شام کے باشندگان روایت کرتے ہیں۔ اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیوں کہ وہ احادیث بیان کرنے میں اثبات راویوں کی مخالفت کرتاہے۔‘‘ (المجروحین،ص: ۱/۳۲۸)
اسی راوی کی بنا پر شیخ جُدیع نے اس کتاب کا انکار کیا ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ شیخ جُدیع ’’العلل الکبیر‘‘ کو امام ترمذی کی تصنیف سمجھتے ہیں اور بالجزم اس سے حوالے بھی نقل کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تحریر علوم الحدیث: ۱/۱۴۱، ۱۷۳، ۳۶۹، ۴۳۸، ۵۷۸، ۶۰۵۔ ۲/۶۶۰،۶۷۴،۷۷۱،۷۸۳، ۸۲۰، ۹۶۹، ۹۷۵، ۱۰۲۵)
علامہ البانی، سعید بن رحمہ پر امام ابن حبان کی جرح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’حافظ ذہبی نے یہ جرح حافظ ابن حبان سے میزان میں اور (حافظ ابن حجر) عسقلانی نے لسان میں نقل کی ہے۔ ان دونوں نے اسے کتاب الجہاد لابن المبارک کا راوی ہونا بھی ذکر کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جرح حافظ (ابن حجر) پر کیسے مخفی رہ گئی اور گزشتہ مقام پر مذکور کتاب الإصابۃ میں اس پر کیسے اعتماد کر لیا !‘‘
(الصحیحۃ: ۷/۲/۱۰۳۴)
یعنی سعید بن رحمہ کی وجہ سے شیخ البانی بھی اس کتاب پر اعتماد نہیں کرتے۔اس کتاب کے بارے میں یہ پہلی رائے ہے۔ اب دوسری رائے بھی ملاحظہ فرمائیے:
مولانا ندیم صاحب رقم طرازہیں:
’’کتاب الجہاد لابن المبارک بہ سند صحیح ثابت نہ ہونے کی بنا پر متروک قرار پائی ہے۔ (دیکھیے تحریر علوم الحدیث: ۲/۸۷۹)۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،ص: ۱۳۳)
امام بن المبارک سے کتاب الجہاد کو روایت کرنے والا راوی سعید بن رحمہ بن نعیم المصصي ابو عثمان ہے۔ (کتاب الجہاد، ص: ۲۷) جو بلاشبہ ضعیف راوی ہے۔ حافظ ابن حبان فرماتے ہیں:
’’وہ محمد بن حمیر سے ایسی چیزیں روایت کرتا ہے جس میں اس کی متابعت نہیں۔ اس سے شام کے باشندگان روایت کرتے ہیں۔ اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیوں کہ وہ احادیث بیان کرنے میں اثبات راویوں کی مخالفت کرتاہے۔‘‘ (المجروحین،ص: ۱/۳۲۸)
اسی راوی کی بنا پر شیخ جُدیع نے اس کتاب کا انکار کیا ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ شیخ جُدیع ’’العلل الکبیر‘‘ کو امام ترمذی کی تصنیف سمجھتے ہیں اور بالجزم اس سے حوالے بھی نقل کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تحریر علوم الحدیث: ۱/۱۴۱، ۱۷۳، ۳۶۹، ۴۳۸، ۵۷۸، ۶۰۵۔ ۲/۶۶۰،۶۷۴،۷۷۱،۷۸۳، ۸۲۰، ۹۶۹، ۹۷۵، ۱۰۲۵)
علامہ البانی، سعید بن رحمہ پر امام ابن حبان کی جرح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’حافظ ذہبی نے یہ جرح حافظ ابن حبان سے میزان میں اور (حافظ ابن حجر) عسقلانی نے لسان میں نقل کی ہے۔ ان دونوں نے اسے کتاب الجہاد لابن المبارک کا راوی ہونا بھی ذکر کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جرح حافظ (ابن حجر) پر کیسے مخفی رہ گئی اور گزشتہ مقام پر مذکور کتاب الإصابۃ میں اس پر کیسے اعتماد کر لیا !‘‘
(الصحیحۃ: ۷/۲/۱۰۳۴)
یعنی سعید بن رحمہ کی وجہ سے شیخ البانی بھی اس کتاب پر اعتماد نہیں کرتے۔اس کتاب کے بارے میں یہ پہلی رائے ہے۔ اب دوسری رائے بھی ملاحظہ فرمائیے: