• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سند ِ کتاب اور منہجِ محدثین

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کتاب الجہاد لعبد اللّٰہ بن المبارک:
مولانا ندیم صاحب رقم طرازہیں:
’’کتاب الجہاد لابن المبارک بہ سند صحیح ثابت نہ ہونے کی بنا پر متروک قرار پائی ہے۔ (دیکھیے تحریر علوم الحدیث: ۲/۸۷۹)۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،ص: ۱۳۳)
امام بن المبارک سے کتاب الجہاد کو روایت کرنے والا راوی سعید بن رحمہ بن نعیم المصصي ابو عثمان ہے۔ (کتاب الجہاد، ص: ۲۷) جو بلاشبہ ضعیف راوی ہے۔ حافظ ابن حبان فرماتے ہیں:
’’وہ محمد بن حمیر سے ایسی چیزیں روایت کرتا ہے جس میں اس کی متابعت نہیں۔ اس سے شام کے باشندگان روایت کرتے ہیں۔ اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیوں کہ وہ احادیث بیان کرنے میں اثبات راویوں کی مخالفت کرتاہے۔‘‘ (المجروحین،ص: ۱/۳۲۸)
اسی راوی کی بنا پر شیخ جُدیع نے اس کتاب کا انکار کیا ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ شیخ جُدیع ’’العلل الکبیر‘‘ کو امام ترمذی کی تصنیف سمجھتے ہیں اور بالجزم اس سے حوالے بھی نقل کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تحریر علوم الحدیث: ۱/۱۴۱، ۱۷۳، ۳۶۹، ۴۳۸، ۵۷۸، ۶۰۵۔ ۲/۶۶۰،۶۷۴،۷۷۱،۷۸۳، ۸۲۰، ۹۶۹، ۹۷۵، ۱۰۲۵)
علامہ البانی، سعید بن رحمہ پر امام ابن حبان کی جرح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’حافظ ذہبی نے یہ جرح حافظ ابن حبان سے میزان میں اور (حافظ ابن حجر) عسقلانی نے لسان میں نقل کی ہے۔ ان دونوں نے اسے کتاب الجہاد لابن المبارک کا راوی ہونا بھی ذکر کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جرح حافظ (ابن حجر) پر کیسے مخفی رہ گئی اور گزشتہ مقام پر مذکور کتاب الإصابۃ میں اس پر کیسے اعتماد کر لیا !‘‘
(الصحیحۃ: ۷/۲/۱۰۳۴)
یعنی سعید بن رحمہ کی وجہ سے شیخ البانی بھی اس کتاب پر اعتماد نہیں کرتے۔اس کتاب کے بارے میں یہ پہلی رائے ہے۔ اب دوسری رائے بھی ملاحظہ فرمائیے:
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
روایت حدیث و کتاب کے بارے میں علامہ الحوینی کی رائے:
الشیخ ابو اسحاق الحوینی عالَمِ اسلام کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تالیفات و تحقیقات ایک صد چوالیس (۱۴۴) نا بہ نام مذکور ہیں۔ (مقدمہ نثل النبال: ۱/۵۵-۷۳۔طبع اول) جو اُن کے اس فن میں تبحر پر بہ خوبی دلالت کرتی ہیں (بلکہ نثل النبال کے دوسرے ایڈیشن میں ان کتب کی تعداد (۱۵۴) تک جا پہنچی ہے)۔ وہ روایت ِ حدیث اور روایت ِ کتاب کے مابین فرق کے بارے میں رقم طرازہیں:
’’حدیث بیان کرنے اور کتاب روایت کرنے کے درمیان علماء فرق کرتے ہیں۔ وہ ایسے لین الحفظ (کمزور یادداشت والے)راوی سے چشم پوشی کرتے ہیں جو ایسی کتاب روایت کرتا ہے جس کی وہ دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کے لیے مشقت جھیلتا ہے۔ وہ اسے محض حدیث میں مسترد کرتے ہیں یا تردد کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا آپ نے کتاب الجہاد لابن المبارک نہیں دیکھی جسے ان سے سعید بن رحمہ بن نعیم المصیصي روایت کرتا ہے ۔ وہ اسے ابن المبارک سے بیان کرنے میں منفرد ہے۔ ابن حبان نے المجروحین (۱/۳۲۸) میں اس کے بارے میں کہا ہے:
’’اس سے استدلال جائز نہیں کیوں کہ وہ روایات میں اثبات (ثقہ راویان ) کی مخالفت کرتا ہے۔ ‘‘
اس کے باوجود میری معلومات کے مطابق کسی عالم نے کتاب الجہاد کی نسبت ابن المبارک کی طرف کرنے میں تردد کا اظہار نہیں کیا اور نہ اس کی احادیث کو ضعیف کہا ہے بلکہ وہ یوں کہتے ہیں کہ اسے ابن المبارک کتاب الجہاد میں سندِ صحیح یا سند ِ حسن سے بیان کرتے ہیں۔ وہ سعید بن رحمہ کی وجہ سے کتاب (کی صحت) کو عیب دار نہیں سمجھتے۔
اسی طرح ابن محرز کا معاملہ ہے، جو ابو عباس احمد بن محمد بن قاسم بن محرز کتاب معرفۃ الرجال کا راوی ہے جس میں اُنھوں نے ابن معین سے جرح و تعدیل کی بابت (اقوال) کیے ہیں۔ مجھے اس کے بارے میں جرح یا تعدیل کا کوئی علم نہیں۔ میری دسترس میں موجود مراجع میں اس کا ترجمہ موجود نہیں۔ اس کے باوجود علماء اس کی وساطت سے ابن معین کی طرف قول کو منسوب کرتے ہیں۔ میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اسے قبول کرنے میں توقف کیا ہو۔ اس بارے میں مثالوں کا ذکر ہی تطویل کا باعث ہے۔
اسی طرح اسباط بن نصر نے سُدّي (إسماعیل بن عبدالرحمان بن أبي کریمہ؛ السدّي الکبیر ) سے تفسیر حاصل کی ہے اور اس پر توجہ دی ہے۔
معلوم ہی ہے کہ کتاب کی شکل میں کسی چیز کو محفوظ کرنا ضبطِ صدر سے زیادہ مضبوط ہے، اگرچہ ضبطِ صدر ضبطِ کتاب سے اعلیٰ ہے۔‘‘(تفسیر ابن کثیر: ۱/۴۸۸،۴۸۹بہ حوالہ نثل النبال: ۱/۱۵۵،۱۵۶)
شیخ ابو اسحاق الحوینی حافظ ابن حبان کی جرح کی یوں تفسیر بیان کرتے ہیں:
’’سعید بن رحمہ پر صرف اسی صورت میں گرفت کی جائے گی جب وہ محمد بن حمیر سے بہ طورِ خاص روایت کرے گا۔ اس کے بارے میں ابن حبان کی جرح عام نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ابن حبان نے اپنے نقد ’’اس سے استدلال درست نہیں کیوں کہ وہ احادیث بیان کرنے میں اثبات (ثقہ راویان) کی مخالفت کرتا ہے‘‘ یعنی محمد بن حمیر سے۔ اُنھوں نے اس کی ایسی منکر حدیث بیان نہیں کی جو محمد بن حمیر کے علاوہ ہو۔ اگر انھیں مل جاتی تو وہ اسے فوراً درج کرتے، جیسا کہ (ان کی) اس (عادت) کو ہروہ شخص جانتا ہے جس نے المجروحین لابن حبان کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہو۔ ‘‘(غوث المکدود بتخریج منتقی ابن الجارود: ۲/۲۲۰،۲۲۱)
نیز لکھتے ہیں:
’’اگر ہمیں کسی حدیث کی سند میں سعید بن رحمہ مل جائے تو ہم اس کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف قرار دیں گے۔ روایتِ کتاب اور احادیث مسلسل روایت کرنے میں فرق واضح ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۴۸۸ بہ حوالہ نثل النبال: ۱/۵۰۸)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
الشیخ ابو عبیدہ کی رائے:
الشیخ ابو عبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان کی کتاب ’’کتب حذر منہا العلماء‘‘ اپنے موضوع پر ایک معرکہ آراء کتاب ہے جس میں اُنھوں نے ملحدین، مبتدعین اور زنادقہ وغیرہ کی کتب ذکر کرنے کے بعد جھوٹی، غلط منسوب، مسروقہ، موضوع اور ضعیف احادیث پر مشتمل، علمِ نجوم، شعبدہ بازی، جادوگری پر مبنی، منہجِ سلف اور سلف صالحین کے مخالف وغیر ہ کتب ذکر کی ہیں۔
آپ پہلے پڑھ آئے ہیں کہ الشیخ ابو عبیدہ نے مسند الربیع بن حبیب اور مسند زید کو ناقابل ِ اعتبار قرار دیا ہے مگر وہ اپنی اسی کتاب میں کتاب الجہاد کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’الجہاد لابن المبارک: اس مقام پر یہ تنبیہ نہایت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بعض محققین عبداللہ بن مبارک کی طرف کتاب الجہاد کی نسبت میں کمزوری ثابت کرتے ہیں کیوں کہ ان سے سعید بن رحمہ بیان کرتا ہے۔ ابن حبان نے الثقات(۱/۳۲۸) [صوابہ: المجروحین] میں اس کے بارے میں جو لکھا ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’وہ محمد بن حمیر سے ایسی چیزیں بیان کرتا ہے جس میں اس کی متابعت نہیں۔ اس سے اہلِ شام روایت کرتے ہیں۔ اس سے احتجاج جائز نہیں کیوں کہ وہ روایات میں اثبات (ثقہ راویوں ) کی مخالفت کرتا ہے۔ ‘‘
اس جرح سے یہ مستنبط کیا جاتا ہے کہ سعید پر جرح محمد بن حمیر کی روایت کے ساتھ خاص ہے۔ جس کی تاکید حافظ ابن حبان کا قول ’’اس سے احتجاج جائز نہیں کیوں کہ وہ روایات میں اثبات (ثقہ راویان )کی مخالفت کرتا ہے۔ ‘‘ کرتاہے۔ اُنھوں نے اس کی منکر روایت جو بیان کی ہے وہ صرف اس (محمد بن حمیر) کے واسطے سے ہے۔
بنا بریں عبداللہ بن مبارک کی طرف کتاب الجہاد کی نسبت صحیح ہے۔ تخریج کرنے والے بھی ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ’’اسے ابن المبارک نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔‘‘ اس پر متنبہ ہو جائیں اور بے خبروں میں سے نہ ہوں ۔‘‘
(کتب حذر منہا العلماء: ۲/۳۶۵)
راقم الحروف کی تحقیق میں سعید بن رحمہ کے بارے میں محدثین کے اقوال اور تعامل کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
۱: اس کی عدم توثیق کی بنا پر اس کی حدیث ضعیف ہوگی۔
۲: محمد بن حمیر سے اس کی روایت منکر ہوگی۔ حافظ ابن حبان کی جرح اسی پر محمول کی جائے گی۔
پہلی اور اس صورت میں فرق یہ ہے کہ صورت ِ اول میں اس کی متابعت اس کے ضعف کو کم کر دے گی، جب کہ صورت ِ دوم میں اس کی متابعت اگر موجود بھی ہو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں دے گی اور روایت منکر ہی رہے گی۔
۳: اگر وہ سند ِ کتاب میں ہو تو اس کی کتاب مقبول ہوگی۔
یہاں یہ تنبیہ بھی ضروری ہے کہ علامہ البانی نے سعید بن رحمۃ عن ابن المبارک کی ایک روایت کو منکر قرار دیا ہے اور اس میں دو علتیں ذکر کی ہیں: ارسال اور سعید بن رحمہ کا ضعف۔
وہ دوسری علت کے بارے میں حافظ ابن حبان کی جرح نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’اس (سعید بن رحمہ ) کا اس حدیث کا دوسرا جملہ((عین سہرت بکتاب اللّٰہ )) روایت کرنا اس کے ضعف پر دلالت کرتا ہے اور بدونِ متعابعت والی حدیث کی نشان دہی کرتاہے۔
یہ حدیث صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مروی ہے جن میں سے پانچ صحابہ کی احادیث کی تخریج میں نے کی ہے۔ ان میں مذکورہ بالا جملہ موجود نہیں۔‘‘
(السلسلۃ الضعیفۃ: ۱۴/۱/۱۲۷، حدیث: ۶۵۵۳)
الشیخ نبیل بن منصور نے نو صحابہ سے اس روایت کی تخریج کی ہے۔ (أنیس الساري: ۴/۲۸۸۰)
علامہ البانی کی ذکر کردہ روایت کتاب الجہاد لا بن المبارک(ص: ۱۴۹، حدیث: ۱۸۸)اور الترغیب للأصبہاني: ۱/۳۰۷، ۳۰۸، حدیث: ۵۰۸) میں ہے۔ لہٰذا اِس میں وجۂ ضعف سعید بن رحمہ کو قرار نہیں دیاجاسکتا، بلکہ اس کا اصل سبب ِ ضعف مرسل ہونا ہے، لہٰذا یہ روایت منکر نہیں ہوگی(جیسا کہ علامہ البانی نے لکھا ہے) بلکہ ضعیف ہوگی۔ اگر سعید بن رحمہ محض حدیث کا راوی ہوتا، یعنی کتاب الجہاد میں یہ روایت نہ ہوتی تو ثقات کی مخالفت کی وجہ سے اس کی روایت منکر ہونی تھی، بالخصوص محمد بن حمیر سے۔
اس طالبِ علم کے استقرا کے مطابق متقدمین میں سے کسی نے سعید بن رحمہ عن ابن المبارک کی روایت کو منکر نہیں کہا۔ اور سعید عن محمد بن حمیر کی سند کو منکر کہنے والے غالباً سب سے پہلے حافظ ابن حبان ہیں۔
حافظ ذہبی نے سعید بن رحمہ کو میزان الاعتدال وغیرہ میں درج کرکے لکھا ہے:
’’وہ ابن المبارک سے کتاب الجہاد کا راوی ہے۔ ‘‘ (میزان الاعتدال: ۲/۱۳۵، ترجمہ: ۳۱۷۲، تاریخ الإسلام ،ص: ۱۵۳۔ حوادث: ۲۵۱ھ -۲۶۰ھ)
اس کے باوجود اُنھوں نے اس کتاب کا انکار نہیں کیا بلکہ لکھاہے:
’’وقال ابن المبارک في ’’الجہاد‘‘ لہ۔‘‘
’’ابن المبارک نے اپنی کتاب الجہاد میں کہا ہے۔‘‘
(سیرأعلام النبلاء: ۱/۱۵)
حافظ ابن حجر نے بھی لسان المیزان میں میزان الاعتدال والی ساری عبارت بدونِ نقد نقل کی ہے۔ (ملاحظہ ہو لسان المیزان: ۴/۵۰، ترجمہ: ۳۴۱۸)
چونکہ ندیم صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’کتاب الجہاد لابن المبارک کے حوالے حافظ ابن حجر (فتح الباري: ۷/۸۳) سمیت کئی علماء نے دیے ہیں۔ ‘‘(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،ص: ۱۳۳) اس لیے ہم حافظ ابن حجر کے حوالوں کی طرف نہیں جانا چاہتے، البتہ یہ ضرور ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ یہ کتاب حافظ ابن حجر کے مسموعات میں سے ہے۔ (دیکھیے المعجم المفہرس، ص: ۸۹،کتاب: ۱۸۶، تغلیق التعلیق: ۵/۴۷۰)
مزید عرض ہے کہ حافظ ابن حجر نے امام ابن المبارک کی کتاب الجہاد کی سند کو صحیح کہا ہے۔ وہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’جنگ ِ احد کے روز وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علَم بردار تھے۔ یہ ابن المبارک کی کتاب الجہاد میں سند ِ صحیح کے ساتھ عبید بن عمیر کی مرسل روایت میں ثابت ہے۔ ‘‘
(فتح الباري: ۱۱/۲۷۹، تحت حدیث: ۶۴۴۸)
اس لیے اس بارے میں علامہ البانی اور علامہ جُدیع کا موقف مرجوح ہے۔ متذکرہ محدثین اور علماء کا موقف ہی درست ہے۔ اور یہی منہجِ محدثین ہے جس پر مولانا زبیر مرحوم بھی گامزن رہے، جیسا کہ آئندہ آرہا ہے۔
تنبیہ: حافظ ابو بکر محمد بن خیر إشبیلي (وفات: ۵۷۵ھ) نے اپنی سند سے کتاب فضل الجہاد(تالیف :عبداللہ بن المبارک) روایت کی ہے۔ (فہرسۃ ابن خیر الإشبیلي،ص: ۲۰۵، کتاب: ۴۳۴)
اگر اس کتاب سے مراد مطبوع کتاب الجہاد ہے تو اس کی یہ دوسری سند جو أبو مروان عبدالملک بن حبیب البزاز المصیصي عن ابن المبارک ہے۔
ملحوظ رہے کہ مطبوع کتاب کا نام ’’کتاب الجہاد‘‘ ہے اور حافط إشبیلي کی ذکر کردہ کتاب کا نام ’’کتاب فضل الجہاد‘‘ ہے ۔
کیا مولانا ندیم اپنے استاد محترم مولانا زبیر علی زئی مرحوم کی درج ذیل عبارت کا مطلب قارئین کو سمجھا سکتے ہیں:
’’مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام المجاہد عبداللہ بن المبارک المروزی کی ’’کتاب الجہاد‘‘ وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں۔‘‘
(تحقیقی مقالات: ۱/۶۰)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مولانا زبیر کی’’بے اُصولی ‘‘:
مولانا ندیم لکھتے ہیں:
’’محض استدلال کو اصول شمار کرنا خود بے اُصولی ہے۔ جس طرح کسی محدث کا ضعیف روایت سے استدلال اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں۔ اسی طرح کسی غیر ثابت کتاب سے استدلال یا حوالہ نقل کرنا اس کے ثابت ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔‘‘ (ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲،ص: ۱۳۲)
اگر استدلال کو اُصول شمار کرنا بجائے خود بے اُصولی ہے تو اس میں یہ ہیچ مداں تنہا نہیں بلکہ مولانا زبیر مرحوم بھی اس’’ بے اُصولی‘‘ کا ’’ارتکاب‘‘ کر چکے ہیں۔ ہم نے انھی کے حوالے سے لکھا تھا:
’’شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: امام بیہقی وغیرہ اکابر علماء نے امام بخاری کی کتاب القراء ۃ سے استدلال کیا ہے جو اس کی دلیل ہے کہ وہ اسے امام بخاری کی تصنیف کردہ کتاب ہی سمجھتے ہیں۔ (مقدمہ نصر الباری،ص: ۱۹)۔‘‘
(ہفت روزہ الاعتصام، لاہور ،جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴ ،ص: ۲۳)
ندیم صاحب نے اس کا جواب دینے کے بجائے اس سے آنکھیں چرالیں۔ اور فقیر پر چڑھ دوڑے اور یہ بھول گئے کہ ان کے الفاظ کی زد ان کے اپنے استاد پر بھی پڑ رہی ہے !
مولانا زبیر کی مزید ’’بے اُصولی‘‘ ملاحظہ فرمائیں:
موصوف لکھتے ہیں:
’’علامہ نووی نے جزء رفع الیدین سے ایک روایت بہ طورِ جزم نقل کی اور فرمایا: ’’بإسنادہ الصحیح عن نافع۔‘‘معلوم ہوا کہ نووی جزء رفع الیدین کو امام بخاری کی صحیح و ثابت کتاب سمجھتے تھے۔ ‘‘
لیجیے !امام نووی کا جزء رفع الیدین للبخاري سے بہ طورِ جزم روایت نقل کرنا اور اس کی سند کو صحیح کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسے امام بخاری کی کتاب سمجھتے تھے۔ کیا امام نووی کے استدلال سے اُنھوں نے یہ اُصول مستنبط نہیں کیا کہ وہ امام بخاری کی کتاب ہے!
مولانا مرحوم نے امام نووی کے بعد اسی بابت امام ابن ملقن، حافظ زیلعی، امام بیہقی، علامہ عینی، علامہ زرکشی، علامہ زرقانی، حافظ سیوطی، امام ذہبی اور حافظ مغلطائی کے حوالے ذکر کیے اور لکھا:
’’ان سب نے جزء القراء ۃ یا جزء رفع الیدین کے حوالے بہ طور ِ جزم و بہ طورِ حجت نقل کیے ہیں اور بعض نے تو رفع الیدین سے مذکور ایک روایت کو صحیح سند قرار دیا ہے! ہمارے علم کے مطابق محمود بن اسحاق پر کسی محدث یا مستند عالم نے کوئی جرح نہیں کی اور ان کی بیان کردہ کتابوں اور روایتوں کو صحیح قرار دینا (ان پر جرح نہ ہونے کی حالت میں) اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مذکورہ تمام علماء وغیرہ کے نزدیک ثقہ و صدوق تھے، لہٰذا جزء القراء ۃ اور جزء رفع الیدین دونوں کتابیں امام بخاری سے ثابت ہیں ۔‘‘
(نور العینین،ص: ۵۲۸، تحقیقی مقالات: ۵/۲۲۲)
’’حافط ابن حجر کا محمود مذکور کی حدیث کو حسن کہنا اور مذکورہ وغیرمذکورہ علماء کا جزء رفع الیدین وکتاب القراء ۃ کو بہ طورِ جزم ذکر کرنا تلقي بالقبول ہے ۔‘‘
(تحقیقی مقالات: ۴/۴۵۳)
’’ہمارے علم کے مطابق کسی امام نے جزء رفع الیدین کے امام بخاری کی کتاب ہونے کا انکار نہیں کیا۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات: ۶/۹۴)
سوال یہ ہے کہ محدثین کے استدلال سے یہ دونوں کتابیں اگر امام بخاری کی ہو سکتی ہیں تو العلل الکبیر امام ترمذی کی کیوں نہیں ہوسکتی؟
مولانا مرحوم حافظ ابن حبان کی ایک مفقود کتاب کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سوم: حافظ ابن حبان سے کتاب الصلاۃ منقول نہیں ہے۔ عرض ہے کہ حافظ ابن حبان کی کتاب الصلاۃ (صفۃ الصلاۃ، وصف الصلاۃ بالسنۃ) کا ذکر درج ذیل کتابوں میں موجود ہے :
البدر المنیر لابن الملقن: ۱/۲۸۳،۲/۴۷۲، ۳/۴۹۴ وغیرہ۔ طرح التثریب في شرح التقریب لأبي زرعۃ ابن العراقي: ۱/۱۰۲۔ تہذیب السنن لابن القیم: ۱/۳۶۸،ح: ۷۱۹۔ اتحاف المہرۃ لابن حجر العسقلاني: ۱/۲۳۵، ح: ۸۳ وغیرہ۔ التلخیص الحبیر: ۱/۲۱۶، ۲۱۷، ح: ۳۲۳، ۳۲۴۔ معجم البلدان لیاقوت الحموي: ۱/۴۱۸۔مغني المتحاج إلی معرفۃ معاني ألفاظ المنہاج للخطیب الشربیني: ۱/۲۶۱ بہ حوالہ المکتبۃ الشاملۃوغیرہ۔
بلکہ حافظ ابن حبان نے اپنی صحیح ابن حبان میں اپنی کتاب صفۃ الصلاۃ کا علیحدہ ذکر کیا ہے۔ (دیکھیے الإحسان: ۶/۱۸۴، ح: ۱۸۶۷۔ دوسرا نسخہ: ۱۸۶۴) ان حوالوں کے باوجود کسی لا علم شخص کا یہ قول ’’میری تحقیق میں حافظ ابن حبان سے کتاب صلاۃ منقول نہیں ہے ‘‘ کیا حیثیت رکھتا ہے ؟‘‘ (نور العینین،ص: ۴۱۶)
قارئین کرام ! ذرا غور کیجیے کہ مولانا مرحوم نے کتاب الصلاۃ کے ثبوت کے لیے دو دلائل دیے ہیں اور مضبوط دلیل کو مقدم کیاہے:
(۱)محدثین کا اس کتاب سے استدلال کرنا یا اس کتاب کا ذکرکرنا۔
(۲) مصنف کا اس کا ذکر اپنی کسی دوسری کتاب میں کرنا۔
اگر نقلِ محدثین کا کوئی اعتبار نہیں تو اسے مضبوط دلیل کے طور پر پہلے کیوں ذکر کیا ؟ علماء و محدثین کا استدلال اُصول نہیں تو ان کے استدلال سے اُصول کا قاعدہ کیوں وضع کیا ؟
اگر کوئی کہے کہ کتاب الصلاۃ کا ذکر خود مصنف نے بھی کیا ہے جب کہ العلل الکبیر کا ذکر امام ترمذی نے نہیں کیا !!!
عرض ہے کہ اس نا حیے سے کتاب الصلاۃ کی العلل الکبیر پر برتری ثابت ہوتی ہے۔ ہم سابقہ مضمون میں عرض کر چکے ہیں کہ صحت ِ کتاب کی سات شرائط ہیں جتنی وہ کم ہوتی جائیں گی کتاب کی ثقاہت اسی قدر متاثر ہوتی جائے گی، لیکن رہے گی وہ قبول کے دائرے میں !
اگر محدثین کے نقل سے مفقود کتاب کی صحت تسلیم کی جا سکتی ہے تو موجودہ کتاب کی صحت کیوں نہیں مانی جا سکتی ؟
مولانا مرحوم ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
’’المنتخب والی کتاب بالاتفاق علماء کے درمیان مشہور رہی ہے، مثلاً دیکھیے: التقیید لابن نقطۃ،ص: ۳۶،ت: ۱۱، سیر أعلام النبلاء: ۱۲/۲۳۵، ۲۳۶، تاریخ الإسلام: ۱۸/۳۴۱ اور المعجم المفہرس لابن حجر ،ص: ۱۳۴، رقم: ۴۸۲وغیرہ )اس کی سند بھی موجود ہے جس کا کوئی راوی ضعیف نہیں۔ پتا نہیں حافظ صاحب (ثناء اللہ ضیاء صاحب ) اس عظیم الشان کتاب کا کیوں انکار کر رہے ہیں ؟!‘‘(تحقیقی مقالات: ۲/۴۱۷)
مولانا نے امام عبد بن حمید کی اصل کتاب نہیں بلکہ ’’المنتخب‘‘ کے اثبات کے لیے دو دلائل ذکر کیے ہیں:
(۱) محدثین کے ہاں اس کی شہرت۔
(۲) صحیح سند کی موجودگی۔
عرض ہے کہ ان دونوں دلیلوں میں سے پہلی دلیل العلل الکبیر میں موجود ہے۔ اگر منتخب عبد بن حمید محدثین کے ہاں شہرت کی وجہ سے معتبر ہو سکتی ہے تو العلل الکبیر کیوں نہیں ؟
ندیم صاحب سے گزارش ہے کہ ’’بے اُصولی‘‘ کا تازیانہ اس طالب ِ علم پر نہ برسائیں کہ اس کی زد میں آپ کے شیخ بھی آتے ہیں !
ندیم صاحب کی ضیافت ِ طبع کے لیے انھی کے استاد محترم کا کلام پیش ہے:
’’بہ طورِ لطیفہ عرض ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک مشہور قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہوا آری کے ساتھ اسے کاٹ رہا تھا۔ جس حصے کو وہ کاٹ رہا تھا وہ درخت کی طرف تھا اور یہ خود دوسری طرف بیٹھا ہوا تھا، پھر نتیجہ کیا ہوا؟ دھڑام سے نیچے آرہا اور ایسی ’’پھکی ‘‘ ملی کہ دن میں بھی تارے نظر آگئے۔ ‘‘
(نور العینین ،ص: ۵۰۳،۵۰۴)
اس سے قطع نظر کہ یہ واقعہ کس شخص سے پیش آیا اور مولانا زبیر مرحوم سے لے کر اس آدمی تک سند کیسی ہے؟ ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ ندیم صاحب مولانا مرحوم کے لگائے ہوئے درخت پر بیٹھ کر اسے نقصان نہ پہنچائیں، ورنہ دھڑام سے گر جائیں گے، اس سے زیادہ اور کیا عرض کریں…!
مولانا زبیر مرحوم تو محدثین کی نقل اور عدمِ تردید ہی کو دلیل بنا لیتے ہیں، وہ مسئلہ تدلیس میں لکھتے ہیں:
’’ابن الصلاح کے اس قول کو اُصولِ حدیث کی بعد والی کتابوں میں بھی نقل کیا گیا ہے او رتردید نہیں کی گئی، لہٰذا اسے جمہور کی تلقي بالقبول حاصل ہے۔ ‘‘
(نور العینین،ص: ۴۷۹)
العلل الکبیر سے متعدد حوالے نقل کیے گئے ہیں اور تردید نہیں کی گئی ،لہٰذا اِسے بھی جمہور کی تلقي بالقبول حاصل ہے!
نیز رقم طراز ہیں:
’’اس قول کو حافظ ابن عبدالبر نے نقل کیا اور کوئی رد نہیں کیا، لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ ابن خویز منداد کے شاذ اقوال میں سے نہیں ہے۔(نیزدیکھیے لسان المیزان: ۵/۲۹۲)۔‘‘
(اہل حدیث ایک صفاتی نام ،ص: ۱۱۷)
باقی رہا ندیم صاحب کا یہ کہنا کہ ’’جس طرح کسی محدث کا ضعیف روایت سے استدلال اس کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں، اسی طرح کسی غیر ثابت کتاب سے استدلال یا حوالہ نقل کرنا اس کے ثابت ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ ‘‘
اولاً: ضعیف روایت سے اور کتاب سے استدلال کرنے میں فرق ہے۔ بلاشبہ ضعیف روایت سے استدلال اس کی صحت کی علامت نہیں، سوائے اس کے کہ محدث وضاحت کر دے کہ میں جس روایت سے استدلال کروں گا وہ میرے نزدیک صحیح ہوگی، جیسا کہ امام سفیان ثوری کا موقف ہے۔ (ملاحظہ ہو مقالاتِ اثریہ ،ص: ۱۷۴)
یا پھر مصنفینِ صحاح، مثلاً: امام بخاری، امام مسلم، امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان صحاح میں جو روایت درج کردیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہو گی، الا کہ وہ صراحت یا اشارہ کر دیں، جیسا کہ حافظ ابن خزیمہ وضاحت کر دیتے ہیں کہ’’ وفي القلب منہ شيء‘‘ یا ’’إن صح الخبر‘‘ وغیرہ۔
محدثین کا کسی کتاب سے نقل کرنا اس کتاب کے معتمد ہونے کی نشانی ہے، جیسا کہ ہم متعد دحوالے مولانا زبیر سے بھی نقل کر چکے ہیں۔ اگر محدثین نقل کرنے کے ساتھ اس کے ناقابلِ اعتبار ہونے کی صراحت بھی کردیں تو وہ کتاب بلاشبہ غیر ثابت ہوگی، جیسا کہ شیخ ابوعبیدہ نے ’’کتب حذر منہا العلماء‘‘ میں صراحت کی ہے۔
ثانیاً: مولانا ندیم صاحب نے ’’غیر ثابت کتاب‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو نکتۂ اختلاف ہی نہیں! نکتۂ اختلا ف تو یہ ہے کہ کتاب کے ثبوت کے لیے کسوٹی محض اس کی سند ہے یا محدثین کی نقل بھی ہے ؟ اگر محض سند ہے تو پھر العلل الکبیر سمیت بہت ساری کتابیں اس معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ اگر محدثین کی نقل کی بھی کوئی حیثیت ہے تو ایسی کتب قابلِ اعتماد قرار پاتی ہیں کیوں کہ اُنھوں نے نقل کرنے کے بعد اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ہم صحت ِ کتاب کی شرائط میں ایک شرط ’’محدثین کا اس کتاب کا ذکر کرنا یا اس سے استفادہ کرنا‘‘ بھی نقل کر آئے ہیں، بلکہ العلل الکبیرکی صحت میں ہم نے خشت ِ اوّل محدثین کے اعتماد ہی کو بنایاہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
نقلِ عبارت میں دیانت داری شرط ہے!
مولانا ندیم صاحب لکھتے ہیں :
’’خارجی قرائن میں پہلا قرینہ آپ نے یہ درج کیا کہ مولف کے زمانے میں اس کے معاصرین علماء اور تلامذہ میں کتاب معروف نہ ہو …اور یہ مسلّم حقیقت ہے کہ موجودہ العلل الکبیر مولف کے زمانے میں اس کے معاصرین علماء اور تلامذہ میں قطعاً معروف نہ تھی۔ ‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،ص: ۱۳۳، ۱۳۴)
موصوف کی ’’دیانت داری ‘‘ملاحظہ فرمائیں کہ اُنھوں نے راقم الحروف کی نصف عبارت ذکر کرکے باقی سے صرفِ نظر کرلیا ہے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے کہ یہاں مزید عبارت بھی ہے،’’…‘‘ کارمزذکر کر دیا، حالانکہ ہم نے یوں لکھا تھا:
’’مولف کے زمانے میں اس کے معاصرین علماء اور تلامذہ میں کتاب معروف نہ ہو اور محدثین اس کی صحت کو مشکوک قرار دیں۔ ‘‘ (ہفت روزہ الاعتصام، لاہور،جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴،ص: ۲۱۔جون ۲۰۱۵ء)
مولانا ندیم نے ’’محدثین اس کی صحت کو مشکوک قرار دیں ‘‘ کی عبارت کو چھپالیا ہے کیوں کہ وہ محدثین تو کیا کسی ایک محدث سے بھی اس کتاب کا مشکوک ہونا ثابت نہیں کرسکتے، إن شاء اللّٰہ۔
ذکر کردہ اُصولوں سے کتاب کا اثبات:
موصوف کی ’’دیانت داری ‘‘ کا دوسرا نمونہ ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
’’جو اُصول اُنھوں نے آغازِ مضمون میں بیان کیے ہیں ان میں سے کسی اُصول کو بھی العلل الکبیر اور سوالات آجری کے ثابت کرنے میں پیش نہیں کیا گیا جو اپنے ہی بیان کردہ اُصولوں سے واضح انحراف ہے ۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ،شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ،ص: ۱۳۱)
جنابِ من! ہم نے ’’ صحتِ کتاب کی شرائط‘‘ کے زیرِ عنوان شرط نمبر تین کے تحت لکھا تھا:
’’۳۔ محدثین اپنی تالیفات میں اس کتاب کو مولف کی طرف منسوب کرتے ہوں یا مولف سے جرح و تعدیل کے اقوال نقل کرتے ہوں۔ ‘‘
اور شرط نمبر سات کے تحت لکھا تھا:
’’۷۔کسی خارجی قرینے سے اس کتاب کی صحت مشکوک نہ ہو۔‘‘ (ہفت روزہ الاعتصام، لاہور، جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴، ص: ۲۱)
ازاں بعد ’’پہلی دلیل: محدثین کا اعتماد ‘‘ کے عنوان کے تحت اکتالیس محدثین و محققین کے نام ذکر کیے جو سات صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کیا یہ مذکورہ بالاشرط نمبر تین کے تحت نہیں آتے !
شرط نمبر سات کے تحت کوئی ایسا خارجی قرینہ نہیں جو اِس کی صحت میں شبہ پیدا کرے، اگرچہ یہ کتاب مولف کے زمانے میں معروف نہیں رہی اور محدثین نے اسے مشکوک بھی قرارنہیں دیا۔ آپ پہلے پڑھ آئے ہیں کہ مولانا زبیر علی زئی بھی اسے منسوب کہنے کے باوجود اس سے استدلال کرتے رہے بلکہ اس میں موجود اسانید پر ’’إسنادہ صحیح ‘‘ کا حکم لگاتے رہے۔
ناچیز نے صحت ِ کتاب کی سات شرائط کے علاوہ سات خارجی قرائن بھی ذکر کیے جن میں سے کوئی بھی قرینہ اس کی صحت کو مشکوک قرار نہیں دیتا۔
العلل الکبیر علل الحدیث پر مشتمل ایک کتاب ہے ،جو مرتب انداز میں نہیں تھی۔ ظاہر بات ہے کہ ایسی کتاب سے استفادہ خاصہ مشکل تھا، تبھی ابو طالب قاضی نے اسے فقہی ترتیب پر مرتب کیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح حافظ ابن حبان نے صحیح ابن حبان کو پانچ اقسام میں منقسم کیا: قسمِ اول میں اوامر، قسمِ ثانی میں نواہی، قسمِ ثالث میں اخبارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، قسمِ رابع میں مباحات اور آخری قسم میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انفرادی افعال کا ذکر ہے۔ پھر ان اقسام میں مختلف انواع ذکرکی ہیں۔ پہلی اور دوسری قسم میں ایک صد دس، تیسری قسم میں اسّی، چوتھی اور پانچویں قسم میں پچاس انواع ذکر کی ہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ ہم ایسے طلبائے علم کے لیے اس کتاب سے استفادہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اسی صعوبت کو بھانپ کر امیر علاء الدین علی بن بلبان الفارسی (وفات: ۷۳۹ھ) نے الإحسان لکھی جو بے انتہا مقبول ہوئی۔ اس کے مقابلے میں حافظ ابن حبان کی اصل کتاب (المسند الصحیح علی التقاسیم والأنواع من غیر وجود قطع في سندھا ولا ثبوت جرح في ناقلیہا یعنی صحیح ابن حبان ) دارالکتب العلمیہ، بیروت نے ۲۰۱۰ء میں پانچ جلدوں میں شائع کی۔ اس کی فہرست نہ ہونے سے کتاب سے استفادہ نہایت مشکل ہو گیا، گویا حافظ ابن حبان کی اصل کتاب ابن بلبان کی ترتیب سے بہت بعد میں شائع ہوئی۔ راقم الحروف نے التقاسیم والأنواع کے حوالے نہایت کم دیکھے ہیں، سبھی ’’الإحسان ‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔
اب آپ ایک نگاہ عربی لغت پر مشتمل کتب پر بھی ڈالیے جو دبستان تقلیبات سے متعلق ہیں، پھر تقلیبات صوتی پر مشتمل جو کتب ہیں (مثلاً: کتاب العین للفراہیدي، التہذیب للأزہري، المحکم لابن سیدہ) ان سے استفادہ نہایت مشکل ہے، کیوں کہ ان میں صوتی پہلو کے علاوہ بعید المخرج حروف کی ترتیب کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
الغرض جس کتاب کی ترتیب جتنی مشکل ہو گی اس سے استفادہ کم ہوتا جائے گا اور اس کی شہرت بھی نہیں ہوگی۔ بعینہٖ العلل الکبیر کا معاملہ معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب قاضی کی ترتیب کے بعد اس سے استفادہ آسان ہوگیا۔
جن قدماء نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے، کیا اس کی کوئی اہمیت نہیں؟ جو اب دینے سے پہلے مولانا مرحوم کی دو عبارتیں پڑھ لیں۔
مولانا زبیر مرحوم أخبار الفقہاء والمحدثین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’معاصرین میں سے عمر رضا کحالہ اور خیر الدین زرکلی نے بھی اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ جدید دور کے یہ حوالے اس کی قطعی دلیل نہیں ہیں کہ یہ کتاب محمد بن حارث کی ہی ہے۔ قدیم علماء نے اس کتاب کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ‘‘
(فتاویٰ علمیہ: ۱/۳۵۹)
ایک اور مقام پر الفقہ الأکبر (المکذوب علی الشافعي) کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’امام شافعی کے شاگردوں اور متقدمین، مثلاً: امام بیہقی وغیرہ نے اس کتاب کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ‘‘ (فتاویٰ علمیہ: ۱/۱۳۶)
معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک کسی کتاب کو متقدمین ذکر کریں تو یہ اُس کی صحت کے لیے نفع مند ہے۔ سوال یہ ہے کہ العلل الکبیر میں ایسا کیوں نہیں!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
’’موافقت‘‘ کے نادر نمونے:
ندیم صاحب لکھتے ہیں:
’’آپ نے علمی دھونس جمانے کے لیے امام بیہقی سے لے کر اپنے معاصر تک حوالے نقل کر دیے جو بالکل بے سود ہیں، کیوں کہ ان میں سے اکثر کی بنیاد امام بیہقی ہیں۔ ‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ،شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲،ص: ۱۳۵)
اس فقیر پر علمی دھونس کی پھبتی موصوف کو جچتی نہیں کیوں کہ وہ خود شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر سنگ باری کر رہے ہیں۔ ہم انھیں مولانا زبیر مرحوم کی ’’موافقت‘‘ کے نادر نمونے دکھاتے ہیں۔
امام شافعی نے مسئلہ تدلیس کے بارے میں فرمایا:
’’جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس نے ایک دفعہ تدلیس کی ہے تو اس نے اپنی پوشیدہ بات ہمارے سامنے ظاہرکر دی ۔‘‘ (الرسالۃ: ۱۰۳۳ نیز دیکھیے: ۱۰۳۵)
اب ملاحظہ کیجیے کہ مولانا زبیر نے امام شافعی کی ’’موافقت‘‘ کرنے والے کون کون سے ذکر کیے ہیں:
1۔ امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ نے امام شافعی کی کتاب الرسالۃ کو پسند کیا اور کوئی ردّ نہیں کیا، لہٰذا مسئلہ تدلیس میں وہ امام شافعی کے ہم نوا ہیں۔
2 ۔امام شافعی کے قول کو درج ذیل محدثین نے ذکر کیا ہے:
۱:امام بیہقی ۲:حافظ ابن الصلاح ۳:حافظ سیوطی ۴:حسین بن عبداللہ الطیبي
لہٰذا یہ بھی موافق ہوئے !
3۔ حافظ ابن الصلاح نے امام شافعی کا قول ذکر کیا ہے۔ اور بعد میں محدثین نے اپنی کتب میں بدونِ نقد نقل کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
۱:امام ابن الملقن ۲:حافظ ابن کثیر ۳:علامہ بلقیني۴:علامہ آبناسی۔
حافظ عراقی نے ذکر کیا ہے کہ امام شافعی نے اسے اس مدلس کے لیے ثابت قرار دیا ہے جو ایک دفعہ تدلیس کرے۔ علامہ زکریا انصاری نے حافظ عراقی کا قول نقل کیا ہے۔
علامہ ابو بکر صیر فی نے الرسالۃ کی شرح میں امام شافعی کے قول کی شرح کی ہے، لہٰذا وہ بھی موافقینِ امام شافعی میں سے ہیں۔
حافظ ابن حجر کا قول امیر یمانی نے ذکر کیا ہے اور کوئی تردید نہیں کی۔ (دیکھیے نور العینین، ص: ۴۷۵-۴۸۶)
راقم الحروف اس ’’موافقت‘‘ کی قلعی کھول چکا ہے۔ (دیکھیے مقالاتِ اثریہ، ص: ۳۰۵-۳۰۹)
سوال صرف یہ ہے کہ امام شافعی کے قول کو محدثین نقل کریں، حافظ ابن الصلاح سے مقدمہ ابن الصلاح کے شارحین نقل کریں، حافظ عراقی کا قول حافظ زکریا انصاری اور حافظ ابن حجر کا قول امیر یمانی نقل کریں تو ’’موافقت‘‘ اور ’’جمہور کا مذہب ‘‘ قرار پائے۔ اور اگر العلل الکبیر کا حوالہ امام بیہقی نقل کریں اور بہ فرض تسلیم ان سے محدثین کا انبوہ کثیر نقل کرے تو کیوں ’’علمی دھونس ‘‘ کی پھبتی کسی جائے !
ثانیاً: ہم عرض کر آئے ہیں کہ حافظ ابن حبان کی کتاب الصلاۃ کے اثبات کے لیے مولانا زبیر نے چھ محدثین و فقہاء کے اقوال نقل کیے ہیں، کیا یہ ’’علمی دھونس ‘‘ نہیں؟
مولانا کے نزدیک تو ’’موافقت‘‘ کا دائرہ ہی بڑا وسیع ہے، لہٰذا اُن کے تلمیذ رشید کو اس پر چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ندیم صاحب نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اکثر کی بنیاد امام بیہقی ہیں، یعنی بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے براہِ راست العلل الکبیر سے نقل کیا ہے۔ ان کی اس نقل اور کتاب پر اعتماد کا کیا بنے گا؟
’’لم یعرفہ ‘‘ اور ’’منکر‘‘ ہم معنی ہیں:
مولانا ندیم ظہیر لکھتے ہیں:
’’متصادم کی مثال حاضر ہے: امام ترمذی نے حدیث: ((من صنع إلیہ معروف…إلخ۔)) کے بارے میں فرمایا:’’وسألت محمدًا فلم یعرفہ۔‘‘ ’’میں نے (اس سے متعلق ) امام محمد بن اسماعیل البخاری سے پوچھا تو اُنھوں نے اسے پہچانا ہی نہیں۔ ‘‘ یعنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ جب کہ العلل الکبیر( ۱/۳۱۵) میں منقول ہے کہ ’’و سألت محمدا عن ہذا الحدیث، فقال: ہذامنکر۔‘‘ یعنی میں نے اس حدیث کے بارے میں امام بخاری سے پوچھا تو اُنھوں نے فرمایا: یہ منکر ہے ۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ :۱۲۹-۱۳۲،ص: ۱۳۵)
مولانا کے نزدیک امام بخاری کے دونوں اقوال متصادم ہیں۔ حالانکہ دونوں ہم معنی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالفتاح ابوغدہ لکھتے ہیں:
’’محدثین کا یہ کہنا : لا أعرفہ، لم أعرفہ، لم أقف علیہ، لاأعرف لہ أصلاً، لم أجد لہ أصلا، لم أقف لہ علی أصل، لا أعرفہ بہذا اللفظ، لم أرہ بہذا اللفظ، لم أجدہ، لم أجدہ ہکذا، لم یردفیہ شيء، لا یعلم من أخرجہ ولا إسنادہ جیسی عبارات معروف حفاظ میں سے کسی ایک سے صادر ہوں، کسی نے ان کا تعاقب نہ کیا ہو تو اس حدیث پر وضع کا حکم لگانے کے لیے یہی کافی ہے۔‘‘
(مقدمۂ تحقیق المصنوع في معرفۃ الحدیث الموضوع للملاّ علي القاري، ص: ۸،۹)
ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہ قول سیدعبدالماجد الغوري نے بھی ذکر کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو معجم ألفاظ وعبارات الجرح والتعدیل المشہورۃ والنادرۃ، ص: ۵۲۰، معجم المصطلحات الحدیثیۃ، ص: ۵۸۹)
علامہ ابن عراق لکھتے ہیں:
’’وہ حفاظ جن کا ذکر اُنھوں نے(حافظ علائی )نے کیا ہے اور ان جیسے دیگر حفاظ اگر کسی حدیث کے بارے میں یہ کہہ دیں: ’’لا أعرفہ، لا أصل لہ‘‘ تو اُس پر موضوع حدیث کا لیبل لگانے کے لیے یہی کافی ہے۔ ‘‘ (مقدمہ تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق، ص: ۸)
حافظ علائی نے جو کبار اہل ِعلم ذکر کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ امام احمد ۲۔ امام علی بن مدینی ۳۔ امام یحییٰ بن معین ۴۔ امام بخاری ۵۔ امام ابو حاتم الرازی ۶۔ امام ابوزرعہ الرازی ۷۔ امام نسائی ۸۔ امام دارقطنی
حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
’’جب باخبر حافظ اور ناقدِ فن کسی حدیث کے بارے میں کہہ دے: ’’لا أعرفہ‘‘تو اس قول کی بنیاد پر اُس کی نفی کی جائے گی، جیسا کہ شیخ الاسلام (حافظ ابن حجر ) نے ذکر کیاہے۔‘‘
(تدریب الراوي: ۱/۲۹۶،۲۹۷)
سید عبدالماجد الغوري نے ’’المنکر‘‘ کی لغوی تعریف یوں کی ہے:
’’اسم مفعول من أنکر، بمعنی: جحدہ أو لم یعرفہ۔‘‘(معجم المصطلحات الحدیثیۃ،ص: ۷۹۰)
’’المنکر، أنکر کا اسمِ مفعول ہے جس کے معنی ہیں: اس نے اس کا انکار کیا یا اسے پہچانا نہیں۔‘‘
اُنھوں نے المنکر کے اصطلاحی معنی میں متعدد اقوال ذکر کیے ہیں۔
ان اقوال سے معلوم ہوا کہ امام بخاری کا کسی حدیث کو نہ پہچاننا اس کے منکر ہونے کی دلیل ہے۔ عدمِ شناخت لغوی معنوں میں نہیں بلکہ اصطلاحی معنوں میں ہے۔ ترتیب العلل الکبیر(۱/۱۱۷) میں امام بخاری کا کلام ملاحظہ ہو:
’’یہ منکر ہے۔ سُعیر بن خِمس قلیل الحدیث ہے اور راوی اس سے مناکیر بیان کرتے ہیں۔ ‘‘
اس کی تضعیف کرنے والے دیگر ناقدینِ فن کی آرا بھی امام بخاری کے قول سے مماثلت رکھتی ہیں:
1… امام ابو حاتم نے فرمایا:
’’ یہ حدیث اس سند سے منکر ہے۔‘‘ (العلل: ۲۵۷۰)
بلکہ اُنھوں نے یہاں تک فرمایا ہے:
’’یہ حدیث میرے نزدیک اس سندسے موضوع ہے ۔‘‘
(العلل: ۲۱۹۷)
2… امام بزار لکھتے ہیں:
’’اس حدیث کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ سلیمان تیمی سے سعیر کے علاوہ کسی نے روایت کی ہو۔ اور نہ سعیر سے أحوص بن جواب کے علاوہ کوئی روایت کرتا ہے ۔‘‘
(مسند البزار: ۷/۵۵)
امام ترمذی نے اسے کم ازکم ’’حسن غریب ‘‘ کہا ہے۔ بعض مراجع میں ’’حسن صحیح غریب‘‘ مذکور ہے۔ تفصیل کسی اور مقام پر آئے گی، إن شاء اللّٰہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دونوں کتب میں ’’مقارب الحدیث‘‘ہے :
ندیم صاحب نے متصادم کی دوسری مثال یوں ذکر کی ہے:
’’سنن الترمذي (۱۷۲۶) میں سیف بن ہارون کو ’’مقارب الحدیث‘‘ لکھا ہے، جب کہ العلل الکبیر(۱/۲۶۳) میں اسے ’’لہ مناکیر‘‘ سے متصف کیا گیا ہے۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ والحمد للّٰہ۔‘‘ (ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص: ۱۳۵)
یہاں موصوف نے نہایت چابک دستی کا مظاہر ہ کیا ہے حالانکہ جو روایت جامع ترمذی میں ہے وہی العلل الکبیر میں ہے۔ امام ترمذی نے امام بخاری سے اسی حدیث کے تحت سیف بن ہارون کے بارے میں ’’مقارب الحدیث ‘‘ کی تعدیل نقل کی ہے۔ دونوں کتب کی عبارتیں ملاحظہ کرنے کے بعد تقابل کیجیے:
1…جامع ترمذي: کتاب اللباس، باب ماجاء في لبس الفراء، رقم: ۱۷۲۶:
’’۱:وسألت البخاري عن ہذا الحدیث فقال: ما أراہ محفوظا، روی سفیان عن سلیمان التیمي عن أبي عثمان عن سلمان موقوفا
۔
۲:
قال البخاري: وسیف بن ہارون مقارب الحدیث وسیف بن محمد عن عاصم ذاہب الحدیث
۔

‘‘
2…اب اسی حدیث (( الحلال ماأحل اللّٰہ في کتاب …إلخ)) کے تحت العلل الکبیر (أبواب اللباس، باب ماجاء في لبس الفراء: ۲/۷۲۲، رقم الباب: ۳۰۳) کی عبارت ملاحظہ کیجیے:
’’۱: سألت محمدًا عن ہذا الحدیث فقال: ما أراہ محفوظاً، روی سفیان بن عیینۃ عن سلیمان التیمي عن أبي عثمان عن سلمان ہذا الحدیث موقوفًا۔
۲: قال محمد: وسیف بن ہارون مقار ب الحدیث و محمد بن جابر ذاہب الحدیث۔‘‘
قارئین کرام! آپ نے غور فرمایا کہ امام ترمذی کی دونوں کتابوں میں تقریباً یکساں عبارت ہے جو ہمارے دعوے کی دلیل ہے کہ العلل الکبیر امام ترمذی ہی کی تصنیف ہے۔
باقی رہا امام بخاری کا سنن ترمذی میں سیف بن محمد عن عاصم کو ’’ذاہب الحدیث ‘‘ اور العلل الکبیر میں محمد بن جابر کو ’’ذاہب الحدیث ‘‘ کہنا تو اس حوالے سے عرض ہے کہ ناقدینِ فن مختلف مقامات پر اَحادیث کی علل اور راویوں کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں۔ یہاں بھی یہی صورت معلوم ہوتی ہے کہ ترمذی میںسیف بن محمد کو اور العلل الکبیر میں محمد بن جابر کو ’’ذاہب الحدیث ‘‘ قرار دیا ہے۔
سیف بن محمد عن عاصم کی سند کہاں ہے، ہمیں بسیار تتبع کے بعد بھی نہیں ملی !
سیف بن محمد کے بارے میں امام بخاری نے کہا: ’’لایتابع علیہ۔‘‘ (التاریخ الکبیر: ۴/۱۷۲، رقم:۰ ۲۳۸)، علامہ مغلطائي نے امام بخاری سے ’’لا یتابع علیہ، ہو ذاہب الحدیث ‘‘ نقل کیا ہے۔ (إکمال تہذیب الکمال: ۶/۱۹۵)
حافظ ابن حجر نے بھی علامہ مغلطائي سے اسی طرح نقل کیاہے۔ (تہذیب التہذیب: ۴/۲۹۷)
تقریب التہذیب (۳۰۱۷) میں محدثین کے اقوال کا خلاصہ یوں ذکر کیا ہے: ’’کذبوہ۔ ‘‘ (ان محدثین نے اسے جھوٹا کہاہے )
گویا علامہ مغلطائي نے ترمذی اور التاریخ الکبیر للبخاري کے الفاظ کو یک جا کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی دعویٰ کردے کہ ’’ہو ذاہب الحدیث‘‘ کے الفاظ التاریخ الکبیر کے مطبوعہ نسخے میں نہیں ہیں، لہٰذا موجودہ نسخہ بھی مشکوک ٹھہرا! یا مغلطائی کی کتاب مشکوک ہوگئی! تو…؟
بعینہٖ دعویٰ ہمارے کرم فرما ندیم صاحب نے کر دیا کہ امام بیہقی کے العلل الکبیر سے نقل کردہ اقوال العلل میں نہیں ،لہٰذا العلل کا مطبوعہ نسخہ مشکو ک ہے۔(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص: ۱۳۴)
ایسی ’’تحقیق انیق‘‘ پر سردھننے کو جی چاہتا ہے! اختلافِ نسخ کاادنیٰ سا درک رکھنے والا طالبِ علم بھی اس سے بہ خوبی واقف ہے کہ نسخوں کا اختلاف کتاب کی صحت کو مشکوک نہیں کرتا، ورنہ ایسے طرزِ عمل اور سطحی تحقیق سے ذخیرۂ حدیث محفوظ نہیں رہ سکے گا!
العلل الکبیر میں امام بخاری نے جس محمد بن جابر کو ’’ذاہب الحدیث‘‘کہا ہے، اس کی روایت کہاں ہے اور وہ کون ہے ؟اس راوی کی روایت نہیں مل سکی، ممکن ہے وہ محمد بن جابر الیمانی السحیمي ہو۔ کیوں کہ العلل میں وہ بدونِ نسبت مذکو رہے۔ امام بخاری نے اس کے بارے میں فرمایا:
…’’لیس بالقوي۔‘‘ (التاریخ الکبیر: ۱/۵۳، ترجمۃ: ۱۱۱)
…’’لیس بالقوي عندہم۔‘‘ (الضعفاء الصغیر، ص: ۹۵، رقم: ۳۲۳۔ تحفۃ الأقویاء)
…’’یتکلمون فیہ۔‘‘ (التاریخ الأوسط:۴/۶۶۸،ترجمۃ: ۱۰۳۴)
…’’لیس بالقوي، یتکلمون فیہ، روی مناکیر۔‘‘ (تہذیب الکمال للمزي: ۱۶/۱۶۳، تہذیب التہذیب: ۹/۸۹)
اس راوی کے بارے میںامام بخاری کی جرح ’’روی مناکیر‘‘ امام مزی نے کہاں سے نقل کی ہے، اُنھوں نے اس کی کوئی صراحت نہیں کی۔ اور امام بخاری کی کتابوں میں محمد بن جابر کے ترجمے میں بھی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ ندیم صاحب یہاں یہ دعویٰ کردیں کہ امام بخاری کی کتابوں کی نسبت بھی مشکوک ہے کیوں کہ حافظ مزی اور حافظ ابن حجر کا ذکر کردہ قول ان میں نہیں!
ملحوظ رہے کہ ناقدینِ فن راوی کی توثیق و تجریح غیر محل پر بھی ذکر کر دیتے ہیں، حفاظِ دنیا اور کتب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے والے ان تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث اور اس کے شواہد کی تخریج کے لیے ملاحظہ ہو: تحقیق و حاشیہ سنن سعید بن منصور (۲/۳۲۰۔ ۳۳۰، حدیث: ۹۴)، تنبیہ الہاجد لأبي إسحاق الحویني(۴/۱۳۹- ۱۴۳، حدیث: ۱۱۶۲،۱۱۶۳)۔
دونوں اصطلاحات میں جمع و توفیق ممکن ہے:
مولانا ندیم ظہیر صاحب نے ذکر کیا کہ امام بخاری نے سیف بن ہارون کو جامع ترمذی میں ’’مقارب الحدیث ‘‘جب کہ العلل الکبیر میں ’’لہ مناکیر‘‘ کہا ہے۔ ہم ابھی ذکرکر آئے ہیں کہ جامع ترمذی اور العلل الکبیر میں اس راوی کی ایک ہی روایت کے ضمن میں اسے ’’مقارب الحدیث‘‘ کہا ہے، جب کہ العلل الکبیر میں اس کی دوسری روایت کے تحت اس کے بارے میں ’’لہ مناکیر‘‘ کی جرح کی ہے۔
العلل الکبیر (۲/۶۸۰،۶۸۱)میں حضرت جریر بن عبداللہ البجلي رضی اللہ عنہ سے اس کی حدیث اور امام بخاری کی جرح موجود ہے، جب کہ امام ترمذی نے سنن ترمذی ،حدیث: ۱۵۹۱ کے تحت ’’وفي الباب‘‘ میں حضرت جریر کی حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، یعنی روایت ذکر نہیں کی اور نہ امام بخاری کا قول ذکر کیا ہے۔
ثانیاً:’’مقارب الحدیث ‘‘ اور ’’لہ مناکیر‘‘ دو ایسی اصطلاحات نہیں کہ جن میں جمع و توفیق ممکن نہ ہو۔ ’’مقارب الحدیث‘‘ کے معنی ہیں کہ اس کی حدیث دوسرے ثقہ راویوں کی حدیث کے قریب ہے یا دیگر رواۃ کی حدیث اس کی حدیث کے قریب ہے۔ یہ ایسا درمیانی درجہ ہے جو حدِ سقوط تک پہنچتا ہے اور نہ اس راوی کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس اصطلاح کا شمار عموماً الفاظِ تعدیل میں ہوتا ہے۔
’’لہ مناکیر‘‘ کا مطلب ہے کہ اس نے منکر احادیث بیان کی ہیں۔ اس کا یہ مفہوم نہیں کہ اس کی ساری روایات مسترد کر دی جائیں گی۔ علامہ عبدالحی لکھنوی نے اس قسم کے الفاظ کو قابلِ اعتبار جرح میں شمار نہیں کیا۔ (الرفع والتکمیل ،ص: ۲۱۰)
حافظ سخاوی ان الفاظ کو ضعف کے درجۂ خامسہ (ہلکے ضعف) میں لائے ہیں۔ اس درجے میں وہ ’’منکر الحدیث ‘‘ راوی کو بھی لائے ہیں ۔(فتح المغیث: ۲/۱۲۳) جو درست نہیں کیوں کہ ’’منکر الحدیث ‘‘ کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اور ’’لہ مناکیر‘‘ میں تفردات مراد ہوتے ہیں جو کبھی باعثِ جرح ہوتے ہیں اور اکثر نہیں ہوتے۔ حافظ ابن حجر نے صحیحین بلکہ کتبِ ستہ کے راوی ابو بکر عبدالسلام بن حرب النہدي الملأي الکوفي کے بارے میں لکھا ہے ہے:
’’ثقۃ حافظ، لہ مناکیر۔‘‘ (التقریب: ۴۵۵۷)
مولانا ابو الاشبال احمد شاغف لکھتے ہیں:
’’اس راوی کی صحیح بخاری میں دو حدیثیں ہیں: ایک مغازي میں ہے اور دوسری طلاق میں متابعتاً ہے۔ ‘‘ (ضیاء الباري لمعرفۃ رجال صحیح البخاري، ص:۱۲۰، ترجمہ: ۸۷۷، قرۃ العینین في معرفۃ رجال الصحیحین ،ص:۲۰۲، ترجمہ: ۱۲۹۰)
ابراہیم بن عبدالرحمان بن مہدی بصری کے بارے میں حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:
’’صدوق لہ مناکیر۔‘‘ (التقریب: ۲۳۳)
اس لیے امام بخاری کا ’’مقارب الحدیث‘‘ اور’’لہ مناکیر‘‘کہنے میں کوئی ایسا تعارض نہیں جس میں تطبیق ممکن نہ ہوسکے۔ اور اس سے کتاب العلل کی صحت بھی مشکوک نہیں ہوتی۔اگر تعارض ہوتا بھی تو اسے تعددِ اجتہاد پر محمول کیاجانا چاہیے تھا۔ امام بخاری نے کتاب الضعفاء میں صلت بن بہرام کو ذکر کیا اور اس پر إرجاء اور ’’لا یصح حدیثہ‘‘کی جرح کی، جس پر مولانا زبیر نے یوں تعلیق لکھی:
’’ثقہ ہے۔ میرے خیال کے مطابق امام بخاری نے اسے مرجئی ہونے کی وجہ سے الضعفاء میں ذکر کیا ہے، پھر اُسے دوسرے نسخے میں حذف کر دیا ہے اور (التاریخ ) الکبیر میں بغیر کسی جرح کے ذکر کیا ہے۔ ‘‘
(تحفۃ الأقویاء ،ص: ۵۵)
گویا امام بخاری کا اجتہاد تغیرہوگیا، جیسا کہ دیگر اہلِ علم کا اسلوب ہے کہ وہ تغلیط کے بجائے جمع وتوفیق کی کوشش کرتے ہیں۔
باقی رہا مولانا ندیم صاحب کا یہ دعویٰ کہ ’’اس طرح کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں، والحمد للّٰہ ‘‘ تو اُن سے گزارش ہے کہ ایسی مثالیں قارئین کے سامنے پیش کرنے میں بخل ساے کام نہ لیں بلکہ حق کو نکھارنے کے لیے انھیں ضرور ذکر کیں، تاکہ ہمارے لیے بھی ان پر تبصرہ کرنے کی کوئی سبیل پیدا ہو جائے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دیگر مغالطات کا جائزہ:
…ندیم صاحب رقم طراز ہیں:
’’اگر یہ اب بھی گمشدہ ہی ہے تو ثابت کیوںکر ہو گئی!‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص، ۱۳۴)
بلاشبہ امام ترمذی کی اپنی تصنیف شدہ کتاب اب بھی مفقود کتب میں شمار ہوتی ہے، البتہ اس کی ترتیب موجود ہے جسے توسعاً ’’العلل الکبیر للترمذي‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔ اکثر محدثین بھی اسے یوں ہی ذکر کرتے ہیں۔ علامہ ابن بلبان کی مرتب کردہ کتاب کو صحیح ابن حبان ہی کہا جاتا ہے۔ قیام اللیل، قیام رمضان اور کتاب الوتر تینوں کتب ہی امام ابو عبداللہ محمد بن نصر المروزي (وفات: ۲۹۴ھ) کی ہیں، جو مفقود ہیں۔ علامہ احمد بن علی المقریزي (وفات: ۸۴۵ھ) نے ان کا اختصار کیا جو مطبوع اور متداول ہے۔ علمائے کرام ان تینوں رسائل سے استدلال کرتے اور امام مروزی کے اقوال بھی بلا جھجک نقل کرتے ہیں۔ شاید کسی اور عالم کا حوالہ مولانا ندیم کے لیے قابلِ اعتماد نہ ہو، اس لیے ہم مولانا زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا حوالہ پیش کیے دیتے ہیں۔ انھوں نے متعدد مقامات پر قیام اللیل للمروزي کی صراحت کرنے کے بعد علامہ مقریزی کے اختصار کا حوالہ دیا ہے۔(ملاحظہ ہو تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ، ص: ۲۲، ۳۲)
بعض مقامات پر مختصر قیام اللیل یا مختصر قیام اللیل للمروزي لکھا۔(تعداد رکعات، ص: ۷۷، ۸۵، ۸۹، ۹۰، ۹۵)
قیام اللیل للمروزي کا ایک حوالہ فیض الباري سے نقل کیا ہے۔ (تعداد رکعات، ص: ۱۸)
اس لیے جب اس قسم کی کتابوں کا حوالہ دیا جائے تو اس سے مراد معروف اور متداول کتابیں ہوتی ہیں۔ اگر مقریزی کے اختصار کے باوجود وہ کتاب امام مروزی کی رہتی ہے تو ابو طالب کی ترتیب کے بعد یہ کتاب امام ترمذی کی کیوں نہیں رہتی! اس لیے یہ اعتراض نہایت سطحی سا ہے۔
محدثین اپنے اساتذہ کی کتب کا جو انتقاء، انتخاب یا تخریج کرتے ہیں یا محدث کے رجسٹر میں بکھری ہوئی احادیث، مرویات، مسموعات اور مشائخ کو ترتیب سے ذکر کر کے اس کا نام ثبت رکھتے ہیں، سب مشکوک ہو جائیں گی۔
ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ ’’منتخب کو اصل پر ترجیح نہیں دی جا سکتی‘‘ تو مولانا زبیر نے یوں جواب دیا:
’’اگر حافظ صاحب کو عبد بن حمید کی المسند الکبیر کا نسخہ کہیں سے مل گیا ہے تووہ پیش کریں، ورنہ منتخب مسند عبد بن حمید مطبوع و مخطوط مصور ہمارے پاس موجود ہے … الخ۔‘‘
(تحقیقی مقالات: ۲/۴۱۷)
اس لیے مولانا ندیم کا یہ اعتراض کہ ’’اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ وہی العلل ہے جو امام بیہقی کے پاس تھی … الخ‘‘ (ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص: ۱۳۴) نہایت عامیانہ ہے۔
بلکہ اس ’’اصول‘‘ سے جامع ترمذی کی صحت بھی دھندلا جاتی ہے۔ ڈاکٹر خالد بن منصور الدریس رقم طراز ہیں:
’’امام بخاری سے جتنی بھی تحسینات (احادیث یا راویات کو حسن کہنا) منقول ہیں، سبھی کا مصدر امام ترمذی کی دو کتب ہیں: ایک العلل الکبیر اور دوسری جامع ترمذي۔ اس (جامع) میں نصوص العلل الکبیر سے کہیں زیادہ ہیں۔
مجھے چار ایسی نصوص ملی ہیں جن میں امام ترمذی نے امام بخاری کی تحسین نقل کی ہے مگر مجھے وہ العلل الکبیر اور جامع ترمذی میں نہیں ملیں۔ ان میں سے پہلی معرفۃ السنن و الآثار، دوسری تہذیب الکمال، تیسری معرفۃ السنن للبیہقي اور چوتھی السنن الکبری میں ہے۔ میں نے انھیں بھی دیگر نصوص میں شامل کیا ہے کیوں کہ ان دونوں کتب کی صحت کو عیب دار یا مشکوک قرار دینے والی کوئی چیز نہیں، کیوں کہ جامع ترمذی کی ایسی روایت جس پر ہم نے اطلاع نہیں پائی، میں ان نصوص کی موجودگی کا قوی احتمال ہے یا پھر یہ نصوص العلل الکبیر کے کسی ایسے نسخے میں ہوں جن پر ابو طالب القاضی مطلع نہیں ہو پائے۔ انھوں نے کتاب العلل کو ابواب کے مطابق ڈھالا ہے۔ ان کی ترتیب شدہ کتاب ہی متداول ہے۔ ہمیں اصل کتاب کی موجودگی کا کچھ علم نہیں۔‘‘
(الحدیث الحسن لذاتہ و لغیرہ: ۱/۳۹۸،۳۹۹)
…ندیم صاحب لکھتے ہیں:
’’جس سند میں مجہول راوی ہو وہ سند کبھی صحیح یا حسن نہیں ہو سکتی۔‘‘ (ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص: ۱۳۳)
یہ نکتۂ اختلاف ہی نہیں، تسلیم شدہ باتوں کو تسلیم کروانا بلاشبہ بڑے لوگوں کا کام ہے۔ ہم نے پورے مضمون میں کہیں بھی اس کتاب کی سند کو حسن یا صحیح نہیں کہا بلکہ ہم نے پہلی دلیل ’’محدثین کا اعتماد‘‘ ذکر کی ہے۔ جس کا کوئی معتبر جواب مولانا نہیں دے سکے۔
کتاب سے نقل اور کتاب کو روایت کرنے میں فرق ہے:
ندیم ظہیر صاحب لکھتے ہیں:
’’آپ نے جس محدث کو بہ طورِ دلیل پیش کیا ہے وہ امام بیہقی ہیں جو نہ امام ترمذی کے معاصر ہیں اور نہ تلامذہ میں سے ہیں۔ جب کہ امام ترمذی ان سے تقریباً ۱۷۹ سال پہلے (۲۷۹ھ) میں فوت ہو چکے تھے۔ ۱۷۹ سالہ دور میں موجود العلل الکبیر کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص: ۱۳۴)
موصوف کے مبلغِ علم کا عالَم یہ ہے کہ وہ کتاب سے نقل کرنے اور کتاب روایت کرنے کا فرق ہی نہیں سمجھ پائے۔ امام بیہقی نے العلل الکبیر سے نقل کیا ہے، اسے روایت نہیں کیا، جیسا کہ ندیم صاحب نے بھی اسی مضمون میں ترمذی اور فتح الباری کے حوالے دیے ہیں، ان کے مولفین اور مولانا موصوف میں اتنی دور ہے کہ ’’مسافروں کی گردنیں ٹوٹ جائیں۔‘‘
باقی رہا (۱۷۹) سال اس کتاب کا نام و نشان نہ ملنا تو یہ اس کے غیر معتبر ہونے کی دلیل نہیں۔ ہم عرض کر آئے ہیں کہ بکھرے مواد پر مشتمل کتب سے استفادہ مشکل ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس (۱۷۹) سالہ دور میں کسی محدث نے اس کا انکار کیا! جس زمانے میں قلم اور دوات سے کتابت ہوتی تھی، ظاہر بات ہے کہ اس زمانے میں کتابیں اتنی متداول نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔
ثانیًا: اگر یہ کتاب خطاً یا عمداً امام ترمذی کی طرف منسوب ہو گئی ہے تو اس کا سبب کون ہے؟ کیا کوئی نام پیش کیا جا سکتا ہے؟
ثالثاً: قاضی ابو طالب کی ترتیب سے پہلے امام بیہقی کے علاوہ امام ابن عبدالبر اور حافظ ابن عساکر نے جو اقوال نقل کیے ہیں، کیا شیخ زبیر کے منہج کے مطابق کم از کم وہ امام بیہقی کی موافقت نہیں!
رابعًا: یہ کتاب اگر امام ترمذی کی نہیں تو اس کا حقیقی مولف کون ہے؟
خامسًا: کتاب کے مخطوط پر کتاب کا نام غلط ہے!
کتاب سے روایت (نقل) کرنے کے بارے میں مولانا زبیر مرحوم کا موقف دیکھیے:
’’یہ کتاب سے روایت ہے اور کتاب سے روایت اصولِ حدیث کی رُو سے جائز ہے۔‘‘ (نور العینین، ص: ۴۱۶)
علامہ زرکشی (وفات:۷۹۴ھ) نے علامہ ابوبکر صیرفی (وفات: ۳۳۰ھ) کی کتاب الدلائل و الأعلام سے ایک قول نقل کیا اور اس پر شیخ نے یوں تبصرہ کیا:
’’تنبیہ: چونکہ کتاب الدلائل و الأعلام میرے پاس موجود نہیں اور نہ مجھ اس کے وجود کا کوئی علم ہے، لہٰذا یہ حوالہ مجبوراً زرکشی سے لیا ہے اور دوسرے علماء نے بھی صیرفی سے اس حوالے کو نقل کیا ہے،مثلاً: دیکھیے شرح ألفیۃ العراقي بالتبصرۃ و التذکرۃ (۱/۱۸۳، ۱۸۴) نیز یہ کہ کتاب سے روایت جائز ہے، الا یہ کہ اصل کتاب میں طعن ثابت ہو تو پھر جائز نہیں ہے۔‘‘
(نور العینین، ص: ۴۸۵)
جب کہ کتاب سے نقل کرنے میں شیخ کا منہج نہایت عجیب ہے۔ امام عبدالعزیز الدراورديی المدني کے بارے میں جرح نقل کرتے ہوئے امام ساجی کا قول تہذیب التہذیب (۶/۳۱۶) سے وہ نقل کرتے ہیں اور اس پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
’’یہ حوالہ بے سند ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ حافظ ابن حجر نے اسے ساجی کی کتاب الضعفاء سے نقل کیا ہو، و اللہ اعلم۔‘‘
(فتاویٰ علمیہ: ۲/۳۵۳)
مگر جب یحییٰ بن سلیم الطائفي کا جرح و تعدیل کے اعتبار سے جائزہ لیا تو امام ساجی کا قول جرح میں بھی نقل کیا اور تعدیل میں بھی، جب کہ اس کا مرجع بھی تہذیب التہذیب ہے!
پہلے صفحے پر امام ساجی کی طرف سے تعدیل نقل کی۔ (فتاویٰ علمیہ: ۲/۴۱۷، صحیح بخاری کا دفاع، ص: ۳۳۶) اور اگلے صفحے پر جرح نقل کی۔ (فتاویٰ علمیہ: ۲/۴۱۸، صحیح بخاری کا دفاع، ص: ۳۳۷)
یعنی انھوں نے امام ساجی کے قول کی ایک جگہ تردید کی اور دو مقامات پر استدلال کیا۔
…مولانا زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’جس شخص کا جو قول بھی پیش کیا جائے اس کا صحیح و ثابت ہونا ضروری ہے۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ یہ فلاں کتاب، مثلاً: تہذیب الکمال، میزان الاعتدال یا تہذیب التہذیب وغیرہ میں لکھا ہوا ہے بلکہ اس کے ثبوت کے بعد ہی اسے بہ طورِ جزم پیش کرنا چاہیے۔‘‘ (مقدمۂ تحقیق موطأ، ص: ۵۵، ماہ نامہ الحدیث، شمارہ: ۳۴، ص: ۳)
جب کہ وہ حافظ ابن حجر سے امام حاکم کا قول ’’و اتفاق الشیخین علیہ یقوي أمرہ‘‘ تہذیب التہذیب سے نقل بھی کر رہے ہیں! (تحقیقی مقالات: ۴/۳۶۹)
سوال یہ ہے کہ حافظ ابن حجر نے امام حاکم کا قول ان کی کس کتاب سے لیا ہے؟ اور یہاں تہذیب التہذیب کی عبارت معتبر کیوں ہے؟
راقم السطور نے امام حاکم کا قول ان کی متعدد کتب (المستدرک، معرفۃ علوم الحدیث، المدخل إلی الصحیح اور المدخل إلی معرفۃ کتاب الإکلیل) میں تلاش کیا مگر کامیابی نہ ہو سکی۔ تاہم المدخل إلی الصحیح (۴/۱۵۵،۱۵۶) میں اس سے ملتا جلتا قول امام نسائی سے امام حاکم نے نقل کیا ہے۔ ممکن ہے کہ حافظ ابن حجر نے علامہ مغلطائی سے نقل کیا ہو۔ اور اکمال تہذیب الکمال کا متعلقہ حصہ مفقود ہے۔
…مولانا ندیم لکھتے ہیں:
’’حدیث کی صحت و ضعف کی بنیاد علم جرح و تعدیل اور اسماء الرجال پر ہے، لہٰذا اس سلسلے میں جب تک وہی احتیاط اختیار نہیں کی جائے گی جو کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینے کے وقت کی جاتی ہے تو اس فن کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکے گا، یعنی یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص: ۱۳۶)
سوال ہے کہ یہ کیسا ’’انصاف‘‘ ہے جو محدثین نہیں کر سکے؟ انھوں نے ’’ناانصافی‘‘ اور ’’ظلم‘‘ کیا؟ مولانا ندیم جو اصول متعارف کروا رہے ہیں کیا محدثین، جن کا اوڑھنا بچھونا ہی خدمتِ حدیث تھا، اس سے بے خبر رہے! کیا یہ ’’سلف صالحین کے متفقہ فہم کا پرچار‘‘ اور ’’اجماع کی برتری‘‘ ہے؟ یا یہ ’’اصول‘‘ ہی خانہ ساز ہے!
مولانا زبیر مرحوم بھی زندگی بھر محدثین کے ہاں قابلِ اعتماد کتب سے استدلال کرتے رہے، بلکہ العلل الکبیر بھی ان کے مراجع میں شامل تھی۔ وہ پہلے منہجِ محدثین پر چلتے رہے یا اس کتاب کا انکار کرنے کے بعد اسلوبِ محدثین پر گامزن ہوئے؟
… ندیم صاحب نے کمال چالاکی سے خود ہی مغالطہ آمیز نتیجہ پیش کرتے ہوئے ’’بوکھلاہٹ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا:
’’یعنی صحتِ کتاب کے لیے سند شرط ہے بھی اور نہیں بھی۔‘‘
(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث، شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲، ص: ۱۳۶)
ہمارے مہربان کی ’’کرم فرمائی‘‘ یہاں بھی نظر آرہی ہے۔ ہم نے صحتِ سند کی اہمیت کا انکار کب کیا ہے؟ البتہ ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کتاب کے ثبوت کے لیے صرف یہی کسوٹی رہی تو محدثین کی قابلِ اعتماد بہت سی کتب سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ جن کی حفاظت کے لیے ہم نے سات شرائط ذکر کیں۔ اگر وہ سبھی شرائط کسی کتاب میں موجود ہوں تو اس کتاب کی سند اور متن نہایت اعلیٰ درجے کی صحیح ہو گی۔ جتنی شرائط کم ہوتی جائیں گی اسی قدر صحتِ کتاب کا درجہ کم ہوتا جائے گا۔ ہم ہفت روزہ الاعتصام میں یہ لکھ چکے ہیں:
’’جس کتاب یا مخطوط میں یہ شروط پائی جائیں تو اس کی نسبت میں کسی قسم کا شبہ نہیں۔ جتنی شرائط کم ہوتی جائیں گی اسی قدر اس کی حیثیت گھٹتی جائے گی۔‘‘
(ہفت روزہ الاعتصام، جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۴، ص ۲۱)
اب قارئین فیصلہ کرسکتے ہیں کہ محدثین کی کتابوں کا دفاع کون کر رہا ہے اور ان کی محنتوں اور کاوشوں کو کون رائیگاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ منہجِ محدثین کی شاہراہ پر کون گامزن ہے اور کون اپنے شذوذ کی پگڈنڈیوں پر لڑھک رہا ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک نظر ادھر بھی:
جامع ترمذی اور العلل الکبیر کے مابین تعارض ثابت کرنے والے ایک نگاہ إمام العلل ترمذی پر بھی ڈالیے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’و سألت أبا زرعۃ و محمدًا عن ہذا الحدیث، فقالا: لیس بصحیح، لأن ابن المبارک روی ہذا عن ثور عن رجاء۔ قال: حدثت عن کاتب المغیرۃ مرسل عن النبي رحمہ اللہ و لم یذکر فیہ المغیرۃ۔‘‘
(جامع ترمذي، رقم: ۹۷)
’’میں نے ابوزرعہ (رازی) اور محمد (بن اسماعیل بخاری) سے اس حدیث کی بابت سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: وہ صحیح نہیں کیوں کہ اسے ابن المبارک عن ثور عن رجاء حدثتت عن کاتب المغیرۃ، عن النبی رحمہ اللہ مرسل بیان کرتے ہیں۔ اس میں مغیرہ (بن شعبہ) کا ذکر نہیں کیا۔‘‘
امام ترمذی نے امام بخاری اور امام ابوزرعہ سے جو سند نقل کی ہے اس کے مطابق رجاء اور کاتب المغیرہ کے مابین ’’حدثت‘‘ مجہول واسطہ ہے۔ اس مقام پر یہ واسطہ ذکر کرنے والے امام ترمذی تنہا ہیں۔ جب کہ خود امام بخاری اس کے برعکس ثور بن یزید اور رجاء بن حیوہ کے مابین ’’حدثت‘‘ کا واسطہ ذکر کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’و قال أحمد بن حنبل: حدثنا ابن مہدي حدثنا ابن المبارک عن ثور حدثت عن رجاء بن حیوۃ عن کاتب المغیرۃ بن شعبۃ۔ لیس فیہ المغیرۃ۔‘‘ (التاریخ الکبیر: ۸/۱۸۶، التاریخ الأوسط: ۳/۱۹۴، فقرۃ: ۳۳۰)
امام ابوزرعہ الرازی نے متعلقہ حدیث پر بحث کی ہے مگر جہاں سند پر گفتگو کی ہے وہاں کتاب میں سقط ہے، جیسا کہ محققینِ کتاب نے بھی وضاحت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو العلل لابن أبي حاتم: ۷۸)معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی کو امام بخاری وغیرہ کے حوالے سے سند ذکر کرنے میں وہم ہوا ہے، جیسا کہ امام بخاری کی نقل سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ نیز امام احمد سے یہ سند ذکر کرنے والے امام بخاری تنہا نہیں بلکہ امام احمد کے مشہور ترین شاگرد بھی اسی طرح بیان کرتے ہیں:
1…امام ابوبکر احمد بن محمد بن ہانی الاثرم:
(ملاحظہ ہو التمہید لابن عبدالبر:۱/۱۳،۱۴، ۱۱/۱۴۷۔ السنن الأبین لابن رشید الفہري:۱۲۲۔ الإمام في معرفۃ أحادیث الأحکام لابن دقیق العید:۲/۱۴۶۔ نصب الرایۃ: ۱/۱۸۱،۱۸۲۔ البدر المنیر لابن الملقن: ۳/۲۱۔ التلخیص الحبیر:۱/۱۵۹، حدیث: ۲۱۸، دوسرا نسخہ: ۱/۴۳،حدیث: ۷۱۵)
2…امام عبداللہ بن احمد:
(ملاحظہ ہو المحلی لابن حزم:۲/۱۱۴۔ تہذیب سنن ابی داود لابن القیم:۱/۱۲۴)
3…امام ابو الفضل صالح بن امام احمد:
(ملاحظہ ہو مسائل الإمام أحمد بن حنبل:۲/۱۲۶ روایۃ ابن صالح۔ تاریخ بغداد: ۲/۱۳۵، ترجمہ: ۵۳۵)
امام ترمذی کے وہم کی تیسری دلیل یہ ہے کہ حافظ الدنیا دارقطنی نے اس کی سند اسی طرح بیان کی ہے جس طرح امام بخاری وغیرہ نے ذکر کی ہے۔ (العلل للدارقطني: ۷/۱۱۰، سنن الدارقطني: ۱/ ۱۹۵، حدیث: ۷، دوسرا نسخہ: ۱/۴۴۵، حدیث: ۷۴۲)
امام بیہقی نے اپنی سند سے امام دارقطنی کا قول سنن الدارقطني سے نقل کیا ہے۔ (السنن الکبری: ۱/۲۹۱، نیز دیکھیے معرفۃ السنن و الآثار: ۱/۳۵۱، تحت رقم: ۴۴۳)
ازاں بعد لکھتے ہیں:
’’اسی طرح امام ترمذی نے امام بخاری اور امام ابوزرعہ الرازی سے نقل کیا ہے۔‘‘ (السنن الکبری: ۱/۲۹۱)
ان کے اس قول کا مطلب ہے کہ امام ترمذی نے ان سے اس حدیث کا مرسل ہونا نقل کیا ہے۔ یہ مفہوم نہیں کہ باقی سند بھی اسی طرح بیان کی ہے جس طرح امام دارقطنی نے بیان کی ہے۔
امام ترمذی کے وہم کی چوتھی دلیل خود ان کی اپنی تحریری گواہی ہے، چنانچہ وہ العلل الکبیر میں لکھتے ہیں:
’’سألت محمدا عن ہذا الحدیث، فقال: لا یصح ہذا۔روی عن ابن المبارک عن ثور بن یزید قال: حدثت عن رجاء بن حیوۃ عن کاتب المغیرۃ عن النبي رحمہ اللہ مرسلا۔ و ضعف ہذا۔و سألت أبا زرعۃ، فقال نحوا مما قال محمد بن إسماعیل۔‘‘
(ترتیب العلل الکبیر: ۱/۱۸۰، رقم: ۳۵)
یہاں امام ترمذی نے ثور اور رجاء کے مابین ’’حدثت‘‘ کا واسطہ ذکر کیا ہے جو سبھی محدثین ذکر کرتے ہیں، جیسا کہ آپ ابھی پڑھ آئے ہیں۔یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ امام ترمذی کو جامع ترمذی میں وہم ہوا ہے اور العلل الکبیر میں صحیح لکھا ہے۔
راقم الحروف سے پیشتر اہلِ علم نے امام صاحب کے اس وہم کی نشان دہی کی ہے جو درج ذیل ہیں:
1:محدثِ مصر احمد شاکر۔ (تحقیق الترمذی: ۱/۱۶۴) غالباً سب سے پہلے انھوں نے اس وہم کی نشان دہی کی ہے۔
2:امام البانی: انھوں نے جامع ترمذی میں امام بخاری اور امام ابوزرعہ کے قول اور المحلی لابن حزم میں امام احمد کے قول کو مدغم کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ سند دو جگہ سے منقطع ہے:
(۱)۔ ثور اور رجاء کے مابین، جیسا کہ امام احمد نے فرمایا ہے۔
(۲) رجاء اور کاتب المغیرہ کے درمیان، جیسا کہ امام ترمذی نے شیخین سے نقل کیا ہے۔ (ضعیف سنن أبي داود: ۹/۵۵)
ازاں بعد ان کا میلان بھی امام ترمذی کے وہم کی طرف ہو گیا۔(الضعیفۃ: ۱۲/۱/۸۶)
3:محققین مسند احمد۔ (الموسوعۃ الحدیثیۃ: ۳۰/۱۳۷)
4:الشیخ ابو عمرو یاسر بن محمد فتحی آل عید۔(فضل الرحیم الودود تخریج سنن أبي داود: ۲/۲۷۰)
5:شیخ عبداللہ نوارۃ۔ (تحقیق تحفۃ التحصیل في ذکر رواۃ المراسیل لأبي زرعۃ العراقي، ص: ۱۰۶)
ڈاکٹر ماہر یٰسین فحل الشیخ احمد شاکر کی تردید اور امام ترمذی کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انھیں وہم نہیں ہوا، جیسا کہ العلل الکبیر سے معلوم ہوتا ہے۔ ترمذی میں ناسخ کی غلطی ہے۔‘‘
(الجامع في العلل و الفوائد: ۱/۲۷۳)
ڈاکٹر صاحب کا یہ موقف درست نہیں، کیوں کہ جامع ترمذی کا قدیم اور معتبر ترین قلمی نسخہ، جو نسخۃ الکروخي کے نام سے مشہور ہے، راقم الحروف کے سامنے ہے۔ اس میں بھی اسی طرح لکھا ہے جس طرح مطبوع جامع ترمذی میں لکھا ہے۔ (ملاحظہ ہو نسخۃ الکروخي: ۱۰/ب)
جامع ترمذی کی مستخرج میں بھی اسی طرح ہے۔ (ملاحظہ ہو مختصر الأحکام للطوسي، ص: ۴۸، رقم: ۷۸۔ تحفۃ الأشراف: ۸/۴۹۷۔ عارضۃ الأحوذي لابن العربي: ۱/۱۴۶۔ تحفۃ الأحوذي: ۱/۳۹۴، بیت الأفکار الدولیۃ)
اسی پر بس نہیں، بلکہ امام ترمذی کے نقل کردہ قول سے حافظ علائی، حافظ ابوزرعہ العراقی اور حافظ ابن حجر بھی یہ سمجھے کہ امام بخاری اور امام ابو زرعہ، رجاء اور کاتب المغیرۃ کے مابین انقطاع کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ (جامع التحصیل للعلائي، ص: ۲۱۱، تحفۃ التحصیل، ص: ۱۰۶، تہذیب التہذیب: ۳/۲۶۶)
اس لیے مصنف کی غلطی کو ناسخ کے سر ڈالنا درست نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حافظ علائی کا وہم:
ڈاکٹر ماہر فحل کی طرح شیخ یوسف بن محمد الدخیل بھی امام ترمذی کی نقل کی درستگی کی طرف گئے ہیں۔
(سؤالات الترمذي للبخاري: ۱/۳۰۷)
ان کی ایک دلیل امام ترمذی کی نقل ہے، دوسری دلیل امام احمد کا قول ہے جو اُن سے حافظ علائی نے ذکر کیا ہے:
’’و قال أحمد بن حنبل: لم یلق رجاء بن حیوۃ ورّادا یعني کاتب المغیرۃ۔‘‘
(جامع التحصیل، ص: ۲۱۱)
یہی قول حافظ ابوزرعہ ابن العراقی اور حافظ ابن حجر نے بھی ذکر کیا ہے۔ (تحفۃ التحصیل، ص: ۱۰۶، تہذیب : ۳/۲۶۶)
امام احمد کا یہ قول کہاں ہے، ان سے کس شاگرد نے نقل کیا ہے، حافظ علائی نے اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ اور ہمیں بھی نہیں مل سکا۔ بنا بریں ہمارا رجحان حافظ علائی کے وہم کی طرف ہے۔ آپ ابھی پڑھ آئے ہیںکہ امام احمد سے ان کے چار شاگردوں (امام بخاری، امام اثرم، امام عبداللہ اور امام صالح) نے ثور اور رجاء کے مابین ’’حدثت‘‘ کا واسطہ ذکر کیا ہے۔امام اثرم کی روایت میں صراحت ہے:
’’و لم یسمعہ ثور من رجاء۔‘‘(التمہید: ۱/۱۳)
’’یہ حدیث ثور نے رجاء سے نہیں سنی۔‘‘
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’فأفسدہ من وجہین: حین قال: حدثت عن رجاء، و أرسلہ و لم یسندہ۔‘‘
(الإمام لابن دقیق العید: ۲/۱۴۶)
’’اس نے دو چیزوں کی بنا پر اِس کی صحت کو بگاڑ دیا: (۱)جب کہا: حدثت عن رجاء، (۲) اسے مرسل بیان کیا اور مسنداً بیان نہیں کیا۔‘‘
اس قول میں امام احمد حدیث میں صرف دو علّتیں ذکر کر رہے ہیں؛ پہلی علت ثور اور رجاء کے مابین انقطاع ہے۔ دوسری علت اس کا مرسل ہونا راجح ہے، یعنی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا واسطہ نہیں ہے۔
اگر رجاء اور کاتب المغیرۃ کے درمیان بھی انقطاع ہوتا تو یقینا امام صاحب اسے دو علتوں میں محصور نہ کرتے۔
ثانیاً: یہ بھی احتمال ہے کہ امام احمد نے کسی اور روایت کے تحت اس انقطاع کی طرف اشارہ نہ کیا ہو۔ اسی کے پیشِ نظر ذخیرۂ حدیث کو کھنگالا تو معلوم ہوا کہ رجاء بن حیوۃ عن کاتب المغیرۃ ورّاد سے صرف دو روایات بیان کرتے ہیں۔ ہمارے اس دعوے کو تقویت حافظ الدنیا طبرانی کے قول سے بھی مل گئی کہ انھوں نے اپنی دو کتابوں ’’رجاء بن حیوۃ عن ورّاد کاتب المغیرۃ‘‘ کے عنوان کے تحت دو احادیث ذکر کی ہیں؛ ایک تو زیرِ بحث حدیث ((المسح أعلاہ و أسفلہ)) ہے۔ دوسری حدیث نماز کے بعد ذکر سے متعلق ہے۔ (المعجم الکبیر: ۲۰/۳۹۵،۳۹۶، حدیث: ۹۳۷، ۹۳۸، ۹۳۹۔ مسند الشامیین: ۳/۲۱۷، حدیث: ۲۱۱۸، ۲۱۱۹، ۲۱۲۰)
ان دونوں حدیثوں میں سے پہلی حدیث پر امام احمد کا نقد موجود ہے، دوسری کے بارے میں ان کی کوئی جرح موجود نہیں، بلکہ اس حدیث میں رجاء بن حیوۃ کی متعدد متابعتیں صحیحین میں بھی موجود ہیں۔ (صحیح بخاري، رقم: ۸۴۴، ۶۳۳۰، ۶۴۷۳، ۶۶۱۵، ۷۲۹۲۔ صحیح مسلم، رقم: ۵۹۳)
اس لیے ایسی روایت پر امام احمد کا کلام کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
ثالثاً: درج ذیل محدثین نے ثور اور رجاء کے مابین انقطاع کی صراحت کی ہے:
(۱) امام ابو داود۔ (سنن أبي داود، رقم: ۱۶۵)
(۲) امام موسی بن ہارون الحمال۔(التلخیص الحبیر: ۱/۴۳۰)
(۳) امام بغوی۔ (شرح السنۃ: ۱/۴۶۳)
(۴) امام بیہقی لکھتے ہیں:
’’إن الحفاظ یقولون: لم یسمع ثور ہذا الحدیث من رجاء بن حیوۃ۔‘‘
(معرفۃ السنن و الآثار: ۱/۳۵۱)
’’حفاظ کا کہنا ہے: ثور نے یہ حدیث رجاء بن حیوۃ سے نہیں سنی۔‘‘
امام ابونعیم لکھتے ہیں:
’’یہ رجاء کی غریب حدیث ہے، اس سے یہ روایت صرف ثور بیان کرتا ہے۔‘‘ (حلیۃ الأولیاء: ۵/۱۷۶)
اس لیے یہ مضبوط قرینہ ہے کہ محدثین نے ثور اور رجاء کے مابین انقطاع کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ بنا بریں حافظ علائی کا امام احمد سے رجاء اور کاتب المغیرۃ کے درمیان انقطاع ثابت کرنا درست نہیں۔
دوسری مثال:
امام ترمذی کے وہم کی دوسری مثال پیشِ خدمت ہے:
اسماعیل بن رافع جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔ جب کہ امام ترمذی فرماتے ہیں:
’’و إسماعیل بن رافع قد ضعفہ بعض أصحاب الحدیث، و سمعت محمدا یقول: ہو ثقۃ، مقارب الحدیث۔‘‘
(جامع الترمذي، رقم: ۱۶۶۶)
’’اسماعیل بن رافع کو بعض محدثین نے ضعیف کہا ہے۔ میں نے محمد (امام بخاری) کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ ثقہ اور مقارب الحدیث ہے۔‘‘
امام بخاری کا یہ قول ان کی کتابوں میں موجود نہیں، امام ترمذی نے خود اُن سے سنا ہے۔ یہ قول متعدد محدثین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ امام ذہبی بھی یہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’و من تلبیس الترمذي۔‘‘ (میزان الاعتدال: ۱/۲۲۷، تحت ترجمۃ: ۸۷۲)
یعنی امام ترمذی پر امام بخاری کا قول گڈ مڈ ہو گیا ہے۔انھوں نے تو کسی اور راوی کی تعدیل کی تھی جسے امام ترمذی نے اس راوی کے بارے میں سمجھ لیا کیوں کہ اس کی مرویات اور دیگر ناقدین کے اقوال اس کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
 
Top