• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سند ِ کتاب اور منہجِ محدثین

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۱۔کتاب کی نسبت پر اجماع :
مولانا زبیر علی زئی نے العلل الکبیر کا انکار تو کر دیا مگر لطف یہ ہے کہ وہ خود بھی اس اسلوب پر قائم نہ رہ سکے کیوں کہ جگہ جگہ محدثین کے مسلک سے ٹکراو پیدا ہو رہا تھا۔ بلکہ ’’سلف صالحین کے متفقہ پرچار‘‘ اور ’’اجماع کی برتری ‘‘کے اپنے ہی دعوے کھوکھلے محسوس ہو رہے تھے۔ بنا بریں وہ خاصی اضطرابی کیفیت میں رہے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔
العلل الکبیر للترمذي کا آج تک کسی نے انکار نہیں کیا، خواہ وہ متقدمین میں سے ہوں یا متاخرین اور معاصرین میں سے۔ ہمارے فاضل دوست بھی اپنے استاد گرامی کے موقف کی ہم نوائی میں کسی عالم کو پیش نہیں کر سکتے۔
یہ نکتہ بھی پیشِ نظر رہے کہ امام بیہقی نے امام ترمذی کی اصل کتاب سے استفادہ کیا۔ اسی طرح ان کے معاصرحافظ ابن عبدالبر اور ان کے بعد حافظ ابن عساکر بھی مستفیض ہوئے۔ پھر ابو طالب قاضی نے جامع ترمذی کی ترتیب کے مطابق اسے ڈھالا،تاکہ اس سے استفادہ آسان ہو جائے۔ انھی کا مرتب کردہ نسخہ شائع شدہ اور متداول ہے ۔
موصوف کے علاوہ آج تک کسی قابلِ اعتبار اور صاحبِ علم و دانش کا اس سے انکارنہ کرنا اس پر اجماع کی دلیل ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ آپ سے پہلے بھی کسی نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے؟ ان کی خدمت میں ہم شیخِ مکرم ہی کے اقوال پیش کیے دیتے ہیں:
1…’’اجماع کا ثبوت دو طریقوں سے حاصل ہوتا ہے :
اول: محدثین و علمائے اہل سنت کی تصریحات سے، مثلاً: ابن المنذر کی کتاب الاجماع وغیرہ ۔
دوم: تحقیق کے بعد واضح ہو جائے کہ فلاں مسئلہ ایک جماعت سے ثابت ہے اور اس دور میں ان کا کوئی مخالف معلوم نہ ہو، لہٰذا یہ اجماع ہے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات از حافظ زبیر علی زئی: ۵/۱۰۸، ماہ نامہ الحدیث، شمارہ: ۹۱، ص: ۴۳، ۴۴، دسمبر ۲۰۱۱ء)
العلل الکبیر بھی ثبوت اجماع کے اس دوسرے طریقے میں شامل ہے کہ وہ سبھی محدثین سے ثابت ہے، اس کا کوئی مخالف نہیں ۔
شیخِ مکرم ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں :
2…’’اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے صحیح قرار دیا ہے: ۱۔ ابوعوانہ الاسفرائنی۔ (صحیح ابی عوانہ : ۲/۴۲، ح: ۵۸۵۹) ۲: حاکم۔ (المستدرک : ۴/۴۳۳، ح: ۸۳۳۲) ۳:ذہبی۔ (ایضاً، ح: ۸۳۳۲) ان کے مقابلے میں کسی ایک محدث یا امام نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا ، لہٰذا اِس روایت کے صحیح اور مقبول ہونے پر اجماع ہے۔‘‘
(تحقیقی مقالات: ۳/۳۵۰ )
یعنی ان کے نزدیک جس حدیث کی صحت تین ائمہ سے ثابت ہو جائے اور ان کا کوئی مخالف نہ ہو تو اس پر اجماع ہوگا۔ شیخ موصوف سے قبل کسی محدث نے اس حدیث کی صحت پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا۔
انصاف فرمائیے! العلل الکبیر کو اکتالیس محدثین و علمائے کرام نے امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے اور کسی نے انکار بھی نہیں کیا، کیا ان کا اجماع نہیں اور ان کا اجماع معتبر نہیں؟ کیا سبھی علماء کی نگاہوں سے وہ نکتہ اوجھل رہا جس کی نشان دہی شیخِ مکرم نے کی؟
3…نیز لکھتے ہیں:
’’آج تک کسی مسلم عالم نے اس بات کا انکار نہیں کیا کہ اہل الحدیث سے مراد محدثین کی جماعت ہے، لہٰذا اِس صفاتی نام اور نسب کے جائز ہونے پر اجماع ہے ۔ ‘‘
(اہل حدیث ایک صفاتی نام ،ص: ۵۸)
4…’’امام دارقطنی کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ولید بن مسلم تدلیس تسویہ کرتے تھے ۔ ولید بن مسلم کو حافظ ابن حجر ، العلائی ، ابوزرعہ ابن العراقی، ذہبی ، حلبی ، مقدسی اور سیوطی وغیرہم نے مدلس قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: الفتح المبین، ص: ۷۳) اور ان کا کوئی مخالف مجھے معلوم نہیں ، لہٰذا تدلیسِ ولید پر اجماع ہے ۔ ‘‘ (أضواء المصابیح في تحقیق مشکاۃ المصابیح: ۱/۲۷۸)
حالانکہ شیخ سے قبل کسی نے بھی تدلیسِ ولید پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ اس اجماع کا ذکر مدلسین سے مختص کتاب الفتح المبین في تحقیق طبقات المدلسین (ص: ۱۳۶) میں بھی نہیں کیا۔
ثانیاً: حافظ ابن حجر، العلائی، ابو زرعہ ابن العراقی، ذہبی اور سیوطی وغیرہم نے بھی العلل الکبیر کو امام ترمذی کی طرف منسوب کیاہے جس کی تفصیل ہم اپنے پہلے مقالے میں عرض کر چکے ہیں۔(ملاحظہ ہو ہفت روزہ الاعتصام، لاہور،جلد: ۶۷ ، شمارہ : ۲۵ ،ص: ۱۸- ۲۱)
اگر ان ائمہ کے اقوال کی بنیاد پر تدلیسِ ولید پر اجماع کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے تو العلل الکبیر پر کیوں نہیں!
5…’’محدثین نے (سفیان ) ثوری کی تدلیس پر اجماع کیا ہے… یہ روایت منکر مردود اور اجماع کے مخالف ہے۔‘‘
(الفتح المبین،ص: ۶۸ ، مطبوعہ ۱۴۳۴ھ)
6…’’ترکِ رفعِ یدین والی روایتِ مذکورہ میں ایک راوی امام سفیان ثوری ہیں جو کہ بالاجماع مدلس تھے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات:۴/۲۰۵)
7…’’یاد رہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کامدلس ہونا اجماع اور تواتر سے ثابت ہے اور اس کا انکار جہالت ہے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات :۴/۲۱۴)
8…’’یہاں تو سفیان ثوری کے مدلس ہونے پر اجماع ہے ۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات :۴/۲۳۶)
9…’’عرض یہ کہ سفیان ثوری کا مدلس ہونا اجماعی مسئلہ ہے ۔ ‘‘ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام:۲/۳۱۳)
حالانکہ موصوف محترم سے قبل کسی نے ثوری کے مدلس ہونے پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا ۔
10…’’میرے علم کے مطابق کسی نے بھی محمد بن اسحاق کی تدلیس کا انکار نہیں کیا، گویا اس کی تدلیس بالاجماع ثابت شدہ ہے ۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات : ۱/۲۷۳)
ابن اسحاق کی تدلیس پر کسی معتبر محدث نے اجماع نقل نہیں کیا۔ اگر ہم بھی محدثین کے اقوال کی روشنی میں اس کتاب کی صحت پر اجماع کا دعویٰ کریں تو وہ غلط کیوں کر قرار پائے!
ثانیاً: اگر کتاب کی سند ضعیف ہی ہو تو کیا علماء کا اجماع اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور کتاب قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتی؟
شیخِ مکرم ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’امام ابو حاتم الرازی: اسماء الرجال کے مشہور امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
’’و اتفاق أہل الحدیث علی شيء یکون حجۃ۔‘‘
’’اور کسی چیز پر اہلِ حدیث کا اتفاق حجت ہوتا ہے۔‘‘
(کتاب المراسیل،ص: ۱۹۲، فقرہ : ۷۰۳)‘‘
(تحقیقی مقالات: ۱/۱۶۴،۱۶۵)
اہلِ حدیث کا العلل الکبیر پر اتفاق حجت کیوں نہیں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۲۔ غنیۃ الطالبین میں اُصول شکنی:
غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی کی نہایت معروف تصنیف ہے جس کی بابت شیخ سے استفسار کیا گیا:
’’سوال: کیا غنیۃ الطالبین نامی کتاب شیخ عبدالقادر جیلانی سے ثابت شدہ ہے؟…الخ۔
الجواب: غنیۃ الطالبین کتاب کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے لیکن حافظ ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ) اور ابن رجب الحنبلی (متوفی ۷۹۵ھ) دونوں اسے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی کتاب قرار دیتے ہیں۔ (دیکھیے کتاب العلو للعلي الغفار للذہبي ،ص: ۱۹۳، الذیل علی طبقات الحنابلۃ لابن رجب: ۱/۲۹۶)اور یہی راجح ہے ۔
تنبیہ : مروجہ غنیۃ الطالبین کے نسخے کی صحیح و متصل سند میرے علم میں نہیں ہے ، واللہ اعلم۔‘‘(فتاویٰ علمیہ : ۲/۴۲۱)
اس جواب پر درج ذیل ملاحظات ہیں :
1… مولانا موصوف ’’قلمی اور مطبوعہ کتابوں سے استدلال کی شرائط ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
’’شرط نمبر ۲: کتاب کے مخطوطے کا ناسخ و کاتب ثقہ و صدوق ہو ۔ شرط نمبر ۳: ناسخِ مخطوطہ سے صاحبِ کتاب تک سند صحیح ہو …ان شرائط میں سے اگر ایک شرط بھی موجود نہ ہو تو اس کتاب کی روایت سے استدلال کرنا باطل و مردود ہو جاتا ہے ۔ ‘‘(مقدمہ جعلی جزء کی کہانی،ص: ۱۵،۱۶)
عرض ہے کہ غنیۃ الطالبین میں کم ازکم یہ دونوں شروط ختم ہو گئیں، لہٰذا اِس سے استدلال ’’باطل و مردود‘‘ ہو گیا تو پھر کیوں استدلال کیاگیا؟
2… اگر نسخے کی صحیح و متصل سند موجود نہیں تو پھر متداول نسخے کو شیٓخ جیلانی کی کتاب قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟
3… اُنھوں نے اس کی نسبت کے لیے دو محدثین کے نام پیش کیے:۱۔حافظ ذہبی، ۲۔حافظ ابن رجب۔
اس طالبِ علم کا نہایت آسان سوال ہے کہ اگر غنیۃ الطالبین دو محدثین کی صراحت سے شیخ جیلانی کی تصنیف قرار دی جا سکتی ہے تو العلل الکبیر اکتالیس محدثین کی وضاحت کے بعد کیوں نہیں ؟
4…اُنھوں نے غنیۃ الطالبین کے بارے میں علماء کے اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ سوال ہے کہ مختلف فیہ کتاب میں دو محدثین کا قول فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے تو العلل الکبیر ، جس کی نسبت میں کسی کا کوئی اختلاف ہی نہیں ، میں کیوں نہیں ہو سکتا ؟
5… حافظ ذہبی اور حافظ ابن رجب کے اقوال کی بنیاد پر غنیۃ الطالبین شیخ جیلانی کی کتاب ہو سکتی ہے توانھی کے اقوال پر العلل الکبیر امام ترمذی کی کیوں نہیں ہو سکتی؟
ہم ہفت روزہ الاعتصام،لاہور (جلد: ۶۷، شمار: ۲۵، ص: ۱۸-۲۰) میں ان دونوں ائمہ کے متعدد اقوال نقل کر چکے ہیں ۔
غنیۃ الطالبین سے استدلال:
1…فضیلۃ الشیخ مولانا زبیر علی زئی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
’’شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا:
’’ولا یجوز وصفہ بأنہ في کل مکان، بل یقال: إنہ في السماء علی العرش۔‘‘
’’یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ ) ہر جگہ میں ہے، بلکہ یہ کہا جاتا ہے: وہ آسمان میں عرش پر ہے۔‘‘ (الغنیۃ لطالبي طریق الحق: ۱/۵۶، العلو للعلي الغفار: ۲/۱۳۷۰،فقرۃ: ۵۴۸، ذیل طبقات الحنابلۃ لابن رجب: ۱/۲۹۶)
یاد رہے کہ غنیۃ الطالبین عبدالقادر جیلانی کی کتاب ہے۔(دیکھیے کتاب الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب: ۱/۲۹۶ والعلو للعلی الغفار: ۲/۱۳۷۰)‘‘
(فتاویٰ علمیہ: ۳/۷۲، ۷۳، مطبوعہ ۲۰۱۵ء)
2…’’(۲۰)مشہور واعظ شیخ عبدالقادر بن ابی صالح الجیلانی الحسنی الحنبلی (متوفی ۵۶۱ھ) نے قرآن کو مخلوق یا ’’لفظي بالقرآن مخلوق‘‘ کہنے والے بدعتی کے بارے میں فرمایا: ’’ولا یصلی خلفہ۔‘‘ (اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے)۔‘‘(الغنیۃ لطالبي طریق الحق: ۱/۵۸ ، غنیۃ الطالبین، ترجمہ: محبوب احمد: ۱/۱۰۴، غنیۃ الطالبین، ترجمہ: عبدالدائم جلالی ،ص: ۱۰۰)‘‘
(بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم،ص: ۸۵)
اس وقت ہم مولانا موصوف کا وہ اصول دہرانا چاہتے ہیں جو اُنھوں نے صحت ِ کتاب کے حوالے سے ذکر کیا ہے :
’’کسی کتاب سے حوالہ پیش کرنے کے لیے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے :اول : صاحبِ کتاب ثقہ و صدوق ہو ۔ دوم: کتاب ، صاحبِ کتاب تک صحیح ثابت ہو ۔ سوم: صاحب ِ کتاب سے لے کر صاحبِ قول و روایت تک سند صحیح و حسن لذاتہ ہو۔ ان شرطوں میں سے اگر ایک بھی مفقود ہو تو پھر کتاب کا حوالہ بے کار اور مردود ہو جاتا ہے ۔‘‘
(فتاویٰ علمیہ : ۲/۴۱۴)
عرض ہے کہ کیا غنیۃ الطالبین میں شرطِ دوم ختم نہیں ہوجاتی۔ اور اس کے بعد کیا اس کا حوالہ ’’بے کار اور مردود‘‘ ہے؟ اگر ایسی ہی صورت ہے تو پھر پیش کرنے کا کیا فائدہ؟ کیا یہ اُصول شکنی نہیں؟ حالانکہ وہ خود لکھتے ہیں :
’’اپنے ہی اُصول توڑ کر پاش پاش کر دینا مذہبی خودکشی کی بدترین مثال ہے ۔ ‘‘ (فتاویٰ علمیہ : ۳/۲۵۶)
مزید رقم طراز ہیں:
’’بے سند کتابوں کے جتنے بھی حوالے ہوں، تحقیقی میدان میں مردود ہوتے ہیں۔‘‘ (تحقیقی مقالات : ۳/۳۸۲)
بلکہ اُنھوں نے ایک مضمون بہ عنوان ’’بے سند اقوال سے استدلال غلط ہے ‘‘ بھی لکھا۔(دیکھیے تحقیقی مقالات: ۳/۲۱۵-۲۱۷، ماہ نامہ الحدیث ، حضرو،شمارہ: ۶۹، ص: ۲۔ فروری ۲۰۱۰ء)
مولانا کے ان اقوال پر تبصرہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۳۔تاریخ الغرباء مفقود ہے :
امام ابو سعید عبدالرحمان بن احمد بن یونس بن عبدالاعلیٰ الصد فی المصری (وفات: ۳۴۷ھ)، جو امام ابن یونس مصری کے نام سے معروف ہیں ، کی دو کتب شہرۂ آفاق ہیں : ۱: تاریخ المصریین، ۲: تاریخ الغرباء۔ان دونوں کا شمار گم شدہ (مفقود) کتابوں میں ہوتا ہے ۔
1…مولانا مرحوم نے مکحول شامی کی توثیق میں پانچویں موثِّق امام ابن یونس مصری کو ذکر کیا ہے:
’’(۵)ابو سعید ابن یونس المصری (متوفی ۳۴۷ھ) نے کہا:’’وکان فقیہا عالما۔‘‘ (اور آپ فقیہ عالم تھے) ۔ ‘‘
(تاریخ الغرباء، یعنی تاریخ ابن یونس: ۲/۲۳۶، رقم: ۶۳۱)‘‘
(تحقیقی مقالات:۴/۳۵۵، ماہ نامہ الحدیث،شمار: ۷۹،ص: ۴۴۔ دسمبر ۲۰۱۰ء)
اُنھوں نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے ، حوالہ پیش کرنے سے قبل اس کتاب کو اپنے اُصول کے مطابق پرکھنا چاہیے تھا۔ اگر وہ ان کی مقرر کردہ کسوٹی پر پوری اترتی تو اسے حوالے کے لیے پیش کرتے، ورنہ اپنے مخصوص الفاظ اور اندازِبیان میں اس کی بھرپور تردید کرتے۔
مگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ دو جلدوں میں مطبوع کتاب امام ابن یونس مصری کی ذاتی تصنیف ہے ہی نہیں، بلکہ ڈاکٹر عبدالفتاح فتحی عبدالفتاح کی کاوش ہے جس میں اُنھوں نے مختلف مصادرِ رجال وغیرہ سے ان راویان کو اکٹھا کیا جن پر امام صاحب نے توثیقاً یا تجریحاً کلام کیا، پھر ان کی تحقیق کی اور کتاب کا دراسہ کیا۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مختلف فہارس کا اہتمام کیا اور کتاب کے سرِ ورق پر لکھا :
القسم الثاني: تاریخ الغرباء
جمع و تحقیق ودراسۃ وفہرسۃ:
الدکتور عبدالفتاح فتحي عبدالفتاح

دوسری جلد کے آخر میں لکھا :
’’تم-بحمد اللّٰہ تعالی-تجمیع ما تیسر لي من بقایا کتاب ’’تاریخ الغرباء‘‘ للمؤرخ المصري ابن یونس الصدفي۔‘‘
(تاریخ ابن یونس المصري: ۲/۲۶۳)
تاریخ الغرباء کے تعارف میں لکھتے ہیں :
’’ابن یونس نے یہ کتاب ’’تاریخ الغرباء‘‘ تالیف کی، وہ بھی تاریخ المصریین کی طرح گم شدہ ہے۔ یہ پچھلی کتاب سے ضخامت اور تراجم میں مختلف ہے ۔ ‘‘(مقدمہ جمع و تحقیق : ۲/۳)
ازاں بعد جمع و ترتیب کے بارے میں اپنے منہج کی وضاحت کی ۔
آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’گیارہویں صدی ہجری کے وسط تک یہ دونوں کتب موجود تھیں ، پھر گم ہو گئیں ۔‘‘ (تاریخ الغرباء: ۲/۳۱۸)
اُنھوں نے اس کتاب کی جلد اول میں تاریخ المصریین کے راوی جمع کیے ہیں جن کی تعداد ۱۴۶۲ ہے۔ اور تاریخ الغرباء میں ۷۰۳ رواۃِ مصر جمع کیے ہیں۔ کل راوی ۲۱۶۵ ہوئے ۔
اس لیے مولانا کا تاریخ الغرباء کو امام ابن یونس کی تصنیف قرار دینا درست نہیں۔
2…اسی پر بس نہیں، وہ ایک اورراوی (عثمان بن الحکم الجذامی المصری ) کی توثیق کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ابن یونس (مورّخِ مصر) نے کہا کہ وہ فقیہ اور متدین تھا۔ ایضاً۔‘‘
(نور العینین ،ص:۳۵ ، مطبوعہ اکتوبر ۲۰۱۲ء)
’’ایضاً‘‘ سے مراد تہذیب التہذیب از ابن حجر ہے۔ حالانکہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب (۷/۱۱۱) میں امام ابن یونس مصری کا یہ قول بدون نسبت ِ کتاب ذکر کیا ہے اور اس قول کی کوئی سند بھی بیان نہیں کی، اس کے باوجود شیخ کا ایسے قول سے استدلال کرنا نہایت عجیب ہے۔
اولاً: آپ مولانا کا قول ابھی پڑھ آئے ہیں کہ صاحبِ کتاب سے لے کر صاحبِ قول و روایت تک سند صحیح و حسن لذاتہ ہو۔(ورنہ) کتاب کا حوالہ بے کار اور مردود ہوجاتا ہے ۔(فتاویٰ علمیہ : ۲/۴۱۴)
ثانیاً: مولانا دو مقامات پر رقم طراز ہیں:
’’جس شخص کا جو قول بھی پیش کیا جائے اس کا صحیح و ثابت ہونا ضروری ہے ۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ یہ فلاں کتاب، مثلاً: تہذیب الکمال، میزان الاعتدال یا تہذیب التہذیب وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔ بلکہ اس کے ثبوت کے بعد ہی اسے بہ طورِ جزم پیش کرنا چاہیے۔ ‘‘ (ماہ نامہ الحدیث،شمارہ: ۳۴، ص: ۳۔ مارچ ۲۰۰۷ء، مقدمۂ تحقیق موطأ،ص: ۵۵)
یوں شیخ نے خود ہی اپنے اس اصول کی مخالفت کردی۔
ملحوظ رہے کہ عثمان الجذامی کا ترجمہ تاریخ المصریین لابن یونس میں موجود ہے ۔ (تاریخ ابن یونس المصری (جمع : عبدالفتاح): ۱/۳۳۷،۳۳۸ ترجمہ : ۹۲۲ )
3…مولانا مرحوم امام مکحول کی توثیق میں لکھتے ہیں :
’’ امام ابن یونس مصری فرماتے ہیں :
’’اتفقوا علی توثیقہ۔‘‘ (مکحول کے ثقہ ہونے پر اتفاق ہے) ۔ (تہذیب الأسماء و اللغات للنووي: ۲/۱۱۴)‘‘(الکواکب الدریۃ في وجوب الفاتحۃ خلف الإمام في الصلاۃ الجہریۃ:مسئلہ فاتحہ خلاف الامام، ص: ۶۱، مطبوعہ جون ۲۰۰۷ء)
حالانکہ امام نووی نے اسے امام ابن یونس مصری کی کتاب سے نقل کرنے کی صراحت نہیں کی، نہ ان تک کوئی سند بیان کی اور نہ ہی تہذیب الأسماء واللغات امام ابن یونس کی کتاب ہے۔
یہ حوالہ بھی مولانا کا اپنے ہی اُصول سے رُوگردانی کا نمونہ ہے۔
مکحول کا ترجمہ تاریخ ابن یونس-تاریخ الغرباء-میںموجود ہے۔ (۲/۲۳۶، ۲۳۷، ترجمہ: ۶۳۱۔ جمع و تحقیق : عبدالفتاح)
ڈاکٹر صاحب موصوف نے امام ابن یونس مصری کا مذکورہ بالا قول نقل نہیں کیا جو انھیں ذکر کرنا چاہیے تھا ۔
مولانا نے امام ابن یونس مصری کے چوتھے قول، جو امام نسائی کی فلسطین میں وفات کے بارے میں تھا، کا یوں حوالہ دیا:
’’سیر أعلام النبلاء: ۱۴/۱۳۳، المستفاد من ذیل تاریخ بغداد: ۱۹/۴۹،تاریخ ابن یونس المصري: ۲/۲۴، ت: ۵۵۔‘‘
(تحقیقی مقالات : ۶/۲۷۴)
نفسِ مسئلہ اور ذکر کردہ اُصول سے قطع نظر ان حوالوں کی تفصیل یہ ہے کہ حافظ ذہبی نے ’’قال أبو سعید ابن یونس في تاریخہ‘‘ لکھا ہے۔ (سیر: ۱۴/۱۳۳)یہاں سوال یہ ہے کہ امام ذہبی اگر سیر أعلام النبلاء سے تاریخ ابن یونس کا حوالہ نقل کریں تو وہ مستند اور جب کہیں : ’’وقال الترمذي في عللہ۔‘‘(سیر أعلام النبلاء: ۶/۱۴۱) تو وہ کیوں غیر معتبر ٹھہرے ؟
ہم حافظ ذہبی کے متعدد اقوال ہفت روزہ الاعتصام، لاہور (جلد: ۶۷، شمارہ: ۲۵،ص: ۱۸) میں ذکر کر چکے ہیں جس کا کوئی جواب مولانا ندیم صاحب نہ دے سکے!
رہا مولانا مرحوم کا ذکر کردہ دوسرا حوالہ تو وہ حافظ دمیاطی نے بدون نسبت ِ کتاب ہی ذکر کیا ہے اور اپنی سند بھی بیان نہیں کی۔
تیسرا حوالہ تاریخ ابن یونس المصری کا ہے جو عبدالفتاح فتحی کی جمع کردہ کتاب ہے، امام ابن یونس کی نہیں ۔ ان کا مرجع بھی المستفاد من ذیل تاریخ بغداد ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مولانا نے مکحول شامی کی توثیق کے بارے میں دو اقوال اور عثمان الجذامی کے بارے میں ایک قول امام ابن یونس مصری سے نقل کیا ہے جو ان کے قائم کردہ معیار ِ صحت پر پورے نہیں اترتے۔
ممکن ہے کوئی کہے کہ حافظ ابن حجر اور امام نووی نے امام ابن یونس مصری کی کسی کتاب سے نقل کیے ہوں گے، لہٰذا اُن کے معتبر ہونے میں کیا شبہ ہے؟
عرض ہے کہ شیخ کے اُصول کے مطابق ناقل کا بالصراحت حوالہ دینا ضروری ہے کہ اس نے کس کتاب سے یہ قول اخذ کیا ہے۔ ہمارے نزدیک ایسے حوالے معتبر ہوتے ہیں، سوائے ان حوالوں کے جن کی تغلیط کے دیگر اسباب موجودہوں۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ صاحبِ کتاب سے لے کر صاحبِ قول تک متصل سند کا اُنھوں نے خود کس قدر پاس کیا ہے، سرِدست دو مثالیں پیش خدمت ہیں ۔
1…اُنھوں نے ’’ائمہ مسلمین اور فع الیدین‘‘ کے جلی حروف کے تحت امام اوزاعی کا نام بھی ذکر کیا ہے:
’’(۶): امام اوزاعی۔ (التمہید: ۹/۲۲۶)۔‘‘
(نور العینین،ص:۳۲۱)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’الطبري بہ حوالہ التمہید (۹/۲۲۶) و سند الطبري صحیح۔‘‘(نور العینین،ص: ۱۸۰)
یعنی امام اوزاعی بھی مثبّتین رفع الیدین میں شامل ہیں ، حالانکہ حافظ ابن عبدالبر (وفات: ۴۶۳ھ) نے اپنی کتاب التمہید میں امام اوزاعی کا قول امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری (وفات: ۳۱۰ھ) سے نقل کیا ہے ۔ یہ قول منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیوںکہ امام طبری کی وفات اور حافظ ابن عبدالبر کی پیدائش کے مابین اٹھاون (۵۸) برس کا فاصلہ ہے ! اب وہ اُصول کہاں گیا کہصاحبِ کتاب سے لے کر صاحبِ قول تک سند متصل ہونی چاہیے!
2…اسی فہرست میں اُنھوں نے ابو الولید ہشام بن عبدالملک الطیالسی کا بھی ذکر کیا ہے:
’’(۱۰) ابو الولید الطیالسی ۔ (المعجم لابن الأعرابي : ۲/۴۱۰،۴۱۱) ‘‘(نور العینین،ص: ۳۲۱)
یہ سند بھی راوی کے عدمِ ترجمہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیوںکہ المعجم لابن الاعرابی (۲/۴۱۰،۴۱۱، رقم: ۱۲۵۷ ۔دوسرا نسخہ: ۲/۶۳۳،۶۳۴، رقم: ۱۲۵۷) میں امام ابن الاعرابی کے استاد تمیم بن عبداللہ ابو محمد الرازی کا ترجمہ نہیں مل سکا ۔
سوال یہ ہے کہ جب امام اوزاعی اور ابوولید طیالسی سے بہ سند صحیح اثباتِ رفع الیدین ثابت نہیں تو اس پر ’’چھ‘‘ اور ’’دس‘‘ نمبر کیوں لگایا؟ کیوں کہ وہ لکھتے ہیں :
’’چونکہ یہ توثیق باسند صحیح ثابت نہیں ، لہٰذا میں نے اس پر کوئی نمبر نہیں لگایا ۔‘‘ (تحقیقی مقالات : ۶/۱۴۱)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ روایت المروزی کے عدمِ تعین کی وجہ سے ثابت نہیں، لہٰذا اِس پر یہاں کوئی نمبر نہیں لگایا گیا۔‘‘
(تحقیقی مقالات : ۶/۱۶۰)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۴۔کتاب الصلاۃ لابن حبان:
بعض الناس نے کتاب الصلاۃ لابن حبان کا انکار کیا تو شیخِ مکرم نے جواب دیا :
’’عرض ہے کہ حافظ ابن حبان کی کتاب الصلاۃ (صفۃ الصلاۃ، وصف الصلاۃ بالسنۃ )کا ذکر درج ذیل کتابوں میں موجود ہے:
البدر المنیر لا بن الملقن، طرح التثریب في شرح التقریب لأبي زرعۃ ابن العراقي، تہذیب السنن لابن القیم، اتحاف المہرۃ لابن حجر العسقلاني، التلخیص الحبیر، معجم البلدان لیاقوت الحموي، مغني المحتاج للشربیني۔
بلکہ حافظ ابن حبان نے اپنی صحیح ابن حبان میں اپنی کتاب صفۃ الصلاۃ کا علیحدہ ذکر کیاہے ۔(دیکھیے الاحسان : ۵/۱۸۴،رقم:۱۸۶۷۔ دوسرا نسخہ، رقم: ۱۸۶۴)۔‘‘
(نور العینین ،ص: ۴۱۶)
یعنی اُنھوں نے ایک گم شدہ کتاب کے اثبات کے لیے محدثین وغیرہ کے حوالے پیش کیے اور ازاں بعد حافظ ابن حبان کا قول پیش کیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر محدثین کی نقل سے یا کتاب کے محض ذکر سے گم شدہ کتاب ثابت ہو جاتی ہے تو العلل الکبیر کیوں ثابت نہیں ہوسکتی؟
مولانا مرحوم نے حافظ ابن حبان کی کتاب الصلاۃ سے قول بہ حوالہ التلخیص الحبیر اور البدر المنیر لابن الملقن نقل کیا ہے۔ (نور العینین،ص: ۱۳۱)
اس پر مزید گفتگو آئندہ آئے گی، ان شاء اللہ۔
۵۔ الضعفاء للبخاري کی استنادی حیثیت :
الضعفاء الصغیر امام بخاری کی معروف کتاب ہے جس کی تحقیق شیخِ مکرم نے ’’تحفۃ الأقویاء في تحقیق کتاب الضعفاء‘‘ کے نام سے کی ہے ۔ ان کے اُصول کے مطابق اس کتاب کی بھی امام بخاری کی طرف نسبت مشکوک قرار پاتی ہے۔ وہ سند ِ کتاب کے ایک راوی ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’لم أجد لہ ترجمۃ۔ ولم ینفرد بأصل الکتاب ونصوصہ کما یظہر من تحقیق ہذا الکتاب۔ ودراسۃ ہذا الکتاب یدل علی أنہ صدوق۔‘‘ (مقدمۃ تحفۃ الأقویاء،ص: ۷)
’’مجھے اس راوی کا ترجمہ نہیں ملا ۔ وہ اصل کتاب اور اس کی نصوص بیان کرنے میں منفرد نہیں، جیسے اس کتاب کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کتاب کا دراسہ اس کے صدوق ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ ‘‘
لیجیے جناب! راویِ کتاب کا ترجمہ موجود نہیں اور موصوف قرائن کی طرف چل دیے کہ وہ اصل کتاب اور اس کی نصوص بیان کرنے میں منفرد نہیں۔ حالانکہ انھیں اپنے ’’اُصول‘‘ کی پیروی میں ضعیف سند والی کتاب کی تحقیق ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یا ایسا نسخہ ڈھونڈنا چاہیے تھا جو کاتبِ نسخہ سے لے کر امام بخاری تک صحیح اور متصل سند سے موجود ہوتا، جیسا کہ اُنھوں نے المعجم المفہرس لابن حجر (ص: ۲۳۵، کتاب:۶۷۶) میں مذکور دوسری سند کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ (مقدمہ تحقیق تحفۃ الاقویاء،ص: ۸)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۶۔ابو حامد التاجر کی ’’غیر صریح توثیق ‘‘:
مولانا مرحوم رقم طراز ہیں :
’’اب محمود بن اسحاق رحمہ اللہ کی صریح اور غیر صریح توثیق کے دس سے زیادہ حوالے پیش خدمت ہیں :
۱: حافظ ابن حجر العسقلانی نے محمود بن اسحاق کی بیان کردہ ایک روایت کو حسن قرار دیا ہے ۔ (دیکھیے موافقۃ الخبر الخبر في تخریج أحادیث المختصر : ۱/۴۱۷)
تنبیہ : راوی کی منفرد روایت کو حسن یا صحیح کہنا، اس راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔ (دیکھیے نصب الرایہ: ۱/۱۴۹ ، ۳/۲۶۴)
۲:علامہ نووی نے جزء رفع الیدین سے ایک روایت بہ طورِ جزم نقل کی اور فرمایا: ’’بإسنادہ الصحیح عن نافع۔‘‘ (المجموع شرح المہذب : ۳/۴۰۵)
معلوم ہوا کہ نووی جزء رفع الیدین کو امام بخاری کی صحیح وثابت کتاب سمجھتے تھے ۔
۳:ابن الملقن (صوفی ) نے جزء رفع الیدین سے ایک روایت بہ طور جزم نقل کی اور فرمایا: ’’بإسناد صحیح عن نافع عن ابن عمر۔ ‘‘ (البدر المنیر : ۳/۴۷۸)
۴:زیلعی حنفی نے جزء رفع الیدین سے روایات بہ طورِ جزم نقل کیں۔ (دیکھیے نصب الرایہ : ۱/۳۹۰، ۳۹۳، ۳۹۵)
۵:مشہور محدث ابو بکر البیہقی رحمہ اللہ نے محمود بن اسحاق کی روایت کردہ کتاب جزء القراء ۃ للبخاري کو بہ طورِ جزم امام بخاری سے نقل کیاہے۔ (مثلاً: دیکھیے کتاب القراء ۃ خلف الإمام للبیہقي ،ص: ۲۳،ح : ۲۸)
۶:علامہ ابو الحجاج المزی رحمہ اللہ نے جزء القراء ۃ کو بہ طورِ جزم امام بخاری سے نقل کیا ہے ۔ (مثلاً: دیکھیے تہذیب الکمال : ۳/۱۷۲، ترجمہ: سعید بن سنان البرجمی )
۷:عینی حنفی نے جزء رفع الیدین کو امام بخاری سے بہ طورِ جزم نقل کیاہے۔ (دیکھیے عمدۃ القاری ۵/۲۷۲،تحت رقم: ۷۳۵، نیز دیکھیے شرح سنن ابی داود للعینی: ۳/۲۵۰،ح: ۷۳۲ اور معانی الاخبار:۳/۴۷۶)
۸:بدر الدین محمد بن بہادر بن عبداللہ الزرکشی نے جزء مذکور کو بہ طورِ جزم نقل کیا ہے ۔ (دیکھیے البحر المحیط في أصول الفقہ: ۴/۴۴۹ مکتبہ شاملہ )
۹:محمد الزرقانی نے جزء رفع الیدین کو امام بخاری سے بہ طورِجزم نقل کیا ہے۔ (دیکھیے شرح الزرقانی علی الموطأ: ۱/۱۵۸، تحت رقم: ۲۰۴، باب ماجاء فی افتتاح الصلاۃ)
۱۰:سیوطی نے فض الوعاء میں جزء رفع الیدین کو بہ طورِ جزم امام بخاری سے نقل کیا ۔ (دیکھیے فض الوعاء فی احادیث رفع الیدین بالدعاء: ۱/۵۹، قبل ح : ۱۸)
۱۱:ذہبی۔ (التنقیح لکتاب التحقیق لأحادیث التعلیق: ۱/۲۴۹،ط۔ مکتبہ نزار مصطفی الباز،مکہ)
۱۲:مغلطائی حنفی۔ (دیکھیے شرح سنن ابن ماجہ لمغلطائی : ۱/۱۴۱۴ ، ۱۴۶۶ ، ۲/۸ شاملہ )
وغیرذلک، مثلاً: دیکھیے تنقیح التحقیق (۲/۲۱۸، ح: ۷۵۸، ۱/۳۷۸ شاملہ)
آلِ دیوبند وآلِ بریلی اور آلِ تقلید کے کئی علماء نے جزء رفع الیدین اور جزء القراء ۃ (کلاھما للبخاري/دونوں یاکسی ایک ) کو بالجزم امام بخاری سے نقل کر رکھا ہے جن میں سے بعض حوالے درج ذیل ہیں ۔ ‘‘
(نور العینین، ص: ۵۲۶،۵۲۷، مقالات : ۵/۲۲۰،۲۲۱)
ازاں بعد ان کے نام ذکر کیے ، پھر لکھتے ہیں :
’’ان سب نے جزء القراء ۃ یا جزء رفع الیدین کے حوالے بہ طورِ جزم و بہ طورِ حجت نقل کیے ہیں۔اور بعض نے تو رفع الیدین سے مذکور ایک روایت کو صحیح سند قرار دیا ہے ۔
ہمارے علم کے مطابق محمود بن اسحاق پر کسی محدث یا مستند عالم نے کوئی جرح نہیں کی اور ان کی بیان کردہ کتابوں اور روایتوں کو صحیح قرار دینا یا بالجزم ذکرکرنا (ان پر جرح نہ ہونے کی حالت میں ) اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مذکورہ تمام علماء وغیر علماء کے نزدیک ثقہ وصدوق تھے ، لہٰذا جزء القراء ۃ اور جزء رفع الیدین دونوں کتابیں امام بخاری سے ثابت ہیں۔‘‘
(نور العینین ،ص: ۵۲۸، مقالات : ۵/۲۲۲)
نیز لکھتے ہیں :
’’۸: ابن سید الناس الیعمری نے (جزء رفع الیدین سے ) امام بخاری کے اقوال و روایات کو بہ طورِ جزم نقل کیا۔ (دیکھیے النفح الشذي شرح جامع الترمذی: ۴/۳۹۸، ۳۹۹)
۹: ابن رجب حنبلی نے بھی امام بخاری کے کلام کو بہ طورِ جزم نقل کیا۔(فتح الباری لابن رجب : ۴/۳۰۴،۳۰۸ المکتبۃ الشاملۃ)
۱۰: غالی حنفی ملا علی قاری نے بھی جزء رفع الیدین سے امام بخاری کا کلام بہ طورِ جزم نقل کیا ۔ (دیکھیے الأسرار المرفوعۃ ،ص:۴۷۲، فصل: ۳۸)
…حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا محمود مذکور کی حدیث کو حسن کہنا اور مذکورہ وغیرمذکورہ علماء کا جزء رفع الیدین و کتاب القراء ۃ کو بہ طورِ جزم ذکر کرنا تلقي بالقبول ہے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات : ۴/۴۵۳)
ایک اور مقا م پر لکھتے ہیں :
’’چہارم: ہمارے علم کے مطابق کسی امام نے جزء رفع الیدین کے امام بخاری کی کتاب ہونے کا انکار نہیں کیا …عبدالعزیز سے صدیوں پہلے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے مسموعات میں کتاب رفع الیدین في الصلاۃ لہ (أي للبخاري) کو ذکر کیا ہے ۔ (دیکھیے المعجم المفہرس ،ص: ۶۱،فقرہ: ۱۰۶) ‘‘ (تحقیقی مقالات : ۶/۹۴)
مولانا موصوف کے ذکر کردہ مذکورہ بالا اُصولوں کے تحت اگر کتاب القراء ۃ یا جزء رفع الیدین ثابت ہو سکتے ہیں تو العلل الکبیر للترمذي کیو ں نہیں ثابت نہیں ہو سکتی ؟ آج تک کسی عالم یا محدث نے اس کا انکار نہیں کیا۔ محدثین نے بہ طورِ جزم العلل الکبیر سے کئی نصوص ذکر کی ہیں ، بلکہ اسے تلقي بالقبول حاصل ہے ۔ شیخِ مکرم سے ’’صدیوں پہلے حافظ ابن حجر نے اپنے مسموعات میں کتاب العلل للترمذي کو ذکر کیا ہے ۔‘‘
(المعجم المفہرس لابن حجر،ص: ۲۱۱، ۲۱۲، فقرہ: ۵۸۴)
یہاں سوال یہ ہے کہ محدثین کی نقول سے ابو حامد التاجر (راوی کتاب العلل) کی ’’غیر صریح توثیق‘‘ کیوں ثابت نہیں ہو سکتی ؟
اگر کوئی کہے کہ محمود بن اسحاق کی روایت کو حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے اور ان سے ایک جماعت بھی روایت کرتی ہے، یہ وصف ابو حامد میں نہیں۔
عرض ہے کہ اگر یہ وصف ابو حامد میں ہوتا تو وہ محمود بن اسحاق جیسا ثقہ ہوتا، موجودہ صورت میں وہ محمود سے کم ثقہ ٹھہرا اور اس کی بیان کردہ کتاب بھی معتبر ہوئی! کیوں کہ شیخِ مکرم نے لکھا ہے کہ یہ شرط ضروری ہے کہ صاحبِ کتاب سے لے کر صاحبِ قول یا صاحبِ روایت تک سند صحیح یا حسن لذاتہ ہو۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۷۔اُصولِ دین از ابن ابی حاتم :
مولانا زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے امام ابن ابی حاتم کی کتاب ’’أصل السنۃ و اعتقاد الدین‘‘کا اردو ترجمہ بہ نام ’’اصولِ دین‘‘ پہلے ماہ نامہ الحدیث، حضرو (شمارہ: ۲، ص: ۴۱-۴۵۔جولائی ۲۰۰۴ء ) میں شائع کیا، پھر مقالات (۲/۱۷-۲۴)میں اسے شاملِ اشاعت کیا ۔
اس کتاب کا پہلا راوی ابو زید الشامی ہے ۔ ابو زید اُن کا لقب ہے، نام و نسب یوں ہے: جعفر بن زید بن جامع ابو الفضل الحموی۔ مولانا مرحوم نے ان کے بارے میں لکھا:
’’السمعانی نے کہا: شیخ، صالح، خیر، کثیر العبادۃ۔ توفي ۵۵۴ھ۔ (سیر أعلام النبلاء: ۲۰/۳۴۱)۔‘‘
(ماہ نامہ الحدیث،شمارہ: ۲،ص: ۴۱،مقالات: ۲/۱۷)
حافظ ذہبی نے انھیں الإمام الفاضل کہا ہے ۔
(سیر أعلام النبلاء:۲۰/۳۴۰)
مولانا کے اس اقتباس پر دو ملاحظات ہیں:
1: حافظ ذہبی نے حافظ سمعانی کا کلام کہاں سے نقل کیا؟ اُنھوں نے کسی کتاب کے نام کی صراحت نہیں کی۔ اور نہ اپنی سند سے حافظ سمعانی کا کلام نقل کیا ہے۔ حافظ سمعانی عبدالکریم بن محمد ابو سعد ۵۶۲ھ میں فوت ہوئے جب کہ حافظ ذہبی ۶۷۳ھ میں پیداہوئے۔ (الدرر الکامنۃ لابن حجر:۳/۴۲۶) گویا دونوں کے مابین ایک صد گیارہ (۱۱۱) برس کا فاصلہ ہے ، لہٰذا یہ حوالہ غیر معتبر ہے۔
2: حافظ سمعانی کے (بلکہ حافظ ذہبی کے بھی) ذکر کردہ الفاظ راوی کی عدالت اور زہد و تقویٰ پر تو دلالت کرتے ہیں، ضبط پر نہیں۔ لہٰذا اس اعتبار سے شیخ کے اُصول کے مطابق وہ ثقہ و صدوق راوی نہ ہوا اوراس کی بیان کردہ کتاب بھی غیر ثابت ہوئی۔ (مقدمہ جعلی جزء کی کہانی ،ص:۱۶) مگر اس کے باوجود دیکھیے کہ وہ کیا لکھتے ہیں :
’’ابن ابی حاتم الرازی کی کتاب ’’اصول الدین ‘‘ کی سند صاحبِ مخطوطہ سے لے کر ابن ابی حاتم تک صحیح ہے۔ (دیکھیے ماہ نامہ الحدیث ، حضرو :جلد: ۱،شمارہ: ۲،ص: ۴۱) ‘‘
(فتاویٰ علمیہ:۱/۱۳۳، مقدمہ جعلی جزء کی کہانی( ترتیب: حافظ ندیم ظہیر)،ص: ۱۵)
اس کمزوری کے باوجود اگر مذکورہ بالا رسالہ ثابت ہو سکتا ہے تو العلل الکبیر کیوں ثابت نہیں ہو سکتی ؟
نوٹ: ہمارے نزدیک ایسے طبقے کے رواۃ کے لیے اس قسم کے تعریفی کلمات استعمال کیے جاتے ہیں، اگر ان پر جرح موجود نہ ہو، ایک جماعت ان سے روایت کرتی ہو، بالخصوص ان میں ان کے ہم زمانہ مشہور محدثین ہوں تو ان قرائن کے پیشِ نظر ان کی اسی قسم کی مدح سرائی کو ان کی ثقاہت پر محمول کیا جائے گا، بہ شرط کہ یہ تعریفی کلمات کہنے والے بھی کبار اہلِ علم ہوں ۔
سند ِ حدیث کے راویوں کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ ایسے راویوں کے لیے خال خال استعمال کیے جاتے ہیں۔ جوہمارے موقف کی تائید ہے کہ محدثین سبھی طبقات کے رواۃ کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرتے ۔ مزید تفصیل ابھی آرہی ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۸۔ العلل الکبیر کی دوسری سند:
امام ترمذی سے اس کتاب کی دوسری سند بھی ہے۔ اس سند سے بھی حافظ ابن حجر نے العلل الکبیر بیان کی ہے ، چنانچہ وہ رقم طراز ہیں :
’’أخبرنا أبو علي محمد بن أحمد الفاضلي- إجازۃ مشافھۃ- عن یونس بن أبي إسحاق عن عبدالرحمان بن مکي عن أبي القاسم بن بشکوال أنبأنا عبداللّٰہ بن أحمد بن سعید بن یربوع- مناولۃ - عن أبي علي الجیاني عن أبي القاسم حاتم بن محمد التمیمي أنبأنا أحمد بن عباس بن أصبغ أنبأنا أبو یعقوب یوسف بن أحمد بن یوسف الصیدلاني أنبأنا أبو ذر محمد بن أحمد بن إبراہیم بن محمد الترمذي أنبأنا أبوعیسی الترمذي بہ۔‘‘(تجرید أسانید الکتب المشہورۃ و الأجزاء المنثورۃ (المعروف بہ) المعجم المفہرس لابن حجر العسقلاني،ص:۲۱۱،۲۱۲، رقم: ۵۸۴)
اس سند کے راویان پر تبصرہ ملاحظہ کیجیے :
1: امام ترمذی: صاحب السنن۔
2: ابو ذر محمد بن احمد بن ابراہیم بن محمد الترمذی: ان کا ترجمہ نہیں مل سکا۔ اس سند میں موجود ان کی نسبت ترمذ شہر کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
3: ابو یعقوب یوسف بن احمد بن یوسف الدخیل المکي الصیدلاني (وفات: ۳۸۸ھ): امام عقیلی سے الضعفاء الکبیر کے راوی ہیں۔ (مقدمۂ تحقیق الضعفاء الکبیر: ۱/۴۰-۴۴) آپ مسندِ مکہ تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ للذہبي: ۳/۱۰۲۰، تاریخ الاسلام از ذہبی،ص: ۱۷۸۔حوادث : ۳۸۱ھ-۴۰۰ھ، الوافي بالوفیات للصفدي: ۲۹/۴۰، ترجمہ : ۴۴)
4: أحمد بن عباس بن أصبغ بن عبدالعزیز الہمداني یعرف بالحجاري القرطبي أبو العباس (وفات: ۴۱۹ھ): مکہ مکرمہ میں مستقل رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ کا شمار مکہ کے بڑے شیوخ میں ہوتا تھا۔ (الصلۃ لابن بشکوال: ۱/۶۱،۶۲،رقم: ۶۹، تاریخ الاسلام للذہبي،ص: ۴۵۸۔حوادث : ۴۰۱ھ-۴۲۰ھ)
5: أبو القاسم حاتم بن محمد التمیمي الطرابلسي الأندلسي القرطبي(وفات:۴۶۹ھ): علامہ ابن بشکوال لکھتے ہیں : ’’وکان أحد المسندین الثقات۔‘‘ امام ابو علی الغسانی کہتے ہیں: ’’ثقۃ فیما یروي۔‘‘
(الصلۃ لابن بشکوال:۱/۱۸۴، ترجمہ: ۲۳۶)
امام ذہبی نے المحدث المتقن اور شیخ معمر محدث مسند قرار دیا ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء: ۱۸/۳۳۶،تاریخ الاسلام،ص: ۲۸۳۔ حوادث: ۴۶۱ھ-۴۷۰ھ)
ابن قطلوبغانے الثقات میں ذکر کیا ہے ۔
(۳/۲۳۰، ترجمہ : ۲۴۶۰)
6: ابو علی الجیاني الغساني الحسین بن محمد الزہری القرطبی (وفات: ۴۹۸ھ): ’’الإمام الحافظ المجود الحجۃ الناقد محدث الأندلس…کان من جھابذۃ الحفاظ۔‘‘(سیر أعلام النبلاء: ۱۹/۱۴۸)
مزید اقوال کے لیے ملاحظہ ہو مقدمۂ تحقیق تقیید المہمل للغساني(۱/۷۸-۸۱)۔
7: عبداللہ بن احمد بن سعید بن یربوع بن سلیمان ابو محمد الإشبیلي (وفات: ۵۲۲ھ) : امام ابن بشکوال لکھتے ہیں:
’’وہ حدیث اور اس کے علل کے حافظ تھے۔ اسماء الرجال اور راویانِ حدیث کو خوب جانتے تھے۔ ان میں سے معدّلین اور جارحین کو جانتے تھے۔ کتابت میں ضبط اور روایت میں ثقاہت تھی۔‘‘ (الصلۃ لابن بشکوال: ۱/۳۱۴، ترجمہ: ۶۰۷)
علامہ ابن الأبّار نے انھیں حافظ اور محقق کہا ہے۔ اور ان کی کتب کی تعریف کی ہے۔ (معجم شیوخ ابن الأبار الأندلسي، ص:۱۵۰، ترجمہ: ۱۸۹)
حافظ ذہبی لکھتے ہیں:
’’الأستاذ الحافظ المجود الحجۃ۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء: ۱۹/۵۷۸، تاریخ الإسلام،ص: ۷۶۔حوادث: ۵۲۱ھ-۵۴۰ھ)
8: ابو القاسم ابن بشکوال خلف بن عبدالملک بن مسعود القرطبی الانصاری (وفات: ۵۷۸ھ):
’’الإمام العالم الحافظ الناقد المجود محدث الأندلس۔‘‘
(سیرأعلام النبلاء:۲۱/۱۳۹)
9:عبدالرحمان بن مکی بن عبدالرحمان بن ابی سعید جمال الدین ابن الحاسب المغربي الإسکندراني السبط (وفات: ۶۵۱ھ):
’’الشیخ المسند المعمر وکان قلیل العلم۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء: ۲۳/۲۷۸،۲۷۹، تاریخ الإسلام،ص: ۹۷-۹۹۔ حوادث: ۶۵۱ھ-۶۶۰ھ)
10: یونس بن ابراہیم بن عبدالقوی الدبوسی (أو الدبابیسي) ابو النون (وفات:۷۲۸ھ): آپ کبار ائمہ کے استاذ ہیں۔ حافظ برزالی اور علامہ سبکی نے انھیں معجم الشیوخ میں ذکر کیا ہے۔ (معجم الشیوخ للسبکي:۵۲۳،۵۲۴،نیز ملاحظہ ہو: ذیل تاریخ الإسلام للذہبي،ص: ۳۴۳۔ حوادث: ۷۰۱ھ-۷۵۰ھ ، الوافي بالوفیات للصفدي: ۲۹/۱۷۳،۱۷۴، المنہل الصافي لابن تغري بردي: ۱۲/۲۶۰،۲۶۱، الدرر الکامنۃ لابن حجر: ۵/۲۵۹،۲۶۰،رقم: ۵۱۹۲)
11: ابو علی محمد بن احمد الفاضل: محمد بن احمد بن النور المہدوي المعروف بابن المطرز (وفات: ۷۹۷ھ):
(المجمع المؤسس للمعجم المفہرس لابن حجر:۱/۳۷۵، رقم: ۲۱۷، إنباء الغمر لابن حجر: ۳/۲۶۹، شذرات الذہب: ۶/۳۵۰)
اس سند سے معلوم ہوا کہ امام ترمذی سے ابو حامد التاجر کے علاوہ ابو ذر محمد بن احمد الترمذی بھی العلل الکبیر کو روایت کرتے ہیں۔ امام ترمذی کے ان دونوں شاگردوں سے حافظ ابن حجر نے العلل کی سند ذکر کی ہے۔
آپ پڑھ آئے ہیں کہ شیخِ مکرم کے ’’اصول‘‘ کے مطابق ابو حامد التاجر کی ’’غیر صریح توثیق ‘‘ ثابت ہو چکی ہے۔ ابو ذر کی تائید بھی یقینا اس کی صحت میں اضافہ کرتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیداہو سکتا ہے کہ ابو ذر الترمذی (راوی العلل الکبیر للترمذي) کا ترجمہ موجود نہیں۔ یوسف الدخیل ابو یعقوب، احمد بن عباس الحجازی، عبدالرحمان بن مکی، ابو علی الفاضلی کی صراحتاً توثیق نہیں ملتی، لہٰذا یہ سند کیوںکر ثابت ہو سکتی ہے؟
عرض ہے کہ جتنی احتیاط محدثین نے سند ِ حدیث کے راویان کے لیے کی اتنی احتیاط سند ِ کتاب کے راویان، سماعات میں مذکورین اور نازل ترین اسانید کے رواۃ کے لیے نہیں کی۔ راویانِ حدیث کا درجہ متعین کرنے کے لیے اُنھوں نے نہایت جان فشانی سے کام لیا۔ ثقہ، صدوق اور ضعیف رواۃ کو نہایت دقیق نظری سے تقسیم کیا۔ ثقہ کو أوثق الناس، ثقۃ ثقۃ، ثقۃ حافظ، ثقۃ متقن ثبت عدل جیسے اوصاف ذکر کرکے ان کے مراتب کی تعیین کی۔ صدوق راوی کو لابأس بہ، لیس بہ بأس، سيء الحفظ، صدوق یہم، لہ أوہام، یخطیٔ، تغیر بآخرہ جیسی اصطلاحات میں منقسم کیا۔ اسی طرح ضعیف راوی پر مستور، مجہول الحال، متروک، واھي الحدیث، ساقط، متہم بالکذب، کذاب، وضاع جیسے الفاظ سے جرح کی۔
تدوینِ حدیث کے بنیادی مآخذ مرتب ہونے کے بعد اُنھوں نے نرمی برتنی شروع کی۔ جتنی سند نازل ہوتی گئی، ان کے توثیقی اور تجریحی کلمات اسی قدرکم ہوتے گئے۔ اگر کوئی حدیث بنیادی مآخذ میں موجود ہے اور بعد والے محدثین نے بھی اسی حدیث کو اپنی نازل ترین سند سے روایت کیا ہے تو وہ بنیادی مآخذ پر حکم لگا کر متاخر طبقات کی کتب کو بدونِ نقد ہی ذکر کردیتے ہیں کیوں کہ اصل حدیث تو ثابت ہو چکی ہے۔ آپ معاجم الشیوخ، مشیخات اور رجال پر مشتمل کتب میں ایسا دیکھ سکتے ہیں، حالانکہ ان کتابوں میں محدثین عموماً مشہور روایات ذکر کرتے ہیں، اس کے باوجود ان کے سبھی رواۃ کا ترجمہ نہیں مل سکے گا۔ اسی طرح تہذیب الکمال اور سیر أعلام النبلاء میں جو روایات مصنفین نے اپنی سند سے بیان کی ہیں، ان کے تراجم کی بھی یہی صورت ہے۔ تاریخ دمشق کے رواۃ پر بھی تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ کتابوں کی سندوں کے حوالے سے چند معروضات آپ کے گوش گزار کی جاچکی ہیں،آئندہ بھی مزید آگاہی حاصل ہو گی، إن شاء اللہ۔
جو شخص راویانِ حدیث کے بارے میں استعمال ہونے والے الفاظ، مشار الیہ رواۃ میں تلاش کرے گا یا ان کا تقاضا کرے گا، یقینا وہ کئی مقامات پر ٹھوکریں کھائے گا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۹۔ الأدب المفرد للبخاري:
امام بخاری کی کتاب الأدب المفرد کا شمار ان کی مشہور ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ جسے ان کے شاگرد ابو الخیر احمد بن محمد بن الجلیل بن خالد بن حریث البخاري الکرماني العبقسي البزار نے ۳۲۲ھ میں روایت کیا ہے۔
( مقدمہ الأدب المفرد،ص: ۱۳)
یہ کتاب محدثِ زماں علامہ البانی کی تحقیق سے بھی شائع ہو چکی ہے۔
ابو الخیر بھی مجہول راویوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان سے دو راوی روایت کرتے ہیں۔ محدثین نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ ابو الخیر امام بخاری سے الادب المفرد روایت کرتے ہیں، اس کے باوجود کسی نے ان کی توثیق نقل نہیں کی اور نہ الادب المفرد کو مشکوک نسبت والی کتاب قرار دیا۔ (الاکمال لابن ماکولا: ۳/۱۷۹، تاریخ الاسلام للذہبي، ص: ۱۰۱۔حوادث و وفیات: ۳۲۱ھ-۳۳۰ھ، المشتبہ فی الرجال للذہبي: ۱/۲۶۸، تبصیر المنتبہ لابن حجر: ۲/۵۳۶، ہدي الساري، ص: ۴۹۲، تغلیق التعلیق: ۵/۴۳۶)
مولانا زبیر علی زئی سے صدیوں پہلے حافظ ابن حجر نے اپنی مسموعات میں الأدب المفرد للبخاري کو ذکر کیا ہے۔(المعجم المفہرس لابن حجر،ص: ۱۰۵، رقم: ۲۳۲)
بلکہ مولانا مرحوم زندگی بھر اس کتاب سے استفادہ کرتے رہے۔ مذکورہ بالا راوی کی جہالت ان کے نزدیک اس کتاب کے غیر معتبر ہونے کا سبب نہیں بنی، آخر کیوں؟ بلکہ وہ ان کی روایات کی اسانید کو حسن قرار دیتے رہے۔ اور امام بخاری کو اس کا مولف بتلاتے رہے۔ مولانا مرحوم کاالأدب المفرد سے استدلال کرنے کے چند حوالے ملاحظہ فرمائیے:
1: قال: وسندہ حسن۔ وقال: وقال الألباني: حسن الإسناد۔(أضواء المصابیح في تحقیق مشکاۃ المصابیح: ۱/۶۱، ۹۷)
2: قال: وسندہ حسن۔ و قال: وسندہ حسن لذاتہ و أخطا من ضعفہ۔ (موطأ إمام مالک روایۃ ابن القاسم؛ ترجمہ، تحقیق و حواشی از مولانا زبیر، ص: ۱۵۲، ۲۷۲، ۴۴۶، ۴۸۱، ۴۹۶، ۶۰۲)
3:تحقیقي مقالات:۳/۲۱۳۔
4:صحیح بخاری پر اعتراضات کا علمی جائزہ از شیخ زبیر( ذیل صحیح بخاری کا دفاع)،ص: ۲۵۵۔
5:قال: وسندہ حسن۔(ہدیۃ المسلمین، ص: ۱۱۶)
6: تحقیق جزء علي بن محمد الحمیري، ص:۲۱ ،۲۵، ۲۷،۳۹۔
7: تحفۃ الأقویاء في تحقیق کتاب الضعفاء، ص۱۰۳،۱۱۰، ۱۱۹۔
8: فضائل درود و سلام،ص: ۴۴،۱۵۰۔
قارئین کرام! یہ الادب المفرد سے مولانا مرحوم کے استدلال کی معمولی سی جھلک ہے، ورنہ اصل حوالے کہیں زیادہ ہیں۔
۱۰۔السنۃ لعبد اللہ بن أحمد:
امام عبداللہ بن امام اہل السنۃ احمد بن حنبل کی معروف کتاب ’’کتاب السنۃ‘‘ دوجلدوں میں مطبوع ہے۔ ڈاکٹر محمد بن سعید بن سالم القحطاني نے اس کی تحقیق میں چھ مخطوطات کو پیشِ نظر رکھا۔
اس کتاب کو امام عبداللہ سے ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم بن خالد الھروي روایت کرتے ہیں اور ان سے ابو نصر محمد بن حسن بن سلیمان السمسار بیان کرتے ہیں۔ (مقدمہ کتاب السنۃ:۱/۱۰۲)
…ابو عبداللہ محمد بن ابراہیم الھروي تلمیذ امام عبداللہ کا ترجمہ نہیں ملا، جیسا کہ محققِ کتاب نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ (حاشیہ کتاب السنۃ:۱/۱۰۲) ابو ادریس شریف بن صالح المصري نے بھی عدمِ واقفیت کا اعتراف کیا ہے۔ (ري الظمآن بتراجم شیوخ ابن حبان:۲/ ۷۸۰، ترجمہ: ۲۹۳)
امام ابن حبان نے المجروحین، الثقات اور روضۃ العقلاء میں ان سے استفادہ کیا ہے۔ ابو عبداللہ الھروي سے کل تین راوی بیان کرتے ہیں۔ (ري الظمآن:۲/۷۸۰)
… ابو نصر محمد بن حسن بن سلیمان السمسار کا بھی ترجمہ نہیں ملا۔
گویا شیخِ مکرم کے سند ِ کتاب کو پرکھنے کے اُصول کے مطابق یہ بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ مگر اس کے باوجود دیکھیے کہ وہ اس کتاب سے کس قدر استفادہ کرتے ہیں بلکہ بعض مقامات پر مخطوط کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور اس کی اسانید کو حسن و صحیح بھی کہتے ہیں:
1… موطأ امام مالک؛ ترجمہ و تحقیق و حواشی از مولانا زبیر، ص: ۹۴، ۳۳۱ ، ۵۶۳۔
2…قال: سندہ صحیح۔(اضواء المصابیح:۱/۱۱۶ ) وقال: سندہ حسن۔(اضواء المصابیح:۱/ ۱۵۵)
3…تحقیق جزء رفع الیدین للبخاري،ص: ۷۱۔
4…قال: وسندہ صحیح۔ (نصر الباری،ص: ۱۹۹)
5…قال: و إسنادہ صحیح۔ وقال: وسندہ صحیح۔ (مقالات:۱/۳۱۴،۴۴۴، ۵۴۷ ،۵۷۳)
6…قال: وسندہ صحیح۔ بہ حوالہ مخطوط،ص:۵۲ (مقالات: ۲/۲۸۔ص: ۵۳ دوحوالے )
7…چار حوالے، دو کے بارے میں کہا: و سندہ صحیح۔ (مقالات:۴/ ۷۸)۔ پانچ حوالے، سبھی کے بارے میں کہا: وسندہ صحیح۔بہ حوالہ مخطوط،ص: ۸۸۔ (مقالات:۴/ ۷۹)۔ تین حوالے، ایک کے بارے میں کہا: وسندہ صحیح۔ (مقالات:۴/ ۸۹)۔چار حوالے، تین کے بارے میں کہا: وسندہ صحیح۔(مقالات:۴/ ۹۰)۔دو حوالے:وسندہ صحیح۔ (مقالات:۴/ ۹۱)۔ تین حوالے، ایک کو صحیح، دو کو حسن کہا ہے۔ (مقالات:۴/ ۲۱۸)
8…بہ حوالہ مخطوط، ص:۴۵۔(مقالات :۶/۴۱)
9… قال: سندہ حسن، و أخطأ القحطاني فقال: في إسنادہ لین۔ (فتاویٰ علمیہ: ۱/۳۱)۔ وقال: وسندہ صحیح۔ (فتاویٰ علمیہ: ۱/۴۵، ۱۷۸، ۱۹۱ )
10… قال: وسندہ صحیح۔(فتاویٰ علمیہ: ۲/۳۸۴، ۳۹۴)۔ وقال: وسندہ صحیح۔ بہ حوالہ مخطوط۔ (فتاویٰ علمیہ: ۲/۳۹۸)
!…نور العینین فی اثبات رفع الیدین،ص:۳۵۲۔
11…بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم، ص: ۹ دو حوالے، ایک کے بارے میں وسند ہ صحیح کہا۔ص: ۱۰ تین حوالے، تینوں کے بارے میں کہا: و سندہ صحیح۔ ص: ۸۰ تین حوالے، مخطوط۔ص: ۸۱ تین حوالے، ایک کے بارے میں کہا: وسندہ صحیح۔ص: ۸۲ تین حوالے، سبھی کے بارے میں لکھا: وسندہ صحیح۔ص: ۸۳ دو حوالے، وسندہ صحیح۔
12…اہلِ حدیث ایک صفاتی نام،ص: ۱۰۴۔
13…قال: وسندہ صحیح۔ بہ حوالہ مخطوط۔(توفیق الباری فی تطبیق القرآن و صحیح البخاری (ضمن صحیح بخاری کا دفاع)،ص: ۱۷)
14…سندہ صحیح۔ (مقالات الحدیث: ۲۰۰۴ء تا ۲۰۱۰ء، تحقیق و نظر ثانی: حافظ زبیر علی زئی،ص: ۱۳۷ )
15…دو حوالے۔(تحفۃ الاقویاء:،ص: ۱۱۲)
16…ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ،حضرو (شمارہ: ۱۲۹-۱۳۲ ، ص: ۶۴۔مئی تا اگست ۲۰۱۵ء) میں مولانا ندیم ظہیر نے مولانا مرحوم کے مضمون میں السنۃ کے حوالے کو شائع کیا ہے جس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۱۱۔جزء الحمیري:
امام علی بن محمد الحمیري (وفات: ۳۲۳ ھ) کا ستاون احادیث پر مشتمل ایک جزء ہے جس کی تحقیق مولانا شیخ زبیر نے ۱۴۱۳ھ میں کی، دارالطحاوي (الریاض) اور حدیث اکادمی (فیصل آباد) نے اسے شائع کیا۔ ازاں بعد شیخ مکرم نے سابقہ ایڈیشن میں خاصی اغلاط کی وجہ سے از سرِ نو تحقیق کرکے ۱۴۳۶ھ میں مکتبہ اسلامیہ (فیصل آباد، لاہور) سے طبع کروایا۔
اس جزء کے ناسخ حافظ ابن عساکر کے استاد ابو البرکات عمر بن ابراہیم العلوی الزیدی الکوفی الحنفي (وفات: ۵۳۹ھ) ہیں۔ شیخ کے اُصول کے مطابق ایسے راوی کا ثقہ و صدوق ہونا سند ِ کتاب کی صحت کے لیے شرط ہے۔ مگر وہ کسی محدث سے اس کا صراحتاً ثقہ یا صدوق ہونا ثابت نہیں کر سکے، بلکہ اُنھوں نے اعتراف کیا:
’’و اتہم بالبدعۃ والرفض والاعتزال ولکن لم یتھمہ أحد في روایتہ فمحلہ الصدق في الحدیث، ولنا صدقہ وعلیہ بدعتہ۔‘‘
(مقدمۂ تحقیق: ص: ۱۲)
’’اس پر بدعت، رافضیت اور اعتزال کی تہمت ہے لیکن کسی (محدث) نے اسے روایتِ حدیث میں متہم نہیں کیا۔ بنا بریں حدیث کے بارے میں وہ محلِ صدق میں ہے۔ ہمیں اس کی صداقت سے سروکار ہے، اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہے۔ ‘‘
اس کتاب کی استنادی کمزوری چھپانے کے لیے شیخ مرحوم نے نہایت عجیب اسلوب اختیار کیا کہ اس راوی کو کسی نے متہم قرار نہیں دیا، لہٰذا وہ محلِ صدق میں ہے۔
سوال ہے کہ کیا ہر غیر متہم راوی محلِ صدق میں ہوتا ہے؟ کس محدث نے اس کی ادنیٰ سی تعدیل کی ہے؟ وہ محلِ صدق میں کس دلیل کی اساس پر داخل ہو گیا؟ اس کی بیان کردہ سند کیسے حسن ہو گئی؟
حالانکہ ان کے اُصول کے مطابق یہ جزء ثابت نہیں ہوتا، اس کے باوجود اُنھوں نے چودہ (۱۴) روایات پر إسنادہ صحیح اور چار (۴) احادیث پر إسنادہ حسن کا حکم لگایا ہے!
گویا شیخ سمجھ چکے تھے کہ جو اُصول اُنھوں نے اختیار کیا ہے اس پر جزء الحمیري پورا نہیں اُتر سکتا، لہٰذا اُنھیں اس ’’بے اصل ‘‘ جزء سے بھی براء ت کا اعلان کرنا چاہیے تھا، نہ کہ اس کی از سرِ نو تحقیق کرکے اسے دوبارہ شائع کرنا چاہیے تھا! اپنی محنت کے ضیاع کا احساس تورہا، مگر امام ترمذی کی کدوکاوش کو بھلا دیا گیا!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
۱۲۔ علل الدارقطني:
امام نسائی کے بعد علل الحدیث میں شہرت پانے والے امام دارقطنی ہیں۔ ان کی معروف کتاب العلل الواردۃ في الأحادیث النبویۃ ہے۔ یہ کتاب امام صاحب نے زبانی املا کروائی تھی۔ اور سولہ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ آخری جلد میں فہارس ہیں۔ اس کی ابتدائی گیارہ جلدوں کی تحقیق ڈاکٹر محفوظ الرحمان زین اللہ السلفی نے کی ہے۔ باقی جلدوں پر شیخ حمد بن صالح بن محمد الدباسی کا کام ہے۔ یہ دونوں تحقیقات مختلف اشاعتی مراکز سے شائع ہوئی ہیں۔
اس کتاب کی متصل سند مخطوط پر موجود نہیں، بلکہ سرے سے سند ہی موجود نہیں۔ محققِ کتاب ڈاکٹر محفوظ الرحمان سلفی رقم طراز ہیں:
’’بلاشبہ حافظ دارقطنی کی العلل الواردۃ في الأحادیث النبویۃ کی بابت ایک ضخیم کتاب موجود ہے۔ میں نے اس کا باسند نسخہ تلاش کرنے کی بھرپور تگ و دو کی ہے کہ وقت نے ہمارے لیے حوادثاتِ زمانہ سے اس کی حفاظت کی ہو۔ مگر مجھے اس پر دسترس حاصل نہیں ہوئی۔ مجھے جتنے نسخے بھی تاحال میسر آئے ہیں، وہ مولف تک متصل سند سے خالی ہیں۔ ‘‘ (مقدمۂ تحقیق: ۱/۵۹)
ازاں بعد متعدد قرائن اور اقوالِ علماء سے اس کتاب کو امام دارقطنی کی تصنیف ثابت کیا ہے۔ (مقدمۂ تحقیق: ۱/۵۹-۶۶)
اس کتاب کی سند نہ ہونے کے باوجود شیخِ مکرم اسے امام دارقطنی کی کتاب ہی قرار دیتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
1…’’امام دارقطنی کی مشہور کتاب العلل سولہ (۱۶) جلدوں میں مع تحقیق و فہرست چھپی ہوئی ہے۔ یہ ساری کتاب امام دارقطنی نے زبانی لکھوائی تھی۔ (دیکھیے تاریخ بغداد للخطیب البغدادي: ۱۲/۳۷ وسندہ صحیح )۔‘‘
(موطأ؛ روایۃ ابن القاسم،ص: ۴۹)
2 … ’’کتاب العلل کی گیارہ جلدیں چھپ چکی ہیں اور مزید جلدیں چھپ رہی ہیں۔ یہ فنِ حدیث کے مشکل ترین علم میں عظیم الشان کتاب ہے جسے حافظ امام دارقطنی نے زبانی لکھوایا ہے۔
یہ کتاب اب سولہ جلدوں میں مطبوع ہے، والحمد للہ۔‘‘
(تحقیقی مقالات: ۳/۳۴۴)
اور کئی مقامات پر اُنھوں نے اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال وغیرہ نقل کیے ہیں:
1… سندہ صحیح۔ (مقالات:۲/۱۰۱) وزیادۃ الثقۃ مقبولۃ۔(مقالات:۲/۵۴۵)
2… (مقالات:۳/۱۲۶، ۱۳۶) دو حوالے۔ (مقالات:۳/ ۲۵۲، ۳۰۳، ۳۲۵، ۳۴۴)
3… مقالات:۴/۱۳۱، ۴۴۰۔
4… مقالات :۶/۵۲،۱۱۴،۲۸۸۔
5… فتاویٰ علمیہ: ۱/۴۴۶،۴۵۹،۵۳۰،۵۳۱،۶۴۹۔
6… فتاویٰ علمیہ:۲/۱۰۱۔
7… فتاویٰ علمیہ: ۳/۱۸۰۔
8… اضواء المصابیح: ۱/۸۳،۱۵۳۔
9… نور العینین،ص: ۱۳۱،۱۶۸، ۲۹۳، ۳۳۳، ۳۷۴، ۳۸۴، ۳۹۶،۴۰۵،۴۱۵۔تین حوالے،ص: ۵۱۶۔
10… الفتح المبین في تحقیق طبقات المدلیسن،ص: ۸۲۔
11… تحقیق جزء علي بن محمد الحمیري، ص: ۴۹۔
12… تحقیق جزء رفع الیدین،ص: ۳۲۔
13… دین میں تقلید کا مسئلہ، ص: ۳۷۔
14… بہ حوالہ مخطوط۔ (نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام، ص: ۲۳)
15… مسئلہ فاتحہ خلف الامام،ص: ۸۷۔
16… مقالات الحدیث،ص: ۳۶۱۔
17… فضائل درود و سلام،ص: ۴، ۴۲۔
سوال یہ ہے کہ بہ ایں صورت علل الدارقطنی معتبر ہے تو علل الترمذی کیوں معتبر نہیں ہو سکتی؟
 
Top