- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
۱۔کتاب کی نسبت پر اجماع :
مولانا زبیر علی زئی نے العلل الکبیر کا انکار تو کر دیا مگر لطف یہ ہے کہ وہ خود بھی اس اسلوب پر قائم نہ رہ سکے کیوں کہ جگہ جگہ محدثین کے مسلک سے ٹکراو پیدا ہو رہا تھا۔ بلکہ ’’سلف صالحین کے متفقہ پرچار‘‘ اور ’’اجماع کی برتری ‘‘کے اپنے ہی دعوے کھوکھلے محسوس ہو رہے تھے۔ بنا بریں وہ خاصی اضطرابی کیفیت میں رہے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔
العلل الکبیر للترمذي کا آج تک کسی نے انکار نہیں کیا، خواہ وہ متقدمین میں سے ہوں یا متاخرین اور معاصرین میں سے۔ ہمارے فاضل دوست بھی اپنے استاد گرامی کے موقف کی ہم نوائی میں کسی عالم کو پیش نہیں کر سکتے۔
یہ نکتہ بھی پیشِ نظر رہے کہ امام بیہقی نے امام ترمذی کی اصل کتاب سے استفادہ کیا۔ اسی طرح ان کے معاصرحافظ ابن عبدالبر اور ان کے بعد حافظ ابن عساکر بھی مستفیض ہوئے۔ پھر ابو طالب قاضی نے جامع ترمذی کی ترتیب کے مطابق اسے ڈھالا،تاکہ اس سے استفادہ آسان ہو جائے۔ انھی کا مرتب کردہ نسخہ شائع شدہ اور متداول ہے ۔
موصوف کے علاوہ آج تک کسی قابلِ اعتبار اور صاحبِ علم و دانش کا اس سے انکارنہ کرنا اس پر اجماع کی دلیل ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ آپ سے پہلے بھی کسی نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے؟ ان کی خدمت میں ہم شیخِ مکرم ہی کے اقوال پیش کیے دیتے ہیں:
1…’’اجماع کا ثبوت دو طریقوں سے حاصل ہوتا ہے :
اول: محدثین و علمائے اہل سنت کی تصریحات سے، مثلاً: ابن المنذر کی کتاب الاجماع وغیرہ ۔
دوم: تحقیق کے بعد واضح ہو جائے کہ فلاں مسئلہ ایک جماعت سے ثابت ہے اور اس دور میں ان کا کوئی مخالف معلوم نہ ہو، لہٰذا یہ اجماع ہے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات از حافظ زبیر علی زئی: ۵/۱۰۸، ماہ نامہ الحدیث، شمارہ: ۹۱، ص: ۴۳، ۴۴، دسمبر ۲۰۱۱ء)
العلل الکبیر بھی ثبوت اجماع کے اس دوسرے طریقے میں شامل ہے کہ وہ سبھی محدثین سے ثابت ہے، اس کا کوئی مخالف نہیں ۔
شیخِ مکرم ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں :
2…’’اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے صحیح قرار دیا ہے: ۱۔ ابوعوانہ الاسفرائنی۔ (صحیح ابی عوانہ : ۲/۴۲، ح: ۵۸۵۹) ۲: حاکم۔ (المستدرک : ۴/۴۳۳، ح: ۸۳۳۲) ۳:ذہبی۔ (ایضاً، ح: ۸۳۳۲) ان کے مقابلے میں کسی ایک محدث یا امام نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا ، لہٰذا اِس روایت کے صحیح اور مقبول ہونے پر اجماع ہے۔‘‘
(تحقیقی مقالات: ۳/۳۵۰ )
یعنی ان کے نزدیک جس حدیث کی صحت تین ائمہ سے ثابت ہو جائے اور ان کا کوئی مخالف نہ ہو تو اس پر اجماع ہوگا۔ شیخ موصوف سے قبل کسی محدث نے اس حدیث کی صحت پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا۔
انصاف فرمائیے! العلل الکبیر کو اکتالیس محدثین و علمائے کرام نے امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے اور کسی نے انکار بھی نہیں کیا، کیا ان کا اجماع نہیں اور ان کا اجماع معتبر نہیں؟ کیا سبھی علماء کی نگاہوں سے وہ نکتہ اوجھل رہا جس کی نشان دہی شیخِ مکرم نے کی؟
3…نیز لکھتے ہیں:
’’آج تک کسی مسلم عالم نے اس بات کا انکار نہیں کیا کہ اہل الحدیث سے مراد محدثین کی جماعت ہے، لہٰذا اِس صفاتی نام اور نسب کے جائز ہونے پر اجماع ہے ۔ ‘‘
(اہل حدیث ایک صفاتی نام ،ص: ۵۸)
4…’’امام دارقطنی کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ولید بن مسلم تدلیس تسویہ کرتے تھے ۔ ولید بن مسلم کو حافظ ابن حجر ، العلائی ، ابوزرعہ ابن العراقی، ذہبی ، حلبی ، مقدسی اور سیوطی وغیرہم نے مدلس قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: الفتح المبین، ص: ۷۳) اور ان کا کوئی مخالف مجھے معلوم نہیں ، لہٰذا تدلیسِ ولید پر اجماع ہے ۔ ‘‘ (أضواء المصابیح في تحقیق مشکاۃ المصابیح: ۱/۲۷۸)
حالانکہ شیخ سے قبل کسی نے بھی تدلیسِ ولید پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ اس اجماع کا ذکر مدلسین سے مختص کتاب الفتح المبین في تحقیق طبقات المدلسین (ص: ۱۳۶) میں بھی نہیں کیا۔
ثانیاً: حافظ ابن حجر، العلائی، ابو زرعہ ابن العراقی، ذہبی اور سیوطی وغیرہم نے بھی العلل الکبیر کو امام ترمذی کی طرف منسوب کیاہے جس کی تفصیل ہم اپنے پہلے مقالے میں عرض کر چکے ہیں۔(ملاحظہ ہو ہفت روزہ الاعتصام، لاہور،جلد: ۶۷ ، شمارہ : ۲۵ ،ص: ۱۸- ۲۱)
اگر ان ائمہ کے اقوال کی بنیاد پر تدلیسِ ولید پر اجماع کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے تو العلل الکبیر پر کیوں نہیں!
5…’’محدثین نے (سفیان ) ثوری کی تدلیس پر اجماع کیا ہے… یہ روایت منکر مردود اور اجماع کے مخالف ہے۔‘‘
(الفتح المبین،ص: ۶۸ ، مطبوعہ ۱۴۳۴ھ)
6…’’ترکِ رفعِ یدین والی روایتِ مذکورہ میں ایک راوی امام سفیان ثوری ہیں جو کہ بالاجماع مدلس تھے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات:۴/۲۰۵)
7…’’یاد رہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کامدلس ہونا اجماع اور تواتر سے ثابت ہے اور اس کا انکار جہالت ہے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات :۴/۲۱۴)
8…’’یہاں تو سفیان ثوری کے مدلس ہونے پر اجماع ہے ۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات :۴/۲۳۶)
9…’’عرض یہ کہ سفیان ثوری کا مدلس ہونا اجماعی مسئلہ ہے ۔ ‘‘ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام:۲/۳۱۳)
حالانکہ موصوف محترم سے قبل کسی نے ثوری کے مدلس ہونے پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا ۔
10…’’میرے علم کے مطابق کسی نے بھی محمد بن اسحاق کی تدلیس کا انکار نہیں کیا، گویا اس کی تدلیس بالاجماع ثابت شدہ ہے ۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات : ۱/۲۷۳)
ابن اسحاق کی تدلیس پر کسی معتبر محدث نے اجماع نقل نہیں کیا۔ اگر ہم بھی محدثین کے اقوال کی روشنی میں اس کتاب کی صحت پر اجماع کا دعویٰ کریں تو وہ غلط کیوں کر قرار پائے!
ثانیاً: اگر کتاب کی سند ضعیف ہی ہو تو کیا علماء کا اجماع اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور کتاب قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتی؟
شیخِ مکرم ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’امام ابو حاتم الرازی: اسماء الرجال کے مشہور امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
’’و اتفاق أہل الحدیث علی شيء یکون حجۃ۔‘‘
’’اور کسی چیز پر اہلِ حدیث کا اتفاق حجت ہوتا ہے۔‘‘
(کتاب المراسیل،ص: ۱۹۲، فقرہ : ۷۰۳)‘‘
(تحقیقی مقالات: ۱/۱۶۴،۱۶۵)
اہلِ حدیث کا العلل الکبیر پر اتفاق حجت کیوں نہیں؟
مولانا زبیر علی زئی نے العلل الکبیر کا انکار تو کر دیا مگر لطف یہ ہے کہ وہ خود بھی اس اسلوب پر قائم نہ رہ سکے کیوں کہ جگہ جگہ محدثین کے مسلک سے ٹکراو پیدا ہو رہا تھا۔ بلکہ ’’سلف صالحین کے متفقہ پرچار‘‘ اور ’’اجماع کی برتری ‘‘کے اپنے ہی دعوے کھوکھلے محسوس ہو رہے تھے۔ بنا بریں وہ خاصی اضطرابی کیفیت میں رہے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔
العلل الکبیر للترمذي کا آج تک کسی نے انکار نہیں کیا، خواہ وہ متقدمین میں سے ہوں یا متاخرین اور معاصرین میں سے۔ ہمارے فاضل دوست بھی اپنے استاد گرامی کے موقف کی ہم نوائی میں کسی عالم کو پیش نہیں کر سکتے۔
یہ نکتہ بھی پیشِ نظر رہے کہ امام بیہقی نے امام ترمذی کی اصل کتاب سے استفادہ کیا۔ اسی طرح ان کے معاصرحافظ ابن عبدالبر اور ان کے بعد حافظ ابن عساکر بھی مستفیض ہوئے۔ پھر ابو طالب قاضی نے جامع ترمذی کی ترتیب کے مطابق اسے ڈھالا،تاکہ اس سے استفادہ آسان ہو جائے۔ انھی کا مرتب کردہ نسخہ شائع شدہ اور متداول ہے ۔
موصوف کے علاوہ آج تک کسی قابلِ اعتبار اور صاحبِ علم و دانش کا اس سے انکارنہ کرنا اس پر اجماع کی دلیل ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ آپ سے پہلے بھی کسی نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے؟ ان کی خدمت میں ہم شیخِ مکرم ہی کے اقوال پیش کیے دیتے ہیں:
1…’’اجماع کا ثبوت دو طریقوں سے حاصل ہوتا ہے :
اول: محدثین و علمائے اہل سنت کی تصریحات سے، مثلاً: ابن المنذر کی کتاب الاجماع وغیرہ ۔
دوم: تحقیق کے بعد واضح ہو جائے کہ فلاں مسئلہ ایک جماعت سے ثابت ہے اور اس دور میں ان کا کوئی مخالف معلوم نہ ہو، لہٰذا یہ اجماع ہے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات از حافظ زبیر علی زئی: ۵/۱۰۸، ماہ نامہ الحدیث، شمارہ: ۹۱، ص: ۴۳، ۴۴، دسمبر ۲۰۱۱ء)
العلل الکبیر بھی ثبوت اجماع کے اس دوسرے طریقے میں شامل ہے کہ وہ سبھی محدثین سے ثابت ہے، اس کا کوئی مخالف نہیں ۔
شیخِ مکرم ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں :
2…’’اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے صحیح قرار دیا ہے: ۱۔ ابوعوانہ الاسفرائنی۔ (صحیح ابی عوانہ : ۲/۴۲، ح: ۵۸۵۹) ۲: حاکم۔ (المستدرک : ۴/۴۳۳، ح: ۸۳۳۲) ۳:ذہبی۔ (ایضاً، ح: ۸۳۳۲) ان کے مقابلے میں کسی ایک محدث یا امام نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا ، لہٰذا اِس روایت کے صحیح اور مقبول ہونے پر اجماع ہے۔‘‘
(تحقیقی مقالات: ۳/۳۵۰ )
یعنی ان کے نزدیک جس حدیث کی صحت تین ائمہ سے ثابت ہو جائے اور ان کا کوئی مخالف نہ ہو تو اس پر اجماع ہوگا۔ شیخ موصوف سے قبل کسی محدث نے اس حدیث کی صحت پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا۔
انصاف فرمائیے! العلل الکبیر کو اکتالیس محدثین و علمائے کرام نے امام ترمذی کی طرف منسوب کیا ہے اور کسی نے انکار بھی نہیں کیا، کیا ان کا اجماع نہیں اور ان کا اجماع معتبر نہیں؟ کیا سبھی علماء کی نگاہوں سے وہ نکتہ اوجھل رہا جس کی نشان دہی شیخِ مکرم نے کی؟
3…نیز لکھتے ہیں:
’’آج تک کسی مسلم عالم نے اس بات کا انکار نہیں کیا کہ اہل الحدیث سے مراد محدثین کی جماعت ہے، لہٰذا اِس صفاتی نام اور نسب کے جائز ہونے پر اجماع ہے ۔ ‘‘
(اہل حدیث ایک صفاتی نام ،ص: ۵۸)
4…’’امام دارقطنی کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ولید بن مسلم تدلیس تسویہ کرتے تھے ۔ ولید بن مسلم کو حافظ ابن حجر ، العلائی ، ابوزرعہ ابن العراقی، ذہبی ، حلبی ، مقدسی اور سیوطی وغیرہم نے مدلس قرار دیا ہے۔ (دیکھیے: الفتح المبین، ص: ۷۳) اور ان کا کوئی مخالف مجھے معلوم نہیں ، لہٰذا تدلیسِ ولید پر اجماع ہے ۔ ‘‘ (أضواء المصابیح في تحقیق مشکاۃ المصابیح: ۱/۲۷۸)
حالانکہ شیخ سے قبل کسی نے بھی تدلیسِ ولید پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا، بلکہ اس اجماع کا ذکر مدلسین سے مختص کتاب الفتح المبین في تحقیق طبقات المدلسین (ص: ۱۳۶) میں بھی نہیں کیا۔
ثانیاً: حافظ ابن حجر، العلائی، ابو زرعہ ابن العراقی، ذہبی اور سیوطی وغیرہم نے بھی العلل الکبیر کو امام ترمذی کی طرف منسوب کیاہے جس کی تفصیل ہم اپنے پہلے مقالے میں عرض کر چکے ہیں۔(ملاحظہ ہو ہفت روزہ الاعتصام، لاہور،جلد: ۶۷ ، شمارہ : ۲۵ ،ص: ۱۸- ۲۱)
اگر ان ائمہ کے اقوال کی بنیاد پر تدلیسِ ولید پر اجماع کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے تو العلل الکبیر پر کیوں نہیں!
5…’’محدثین نے (سفیان ) ثوری کی تدلیس پر اجماع کیا ہے… یہ روایت منکر مردود اور اجماع کے مخالف ہے۔‘‘
(الفتح المبین،ص: ۶۸ ، مطبوعہ ۱۴۳۴ھ)
6…’’ترکِ رفعِ یدین والی روایتِ مذکورہ میں ایک راوی امام سفیان ثوری ہیں جو کہ بالاجماع مدلس تھے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات:۴/۲۰۵)
7…’’یاد رہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کامدلس ہونا اجماع اور تواتر سے ثابت ہے اور اس کا انکار جہالت ہے ۔ ‘‘
(تحقیقی مقالات :۴/۲۱۴)
8…’’یہاں تو سفیان ثوری کے مدلس ہونے پر اجماع ہے ۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات :۴/۲۳۶)
9…’’عرض یہ کہ سفیان ثوری کا مدلس ہونا اجماعی مسئلہ ہے ۔ ‘‘ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام:۲/۳۱۳)
حالانکہ موصوف محترم سے قبل کسی نے ثوری کے مدلس ہونے پر اجماع کا دعویٰ نہیں کیا ۔
10…’’میرے علم کے مطابق کسی نے بھی محمد بن اسحاق کی تدلیس کا انکار نہیں کیا، گویا اس کی تدلیس بالاجماع ثابت شدہ ہے ۔ ‘‘ (تحقیقی مقالات : ۱/۲۷۳)
ابن اسحاق کی تدلیس پر کسی معتبر محدث نے اجماع نقل نہیں کیا۔ اگر ہم بھی محدثین کے اقوال کی روشنی میں اس کتاب کی صحت پر اجماع کا دعویٰ کریں تو وہ غلط کیوں کر قرار پائے!
ثانیاً: اگر کتاب کی سند ضعیف ہی ہو تو کیا علماء کا اجماع اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور کتاب قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتی؟
شیخِ مکرم ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’امام ابو حاتم الرازی: اسماء الرجال کے مشہور امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
’’و اتفاق أہل الحدیث علی شيء یکون حجۃ۔‘‘
’’اور کسی چیز پر اہلِ حدیث کا اتفاق حجت ہوتا ہے۔‘‘
(کتاب المراسیل،ص: ۱۹۲، فقرہ : ۷۰۳)‘‘
(تحقیقی مقالات: ۱/۱۶۴،۱۶۵)
اہلِ حدیث کا العلل الکبیر پر اتفاق حجت کیوں نہیں؟