• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10- بَاب الْقِرَائَةِ فِي صَلاةِ الْعِشَائِ
۱۰ -باب: عشاء میں پڑھی جانے والی سورتوں کابیان​


834- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، جَمِيعًا عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الْعِشَائَ الآخِرَةَ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۰۰ (۷۶۷)، ۱۰۲ (۷۶۹)، تفسیر التین ۱ (۴۹۵۶)، التوحید ۵۲ (۷۵۴۶)، م/الصلاۃ ۳۶ (۴۶۴)، د/الصلاۃ ۲۷۵ (۱۲۲۱)، ت/الصلاۃ ۱۱۵ (۳۱۰)، ن/الافتتاح ۷۲ (۱۰۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/ ۲۸۶، ۳۰۲) (صحیح)
۸۳۴- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عشاء کی صلاۃ پڑھی، کہتے ہیں : میں نے آپ ﷺ کو {والتِّينِ وَالزَّيْتُونِ " پڑھتے ہوئے سنا ۔


835- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ،أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، (ح) وَحَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، جَمِيعًا، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَائِ، مِثْلَهُ قَالَ: فَمَا سَمِعْتُ إِنْسَانًا أَحْسَنَ صَوْتًا أَوْ قِرَائَةً مِنْهُ۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۰۲ (۷۶۹)، التوحید ۵۲ (۷۵۴۶)، م/الصلاۃ ۳۶ (۴۶۴)، د/الصلاۃ ۲۷۵ (۱۲۲۱)، ت/الصلاۃ ۱۱۵ (۳۱۰)، ن/الافتتاح ۷۲ (۱۰۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۱)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۵ (۷)، حم (۴/۲۹۸، ۳۰۲) (صحیح)
۸۳۵- اس سند سے بھی براء رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مروی ہے، اس میں ہے کہ براء رضی اللہ عنہ نے کہاکہ میں نے کسی بھی انسان کو آپﷺ سے اچھی آواز یاقرا ءت والا نہیں سنا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سبحان اللہ، نبی اکرم ﷺ تمام کمالات اور صفات انسانی اور جمال ظاہری او رباطنی کے مجموعہ تھے، حسن صورت اور حسن سیرت دونوں میں بے نظیر تھے، اور حسن خلق ان سب پر طرہ تھا۔


836 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِر أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ صَلَّى بِأَصْحَابِهِ الْعِشَائَ، فَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: < اقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۶ (۴۶۵)، ن/الإمامۃ ۳۹ (۸۳۲)، ۴۱ (۸۳۶)، الافتتاح ۶۳ (۹۸۵)، ۷۰ (۹۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۲)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۶۰ (۷۰۱)، ۶۳ (۷۰۵)، الأدب ۷۴ (۶۱۰۶)، د/الصلاۃ ۶۸ (۶۰۰)، ۱۲۷ (۷۹۰)، حم (۳/۲۹۹، ۳۰۸، ۳۶۹) (صحیح)
۸۳۶- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی صلاۃ پڑھائی اور صلاۃ لمبی کردی، تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: ''یہ سورتیں پڑھا کرو: { والشَّمْسِ وَضُحَاهَا }، { سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى ٰ }، { وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى } اور { اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ } '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عشاء میں یہ سورتیں اور ان کے ہم مثل سورتیں پڑھنی چاہئے، جیسے سورہ بروج، سورہ انشقاق، سورہ طارق، سورہ غاشیہ، سورہ فجر اورسورہ لم یکن یہ سورتیں حدیث میں مذکورسورتوں کے قریب قریب ہیں، عشاء میں ایسی ہی سورتیں پڑھنا سنت ہے تاکہ مقتدیوں پر بوجھ نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11- بَاب الْقِرَائَةِ خَلْفَ الإِمَامِ
۱۱- باب: امام کے پیچھے قرأت کاحکم​


837- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَسَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: <لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ>۔
* تخريج: خ/الأذان ۹۵ (۷۵۶)، م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۴)، د/الصلاۃ ۱۳۶ (۸۲۲)، ت/الصلاۃ ۶۹ (۲۴۷)، ۱۱۵ (۳۱۱)، ن/الافتتاح ۲۴ (۹۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۱۴، ۳۲۲)، دي/الصلاۃ ۳۶ (۱۲۷۸) (صحیح)
۸۳۷- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''اس شخص کی صلاۃ نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بہر حال ہر شخص کو ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا چاہئے، امام ہو یا مقتدی، سری صلاۃ ہو یا جہری، اہل حدیث کا یہی مذہب ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہی قوی ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ''القراء ۃ خلف الإمام'' نامی ایک رسالہ تحریر فرمایاہے، اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے، ابو حنیفہ l کہتے ہیں کہ مقتدی کسی صلاۃ میں قراء ت نہ کرے نہ سری صلاۃ میں نہ جہری صلاۃ میں اور دلیل ان کی یہ ہے: اللہ تعالی نے فرمایا : { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ} [سورة الأعراف : 204] یعنی ''جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو''، اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے سورئہ فاتحہ کا نہ پڑھنا ثابت نہیں ہوتا، اس لئے کہ مقتدی کو آہستہ سے سورئہ فاتحہ پڑھنا چاہئے جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اپنے دل میں پڑھ لے، اور یہ مثل خاموش رہنے کے ہے، خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ آواز بلند نہ کرو، تاکہ امام کی قراء ت میں حرج واقع نہ ہو، اور دوسری حدیث میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ جب تم امام کے پیچھے ہو تو سوائے سورئہ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو کیونکہ جو آدمی سورہ فاتحہ نہ پڑھے تو اس کی صلاۃ نہیں ہوتی، ''تنویر العینین'' میں ہے کہ جو بھی صورت ہو اور جس طرح بھی ہو بہر حال سورئہ فاتحہ کا پڑھ لینا ہی بہتر ہے، اور یہی مقتدی کے لئے مناسب ہے، اور بیہقی نے یزید بن شریک سے روایت کی کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قراء ت خلف الامام کے بارے پوچھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''سورئہ فاتحہ پڑھا کرو''، یزید نے کہا: اگرچہ جہری صلاۃ میں ہو؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''اگرچہ جہری صلاۃ میں ہو''، احناف کی دوسری دلیل یہ حدیث ہے جس میں آپ نے ﷺ فرمایا: ''مالی انازع القرآن''، اور اس کا جواب یہ ہے کہ منازعت (چھیناجھپٹی) اسی وقت ہوگی جب مقتدی بآواز بلند قراء ت کرے، اور آہستہ سے صرف سورہ فاتحہ پڑھ لینے میں کسی منازعت کا اندیشہ نہیں، اور اسی حدیث میں یہ وارد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ''سورئہ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو''، اور ممکن ہے کہ مقتدی امام کے سکتوں میں سورئہ فاتحہ پڑھے، پس آیت اور حدیث دونوں کی تعمیل ہوگئی، اور کئی ایک حنفی علماء نے اس کو اعدل الاقوال کہا ہے، صحیح اور مختا ر مذہب یہ ہے کہ مقتدی ہر صلاۃ میں جہری ہو یا سری سورئہ فاتحہ ضرور پڑھے، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے جس کے بغیر صلاۃ نہیں ہوتی، خلاصہ کلام یہ کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ نہیں ہوتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا نفل اور خواہ پڑھنے والا اکیلے پڑھ رہاہو یاجماعت سے، امام ہو یا مقتدی ہرشخص کے لیے ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، اس کے بغیر صلاۃنہیں ہوگی کیونکہ ''لا'' نفی جس پر آتا ہے اس سے ذات کی نفی مرادہوتی ہے، اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے، یہ صفات کی نفی کے لیے اس وقت آتا ہے جب ذات کی نفی مشکل اوردشوارہو، اور اس حدیث میں ذات کی نفی کو ئی مشکل نہیں کیونکہ ازروئے شرع صلاۃ ''مخصوص اقوال وافعال کو مخصوص طریقے سے اداکرنے کانام ہے''، لہذا بعض یا کل کی نفی سے ذات کی نفی ہوجائے گی، اور اگر بالفرض ذات کی نفی نہ ہوسکتی ہو تو وہ معنی مرادلیاجائے گا جوذات سے قریب ترہو، اور وہ صحت کی نفی ہے نہ کہ کمال کی، اس لیے کہ صحت اور کمال ان دونوں مجازوں میں سے صحت ذات سے اقرب اور کمال ذات سے ابعد ہے اس لیے یہاںصحت کی نفی مرادہوگی جوذات سے اقرب ہے نہ کہ کمال کی نفی کیونکہ وہ صحت کے مقابلے میں ذات سے ابعد ہے۔


838 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ أَنَّ أَبَا السَّائِبِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " من صَلَّى صَلاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ، غَيْرُ تَمَامٍ>، فَقُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ! فَإِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَائَ الإِمَامِ، فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ: يَا فَارِسِيُّ! اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۱ (۳۹۵)، د/الصلاۃ ۱۳۵ (۸۲۱)، ت/تفسیر الفاتحۃ (۲۹۵۳)، ن/الافتتاح ۲۳ (۹۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۳۵)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۹ (۳۹)، حم (۲/۲۴۱، ۲۵۰، ۲۸۵، ۲۹۰، ۴۵۷، ۴۷۸، ۴۸۷) (صحیح)
۸۳۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے کوئی صلاۃ پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ صلاۃ ناقص و نا تمام ہے''، ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے ابوہریرہ !کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں (توکیا پھر بھی سورہ فاتحہ پڑھوں) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے میرا بازو دبایا اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے دل میں پڑھ لیا کر ۔


839- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ،(ح) وَحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي سُفْيَانَ السَّعْدِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِـ+الْحَمْدُ لِلَّهِ" وَسُورَةٍ فِي فَرِيضَةٍ أَوْ غَيْرِهَا>.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۵۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۶) (ضعیف)
(ابو سفیان طریف بن شہاب السعدی ضعیف ہیں، اصل حدیث صحیح مسلم میں ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابو داود: ۷۷۷)
۸۳۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس شخص کی صلاۃ نہیں جو فرض ونفل کی ہر رکعت میں "الْحَمْدُ لِلَّهِ" اور کوئی دوسری سورت نہ پڑھے'' ۔


840- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَزَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <كُلُّ صَلاةٍ لا يُقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْكِتَابِ، فَهِيَ خِدَاجٌ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۲، ۲۷۵) (حسن صحیح)
(اس سندمیں محمدبن اسحاق مدلس ہیں، لیکن اصل حدیث صحیح اور ثابت ہے)
۸۴۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''ہر وہ صلاۃ جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ایک رکن چھوٹ گیا پس معلوم ہوا کہ سورئہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے۔


841- حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السُّكَيْنِ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ السِّلَعِيُّ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <كُلُّ صَلاةٍ لا يُقْرَأُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَهِيَ خِدَاجٌ، فَهِيَ خِدَاجٌ>۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۹۴، ومصباح الزجاجۃ:۳۰۹) (ط. الجامعۃ الإسلامیۃ)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۰۴، ۲۱۵) (حسن صحیح)
۸۴۱- عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''ہر وہ صلاۃ جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے، ناقص ہے، ناقص''۔

842- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلانِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَقْرَأُ وَالإِمَامُ يَقْرَأُ؟ فَقَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ ﷺ: أَفِي كُلِّ صَلاةٍ قِرَائَةٌ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <نَعَمْ > فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَ هَذَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۸)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۳۱ (۹۲۴)، حم (۱/۴۴۸) (ضعیف الإسناد)
(اس حدیث کی سند میں معاویہ بن یحییٰ الصدفی ضعیف ہیں)
۸۴۲- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا اور کہا: جس وقت امام قراء ت کررہا ہو کیا میں امام کے پیچھے قرا ء ت کروں؟ تو انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا:کیا ہرصلاۃ میںقرا ء ت ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں''، یہ سن کر لوگوں میں سے ایک شخص بولا: اب توقرا ء ت واجب ہوگئی ۔


843- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ يَزِيدَ الْفَقِيرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الإِمَامِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، وَفِي الأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَاب۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۰۹) (صحیح)
۸۴۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم ظہر و عصر میں امام کے پیچھے پہلی دونوں رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی ایک سورہ پڑھتے تھے، اور آخری دونوں رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ بھی جائز ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی سورت بھی پڑھے، پھر سورئہ فاتحہ کا پڑھنا کیونکر جائز نہ ہوگا، لیکن اولی یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی صرف سورہ فاتحہ پر قناعت کرلے، امام محمد نے موطا میں عبداللہ بن شداد سے مرسلاً روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے صلاۃ میں امامت کی، ایک شخص نے آپ ﷺ کے پیچھے قراء ت کی، تو اس کے پاس والے نے اس کی چٹکی لی، جب وہ صلاۃ پڑھ چکا تو بولا : تم نے چٹکی کیوں لی، پاس والے نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ''جس کا امام ہوتو امام کی قراء ت مقتدی کے لئے بھی کافی ہے''، اس سے یہی مراد ہے کہ سورئہ فاتحہ کے علاوہ مقتدی او ر دوسری سورہ نہ پڑھے، اس باب کی تمام احادیث سے ثابت ہے کہ ہر صلاۃ میںخواہ فرض ہویا نفل، جہری ہو یا سری سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے، بغیر فاتحہ پڑھے کوئی صلاۃ درست نہیں ہوتی، یہ وہ مسئلہ ہے کہ امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری نے اس پر مستقل کتاب لکھی ہے، اور امام بیہقی نے ان سے بھی کئی گنا ضخیم کتاب لکھی ہے، اور سورہ فاتحہ کے نہ پڑھنے والوں کے تمام شہبات کا مسکت جو اب دیا ہے، نیز مولانا عبد الرحمن محدث مبارکپوری، اور مولانا ارشاد الحق نے اس موضوع پر مدلل کتابیں لکھی ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12- بَاب فِي سَكْتَتَيِ الإِمَامِ
۱۲ -باب: (قراء ت میں) امام کے دونوں سکتوں کا بیان​


844- حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ جَمِيلٍ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ، فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ، فَكَتَبَ أَنَّ سَمُرَةَ قَدْ حَفِظَ، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ: مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ؟ قَالَ: إِذَا دَخَلَ فِي صَلاتِهِ، وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَائَةِ، ثُمَّ قَالَ بَعْدُ: وَإِذَا قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ.
قَالَ: وَكَانَ يُعْجِبُهُمْ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَائَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۳ (۷۷۹، ۷۸۰)، ت/الصلاۃ ۷۲ (۲۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۱) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں حسن بصری ہیں، ان کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے عقیقہ والی حدیث کے سوا کسی اور حدیث میں ثابت نہیں ہے، اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۵۰۵)
۸۴۴- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو سکتے یاد رکھے ہیں، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا، اس پرہم نے مدینہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لکھا، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے ٹھیک یاد رکھاہے ۔
سعید نے کہا :ہم نے قتادہ سے پوچھا: وہ دو سکتے کون کون سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ایک تو وہ جب آپ ﷺ صلاۃ شروع کرتے اور دوسرا جب قرا ء ت فاتحہ سے فارغ ہوتے ۔
پھربعد میں قتادہ نے کہا : دوسرا سکتہ اس وقت ہوتا جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} کہہ لیتے، قتادہ نے کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ پسند تھا کہ جب امام قراءت سے فارغ ہوجائے تو تھوڑی دیر خاموش رہے، تاکہ اس کا سا نس ٹھکانے آجائے ۔


845- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِشْكَابَ، قَالا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ: حَفِظْتُ سَكْتَتَيْنِ فِي الصَّلاةِ، سَكْتَةً قَبْلَ الْقِرَائَةِ، وَسَكْتَةً عِنْدَ الرُّكُوعِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ، فَكَتَبُوا إِلَى الْمَدِينَةِ إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَصَدَّقَ سَمُرَةَ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۴ (۷۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۱، ۲۱، ۲۳)
(ضعیف)
(اس حدیث میں حسن بصری ہیں جن کا سماع سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث عقیقہ کے علاوہ کسی اور حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر۸۴۴)
۸۴۵- حسن بصری کہتے ہیں کہ سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے صلاۃ میں دو سکتے یاد کئے، ایک سکتہ قراء ت سے پہلے اور ایک سکتہ رکوع کے وقت، اس پر عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے ان کا انکار کیا تو لوگوں نے مدینہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو لکھا تو انھوں نے سمرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
13- بَاب إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
۱۳-باب: جہری صلاۃ میں امام قرأ ت کرے تو اس پر خاموش رہنے کا بیان​


846- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاالضَّالِّينَ، فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعِينَ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۶۹ (۶۰۴)، ن/الافتتاح ۳۰ (۹۲۲، ۹۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۱۷)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۷۴ (۷۲۲)، م/الصلاۃ ۱۹ (۱۴۴)، حم (۲/۳۷۶، ۴۲۰)، دي/الصلاۃ ۷۱ (۱۳۵۰)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ۹۶۰، ۱۲۳۹) (حسن صحیح)
۸۴۶- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''امام اس لئے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، لہٰذا جب وہ ''ألله أكبرُ'' کہے تو تم بھی ''ألله أكبرُ'' کہو، اور جب قراء ت کرے تو خاموشی سے اس کو سنو ۱؎ ، اور{غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ} کہے تو آمین کہو، اور جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، اور جب {سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ} کہے تو {اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ} کہو، اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، اور جب بیٹھ کر صلاۃ پڑھا ئے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی زور سے قراء ت نہ کرو، یہ مطلب نہیں کہ سورہ فاتحہ نہ پڑھو، کیونکہ فاتحہ کے بغیر صلاۃ ہی نہیں ہوتی، کیونکہ دوسری حدیثوں سے جو خود ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں یہ ثابت ہے کہ مقتدی کو سورہ فاتحہ ہر ایک صلاۃ میں پڑھنا چاہئے، ابھی اوپر گزرا کہ ابو السائب نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا:اے فارسی !اپنے دل میں پڑھ لو، بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام کی قراء ت کے وقت مقتدی زور سے قراء ت نہ کرے، کیونکہ ایسا کرنے سے امام کو تکلیف ہوتی ہے، کبھی وہ بھول جاتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : اگر امام کسی عذر کے سبب بیٹھ کر صلاۃ پڑھائے، تو مقتدی کھڑے ہو کر صلاۃ پڑھیں، اگر وہ معذور نہیں ہیں، اس حدیث کا یہ حکم کہ امام بیٹھ کر پڑھائے تو بیٹھ کر پڑھو منسوخ ہے، مرض الوفات کی حدیث سے۔


847- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي غَلَّابٍ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ ذِكْرِ أَحَدِكُمُ التَّشَهُّدُ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۱۶ (۴۰۴)، د/الصلاۃ ۱۸۲ (۹۷۲، ۶۰۴)، ن/الإمامۃ ۳۸ (۸۳۱)، التطبیق ۲۳ (۱۰۶۵)، السہو ۴۴ (۱۲۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۸۷)، وقد أخرجہ: حم (۴/۴۰۱، ۰۵ ۴، ۴۰۹)، دي/الصلاۃ ۷۱ (۱۳۵۱) (صحیح)
۸۴۷- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فر مایا: ''جب امام جہری قراء ت کرے تو تم خاموش رہو، اور جب وہ قعدہ میں ہو تو تم میں سے ہر ایک پہلے ''التحيات''پڑھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کے بعد دعا وغیرہ مانگے۔


848- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: صَلَّى النَّبِيُّ ﷺ بِأَصْحَابِهِ صَلاةً، نَظُنُّ أَنَّهَا الصُّبْحُ فَقَالَ: < هَلْ قَرَأَ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟ > قَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ: < إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۳۷ (۸۲۶، ۸۲۷)، ت/الصلاۃ ۱۱۷ (۳۱۲)، ن/الافتتاح ۲۸ (۹۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۶۴)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۱۰ (۴۴)، حم (۲/۲۴۰، ۲۸۴، ۲۸۵، ۳۰۲، ۴۸۷) (صحیح)
۸۴۸- ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اپنے صحابہ کو کوئی صلاۃ پڑھائی، (ہمارا خیال ہے کہ وہ صبح کی صلاۃ تھی) صلاۃ سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم میں سے کسی نے قراءت کی ہے؟''، ایک آدمی نے کہا: ہاں، میں نے کی ہے، آپﷺ نے فرمایا: ''میں سوچ رہا تھا کہ کیا بات ہے قرآن پڑھنے میں کوئی مجھ سے منازعت (کھینچا تانی) کررہا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر مقتدی قرآن کی تلاوت زور سے کرے گا تو منازعت ہوگی، یعنی اس کی تلاوت سے امام متاثر ہوگا، اور اگر مقتدی آہستہ پڑھے گا توامام اس سے متاثرنہیں ہوگا، اور سورہ فاتحہ امام کے پیچھے آہستہ آہستہ پڑھنے کا حکم ہے۔


849- حَدَّثَنَا جَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ أُكَيْمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ،فَذَكَرَ نَحْوَهُ، وَزَادَ فِيهِ: قَالَ فَسَكَتُوا، بَعْدُ، فِيمَا جَهَرَ فِيهِ الإِمَامُ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۶۴) (صحیح)
۴۹ ۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صلاۃ پڑھائی، اس کے بعد پہلی جیسی روایت ذکرکی، البتہ اس میں اتنا زیادہ ہے : پھر لوگوں نے جہری صلاۃ میں خاموشی اختیار کرلی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جہری صلاۃ میں لوگوں نے آواز سے پڑھنا چھوڑ دیا، یا سورت کا پڑھنا ہی چھوڑ دیا، اور یہ مطلب نہیں ہے کہ سورت فاتحہ کا پڑھنا بھی چھوڑ دیا جیسا حنفیہ نے سمجھا ہے کیونکہ اس کے بغیر تو صلاۃ ہی نہیں ہوتی، واضح رہے کہ حدیث کا آخری ٹکڑا ''فَسَكَتُوا...'' مدرج ہے، زہری کا کلام ہے۔


850- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ، فَقِرَائَةُ الإِمَامِ لَهُ قِرَائَةٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۷۵، ومصباح الزجاجۃ : ۳۱۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۳۹) (ضعیف)
(سند میں جابر الجعفی ضعیف بلکہ متہم بالکذب راوی ہے، اس لئے علماء کی اکثریت نے اس حدیث کی تضعیف فرمائی ہے، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پراس کی تحسین کی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۸۵۰، نیز ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ: و فتح الباری: ۲/۲۴۲ وسنن الترمذی بتحقیق احمد شاکر ۲/۱۲۱-۱۲۶، و سنن الدار قطنی: ۱/۳۲۳- ۳۳۳)
۸۵۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جس کے لئے امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں: ''له طرق أخرى كلها واهية'' یعنی اس حدیث کے تمام کے تمام طرق واہی ہیں، علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: ''طرق كلها معلولة'' یعنی اس کے تمام طرق معلول ہیں، امام بخاری ''جزء قرا ء ت'' میں فرماتے ہیں: ''هذا خبر لم يثبت عند أهل العلم من أهل الحجاز وأهل العراق وغيرهم لإرساله و انقطاعه'' یعنی یہ حدیث حجاز وعراق وغیرہ کے اہل علم کے نزدیک بسبب مرسل اور منقطع ہونے کے ثابت نہیں، اور اگر ثابت مان بھی لیا جائے، تو اس کا معنی یہ ہے کہ صر ف سورہ فاتحہ پڑھے کچھ اور پڑھنے کی ضرورت نہیں، فاتحہ کافی ہے تاکہ اس کا معنی دوسری احادیث کے مطابق ہوجائے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
14- بَاب الْجَهْرِ بِآمِينَ
۱۴-باب: آمین زور سے کہنے کا بیان​


851- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّ الْمَلائِكَةَ تُؤَمِّنُ، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ>۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۱۱ (۷۸۰)، ۱۱۳ (۷۸۲)، التفسیر ۲ (۴۴۷۵)، الدعوات ۶۳ (۶۴۰۲)، ن/الافتتاح ۳۳ (۹۲۷، ۹۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۳۶)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۱۸ (۴۱۰)، د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۶)، ت/الصلاۃ ۷۱ (۲۵۰)، ط/الصلاۃ ۱۱ (قبیل۴۵)، حم (۲/۲۳۸، ۴۶۹)، دي/الصلاۃ ۳۸ (۱۲۸۲)
(صحیح)
۸۵۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لئے کہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے، تو اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے امام نسائی نے امام کے بلندآواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہوسکے گا توان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہوگا۔


852- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَرَّانِيُّ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، جَمِيعًا عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا، فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ>۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۳۳ (۹۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۸۷)، وحدیث سلمۃ بن عبد الرحمن تفرد بہ ابن ماجہ ۱۵۳۰۲، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۰۲) (صحیح)
۸۵۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب امام (آمین) کہے تو تم بھی آمین کہو ۱؎ ، اس لئے کہ جس کی آمین فرشتوںکی آمین کے موافق ہوگئی، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے'' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی پہلے امام بلند آواز سے آمین کہے، پھر مقتدی بھی آواز سے آمین کہیں، اور اس کی دلیل میں کئی حدیثیں ہیں، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ آمین آہستہ سے کہنا چاہئے، اور دلیل دیتے ہیں وائل کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ''غير المغضوب عليهم ولا الضالين'' پر پہنچے تو آہستہ سے آمین کہی، (مسند امام احمد، مسند ابو یعلی، طبرانی، دار قطنی، مستدرک الحاکم) ہم کہتے ہیں کہ خود اس حدیث سے زور سے آمین کہنا ثابت ہوتا ہے، ورنہ وائل نے کیوں کر سنا اور سفیان نے اس حدیث کو وائل سے روایت کیا، اس میں یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین کہی بلند آواز سے، اور صاحب ہدایہ نے آمین کو دھیرے سے کہنے پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا ہے، او ر وہ روایت ضعیف ہے، نیز صحابی کا قول مرفوع حدیثوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا، او ریہ بھی ممکن ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی مراد اخفاء سے یہ ہو کہ زور سے کہنے میں مبالغہ نہ کرے، واللہ اعلم۔


853- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: تَرَكَ لنَّاسُ التَّأْمِينَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَالَ: <غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ>، قَالَ: <آمِينَ> حَتَّى يَسْمَعَهَا أَهْلُ الصَّفِّ الأَوَّلِ، فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۱)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۴) (ضعیف)
(اس کی سند میں ابو عبداللہ مجہول ہیں، اور بشر بن رافع ضعیف ہیں، اس لئے ابن ماجہ کی یہ روایت جس میں ''فيرتج بها المسجد'' (جس سے مسجد گونج جائے) کالفظ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحہ: ۴۶۵)
۸۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا حالانکہ رسول اللہ ﷺ جب {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ}کہتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ پہلی صف کے لوگ سن لیتے، اور آمین سے مسجد گونج اٹھتی ۔


854- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا قَالَ: <وَلا الضَّالِّينَ > قَالَ: < آمِينَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۲) (صحیح)
(اس حدیث کی سند میں محمد بن عبد الرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن بعد میں آنے والی صحیح سندوں سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاۃ : ۸۴۵، فواد عبد الباقی اور خلیل مامون شیحا کے نسخوں میں اور مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں ''عثمان بن ابی شیبہ''ہے، مشہور حسن نے ''ابوبکر بن ابی شیبہ'' ثبت کیا ہے، اور ایسے تحفۃ الأشراف میں ہے، اس لئے ہم نے ''ابو بکر'' کو ثبت کیا ہے، جو ابن ماجہ کے مشاہیر مشائخ میں ہیں، اس لئے کہ اما م مزی نے تحفہ میں یہی لکھا ہے، اور تہذیب الکمال میں حمیدبن عبدالرحمن کے ترجمہ میں تلامیذ میں ابوبکر بن ابی شیبہ کے نام کے آگے (م د ق) کا رمز ثبت فرمایا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح مسلم، ابوداود، اور ابن ماجہ میں ابو بکر کے شیخ حمید بن عبد الرحمن ہی ہیں، ملاحظہ ہو، تہذیب الکمال : (۷/ ۳۷۷)، اور عثمان بن ابی شیبہ کے سامنے (خ م) یعنی بخاری ومسلم کا رمز دیا ہے، یعنی ان دونوں کتابوں میں حمید سے روایت کرنے والے عثمان ہیں، ایسے ہی عثمان کے ترجمہ میں حمید بن عبد الرحمن کے آگے (خ م) کا رمز دیا ہے)
۸۵۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو سنا کہ جب آپﷺ ''وَلا الضَّالِّينَ'' کہتے تو ''آمین'' کہتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آمین کے معنی ہیں قبول کر، اور بعضوں نے کہاکہ آمین اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور بہر حال زور سے آمین کہنا سنت نبوی اور باعث اجر ہے، اور جو کوئی اس کو برا سمجھے اس کو اپنی حدیث مخالف روش پر فکر مند ہونا چاہئے کہ وہ حدیث رسول کے اعراض سے کیوں کر اللہ کے یہاں سرخرو ہوسکے گا۔


855- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، وَعَمَّارُ بْنُ خَالِدٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَلَمَّا قَالَ: < وَلا الضَّالِّينَ > قَالَ: < آمِينَ >، فَسَمِعْنَاهَا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۶)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۷۲ (۹۳۲)، ت/الصلاۃ ۷۰ (۲۴۸)، ن/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، حم (۴/۳۱۵، ۳۱۷، دي/الصلاۃ ۳۹ (۱۲۸۳) (صحیح)
۸۵۵- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، جب آپ نے ''وَلا الضَّالِّينَ'' کہا، تو اس کے بعد آمین کہا، یہاں تک کہ ہم نے اسے سنا ۔
856- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، حدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: <مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْئٍ ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى السَّلامِ وَالتَّأْمِينِ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۲۵) (صحیح)
۸۵۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا سلام کرنے، اور آمین کہنے پر حسد کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ کلمے ان کو بھی بہت پسند آئے، مگر مسلمانوں کی ضد میں اس پر عمل نہ کرسکے، اور حسد میں جلتے رہ گئے، قل موتوا بغيظكم۔


857- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الْخَلالُ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُومُسْهِرٍ، قَالا: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ صَالِحِ بْنِ صُبَيْحٍ الْمُرِّيُّ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا حَسَدَتْكُمُ الْيَهُودُ عَلَى شَيْئٍ، مَا حَسَدَتْكُمْ عَلَى آمِينَ، فَأَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ آمِينَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۹۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۴) (ضعیف جدا)


(سند میں طلحہ بن عمرو متروک ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث بغیر آخری ٹکڑے ''فَأَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ آمِينَ'' کے ثابت ہے)
۸۵۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''یہود نے تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کیا جتنا ''آمین'' کہنے پر کیا، لہٰذا تم آمین کثرت سے کہا کرو'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
15- بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
۱۵ -باب: رکوع میں جاتے اور ا س سے اٹھتے وقت رفع یدین کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : تمام علماء اہل حدیث و فقہ کے نزدیک یہ سنت ثابتہ ہے، اس میں اہل کوفہ کے علاوہ کسی نے اختلاف نہیں کیا ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ رکوع جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے، ہم کہتے ہیں کہ رفع یدین کے اثبات میں سیکڑوں احادیث اور آثار موجود ہیں، ان سب کو چھوڑ کر ایک ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث پر جمے رہنا کیا اچھا انصاف ہے، اور علاوہ اس کے یہ حدیث ثابت بھی نہیں ہے، اس میں عبداللہ بن مبارک نے طعن کیا، اور اگر ثابت بھی ہو جب بھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ترک سے نفی استحباب لازم نہیں آتی، کیونکہ مستحب کا ترک جائز ہے، اور رفع یدین کے راوی عشرہ مبشرہ ہیں، اور اس سنت کے علاوہ ایسی کوئی سنت نہیں ہے جس کو تمام عشرہ مبشرہ نے روایت کیا ہو، اور اس مسئلہ پر امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک علیحدہ کتاب تصنیف فرمائی ہے۔


858- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَأَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَلا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۹ (۷۲۱)، د/الصلاۃ ۱۱۶ (۲۵۵)، ت/الصلاۃ ۷۶ (۸۷۵)، ن/الافتتاح ۱ (۸۷۷)، التطبیق ۱۹ (۱۰۵۸)، ۲۱ (۱۰۶۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۶)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۸۳ (۷۳۵)، ۸۴ (۷۳۶)، ۸۵ (۷۳۸)، ۸۶ (۷۳۹)، ط/الصلاۃ ۴ (۱۶)، حم (۲/۸، ۱۸، ۴۴، ۴۵، ۴۷، ۶۲، ۱۰۰، ۱۴۷)، دي/الصلاۃ ۴۱ (۱۲۸۵)، ۷۱ (۱۳۴۷) (صحیح)
۸۵۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ صلاۃ شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ ان دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھو ں کے مقابل لے جاتے، اور جب رکوع میں جاتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے، (تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے) اوردونوں سجدوں کے درمیان آپ ہاتھ نہ اُٹھاتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے صلاۃ شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا مسنون ہونا ثابت ہوگیا ہے، جو لوگ اسے منسوخ یا مکروہ کہتے ہیںان کا قول درست نہیں، کیونکہ عدم رفع یدین اگر کبھی کبھی ثابت بھی ہوجائے تو یہ رفع یدین کے سنت نہ ہونے پر دلیل نہیں کیو نکہ سنت کے بارے میں اتنی گنجائش ہے کہ اسے کبھی کبھی ترک کردیاجائے ۔


859- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا قَرِيبًا مِنْ أُذُنَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ صَنَعَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، صَنَعَ مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/ الصلاۃ ۹ (۳۹۱)، د/الصلاۃ ۱۱۸ (۷۴۵)، ن/ الافتتاح ۴ (۸۸۲)، التطبیق ۱۸ (۱۰۵۷)، ۳۶ (۱۰۸۶، ۱۰۸۷)، ۸۴ (۱۱۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۴)، وقد أخرجہ: خ/الأذان ۸۴ (۷۳۷)، دي/الصلاۃ ۴۱ (۱۲۸۶) (صحیح)
۸۵۹- مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر تحریمہ کہتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے قریب تک اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے ۔


860- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الصَّلاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلاةَ، وَحِينَ يَرْكَعُ، وَحِينَ يَسْجُدُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۵۵، ومصباح الزجاجۃ : ۳۱۵)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۴ (۱۹)، دي/الصلاۃ ۴۱ (۱۲۸۵) (صحیح)
(اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہے، لیکن دوسرے طرق وشواہد سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۷۲۴)
۸۶۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ صلاۃ میں مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے جس وقت صلاۃ شروع کرتے، جس وقت رکوع کرتے، اور جس وقت سجدہ کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سجدے کے وقت بھی رفع یدین کرنا اس روایت میں وارد ہے ۔


861- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا رِفْدَةُ بْنُ قُضَاعَةَ الْغَسَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ، فِي الصَّلاةِ الْمَكْتُوبَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹۶، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۶) (صحیح)
(اس سند میں رفدۃ بن قضاعہ ضعیف راوی ہیں، اورعبد اللہ بن عبید بن عمیر نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا ہے، کمافی التاریخ الأوسط والتاریخ الکبیر: ۵/۴۵۵، اور تاریخ کبیر میں عبد اللہ کے والد کے ترجمہ میں ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا ہے، بایں ہمہ طرق شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۷۲۴)
۸۶۱- عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے دونوں ہاتھ ہر تکبیر کے ساتھ فرض صلاۃ میں اٹھاتے تھے۔


862- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: سَمِعْتُهُ، وَهُوَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَحَدُهُمْ أَبُو قَتَادَةَ بْنُ رِبْعِيٍّ؛ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، كَانَ إِذَا قَامَ فِي الصَّلاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: < اللَّهُ أَكَبْرُ > وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، فَإِذَا قَالَ: <سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ > رَفَعَ يَدَيْهِ فَاعْتَدَلَ، فَإِذَا قَامَ مِنَ الثِّنْتَيْنِ، كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ، كَمَا صَنَعَ حِينَ افْتَتَحَ الصَّلاةَ۔
* تخريج:خ/الأذان ۸۵ (۸۲۸)، د/الصلاۃ ۱۱۷ (۹۶۴، ۹۶۵)، ت/الصلاۃ ۷۸ (۳۰۴، ۳۰۵)، ن/التطبیق ۶ (۱۰۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۲۴)، دي/الصلاۃ ۷۰ (۱۳۴۶) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۰۶۱) (صحیح)
۸۶۲- محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید ساعدی کو کہتے سنا اور وہ رسول اللہ ﷺ کے دس اصحاب کے بیچ میں تھے جن میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، آپ ﷺ جب صلاۃ کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوجاتے، اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر''اللَّهُ أَكَبْرُ'' کہتے، اور جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور سیدھے کھڑتے ہوجاتے، اور جب دو رکعت کے بعد (تیسری رکعت کے لئے) کھڑے ہوتے تو''اللَّهُ أَكَبْرُ'' کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، جیسا کہ صلاۃ شروع کرتے وقت کیا تھا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث بہت صحیح ہے، اور اس میں دس صحابہ کی رفع یدین پر گواہی ہے، کیونکہ سب نے سکوت اختیار کیا، اور کسی نے ابوحمید رضی اللہ عنہ پر نکیر نہیں کی، ان دس میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما بھی تھے۔
شیخ ابن الہمام حنفی نے ایک حکایت بلا اسناد فتح القدیر میں لکھی ہے کہ امام اوزاعی اور امام ابو حنیفہ سے رفع یدین کے مسئلہ میں بحث ہوئی، تو اوزاعی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث روایت کی، اور ابو حنیفہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی، اوزاعی نے کہا میری حدیث تو بسند زہری عن سالم بن عبداللہ عن عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما ہے، اور آپ اس کے مقابل حماد بن ابی سلیمان کی حدیث ابراہیم نخعی سے لاتے ہیں، ابوحنیفہ l نے کہا : حماد زہری سے زیادہ فقیہ ہیں، ا ور اگر مان بھی لیں تو ابو حنیفہ l کی روایت حماد بن ابی سلیمان سے زہری کی روایت کے مقابل نہیں ہوسکتی اس لئے کہ زہری کی روایت سالم سے اور سالم کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے یہ اعلی درجہ کی سند ہے ۔


863- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ السَّاعِدِيُّ قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ وَأَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَذَكَرُوا صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ حِينَ كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَاسْتَوَى حَتَّى رَجَعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱۷ (۷۳۳، ۷۳۴)، التشہد ۱۸۱ (۹۶۶، ۹۶۷)، ت/الصلاۃ ۷۸ (۲۶۰)، ۸۶ (۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۲)، وقد أخرجہ: دي/الصلاۃ ۷۰ (۱۳۴۶) (صحیح)
۸۶۳- عباس بن سہل ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوحمید ساعدی، ابواسید ساعدی، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے، اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ کا تذکرہ کیا، ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، آپ صلاۃ کے لئے کھڑے ہوتے تو''اللَّهُ أَكَبْرُ''کہتے، اوردونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جب رکوع کے لئے''اللَّهُ أَكَبْرُ''کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جب رکوع سے اٹھتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہرہڈّی اپنی جگہ واپس لوٹ آتی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کر تے تھے، اس طرح کل چار جگہیں ہو ئیں جس میں آپ رفع یدین کرتے تھے، تکبیرتحریمہ کے وقت، رکوع جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، اور تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت ۔


864- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَبُو أَيُّوبَ الْهَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ الأعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ؛ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: م/الصلاۃ المسافرین ۲۶ (۷۷۱)، ت/الصلاۃ ۸۲ (۲۶۶)، الدعوات ۳۲ (۳۴۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۸)، وقد أخرجہ: د/الصلاۃ ۱۱۸ (۷۴۴)، ن/الافتتاح ۱۷ (۸۹۸)، ط/الصلاۃ ۴ (۱۷)، حم (۱/۹۳، ۱۰۲، ۱۱۹)، دي/الصلاۃ ۳۳ (۱۲۷۷) (حسن صحیح)
۸۶۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب فرض صلاۃ کے لئے کھڑے ہوتے تو''اللَّهُ أَكَبْرُ'' کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے مقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سراٹھاتے تو اسی طرح کرتے، اور جب دو سجدوں (یعنی رکعتوں کے بعد) اٹھتے تو اسی طرح کرتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : علی رضی اللہ عنہ کی روایت سب پر مقدم ہے، اور اہل حدیث علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے متبع و پیروکار ہیں، جب کہ عاصم بن کلیب کی علی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ صرف تکبیر اولی کے وقت رفع یدین کرتے تھے، ضعیف اورناقابل اعتماد ہے، اور شاید علی رضی اللہ عنہ نے کبھی رفع یدین کو ترک کیا ہو، اور راوی نے اس کو نقل کیا، اور علی رضی اللہ عنہ کی طرح باقی تینوں خلیفہ اور بقیہ عشرہ مبشرہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رفع یدین کی احادیث مروی ہیں۔


865- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رِيَاحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۲۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۷) (صحیح)
(سند میں عمربن ریاح متروک ہے، لیکن کثرت شواہد کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو:صحیح ابوداود: ۷۲۴)
۸۶۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر تکبیر کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے ۔


866- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاةِ، وَإِذَا رَكَعَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۳، ومصباح الزجاجۃ: ۳۱۸) (صحیح)
(اسناد صحیح ہے، لیکن دار قطنی نے موقوف کو صواب کہا ہے، اس لئے عبد الوہاب الثقفی کے علاوہ کسی نے اس حدیث کو مرفوعاَ حمید سے روایت نہیں کی ہے، جب کہ حدیث کی تصحیح ابن خزیمہ اور ابن حبان نے کی ہے، اور البانی صاحب نے بھی صحیح کہا ہے، نیزملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۷۲۴)
۸۶۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صلاۃ میں داخل ہوتے، اور جب رکوع کرتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے ۔


867- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَيْفَ يُصَلِّي، فَقَامَ فاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، فَلَمَّا رَكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۱۶ (۷۲۶)، ن/الافتتاح ۴ (۸۸۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۱۵، ۳۱۸، ۳۱۸، ۳۱۹)، دي/الصلاۃ ۴۱ (۱۲۸۷) (صحیح)
۸۶۷- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں ضرور دیکھوں گا کہ آپ کیسے صلاۃ پڑھتے ہیں، (چنانچہ ایک روز میں نے دیکھا) کہ آپﷺ صلاۃ کے لئے کھڑے ہوئے، قبلے کی طرف رخ کیا، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا، پھر جب رکوع کیا تو (بھی) اسی طرح اٹھایا، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا، تو (بھی) اسی طرح اٹھایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مالک بن حویرث اور وائل بن حجررضی اللہ عنہما دونوں ان صحابہ میں سے ہیں جنھوں نے نبی اکرمﷺ کی آخری عمر میں آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھی ہے، اس لئے ان دونو ںکا اسے روایت کر نا اس بات کی دلیل ہے کہ رفع الیدین کے منسوخ ہو نے کا دعویٰ باطل ہے۔


868- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،حَدَّثَنَا أَبُو حُذَيْفَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذلِكَ، وَيَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَرَفَعَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ يَدَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۵۰، ومصباح الزجاجۃ :۳۱۹) (صحیح)
۸۶۸- ابوالزبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما جب صلاۃ شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کے لئے جاتے، یا رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے اور کہتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
ابراہیم بن طہمان (راوی حدیث) نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں تک اٹھاکر بتایا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
16- بَاب الرُّكُوعِ فِي الصَّلاةِ
۱۶- باب: صلاۃ میں رکوع کا بیان​


869- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ بُدَيْلٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَائِ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا رَكَعَ لَمْ يَشْخَصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ، وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۴۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۲۰)، وقد أخرجہ: (مطولاً) م/الصلاۃ ۴۶ (۴۹۸)، د/الصلاۃ ۱۲۴ (۷۸۳)، حم (۶/۳۱، ۱۱۰، ۱۷۱، ۱۹۴، ۲۸۱) (صحیح)
۸۶۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع کرتے تو نہ اپنا سر اونچا رکھتے، اور نہ نیچا رکھتے بلکہ ان دونوں کے بیچ سیدھا رکھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس طرح کہ پیٹھ اور گردن برابر رکھتے، اور اسی طرح سے بالاجماع رکوع کرنا سنت ہے، اور اہل حدیث کے نزدیک یہ تعدیل ارکان میں داخل ہے، اور صلاۃمیں تعدیل ارکان فرض ہے، یہی قول ائمہ ثلاثہ اور ابو یوسف کا بھی ہے، لیکن ابو حنیفہ اور محمد رحمہما اللہ نے اس کو واجب کہا ہے، اہل حدیث کا بھی یہی مذہب ہے، صلاۃ کے آداب وشروط اور سنن کے ساتھ دو رکعت پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ بہت ساری صلاۃپڑھی جائیں جن میں سنت کا اہتمام نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو نیک عمل کی توفیق دے۔


870- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أبِي مَعْمَرٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تُجْزِئُ صَلاةٌ لا يُقِيمُ الرَّجُلُ فِيهَا صُلْبَهُ، فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۴۸ (۸۵۵)، ت/الصلاۃ ۸۱ (۲۶۵)، ن/الافتتاح ۸۸ (۱۰۲۸)، التطبیق ۵۴ (۱۱۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۱۹، ۱۲۲)، دي/الصلاۃ ۷۸ (۱۳۶۶) (صحیح)
۸۷۰- ابومسعود (عقبہ بن عمروبن ثعلبہ انصاری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''وہ صلاۃ درست نہیں ہوتی ہے جس کے رکوع وسجود میں آدمی اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ تعدیل ارکان صلاۃ میں فرض ہے، اور یہی قول ہے اہل حدیث کا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک نفی کمال پر محمول ہے، اور ان کا یہی قاعدہ ہے، وہ اکثر حدیثوں کو جو اس مضمون کی آئی ہیں نفی کمال پر ہی محمول کرتے ہیں، جیسے ''لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب'' وغیرہ۔


871- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُلازِمُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَدْرٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ -وَكَانَ مِنَ الْوَفْدِ- قَالَ: خَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا عَلَىرسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَبَايَعْنَاهُ وَصَلَّيْنَا خَلْفَهُ، فَلَمَحَ بِمُؤْخِرِ عَيْنِهِ رَجُلا لايُقِيمُ صَلاتَهُ، يَعْنِي صُلْبَهُ، فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ ﷺ الصَّلاةَ قَالَ: < يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ! لا صَلاةَ لِمَنْ لا يُقِيمُ صُلْبَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۲۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳) (صحیح)
۸۷۱- علی بن شیبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی قوم کے نمائندہ بن کرآئے تھے، وہ کہتے ہیں: ہم نکلے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، ہم نے آپﷺ سے بیعت کی اور آپ کے پیچھے صلاۃ پڑھی، آپ نے کنکھیوں سے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع وسجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہیں کررہا تھا، جب نبی اکرم ﷺ صلاۃ سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ''اے مسلمانوں کی جماعت ! اس شخص کی صلاۃ نہیں ہوگی جو رکوع وسجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ رکھے''۔


872- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَطَائٍ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ رَاشِدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ وَابِصَةَ بْنَ مَعْبَدٍ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي فَكَانَ إِذَا رَكَعَ سَوَّى ظَهْرَهُ، حَتَّى لَوْ صُبَّ عَلَيْهِ الْمَائُ لاسْتَقَرَّ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۳۹، ومصباح الزجاجۃ: ۳۲۲) (صحیح)
(سند میں طلحہ بن زید، عثمان بن عطاء، اور ابراہیم بن محمد ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق اور شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجہ بتحقیق، د؍ عوض الشہری، و مجمع الزوائد : ۲/ ۱۲۳)
۸۷۲- وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو صلاۃ پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ رکوع کرتے تو اپنی پیٹھ برابر رکھتے یہاں تک کہ اگر آپ کی پیٹھ پہ پانی ڈال دیا جاتا تو وہ تھم جاتا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : سبحان اللہ، مکمل صلاۃ اس کو کہتے ہیں، یہ تو ظاہری آداب ہیں اور دل کے خشوع وخضوع اور اطمینان اس کے علاوہ ہیں، بڑا ادب یہ ہے کہ صلاۃ میں ادھر ادھر کے دنیاوی خیالات نہ آئیں، اور مصلی یہ سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں، اگر یہ کیفیت نہ طاری ہوسکے تو یہی سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اوراس کی ہر ایک حرکت کو دیکھ رہا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ؟
۱۸ -باب: رکوع سے سر اٹھاتے وقت کیا کہے؟​


875- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ، مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالا: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ إِذَا قَالَ: <سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ> قَالَ: <رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ> ۔
* تخريج: حدیث أبي سلمۃ أخرجہ: ن/الافتتاح ۸۴ (۱۰۲۴)، التطبیق ۹۴ (۱۱۵۷)، وحدیث سعید بن المسیب تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف:۱۳۱۱۰)، وقد أخرجہ: خ/ الأذان ۱۲۴ (۷۹۵)، ۱۲۵ (۷۹۶)، م/ الصلاۃ ۱۰ (۳۹۲)، د/الصلاۃ ۱۴۴ (۸۳۶)، ت/الصلاۃ ۸۳ (۲۶۷)، حم (۲/۲۳۶، ۲۷۰، ۳۰۰، ۳۱۹، ۴۵۲، ۴۹۷، ۵۰۲، ۵۲۷، ۵۳۳) (صحیح)
۸۷۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہہ لیتے تو ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' کہتے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث میں اور کئی دوسری حدیثوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہے اور اس کے بعد ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' کہے اور مقتدی امام کے ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ''کہنے کے بعد یہ کلمات کہے، علماء کے درمیان امام اور مقتدی دونوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا دونوںہی یہ دونوں کلمات کہیں یاصرف امام دونوں کلمات کہے اورمقتدی ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' پر اکتفاء کرے، یا امام ''سَمِعَ اللَّهُ'' پڑھے اورمقتدی ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' ، شافعیہ اور بعض محدثین کا مذہب ہے کہ امام دونوں کلمات کہے اورمقتدی صرف ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' پڑھے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام صرف ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہے، اور مقتدی صرف ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ''، ان کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جب امام ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہے تو تم ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' کہو، لیکن اس سے یہ کہاں نکلتا ہے کہ امام ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' نہ کہے، یا مقتدی ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' نہ کہے، دوسری متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ دونوں کلمے کہتے تھے، اسی لئے امام طحاوی حنفی نے بھی اس مسئلہ میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو نہیں لیا، اور باتباع حدیث یہ حکم دیا ہے کہ امام دونوں کلمے کہے، اب رہ جاتا ہے کہ کیا مقتدی دونوں کلمے کہے یا صرف دوسرے کلمے پر اکتفاء کرے، جب کہ روایت ہے کہ ''إِنَّ النَّبِيَ ﷺ كَاْنَ يَقُوْلُ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَاْمُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ... وَإِذَاْ قَاْلَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُوْلُوْا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعُ اللهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللهَ تَبَاْرَكَ وَتَعَاْلَى قَاْلَ عَلَىْ لِسَاْنِ نَبِيِّهِ ﷺ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' (صحیح مسلم، ابوعوانہ، مسند احمد، سنن ابی داود) یعنی: ''نبی اکرمﷺ فرمایا کرتے تھے کہ امام تو صرف اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب امام ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہے تو تم ''اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' کہو اللہ تمہاری سنے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرمﷺ کی زبان سے یہ بات کہی ہے کہ اللہ کی جس نے حمد کی اللہ نے اس کی حمد سن لی''، محدث عصر امام البانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مقتدی ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہنے میں امام کے ساتھ شرکت نہ کرے، جیسے اس میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام مقتدی کے قول ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' میں اس کا شریک نہیں ہے، اس لیے کہ اس رکن میں امام اورمقتدی کیا کہیں اس کے لیے یہ حدیث نہیں وارد ہوئی ہے بلکہ یہ واضح کر نے کے لیے یہ حدیث آئی ہے کہ مقتدی امام کے ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہنے کے بعد ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' کہے، ایسے ہی حدیث: ''صَلُّوْا كَمَاْ رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّي'' کے عموم کا تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح ''سمع اللہ'' وغیرہ کہے، (صفۃ صلاۃ النبی ﷺ، والاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی ص ۱۲۵-۱۲۶)، خلاصہ یہ کہ امام اورمقتدی دونوں دونوں کلمات کہیں اور مقتدی امام کے ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ'' کہنے کے بعد ''رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ'' کہے، واللہ اعلم۔


876- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۲)، وقد أخرجہ: خ/الصلاۃ ۱۸ (۳۷۸)، الأذان ۸۲ (۷۳۲)، م/الصلاۃ ۱۹ (۴۱۱)، د/الصلاۃ ۱۴۷ (۸۵۳)، ت/الصلاۃ ۱۵۱ (۳۶۱)، ن/الإمامۃ ۱۶ (۷۹۵)، ط/الجماعۃ ۵ (۱۶)، حم (۳/۱۱۰)، دي/الصلاۃ ۴۴ (۱۲۹۱) (صحیح)
۸۷۶- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب امام (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو تم (رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ) کہو''۔


877- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: <إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۴۰۴۷، ومصباح الزجاجۃ: ۳۲۴)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۴۰ (۴۷۷)، د/الصلاۃ ۱۴۴ (۸۴۷)، ن/التطبیق ۲۵ (۱۰۶۹)، حم (۳/۸۷)، دي/الصلاۃ ۷۱ (۱۳۵۲) (صحیح)
۸۷۷- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''جب امام (سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ) کہے تو تم (اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ) کہو'' ۔


878- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ، وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ>۔
* تخريج: م/الصلاۃ۴۰ (۴۷۶)، د/الصلاۃ ۱۴۴ (۸۴۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵۳، ۳۵۴، ۳۵۶، ۳۸۱) (صحیح)
۸۷۸- عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب رکوع سے اپنا سراٹھاتے تو کہتے: ''سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ، وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ''، یعنی: (اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے لئے آسمانوں اور زمین بھر کر حمد ہے، اور اس کے بعد اس چیز بھر کرجو توچاہے) ۔


879- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جُحَيْفَةَ يَقُولُ: ذُكِرَتِ الْجُدُودُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَ هُوَ فِي الصَّلاةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: جَدُّ فُلانٍ فِي الْخَيْلِ، وَقَالَ آخَرُ: جَدُّ فُلانٍ فِي الإِبِلِ، وَقَالَ آخَرُ: جَدُّ فُلانٍ فِي الْغَنَمِ، وَقَالَ آخَرُ: جَدُّ فُلانٍ فِي الرَّقِيقِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَلاتَهُ، وَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ آخِرِ الرَّكْعَةِ، قَالَ: < اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ، اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ >، وَطَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَوْتَهُ بـ (الْجَدِّ) لِيَعْلَمُوا أَنَّهُ لَيْسَ كَمَا يَقُولُونَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۲۰، ومصباح الزجاجۃ: ۳۲۵) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں ابو عمرو مجہول ہیں، اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن حدیث میں مذکور دعاء ''اللهم ربنا...'' صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح مسلم عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، ومصبا ح الزجاجۃ)
۸۷۹- ابوجُحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس مال ودولت کا ذکرچھیڑا، آپ صلاۃ میں تھے، ایک شخص نے کہا: فلاں کے پاس گھوڑوں کی دولت ہے، دوسرے نے کہا : فلاں کے پاس اونٹوں کی دولت ہے، تیسرے نے کہا: فلاں کے پاس بکریوں کی دولت ہے، چوتھے نے کہا: فلاں کے پاس غلاموں کی دولت ہے، جب رسول اللہ ﷺ اپنی صلاۃ سے فارغ ہوئے اورآخری رکعت کے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، تو آپﷺ نے فرمایا: ''اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ، اللَّهُمَّ لا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ ''، یعنی: (اے اللہ! اے ہمارے رب ! تیرے لئے تعریف ہے، آسمانوں بھر، زمین بھراور اس کے بعد اس چیز بھر جو تو چاہے، اے اللہ ! نہیں روکنے والا کوئی اس چیز کو جو تودے، اور نہیں دینے والا ہے کوئی اس چیز کو جسے تو روک لے، اور مالداروں کو ان کی مالداری تیرے مقابلہ میں نفع نہیں دے گی)، رسول اللہ ﷺ نے ''جَدّ'' کہنے میں اپنی آواز کو کھینچا تاکہ لوگ جان لیں کہ بات ایسی نہیں جیسی وہ کہہ رہے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ :یعنی غنا اور تو نگر ی کوئی کام کی چیز نہیں ہے، دنیا کی سب چیزیں محض لغو اور فانی ہیں، اگر کسی کے پاس مال زیادہ ہے تو کیا ہوا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے مال بچا نہیں سکتا، مال سے بڑا نفع تو یہی ہے کہ صاحب مال کو تکلیف نہ ہو، اور مال کا م نہ آیا تو ایسے مال پر سو لعنت ہے، اس سے یہ کوئی نہ سمجھے کہ مال حلال بیکار اور لغو ہے، حلال مال اس وقت بے شک کام کا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی میں خرچ کیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
19- بَاب السُّجُودِ
۱۹ -باب: صلاۃ میں سجدے کا بیان​


880- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ الأَصَمِّ، عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ الأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا سَجَدَ جَافَى يَدَيْهِ، فَلَوْ أَنَّ بَهْمَةً أَرَادَتْ أَنْ تَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ لَمَرَّتْ ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۶ (۴۹۷)، د/الصلاۃ ۱۵۸ (۸۹۸)، ن/التطبیق ۵۲ (۱۱۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۸۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۳۱، ۳۳۲)، دي/الصلاۃ ۷۹ (۱۳۶۹) (صحیح)
۸۸۰- ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلو سے الگ رکھتے کہ اگر ہاتھ کے بیچ سے کوئی بکری کا بچہ گزرنا چاہتا تو گزرجاتا ۔


881- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَقْرَمَ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي بِالْقَاعِ مِنْ نَمِرَةَ، فَمَرَّ بِنَا رَكْبٌ فَأَنَاخُوا بِنَاحِيَةِ الطَّرِيقِ، فَقَالَ لِي أَبِي: كُنْ فِي بَهْمِكَ حَتَّى آتِيَ هَؤُلائِ الْقَوْمَ فَأُسَائِلَهُمْ، قَالَ فَخَرَجَ، وَجِئْتُ، يَعْنِي دَنَوْتُ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، فَحَضَرْتُ الصَّلاةَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُمْ، فَكُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى عُفْرَتَيْ إِبْطَيْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كُلَّمَا سَجَدَ.
قَالَ ابْن مَاجَةَ: النَّاسُ يَقُولُونَ: عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ: يَقُولُ النَّاسُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ .
* تخريج: ت/الصلاۃ ۸۹ (۲۷۴)، ن/التطبیق ۵۱ (۱۱۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۵) (صحیح)
۸۸۱- عبداللہ بن اقرم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بار اپنے والد کے ساتھ نمرہ ۱؎ کے میدان میں تھا کہ ہمارے پاس سے کچھ سوار گزرے، انہوں نے راستے کی ایک جانب اپنی سواریوں کو بٹھایا، مجھ سے میرے والد نے کہا :تم اپنے جانوروں میں رہو تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جاکران سے پوچھوں (کہ کون لوگ ہیں)، وہ کہتے ہیں:میرے والد گئے، اور میں بھی قریب پہنچا تو دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ تشریف فرما ہیں، میں صلاۃ میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی، جب جب رسول اکرم ﷺ سجدہ میں جاتے میں آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی کو دیکھتا تھا ۲؎ ۔
ابن ماجہ کہتے ہیں: لوگ ''عبیداللہ بن عبداللہ'' کہتے ہیں، اور ابوبکربن ابی شیبہ نے کہا کہ لوگ ''عبداللہ بن عبیداللہ'' کہتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : نمرہ : عرفات سے متصل ایک جگہ کا نام ہے، جو عرفات سے پہلے پڑتاہے۔
وضاحت ۲ ؎ : سجدے میں آپﷺ دونوں بازو وں کو پسلی سے اس قدر دوررکھتے کہ بغل صاف نظر آتی۔
881/أ- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَصَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، وَأَبُو دَاوُدَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَقْرَمَ ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ۔
۸۸۱/أ- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مرفوعاً مروی ہے ۔


882- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۴۱ (۸۳۸)، ت/الصلاۃ ۸۵ (۲۶۸)، ن/التطبیق ۳۸ (۱۰۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۸۱)، دي/الصلاۃ ۷۴ (۱۳۵۹) (ضعیف)
(سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، نیز: ملاحظہ ہو: الإرواء : ۳۵۷، وضعیف أبی داود : ۱۵۱)
۸۸۲- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : امام دار قطنی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو عاصم سے شریک کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے، اور شریک تفرد کی صورت میں قوی نہیں ہیں، علامہ البانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے متن کو عاصم بن کلیب سے ثقات کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ صلاۃ کو شریک کی نسبت زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے، اس کے باوجود ان ثقہ راویوں نے سجدہ میں جانے اور اٹھنے کی کیفیت کا ذکر نہیں کیاہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس حدیث میں شریک کو وہم ہوا ہے، اور یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے جوقطعاً قابل استدلال نہیں، اور صحیح حدیث ابوداود میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے کہ دونوں ہاتھ کو دو نوں گھٹنوں سے پہلے رکھے، علامہ ابن القیم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو مقلوب کہا ہے کہ اصل حدیث یوں ہے : ''وليضع ركبتيه قبل يديه'' یعنی مصلی دونوں ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے، لیکن محدث عبدالرحمن مبارکپوری، علامہ احمد شاکر، شیخ ناصر الدین البانی j نے ابن القیم کے اس رائے کی تردید کی ہے، اور ابن خزیمہ نے کہا ہے کہ گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے والی روایت کو منسوخ کہنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ روایت: ''كنا نضع اليدين قبل الركبتين فأمرنا بالركبتين قبل اليدين'' یعنی: (پہلے ہم گھٹنوں سے قبل ہاتھ رکھتے تھے، پھر ہمیں ہاتھوں سے قبل گھٹنے رکھنے کا حکم دیا گیا) انتہائی ضعیف ہے، اور قطعاً قابل استدلال نہیں۔
مسئلے کی مزید تنقیح اوروضاحت کے لیے ہم یہاں پر اہل علم کے اقوال نقل کرتے ہیں : اہل حدیث کا مذہب ہے کہ سجدے میں جانے کے لیے گھٹنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا جائے گا، یہی صحیح ہے اس لیے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے فعل اور حکم دونوں سے ثابت ہے، رہا فعل تو ابن عمررضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب سجدہ کرتے تو گھٹنے سے پہلے اپنے ہاتھ زمین پر رکھتے اس حدیث کی تخریج ایک جماعت نے کی ہے جن میں حاکم بھی ہیں، حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، اور جیسا کہ ان دونوں نے کہا ایسا ہی ہے، اس کی تصحیح ابن خزیمہ (۶۲۷) نے بھی کی ہے (ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل ۲/۷۷-۷۸)، رہ گیا امرنبوی تو وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے ثابت ہے : ''إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير و ليضع يديه قبل ركبتيه'' یعنی: (جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کے بیٹھنے کی طرح زمین پر نہ بیٹھے، گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھے)، اس حدیث کی تخریج ابوداود، نسائی اورجماعت نے کی ہے، اوراس کی سند نووی اور زرقانی کے بقول جید ہے، اوریہی حافظ ابن حجر کا قول ہے، اوران دونوں حدیثوں کے معارض صرف وائل بن حجر کی حدیث ہے، اوریہ راوی حدیث شریک بن عبداللہ القاضی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس لیے کہ وہ سیٔ الحفظ (کمزور حافظہ کے) ہیں، تو جب وہ تفرد کی حالت میں ناقابل حجت ہیں توجب ثقات کی مخالفت کریں گے تو کیا حال ہوگا، اسی لیے حافظ ابن حجر بلوغ المرام میں فرماتے ہیں کہ ابوہریرہ کی حدیث وائل کی حدیث سے زیادہ قوی ہے، اور اس کو عبدالحق اشبیلی نے ذکر کیا ہے۔
طحاوی شرح معانی الآثار (۱/۱۵۰) میں فرماتے ہیں کہ او نٹ کے گھٹنے اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، ایسی ہی دوسرے چوپایوں کے اور انسان کا معاملہ ایسے نہیں تو ارشاد نبوی ہوا کہ مصلی اپنے گھٹنوں پر نہ بیٹھے جو کہ اس کے پاؤں میں ہوتے ہیں، جیسا کہ اونٹ اپنے گھٹنوں پر (جو اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں) بیٹھتاہے، لیکن بیٹھنے کی ابتداء ایسے کرے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھے جس میں اس کے گھٹنے نہیں ہیں پھر اپنے گھٹنوں کو رکھے تو اپنے اس فعل میں وہ اونٹ کے بیٹھنے کے خلاف کرے گا، البانی صاحب کہتے ہیں کہ اس سنت میں وارد حکم بظاہر واجب ہے، ابن حزم نے محلی میں اس کوواجب کہا ہے (۴/۱۲۸)، واجب کہنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کے الٹا ناجائز ہے، اور اس میں اس اتفاق کی تردید ہے جس کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فتاویٰ میں نقل کیا ہے کہ دونوں طرح جائز ہے، (فتاوی ابن تیمیہ ۱/۸۸)، البانی صاحب کہتے ہیں کہ اس متروک سنت پر تنبیہ ہو نی چاہئے تاکہ اس پر عمل کر نے کا اہتمام ہو، اوریہی چیز ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی دس صحابہ رسول کے ساتھ حدیث میں ہے کہ رسول اکرمﷺ زمین کی طرف جاتے تھے اور آپ کے دونوں ہاتھ پہلو سے دورہوتے تھے پھر سجدہ کرتے تھے، اورسبھوں نے ابوحمید سے کہاکہ آپ نے سچ فرمایا، نبی اکرم ﷺ ایسے ہی صلاۃ پڑھتے تھے، اس کی روایت ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ ۱/۳۱۷-۳۱۸) وغیرہ نے صحیح سند سے کی ہے ۔
جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا اورآپ نے میرے ساتھ لفظ (هوى) کے معنی پر غور کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلو سے دونوں ہاتھ کو الگ کرتے ہوئے زمین پر جانا تو آپ پر بغیر کسی غموض کے یہ واضح ہوجائے گا کہ ایسا عادۃً اسی وقت ممکن ہے جب کہ دونوں ہاتھ کو آدمی زمین پر لے جائے نہ کہ گھٹنوں کو اور اس میں وائل رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ضعف پر ایک دوسری دلیل ہے، اوریہی مالک، اوزاعی، ابن حزم ا ور ایک روایت میں احمد کا ہے، (ملاحظہ ہو :الاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی، ۹۰-۹۱)
البانی صاحب ''صفۃ صلاۃ النبیﷺ'' میں دونوں ہاتھوں کو زمین پرسجدہ کے لیے آگے کرنے کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں: نبی اکرم ﷺ سجدہ میں جاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھتے تھے، اور اس کے کر نے کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے۔پہلی حدیث کی تخریج میں فرماتے ہیں کہ اس کی تخریج ابن خزیمہ، دارقطنی اورحاکم نے کی ہے، اورحاکم نے اس کو صحیح کہا ہے اورذہبی نے ان کی موافقت کی ہے، اوراس کے خلاف وارد حدیث صحیح نہیں ہے، اس کے قائل مالک ہیں، اوراحمد سے اسی طرح مروی ہے کمافی التحقیق لابن الجوزی، اورمروزی نے مسائل میں امام اوزاعی سے صحیح سند سے یہ روایت کی ہے کہ میں نے لوگوں کو اپنے ہاتھ زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھتے پایاہے۔
اوردوسری حدیث جس میں دونوں ہاتھوں کو پہلے زمین پر رکھنے کا حکم ہے، اس کی تخریج میں لکھتے ہیں : ابوداود، تمام فی الفوائد، سنن النسائی صغریٰ وکبریٰ صحیح سند کے ساتھ، عبدالحق نے احکام کبریٰ میں اس کی تصحیح کی ہے اور کتاب التہجد میں کہاکہ یہ اس سے پہلی یعنی اس کی مخالف وائل والی حدیث کی سند سے زیادہ بہترہے، بلکہ وائل کی حدیث اس صحیح حدیث اوراس سے پہلے کی حدیث کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ سند کے اعتبارسے بھی ضعیف ہے، اوراس معنی کی جوحدیثیں ہیں، وہ بھی ضعیف ہیں جیساکہ میں نے سلسلۃ الا ٔحادیث الضعیفۃ (۹۲۹) اور ارواء الغلیل (۳۵۷) میں اس کی وضاحت کی ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ جان لیں کہ اونٹ کی مخالفت کی صورت یہ ہے کہ سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں کو زمین پر گھٹنوں سے پہلے رکھاجائے، کیونکہ سب سے پہلے اونٹ بیٹھتے وقت اپنے گھٹنے کو جو اس کے ہاتھوں (یعنی اس کے دونوں پیر) میں ہوتے ہیں، زمین پر رکھتا ہے، جیساکہ لسان العرب وغیرہ میں آیا ہے، اور امام طحاوی نے ''مشکل الآثار'' اور ''شرح معانی الآثار'' میں ایسے ہی ذکرکیاہے، اور ایسے ہی امام قاسم سرقسطی رحمہ اللہ کا قول ہے، چنانچہ انہوں نے ''غریب الحدیث'' میں صحیح سند کے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیاہے کہ کوئی شخص صلاۃ میں اڑیل اونٹ کی طرح قطعاً نہ بیٹھے، (امام سرقسطی کہتے ہیں کہ یہ سجدہ میں جانے کی صورت میں ہے) یعنی وہ اپنے آپ کو زمین پر اس طرح نہ پھینکے جس طرح اڑیل اونٹ بے اطمینانی سے بیٹھتاہے، بلکہ اطمینان کے ساتھ نیچے جائے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھے، پھر اس کے بعد اپنے گھٹنوں کو، اس سلسلے میں ایک مرفوع حدیث مروی ہے جس میں یہ تفصیل موجود ہے، پھرقاسم سرقسطی نے اوپر والی حدیث ذکر کی، ابن القیم کایہ کہنا عجیب ہے کہ یہ بات عقل سے دور ہے، اوراہل زبان کے یہاں غیر معروف بھی ہے۔ ہم نے جن مراجع کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سارے مراجع میں ان کی تردید ہے، جس کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے، ہم نے اس مسئلہ کو شیخ حمود تویجری پر اپنے رد میں تفصیل سے بیان کیا ہے (ملاحظہ ہو: صفۃ الصلاۃ، ۱۴۰-۱۴۱)


883- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: «قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ»۔
* تخريج:خ/الأذان ۱۳۳ (۸۰۹)، ۱۳۴ (۸۱۰)، ۱۳۷ (۱۱۵)، ۱۳۸ (۸۱۶)، م/الصلاۃ ۴۴ (۴۹۰)، د/الصلاۃ ۱۵۵ (۸۸۹، ۸۹۰)، ت/الصلاۃ ۸۸ (۲۷۳)، ن/التطبیق ۴۰ (۱۰۹۴)، ۴۳ (۱۰۹۷)، ۴۵ (۱۰۹۹)، ۵۶ (۱۱۱۴)، ۵۸ (۱۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۱، ۲۲۲، ۲۵۵، ۲۷۰، ۲۷۹، ۲۸۰، ۲۸۵، ۲۸۶، ۲۹۰، ۳۰۵، ۳۲۴)، دي/الصلاۃ ۷۳ (۱۳۵۷) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۰۴۰) (صحیح)
۸۸۳- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے'' ۔


884- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعٍ، وَلا أَكُفَّ شَعَرًا وَلا ثَوْبًا>، قَالَ ابْنُ طاوُسٍ: فَكَانَ أَبِي يَقُولُ: الْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، وَكَانَ يَعُدُّ الْجَبْهَةَ وَالأَنْفَ وَاحِدًا۔
* تخريج: خ/الأذان ۱۳۴ (۸۱۲)، م/الصلاۃ ۴۴ (۴۹۰)، ن/التطبیق ۴۳ (۱۰۹۷)، ۴۵ (۱۰۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۲، ۲۹۲، ۳۰۵) (صحیح)
۸۸۴- عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے حکم دیاگیا ہے کہ میں سات (اعضاء) پر سجدہ کروں، اور بالوں اور کپڑوں کو نہ سمیٹوں'' ۔
ابن طاوس کہتے ہیں کہ (وہ سات اعضاء یہ ہیں): دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، دونوں قدم، اور وہ پیشانی وناک کو ایک شمار کرتے تھے ۔


885- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: < إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ آرَابٍ: وَجْهُهُ وَكَفَّاهُ وَرُكْبَتَاهُ وَقَدَمَاهُ >۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۴ (۴۹۰)، د/الصلاۃ ۱۵۵ (۸۹۱)، ت/الصلاۃ ۸۸ (۲۷۲)، ن/التطبیق ۴۱ (۱۰۹۵)، ۴۶ (۱۱۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۱ /۲۰۶، ۲۰۸، ۱۰۹۸) (صحیح)
۸۸۵- عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں : اس کا چہرہ، اس کی دونوں ہتھیلیاں، دونوں گھٹنے اور دونوں قد م'' ۔


886- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا أَحْمَرُ، صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَأْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِمَّا يُجَافِي بِيَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، إِذَا سَجَدَ۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۵۸ (۹۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۳۴۲، ۵/۳۱) (صحیح)
۸۸۶- صحابی رسول احمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ پہ رحم آتا تھا ۱؎ ، جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے پہلوؤں سے الگ رکھتے ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ الگ رکھنے کی وجہ سے آپ کو کافی مشقت اٹھانی پڑتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
20- بَاب التَّسْبِيحِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
۲۰ -باب: رکوع اور سجدہ میں پڑھی جانے والی دعا ( تسبیح) کابیان​


887- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَيُّوبَ الْغَافِقِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَمِّي إِيَاسَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ يَقُولُ: لَمَّا نَزَلَتْ {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ} قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اجْعَلُوهَا فِي رُكُوعِكُمْ>، فَلَمَّا نَزَلَتْ: {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اجْعَلُوهَا فِي سُجُودِكُمْ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۵۱ (۸۷۵، ۸۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۰۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۵۵)، دي/الصلاۃ ۶۹ (۱۳۴۴) (ضعیف)
(سند میں موسیٰ بن ایوب منکر الحدیث، اور ایاس بن عامر غیر قوی ہیں اس لئے یہ ضعیف ہے) ۔
۸۸۷- عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت کریمہ : {فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ } نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا:''اسے اپنے رکوع میں کہاکرو''، پھر جب{سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} نازل ہوئی تو ہم سے فرمایا: ''اسے اپنے سجدے میں کہا کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی رکوع میں ''سبحان ربي العظيمِ'' اور سجدہ میں ''سبحان ربي الأعلى ٰ'' کہو ۔


888- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي الأَزْهَرِ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ إِذَا رَكَعَ: <سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ> ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَإِذَا سَجَدَ قَالَ: <سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى> ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۳۹۱)، وقد أخرجہ: م/المسافرین۲۷ (۷۷۲)، د/الصلاۃ ۱۵۱ (۸۷۴)، ت/الصلاۃ ۷۹ (۲۶۲)، ن/الافتتاح ۷۷ (۱۰۰۹)، التطبیق ۷۴ (۱۱۳۴)، حم (۵/۳۸۲، ۳۸۴، ۳۹۴)، دي/الصلاۃ ۶۹ (۱۳۴۵) (صحیح)
۸۸۸- حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو رکوع میں ''سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ'' تین بار، اور سجدہ میں''سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَىٰ'' تین بار کہتے سنا ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ ادنی درجہ ہے، کم سے کم تین بار کہنا چاہئے۔


889- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: " سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي > يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ۔
* تخريج:خ/الأذان ۱۲۳ (۷۹۴)، ۱۳۹ (۸۱۷)، المغازي ۵۱ (۴۲۹۳)، تفسیر سورۃ النصر ۱ (۴۹۶۸)، ۲ (۴۹۶۸)، م/الصلاۃ ۴۲ (۴۸۴)، د/الصلاۃ ۱۵۲ (۸۷۷)، ن/التطبیق۱۰ (۱۰۴۸)، ۶۴ (۱۱۲۳)، ۶۵ (۱۱۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۳، ۴۹، ۱۹۰) (صحیح)
۸۸۹- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قرآن کی عملی تفسیر کرتے ہوئے اکثر اپنے رکوع میں ''سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ'' (اے اللہ !تو پاک ہے، ا ور سب تعریف تیرے لئے ہے، اے اللہ! تو مجھے بخش دے) پڑھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قرآن شریف میں ہے {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ}، اس کا مطلب یہی ہے کہ صلاۃ میں یوں کہو : ''سبحانك اللهم وبحمدك اللهم اغفرلي''، اور جو لفظ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اس کا اہتمام بہتر ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع اور سجدے میں دعا کرنا درست ہے، اور صلاۃ میں جہاں تک اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور دعا ہوسکے کرے، اور دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگے، اور جو دعائیں حدیث میں وارد ہیں ان کے سوا بھی جو دعا چاہے کرے کوئی ممانعت نہیں ہے ۔


890- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ يَزِيدَ الْهُذَلِيِّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا رَكَعَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، ثَلاثًا، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ تَمَّ رُكُوعُهُ وَإِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ فِي سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى ثَلاثًا، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ تَمَّ سُجُودُهُ . وَذَلِكَ أَدْنَاهُ >۔
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۵۴ (۸۸۶)، ت/الصلاۃ ۷۹ (۲۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۳۰) (ضعیف)
(اس حدیث کی سند میں اسحاق بن یزید الہذلی مجہول ہیں)
۸۹۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب کوئی شخص رکوع کرے تو اپنے رکوع میں تین بار''سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ'' کہے، جب اس نے ایسا کرلیا تو اس کا رکوع مکمل ہوگیا، اور جب کوئی شخص سجدہ کرے تو اپنے سجدہ میں تین بار ''سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى'' کہے، جب اس نے ایسا کرلیا تو اس کا سجدہ مکمل ہوگیا، اور یہ کم سے کم تعدا د ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : امام ترمذی نے کہا :مستحب ہے کہ آدمی تین بار سے کم تسبیح نہ کرے، اور ابن المبارک نے کہا کہ امام کو پانچ بار کہنا مستحب ہے، تاکہ مقتدی تین بار کہہ سکیں، اور اس سے زیادہ جہاں تک چاہے کہہ سکتا ہے، بشرطیکہ اکیلا صلاۃ پڑھتا ہو، کیونکہ جماعت میں ہلکی صلاۃ پڑھنا سنت ہے، تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
 
Top