• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ
عمار بن یا سر رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


146- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَاسْتَأْذَنَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: < ائْذَنُوا لَهُ، مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۳۵ (۳۷۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۰۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۹۹، ۱۰۰، ۱۲۳، ۱۲۶، ۱۳۰، ۱۳۷) (صحیح)
۱۴۶- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میںنبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ''انھیں آنے کی اجازت دو، طیب ومطیب(پاک وپاکیزہ شخص) کو خوش آمدید''۔


147- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِيئٍ، قَالَ: دَخَلَ عَمَّارٌ عَلَى عَلِيٍّ فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالطَّيِّبِ الْمُطَيَّبِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مُلِئَ عَمَّارٌ إِيمَانًا إِلَى مُشَاشِهِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۰۳، ومصباح الزجاجۃ: ۵۶) (صحیح)
۱۴۷- ہانی بن ہانی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمار رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: طیب ومطیب (پاک وپاکیزہ) کو خوش آمدید، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''عمار ایمان سے بھرے ہوئے ہیں، ایمان ان کے جوڑوں تک پہنچ گیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''مُشَاش'': ہڈیوں کے جوڑ کو کہتے ہیں، جیسے کہنی یا گھٹنے یا کندھے کا جوڑ، مراد یہ ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کے دل میں ایمان گھر کر گیا ہے، اور وہاں سے ان کے سارے جسم میں ایمان کے انوار وبرکات پھیل گئے ہیں، اور رگوں اور ہڈیوں میں سما گئے ہیں، یہاں تک کہ جوڑوں میں بھی اس کا اثر پہنچ گیا ہے، اور اس میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے کمال ایمان کی شہادت ہے جو عظیم فضیلت ہے۔


148- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ سِيَاهٍ، عَنْ حَبيبِ ابْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < عَمَّارٌ، مَا عُرِضَ عَلَيْهِ أَمْرَانِ إِلا اخْتَارَ الأَرْشَدَ مِنْهُمَا >۔
* تخريج: ت/المناقب ۳۵ (۳۷۹۹)، ن/الکبری، المناقب ۳۷ (۸۲۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۱۳) (صحیح)
۱۴۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''عمار پر جب بھی دو کام پیش کئے گئے تو انہوں نے ان میں سے بہترین کام کا انتخا ب کیا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ہمیشہ دینی اور دنیاوی امور ومسائل میں سے وہ بات اختیار کی جو ان کے اور اتباع کے لئے زیادہ مفید اور نفع بخش ہو بہ نسبت دوسری باتوں کے، سلف صالحین کا ہمیشہ یہی دستور تھا کہ وہ اپنے لئے محتاط بات کو اختیار کرتے تھے، اور دوسروں کو ایسی چیز بتاتے تھے جوان پر زیادہ سہل اور آسان ہو اس واسطے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ''تم آسانی اورسہولت کرنے کے لئے بھیجے گئے ہو، تنگی کرنے کے لئے نہیں بھیجے گئے ہو''۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین مسئلہ خلافت میں علی رضی اللہ عنہ حق اور رشد سے زیادہ قریب تھے، اس لئے کہ عمار رضی اللہ عنہ انہی کی رفاقت میں شہید ہوئے، اور نبی اکرم ﷺ نے خبر دی تھی کہ عمار رضی اللہ عنہ کو باغی فرقہ قتل کرے گا، اور ان کا قتل معاویہ رضی اللہ عنہ کے لوگوں کی طرف سے ہوا، غرض حق علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے اجتہادی خطا ہوئی جس پر وہ کسی ملامت کے لائق نہیں ہیں، پھر بعد میں امت اسلامیہ کا اتحاد آپ کی قیادت میں اس وقت ہوا، جب حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے اپنا تعلق ختم کرلیا ، اور اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا، اس طرح امت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر متفق ہوگئی، رضی اللہ عنہم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ سَلْمَانَ وَأَبِي ذَرٍّ وَالْمِقْدَادِ
سلمان، ابو ذر اور مقداد رضی اللہ عنہم کے مناقب وفضائل​


149- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي رَبِيعَةَ الإِيَادِيِّ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ >، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ هُمْ؟ قَالَ: < عَلِيٌّ مِنْهُمْ > -يَقُولُ ذَلِكَ ثَلاثًا- < وَأَبُو ذَرٍّ، وَسَلْمَانُ، وَالْمِقْدَادُ >۔
* تخريج: ت/المنا قب ۲۱ (۳۷۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۰۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۵۱، ۳۵۶) (ضعیف)
(ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۱۵۴۹)
۱۴۹- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرما یا: ''اللہ نے مجھے چار افراد سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے، اور مجھے بتایا ہے کہ وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے''، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''علی انھیں لوگوں میں سے ہیں (آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا)، اور ابوذر، سلمان اور مقداد ہیں'' ۔


150- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ابْنُ قُدَامَةَ، عَنْ عاصِمِ ابْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلامَهُ سَبْعَةٌ: رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّهُ سُمَيَّةُ، وَصُهَيْبٌ، وَبِلالٌ، وَالْمِقْدَادُ، فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَمَنَعَهُ اللَّهُ بِعَمِّهِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَّا أَبُو بَكْرٍ فَمَنَعَهُ اللَّهُ بِقَوْمِهِ، وَأَمَّا سَائِرُهُمْ؛ فَأَخَذَهُمُ الْمُشْرِكُونَ وَأَلْبَسُوهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِيدِ، وَصَهَرُوهُمْ فِي الشَّمْسِ، فَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلا وَقَدْ وَاتَاهُمْ عَلَى مَا أَرَادُوا، إِلا بِلالاً، فَإِنَّهُ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فِي اللَّهِ، وَهَانَ عَلَى قَوْمِهِ، فَأَخَذُوهُ، فَأَعْطَوْهُ الْوِلْدَانَ، فَجَعَلُوا يَطُوفُونَ بِهِ فِي شِعَابِ مَكَّةَ وَهُوَ يَقُولُ: أَحَدٌ، أَحَدٌ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲۴، ومصباح الزجاجۃ: ۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۰۴) (حسن)
۱۵۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پہلے پہل جن لوگوں نے اپنا اسلام ظاہر کیا وہ سات افراد تھے: رسول اللہ ﷺ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد (رضی اللہ عنہم)، رہے رسول اکرم ﷺ تو اللہ تعالی نے کفار کی ایذا رسانیوں سے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعہ آپ کو بچایا، اورابو بکر رضی اللہ عنہ کو ان کی قوم کے سبب محفوظ رکھا،رہے باقی لوگ تو ان کو مشرکین نے پکڑ ا اور لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں ڈال دیا، چنانچہ ان میں سے ہر ایک سے مشرکین نے جو کہلوایا بظاہر کہہ دیا، سوائے بلال کے، اللہ کی راہ میں انہوں نے اپنی جان کو حقیر سمجھا، اور ان کی قوم نے بھی ان کو حقیر جانا، چنانچہ انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر بچوں کے حوالہ کردیا، وہ ان کو مکہ کی گھاٹیوں میں گھسیٹتے پھرتے اوروہ ''اَحَد، اَحَد'' کہتے (یعنی اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے ) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان چھ سابق الایمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی استقامت اور دین کی خاطر ان کی عزیمت لائق اتباع ہے، ان میں بلال رضی اللہ عنہ کی عزیمت سب سے اعلی وأرفع ہے،جان کے خطر ے کے وقت دین پر دلی اطمینان کی صورت میں کفر کا اظہار جائز ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: {إِلا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيْمَاْنِ} [النحل: 106]، ''سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرارہو'' جس کی نظر میں اللہ کی عظمت وشان ہوتی ہے، اس کے دل میں موجودات عالم کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہو تی حتی کہ اپنی جان بھی حقیر نظر آتی ہے، بلال رضی اللہ عنہ کی حالت یہی تھی رضی اللہ عنہم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فضائل بلال
بلال رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


151- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَالِثَةٌ وَمَا لِي وَلِبِلالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلا مَا وَارَى إِبِطُ بِلالٍ "۔
* تخريج: ت/صفۃ القیامۃ ۳۴ (۲۴۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۲۰، ۲۸۶) (صحیح)
۱۵۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اتنی کسی کو نہ دی گئیں ہوں گی، اور میں اللہ کی راہ میں اس قدر ڈرایا گیا کہ اتنا کوئی نہیں ڈرایا گیاہوگا،اور مجھ پہ مسلسل تین ایام ایسے گذرے ہیں کہ میرے اور بلال کے لیے کوئی چیز کھانے کی نہ تھی جسے کوئی ذی روح کھاتا سوائے اس کے جو بلال کی بغل میں چھپاہوا تھا''۔


152- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ سَالِمٍ أَنَّ شَاعِرًا مَدَحَ بِلالَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ فَقَالَ: < بِلالُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ خَيْرُ بِلالٍ >، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَذَبْتَ، لا، بَلْ: < بِلالُ رَسُولِ اللَّهِ خَيْرُ بِلالٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۸۱، ومصباح الزجاجۃ: ۵۹) (ضعیف)
(عمر بن حمزہ ضعیف ہیں)
۱۵۲- سالم سے روایت ہے کی ایک شاعر نے بلال بن عبداللہ کہ مدح سرائی کی، اورمصرعہ کہا: ''بِلالُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ خَيْرُ بِلالٍ'' (بلال بن عبداللہ ۱؎ بلالوں میں سب سے بہتر ہیں)، تو ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: تم غلط کہہ رہے ہو، ایسا نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے بلال بلالوں میں سب سے افضل اور بہتر ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بلال بن عبداللہ سے مراد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے بلال ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضَائِلُ خَبَّابٍ
خباب رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


153- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي لَيْلَى الْكِنْدِيِّ قَالَ: جَائَ خَبَّابٌ إِلَى عُمَرَ فَقَالَ: ادْنُ، فَمَا أَحَدٌ أَحَقَّ بِهَذَا الْمَجْلِسِ مِنْكَ إِلا عَمَّارٌ، فَجَعَلَ خَبَّابٌ يُرِيهِ آثَارًا بِظَهْرِهِ مِمَّا عَذَّبَهُ الْمُشْرِكُونَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۲۳، ومصباح الزجاجۃ: ۵۸) (صحیح)
۱۵۳- ابولیلیٰ کندی کہتے ہیں کہ خباب رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے قریب بیٹھو، تم سے بڑھ کر میرے قریب بیٹھنے کا کوئی مستحق نہیں سوائے عمار رضی اللہ عنہ کے، پھر خباب رضی اللہ عنہ اپنی پیٹھ پر مشرکین کی مار پیٹ کے نشانات ان کو دکھانے لگے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اصحاب فضل وکمال کو مجلس میں ممتاز مقام پر رکھنا چاہیے، عمر رضی اللہ عنہ افاضل صحابہ کو اپنے پاس جگہ دیتے تھے، عمار رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ کی راہ میں بہت تکلیفیں اٹھائی تھیں اس لئے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بھی یاد کیا، اور معلوم ہوا کہ کسی کی تعریف اس کے سامنے اگر اس سے خود پسندی اور عجب کا ڈر نہ ہو تو جائز ہے، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار اس اعتبار سے جائز ہے کہ وہ اللہ کی نعمتیں ہیں، جیسے خباب رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم کے نشان دکھائے کہ جو ایک نعمت الٰہی تھی ، اور جو اللہ کے نزدیک بلندی درجات کا سبب ہوئی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


154- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُوبَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَائً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُهُمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، أَلا وَإِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَمِينًا، وَأَمِينُ هَذِهِ الأُمَّةِ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۳۳ (۳۷۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۲)، وقد أخرجہ: خ/المناقب ۲۱ (۳۷۴۴)، م/فضائل الصحابۃ ۷ (۲۴۱۹)، حم (۳/۱۸۴، ۲۸۱) (صحیح)
۱۵۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر ہیں، حیا میں سب سے زیادہ حیا والے عثمان ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب ہیں، سب سے بہتر قاری اُبی بن کعب ہیں، سب سے زیادہ حلال وحرام کے جاننے والے معاذ بن جبل ہیں، اور سب سے زیادہ فرائض (میراث تقسیم) کے جاننے والے زید بن ثابت ہیں، سنو! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، اور اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے ان آٹھوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت معلوم ہوئی ،اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر ایک میں قابل تعریف صفات موجود تھیں، مگر بعض کمالات ہر ایک میں بدرجہ أتم موجود تھے، اگرچہ وہ صفتیں اوروں میں بھی تھیں، اس لئے ہر ایک کو ایک صفت سے جو اس میں بدرجہ کمال موجود تھی یا دفرمایا۔


155- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ،عَنْ أَبِي قِلابَةَ مِثْلَهُ عِنْدَ ابْنِ قُدَامَةَ، غَيْرَ أَنَّهُ يَقُولُ فِي حَقِّ زَيْدٍ: < وَأَعْلَمُهُم بِالْفَرَائِضِ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۵۵- ابو قلابہ سے ابن قدامہ کے نزدیک اسی کے مثل مروی ہے، مگر فرق یہ ہے کہ اس میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حق میں: ''أَفْرَضُهُمْ'' کے بجائے: ''أَعْلَمُهُم بِالْفَرَائِضِ'' ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ أَبِي ذَرٍّ
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


156- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي حَرْبِ ابْنِ أَبِي الأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < مَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَائُ وَلا أَظَلَّتِ الْخَضْرَائُ مِنْ رَجُلٍ أَصْدَقَ لَهْجَةً مِنْ أَبِي ذَرٍّ >۔
* تخريج: ت/المناقب ۳۶ (۳۸۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۵۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۱۶۳،۱۷۵، ۲۲۳) (صحیح)
۱۵۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''زمین نے کسی ایسے شخص کو نہ اٹھایا، اور نہ آسمان اس پر سایہ فگن ہوا جو ابو ذر سے بڑھ کر سچی بات کہنے والا ہو''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


157- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ ابْنِ عَازِبٍ قَالَ: أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَرَقَةٌ مِنْ حَرِيرٍ، فَجَعَلَ الْقَوْمُ يَتَدَاوَلُونَهَا بَيْنَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < أَتَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا؟ >، فَقَالُوا لَهُ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ هَذَا >۔
* تخريج: خ/بدء الخلق ۸ (۳۲۴۹)، مناقب الأنصار ۱۲ (۳۸۰۲)، اللباس ۲۶ (۵۸۳۶) الأیمان والنذور ۳ (۶۶۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۶۱)، وقد أخرجہ: م/فضائل الصحابۃ ۲۴ (۲۴۶۸)، ت/المناقب ۵۱ (۳۸۴۷)، حم (۲/۲۵۷، ۳۹۸) (صحیح)
۱۵۷- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا تحفہ میں پیش کیا گیا، لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''کیایہ تمہارے لئے تعجب انگیز ہے؟''، لوگوں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ ﷺنے فرمایا: ''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے کہیں بہتر ہوں گے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے کئی باتیں ثابت ہوئیں:
1 ہدیہ لینا سنت ہے چاہے ہدیہ دینے والا مشرک وکافر ہی کیوں نہ ہو، اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ نے کفار ومشرکین کے ہدایا وتحائف قبول فرمائے۔
2 جنت میں رومال بھی ہوں گے۔
3 سعد رضی اللہ عنہ کے لیے جنت کی بشارت۔
4 جنت کی ادنیٰ چیز بھی دنیا کی اعلیٰ چیزوں سے بلکہ ساری دنیا سے افضل اور بہتر ہے، اور کیوں کر نہ ہو کہ وہ باقی رہنے والی ہے، اور دنیا کی یہ چیزیں فانی ہیں ۔


158- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اهْتَزَّ عَرْشُ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ لِمَوْتِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ >۔
* تخريج: خ/المناقب ۱۲ (۳۸۰۳)، م/فضائل الصحابۃ ۲۴ (۲۴۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۲۹۳)، وقد أخرجہ: ت/المناقب ۵۱ (۳۸۴۸)، حم (۳/۲۳۴، ۲۹۶، ۳۱۶) (صحیح)
۱۵۸- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''سعدبن معاذ کی موت کے وقت رحمن کا عرش جھوم اٹھا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی جب ان کی پاکیزہ روح وہاں پہنچی تو خوشی کے سبب سے عرش حرکت میں آگیا، یا اس سے کنایہ ہے رب العرش کے خوش ہونے کا، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روحیں عرش تک جاتی ہیں، اس لئے کہ اللہ رب العزت کا دربار خاص وہیں لگتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے مناقب وفضائل​


159- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ ابْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: مَا حَجَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلا رَآنِي إِلا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي، وَلَقَدْ شَكَوْتُ إِلَيْهِ أَنِّي لا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ، فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي، فَقَالَ: <اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا>۔
* تخريج: خ/الجہاد ۱۵۴ (۳۰۳۵)، الأدب ۶۸ (۶۰۸۹)، مناقب الأنصار ۲۱ (۳۸۲۲)، م/فضائل الصحابۃ ۲۹ (۲۴۷۵)، ت/ المناقب ۴۲ (۳۸۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۲۴)، حم (۴/۳۵۸ ، ۳۵۹، ۳۶۲، ۳۶۵) (صحیح)
۱۵۹- جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، اور جب بھی مجھے دیکھا میرے روبرو مسکرائے اور میں نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹک نہیں پاتا (گرجاتاہوں) توآپ ﷺنے اپنا ہاتھ میرے سینے پہ مارا اور دعا فرمائی: ''اے اللہ! اس کو ثابت رکھ اور اسے ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جریر رضی اللہ عنہ دراز قد، خوبصورت اور حسین وجمیل تھے، عمر رضی اللہ عنہ ان کو اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ أَهْلِ بَدْرٍ
اہل بدر کے مناقب وفضائل​


160- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: جَائَ جِبْرِيلُ، أَوْ مَلَكٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: مَا تَعُدُّونَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا فِيكُمْ؟ قَالُوا: خِيَارَنَا قَالَ: كَذَلِكَ هُمْ عِنْدَنَا، خِيَارُ الْمَلائِكَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۵۶۵، ومصباح الزجاجۃ: ۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۵) (صحیح)
(اس حدیث کو امام بخاری نے (۷/۳۱۱) بطریق ''یحییٰ بن سعیدعن معاذ بن رفاعہ عن أبیہ'' ذکر کیا ہے، یہ نقل کرنے کے بعد بوصیری کہتے ہیں کہ اگر یہ یعنی سند ابن ماجہ محفوظ ہے تو یہ جائز ہے کہ یحییٰ بن سعید کے اس حدیث میں دو شیخ ہیں، اور سب ثقہ ہیں)
۱۶۰- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جبرئیل وضاحت یا کوئی اور فرشتہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اورعرض کیا: آپ اپنے میں شرکائے بدر کو کیسا سمجھتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: وہ ہم میں سب سے بہتر ہیں، اس فرشتہ نے کہا: اسی طرح ہمارے نزدیک وہ (شرکا ء بدر) سب سے بہتر ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے غزوہ بدر کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس لئے کہ شرکاء بدر انسان ہی نہیں بلکہ فرشتوں میں بھی سب سے افضل اور بہتر لوگ ہیں۔


161- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ (ح) وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ (ح) وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، جَمِيعًا عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلا نَصِيفَهُ >۔
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۷۳)، م/فضائل الصحابۃ ۵۴ (۲۵۴۱)، د/السنۃ ۱۱ (۴۶۵۸)، ت/المناقب ۵۹ (۳۸۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۴۰۰۱ ، ۱۲۵۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱، ۴۵، ۵۵، ۶۳) (صحیح)
۱۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میرے صحابہ کو گالیاں نہ دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں صرف کرڈالے تو ان میں کسی کے ایک مد یا آدھے مد کے برابر ۱؎ بھی ثواب نہ پائے گا''۔
وضاحت ۱؎ : '' مُدّ : ایک معروف پیمانہ ہے جو اہل حجاز کے نزدیک ایک رطل اورتہائی رطل کا ہوتا ہے ، یہ صاع نبوی کا چوتھا حصہ ہوتا ہے، مد کا وزن موجود ہ مستعمل وزن سے تقریباً چھ سو پچیس (۶۲۵) گرام کے قریب ہوتا ہے۔


162- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ نُسَيْرِ بْنِ ذُعْلُوقٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: لا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً، خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجۃ، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۵۰، ومصباح الزجاجۃ: ۶۱) (حسن)
۶۲ا- نُسیربن ذُعلوق کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: ''اصحاب محمد ﷺ کو گالیاں نہ دو، ان کا نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں ایک لمحہ رہنا تمہارے ساری عمر کے عمل سے بہتر ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَضْلُ الأَنْصَارِ
انصار رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب​


163- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ، قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَدِيّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَحَبَّ الأَنْصَارَ أَحَبَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ أَبْغَضَ الأَنْصَارَ أَبْغَضَهُ اللَّهُ >.
قَالَ شُعْبَةُ لِعَدِيٍّ: أَسَمِعْتَهُ مِنَ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ؟ قَالَ: إِيَّايَ حَدَّثَ۔
* تخريج: خ/مناقب الأ نصار ۴ (۳۷۸۳)، م/ الإیمان ۳۳ (۷۵)، ت/المناقب ۶۶ (۳۹۰۰) ن/ الکبری (۸۳۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/ ۲۸۳، ۲۹۲) (صحیح)
۱۶۳- براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے انصار سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی، اور جس شخص نے انصار سے دشمنی کی اس سے اللہ نے دشمنی کی''۔
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے عدی سے پوچھا: کیاآپ نے یہ حدیث خود براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: مجھ ہی سے تو انہوں نے یہ حدیث بیان کی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلو م ہوا کہ غیر صحابہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے، اور صحبت رسول والے شرف کے برابر کوئی عمل نہیں ہوسکتا۔


164- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ عَبْدِالْمُهَيْمِنِ ابْنِ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ، وَلَوْ أَنَّ النَّاسَ اسْتَقْبَلُوا وَادِيًا أَوْ شِعْبًا، وَاسْتَقْبَلَتِ الأَنْصَارُ وَادِيًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الأَنْصَارِ، وَلَوْلا الْهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۱، ومصباح الزجاجۃ: ۶۲) (صحیح)
(اس کی سند میں عبد المہیمن بن عباس ضعیف ہیں، لیکن دوسرے طرق وشواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ: ۱۷۶۸)
۱۶۴- سعد بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ''انصارشعار ہیں ۱؎ ، اور لوگ دثارہیں ۲؎ ، اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں جائیں اور انصار کسی دوسری وادی میں جائیں تو میں انصار کی وادی میں جاؤں گا، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا''۔
وضاحت ۱؎ : '' شعار'': بدن سے متصل کپڑا، یعنی میرے قریب تر اور نصرت دین میں خاص الخاص ہیں۔
وضاحت ۲؎ : ''دثار'' : اوپر پہنا جانے والا کپڑا یعنی ان کے مقابلہ میں دور، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہجرت اللہ تعالیٰ کے نزدیک معظم اور قابل قدر عمل ہے ۔


165- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < رَحِمَ اللَّهُ الأَنْصَارَ، وَأَبْنَائَ الأَنْصَارِ، وَأَبْنَائَ أَبْنَائِ الأَنْصَارِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۵) (ضعیف جدًا)
(سند میں کثیر بن عبد اللہ سخت ضعیف اور منکر الحدیث راوی ہے،اسے امام شافعی نے کذاب بلکہ رکن کذب کہا ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن حدیث ''اللهم اغفر الأنصار وأبناء الأنصار'' کے لفظ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۳۶۴۰)
۱۶۵- عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ انصار پر، ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحم کرے''۔
 
Top