9- بَاب فِي الإِيمَانِ
۹- باب: ایمان کا بیان ۱؎
وضاحت ۱ ؎ : ایمان امن سے مشتق ہے، چونکہ مومن ایمان سے اپنے آپ کو جہنم کے عذاب سے بچاتا ہے اس لئے اس کے فعل کو ایمان کہا گیا ہے، اور ایمان کی تعریف اہل سنت والجماعت کے تمام محققین نے یہ کی ہے کہ وہ قول وفعل سے عبارت ہے، اور گھٹتا بڑھتا ہے، طاعات (نیک کاموں) کے کرنے سے بڑھتا ہے، اور معاصی(برے کاموں) کے کرنے سے گھٹتا ہے، قول سے مراد توحید ورسالت کی گواہی اور اس کا اقرار، اور تلاوتِ کلام پاک اور ہر طرح کے ثابت ذکر واذکار، اور اورا د ووظائف ہیں ،اور فعل سے مراد دل کا فعل ہو یا اعضا ء وجوارح کا، اس لئے سلف نے ایمان کی تعریف یہی کی ہے کہ آدمی دل سے اعتقاد کرے، زبان سے اقرار کرے، اور اعضاء وجوارح سے دینی کاموں کو انجام دے، اور جن امور سے روکا گیا ہے اس سے باز رہے، اور انسان جتنا زیادہ ثابت شدہ اعمال صالحہ کو کرتا جائے گا اس کا ایمان بڑھتا جائے گا اسی لئے سلف کے اعتقاد میں ایمان کی زیادتی اور نقصان کا مسئلہ بھی ہے، اس کے بالمقابل گمراہ فرقوں میں ایک فرقہ مرجئہ ہے، جس کے نزدیک اعتقاد اور زبان سے گواہی ہی ایمان ہے، ایک دوسرا گمراہ فرقہ کرّامیہ ہے جو صرف زبان کی گواہی کو ایمان کہتا ہے، اسی طرح سے گمراہ فرقوں میں فرقہ معتزلہ ہے جو صرف زبان کی گواہی اور عمل کو ایمان قرار دیتا ہے، سلف صالحین نے عمل کو اسلام وایمان کا ایک رکن کہا ہے اور اس معنی میں اس کو کمالِ ایمان کی شرط کہا کہ بعض اعمال کے نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ آدمی دائرہ اسلام میں رہتا ہے، اور یہی معنی ہے ایمان کے گھٹنے بڑھنے کا، اللہ رب العزت کے یہاں سلف صالحین والا ایمان ہی معتبر ایمان ہے، لیکن دنیا میں زبانی اقرار اور توحید ورسالت پر ایمان اور اسلامی احکام پر عمل کرنے والے لوگوں کو مسلمان کہا جائے گا ،اور ان پر اس ظاہری اسلام کی صورت میں کفر کا حکم نہ لگایا جائے گا۔
57- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ ابْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ -أَوْ سَبْعُونَ- بَابًا، أَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ: لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَالْحَيَائُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ>.
* تخريج: خ/الإیمان ۳ بلفظ: ''وستون'' (۹)، م/الإیمان ۱۲ بلفظ: ''وسبعون'' وھو الأرجح (۳۵)، د/السنۃ ۱۵ (۴۶۷۶)، ت/الإیمان ۶ (۲۶۱۴)، ن/الإیمان ۱۶ (۵۰۰۷، ۵۰۰۸، ۵۰۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۱۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۴۱۴، ۲۴۲، ۴۴۵) (صحیح)
۵۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''ایمان کے ساٹھ یا سترسے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں کا ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱ ؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلی اور بہتر شعبہ لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں) کہنا ہے، اورشرم وحیاء ایمان کی ایک شاخ ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ :
''شعبةٌ'' میں تنوین تعظیم کے لئے ہے۔
وضاحت ۲؎ : حیاء ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ یہ نفس انسانی کی اصلاح وتربیت میں نہایت مؤثر کردار ادا کرتی ہے، نیز وہ انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے،اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کے عمل کے اعتبار سے بہت سے مراتب واجزاء ہیں، اور اس میں کمی اور بیشی بھی ہوتی ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔
57/أ- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، (ح) وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، جَمِيعًا عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۵۷/أ - اس سند سے بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مرفوعاً مروی ہے ۔
58- حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلا يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَائِ فَقَالَ: < إِنَّ الْحَيَائَ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ > ۔
* تخريج: م/الإیمان ۱۲ (۳۶)، ت/الإیمان ۷ (۲۶۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۲۸)، وقد أخرجہ: خ/لإیمان ۱۶ (۲۳)، الأدب ۷۷ (۶۱۱۸)، د/الأدب ۷ (۴۷۹۵)، ن/الإیمان ۲۷(۵۰۳۶)، ط/حسن الخلق ۲ (۱۰)، حم (۲/۵۶، ۱۴۷) (صحیح)
۵۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو شرم وحیاء کے سلسلے میں ملامت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ''حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے''۔
59- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < لا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۳۹ (۹۱)، اللباس ۲۹ (۴۰۹۱)، ت/البر والصلۃ ۶۱ (۱۹۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸۷،۴۱۲، ۴۱۶، ۲/۱۶۴، ۳/۱۳، ۱۷) (صحیح)
(یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو: ۴۱۷۳)
۵۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر (گھمنڈ) ہوگا وہ جنت میں نہیں داخل ہوگا ،اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں داخل ہوگا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مرتکب کبیرہ کے سلسلے میں آخرت سے متعلق وعید کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ وہ ملعون ہے، یا اس کو جنت میں نہ داخل ہونے کی وعید ہے، یا جہنم میں داخل ہونے کی وعید ہے، اس سلسلے میں علماء کی آراء کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
1
"لا يدخل الجنة " وہ جنت میں نہ داخل ہوگا، یعنی نعمت وسرور اور انبساط کے اعتبار سے اونچے درجہ کی جنت میں نہ داخل ہوگا، یہ مطلب نہیں ہے کہ جنت کے کسی درجہ اور طبقہ میں داخل نہ ہوگا۔
2 یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرتکب کبیرہ اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہوگا جس وقت تک مرتکب کبیرہ کا ارتکاب نہ کرنے والے جنت میں داخل ہورہے ہوں گے، اس لئے کہ وہ اپنے گناہوں کی بازپرس اور محاسبہ کے مرحلہ میں ہوگا، یا اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ہوگا، اور سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہوگا۔
بعض لوگوں نے اس معنی کو ان لفظوں میں بیان کیا:
"إن النفي هو الدخول المطلق الذي لا يكون معه عذاب، لا الدخول المقيد الذي يحصل لمن دخل النار ثم دخل الجنة"، یعنی: احادیث میں جنت میں اس مطلق دخول کی نفی ہے جس کے ساتھ عذاب نہ ہوگا، نہ کہ اس قید کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی نفی ہے جو جہنم میں داخل ہونے والے کو ہوگی کہ وہ جرم کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہوگا۔
3 ایک قول یہ بھی ہے کہ احادیث میں شرط اور استثناء موجود ہے یعنی اگر اللہ نے اس (مرتکب کبیرہ) کو عذاب دیا تو وہ جنت میں نہ داخل ہوگا، یا جنت میں نہ داخل ہوگا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے۔
بعض معاصی کے مرتکب کے بارے میں جہنم کی وعید والی احادیث کے بارے میں امام نووی فرماتے ہیں کہ کفر سے کمتر مرتکب کبائر کے لئے جہنم کی وعید سے متعلق ساری احادیث کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس کی سزا ہے، کبھی وہ سزا کا مستحق ہوگا، اور کبھی اس سے سزا معاف کردی جائے گی، پھر اگر اس کو (اس کے جرم کی پاداش میں) سزا ہوئی، تو وہ داخل جہنم ہوگا، لیکن اس میں ہمیشہ ہمیش نہیں رہے گا، بلکہ اللہ کے فضل وکرم سے وہ ضروری طور پر وہاں سے نکلے گا، توحید پر مرنے والا کوئی آدمی ہمیشہ اور ابدی طور پر جہنم میں نہیں رہے گا، یہ اہل سنت کے درمیان متفق علیہ اصول ہے۔
آخرت سے متعلق وارد احادیث وعد ووعید کے سلسلہ میں زیادہ راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ اعمال وعدہ اور وعید کے اثبات وتحقق کے لئے سبب وعلت ہیں لیکن کسی متعین شخص پر ان وعدوں یا وعیدوں کا اطلاق نہیں ہوگا الا یہ کہ اس میں وہ ساری شروط وقیود پائی جارہی ہوں، اور اس سلسلہ کی رکاوٹیں موجود نہ ہوں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر مبرہن کیا ہے۔
اس لئے کہ اہل ایمان کے شرک سے اجتناب اور دوری کی صورت میں اعمال صالحہ پر دخول جنت کی بات بہت ساری احادیث میں وارد ہوئی ہیں، اور جن مطلق روایتوں میں کلمہ شہادت (لا الہ الا اللہ) یا شہادتین پر جنت میں داخل ہونے یا جہنم کے حرام ہونے کی بات ہے تو دوسری احادیث میں اس کی شروط وقیود آئی ہیں جن کی وجہ سے مطلق احادیث کو مقید احادیث پر رکھنا واجب اور ضروری ہے، مطلق احادیث (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) میں کلمہ توحید کو دخول جنت کا تقاضا کہا گیا ہے جس کے لئے شروط وقیود کا ہونا اور موانع (رکاوٹوں) کا نہ ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ امام حسن بصری سے جب یہ کہا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا، جنت میں داخل ہوگا تو آپ نے فرمایا: ''جس نے کلمہ توحید کہا، اور اس کے حقوق وفرائض ادا کئے وہ جنت میں داخل ہوگا''۔
وہب بن منبہ سے سائل نے سوال کیا کہ کلمہ توحید (لا الہ الا اللہ) کیاجنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، لیکن کنجی بغیر دندانے کے نہیں ہوتی، اگر تم دندانے والی کنجی لے کر آؤ گے تو جنت کا دروازہ تمہارے لئے کھل جائے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔
اہل علم نے کلمہ گو (لا الہ الا اللہ کے قائل) میں سات شرطوں کے ضروری طور پر ہونے کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ اس کلمہ سے فائدہ اٹھا سکے، وہ یہ ہیں: (علم، یقین، اخلاص، صدق، محبت، انقیاد، قبول)۔
امام ابن القیم حدیث :
« إن الله حرم على النار من قال: لا إله إلا الله يبتغي وجه الله" ''اللہ کی رضا وخوشنودی کو چاہنے والے لا الہ الا اللہ کے قائل (کلمہ گو) پر اللہ تعالیٰ نے جہنم حرام کردی ہے'' کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''شارع وضاحت نے صرف زبانی اقرار سے اس کے حصول (یعنی جنت میں داخل ہونا اور جہنم میں نہ جانے) کی بات نہیں کہی ہے، اس لئے کہ یہ اعداء دین اسلام منافقین کلمہ توحید کو اپنی زبانوں سے دہراتے تھے، اور اس کے ساتھ وہ جہنم کے سب سے خراب درجہ کے مستحق ہیں، اس لئے زبانی اقرار اور دلی اقرار دونوں ضروری اور واجبی ہیں۔
اور دلی اقرار میں کلمہ کی معرفت اور اس کی تصدیق موجود ہے اور کلمہ میں سارے معبودان باطل کا انکار اور اللہ واحد کی الوہیت، اس کی عبادت کے اثبات کی معرفت موجود ہے، اور ما سوا اللہ سے الوہیت کی نفی کی حقیقت کی معرفت بھی موجود ہے کہ الوہیت وعبادت اللہ کے ساتھ خاص ہے اور دوسرے کے لئے اس کا ثبوت محال ہے۔
اس معنی ومفہوم کے علم ومعرفت اور یقین وحال کے ساتھ دل میں ثابت ومتحقق ہونے کے نتیجہ میں کلمہ گو پر جہنم حرام ہے، اور شارع نے اپنے ہر قول میں جو ثواب واجر متعین فرمایا ہے وہی پوری اور مکمل بات ہے۔
امام سلیمان بن عبداللہ l فرماتے ہیں کہ کلمہ توحید کو زبان سے کہنا بغیر اس کے معنی کو سمجھے، اور بغیر اس کے تقاضے پر عمل کے اجماعی طور پر نفع بخش نہیں ہے (تیسیر العزیز الحمید)۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب زکاۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کا ارادہ فرمایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور حدیث:
"أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله" (متفق علیہ) سے استدلال کرتے ہوئے آپ پر اعتراض کیا، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ سمجھایا کہ کلمہ توحید کے حق نہ ادا کرنے پر ان سے قتال (جنگ) ممنوع نہیں ہے، کیونکہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے کلمہ کہا تو اس کا مال اور اس کی جان میرے یہاں معصوم ومحفوظ ہے الا یہ کہ قتل کو واجب کرنے والا حق یعنی عدل وانصاف کا تقاضا موجود ہو، تو فرمایا کہ زکاۃ مال کا حق ہے، یعنی اس کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کی جائے گی، عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابۂ کرام رضوان علیہم اجمعین نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس فہم حدیث اور استدلال کو قبول کیا اور آپ کے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف جنگ کی۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری متفق علیہ حدیث میں مسلمانوں کے خون اور مال کی حرمت وعصمت کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ''مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم ربانی ہے، جب تک کہ لوگ کلمہ توحید ورسالت (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کی گواہی نہ دیں، اور جب تک صلاۃ اور اس کی اقامت اور زکاۃ کی ادائیگی نہ کرلیں، او ر جب فرائض ادا کرلیں گے، تو ان کے خون ومال کی عصمت وحرمت میرے یہاں متحقق ہوجائے گی، الا یہ کہ اسلام کا حق موجود ہو، یعنی قتل کو واجب کرنے کا سبب اور عدل وانصاف کا تقاضا موجود ہو، اور (عدل کا تقاضا پورا ہونے اور حدود کے نفاذ کے بعد) ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے''۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ دنیاوی سزائیں صرف کلمہ توحید ورسالت کے اقرار سے معاف نہیں ہوسکتی، بلکہ اسلام کے کسی حق کے نہ بجالانے کی صورت میں بندہ سزا کا مستحق ہوگا، تو اسی طرح سے آخرت میں ان اعمال کے کرنے یا نہ کرنے پر عقوبت وسزا کے استحقاق کا معاملہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ کلمہ توحید کے قائل پر جہنم کی حرمت، اور شفاعت کے ذریعہ جہنم سے باہر نکلنے کی بات کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کلمہ اسلام کی شروط وقیود کو اس کے حقوق وواجبات ادا کرکے پورا کیا، اور اس کی راہِ جنت کی رکاوٹیں بھی جاتی رہیں تو اس کے حق میں یہ وعدہ ثابت ومتحقق ہوگا۔
آخرت کے احکام سے متعلق وارد احادیث وعید کے سلسلے میں بھی صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر واطلاق پر رکھا جائے گا، اور ان کو کسی متعین شخص پر فٹ نہیں کیا جائے گا۔
اس مسئلہ کو اس مثال سے مزید سمجھا جائے کہ رسول اکرمﷺ نے شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی: شراب کشید کرنے والے پر، شراب کشید کروانے والے پر، اس کو پینے والے پر، اس کو ڈھونے والے پر وغیرہ وغیرہ۔
جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عبداللہ نامی ایک آدمی جو حمار کے لقب سے مشہور تھا، اور وہ رسول اکرمﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، اس آدمی کو رسول اکرمﷺ نے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے، ایک مرتبہ یہ صحابی رسول آپ ﷺ کے پاس لائے گئے تو دوبارہ انہیں کوڑے لگائے گئے، ایک آدمی نے کہا: اللہ کی اس پر لعنت ہو، اسے کتنی بار شراب پینے کے جرم میں لایا گیا، تو نبی اکرمﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم اس پر لعنت نہ بھیجو، اللہ کی قسم! مجھے اس کے بارے میں یہی معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔
اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس متعین آدمی پر جس نے بار بار شراب پی تھی، لعن طعن سے منع فرمایا، جبکہ پہلی حدیث میں شرابی پر لعنت بھیجی گئی ہے، اس لئے کہ مطلق لعنت سے مخصوص اور متعین آدمی پر لعنت لازم نہیں، جس کے ساتھ (لعنت نہ لاگو ہونے کے) ایسے موانع ہوں، جو اس کو اس وعید سے دور رکھتے ہوں۔
وعید کی احادیث کو مطلق بیان کرنے، اور اس کو کسی شخص پر محمول نہ کرنے کا عمل ان تمام احادیث میں ضروری ہے جن میں اس کام سے متعلق آخرت میں جہنم کی دھمکی ہے، مثلاً ارشاد نبوی ہے:
«إذا التقى المسلمان بسيفهما، فالقاتل والمقتول في النار" ''جب دو مسلمان تلوارلے کر آمنے سامنے آکھڑے ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم کی آگ میں ہیں''۔
ناحق مسلمانوں سے جنگ کی حرمت کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل واجب ہے، اور یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کام کے کرنے والے کو اس وعید کی دھمکی ہے، لیکن بایں ہمہ ہم جنگ جمل اور صفین کے شرکاء کے جہنم میں داخل ہونے کا حکم نہ لگائیں گے، اس لئے کہ ان جنگوں میں شریک لوگوں کے پاس عذر وتاویل موجود ہے، اور ان کے پاس ایسی نیکیاں ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کا انطباق ان پر نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان فرمایا: ''وعید سے متعلق احادیث کے تقاضوں پر عمل اس اعتقاد کے ساتھ واجب ہے کہ اس کام کا ارتکاب کرنے والے کو اس کام کے جرم کی وعید (دھمکی) ہے، لیکن اس وعید کے اس آدمی پر لاگو ہونے کے لئے شروط وقیود کا ہونا، اور رکاوٹوں کا نہ ہونا ضروری ہے''۔
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: ''اور یہ جیسا کہ وعید کی نصوص ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا} (النساء: ۱۰)
اور وعید کی یہ نصوص بحق ہیں، لیکن متعین آدمی پر اس وعید کے متحقق ہونے کی گواہی نہ دی جائے گی، پس کسی متعین قبلہ والے کے لئے جہنم کی وعید کی گواہی نہ دی جائے گی اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ یہ وعید کسی شرط کے فوت ہوجانے یا کسی رکاوٹ کے موجود ہونے کی وجہ سے اس کو نہ لاحق ہو''۔
اہل علم نے گناہوں کی سزا کے ساقط ہوجانے کے گیارہ اسباب کا ذکر کیا ہے، جن سے وعید کا نفاذ ممنوع اور معطل ہوجاتا ہے:
۱- توحید
۲- توبہ (یہ متفقہ طور پر وعید کے نفاذ کی مانع ہے)
۳- استغفار
۴- نیکیاں (جو برائیوں کو مٹانے والی ہوتی ہے)
۵- اہل ایمان کا مومن کے لئے دعا جیسے صلاۃ جنازہ۔
۶- میت کو ثواب پہنچانے کے لئے کئے جانے والے اچھے کام جیسے صدقہ وخیرات وغیرہ۔
۷- نبی اکرمﷺ اور دوسرے لوگوں کی قیامت کے دن گنہگاروں کے بارے میں شفاعت۔
۸- دنیاوی آلام ومصائب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف کرتا ہے۔
۹- قبر میں حاصل ہونے والی سختیاں اور فتنے، یہ بھی گناہوں کے لئے کفارہ ہوتے ہیں۔
۱۰- روزِ قیامت کی ہولناکیاں، سختیاں اور تکالیف۔
۱۱- اللہ تعالیٰ کی رحمت وعفو، اور بغیر شفاعت کے اس کی بخشش ومغفرت۔
60- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <إِذَا خَلَّصَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ النَّارِ وَأَمِنُوا، فَمَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ لِصَاحِبِهِ فِي الْحَقِّ يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا أَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمِ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ>.
قَالَ: < يَقُولُونَ: رَبَّنَا! إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا، وَيَصُومُونَ مَعَنَا، وَيَحُجُّونَ مَعَنَا، فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ، فَيَقُولُ: اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ، فَيَأْتُونَهُمْ فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ، لا تَأْكُلُ النَّارُ صُوَرَهُمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَى كَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُونَهُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا! أَخْرَجْنَا مَنْ قَدْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِينَارٍ مِنَ الإِيمَانِ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ >.
قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ هَذَا فَلْيَقْرَأْ: {إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا}.
* تخريج: ن/الإیمان ۱۸ (۵۰۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۷۸)، وقد أخرجہ: خ/ الإیمان ۱۵ (۲۲)، الرقاق ۵۱ (۶۵۶۰)، م/الإیمان ۸۱ (۱۸۳) (صحیح)
۶۰- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب اللہ تعالی مومنوں کو جہنم سے نجات دے دے گا ، اور وہ امن میں ہو جائیں گے تو وہ اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لئے جو جہنم میں داخل کردیے گئے ہوں گے، اپنے رب سے ایسی بحث وتکرار کریں گے ۱؎ کہ کسی نے دنیا میں اپنے حق کے لئے اپنے ساتھی سے بھی ویسا نہیں کیا ہوگا''۔
آپ ﷺنے فرمایا: ''وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ صلاۃ پڑھتے تھے، صیام رکھتے تھے، اور حج کرتے تھے، تونے ان کو جہنم میں داخل کردیا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ''جاؤ ان میں سے جنہیں تم پہچانتے ہو نکال لو''، وہ مومن ان جہنمیوں کے پاس آئیں گے، اور انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گیں، آگ ان کی صورتوں کو نہیں کھائے ہوگی، کسی کو آگ نے اس کی آدھی پنڈلیوں تک اور کسی کو ٹخنوں تک پکڑ لیا ہوگا، پھر وہ مومن ان کو جہنم سے نکالیں گے اور عرض کریں گے: اے ہمارے رب! جن کو تونے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان کو نکال لیا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس شخص کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو اس کو بھی جہنم سے نکال لو، پھر جس کے دل میں آدھا دینار کے برابر ایمان ہو، پھر جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو''۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس کو اس پر یقین نہ آئے وہ اس آیت کو پڑھ لے:
{إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا} [سورة النساء: 40]، یعنی: ''بیشک اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اور اگر نیکی ہوتو اسے دوگنا کر دیتا ہے، اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اصرار کے ساتھ سفارش کریں گے۔
وضاحت ۲ ؎ : اس حدیث سے بھی ایمان کی زیادتی اور کمی کا ہونا ظاہر ہوتا ہے، اور جہنم سے نجات ایمان کی زیادتی اور کمی پر منحصر ہے، نیز صالحین کی شفاعت وسفارش پر ۔
61- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ نَجِيحٍ -وَكَانَ ثِقَةً- عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيّ ﷺ وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، فَتَعَلَّمْنَا الإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ، فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا۔
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۶۴، ومصباح الزجاجۃ: ۲۳) (صحیح)
۶۱- جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، اور ہم طاقتور نوجوان تھے، ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کوسیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا،تو اس سے ہمارا ایمان اور زیادہ (بڑھ) ہو گیا ۔
62- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < صِنْفَانِ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ لَيْسَ لَهُمَا فِي الإِسْلامِ نَصِيبٌ: الْمُرْجِئَةُ وَالْقَدَرِيَّةُ >۔
* تخريج: ت/القدر ۱۳ (۲۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۲) (ضعیف)
(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ۷۳) (اس کی تحسین امام ترمذی نے کی ہے '' حسن غریب'' لیکن اس میں تین راوی ضعیف ہیں، محمد بن فضیل میں تشیع ہے، علی بن نزار ضعیف ہیں، اور نزار عکرمہ سے ایسی احادیث روایت کرتے ہیں جو عکرمہ کی نہیں ہوتیں، لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں فرقے(مرجئہ وقدریہ) عقائد میں گمراہی کی وجہ سے اہل سنت کے نزدیک گمراہ فرقوں میں شمار کئے جاتے ہیں)
۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اس امت کے دوگروہ ایسے ہوں گے کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں: ایک مرجئہ ۱؎ اور دوسرا قدریہ (منکرین قدر) ۲؎ ''۔
وضاحت ۱؎ : مرجئہ ارجاء سے ہے، جس کے معنی تاخیر کے ہیں، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت(گناہ) نقصا ن دہ نہیں جیسے کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں ،ان کے نزدیک ایمان محض دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کانام ہے، جب کہ اہل سنت کے نزدیک ایمان کے تین ارکان ہیں، دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرارکرنا،اور اعضاء وجوارح سے عمل کرنا ۔
وضاحت ۲؎ : قدریہ جبریہ کے خلاف ہیں، جو اپنے کو مجبور ِ محض کہتے ہیں اور یہ بڑی گمراہی کی بات ہے، اور قدریہ کی نسبت قدر کی طرف ہے، یعنی اللہ کی تقدیر پر جو اس نے قبل مخلوقات مقدر کی، غرض وہ مدعی ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے، کفر ہو یا معصیت وگناہ اور انہوں نے انکار کیا کہ یہ امور تقدیر الٰہی ہیں ، یہ گمراہ فرقہ ہے اور غلطی پر ہے۔
قضا وقدر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو ہمارے اعمال وافعال اور ہمارے انجام کار کے بارے میں شروع ہی سے علم ہے، اسی نے ہماری قسمتوں کے فیصلے کررکھے ہیں، اس لئے ہر بری اور بھلی تقدیر کی بات پر ہمارا ایمان ہے، ساتھ ہی ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بااختیار مخلوق پیدا کیا ہے، جسے عقل وشعور کی نعمت سے نوازا ہے اور اس کی ہدایت کے لئے شروع ہی سے انبیاء ورسل بھیجے ہیں اور آخر میں نبی آخر الزماں محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ انسان وحی کی روشنی میں زندگی گزار کر اللہ رب العزت کے یہاں سرخرو ہو۔
63- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَجَائَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ شَعَرِ الرَّأْسِ، لايُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ سَفَرٍ، وَلا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: < شَهَادَةُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاةِ، وَإِيتَائُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَحَجُّ الْبَيْتِ >، فَقَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ: < أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَرُسُلِهِ، وَكُتُبِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَالْقَدَرِ، خَيْرِهِ وَشَرِّهِ >، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ، يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ >، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: < مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ >، قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ: < أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا -قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي تَلِدُ الْعَجَمُ الْعَرَبَ- وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَائَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَائِ >، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ ﷺ بَعْدَ ثَلاثٍ فَقَالَ: <أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ؟ >، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < ذَاكَ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ >.
* تخريج: م/الإیمان ۱ (۸)، د/السنۃ ۱۷ (۴۶۹۵، ۴۶۹۶، ۴۶۹۷)، ت/الإیمان ۴ (۲۶۱۰)، ن/الإیمان ۵ (۴۹۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۷۲)، وقد أخرجہ: خ/الإیمان ۳۷ (۵۰)، تفسیر سورۃ لقمان ۲ (۴۷۷۷)، حم (۱ / ۲۷، ۲۸، ۵۱، ۵۲) (صحیح)
۶۳- عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے،اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ ﷺ کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ ﷺ کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، صلاۃ قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے صیام رکھنا، اور خانہ کعبہ کا حج کرنا''، اس نے کہا: آ پ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔
پھر اس نے کہا: اے محمد! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھو''، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔
پھر اس نے کہا: اے محمد! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو یقین رکھو کہ وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے''۔
پھر اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس سے پوچھ رہے ہو، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا'' ۱؎ ۔
پھر اس نے پوچھا: اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی (وکیع راوی حدیث نے کہا: یعنی عجمی عورتیں عرب کو جنیں گی) ۲؎ اور تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، فقیر ومحتاج بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں اور محلات کے بنانے میں فخر ومسابقت سے کام لیں گے''۔
روای کہتے ہیں: پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ مجھ سے تین دن کے بعد ملے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''کیا تم جانتے ہو وہ شخص کون تھا؟''، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ''یہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اور بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے'' ۳؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ:
1 مفتی سے اگر ایسی بات پوچھی جائے جو اسے معلوم نہیں تو
''لا أدري'' کہہ دے یعنی میں نہیں جانتا، اور یہ اس کی کسر شان کا سبب نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قیامت کے سلسلہ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا۔
2 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عالم کی مجلس میں حاضر ہو اور لوگوں کو کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کی حاجت ہو تو وہ عالم سے پوچھ لے تاکہ اس کا جواب سب لوگ سن لیں۔
3 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کو چاہئے کہ سائل کو نرمی سے سمجھا دے، اور محبت سے بتلا دے تاکہ علمی اور دینی فوائد کا دروازہ بند نہ ہوجائے، اور سائل کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم دین اور مفتی کے ساتھ کمال ادب کا مظاہرہ کرے، اور اس کی مجلس میں وقار اور ادب سے بیٹھے۔
وضاحت ۲ ؎ : ''لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی'': یعنی ملک فتح ہوں گے ، اور لونڈیاں مال غنیمت میں کثرت سے حاصل ہوں گی، اور کثرت سے لوگ ان لونڈیوں کے مالک ہوںگے ، اور ان لونڈیوں کی ان کے آقا سے اولاد ہوگی اور وہ آزاد ہوں گے، اور وہ اپنی ماؤں کو لونڈیاں جانیں گے، اور بعض روایتوں میں
''ربتها'' کی جگہ
''ربها'' وارد ہوا ہے ۔
وضاحت ۳ ؎ : اس حدیث کو حدیث جبرئیل کہتے ہیں اور یہ ظاہری اور باطنی ساری عبادات اور اخلاص وعمل کی ساری صورتوں کو شامل ہے، اور ہر طرح کے واجبات اور سنن اور معروف ومنکر کو محیط ہے۔
64- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَارَسُولَ اللَّهِ ! مَا الإِيمَانُ ؟ قَالَ : < أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَلِقَائِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الآخِرِ >، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الإِسْلامُ؟ قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ >، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: < أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لاتَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ >، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: < مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّتَهَا فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَائُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ، فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ لا يَعْلَمُهُنَّ إِلا اللَّهُ >،فَتَلا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} الآيَةَ.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۷ (۵۰)، تفسیر لقمان ۲ (۴۷۷۷)، م/الإیمان ۱ (۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۲۹)، وقد أخرجہ: د/السنۃ ۱۷ (۴۶۹۵)، ن/الإیمان ۵ (۴۹۹۶)، حم (۲/ ۴۲۶) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۴۰۴۴) (صحیح)
۶۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو'' ۱؎ ۔
اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، صلاۃ مکتوبہ قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے صیام رکھو''۔
اس نے کہا: اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے''۔
اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''جس سے پوچھ رہے ہو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تم کو اس کی نشانیاں بتاؤں گا: جب لونڈی اپنی مالکن کو جنے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتوں پر فخر ومسابقت کریں تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، قیامت کی آمد ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا''، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:
{إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ} [سورة لقمان: 34]: ''بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس سرزمین میں مرے گا، اللہ ہی (پورے علم والا) اور خبیر (خبر رکھنے والا ہے)'' ۔
وضاحت ۱؎ : علماء اہل سنت اور عام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے:
1 دل سے یقین کرنا،
2 زبان سے اقرار کرنا،
3 کتاب وسنت سے ثابت شدہ فرائض اور اعمال کو اعضاء وجوارح سے بجالانا، اور جس قدر صالح اعمال زیادہ ہوں گے ایمان بھی زیادہ ہوگا، اور جس قدر اعمال میں کمی ہوگی ایمان میں کمی ہوگی، کتاب وسنت میں اس پر بے شمار دلائل ہیں۔
65- حَدَّثَنَا سَهْلُ ابْنُ أَبِي سَهْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ>.
قَالَ أَبُو الصَّلْتِ: لَوْ قُرِئَ هَذَا الإِسْنَادُ عَلَى مَجْنُونٍ لَبَرَأَ.
* تخريج: تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۷۶، ومصباح الزجاجۃ: ۲۴) (موضوع)
(اس کی سند میں ''عبدالسلام بن صالح ابو الصّلت الہروی'' رافضی کذاب اور متہم بالوضع راوی ہے،اس بناء پر یہ حدیث موضوع ہے،نیز ملاحظہ ہو: الضعیفہ: ۲۲۷۰ ، والموضو عات لابن الجوزی : ۱/۱۲۸ ، وتلخیص الموضوعات : ۲۶ بتحقیق د/ عبد الرحمن الفریوائی )
۶۵- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے'' ۔
ابو الصّلت کہتا ہے: یہ سند ایسی ہے کہ اگر دیوانے پر پڑھ دی جائے تو وہ اچھا ہو جائے۔
66- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لأَخِيهِ -أَوْ قَالَ: لِجَارِهِ- مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۷ (۱۳)، م/الإیمان ۱۷ (۴۵)، ت/صفۃ القیامۃ ۵۹ (۲۵۱۵)، ن/الإیمان ۱۹ (۵۰۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۸۹، ۳/۱۷۱، ۱۷۲، ۱۷۶، ۲۰۶)، دي/الرقاق ۲۹ (۲۷۸۲) (صحیح)
۶۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی (یا اپنے پڑوسی) کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کامل مومن نہیں ہو سکتا، اس حدیث سے مسلمانوں کی باہمی خیر خواہی کی اہمیت وفضیلت ظاہر ہوئی، اس سنہری اصول پراگر مسلمان عمل کرنے لگ جائیں تو معاشرے سے لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ فریب وغیرہ بیماریاں خودبخود ختم ہو جائیں گی۔
67- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <لايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ >۔
* تخريج: خ/الإیمان ۷ (۱۳)، ۸ (۱۵)، م/الإیمان ۱۶ (۴۴)، ن/الایمان ۱۹ (۵۰۱۶)، ت/صفۃ القیامۃ ۵۹ (۲۵۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۷۷، ۲۰۷) (صحیح)
۶۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد،اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : معلوم ہوا کہ جب تک ساری دنیا کے رسم ورواج اور عادات ورسوم، اور اپنی آل اولاد اور ماں باپ سے زیادہ سنت کی محبت نہ ہو اس وقت تک ایمان کامل نہیں، پھر جتنی اس محبت میں کمی ہوگی اتنی ہی ایمان میں کمی ہوگی۔
68- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْئٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوا السَّلامَ بَيْنَكُمْ >۔
* تخريج: م/الإیمان ۲۲ (۵۴)، ت/الاستئذان ۱ (۲۶۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۶۹،۱۲۵۱۳)، وقد أخرجہ: د/الأدب ۱۴۲ (۵۱۹۳)، حم (۱/۱۶۵، ۲/۳۹۱)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ۳۶۹۲) (صحیح)
۶۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''قسم اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو توایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض سلام کرنے ہی سے تم مومن قرار دیے جائوگے، اور جنت کے مستحق ہو جائو گے، بلکہ مطلب یہ کہ ایمان اسی وقت مفید ہوگا جب اس کے ساتھ عمل بھی ہوگا ،اور سلام اسلام کا ایک شعار اور ایمان کا عملی مظاہرہ ہے، ایمان اور عمل کا اجتماع ہی مومن کو جنت میں لے جائے گا، اس حدیث میںسلام عام کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ مسلمانوں میں باہمی الفت ومحبت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے ۔
69- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ (ح) وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ>.
* تخريج: خ/الإیمان ۳۸ (۴۸)، الأدب ۴۴ (۷۰۴۴)، الفتن ۸ (۷۰۷۶)، م/الإیمان ۲۸ (۶۴)، ن/المحاربۃ (تحریم الدم) ۲۷ (۴۱۱۴، ۴۱۱۵، ۴۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۴۳، ۹۲۵۱، ۹۲۹۹)، وقد أخرجہ: ت/البر والصلۃ ۵۲ (۱۹۸۳)، الإیمان ۱۵ (۲۶۳۵)، حم (۱/۳۸۵، ۴۱۱، ۴۱۷، ۴۳۳) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۹۳) (صحیح)
۶۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے'' ۔
70- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ فَارَقَ الدُّنْيَا عَلَى الإِخْلاصِ لِلَّهِ وَحْدَهُ، وَعِبَادَتِهِ لا شَرِيكَ لَهُ، وَإِقَامِ الصَّلاةِ، وَإِيتَائِ الزَّكَاةِ، مَاتَ وَاللَّهُ عَنْهُ رَاضٍ >.
قَالَ أَنَسٌ: وَهُوَ دِينُ اللَّهِ الَّذِي جَائَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَبَلَّغُوهُ عَنْ رَبِّهِمْ قَبْلَ هَرْجِ الأَحَادِيثِ وَاخْتِلافِ الأَهْوَائِ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فِي آخِرِ مَا نَزَلَ، يَقُولُ اللَّهُ: {فَإِنْ تَابُوا} قَالَ: خَلْعُ الأَوْثَانِ وَعِبَادَتِهَا {وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ}.
وَقَالَ فِي آيةٍ أُخْرَى: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ}.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲، ومصباح الزجاجۃ: ۲۵) (ضعیف)
(سند میں ابو جعفر الرازی اور ربیع بن انس ضعیف ہیں)
۷۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے دنیا کواس حال میں چھوڑا کہ خالص اللہ واحد کی عبادت کرتا رہا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، صلاۃ قائم کی، اور زکاۃ ادا کی، تواس کی موت اس حال میں ہوگی کہ اللہ اس سے راضی ہوگا'' ۔
انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی اللہ کا دین ہے جس کو رسول لے کر آئے، اور اپنے رب کی طرف سے اس کی تبلیغ کی، اس سے پہلے کہ دین میں لوگوں کی باتوںاور طرح طرح کی خواہشوں کی ملاوٹ اور آمیزش ہو۔
اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں سب سے آخرمیں نازل ہونے والی سورہ (براء ۃ) میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ} الآية (سورۂ توبہ: ۵)، یعنی: ''اگر وہ توبہ کریں اور صلاۃ قائم کریں ، اور زکاۃ ادا کریں''۔
انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یعنی بتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی عبادت سے دستبردار ہوجائیں،اور صلاۃقائم کریں، زکاۃ دیں (تو ان کا راستہ چھوڑ دو)۔
اور دوسری آیت میں یہ ہے:
{فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ} (سورۂ توبہ: ۱۱): یعنی: '' اگر وہ توبہ کریں، صلاۃقائم کریں، زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : پوری آیت اتنی ہی ہے جو اوپر گذری ،اللہ تعالیٰ اس میں مشرکوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ توبہ کے بعدصلاۃ وزکاۃ ادا کریں تو تمہارے بھائی ہیں، اور خلاصہ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کو توحید سکھانے کے لئے بھیجا ہے، اور دین کا دار ومدار توحید واخلاص پر ہے، اور صلاۃ و زکاۃ ظاہری اعمال صالحہ میں سب سے اہم اور بنیادی رکن ہیں۔
[ز] 70/ أ - حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى الْعَبْسِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنِ الرَّبِيعِ ابْنِ أَنَسٍ مِثْلَهُ ۔
۷۰/أ - اس سند سے ربیع بن انس رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے ۔
71- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ>۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۵۹)، وقد أخرجہ: خ/الزکاۃ ۱ (۱۳۹۹)، ۴۰ (۱۴۵۷)، المرتدین ۳ (۶۹۲۴)، م/الإیمان ۸ (۲۱)، د/الزکاۃ ۱ (۱۵۵۶)، ت/الإیمان ۱ (۲۶۰۶)، ن/الزکاۃ ۳ (۲۴۴۲)، المحاربۃ ۱ (۳۹۸۳)، حم (۲/۵۲۸) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۳۹۲۷) (صحیح متواتر)
(اس کی سند حسن ہے، لیکن اصل حدیث متواتر ہے)
۷۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ صلاۃ قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : اس سے اسلام کے چار بنیادی ارکان معلوم ہوئے :
1 توحید باری تعالیٰ،
2 رسالتِ محمدیہ کا یقین واقرار،
3 اقامت صلاۃ ،
4 زکاۃ کی ادائیگی،
یہ یاد رہے کہ دوسری صحیح حدیث:
''بُنِيَ الإِسْلامُ عَلَىْ خَمْسٍ'' میں اسلام کے پانچویں رکن صیام کا بھی ذکر ہے۔
72- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الأَزْهَرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا: أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۴۰، ومصباح الزجاجۃ: ۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۸،۵ ۲۴۵) (صحیح متواتر)
(اس کی سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، بلکہ اصل حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد: ۱/ ۲۴)
۷۲- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''مجھے لوگوں سے قتال (لڑنے) کا حکم دیاگیا ہے، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور صلاۃ قائم کرنے،اور زکاۃ دینے لگیں'' ۔
73- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الرَّازِيُّ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ ابْنُ مُحَمَّدٍ اللَّيْثِيُّ، حَدَّثَنَا نِزَارُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ جَابِرِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَيْسَ لَهُمَا فِي الإِسْلامِ نَصِيبٌ: أَهْلُ الإِرْجَائِ وَأَهْلُ الْقَدَرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۲۷) (ضعیف)
(اس کی سند میں نزار بن حیان ضعیف راوی ہیں، اور عکرمہ سے ایسی روایت کرتے ہیں، جو ان کی نہیں ہو تی، اور عبدالرحمن محمدا للیثی مجہول ہیں)
۷۳- ا بن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں: ایک مرجئہ اور دوسرے قدریہ (منکرین قدر)''۔
[ز] 74 - حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ سَعِيدُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ -يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ- عَنْ عَبْدِالْوَهَّابِ بْنِ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالا: الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۱۱، ۱۴۳۵۲) (ضعیف جدًا)
(سند میں عبد الوہاب بن مجاہد متروک الحدیث راوی ہے، لیکن سلف صالحین کے ایمان کی زیادتی اور نقصان پر بکثر ت اقوال ہیں،اور آیات کریمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، نیز اس باب میں بعض مرفوع روایت مروی ہے، جو صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو : الضعیفہ: ۱۱۲۳)
۷۴- ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا ،اورگھٹتا ہے ۔
[ز] 75- حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ حَرِيزِ ابْنِ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَارِثِ -أَظُنُّهُ- عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: الإِيمَانُ يَزْدَادُ وَيَنْقُصُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۶۰) (ضعیف)
(سند میں حارث کو شک ہے کہ انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے ، اس لئے اس سے انقطاع سند کا اشارہ ملتا ہے)
۷۵- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ۔