• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّبِيحَةِ بِالْمَرْوَةِ
۸-باب: پتھرسے ذبح کئے ہوے جانور کا بیان​


1472- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ رَجُلاً مِنْ قَوْمِهِ صَادَ أَرْنَبًا أَوْ اثْنَيْنِ، فَذَبَحَهُمَا بِمَرْوَةٍ، فَعَلَّقَهُمَا حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَسَأَلَهُ، فَأَمَرَهُ بِأَكْلِهِمَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ وَرَافِعٍ وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُذَكِّيَ بِمَرْوَةٍ وَلَمْ يَرَوْا بِأَكْلِ الأَرْنَبِ بَأْسًا، وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُهُمْ أَكْلَ الأَرْنَبِ، وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ الشَّعْبِيِّ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ، وَرَوَى عَاصِمٌ الأَحْوَلُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُحَمَّدِ بْنِ صَفْوَانَ. وَمُحَمَّدُ بْنُ صَفْوَانَ أَصَحُّ. وَرَوَى جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ نَحْوَ حَدِيثِ قَتَادَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ، وَيُحْتَمَلُ أَنَّ رِوَايَةَ الشَّعْبِيِّ عَنْهُمَا قَالَ : مُحَمَّدٌ حَدِيثُ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۵۰) (صحیح)
۱۴۷۲- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کی قوم کے ایک آدمی نے ایک یادوخرگوش کاشکارکیااوران کوپتھرسے ذبح کیا ۱؎ ، پھران کو لٹکائے رکھایہاں تک کہ اس نے رسول اللہ ﷺسے ملاقات کی اوراس کے بارے میں پوچھا، توآپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی روایت میں شعبی کے شاگردوں کا اختلاف ہے، داود بن أبی ہند بسند الشعبی عن محمد بن صفوان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، اورعاصم الأحول بسند الشعبیعن صفوان بن محمدیا محمدبن صفوان روایت کرتے ہیں،( صفوان بن محمد کے بجائے محمدبن صفوان زیادہ صحیح ہے) جابرجعفی بھی بسندالشعبی عن جابر بن عبداللہ قتادہ کی حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں، اس بات کا احتمال ہے کہ شعبی کی روایت دونوں سے ہو ۳؎ ،۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: جابر کی شعبی سے روایت غیرمحفوظ ہے،۳- اس باب میں محمد بن صفوان ، رافع اورعدی بن حاتم سے بھی احادیث آئی ہیں،۴- بعض اہل علم نے پتھرسے ذبح کرنے کی رخصت دی ہے ۲؎ ،۵- یہ لوگ خرگوش کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، ۶- بعض لوگ خرگوش کھانے کومکروہ سمجھتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس شرط کے ساتھ کہ پتھر نوکیلا ہو اور اس سے خون بہہ جائے ''ما أنهر الدم'' کایہی مفہوم ہے کہ جس سے خون بہہ جائے اسے کھاؤ۔
وضاحت ۲؎ : علماء کی یہ رائے درست ہے، کیوں کہ باب کی حدیث سے ان کے قول کی تائید ہوتی ہے۔
وضاحت۳؎ : یعنی شعبی نے محمد بن صفوان اور جابر بن عبداللہ دونوں سے روایت کی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَكْلِ الْمَصْبُورَةِ
۹-باب: بندھاہواجانورجسے تیرمارکرہلاک کیاگیاہو کاکھانامکروہ ہے ۱؎​


1473- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ أَكْلِ الْمُجَثَّمَةِ، (وَهِيَ الَّتِي تُصْبَرُ بِالنَّبْلِ). قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَأَنَسٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الدَّرْدَائِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۳۵۰) (صحیح)
۱۴۷۳- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے مجثمہ کے کھانے سے منع فرمایا۔
مجثمہ اس جانوریاپرندہ کو کہتے ہیں، جسے باندھ کر تیرسے ماراجائے یہاں تک کہ وہ مرجائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوالدرداء کی حدیث غریب ہے،۲- اس باب میں عرباض بن ساریہ ، انس، ابن عمر،ابن عباس ، جابراورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مصبورہ : وہ جانور ہے جسے باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جاتی ہو یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہو ، ایسے جانور کے کھانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایاہے، کیونکہ یہ غیر مذبوح ہے۔


1474- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ وَهْبٍ أَبِي خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ الْعِرْبَاضِ، وَهُوَ ابْنُ سَارِيَةَ عَنْ أَبِيهَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ لُحُومِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ، وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وَعَنِ الْمُجَثَّمَةِ، وَعَنِ الْخَلِيسَةِ وَأَنْ تُوطَأَ الْحَبَالَى حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ: سُئِلَ أَبُو عَاصِمٍ عَنْ الْمُجَثَّمَةِ قَالَ: أَنْ يُنْصَبَ الطَّيْرُ أَوِ الشَّيْئُ، فَيُرْمَى، وَسُئِلَ عَنِ الْخَلِيسَةِ فَقَالَ: الذِّئْبُ أَوْ السَّبُعُ يُدْرِكُهُ الرَّجُلُ فَيَأْخُذُهُ مِنْهُ فَيَمُوتُ فِي يَدِهِ قَبْلَ أَنْ يُذَكِّيَهَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف ویأتي عندہ برقم ۱۵۶۴ (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۲)، وانظر حم (۴/۱۲۷) (صحیح)
(سند میں ''ام حبیبہ ''مجہول ہیں ، ''خلیسہ''کے سواتمام ٹکڑے شواہد کی بناپر صحیح ہیں)
۱۴۷۴- عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبرکے دن ہرکچلی والے درندے ۱؎ پنجے والے پرندے۲؎ ، پالتوگدھے کے گوشت، مجثمہ اورخلیسہ سے منع فرمایا، آپ نے حاملہ (لونڈی جو نئی نئی مسلمانوں کی قید میں آئے) کے ساتھ جب تک وہ بچہ نہ جنے جماع کرنے سے بھی منع فرمایا ۔
راوی محمدبن یحیی قطعی کہتے ہیں: ابوعاصم سے مجثمہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: پرندے یا کسی دوسرے جانورکو باندھ کر اس پر تیر اندازی کی جائے (یہاں تک کہ وہ مرجائے)اور ان سے خلیسہ کے بارے میں پوچھا گیا توانہوں نے کہا: خلیسہ وہ جانورہے ، جس کو بھیڑیا یادرندہ پکڑے اور اس سے کوئی آدمی اسے چھین لے پھر وہ جانورذبح کئے جا نے سے پہلے اس کے ہاتھ میں مرجائے۔
وضاحت ۱؎ : مثلاً بھیڑیا، شیر اور چیتا وغیرہ۔ وضاحت ۲؎ : گدھ اور باز وغیرہ۔


1475- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُتَّخَذَ شَيْئٌ فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: م/الصید ۲ (۱۹۵۷)، ن/الضحایا ۴۱ (۴۴۴۸)، ق/الذبائح ۱۰ (۳۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۱۲)، وحم (۱/۲۱۶، ۲۷۳، ۲۸۰، ۲۸۵، ۳۴۰، ۳۴۵) (صحیح)
(مؤلف اورابن ماجہ کی سند میں سماک وعکرمہ کی وجہ سے کلام ہے ، دیگرکی سند یں صحیح ہیں)
۱۴۷۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے کسی جاندارکو نشانہ بنانے سے منع فرمایاہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ فِي ذَكَاةِ الْجَنِينِ
۱۰- باب: ماں کے پیٹ میں موجود بچہ کے ذبیحہ کا بیان​


1476- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ ح قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَأَبِي الدَّرْدَائِ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وَأَبُو الْوَدَّاكِ اسْمُهُ جَبْرُ بْنُ نَوْفٍ.
* تخريج: د/الضحایا ۱۸ (۲۸۲۷)، ق/الذبائح ۱۵ (۳۱۹۹)، وحم (۳/۳۱، ۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۸۶) (صحیح)
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، ورنہ اس کے راوی ''مجالد'' ضعیف ہیں ، دیکھئے : الارواء رقم ۲۵۳۹)
۱۴۷۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جنین ۱؎ کی ماں کا ذبح ہی جنین کے ذبح کے لیے کافی ہے '' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوریہ اس سندکے علاوہ سے بھی ابوسعیدخدری سے ہے، ۳- اس باب میں جابر، ابوامامہ، ابوالدرداء ، اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴-صحابہ کرام اوران کے علاوہ لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے ،اوریہی سفیان ثوری ، ابن مبارک ، شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : بچہ جب تک ماں کی پیٹ میں ر ہے اسے '' جنین'' کہاجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جب کسی جانور کو ذبح کیاجائے پھر اس کے پیٹ سے بچہ (مردہ) نکلے تو اس بچے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ بچہ مادہ جانور کے جسم کا ایک حصہ ہے، لہذا اسے ذبح نہیں کیاجائے گا، البتہ زندہ نکلنے کی صورت میں وہ بچہ ذبح کے بعد ہی حلال ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كُلِّ ذِي نَابٍ وَذِي مِخْلَبٍ
۱۱- باب: ہر کیچلی دانت والے درندے اورپنجہ والے پرندے کی حرمت کا بیان​


1477- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ.
* تخريج: خ /الصید ۲۹ (۵۵۳۰)، والطب ۵۷ (۵۷۸۰)، م/الصید ۳ (۱۹۳۲)، والأطعمۃ ۳۳ (۱۹۳۲)، د/الأطعمۃ ۳۳ (۲۸۰۲)، ن/الصید ۲۸ (۴۳۳۵)، و ۳۰ (۴۳۴۳)، ق/الصید ۱۳ (۳۲۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۷۴)، وحم (۴/۱۹۳) (صحیح)
1477/م- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيُّ اسْمُهُ عَائِذُاللهِ بْنُ عَبْدِاللهِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۷۷- ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہرکچلی دانت والے درندے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
۱۴۷۷/م- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ دانت(یعنی کچلیوں) سے شکار اور چیر پھاڑ کرنے والے جانور مثلاً شیر ، چیتا، بھیڑیا، ہاتھی، اور بندر وغیرہ یہ سب حرام ہیں، اسی طرح ان کے کیے ہوئے شکار اگر مرگئے ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں۔


1478- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُوالنَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ابْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: حَرَّمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَعْنِي يَوْمَ خَيْبَرَ الْحُمُرَ الإِنْسِيَّةَ وَلُحُومَ الْبِغَالِ وَكُلَّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۱۶۲) (صحیح)
۱۴۷۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح خیبرکے دن رسول اللہ ﷺنے پالتوگدھے ، خچرکے گوشت ، ہرکچلی دانت والے درندے اورپنجہ والے پرندے کوحرام کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابرکی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، عرباض بن ساریہ اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1479- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ حَرَّمَ كُلَّ ذِي نَابٍ مِنْ السِّبَاعِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِاللّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر : ق/الصید ۱۳ (۳۲۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۴۶)، وحم (۲/۳۳۶، ۳۶۶، ۴۴۸) (صحیح)
۱۴۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ہر کچلی دانت والے درندے کوحرام قراردیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- صحابہ کرام اور دیگرلوگوں میں سے اکثراہل علم کا اسی پر عمل ہے، عبداللہ بن مبارک ، شافعی ، احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : سورہ انعام کی آیت{قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ} (الأنعام:145) کے عام مفہوم سے یہ استدلال کرنا کہ ہرکچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے حلال ہیں درست نہیں، کیوں کہ باب کی یہ حدیث اور سورہ مائدہ کی آیت وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ (المائدة:3) سورہ انعام کی مذکورہ آیت کے لیے مخصص ہے، نیز سورہ مائدہ کی آیت مدنی ہے جب کہ سورہ انعام کی آیت مکی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا قُطِعَ مِنْ الْحَيِّ فَهُوَ مَيِّتٌ
۱۲-باب: زندہ جانورسے کاٹاہواگوشت مردارکے حکم میں ہے​


1480- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَائٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ ﷺ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَجُبُّونَ أَسْنِمَةَ الإِبِلِ وَيَقْطَعُونَ أَلْيَاتِ الْغَنَمِ، فَقَالَ: "مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ".
* تخريج: د/الصید ۳ (۲۸۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۱۵)، ودي/الصید ۹ (۲۰۶۱) (صحیح)
1480/م- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ الْجَوْزَجَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُوالنَّضْرِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَأَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ اسْمُهُ الْحَارِثُ بْنُ عَوْفٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۸۰- ابوواقد حارث بن عوف لیثی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مدینہ تشریف لائے ، وہاں کے لوگ (زندہ) اونٹوں کے کوہان اور(زندہ) بکریوں کیپٹھ کاٹتے تھے ، آپ نے فرمایا:'' زندہ جانورکاکاٹاہواگوشت مردار ہے'' ۱؎ ۔
۱۴۸۰/م- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اس حدیث کو صرف زیدبن اسلم کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ذبح کیے بغیر زندہ جانور کا وہ حصہ جو کاٹا گیا ہے اسی طرح حرام اور ناجائز ہے جس طرح دوسرے مردہ جانور حرام ہیں، اس لیے اس کا ٹے گئے حصہ کا کھانا جائز نہیں، یہ طریقہ زمانہ جاہلیت کا تھا، آپ ﷺ نے اس سے منع فرمادیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّكَاةِ فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ
۱۳-باب: حلق اورلبہ (سینے کے اوپری حصہ) میں ذبح کرنے کا بیان​


1481- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ قَالاَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلاَّ فِي الْحَلْقِ وَاللَّبَّةِ؟ قَالَ: "لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا لأَجْزَأَ عَنْكَ". قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: هَذَا فِي الضَّرُورَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَلاَنَعْرِفُ لأَبِي الْعُشَرَائِ عَنْ أَبِيهِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَاخْتَلَفُوا فِي اسْمِ أَبِي الْعُشَرَائِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : اسْمُهُ أُسَامَةُ بْنُ قِهْطِمٍ، وَيُقَالُ اسْمُهُ يَسَارُ بْنُ بَرْزٍ، وَيُقَالُ ابْنُ بَلْزٍ، وَيُقَالُ اسْمُهُ عُطَارِدٌ نُسِبَ إِلَى جَدِّهِ.
* تخريج: د/الضحایا ۱۶ (۲۸۲۵)، ن/الضحایا ۲۵ (۴۴۱۳)، ق/الذبائح ۹ (۳۱۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۶۹۴) وحم (۴/۳۳۴)، دي/الأضاحي ۱۲ (۲۰۱۵) (ضعیف)
(سند میں ''ابوالعشراء ''مجہول ہیں ، ان کے والد بھی مجہو ل ہیں مگرصحابی ہیں)
۱۴۸۱- ابوالعشراء کے والداسامہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول!کیا ذبح(شرعی) صرف حلق اورلبہ ہی میں ہوگا؟ آپ نے فرمایا:'' اگر اس کی ران میں بھی تیرماردو توکافی ہوگا''، یزید بن ہارون کہتے ہیں: یہ حکم ضرورت کے ساتھ خاص ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس حدیث کے علاوہ ابوالعشر اء کی کوئی اورحدیث ان کے باپ سے ہم نہیں جانتے ہیں،ابوالعشراء کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں: ان کانام اسامہ بن قھطم ہے،اور کہاجاتاہے ان کانام یساربن برزہے اورا بن بلزبھی کہاجاتاہے، یہ بھی کہا جاتاہے کہ ان کانام عطاردہے داداکی طرف ان کی نسبت کی گئی ہے،۳- اس باب میں رافع بن خدیج سے بھی روایت آئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْوَزَغِ
۱۴-باب: چھپکلی مارنے کا بیان​


1482- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ قَتَلَ وَزَغَةً بِالضَّرْبَةِ الأُولَى كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، فَإِنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّانِيَةِ كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً، فَإِنْ قَتَلَهَا فِي الضَّرْبَةِ الثَّالِثَةِ كَانَ لَهُ كَذَا وَكَذَا حَسَنَةً". قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَسَعْدٍ وَعَائِشَةَ وَأُمِّ شَرِيكٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى : حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/السلام ۳۸ (الحیؤن۲) (۲۲۴۰)، د/الأدب ۱۷۵(۵۲۶۳)، ق/الصید ۱۲ (۳۲۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۶۱)، وحم (۲/۳۵۵) (صحیح)
۱۴۸۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جوچھپکلی ۱؎ کو پہلی چوٹ میں مارے گا اس کو اتنا ثواب ہوگا، اگراس کودوسری چوٹ میں مارے گا تو اس کواتناثواب ہوگا اوراگراس کو تیسری چوٹ میں مارے گاتواس کو اتناثواب ہوگا '' ۲ ؎؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود، سعد، عائشہ اورام شریک سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ہندوستان میں لوگ گرگٹ کو غلط طورپر وزع سمجھ کر اس کو مارنا ثواب کا کام سمجھتے ہیں جب کہ وہ عام طورپر جنگل جھاڑی میں رہتاہے اورچھپکلی اپنی ضرررسانیوں کے ساتھ گھروں میں پائی جاتی ہے ، اس لیے اس کا مارنا موذی کومارنا ہے جس کے مارنے کا ثواب بھی ہے۔
وضاحت ۲؎ :صحیح مسلم میں ہے کہ پہلی چوٹ میں مارنے پر سو اور دوسری میں اس سے کم اور تیسری میں اس سے بھی کم نیکیاں ملیں گی، امام نووی کہتے ہی: پہلی چوٹ میں نیکیوں کی کثرت کا سبب یہ ہے تاکہ لوگ اسے مارنے میں پہل کریں اور اسے مارکر مذکورہ ثواب کے مستحق ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْحَيَّاتِ
۱۵-باب: سانپ مارنے کا بیان​


1483- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ. حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اقْتُلُوا الْحَيَّاتِ وَاقْتُلُوا ذَاالطُّفْيَتَيْنِ وَالأَبْتَرَ، فَإِنَّهُمَا يَلْتَمِسَانِ الْبَصَرَ وَيُسْقِطَانِ الْحُبْلَى". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِي لُبَابَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى بَعْدَ ذَلِكَ عَنْ قَتْلِ جِنَّانِ الْبُيُوتِ وَهِيَ الْعَوَامِرُ، وَيُرْوَى عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَيْضًا. و قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ إِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ قَتْلِ الْحَيَّاتِ، قَتْلُ الْحَيَّةِ الَّتِي تَكُونُ دَقِيقَةً كَأَنَّهَا فِضَّةٌ وَلاَ تَلْتَوِي فِي مِشْيَتِهَا.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۴ (۳۲۹۷)، م/السلام ۳۷ (الحیؤن ۱) (۲۲۳۳)، د/الأدب ۱۷۴(۵۲۵۲)، ق/الطب ۴۲ (۳۵۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۲۱) (صحیح)
۱۴۸۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سانپوں کو مارو، خاص طور سے اس سانپ کو ماروجس کی پیٹھ پہ دو( کالی) لکیریں ہوتی ہیں اوراس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کردیتے ہیں اورحمل کوگرادیتے ہیں '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اس کے بعدگھروں میں رہنے والے سانپوں کوجنہیں عوامر (بستیوں میں رہنے والے سانپ) کہاجاتاہے ، مارنے سے منع فرمایا ۲؎ : ابن عمراس حدیث کو زید بن خطاب۳؎ سے بھی روایت کرتے ہیں، ۳-اس باب میں ابن مسعود ، عائشہ ، ابوہریرہ اورسہل بن سعد رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: سانپوں کے اقسام میں سے اس سانپ کو بھی مارنامکروہ ہے جو پتلا (اورسفید) ہوتاہے گویا کہ وہ چاندی ہو، وہ چلنے میں بل نہیں کھا تابلکہ سیدھا چلتاہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان دونوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا نابینا ہوجاتاہے اور حاملہ کا حمل گرجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جن وشیاطین بھی ہوسکتے ہیں، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہوجانے یا اپنی شکل تبدیل کرلینے کی تین بارآگاہی دے دینی چاہئے، اگروہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تووہ ابوسعیدخدری سے مروی حدیث کی روشنی میں انہیں مار سکتے ہیں۔
وضاحت ۳؎ : زید بن خطاب عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہما )کے بڑے بھائی ہیں،یہ عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام لائے، بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے، ان سے صرف ایک حدیث گھروں میں ر ہنے والے سانپوں کو نہ مارنے سے متعلق آئی ہے۔


1484- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ لِبُيُوتِكُمْ عُمَّارًا فَحَرِّجُوا عَلَيْهِنَّ ثَلاَثًا، فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ شَيْئٌ فَاقْتُلُوهُنَّ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَكَذَا رَوَى عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ هَذَاالْحَدِيثَ عَنْ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ هَذَاالْحَدِيثَ عَنْ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ.
* تخريج: م/السلام ۳۷ (۲۲۳۶)، د/الأدب ۱۷۴ (۵۲۵۶-۵۲۵۹) ن/عمل الیوم واللیلۃ ۲۸۰ (۹۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۸۰) (صحیح)
1484/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ عَنْ صَيْفِيٍّ نَحْوَ رِوَايَةِ مَالِكٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۴۴۱۳) (صحیح)
۱۴۸۴- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''تمہارے گھروں میں گھریلوسانپ رہتے ہیں، تم انہیں تین بارآگاہ کردو تم تنگی میں ہو (یعنی دیکھو دوبارہ نظر نہ آنا ورنہ تنگی وپریشانی سے دوچار ہوگا) پھر اگر اس تنبیہ کے بعدکوئی سانپ نظرآئے تو اسے مارڈالو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو عبیداللہ بن عمرنے بسند صیفی عن أبی سعید الخدری روایت کیا ہے جب کہ مالک بن انس نے اس حدیث کو بسند صیفی عن أبی السائب مولی ہشام بن زہرہ عن أبی سعید الخدری عن النبی ﷺ روایت کیا، اس حدیث میں ایک قصہ بھی مذکورہے ۱؎ ۔
۱۴۸۴/م - ہم سے اس حدیث کو انصاری نے بسند معن عن مالک عن صیفی عن أبی السائب عن أبی سعیدالخدری سے روایت کیا ہے ، اور یہ عبیداللہ بن عمرکی روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمدبن عجلان نے بھی صیفی سے مالک کی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس قصہ کی تفصیل کے لیے دیکھئے صحیح مسلم کتاب السلام حدیث رقم (۲۲۳۶)۔


1485- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ: قَالَ أَبُولَيْلَى: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا ظَهَرَتْ الْحَيَّةُ فِي الْمَسْكَنِ، فَقُولُوا لَهَا: إِنَّا نَسْأَلُكِ بِعَهْدِ نُوحٍ وَبِعَهْدِ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ أَنْ لاَ تُؤْذِيَنَا، فَإِنْ عَادَتْ فَاقْتُلُوهَا". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى.
* تخريج: د/الأدب ۱۷۴ (۵۲۶۰)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۲۸۰ (۹۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۵۲) (ضعیف)
(سند میں ''محمدبن أبی لیلیٰ '' ضعیف ہیں)
۱۴۸۵- ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب گھر میں سانپ نکلے تواس سے کہو:ہم نوح اور سلیمان بن داود کے عہدواقرارکی روسے یہ چاہتے ہیں کہ تم ہمیں نہ ستاؤ پھر اگروہ دوبارہ نکلے تواسے ماردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو ثابت بنانی کی روایت سے صرف ابن ابی لیلیٰ ہی کے طریق سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ الْكِلاَبِ
۱۶-باب: کتوں کومارنے کا بیان​


1486- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْلاَ أَنَّ الْكِلاَبَ أُمَّةٌ مِنْ الأُمَمِ لأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا كُلِّهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَأَبِي رَافِعٍ وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ أَنَّ الْكَلْبَ الأَسْوَدَ الْبَهِيمَ شَيْطَانٌ، وَالْكَلْبُ الأَسْوَدُ الْبَهِيمُ الَّذِي لاَ يَكُونُ فِيهِ شَيْئٌ مِنْ الْبَيَاضِ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ صَيْدَ الْكَلْبِ الأَسْوَدِ الْبَهِيمِ .
* تخريج: د/الصید ۱ (۲۸۴۵)، ن/الصید ۱۰ (۴۲۸۵)، و ۱۴ (۴۲۹۳)، ق/الصید ۲ (۳۲۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۴۹)، وحم (۴/۸۵، ۸۶)، و (۵/۵۴، ۵۶، ۵۷) دي/الصید ۳ (۲۰۵۱) (صحیح)
۱۴۸۶- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' اگریہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تومیں تمام کتوں کومارڈالنے کا حکم دیتا، سو اب تم ان میں سے ہر کالے سیاہ کتے کو مارڈالو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- عبداللہ بن مغفل کی حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابن عمر ، جابر، ابورافع ، اور ابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض احادیث میں مروی ہے کہ کالا کتاشیطان ہوتاہے ۲؎ ،۴- ''أسود بهيم'' اس کتے کوکہتے ہیں جس میں سفیدی بالکل نہ ہو،۵- بعض اہل علم نے کالے کتے کے کئے شکارکومکروہ سمجھاہے۔
وضاحت ۱؎ : ابتداء میں سارے کتوں کے مارنے کا حکم ہوا پھر کالے سیاہ کتوں کو چھوڑ کر یہ حکم منسوخ ہوگیا، بعد میں کسی بھی کتے کو جب تک وہ موذی نہ ہو مارنے سے منع کردیاگیا، حتی کہ شکار، زمین ، جائیداد ، مکان اور جانوروں کی حفاظت ونگہبانی کے لیے انہیں پالنے کی اجازت بھی دی گئی۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث صحیح مسلم (رقم ۱۵۷۲) میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ مَنْ أَمْسَكَ كَلْبًا مَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ
۱۷-باب: کتاپالنے سے ثواب میں کمی کا بیان​


1487- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا أَوْ اتَّخَذَ كَلْبًا لَيْسَ بِضَارٍ وَلاَكَلْبَ مَاشِيَةٍ نَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ.
* تخريج: خ/الصید والذبائح ۶ (۵۴۸۲)، م/المساقاۃ ۱۰ (البیوع ۳۱)، (۱۵۷۴)، ن/الصید ۱۲ (۴۲۸۹) و ۱۳ (۴۲۹۱-۴۲۹۲) (تحفۃ الأشراف: ۷۵۴۹)، وط/الاستئذان ۵ (۱۳)، وحم (۲/۴، ۸، ۳۷، ۴۷، ۶۰)، ودي/الصید ۲(۲۰۴۷) (صحیح)
۱۴۸۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:''جس نے ایسا کتاپالایارکھاجو سدھایاہوا شکاری اور جانوروں کی نگرانی کرنے والا نہ ہو تو اس کے ثواب میں سے ہردن دوقیراط کے برابر کم ہوگا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا: ''أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ'' (یاوہ کتاکھیتی کی نگرانی کرنے والانہ ہو)،۳- اس باب میں عبد اللہ بن مغفل ، ابوہریرہ ، اورسفیان بن أبی زہیر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : قیراط ایک وزن ہے جو اختلاف زمانہ کے ساتھ بدلتا رہاہے، یہ کسی چیز کا چوبیسواں حصہ ہوتا ہے، کتا پالنے سے ثواب میں کمی کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں: ایسے گھروں میں فرشتوں کا داخل نہ ہونا ، گھروالے کی غفلت کی صورت میں برتن میں کتے کا منہ ڈالنا ، پھر پانی اور مٹی سے دھوئے بغیر اس کا استعمال کرنا، ممانعت کے باوجود کتے کا پالنا، گھر میں آنے والے دوسرے لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچناوغیرہ وغیرہ۔


1488- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلاَبِ إِلاَّ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ كَلْبَ مَاشِيَةٍ، قَالَ: قِيلَ لَهُ إِنَّ أَبَاهُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ، فَقَالَ : إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَهُ زَرْعٌ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ .
* تخريج: خ/بدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۳)، (دون ما استشنیٰ منہا) م/المساقاۃ ۱۰ (البیوع ۳۱) (۱۵۷۱)، ن/الصید ۹ (۴۳۸۲- ۴۲۸۴)، ق/الصید ۱ (۳۲۰۲)، (دون ماستثنی منھا) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۵۳)، وط/الاستئذان ۵ (۱۴)، وحم (۲/۲۲-۲۳، ۱۱۳، ۱۳۲، ۱۳۶)، دي/الصید ۳ (۲۰۵۰) (صحیح)
۱۴۸۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری یاجانوروں کی نگرانی کرنے والے کتے کے علاوہ دیگرکتوں کو مارڈالنے کا حکم دیا ابن عمرسے کہاگیا: ابوہریرہ یہ بھی کہتے تھے:''أَوْ كَلْبَ زَرْعٍ ''یا کھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے (یعنی یہ بھی مستثنیٰ ہیں)، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ابوہریرہ کے پاس کھیتی تھی (اس لیے انہوں نے اس کے بارے میں پوچھاہوگا)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


1489- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: إِنِّي لَمِنْ مَنْ يَرْفَعُ أَغْصَانَ الشَّجَرَةِ عَنْ وَجْهِ رَسُولِ اللهِ ﷺ وَهُوَ يَخْطُبُ فَقَالَ: "لَوْلاَ أَنَّ الْكِلاَبَ أُمَّةٌ مِنَ الأُمَمِ لأَمَرْتُ بِقَتْلِهَا، فَاقْتُلُوا مِنْهَا كُلَّ أَسْوَدَ بَهِيمٍ، وَمَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَرْتَبِطُونَ كَلْبًا إِلاَّ نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِمْ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ إِلاَّ كَلْبَ صَيْدٍ أَوْ كَلْبَ حَرْثٍ أَوْ كَلْبَ غَنَمٍ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۴۸۶ (صحیح)
۱۴۸۹- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو رسول اللہ ﷺکے مبارک چہرے سے درخت کے شاخوں کو ہٹارہے تھے اورآپ خطبہ دے رہے تھے، آپ نے فرمایا:'' اگریہ بات نہ ہوتی کہ کتے دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق ہیں تومیں انہیں مارنے کاحکم دیتا ۱؎ ، سو اب تم ان میں سے ہرسیاہ کالے کتے کومارڈالو، جو گھروالے بھی شکاری، یاکھیتی کی نگرانی کرنے والے یا بکریوں کی نگرانی کر نے والے کتوں کے سواکوئی دوسراکتاباندھے رکھتے ہیں ہردن ان کے عمل (ثواب) سے ایک قیراط کم ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- یہ حدیث بسند حسن البصری عن عبداللہ بن مغفل عن النبیﷺ مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : کتوں کو دیگر مخلوقات کی طرح ایک مخلوق آپ نے اس لیے کہا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُم} (سورة الأنعام:38) (یعنی : جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند ہیں جو اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں۔) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار، جانوروں اور کھیتی کی حفاظت کے لیے کتے پالنا جائز ہے۔


1490- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلاَّ كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُرْوَى عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ أَنَّهُ رَخَّصَ فِي إِمْسَاكِ الْكَلْبِ وَإِنْ كَانَ لِلرَّجُلِ شَاةٌ وَاحِدَةٌ.
* تخريج: خ/الحرث ۳ (۳۳۲۲) وبدء الخلق ۱۷ (۳۳۲۴)، م/المساقاۃ ۱۰ (البیوع ۳۱)، (۱۹)، د/الصید ۱ (۲۸۴۴)، ن/الصید ۱۴ (۴۲۹۴)، ق/الصید ۲ (۳۲۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۱)، وحم (۲/۲۶۷، ۳۴۵) (صحیح) (لیس عند (خ) ''أو صید'' إلا معلقا بعد الحدیث ۲۳۲۳)۔
1490/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَائٍ بِهَذَا۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوشخص بھی جانوروں کی نگرانی کرنے والے یاشکاری یاکھیتی کی نگرانی کرنے والے کتے کے سواکوئی دوسرا کتاپالے گا توہر روز اس کے ثواب میں سے ایک قیراط کم ہوگا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عطابن ابی رباح نے کتاپالنے کی رخصت دی ہے اگرچہ کسی کے پاس ایک ہی بکری کیوں نہ ہو۔
۱۴۹۰/م - اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث رقم : ۱۴۸۷ میں دوقیراط کا ذکر ہے، اس کی مختلف توجیہ کی گئی ہیں : (۱) آپ ﷺ نے پہلے ایک قیراط کی خبر دی جسے ابوہریرہ نے روایت کی، بعد میں دوقیراط کی خبردی جسے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی۔ (۲) ایک قیراط اور دو قیراط کا فرق کتے کے موذی ہونے کے اعتبار سے ہوسکتا ہے، (۳)یہ ممکن ہے کہ دوقیراط کی کمی کا تعلق مدینہ منورہ سے ہو، اور ایک قیراط کا تعلق اس کے علاوہ سے ہو۔
 
Top