• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب فِي الضَّحِيَّةِ بِعَضْبَائِ الْقَرْنِ وَالأُذُنِ
۹-باب: ٹوٹی سینگ اور پھٹے کان والے جانوروں کی قربانی کا بیان​


1503- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ الْبَقَرَةُ، عَنْ سَبْعَةٍ قُلْتُ: فَإِنْ وَلَدَتْ؟ قَالَ: اذْبَحْ وَلَدَهَا مَعَهَا، قُلْتُ: فَالْعَرْجَائُ؟ قَالَ: إِذَا بَلَغَتِ الْمَنْسِكَ، قُلْتُ: فَمَكْسُورَةُ الْقَرْنِ؟ قَالَ: لاَ بَأْسَ أُمِرْنَا أَوْ أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَيْنِ وَالأُذُنَيْنِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ۔
* تخريج: ن/الضحایا ۱۱ (۴۳۸۱)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۲)، وحم (۱/۹۵، ۱۰۵، ۱۲۵، ۱۳۲، ۱۵۲)، ودي/الأضاحي ۳ (۱۹۹۴) (حسن)
۱۵۰۳- حجیہ بن عدی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طرف سے کی جائے گی، حجیہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: اگروہ بچہ جنے ؟ انہوں نے کہا: اسی کے ساتھ اس کوبھی ذبح کردو ۱؎ ، میں نے کہا اگروہ لنگڑی ہو؟ انہو ں نے کہا: جب قربان گاہ تک پہنچ جائے تو اسے ذبح کردو، میں نے کہا: اگر اس کے سینگ ٹوٹے ہوں؟ انہوں نے کہا: کوئی حرج نہیں ۲؎ ، ہمیں حکم دیا گیا ہے، یاہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیاہے کہ ہم ان کی آنکھوں اورکانوں کوخوب دیکھ بھال لیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث کوسفیان نے سلمہ بن کہیل سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی قربانی کے لیے گائے خریدی پھر اس نے بچہ جنا تو بچہ کو گائے کے ساتھ ذبح کردے ۔
وضاحت ۲؎ : ظاہری مفہوم سے معلوم ہواکہ ایسے جانور کی قربانی علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک جائز ہے ، لیکن آگے آنے والی علی رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت ان کے اس قول کے مخالف ہے۔ (لیکن وہ ضعیف ہے)


1504- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جُرَيِّ بْنِ كُلَيْبٍ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يُضَحَّى بِأَعْضَبِ الْقَرْنِ وَالأُذُنِ، قَالَ قَتَادَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: الْعَضْبُ مَا بَلَغَ النِّصْفَ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الضحایا ۶ (۲۸۰۵)، ن/الضحایا ۱۲ (۴۳۸۲)، ق/الأضاحي ۸ (۳۱۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۳۱)، وحم (۱/۸۳، ۱۰۱، ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۲۹، ۱۵۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''جری ''لین الحدیث ہیں)
۱۵۰۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان جانوروں کی قربانی کرنے سے منع فریایا جن کے سینگ ٹوٹے اورکان پھٹے ہوئے ہوں۔ قتادہ کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: ''عضب'' (سینگ ٹوٹنے ) سے مرادیہ ہے کہ سینگ آدھی یا اس سے زیادہ ٹوٹی ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الشَّاةَ الْوَاحِدَةَ تُجْزِي عَنْ أَهْلِ الْبَيْتِ
۱۰-باب: ایک بکری کی قربانی گھرکے سارے افراد کی طرف سے کافی ہے​


1505- حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي عُمَارَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ قَال: سَمِعْتُ عَطَائَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ سَأَلْتُ أَبَاأَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ كَيْفَ كَانَتِ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟ فَقَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعُمَارَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ هُوَ مَدَنِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشٍ فَقَالَ: هَذَا عَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لاَ تُجْزِي الشَّاةُ إِلاَّ عَنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِاللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: ق/الأضاحی ۱۰ (۳۱۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۸۱) (صحیح)
۱۵۰۵- عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتاتھا، وہ لوگ خودکھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر)فخرکرنے لگے، اوراب یہ صورت حال ہوگئی جو دیکھ رہے ہو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے ،۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے ، احمداوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے، ان دونوں نے نبی اکرمﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اورفریایا: یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی ، عبداللہ بن مبارک اوردوسرے اہل علم کا یہی قول ہے ۔ (لیکن راجح پہلا قول ہے)
وضاحت ۱؎ : یعنی لوگ قربانی کرنے میں فخر ومباہات سے کام لینے لگے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الأُضْحِيَّةَ سُنَّةٌ
۱۱-باب: قربانی کے سنت ہونے کی دلیل​


1506- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ؟ فَقَالَ: ضَحَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالْمُسْلِمُونَ. فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَتَعْقِلُ؟ ضَحَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالْمُسْلِمُونَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الأُضْحِيَّةَ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ، وَلَكِنَّهَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللهِ ﷺ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُعْمَلَ بِهَا، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ.
* تخريج: ق/الأضاحي ۲ (۳۱۲۴، ۳۱۲۴/م) (تحفۃ الأشراف: ۶۶۷۱) (ضعیف)
(سند میں ''حجاج بن ارطاۃ '' ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے،اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواۃ سے ضعیف ہے ، اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں، اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاۃ کوفی ہیں)
۱۵۰۶- جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیایہ واجب ہے ؟ توانہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے،اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے اورمسلمانوں نے قربانی کی ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے ، اور اس پر عمل کرنامستحب ہے، سفیان ثوری اورابن مبارک کایہی قول ہے ۔
وضاحت ۱؎ : بعض نے ''من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا''جس کے ہاں مالی استطاعت ہواور وہ قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے، نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے، اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے، اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیاجاتاہے وہ صریح نہیں ہیں، صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔


1507- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَهَنَّادٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي.
قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۶۴۵) (ضعیف)
(سند میں ''حجاج بن ارطاۃ'' مدلس راوی ہیں او ر روایت عنعنہ سے ہے)
۱۵۰۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں دس سال مقیم رہے اورآپ (ہرسال) قربانی کرتے رہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّبْحِ بَعْدَ الصَّلاَةِ
۱۲- باب: صلاۃعیدکے بعد قربانی کرنے کا بیان​


1508- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي يَوْمِ نَحْرٍ، فَقَالَ: "لاَيَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُصَلِّيَ"، قَالَ: فَقَامَ خَالِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! هَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيهِ مَكْرُوهٌ وَإِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لأُطْعِمَ أَهْلِي وَأَهْلَ دَارِي أَوْ جِيرَانِي، قَالَ: "فَأَعِدْ ذَبْحًا آخَرَ" فَقَالَ: يَارَسُولَ اللهِ! عِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُهَا؟ قَالَ: "نَعَمْ، وَهِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ، وَلاَ تُجْزِئُ جَذَعَةٌ بَعْدَكَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَجُنْدَبٍ وَأَنَسٍ وَعُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي زَيْدٍ الأَنْصَارِيِّ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لاَيُضَحَّى بِالْمِصْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ الإِمَامُ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لأَهْلِ الْقُرَى فِي الذَّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ لاَ يُجْزِئَ الْجَذَعُ مِنْ الْمَعْزِ، وَقَالُوا: إِنَّمَا يُجْزِئُ الْجَذَعُ مِنَ الضَّأْنِ.
* تخريج: خ/العیدین ۳ (۹۵۱)، و ۵ (۹۵۵)، و ۸ (۹۵۷)، و ۱۰ (۹۶۸)، و ۱۷ (۹۷۶)، و ۲۳ (۹۸۳)، والأضاحي ۱ (۵۵۴۵)، و ۸ (۵۵۵۶-۵۵۵۷) و ۱۱ (۵۵۶۰) و ۱۲ (۵۵۶۳)، والأیمان والندور ۱۵ (۶۶۷۳)، م/الأضاحي ۱ (۱۹۶۱)، د/الأضاحي ۵ (۲۸۰۰)، ن/العیدین ۸ (۱۵۶۴)، والضحایا ۱۷ (۴۴۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۹)، وحم (۴/۲۸۰، ۲۹۷، ۳۰۲، ۳۰۳) ودي/الأضاحي ۷ (۲۰۰۵) (صحیح)
۱۵۰۸- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا:''جب تک صلاۃِ عیدادا نہ کرلے کوئی ہرگزقربانی نہ کرے ''۔
براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎ ، اورانہوں نے عرض کیا: ا للہ کے رسول! یہ ایسادن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہوجاتاہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلدکردی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یاپڑوسیوں کو کھلاسکوں؟ آپ نے فرمایا:'' پھر دوسری قربانی کرو''، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیاہے اورگوشت والی دوبکریوں سے بہترہے، کیا میں اس کوذبح کردوں؟آپ نے فرمایا: ''ہاں! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہترہے، لیکن تمہارے بعدکسی کے لیے جذعہ ( بچے) کی قربانی کافی نہ ہوگی'' ۲؎ ۔
اس باب میں جابر، جندب ، انس، عویمربن اشقر، ابن عمراورابوزیدانصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے کہ جب تک امام نماز عیدنہ ادا کرلے شہرمیں قربانی نہ کی جائے،۳- اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجرطلوع ہوجائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے ، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، ۴- اہل علم کا اجماع ہے کہ بکر ی کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے، وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان کانام ابوبردہ بن نیار تھا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے، بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی، اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے، اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیاتو اس کی قربانی نہیں ہوئی، اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔
وضاحت ۳؎ : بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے، جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَكْلِ الأُضْحِيَّةِ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ
۱۳-باب: تین دن سے زیادہ قربانی کاگوشت کھانا مکروہ ہے​


1509- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَيَأْكُلُ أَحَدُكُمْ مِنْ لَحْمِ أُضْحِيَّتِهِ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا كَانَ النَّهْيُ مِنَ النَّبِيِّ ﷺ مُتَقَدِّمًا ثُمَّ رَخَّصَ بَعْدَ ذَلِكَ.
* تخريج: م/الأضاحي ۵ (۱۹۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۹۴) (صحیح)
۱۵۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے کوئی تین دن سے زیادہ قربانی کاگوشت نہ کھائے '' ۱؎ ۔اس باب میں عائشہ اورانس سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے ،۲- نبی اکرمﷺ کی طرف سے یہ ممانعت پہلے تھی، اس کے بعدآپ نے اجازت دے دی ۔
وضاحت ۱؎ : یہ فرمان خاص وقت کے لیے تھا جو اگلی حدیث سے منسوخ ہوگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي أَكْلِهَا بَعْدَ ثَلاَثٍ
۱۴-باب: تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھ کر کھانے کی رخصت کا بیان​


1510- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلاَثٍ لِيَتَّسِعَ ذُو الطَّوْلِ عَلَى مَنْ لاَ طَوْلَ لَهُ، فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَنُبَيْشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ وَأَنَسٍ وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى : حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ.
* تخريج: م/الجنائز ۳۶ (۹۷۷/۱۰۶)، والأضاحي ۵ (۹۷۷/۳۷)، د/الأشربۃ ۷ (۳۶۹۸)، ن/الجنائز ۱۰۰ (۲۰۳۴)، د/الأضاحي ۳۶ (۴۴۳۴، ۴۴۳۵)، والأشربۃ ۴۰ (۵۶۵۴- ۵۶۵۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۲)، وحم (۵/۳۵۰، ۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۶۱) (صحیح)
۱۵۱۰- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں نے تم لوگوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیاتھاتاکہ مالدارلوگ ان لوگوں کے لیے کشادگی کردیں جنہیں قربانی کی طاقت نہیں ہے، سو اب جتنا چاہو خودکھاؤ دوسروں کوکھلاؤاور (گوشت) جمع کرکے رکھو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے،اس ۳- باب میں ابن مسعود، عائشہ ، نبیشہ ، ابوسعید ، قتادہ بن نعمان ، انس اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ اب اللہ نے عام مسلمانوں کے لیے بھی کشادگی پیدا کردی ہے اور اب اکثر کو قربانی میسر ہوگئی ہے۔


1511- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا، أَبُوالأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: قُلْتُ لأُمِّ الْمُؤْمِنِينَ: أَكَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَنْهَى عَنْ لُحُومِ الأَضَاحِيِّ؟ قَالَتْ: لاَ، وَلَكِنْ قَلَّ مَنْ كَانَ يُضَحِّي مِنَ النَّاسِ، فَأَحَبَّ أَنْ يَطْعَمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ يُضَحِّي وَلَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَنَأْكُلُهُ بَعْدَ عَشَرَةِ أَيَّامٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ هِيَ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهَا هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ.
* تخريج: خ/الأطعمۃ ۲۷ (۵۴۲۳)، و ۳۷ (۵۴۳۸)، والأضاحي ۱۶ (۵۵۷۰)، ن/الضحایا ۳۷ (۴۴۳۷)، ق/الضحایا۱۶ (۱۵۱۱)، والأطعمۃ ۳۰ (۳۱۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۶۵)، وحم (۶/۱۰۲، ۲۰۹) (صحیح) (وعند م/الأضاحي ۵ (۱۹۷۱)، و د/الضحایا ۱۰ (۲۸۱۲)، و ط/الضحایا ۴ (۷) وحم (۶/۵۱)، دي/الأضاحي ۶( ) نحوہ)
۱۵۱۱- عابس بن ربیعہ کہتے ہیں: میں نے ام المومنین سے کہا: کیارسول اللہ ﷺ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع فرماتے تھے؟ وہ بولیں :نہیں، لیکن اس وقت بہت کم لوگ قربانی کرتے تھے ، اس لیے آپ چاہتے تھے کہ جولوگ قربانی نہیں کر سکے ہیں انہیں کھلایاجائے،ہم لوگ قربانی کے جانور کے پائے رکھ دیتے پھر ان کو دس دن بعدکھاتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ام المومنین (جن سے حدیث مذکورمروی ہے)وہ نبی اکرمﷺ کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : مقصود یہ ہے کہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھتے اور قربانی کے بعد اسے کئی دنوں تک کھاتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي الْفَرَعِ وَالْعَتِيرَةِ
۱۵-باب: فرع اورعتیرہ کا بیان​


1512- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ فَرَعَ وَلاَ عَتِيرَةَ" وَالْفَرَعُ أَوَّلُ النِّتَاجِ كَانَ يُنْتَجُ لَهُمْ فَيَذْبَحُونَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ نُبَيْشَةَ وَمِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ وَأَبِي الْعُشَرَائِ عَنْ أَبِيهِ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَتِيرَةُ ذَبِيحَةٌ كَانُوا يَذْبَحُونَهَا فِي رَجَبٍ يُعَظِّمُونَ شَهْرَ رَجَبٍ لأَنَّهُ أَوَّلُ شَهْرٍ مِنْ أَشْهُرِ الْحُرُمِ، وَأَشْهُرِ الْحُرُمِ رَجَبٌ وَذُوالْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، وَأَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، كَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ.
* تخريج: خ/العقیقۃ ۳ (۵۴۷۳)، و ۴ (۵۴۷۴)، م/الأضاحي ۶ (۱۹۷۶)، د/الضحایا ۲۰ (۲۸۳۱)، ن/الفرع والعتیرۃ۱ (۴۲۲۷)، ق/الذبائح ۲ (۲۸۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۶۹)، وحم (۲/۲۲۹، ۲۳۹، ۲۷۹، ۴۹۰)، دي/الأضاحي ۸ (۲۰۰۷) (صحیح)
۱۵۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (اسلام میں) نہ فرع ہے نہ عتیرہ ، ''فرع'' جانور کا وہ پہلا بچہ ہے جو کافروں کے یہاں پیداہوتاتو وہ اسے (بتوں کے نام پر)ذبح کردیتے تھے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں نبیشہ ، مخنف بن سلیم اورابوالعشراء سے بھی احادیث آئی ہیں، ابوالعشراء اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،۳- ''عتیرہ وہ ذبیحہ ہے جسے اہل مکہ رجب کے مہینہ میں اس ماہ کی تعظیم کے لیے ذبح کرتے تھے اس لیے کہ حرمت کے مہینوں میں رجب پہلا مہینہ ہے، اورحرمت کے مہینے رجب ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، اورمحرم ہیں، اورحج کے مہینے شوال، ذی قعدہ اورذی الحجہ کے (ابتدائی)دس دن ہیں۔حج کے مہینوں کے سلسلہ میں بعض صحابہ اوردوسرے لوگوں سے اسی طرح مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَقِيقَةِ
۱۶-باب: عقیقہ کا بیان​


1513- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمَنِ فَسَأَلُوهَا عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَأَخْبَرَتْهُمْ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ كُرْزٍ وَبُرَيْدَةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَنَسٍ وَسَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَفْصَةُ هِيَ بِنْتُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
* تخريج: ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۱۳)، وحم (۶/۳۱، ۱۵۸، ۲۵۱) (صحیح)
۱۵۱۳- یوسف بن ماہک سے روایت ہے: لوگ حفصہ بنت عبدالرحمن کے پاس گئے اور ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے بیان کیا کہ (اُن کی پھوپھی )ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کوبتایاکہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ایک جیسی اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- حفصہ ، عبدالرحمن بن ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں،۳- اس باب میں علی ، ام کرز ، بریدہ ، سمرہ ،ابوہریرہ ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیاجاتاہے، یہ بھی کہاگیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جوجانور ذبح کیاجاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ '' عق'' سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہاگیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیاجاتاہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیے، '' شاۃ '' کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے، عقیقہ کے جانور کادو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ '' شاۃ '' کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ ''شأة'' کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرمﷺ صرف ''شأة'' کا تذکرہ نہ فرماتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب الأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ
۱۷-باب: نومولودکے کان میں اذان کہنے کا بیان​


1514- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالاَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلاَةِ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ فِي الْعَقِيقَةِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ، وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا أَنَّهُ عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِشَاةٍ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/الأدب ۱۱۶ (۵۱۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۲۰) وحم (۶/۹، ۳۹۱، ۳۹۲) (ضعیف)
(سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہیں، اور اس معنی کی ابن عباس کی حدیث میں ایک کذاب راوی ہے۔ دیکھیے الضعیفۃ رقم ۳۲۱ و ۶۱۲۱)
۱۵۱۴- ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کودیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے حسن کے کان میں صلاۃ کی اذان کی طرح اذان دی ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرمﷺ سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ایک جیسی اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے ،۳- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی، بعض اہل علم کامسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔


1515- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنِ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَعَ الْغُلاَمِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى".
* تخريج: خ/العقیقۃ ۲ (۵۳۷۱)، د/الضحایا ۲۱ (۲۸۳۹)، ن/العقیقۃ ۲ (۴۲۱۹)، ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۵)، وحم (۴/۱۷، ۱۸، ۲۱۴) دي/الأضاحي ۹ (۲۰۱۰) (صحیح)
1515/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ الأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنِ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۱۵۱۵- سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ لازم ہے، لہذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اوراس سے گندگی دورکرو''۔
۱۵۱۵/م- اس سند سے بھی سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث روایت مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


1516- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ سِبَاعِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ سِبَاعٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ كُرْزٍ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَقَالَ: "عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ، وَعَنِ الأُنْثَى وَاحِدَةٌ، وَلاَيَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا". قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الضحایا ۲۱ (۲۸۸۳۴-۲۸۳۵)، ن/العقیقۃ ۲ (۴۲۲۰)، ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۱)، وحم (۶/۳۸۱، ۴۲۲) دي/الأضاحي ۹ (۲۰۰۹) (صحیح)
۱۵۱۶- ام کرز رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھاتوآپ نے فرمایا: ''لڑکے کی طرف سے دوبکریاں اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانورنریاہومادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- باب
۱۸-باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب​


1517- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أَبُوالْمُغِيرَةِ، عَنْ عُفَيْرِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خَيْرُ الأُضْحِيَّةِ الْكَبْشُ وَخَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: ق/الأضاحي ۴ (۳۱۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۶۶) (ضعیف)
(سند میں ''عفیربن معدان'' ضعیف ہیں)
۱۵۱۷- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''قربانی کے جانوروں میں سب سے بہتر مینڈھاہے اورسب سے بہترکفن حلہ (تہبنداورچادر)ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- عفیربن معدان حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں۔
 
Top