• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- باب
۱۹-باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب​


1518- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَمْلَةَ، عَنْ مِخْنَفِ بْنِ سُلَيْمٍ قَالَ: كُنَّا وُقُوفًا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَرَفَاتٍ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "يَاأَيُّهَا النَّاسُ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةٌ وَعَتِيرَةٌ هَلْ تَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ هِيَ الَّتِي تُسَمُّونَهَا الرَّجَبِيَّةَ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ.
* تخريج: د/الأضاحي ۱ (۲۷۸۸)، ن/الفرع والعتیرۃ ۱ (۴۲۲۹)، ق/الأضاحي ۲ (۳۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۴۴)، وحم (۴/۲۱۵) و (۵/۷۶) (حسن)
۱۵۱۸- مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم لوگ نبی اکرمﷺکے ساتھ میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں نے آپ کو فرماتے سنا: لوگو! ہرگھروالے پرہرسال ایک قربانی اورعتیرہ ہے، تم لوگ جانتے ہوعتیرہ کیا ہے؟عتیرہ وہ ہے جسے تم لوگ رجبیہ کہتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اس کو ابن عون ہی کی سندسے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱ ؎ : جو بعد میں منسوخ ہوگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب الْعَقِيقَةِ بِشَاةٍ
۲۰-باب: عقیقہ میں ایک بکری ذبح کرنے کا بیان​


1519- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: عَقَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنِ الْحَسَنِ بِشَاةٍ، وَقَالَ: "يَا فَاطِمَةُ! احْلِقِي رَأْسَهُ وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً". قَالَ: فَوَزَنَتْهُ فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۶۱) (حسن)
( سند میں ''محمدبن علی ابوجعفرالصادق'' اور''علی رضی اللہ عنہ '' کے درمیان انقطاع ہے ، مگر حاکم کی راویت (۴/۲۳۷) متصل ہے ، نیز اس کے شواہد بھی ہیں جسے تقویت پاکر حدیث حسن لغیرہ ہے)
۱۵۱۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے حسن کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کیا، اورفرمایا:'' فاطمہ ! اس کا سرمونڈدواوراس کے بال کے برابرچاندی صدقہ کرو''، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے بال کو تولا تو اس کا وزن ایک درہم کے برابریا اس سے کچھ کم ہوا ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس کی سند متصل نہیں ہے ، اورراوی ابوجعفرالصادق محمد بن علی بن حسین نے علی بن ابی طالب کو نہیں پایاہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں دلیل ہے کہ نومولود کے سرکا بال وزن کرکے اسی کے برابر چاندی صدقہ کیاجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- باب
۲۱- باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب​


1520- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ السَّمَّانُ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ ثُمَّ نَزَلَ فَدَعَا بِكَبْشَيْنِ فَذَبَحَهُمَا. قَالَ أَبُوعِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/القسامۃ (الحدود) ۹ (۱۶۷۹)، ن/الضحایا ۱۴ (۴۳۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸۳) (صحیح)
۱۵۲۰- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے خطبہ دیا، پھر(منبرسے) اترے پھر آپ نے دومینڈھے منگائے اوران کو ذبح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(یہ عید الاضحی کی صلاۃ کے بعد کیا تھا، دیکھیے اگلی حدیث )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-باب
۲۲-باب: قربانی سے متعلق ایک اور باب​


1521- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنِ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ الأَضْحَى بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا قَضَى خُطْبَتَهُ نَزَلَ عَنْ مِنْبَرِهِ فَأُتِيَ بِكَبْشٍ فَذَبَحَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِيَدِهِ وَقَالَ: "بِسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ إِذَا ذَبَحَ بِسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرُ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ حَنْطَبٍ يُقَالُ إِنَّهُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ جَابِرٍ.
* تخريج: د/الضحایا۸ (۲۸۱۰)، ق/الأضاحي ۱ (۳۱۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۹۹)، وحم (۳/۳۵۶، ۳۶۲)، ودي/الأضاحي۱ (۱۹۸۹) (صحیح)
(''مطلب ''کے ''جابر'' رضی اللہ عنہ سے سماع میں اختلاف ہے ، مگرشواہد ومتابعات کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، الإرواء ۱۱۳۸، وتراجع الألبانی ۵۸۰)
۱۵۲۱- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ عیدالاضحی کے دن عیدگاہ گیا، جب آپ خطبہ ختم کرچکے تو منبرسے نیچے اترے، پھر ایک مینڈھالایاگیا تو آپﷺ نے اس کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا، اور(ذبح کرتے وقت ) یہ کلمات کہے : " بِسْمِ اللهِ، وَاللهُ أَكْبَرُ،هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي " ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲- اہل علم صحابہ اوردیگرلوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ جانورذبح کرتے وقت آدمی یہ کہے ''بسم اللہ واللہ اکبر''ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، کہاجاتاہے،۳- راوی مطلب بن عبداللہ بن حنطب کاسماع جابرسے ثابت نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : میں اللہ کے نام سے شروع کرتاہوں اوراللہ سب سے بڑا ہے ، یہ میری طرف سے اورمیری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے ، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے۔ (یہ آخری جملہ اس بابت واضح اور صریح ہے کہ آپ ﷺ نے امت کے ان افراد کی طرف سے قربانی کی جو زندہ تھے اور مجبوری کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکے تھے، اس میں مردہ کو شامل کرنا زبردستی ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-باب
۲۳- باب: عقیقہ سے متعلق ایک اور باب​


1522- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْغُلاَمُ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ يُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ وَيُسَمَّى وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ".
* تخريج: خ/العقیقۃ ۲ (۵۴۷۲)، (اشارۃ بعد حدیث سلمان الضبي) د/الضحایا ۲۱ (۲۸۳۷)، ن/العقیقۃ ۵ (۴۲۲۵)، ق/الذبائح ۱ (۳۱۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۱)، وحم (۵/۷، ۸، ۱۲، ۱۷، ۱۸، ۲۲) ودي/الأضاحي ۹ (۲۰۱۲) (صحیح)
1522/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُذْبَحَ عَنْ الْغُلاَمِ الْعَقِيقَةُ يَوْمَ السَّابِعِ، فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ يَوْمَ السَّابِعِ فَيَوْمَ الرَّابِعَ عَشَرَ، فَإِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عُقَّ عَنْهُ يَوْمَ حَادٍ وَعِشْرِينَ، وَقَالُوا : لاَ يُجْزِئُ فِي الْعَقِيقَةِ مِنَ الشَّاةِ إِلاَّ مَا يُجْزِئُ فِي الأُضْحِيَّةِ.
*تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۴۵۷۴) (صحیح)
۱۵۲۲- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہربچہ عقیقہ کے بدلے گروی رکھاہواہے ۱؎ ، پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیاجائے، اس کا نام رکھا جائے اوراس کے سرکے بال منڈائے جائیں''۔
۱۵۲۲/م- اس سند سے بھی سمرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ بچے کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کرنامستحب سمجھتے ہیں، اگرساتویں دن نہ کرسکے توچودہویں دن ، اگرپھربھی نہ کرسکے تو اکیسویں دن عقیقہ کیاجائے، یہ لوگ کہتے ہیں: اسی بکری کا عقیقہ درست ہوگا جس کی قربانی درست ہوگی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''مرتهن'' کے مفہوم میں اختلاف ہے: سب سے عمدہ بات وہ ہے جوامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمائی ہے کہ یہ شفاعت کے متعلق ہے، یعنی جب بچہ مرجائے اور اس کا عقیقہ نہ کیاگیا ہو تو قیامت کے دن وہ اپنے والدین کے حق میں شفاعت نہیں کرسکے گا، ایک قول یہ ہے کہ عقیقہ ضروری اور لازمی ہے اس کے بغیر چارہ کار نہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بالوں کی گندگی وناپاکی میں مرہون ہے، اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ اس سے گندگی کو دور کرو۔
وضاحت ۲؎ : اس سلسلہ میں صحیح حدیث تو درکنار کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں ملتی جس سے اس شرط کے قائلین کی تائید ہوتی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب تَرْكِ أَخْذِ الشَّعْرِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ
۲۴-باب: جوقربانی کرناچاہتاہووہ بال نہ کاٹے​


1523- حدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَكَمِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرٍو أَوْ عُمَرَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ رَأَى هِلاَلَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ فَلاَ يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلاَ مِنْ أَظْفَارِهِ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالصَّحِيحُ هُوَ عَمْرُو بْنُ مُسْلِمٍ، قَدْ رَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ نَحْوَ هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ كَانَ يَقُولُ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَإِلَى هَذَا الْحَدِيثِ ذَهَبَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ، فَقَالُوا: لاَ بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ شَعَرِهِ وَأَظْفَارِهِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَبْعَثُ بِالْهَدْيِ مِنْ الْمَدِينَةِ فَلاَ يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ مِنْهُ الْمُحْرِمُ.
* تخريج: م/الأضاحي ۷ (۱۹۷۷)، د/الضحایا ۳ (۲۷۹۱)، ن/الضحایا ۱ (۴۳۶۷)، ق/الأضاحي ۱۱ (۳۱۴۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۵۲)، وحم (۶/۲۸۹، ۳۰۱)، ۳۱۱)، دي/الأضاحي ۲ (۱۹۹۰) (صحیح)
۱۵۲۳- ام المو منین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوماہ ذی الحجہ کاچانددیکھے اور قربانی کرنا چاہتاہووہ (جب تک قربانی نہ کرلے) اپنا بال اورناخن نہ کاٹے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ـ یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- (عمرواورعمرمیں کے بارے میں) صحیح عمروبن مسلم ہے ، ان سے محمدبن عمرو بن علقمہ اورکئی لوگوں نے حدیث روایت کی ہے، دوسری سندسے اسی جیسی حدیث سعید بن مسیب سے آئی ہے، سعید بن مسیب ابوسلمہ سے اور ابوسلمہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں،۳- بعض اہل علم کا یہی قول ہے، سعیدبن مسیب بھی اسی کے قائل ہیں، احمداوراسحاق بن راہویہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے موافق ہے، ۴-بعض اہل علم نے اس سلسلے میں رخصت دی ہے ، وہ لوگ کہتے ہیں: بال اورناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، شافعی کا یہی قول ہے ، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، نبی اکرمﷺقربانی کاجانور مدینہ روانہ کرتے تھے اورمحرم جن چیزوں سے اجتناب کرتاہے ، آپ ان میں سے کسی چیز سے بھی اجتناب نہیں کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ کی حدیث میں تطبیق کی صورت علماء نے یہ نکالی ہے کہ ام سلمہ کی روایت کو نہی تنزیہی پر محمول کیاجائے گا۔ (واللہ اعلم)

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

18-كِتَاب النُّذُورِ وَالأَيْمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۸-کتاب: نذراورقسم (حلف) کے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ لاَ نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ
۱-باب: معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی​


1524- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ يَصِحُّ لأَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، مِنْهُمْ : مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَتِيقٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْحَدِيثُ هُوَ هَذَا.
* تخريج: د/الأیمان ۲۳ (۳۲۹۰-۳۲۹۲)، ق/الکفارات ۱۶ (۲۱۲۵)، ن/الأیمان ۴۱ (۳۸۶۵-۳۸۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۷۰)، وحم (۶/۲۴۷) (صحیح)
( ملاحظہ ہو: الإرواء رقم: ۲۵۹۰)
۱۵۲۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' معصیت کے کاموں میں نذر جائز نہیں ہے، اوراس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کاکفارہ ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ زہری نے اس کو ابو سلمہ سے نہیں سناہے ،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، انہیں میں موسیٰ بن عقبہ اورابن ابی عتیق ہیں،ان دونوں نے زہری سے بطریق: ''سلمان بن أرقم، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن عائشة، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے، محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : وہ حدیث یہی ہے، (اور آگے آرہی ہے)۳- اس باب میں ابن عمر، جابراورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی، البتہ اس میں قسم کا کفارہ دینا ہوگا، نذر کی اصل انذار ہے جس کے معنی ڈرانے کے ہیں، امام راغب فرماتے ہیں کہ نذر کے معنی کسی حادثہ کی وجہ سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں، قسم کے کفارے کاذکراس آیت کریمہ میں ہے:{لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ} (المائدة: 89) (اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغوقسم پرتم سے مواخذہ نہیں فرماتالیکن مواخذہ اس پر فرماتاہے کہ تم جن قسموں کو موکد کردو، اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجہ کا جو خود کھاتے ہیں وہ کھانا کھلا نا یا کپڑے پہنانا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے، پس جو شخص یہ نہ پائے تو اسے تین صیام رکھنے ہوں گے،یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو میں ہے، یہ حدیث معصیت کی نذر میں کفارہ کے واجب ہونے کا تقاضاکرتی ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کی یہی رائے ہے مگر جمہور علماء اس کے مخالف ہیں، ان کے نزدیک وجوب سے متعلق احادیث ضعیف ہیں، لیکن شارح ترمذی کہتے ہیں کہ باب کی اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں، ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے۔ (واللہ اعلم)


1525- حَدَّثَنَا أَبُوإِسْمَاعِيلَ التِّرْمِذِيُّ وَاسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ابْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَفْوَانَ عَنْ يُونُسَ، وَأَبُوصَفْوَانَ هُوَ مَكِّيٌّ وَاسْمُهُ عَبْدُاللهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ الْحُمَيْدِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ جُلَّةِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، و قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ لاَ نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ، وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: لاَ نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ وَلاَ كَفَّارَةَ فِي ذَلِكَ، وَهُوَقَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۸۲) (صحیح)
(سند میں ''سلیمان بن ارقم'' ضعیف ہیں ،مگر سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )
۱۵۲۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اللہ کی معصیت پرمبنی کوئی نذرجائز نہیں ہے ، اوراس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ـ یہ حدیث غریب ہے، ۲- اورابوصفوان کی اس حدیث سے جسے وہ یونس سے روایت کرتے ہیں، زیادہ صحیح ہے، ۳- ابوصفوان مکی ہیں، ان کانام عبداللہ بن سعید بن عبدالملک بن مروان ہے ، ان سے حمیدی اور کئی بڑے بڑے محدثین نے روایت کی ہے،۴- اہل علم صحابہ کی ایک جماعت اوردوسرے لوگ کہتے ہیں: اللہ کی معصیت کے سلسلے میں کوئی نذرنہیں ہے اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ، احمداوراسحاق کایہی قول ہے، ان دونوں نے زہری کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے وہ ابوسلمہ سے اورابوسلمہ عائشہ سے روایت کرتے ہیں، ۵-بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگ کہتے ہیں: معصیت میں کوئی نذرجائزنہیں ہے ، اوراس میں کوئی کفارہ بھی نہیں ، مالک اورشافعی کا یہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ
۲-باب: جوشخص اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے اللہ کی اطاعت کرنی چاہئے​


1526- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ الأَيْلِيِّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللهَ فَلْيُطِعْهُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللهَ فَلاَ يَعْصِهِ".
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۲۸ (۶۷۰۰)، د/الأیمان ۲۲ (۳۲۸۹)، ن/الأیمان ۲۷ (۳۸۳۹)، ق/الکفارات ۱۶ (۳۱۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۵۸)، وط/النذور ۴ (۸)، وحم (۶/۳۶، ۴۱، ۲۲۴) دي/النذور ۳ (۲۳۸۳) (صحیح)
1526/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ الأَيْلِيِّ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ قَالُوا: لاَ يَعْصِي اللهَ وَلَيْسَ فِيهِ كَفَّارَةُ يَمِينٍ إِذَا كَانَ النَّذْرُ فِي مَعْصِيَةٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۵۲۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوشخص نذرمانے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو وہ اللہ کی اطاعت کرے ، اورجوشخص نذرمانے کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تووہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے '' ۔
۱۵۲۶/م- اس سند سے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے یحییٰ بن ابی کثیر نے بھی قاسم بن محمد سے روایت کیا ہے، ۳- بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا یہی قول ہے ، مالک اورشافعی کا بھی یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور جب نذراللہ کی نافرمانی کی بابت ہو تو اس میں قسم کا کفارہ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3- بَاب مَا جَاءَ لاَ نَذْرَ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ
۳-باب: جوچیز آدمی کے اختیارمیں نہیں اس میں نذر نہیں​


1527- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ عَلَى الْعَبْدِ نَذْرٌ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۴۴ (۶۰۴۷)، م/الإیمان ۴۷ (۱۱۰)، د/الأیمان ۹ (۳۲۵۷)، ن/الأیمان ۷ (۳۸۰۱)، و ۳۱ (۳۸۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۶۲)، وحم (۴/۳۳) (صحیح)
۱۵۲۷- ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بندہ کے اختیار میں جو چیز نہیں ہے اس میں نذر صحیح نہیں ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرواورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نذر مانتے وقت جو چیز بندے کے اختیار میں نہیں ہے اس میں نذر صحیح نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر اس چیز پر اختیار حاصل ہوجائے تو بھی وہ نذر پوری نہیں کی جائے گی، اور نہ ہی اس پر کفارہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ النَّذْرِ إِذَا لَمْ يُسَمَّ
۴-باب: غیرمتعین نذر کے کفارہ کا بیان​


1528- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ ابْنِ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كَفَّارَةُ النَّذْرِ إِذَا لَمْ يُسَمَّ كَفَّارَةُ يَمِينٍ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/النذور ۵ (۱۶۴۵)، د/الأیمان ۳۱ (۳۳۲۳)، ن/الأیمان ۴۱ (۳۸۶۳)، ق/الکفارات ۱۷ (۲۱۲۵)، (تحفۃ الأشراف: ۹۹۶۰)، وحم (۴/۱۴۴، ۱۴۶، ۱۴۷) (صحیح)
(لیکن ''لم یسم'' کا لفظ صحیح نہیں ہے ، اور یہ مؤلف کے سوا کسی کے یہاں ہے بھی نہیں (جبکہ ابوداودنے اسی کا لحاظ رکھ کر ''من نذرنذراً لم یسم'' کا باب باندھاہے)یہ مؤلف کے راوی ''محمد مولیٰ المغیرہ'' کا اضافہ ہے جو خود مجہول راوی ہیں، یہ دیگرکی سندوں میں نہیں ہیں)
۱۵۲۸- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' غیرمتعین نذر کاکفارہ وہی ہے جوقسم کا کفارہ ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس نے کوئی نذر مانی اور اس کا نام نہیں لیا یعنی صرف اتنا کہاکہ اگر میری مراد پوری ہوجائے تومجھ پرنذرہے تو اس کا کفار ہ قسم کا کفارہ ہے۔
 
Top