• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا
۵-باب: کسی کام پرقسم کھانے کے بعد اس سے بہترکام جان جائے تواس کے حکم کا بیان​


1529- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ يُونُسَ هُوَ ابْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَاعَبْدَالرَّحْمَنِ! لاَ تَسْأَلْ الإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أَتَتْكَ عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أَتَتْكَ عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَلْتُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَجَابِرٍ وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ وَأَبِي الدَّرْدَائِ وَأَنَسٍ وَعَائِشَةَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَأَبِي مُوسَى.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأیمان والنذور ۱ (۶۶۲۲)، والکفارات ۱۰ (۶۷۲۲)، والأحکام ۵ (۴۱۴۶)، م/الأیمان ۳ (۱۶۵۲)، د/الخراج ۲ (۲ (۲۹۲۹)، ن/آداب القضاۃ ۵ (۵۳۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۹۵)، وحم (۵/۶۶) ودي/النذور ۹ (۲۳۹۱) (صحیح)
۱۵۲۹- عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عبدالرحمن ! منصب امارت کامطالبہ نہ کرو، اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کرحاصل کیا توتم اسی کے سپردکردیئے جاؤگے ۱؎ ، اوراگروہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد وتوفیق تمہارے شامل ہوگی ، اورجب تم کسی کام پرقسم کھاؤ پھردوسرے کام کو اس سے بہترسمجھو توجسے تم بہتر سمجھتے ہواسے ہی کرو اور اپنی قسم کاکفارہ اداکردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبدالرحمن بن سمرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، جابر، عدی بن حاتم ، ابوالدرداء ، انس، عائشہ ، عبداللہ بن عمرو، ابوہریرہ ، ام سلمہ اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ کی نصرت وتائید تمہیں حاصل نہیں ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي الْكَفَّارَةِ قَبْلَ الْحِنْثِ
۶-باب: قسم توڑ نے سے پہلے قسم کا کفارہ اداکرنے کا بیان​


1530- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ وَلْيَفْعَلْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْكَفَّارَةَ قَبْلَ الْحِنْثِ تُجْزِئُ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ ابْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لاَ يُكَفِّرُ إِلاَّ بَعْدَ الْحِنْثِ، قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: إِنْ كَفَّرَ بَعْدَ الْحِنْثِ أَحَبُّ إِلَيَّ وَإِنْ كَفَّرَ قَبْلَ الْحِنْثِ أَجْزَأَهُ.
* تخريج: م/الأیمان ۳ (۶۵۰/۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۳۸)، وحم (۲/۳۶۱) (صحیح)
۱۵۳۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوآدمی کسی امرپر قسم کھائے ، اور اس کے علاوہ کام کواس سے بہترسمجھے تووہ اپنی قسم کاکفارہ اداکرے اور وہ کام کرے(جسے وہ بہترسمجھتاہے)''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اکثراہل علم صحابہ اوردیگرلوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ اداکرنا صحیح ہے، مالک بن انس، شافعی، احمداوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے ،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: حانث ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعدہی کفارہ اداکیاجائے گا، ۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: اگرکوئی حانث ہونے (یعنی قسم توڑنے) کے بعدکفارہ اداکرے تومیرے نزدیک زیادہ اچھا ہے اوراگرحانث ہونے سے پہلے کفارہ اداکرے تو بھی درست ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عبدالرحمن بن سمرہ کی حدیث جو اس سے پہلے مذکور ہے اور باب کی اس حدیث کے الفاظ مجموعی طورپر قسم توڑنے کی صورت میں کفارہ کی ادائیگی کو پہلے بھی اسی طرح جائز بتاتے ہیں جس طرح اس کے بعد جائز بتاتے ہیں، جمہور کا یہی مسلک ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے اداکرنا کسی حالت میں صحیح نہیں ہے تو ابوداود کی حدیث ''فكفر عن يمينك ثم ائت الذي هو خير'' ان کے خلاف حجت ہے اس میں کفارہ کے بعد '' ثم '' کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7- بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِثْنَائِ فِي الْيَمِينِ
۷-باب: قسم میں ان شاء اللہ کہنے کا بیان​


1531- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبِي وَحَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَقَالَ إِنْ شَائَ اللهُ فَلاَ حِنْثَ عَلَيْهِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا مَوْقُوفًا، وَلاَ نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، و قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَكَانَ أَيُّوبُ أَحْيَانًا يَرْفَعُهُ وَأَحْيَانًا لاَ يَرْفَعُهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الاسْتِثْنَائَ إِذَا كَانَ مَوْصُولاً بِالْيَمِينِ فَلاَ حِنْثَ عَلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الأیمان ۱۱ (۳۲۶۱)، ن/الأیمان ۱۸ (۳۸۰۲)، و۳۹ (۳۸۳۸)، ق/الکفارات ۶ (۲۱۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۷)، وحم (۲/۶، ۱۰، ۴۸، ۱۵۳) (صحیح)
۱۵۳۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے کسی امرپرقسم کھائی اورساتھ ہی ان شاء اللہ کہا، تواس قسم کو توڑ نے کا کفارہ نہیں ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو عبیداللہ بن عمروغیرہ نے نافع سے، نافع نے ابن عمرسے موقوفاروایت کیا ہے، اسی طرح اس حدیث کو سالم بن علیہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاًروایت کی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ایوب سختیانی کے سواکسی اور نے بھی اسے مرفوعاًروایت کیا ہے، اسماعیل بن ابراہیم کہتے ہیں: ایوب اس کو کبھی مرفوعاروایت کرتے تھے اورکبھی مرفوعانہیں روایت کرتے تھے،۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۴- اکثراہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے کہ جب قسم کے ساتھ '' إن شاء اللہ'' کا جملہ ملاہوتواس قسم کو توڑ نے کا کفارہ نہیں ہے، سفیان ثوری، اوزاعی ، مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کی رو سے قسم کھانے والا ساتھ ہی اگر'' إن شاء اللہ'' کہہ دے تو ایسی قسم توڑنے پر کفارہ نہیں ہوگا، کیوں کہ قسم کو جب اللہ کی مشیئت پر معلق کردیا جائے تووہ قسم منعقد نہیں ہوئی، اورجب قسم منعقد نہیں ہوئی تو توڑنے پر اس کے کفارہ کاکیاسوال؟۔


1532- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ حَلَفَ فَقَالَ إِنْ شَائَ اللَّهُ لَمْ يَحْنَثْ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَاالْحَدِيثِ، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ عَبْدُالرَّزَّاقِ اخْتَصَرَهُ مِنْ حَدِيثِ مَعْمَرٍ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: إِنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ قَالَ: لأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى سَبْعِينَ امْرَأَةً تَلِدُ كُلُّ امْرَأَةٍ غُلاَمًا. فَطَافَ عَلَيْهِنَّ فَلَمْ تَلِدْ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ إِلاَّ امْرَأَةٌ نِصْفَ غُلاَمٍ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ قَالَ إِنْ شَائَ اللهُ لَكَانَ كَمَا قَالَ". هَكَذَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ هَذَاالْحَدِيثُ بِطُولِهِ، وَقَالَ: سَبْعِينَ امْرَأَةً وَقَدْ رُوِيَ هَذَاالْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ: لأَطُوفَنَّ اللَّيْلَةَ عَلَى مِائَةِ امْرَأَةٍ.
* تخريج: ن/الأیمان ۴۳ (۳۸۸۶)، ق/الکفارات ۶ (۲۱۰۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۲۳) (صحیح)
۱۵۳۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے قسم کھائی اوران شاء اللہ کہا، وہ حانث نہیں ہوا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: اس حدیث میں غلطی ہے، اس میں عبدالرزاق سے غلطی ہوئی ہے، انہوں نے اس کو معمرکی حدیث سے اختصار کردیاہے، معمراس کو بسند ابن طاوس عن أبیہ عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺروایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''سلیمان بن داود علیہما السلام نے کہا: (اللہ کی قسم!) آج رات میں ستربیویوں کے پاس ضرورجاؤں گا ، ہرعورت سے ایک لڑکا پیدا ہوگا، وہ ستربیویوں کے پاس گئے، ان میں سے کسی عورت نے بچہ نہیں جنا، صرف ایک عورت نے آدھے (ناقص) بچے کو جنم دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگر انہوں (سلیمان علیہ السلام) نے ''إن شاء اللہ'' کہہ دیاہوتا تو ویسے ہی ہوتاجیسا انہوں نے کہاتھا''، اسی طرح یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ عبدالرزاق سے آئی ہے، عبدالرزاق نے بسند معمرعن ابن طاوس عن أبیہ روایت کی ہے اس میں''على سبعين امرأة '' کے بجائے ''سبعين امرأة '' ہے ، یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دیگر سندوں سے آئی ہے، (اس میں یہ ہے کہ) وہ نبی کرم ﷺ سے (یوں) روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:'' سلیمان بن داودنے کہا: آج رات میں سو بیویوں کے پاس ضرورجاؤں گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس نے قسم نہیں توڑی، اور ایسی قسم توڑنے سے اس پر کفارہ نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْحَلِفِ بِغَيْرِ اللهِ
۸-باب: غیراللہ کی قسم کھانے کی حرمت کا بیان​


1533- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ سَمِعَ النَّبِيُّ ﷺ عُمَرَ، وَهُوَ يَقُولُ: وَأَبِي وَأَبِي، فَقَالَ: أَلاَ إِنَّ اللهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَقَالَ عُمَرُ: فَوَاللهِ! مَا حَلَفْتُ بِهِ بَعْدَ ذَلِكَ ذَاكِرًا وَلاَ آثِرًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَقُتَيْلَةَ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُوعِيسَى: قَالَ أَبُوعُبَيْدٍ: مَعْنَى قَوْلِهِ: وَلاَ آثِرًا، أَيْ لَمْ آثُرْهُ عَنْ غَيْرِي يَقُولُ لَمْ أَذْكُرْهُ عَنْ غَيْرِي.
* تخريج: خ/الأدب ۷۴ (۶۱۰۸)، و الأیمان ۴ (۶۶۴۶، وتعلیقاً بعد حدیث ۶۶۴۷) م/الأیمان ۱ (۱۶۴۶/۳)، ن/الأیمان ۴ (۳۷۹۶)، و ۵ (۳۷۹۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۸)، وط/النذور ۹ (۱۴)، وحم (۲/۱۱، ۳۴، ۹۶) (صحیح)
۱۵۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کوکہتے سنا: میرے باپ کی قسم! میرے باپ کی قسم! آپ نے (انہیں بلاکر) فرمایا:'' سنو!اللہ نے تمہیں اپنے باپ دادا کی قسم کھانے سے منع فرمایاہے: عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم اس کے بعدمیں نے(باپ داداکی)قسم نہیں کھائی، نہ جان بوجھ کراورنہ ہی کسی کی بات نقل کرتے ہوے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ثابت بن ضحاک ، ابن عباس، ابوہریرہ، قتیلہ اورعبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- ابوعبیدکہتے ہیں کہ عمرکے قول''ولا آثرا''کے یہ معنی ہیں ''لم آثره عن غيري''(میں نے دوسرے کی طرف سے بھی نقل نہیں کیا) عرب اس جملہ کو ''لم أذكره عن غيري''کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔


1534- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَدْرَكَ عُمَرَ وَهُوَ فِي رَكْبٍ وَهُوَ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ لِيَحْلِفْ حَالِفٌ بِاللهِ أَوْ لِيَسْكُتْ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۸۰۵۸) (صحیح)
۱۵۳۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک قافلہ میں پایا، وہ اپنے باپ کی قسم کھارہے تھے، تورسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' بیشک اللہ تم لوگوں کوباپ ، داداکی قسم کھانے سے منع فرماتاہے، قسم کھانے والااللہ کی قسم کھائے ورنہ چپ چاپ رہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


1535- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُوخَالِدٍ الأَحْمَرُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سَمِعَ رَجُلاً يَقُولُ: لاَ وَالْكَعْبَةِ! فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لاَ يُحْلَفُ بِغَيْرِاللهِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِاللهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ".
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَفُسِّرَ هَذَاالْحَدِيثُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ قَوْلَهُ فَقَدْكَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ عَلَى التَّغْلِيظِ، وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سَمِعَ عُمَرَ يَقُولُ: وَأَبِي وَأَبِي، فَقَالَ: أَلاَ إِنَّ اللهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ ؟ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ قَالَ فِي حَلِفِهِ وَاللاَّتِ وَالْعُزَّى فَلْيَقُلْ لاَإِلَهَ إِلاَّ اللهُ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ الرِّيَائَ شِرْكٌ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذِهِ الآيَةَ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَائَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا الآيَةَ، قَالَ لاَ يُرَائِي.
* تخريج: د/الأیمان ۵ (۳۲۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۴۵)، وحم ۲/۸۷، ۱۲۵) (صحیح)
۱۵۳۵- سعدبن عبیدہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کوکہتے سنا: ایسانہیں قسم ہے کعبہ کی، تواس سے کہا: غیراللہ کی قسم نہ کھائی جائے ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے:'' جس نے غیراللہ کی قسم کھائی اس نے کفرکیایاشرک کیا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- اس حدیث کی تفسیربعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کافرمان ''فقد كفر أو أشرك'' تنبیہ و تغلیظ کے طورپر ہے، اس کی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، نبی اکرمﷺنے عمر کوکہتے سنا: میرے باپ کی قسم، میرے باپ کی قسم! تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ باپ ، داداکی قسم کھانے سے منع فرماتاہے''، نیز ابوہریرہ کی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے لات اورعزیٰ کی قسم کھائی وہ ''لا إله إلا الله''کہے،۳- امام ترمذی کہتے ہیں: یہ نبی اکرمﷺکے اس فرمان کی طرح ہے '' بے شک ریا، شرک ہے، ۴-بعض اہل علم نے آیت کریمہ { فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَائَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا}( الکہف: ۱۱۰) کی یہ تفسیرکی ہے کہ وہ ریا نہ کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَحْلِفُ بِالْمَشْيِ وَلاَ يَسْتَطِيعُ
۹-باب: پیدل چلنے کی قسم کھائے اورنہ چل سکے تو اس کے حکم کا بیان​


1536- حَدَّثَنَا عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: نَذَرَتْ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللهِ، فَسُئِلَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: "إِنَّ اللهَ لَغَنِيٌّ عَنْ مَشْيِهَا، مُرُوهَا فَلْتَرْكَبْ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: إِذَا نَذَرَتِ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ فَلْتَرْكَبْ وَلْتُهْدِ شَاةً.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۳۲) (حسن صحیح)
۱۵۳۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک عورت نے نذرمانی کہ وہ بیت اللہ تک (پیدل) چل کرجائے گی ، نبی اکرم ﷺ سے اس سلسلے میں سوال کیاگیا توآپ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ اس کے (پیدل) چلنے سے بے نیاز ہے ، اسے حکم دو کہ وہ سوار ہو کرجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث اس سندسے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، عقبہ بن عامر اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب عورت (حج کو پیدل) چل کر جانے کی نذرمان لے تووہ سوارہوجائے اورایک بکری دم میں دے۔


1537- حَدَّثَنَا أَبُومُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ ﷺ بِشَيْخٍ كَبِيرٍ يَتَهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ، فَقَالَ: مَا بَالُ هَذَا؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ، قَالَ: "إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ"، قَالَ: فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْكَبَ.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۲۷ (۱۸۶۵)، والأیمان ۳۱ (۶۷۰۱)، م/النذور ۴ (۱۶۴۲)، د/الأیمان ۲۳ (۲۳۰۱)، ن/الأیمان ۴۲ (۳۸۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۲)، وحم (۳/۱۰۶، ۱۱۴، ۱۸۳، ۱۳۵، ۲۷۱) (صحیح)
1537/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَأَى رَجُلاً، فَذَكَرَ نَحْوَهُ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۵۳۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جواپنے دوبیٹوں کے سہارے (حج کے لیے) چل رہاتھا، آپ نے پوچھا: کیامعاملہ ہے ان کا؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول!انہوں نے (پیدل) چلنے کی نذرمانی ہے، آپ نے فرمایا:'' اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بے نیازہے''، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کاحکم دیا۔
۱۵۳۷/م- اس سند سے بھی انس رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اور یہ صحیح حدیث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب فِي كَرَاهِيَةِ النَّذْرِ
۱۰-باب: نذرکی کراہت کا بیان​


1538- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَنْذِرُوا فَإِنَّ النَّذْرَ لاَ يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ كَرِهُوا النَّذْرَ، و قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: مَعْنَى الْكَرَاهِيَةِ فِي النَّذْرِ فِي الطَّاعَةِ وَالْمَعْصِيَةِ، وَإِنْ نَذَرَ الرَّجُلُ بِالطَّاعَةِ فَوَفَّى بِهِ فَلَهُ فِيهِ أَجْرٌ، وَيُكْرَهُ لَهُ النَّذْرُ.
* تخريج: خ/الأیمان ۲۶ (۶۶۹۲)، م/النذور ۲ (۱۶۴۰)، د/الأیمان ۲۱ (۳۲۸۸)، ن/الأیمان ۲۵ (۳۸۳۵)، و ۲۶ (۳۸۳۶)، ق/الکفارات ۱۵ (۲۱۲۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۰۰)، وحم (۲/۲۳۵، ۳۰۱، ۳۱۴، ۴۱۲، ۴۶۳) (صحیح)
۱۵۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' نذرمت مانو، اس لیے کہ نذرتقدیرکے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اورکنجوس کامال اس طریقہ سے نکال لیاجاتاہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کا اسی پرعمل ہے، وہ لوگ نذرکومکروہ سمجھتے ہیں،۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: نذرکے اندرکراہیت کا مفہوم طاعت اورمعصیت دونوں سے متعلق ہے، اگرکسی نے اطاعت کی نذرمانی اور اسے پوراکیا تو اسے اس نذر کے پورا کرنے کا اجرملے گا، لیکن یہ نذرمکروہ ہوگی ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : نذر سے منع کرنا دراصل بہتر کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے، صدقہ وخیرات کو مقصود کے حصول سے معلق کرنا کسی بھی صاحب عظمت ومروت کے شایان شان نہیں، یہ عمل اس بخیل کا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا اور کرنے پر بہترچیز کی خواہش رکھتا ہے اور ایسا وہی شخص کرتاہے جس کا دل صدقہ و خیرات کرنا نہیں چاہتا صرف کسی تنگی کے پیش نظر اصلاح حال کے لیے صدقہ وخیرات کی نذر مانتا ہے، نذر سے منع کرنے کی یہی وجہ ہے (واللہ اعلم ) ۔
وضاحت ۲؎ : اور اگر معصیت کی نذر ہو تو اس کا پورا کرنا صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي وَفَائِ النَّذْرِ
۱۱-باب: نذرپوری کرنے کا بیان​


1539- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَ: " أَوْفِ بِنَذْرِكَ ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، قَالُوا: إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ وَعَلَيْهِ نَذْرُ طَاعَةٍ فَلْيَفِ بِهِ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: لاَ اعْتِكَافَ إِلاَّ بِصَوْمٍ، و قَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ عَلَى الْمُعْتَكِفِ صَوْمٌ إِلاَّ أَنْ يُوجِبَ عَلَى نَفْسِهِ صَوْمًا، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّهُ نَذَرَ أَنْ يَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ بِالْوَفَائِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۳۰۳۲)، و ۱۵ (۳۰۴۲)، و ۱۶ (۲۰۴۳)، والخمس ۱۹ (۳۱۴۴)، والمغازي ۵۴ (۴۳۲۰)، والأیمان ۲۹ (۶۶۹۷)، م/الأیمان ۶ (۱۶۵۶)، د/الأیمان ۳۲ (۳۳۲۵)، ن/الأیمان ۳۶ (۳۸۳۰)، ق/الصیام ۶۰ (۱۷۷۲)، والکفارات ۱۸ (۲۱۱۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۵۰)، وحم (۱/۳۷) وأیضا (۲/۲۰، ۸۲، ۱۵۳) ودي/النذور ۱ (۲۳۷۸) (صحیح)
۱۵۳۹- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول!میں نے جاہلیت میں نذرمانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کروں گا،(تواس کا حکم بتائیں؟) آپ نے فرمایا:'' اپنی نذرپوری کرو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرواورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کامسلک اسی حدیث کے موافق ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی اسلام لائے، اوراس کے اوپر جاہلیت کی نذرطاعت واجب ہوتواسے پوری کرے،۴- بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگ کہتے ہیں کہ بغیرصوم کے اعتکاف نہیں ہے اور دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ معتکف پرصوم واجب نہیں ہے الایہ کہ وہ خود اپنے اوپر (نذر مانتے وقت) صوم واجب کرلے، ان لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے جاہلیت میں ایک رات کے اعتکاف کی نذرمانی تھی، تو نبی اکرمﷺ نے ان کو نذرپوری کرنے کا حکم دیا (اور صوم کا کوئی ذکر نہیں کیا)، احمد اوراسحاق کابھی یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک رات کے لیے مسجد حرام میں اعتکاف کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ كَانَ يَمِينُ النَّبِيِّ ﷺ
۱۲-باب: نبی اکرمﷺ کی قسم کیسی ہوتی تھی؟​


1540- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَعَبْدُاللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَثِيرًا مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَحْلِفُ بِهَذِهِ الْيَمِينِ: "لاَ وَمُقَلِّبِ الْقُلُوبِ". قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/القدر ۱۴ (۶۶۱۷)، والأیمان ۳ (۶۶۲۸)، والتوحید ۱۱ (۷۳۹۱)، د/الأیمان ۱۲ (۳۲۶۳)، ن/الأیمان ۱ (۳۷۷۰)، ق/الکفارات ۱ (۲۰۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۲۴)، وحم (۲/۲۶، ۶۷، ۶۸، ۱۲۷) (صحیح)
۱۵۴۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قسم کھاتے تھے تو اکثر''لا ومقلب القلوب''کہتے تھے (نہیں، دلوں کے بدلنے والے کی قسم) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں ر سول اللہ ﷺ کے قسم کھانے کا انداز وطریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے سے جوبات چل رہی تھی اگر صحیح نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ '' لا'' سے اس کی نفی اور تردید فرماتے، پھر اللہ کے صفاتی نام سے اس کی قسم کھاتے، یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء سے قسم کھانی جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً
۱۳-باب: غلام آزادکرنے کے ثواب کا بیان​


1541- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ مَرْجَانَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً أَعْتَقَ اللهُ مِنْهُ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهُ عُضْوًا مِنَ النَّارِ حَتَّى يَعْتِقَ فَرْجَهُ بِفَرْجِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَعَمْرِو بْنِ عَبْسَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَوَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ وَأَبِي أُمَامَةَ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَابْنُ الْهَادِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ، وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ، قَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: خ/العتق ۱ (۲۵۱۷)، والکفارات ۶ (۶۷۱۵)، م/العتق ۵ (۱۵۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۸۸ (صحیح)
۱۵۴۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' جس نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا، اللہ اس غلام کے ہر عضوکے بدلے آزاد کرنے والے کے ایک ایک عضوکوآگ سے آزاد کرے گا، یہاں تک کہ اس (غلام)کی شرم گاہ کے بدلے اس کی شرم گاہ کو آزاد کرے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح ،غریب ہے ، ۲- اس باب میں عائشہ ، عمروبن عبسہ ، ابن عباس ، واثلہ بن اسقع ، ابوامامہ، عقبہ بن عامراورکعب بن مرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس باب اور اگلے باب میں مذکور احادیث کا تعلق ''كتاب الأيمان'' سے یہ ہے کہ قسم کے کفارہ میں پہلے غلام آزاد کرنا ہی ہے، واللہ اعلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَلْطِمُ خَادِمَهُ
۱۴-باب: خادم کوطمانچہ مارنے والے کا بیان​


1542- حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا سَبْعَةَ إِخْوَةٍ مَا لَنَا خَادِمٌ إِلاَّ وَاحِدَةٌ فَلَطَمَهَا أَحَدُنَا فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ نُعْتِقَهَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِي الْحَدِيثِ قَالَ: لَطَمَهَا عَلَى وَجْهِهَا.
* تخريج: م/الأیمان ۸ (۱۶۵۸)، د/الأدب ۱۳۳ (۵۱۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۱۱)، وحم (۳/۴۴۸)، و(۵/۴۴۴) (صحیح)
۱۵۴۲- سوید بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :صورتِ حال یہ تھی کہ ہم سات بھائی تھے، ہمارے پاس ایک ہی خادمہ تھی، ہم میں سے کسی نے اس کوطمانچہ ماردیا، تو نبی اکرمﷺ نے حکم دیاکہ ہم اس کوآزاد کردیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اسے حصین بن عبدالرحمن سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اپنی روایت میں یہ ذکر کیا ہے کہ سویدبن مقرن مزنی نے ''لطهما على وجهها'' کہا(یعنی اس نے اس کے چہرے پرطمانچہ مارا)۔ ۳- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
 
Top