15-بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّبَاتِ عِنْدَ الْقِتَالِ
۱۵-باب: جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان
1688- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَائِ بِنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَجُلٌ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَاأَبَاعُمَارَةَ؟! قَالَ: لاَ، وَاللَّهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ وَلَكِنْ وَلَّى سَرَعَانُ النَّاسِ تَلَقَّتْهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَرَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى بَغْلَتِهِ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَرَسُولُ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۶۱ (۲۸۸۴)، و۹۷ (۲۹۳۰)، والمغازي ۵۴ (۴۳۱۵-۴۳۱۷)، م/الجہاد ۲۸ (۱۷۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۸)، وحم (۴/۲۸۹) (صحیح)
۱۶۸۸- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ ! ۱؎ کیاآپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے فرارہوگئے تھے؟ کہا: نہیں ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے پیٹھ نہیں پھیری ، بلکہ جلدباز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کردیا تھا ، رسول اللہ ﷺ اپنے خچرپرسوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچرکی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎ ، اوررسول اللہ ﷺ فرمارہے تھے: ''میں نبی ہوں، جھوٹانہیں ہوں، میں عبدالمطلب کابیٹا ہوں ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔
وضاحت ۲؎ : ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں، مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے، نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے، اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے، اور اسلام قبول کرلیا، پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔
وضاحت ۳؎ : اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے، اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں، اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہاہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں، عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی، یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی، چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا:
''أيكم ابن عبد المطلب؟''۔
1689- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ حُنَيْنٍ وَإِنَّ الْفِئَتَيْنِ لَمُوَلِّيَتَانِ، وَمَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ مِائَةُ رَجُلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللَّهِ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۸۹۴) (صحیح الإسناد)
۱۶۸۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: غزوۂ حنین کے دن ہماری صورت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کی دونوں جماعت پیٹھ پھیرے ہوئی تھی ،اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوآدمی بھی نہیں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اسے ہم عبیداللہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔