• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي الْفِطْرِ عِنْدَ الْقِتَالِ
۱۳-باب: لڑائی کے وقت صوم نہ رکھنے کا بیان​


1684- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَزَعَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: لَمَّا بَلَغَ النَّبِيُّ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ مَرَّ الظَّهْرَانِ فَآذَنَنَا بِلِقَائِ الْعَدُوِّ فَأَمَرَنَا بِالْفِطْرِ فَأَفْطَرْنَا أَجْمَعُونَ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۸۴) (صحیح)
وأخرجہ : م/الصیام ۱۶ (۱۱۲۰)، د/الصیام ۴۲ (۲۴۰۶)، ن/الصیام ۵۹ (۲۳۱۱)
۱۶۸۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فتح مکہ کے سال جب نبی اکرمﷺ مرالظہران ۱؎ پہنچے اورہم کو دشمن سے مقابلہ کی خبردی تو آپ نے صوم توڑنے کا حکم دیا ، لہذا ہم سب لوگوں نے صوم توڑدیا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عمرسے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : مکہ اور عسفان کے درمیان ایک وادی کانام ہے۔
وضاحت ۲؎ : اگر مجاہدین ایسے مقام تک پہنچ چکے ہیں جس سے آگے دشمن سے ملاقات کا ڈرہے تو ایسی صورت میں صوم توڑدینا بہتر ہے، اور اگریہ امریقینی ہے کہ دشمن آگے مقابلہ کے لیے موجود ہے تو صوم توڑدینا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخُرُوجِ عِنْدَ الْفَزَعِ
۱۴- باب: گھبراہٹ کے وقت باہرنکلنے کا بیان​


1685- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: رَكِبَ النَّبِيُّ ﷺ فَرَسًا لأَبِي طَلْحَةَ، يُقَالُ لَهُ مَنْدُوبٌ، فَقَالَ: مَا كَانَ مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الہبۃ ۳۳ (۲۶۲۷)، والجہاد ۵۵ (۲۸۶۷)، م/الفضائل ۱۱ (۲۳۰۷/۴۹)، د/الأدب ۸۷ (۴۹۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۸) (صحیح)
۱۶۸۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ ابوطلحہ کے گھوڑے پرسوار ہوگئے اس گھوڑے کو مندوب کہا جاتاتھا : کوئی گھبراہٹ کی بات نہیں تھی ، اس گھوڑے کو ہم نے چال میں سمندرپایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی بے انتہا تیز رفتار تھا۔


1686- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَأَبُودَاوُدَ قَالُوا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: كَانَ فَزَعٌ بِالْمَدِينَةِ، فَاسْتَعَارَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَرَسًا لَنَا يُقَالُ لَهُ مَنْدُوبٌ، فَقَالَ: مَا رَأَيْنَا مِنْ فَزَعٍ وَإِنْ وَجَدْنَاهُ لَبَحْرًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۶۸۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مدینہ میں گھبراہٹ کا ماحول تھا ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے مندوب نامی گھوڑے کوہم سے عاریۃ لیا ہم نے کوئی گھبراہٹ نہیں دیکھی اورگھوڑے کو چال میں ہم نے سمندرپایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔


1687- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، وَأَجْوَدِ النَّاسِ، وَأَشْجَعِ النَّاسِ، قَالَ: وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى فَرَسٍ لأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: لَمْ تُرَاعُوا، لَمْ تُرَاعُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "وَجَدْتُهُ بَحْرًا يَعْنِي الْفَرَسَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۴ ۲ (۲۸۲۰)، و۸۲ (۲۹۰۸)، و ۱۶۵ (۳۰۴۰)، والأدب ۳۹ (۶۰۳۳)، م/الفضائل ۱۱ (۲۳۰۷/۴۸)، ق/الجہاد ۹ (۲۷۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۹)، (وانظر ما تقدم برقم ۱۶۸۵) (صحیح)
۱۶۸۷- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ سب سے جری(نڈر)، سب سے سخی، اورسب سے بہادرتھے، ایک رات مدینہ والے گھبراگئے، ان لوگوں نے کوئی آواز سنی، چنانچہ نبی اکرمﷺنے تلوار لٹکائے ابوطلحہ کے ایک ننگی پیٹھ والے گھوڑے پر سوار ہوکر لوگوں کے پاس پہنچے اورفرمایا:'' تم لوگ فکرنہ کرو، تم لوگ فکرنہ کرو''، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' میں نے چال میں گھوڑے کو سمندرپایا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّبَاتِ عِنْدَ الْقِتَالِ
۱۵-باب: جنگ میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور ثابت قدم رہنے کا بیان​


1688- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَائِ بِنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَجُلٌ: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَاأَبَاعُمَارَةَ؟! قَالَ: لاَ، وَاللَّهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ وَلَكِنْ وَلَّى سَرَعَانُ النَّاسِ تَلَقَّتْهُمْ هَوَازِنُ بِالنَّبْلِ، وَرَسُولُ اللهِ ﷺ عَلَى بَغْلَتِهِ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَرَسُولُ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۶۱ (۲۸۸۴)، و۹۷ (۲۹۳۰)، والمغازي ۵۴ (۴۳۱۵-۴۳۱۷)، م/الجہاد ۲۸ (۱۷۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۴۸)، وحم (۴/۲۸۹) (صحیح)
۱۶۸۸- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم سے ایک آدمی نے کہا: ابوعمارہ ! ۱؎ کیاآپ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے فرارہوگئے تھے؟ کہا: نہیں ، اللہ کی قسم ! رسول اللہ ﷺ نے پیٹھ نہیں پھیری ، بلکہ جلدباز لوگوں نے پیٹھ پھیری تھی، قبیلہ ہوازن نے ان پر تیروں سے حملہ کردیا تھا ، رسول اللہ ﷺ اپنے خچرپرسوار تھے، ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب خچرکی لگام تھامے ہوئے تھے ۲؎ ، اوررسول اللہ ﷺ فرمارہے تھے: ''میں نبی ہوں، جھوٹانہیں ہوں، میں عبدالمطلب کابیٹا ہوں ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے۔
وضاحت ۲؎ : ابوسفیان بن حارث نبی اکرمﷺ کے چچازاد بھائی ہیں، مکہ فتح ہونے سے پہلے اسلام لے آئے تھے، نبی اکرمﷺ مکہ کی جانب فتح مکہ کے سال روانہ تھے، اسی دوران ابوسفیان مکہ سے نکل کر نبی اکرمﷺ سے راستہ ہی میں جاملے، اور اسلام قبول کرلیا، پھر غزوہ حنین میں شریک ہوئے اور ثبات قدمی کا مظاہرہ کیا۔
وضاحت ۳؎ : اس طرح کے موزون کلام آپ ﷺ کی زبان مبارک سے بلاقصد وارادہ نکلے تھے، اس لیے اس سے استدلال کرنا کہ آپ شعر بھی کہہ لیتے تھے درست نہیں، اور یہ کیسے ممکن ہے جب کہ قرآن خود شہادت دے رہاہے کہ آپ کے لیے شاعری قطعاً مناسب نہیں، عبدالمطلب کی طرف نسبت کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ لوگوں میں مشہورشخصیت تھی، یہی وجہ ہے کہ عربوں کی اکثریت آپ ﷺ کو ابن عبدالمطلب کہہ کر پکارتی تھی، چنانچہ ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے جب آپ کے متعلق پوچھا تو یہ کہہ کر پوچھا: ''أيكم ابن عبد المطلب؟''۔


1689- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ حُنَيْنٍ وَإِنَّ الْفِئَتَيْنِ لَمُوَلِّيَتَانِ، وَمَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ مِائَةُ رَجُلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللَّهِ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۸۹۴) (صحیح الإسناد)
۱۶۸۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: غزوۂ حنین کے دن ہماری صورت حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کی دونوں جماعت پیٹھ پھیرے ہوئی تھی ،اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوآدمی بھی نہیں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اسے ہم عبیداللہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي السُّيُوفِ وَحِلْيَتِهَا
۱۶-باب: تلواراوراس کی زینت کا بیان​


1690-حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صُدْرَانَ أَبُو جَعْفَرٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا طَالِبُ بْنُ حُجَيْرٍ، عَنْ هُودِ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ جَدِّهِ مَزِيدَةَ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَى سَيْفِهِ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ، قَالَ طَالِبٌ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفِضَّةِ؛ فَقَالَ: كَانَتْ قَبِيعَةُ السَّيْفِ فِضَّةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَجَدُّ هُودٍ اسْمُهُ مَزِيدَةُ الْعَصَرِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ما یأتي (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۵۴) (ضعیف)
(سند میں ''ہود'' لین الحدیث ہیں)
۱۶۹۰- مزیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ مکہ داخل ہوئے اور آپ کی تلوار سونا اورچاندی سے مزین تھی، راوی طالب کہتے ہیں: میں نے ہودبن عبداللہ سے چاندی کے بارے میں پوچھاتوانہوں نے کہا: قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہودکے داداکا نام مزیدہ عصری ہے، ۳-اس باب میں انس سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : تلوار میں سونے یا چاندی کا استعمال دشمنوں پر رعب قائم کرنے کے لیے ہوا ہوگا، ورنہ صحابہ کرام جو اپنے ایمان میں اعلی مقام پر فائز تھے، ان کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سونے یا چاندی کا استعمال بطور زیب وزینت کریں، یہ لوگ اپنی ایمانی قوت کے سبب ان سب چیزوں سے بے نیاز تھے۔


1691- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنْ فِضَّةٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ: كَانَتْ قَبِيعَةُ سَيْفِ رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنْ فِضَّةٍ.
* تخريج: د/الجہاد ۷۱ (۲۵۸۳، ۲۵۸۴)، ن/الزینۃ ۱۲۰ (۵۳۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۶)، دي/السیر ۲۱ (۲۵۰۱) (صحیح)
۱۶۹۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوارکے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اسی طرح اس حدیث کو ہمام قتادہ سے اور قتادہ انس سے روایت کرتے ہیں ، بعض لوگوں نے قتادہ کے واسطہ سے ، سعید بن ابی الحسن سے بھی روایت کی ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی تلوار کے قبضہ کی گرہ چاندی کی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي الدِّرْعِ
۱۷- باب: زرہ کا بیان​


1692- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنِ الزُّبَيْرِ ابْنِ الْعَوَّامِ، قَالَ: كَانَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ دِرْعَانِ يَوْمَ أُحُدٍ، فَنَهَضَ إِلَى الصَّخْرَةِ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ فَأَقْعَدَ طَلْحَةَ تَحْتَهُ، فَصَعِدَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَيْهِ حَتَّى اسْتَوَى عَلَى الصَّخْرَةِ فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "أَوْجَبَ طَلْحَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وأعادہ في المناقب برقم ۳۷۳۸ (تحفۃ الأشراف: ۳۶۲۸) (صحیح)
۱۶۹۲- زبیربن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: غزوئہ احدکے دن نبی اکرمﷺ کے جسم پر دوزرہیں تھیں ۱؎ ، آپ چٹان پر چڑھنے لگے،لیکن نہیں چڑھ سکے ، آپ نے طلحہ بن عبیداللہ کو اپنے نیچے بٹھایا، پھر آپ ان پر چڑھ گئے یہاں تک کہ چٹان پر سیدھے کھڑے ہوگئے ، زبیر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا: ''طلحہ نے (اپنے عمل سے جنت) واجب کرلی''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-اس باب میں صفوان بن امیہ اورسائب بن یزید رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ کا دوزرہیں پہننا توکل اورتسلیم و رضا کے منافی نہیں ہے، بلکہ اسباب و وسائل کو اپنانا توکل و رضاء الٰہی کے عین مطابق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمِغْفَرِ
۱۸-باب: خود کا بیان​


1693- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ،حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ، فَقِيلَ لَهُ: ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: "اقْتُلُوهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُ كَبِيرَ أَحَدٍ رَوَاهُ غَيْرَ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
* تخريج: خ/جزاء الصید ۱۸ (۱۸۴۶)، والجہاد ۱۶۹ (۳۰۴۴)، والمغازي ۴۸ (۴۲۸۶)، واللباس ۱۷ (۵۸۰۸)، م/الحج ۸۴ (۱۳۵۷)، د/الجہاد ۱۲۷ (۲۶۸۵)، ن/الحج ۱۰۷(۲۷۸۰)، ق/الجہاد ۱۸ (۱۸۰۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷)، وط/الحج ۸۱ (۲۴۷)، و حم (۳/۱۰۹، ۱۶۴، ۱۸۰، ۱۸۶، ۲۲۴، ۲۳۱، ۲۳۲، ۲۴۰) دي/المناسک ۸۸ (۱۹۸۱) (صحیح)
۱۶۹۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ فتح مکہ کے سال مکہ داخل ہوے تو آپ کے سرپر خودتھا ، آپ سے کہا گیا : ابن خطل ۱؎ کعبہ کے پردوں میں لپٹاہواہے؟آپ نے فرمایا:'' اسے قتل کردو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ہم میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک زہری سے مالک کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ابن خطل کانام عبداللہ یا عبدالعزی تھا، نبی اکرم ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا:'' جو ہم سے قتال کرے اسے قتل کردیاجائے''، اس کے بعد کچھ لوگوں کانام لیا، ان میں ابن خطل کانام بھی تھا، آپ نے ان سب کے بارے میں فرمایا کہ یہ ''جہاں کہیں ملیں انہیں قتل کردیا جائے خواہ خانہ کعبہ کے پردے ہی میں کیوں نہ چھپے ہوں'' ، ابن خطل مسلمان ہوا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسے زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک انصاری مسلمان کو بھی اس کے ساتھ کردیا، ابن خطل کا ایک غلام جو مسلمان تھا،اس کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ تھا، اس نے اپنے مسلمان غلام کو ایک مینڈھا ذبح کرکے کھانا تیار کرنے کے لیے کہا، اتفاق سے وہ غلام سوگیا، اور جب بیدار ہواتو کھانا تیار نہیں تھا، چنانچہ ابن خطل نے اپنے اس مسلمان غلام کو قتل کردیا، اور مرتد ہوکر مشرک ہوگیا، اس کے پاس دوگانے بجانے والی لونڈیاں تھیں، یہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیاکرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْخَيْلِ
۱۹-باب: گھوڑوں کی فضیلت کا بیان​


1694- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْخَيْرُ مَعْقُودٌ فِي نَوَاصِي الْخَيْلِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَرِيرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَعُرْوَةُ هُوَ ابْنُ أَبِي الْجَعْدِ الْبَارِقِيُّ وَيُقَالُ هُوَ عُرْوَةُ بْنُ الْجَعْدِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَفِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْجِهَادَ مَعَ كُلِّ إِمَامٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
* تخريج: خ/الجہاد ۴۳ (۲۷۵۰)، و۴۴ (۲۷۵۲)، والخمس ۸ (۳۱۱۹)، والمناقب ۲۸ (۳۶۴۳)، م/الإمارۃ ۲۶ (۱۸۷۳)، ن/الخیل ۷ (۴۶۰۴، ۳۶۰۵)، ق/التجارات ۶۹ (۲۳۰۵)، والجہاد ۱۴ (۲۷۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۷)، وحم (۴/۳۷۵، ۳۷۶)، دي/الجہاد ۲۴ (۳۱۱۹) (صحیح)
۱۶۹۴- عروہ بارقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر(بھلائی) بندھی ہوئی ہے، خیرسے مراداجراورغنیمت ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ـ اس باب میں ابن عمر، ابوسعیدخدری، جریر، ابوہریرہ ، اسماء بنت یزید، مغیرہ بن شعبہ اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-امام احمدبن حنبل کہتے ہیں، اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جہاد کا حکم ہرامام کے ساتھ قیامت تک باقی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ وہ گھوڑے ہیں جو جہاد کے لیے استعمال یا جہاد کے لیے تیار کیے جارہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الْخَيْلِ
۲۰-باب: اچھی نسل کے گھوڑوں کا بیان​


1695- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَيْبَانُ - يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ -، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يُمْنُ الْخَيْلِ فِي الشُّقْرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ شَيْبَانَ.
* تخريج: د/الجہاد ۴۴ (۲۵۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۲۹۰)، وحم (۱/۲۷۲) (حسن)
۱۶۹۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''سرخ رنگ کے گھوڑوں میں برکت ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف شیبان کی روایت سے جانتے ہیں۔


1696- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "خَيْرُ الْخَيْلِ الأَدْهَمُ الأَقْرَحُ الأَرْثَمُ، ثُمَّ الأَقْرَحُ الْمُحَجَّلُ طَلْقُ الْيَمِينِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَدْهَمَ فَكُمَيْتٌ عَلَى هَذِهِ الشِّيَةِ".
* تخريج: ق/الجہاد ۱۴ (۲۷۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۲۱)، وحم (۵/۳۰۰) (صحیح)
۱۶۹۶- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بہتر گھوڑے وہ ہیں جو کالے رنگ کے ہوں، جن کی پیشانی اور اوپر کا ہونٹ سفید ہو، پھر ان کے بعد وہ گھوڑے ہیں جن کے چاروں پیر اور پیشانی سفید ہو، اگر گھوڑا کالے رنگ کا نہ ہوتو انہیں صفات کا سرخ سیاہی مائل عمدہ گھوڑا ہے''۔


1697- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۶۹۷- یزید بن ابی حبیب سے اسی سند سے اسی معنی کی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ مَا يُكْرَهُ مِنَ الْخَيْلِ
۲۱-باب: ناپسندیدہ گھوڑوں کا بیان​


1698- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمُ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ النَّخَعِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَرِهَ الشِّكَالَ مِنَ الْخَيْلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَثْعَمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ، وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ هَرِمٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ قَالَ: قَالَ لِي إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ إِذَا حَدَّثْتَنِي فَحَدِّثْنِي عَنْ أَبِي زُرْعَةَ فَإِنَّهُ حَدَّثَنِي مَرَّةً بِحَدِيثٍ ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ فَمَا أَخْرَمَ مِنْهُ حَرْفًا.
* تخريج: م/الإمارۃ ۲۷ (۱۸۷۵)، د/الجہاد ۴۶ (۲۵۴۷)، ن/الخیل ۴ (۳۵۹۶)، ق/الجہاد ۱۴ (۲۷۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۹۰)، وحم (۲/۲۵۰، ۴۳۶، ۴۶۱، ۴۷۶) (صحیح)
۱۶۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کو گھوڑوں میں سے شکال گھوڑا ناپسند تھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے عبداللہ بن یزید خثعمی سے ، بسند ابی زرعہ عن ابی ابوہریرہ عن النبی ﷺ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے ، ابوزرعہ عمروبن جریرکا نام ہرم ہے۔
وضاحت ۱؎ : شکال اس گھوڑے کو کہتے ہیں: جس کے تین پیر سفید ہوں اورایک دوسرے رنگ کا ہو یا جس کا ایک پیر سفید ہواورباقی دوسرے رنگ کے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي الرِّهَانِ وَالسَّبَقِ
۲۲-باب: گھڑدوڑ میں شرط لگانے کا بیان​


1699- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَزِيرٍ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَجْرَى الْمُضَمَّرَ مِنَ الْخَيْلِ مِنْ الْحَفْيَائِ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ وَبَيْنَهُمَا سِتَّةُ أَمْيَالٍ، وَمَا لَمْ يُضَمَّرْ مِنَ الْخَيْلِ مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ وَبَيْنَهُمَا مِيلٌ، وَكُنْتُ فِيمَنْ أَجْرَى فَوَثَبَ بِي فَرَسِي جِدَارًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَنَسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ.
* تخريج: خ/الجہاد ۵۶ (۲۸۶۸)، و۵۷ (۲۸۶۹)، و ۵۸ (۲۸۷۰)، والاعتصام ۶ (۷۳۳۶)، م/الإمارۃ ۲۵ (۱۸۷۰)، د/الجہاد ۶۷ (۲۵۷۵)، ن/الخیل ۱۲ (۳۶۱۳)، و ۱۳ (۳۶۱۴)، ق/الجہاد ۴۴ (۲۸۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۸۹۵)، وط/الجہاد ۱۹ (۴۵)، و حم (۲/۵، ۵۵-۵۶) دي/الجہاد ۳۶ (۲۴۷۳) (صحیح)
۱۶۹۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے تضمیر کیے ہوئے گھوڑوں کی مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑکرائی، ان دونوں کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے ، اورجو تضمیر کیے ہوئے نہیں تھے ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک گھڑ دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے، گھڑدوڑ کے مقابلہ میں میں بھی شامل تھا، چنانچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار کودگیا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ثوری کی روایت سے یہ حدیث صحیح حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ، جابر، عائشہ اورانس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھڑدوڑ ، تیر اندازی، اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے، نبی اکرمﷺ کے دور میں عموماً یہی چیزیں جنگ میں کام آتی تھیں، حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ آج کے دور میں راکٹ ، میزائل، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کاتجربہ حاصل کیاجائے، ساتھ ہی بندوق توپ اور ہرقسم کے جدید جنگی آلات کی تربیت حاصل کی جائے۔


1700- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعِ بْنِ أَبِي نَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ سَبَقَ إِلاَّ فِي نَصْلٍ أَوْ خُفٍّ أَوْ حَافِرٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/الجہاد ۶۷ (۲۵۷۴)، ن/الخیل ۱۴ (۳۶۱۵، ۳۶۱۶، ۳۶۱۹)، ق/الجہاد ۴۴ (۲۸۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۳۸)، وحم (۲/۲۵۶، ۳۵۸، ۴۲۵، ۴۷۴) (صحیح)
۱۷۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ فرمایا:'' مقابلہ صرف تیر، اونٹ اور گھوڑوں میں جائز ہے'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : بشرطیکہ یہ انعام کا مال مقابلے میں حصہ لینے والوں کی طرف سے نہ ہو، اگر ان کی طرف سے ہے تو یہ قمار و جوا ہے جو جائز نہیں ہے، معلوم ہواکہ مقررہ انعام کی صورت میں مقابلے کرانا درست ہے، لیکن یہ مقابلے صرف انہی کھیلوں میں جائز ہیں، جن کے ذریعہ نوجوانوں میں جنگی ودفاعی ٹرینگ ہو، کبوتر بازی، غلیل بازی، پتنگ بازی وغیرہ کے مقابلے تو سراسر ذہنی عیاشی کے سامان ہیں، موجودہ دور کے کھیل بھی بے کار ہی ہیں۔
 
Top