• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ تُنْزَى الْحُمُرُ عَلَى الْخَيْلِ
۲۳-باب: گھوڑی پرگدھے چھوڑنے کی کراہت کا بیان​


1701- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو جَهْضَمٍ مُوسَى بْنُ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَبْدًا مَأْمُورًا مَا اخْتَصَّنَا دُونَ النَّاسِ بِشَيْئٍ إِلاَّ بِثَلاَثٍ: أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوئَ، وَأَنْ لاَ نَأْكُلَ الصَّدَقَةَ، وَأَنْ لاَ نُنْزِيَ حِمَارًا عَلَى فَرَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا، عَنْ أَبِي جَهْضَمٍ فَقَالَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَوَهِمَ فِيهِ الثَّوْرِيُّ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ وَعَبْدُالْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي جَهْضَمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۳۱ (۸۰۸)، ن/الطہارۃ ۱۰۶ (۱۴۱)، والخیل ۱۰ (۳۶۱۱)، ق/الطہارۃ ۴۹ (۴۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۹۱)، وحم (۱/۲۲۵، ۲۳۵، ۲۴۹) (صحیح الإسناد)
۱۷۰۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور مامور بندے تھے، آپ نے ہم کو دوسروں کی بنسبت تین چیزوں کاخصوصی حکم دیا : ہم کو حکم دیا ۱؎ کہ پوری طرح وضوکریں ، صدقہ نہ کھائیں اورگھوڑی پر گدھانہ چھوڑیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- سفیان ثوری نے ابوجہضم سے روایت کرتے ہوے اس حدیث کی سندیوں بیان کی ، عن عبيد الله بن عبدالله بن عباس عن ابن عباس،۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ ثوری کی حدیث غیرمحفوظ ہے، اس میں ثوری سے وہم ہواہے، صحیح وہ روایت ہے جسے اسماعیل بن علیہ اورعبدالوارث بن سعید نے ابوجہضم سے، ابوجہضم عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس سے، اور عبید اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے،۴- اس باب میں علی سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم ایجابی تھا، ورنہ اتمام وضوء سب کے لیے مستحب ہے، اور گدھے کو گھوڑی پر چھوڑنا سب کے لیے مکروہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِفْتَاحِ بِصَعَالِيكِ الْمُسْلِمِينَ
۲۴-باب: غریب اورمسکین مسلمانوں کی دعا کے ذریعہ مددطلب کرنے کا بیان​


1702- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "ابْغُونِي ضُعَفَائَكُمْ فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الجہاد ۷۷ (۲۵۹۴)، ن/الجہاد ۴۳ (۳۱۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۲۳)، وحم (۵/۱۹۸) (صحیح)
۱۷۰۲- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺ کوفرماتے سنا:'' مجھے اپنے ضعیفوں اورکمزوروں میں تلاش کرو، اس لیے کہ تم اپنے ضعیفوں اورکمزوروں کی (دعاؤں کی برکت کی) وجہ سے رزق دیئے جاتے ہواورتمہاری مدد کی جاتی ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں مالدار لوگوں کے لیے نصیحت ہے کہ وہ اپنے سے کمتر درجے کے لوگوں کو حقیر نہ سمجھیں، کیوں کہ انہیں دنیاوی اعتبار سے جو آسانیاں حاصل ہیں یہ کمزوروں کے باعث ہی ہیں، یہ بھی معلوم ہواکہ ان کمزور مسلمانوں کی دعائیں بہت کام آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول نے ان کمزور مسلمانوں کی دعا سے مدد طلب کرنے کو کہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَجْرَاسِ عَلَى الْخَيْلِ
۲۵-باب: گھوڑوں کے گلے میں گھنٹیاں لٹکانے کی کراہت کا بیان​


1703- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ تَصْحَبُ الْمَلاَئِكَةُ رُفْقَةً فِيهَا كَلْبٌ وَلاَجَرَسٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَائِشَةَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/اللباس ۲۷ (۲۱۱۳)، د/الجہاد ۵۱ (۲۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۰۳)، وحم (۲/۲۶۳، ۳۱۱، ۳۲۷، ۳۴۳، ۳۸۵، ۳۹۲، ۴۱۴، ۴۴۴، ۴۷۶)، دي/الاستئذان ۴۴ (۲۷۱۸) (صحیح)
۱۷۰۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' فرشتے مسافروں کی اس جماعت کے ساتھ نہیں رہتے ہیں جس میں کتایا گھنٹی ہو'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، عائشہ، ام حبیبہ اورام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ایسے کتے جو شکار یانگرانی کے لیے ہوں وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، گھوڑے کے گلے میں گھنٹی لٹکانے سے دشمن کو گھوڑے کے مالک کی بابت اطلاع ہوجاتی ہے، اس لیے اسے ناپسند کیاگیا، اور گھنٹی سے مراد ہر وہ چیز ہے جو جانور کی گردن میں لٹکادی جائے تو حرکت کے ساتھ آواز ہوتی رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ مَنْ يُسْتَعْمَلُ عَلَى الْحَرْبِ
۲۶- باب: جنگ کے لیے امیرمقررکرنے کا بیان​


1704- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الأَحْوَصُ بْنُ الْجَوَّابِ أَبُو الْجَوَّابِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ جَيْشَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَعَلَى الآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ فَقَالَ: "إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ" قَالَ: فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا، فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَكَتَبَ مَعِي خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يَشِي بِهِ، فَقَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَرَأَ الْكِتَابَ، فَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ: "مَا تَرَى فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُولُهُ" قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الأَحْوَصِ بْنِ جَوَّابٍ قَوْلُهُ يَشِي بِهِ يَعْنِي النَّمِيمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف واعادہ في المناقب برقم ۳۷۲۵ ، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۱) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ابواسحاق مدلس ومختلط ہیں ، لیکن عمران بن حصین (عند المؤلف برقم ۳۷۱۲) کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے)
۱۷۰۴- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے دولشکرروانہ کیا ۱؎ ، ایک پر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے پرخالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو امیرمقررکیا اورفرمایا :''جب جنگ ہوتوعلی امیرہوں گے ۲؎ ''، علی رضی اللہ عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس میں سے ایک لونڈی لے لی، خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے مجھ کو خط کے ساتھ نبی اکرمﷺ کے پاس روانہ کیا ، میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا ، آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیرہوگیا، پھر آپ نے فرمایا:'' اس آدمی کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے، اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں اللہ اوراس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں میں توصرف قاصدہوں، لہذا آپ خاموش ہوگئے ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف احوص بن جواب کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابن عمرسے بھی حدیث مروی ہے، ۳- '' يشي به'' کا معنی چغل خوری ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ دونوں لشکر یمن کی طرف روانہ کئے گئے تھے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی پہنچتے ہی اگر دشمن سے مقابلہ شروع ہوجائے تو علی رضی اللہ عنہ اس کے امیر ہوں گے، اور اگر دونوں لشکرعلیحدہ علیحدہ رہیں تو ایک کے علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کے خالد رضی اللہ عنہ امیر ہوں گے۔
وضاحت۳؎ : یعنی ایک آدمی کی ماتحتی میں نبی اکرمﷺ نے مجھے بھیجا، اس کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی اور اس کے قلم سے یہ خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اب اس میں میرا کیا قصور ہے یہ سن کر آپ خاموش رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي الإِمَامِ
۲۷-باب: امام اور حاکم کی ذمہ داریوں کا بیان​


1705- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي مُوسَى وَحَدِيثُ أَبِي مُوسَى غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ أَنَسٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: حَكَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ بَشَّارٍ الرَّمَادِيُّ: عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَخْبَرَنِي بِذَلِكَ مُحَمَّدٌ بِنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ بَشَّارٍ، قَالَ: وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ،عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً وَهَذَا أَصَحُّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَرَوَى إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ،عَنِ النَّبِيِّ ﷺ إِنَّ اللَّهَ سَائِلٌ كُلَّ رَاعٍ عَمَّا اسْتَرْعَاهُ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: هَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَإِنَّمَا الصَّحِيحُ عَنْ مُعَاذِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً.
* تخريج: خ/الجمعۃ ۱۱ (۸۹۳)، والاستقراض ۲۰ (۲۴۰۹)، والعتق ۱۷ (۲۵۵۴)، والوصایا ۹ (۲۷۵۱)، والنکاح ۸۱ (۵۲۰۰)، والأحکام ۱(۷۱۳۸)، م/الإمارۃ ۵ (۱۸۲۹)، د/الخراج ۱ (۲۹۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۵)، وحم (۲/۵،۴۵، ۱۱۱، ۱۲۱) (صحیح)
۱۷۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' تم میں سے ہرآدمی نگہبان ہے اوراپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے ، چنانچہ لوگوں کا امیر ان کا نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ، اسی طرح مرداپنے گھروالوں کا نگہبان ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے ،عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگہبان ہے اور اس کے بارے میں جواب دہ ہے، غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اوراس کے بارے میں جواب دہ ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمرکی حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اس باب میں ابوہریرہ ، انس اورابوموسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ابوموسیٰ کی حدیث غیرمحفوظ ہے، اور انس کی حدیث بھی غیرمحفوظ ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسے ابرہیم بن بشاررمادی نے بسندسفیان بن عیینہ عن برید بن عبداللہ بن ابی بردہ عن ابی موسیٰ عن النبیﷺ روایت کیا ہے، اس حدیث کوکئی لوگوں نے بسندسفیان عن بریدعن ابی بردہ عن النبی ﷺ مرسل طریقہ سے روایت کی ہے ، مگر یہ مرسل روایت زیادہ صحیح ہے۔ محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اسحاق بن ابراہیم نے بسندمعاذ بن ہشام عن أبیہ عن قتادہ عن انس عن النبی ﷺ روایت کی ہے : بے شک اللہ تعالیٰ ہرنگہبان سے پوچھے گا اس چیز کے بارے میں جس کی نگہبانی کے لیے اس کو رکھا ہے ، امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا : یہ روایت غیرمحفوظ ہے ، صحیح وہی ہے جو ''عن معاذ بن هشام، عن أبيه، عن قتادة، عن الحسن؛ عن النبي ﷺ''کی سند سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو جس چیز کا ذمہ دار ہے اس سے اس چیز کے متعلق باز پرس بھی ہوگی، اب یہ ذمہ دار کا کام ہے کہ اپنے متعلق یہ احساس و خیال رکھے کہ اسے اس ذمہ دار ی کا حساب وکتاب بھی دینا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي طَاعَةِ الإِمَامِ
۲۸-باب: امام کی اطاعت کر نے کا بیان​


1706- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ الأَحْمَسِيَّةِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَخْطُبُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ قَدِ الْتَفَعَ بِهِ مِنْ تَحْتِ إِبْطِهِ، قَالَتْ: فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى عَضَلَةِ عَضُدِهِ تَرْتَجُّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللهَ وَإِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ مُجَدَّعٌ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا مَا أَقَامَ لَكُمْ كِتَابَ اللَّهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أُمِّ حُصَيْنٍ.
* تخريج: م/الحج ۵۱ (۱۲۹۸/۳۱۱)، والإمارۃ (۱۸۳۸/۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۱۳)، وحم (۶/۴۰۲) (صحیح)
۱۷۰۶- ام حصین احمسیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ کے جسم پر ایک چادرتھی جسے اپنی بغل کے نیچے سے لپیٹے ہوئے تھے، ( گویا میں)آپ کے بازو کا پھڑکتاہواگوشت دیکھ رہی ہوں ، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: ''لوگو ! اللہ سے ڈرو، اوراگرکان کٹا ہواحبشی غلام بھی تمہاراحاکم بنادیاجائے تو اس کی بات مانواور اس کی اطاعت کرو، جب تک وہ تمہارے لیے کتاب اللہ کو قائم کرے'' (یعنی کتاب اللہ کے موافق حکم دے) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- (یہ حدیث ) دوسری سندوں سے بھی ام حصین سے مروی ہے ،۳- اس باب میں ابوہریرہ اورعرباض بن ساریہ سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں امیر کی اطاعت اور اس کی ماتحتی میں رہنے کی ترغیب دی جارہی ہے، اور ہرایسے عمل سے دوررہنے کاحکم دیاجارہاہے جس سے فتنہ کے سر اٹھانے اور مسلمانوں کی اجتماعیت میں انتشار پید ہونے کا اندیشہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ
۲۹-باب: خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائزنہیں​


1707- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ عَلَيْهِ وَلاَ طَاعَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَالْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجہاد ۱۰۸ (۲۹۵۵)، والأحکام ۴ (۷۱۴۴)، م/الإمارۃ ۸ (۱۸۳۹)، د/الجہاد ۹۶ (۲۶۲۶)، ن/البیعۃ ۳۴ (۴۲۱۱)، ق/الجہاد ۴۰ (۲۸۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۸۸)، وحم (۲/۱۷، ۴۲) (صحیح)
۱۷۰۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تک معصیت کا حکم نہ دیاجائے مسلمان پر سمع وطاعت لازم ہے خواہ وہ پسندکرے یا ناپسندکرے ، اور اگر اسے معصیت کا حکم دیاجائے تو نہ اس کے لیے سنناضروری ہے اورنہ اطاعت کرنا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، عمران بن حصین اورحکم بن عمروغفاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی امام کا حکم پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ اسے بجالانا ضروری ہے، بشرطیکہ معصیت سے اس کا تعلق نہ ہو، اگر معصیت سے متعلق ہے تو اس سے گریز کیاجائے گا، لیکن ایسی صورت سے بچنا ہے جس سے امام کی مخالفت سے فتنہ و فساد کے رونما ہونے کا خدشہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ وَالضَّرْبِ وَالْوَسْمِ فِي الْوَجْهِ
۳۰- باب: جانوروں کوباہم لڑانے ، مارنے اور ان کے چہرے پر داغنے کی کراہت کا بیان​


1708- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ قُطْبَةَ بْنِ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ، عَنِ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ.
* تخريج: د/الجہاد ۵۶ (۲۵۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۳۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ابویحییٰ قتات ضعیف ہیں)
۱۷۰۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں کو باہم لڑانے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : منع کرنے کاسبب یہ ہے کہ اس سے جانوروں کو تکلیف اور تکان لاحق ہوگی، نیز اس کام سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں، بلکہ یہ عبث اور لایعنی کاموں میں سے ہے۔


1709- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي يَحْيَى، عَنْ مُجَاهِدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ التَّحْرِيشِ بَيْنَ الْبَهَائِمِ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَيُقَالُ هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ قُطْبَةَ، وَرَوَى شَرِيكٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، عَنْ أَبِي يَحْيَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۸۰) (ضعیف) (ابویحیی قتات ضعیف ہیں ، نیز یہ روایت مرسل ہے)
1709/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو كُرَيْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، وَرَوَى أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ وَأَبُو يَحْيَى هُوَ الْقَتَّاتُ الْكُوفِيُّ وَيُقَالُ اسْمُهُ زَاذَانُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ وَعِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۱۷۰۹- مجاہد سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جانورں کوباہم لڑانے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند میں راوی نے ابن عباس کا ذکرنہیں کیا ہے،۲- کہاجاتاہے ، قطبہ کی (اگلی) حدیث سے یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، اس حدیث کو شریک نے بطریق ''مجاهد، عن ابن عباس، عن النبي ﷺ'' اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں ابویحیی کا ذکرنہیں کیا ہے، ۳- اور ابومعاویہ نے اس کوبطریق ''الأعمش، عن مجاهد، عن النبي ﷺ'' اسی طرح روایت کیا ہے، ابویحییٰ سے مراد ابویحییٰ قتات کوفی ہیں، کہاجاتاہے ان کانام زاذان ہے،۴- اس باب میں طلحہ ، جابر ، ابوسعید اورعکراش بن ذؤیب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1710- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنِ الْوَسْمِ فِي الْوَجْهِ وَالضَّرْبِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/اللباس ۲۹ (۲۱۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۱۶)، وحم (۳/۳۱۸، ۳۷۸) (صحیح)
۱۷۱۰- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے چہرے پرمارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : چہرہ جسم کے اعضاء میں سب سے افضل و اشرف ہے،چہرہ پر مارنے سے بعض حواس ناکام ہوسکتے ہیں، ساتھ ہی چہرہ کے عیب دار ہونے کا بھی خطرہ ہے، اسی لیے مارنے کے ساتھ اس پر کسی طرح کا داغ لگانا بھی ناپسند سمجھا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب مَا جَاءَ فِي حَدِّ بُلُوغِ الرَّجُلِ وَمَتَى يُفْرَضُ لَهُ
۳۱-باب: حدبلوغت کاذکر اور غنیمت سے اس کو کب حصہ دیا جائے گا اس کا بیان​


1711- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي جَيْشٍ، وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ، فَلَمْ يَقْبَلْنِي، ثُمَّ عُرِضْتُ عَلَيْهِ مِنْ قَابِلٍ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَقَبِلَنِي، قَالَ نَافِعٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ، فَقَالَ: هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، ثُمَّ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ لِمَنْ بَلَغَ الْخَمْسَ عَشْرَةَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۳۶۱ (صحیح)
1711/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللهِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ إِلاَّ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ: هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الذُّرِّيَّةِ وَالْمُقَاتِلَةِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَّهُ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ إِسْحَاقَ بْنِ يُوسُفَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۷۹۰۳) (صحیح)
۱۷۱۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ایک لشکرمیں مجھے رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا ، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہادمیں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا ، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکرمیں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، توآپ نے مجھے (لشکرمیں) قبول کرلیا ، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمربن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اوربڑے کے درمیان یہی حدہے ، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہوجائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیاجائے ۱؎ ۔
۱۷۱۱/م- اس سندسے عمرسے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث مروی ہے اور اس میں ہے کہ عمربن عبدالعزیزنے کہا: یہ چھوٹے اورلڑنے والے کے درمیان حدہے ، انہوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ عمربن عبدالعزیزنے مال غنیمت میں سے حصہ متعین کرنے کا فرمان جاری کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسحاق بن یوسف کی حدیث جوسفیان ثوری کی روایت سے آئی ہے ، وہ حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہوجائے تو وہ بلوغت کی حدکو پہنچ جاتا ہے، اسی طرح سے زیرناف بال نکل آنا اوراحتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے، اور لڑکی کو حیض آجائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُسْتَشْهَدُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ
۳۲-باب: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے پرقرض ہوتوکیاحکم ہے؟​


1712- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَامَ فِيهِمْ فَذَكَرَ لَهُمْ: "أَنَّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالإِيمَانَ بِاللهِ أَفْضَلُ الأَعْمَالِ"، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللهِ يُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "نَعَمْ، إِنْ قُتِلْتَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كَيْفَ قُلْتَ؟" قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَيُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "نَعَمْ، وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ إِلاَّ الدَّيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لِي ذَلِكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَمُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ،عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: م/الإمارۃ ۳۲ (۱۸۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۹۸)، وط/الجہاد ۱۴ (۳۱)، وحم (۵/۲۹۷، ۳۰۴، ۳۰۸)، دي/الجہاد ۲۱ (۲۴۵۶) (صحیح)
۱۷۱۲- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کران سے بیان کیا:'' اللہ کی راہ میں جہادکرنااوراللہ پر ایمان لاناسب سے افضل عمل ہے'' ۱؎ ، (یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اورعرض کیا : اللہ کے رسول ! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں،توکیامیر ے گناہ معاف کردیئے جائیں گے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہاں اگرتم اللہ کی راہ میں شہیدہوگئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے ، ثواب کی امید رکھنے والے ہو، آگے بڑھنے والے ہو، پیچھے مڑنے والے نہ ہو''، پھر آپﷺ نے فرمایا:'' تم نے کیسے کہا ہے ؟'' عرض کیا : آپ کا کیا خیا ل ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤں تو کیامیرے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں اگر تم صبرکرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو اور آگے بڑھنے والے ہوپیچھے مڑنے والے نہ ہو، سوائے قرض کے ۲؎ ، یہ مجھ سے جبریل نے (ابھی)کہا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بسندسعید المقبری عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ اسی طرح روایت کی ہے ، یحییٰ بن سعید انصاری اورکئی لوگوں نے اس کو بسندسعیدالمقبری عن عبداللہ بن ابی قتادہ عن أبیہ أبی قتادہ عن النبی ﷺ سے روایت کی ہے ، یہ روایت سعید مقبری کی روایت سے جو بواسطہ ابوہریرہ آئی ہے، زیادہ صحیح ہے،۴- اس باب میں انس ، محمد بن جحش اورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : افضل اعمال کے سلسلہ میں مختلف احادیث میں مختلف اعمال کو افضل بتایاگیا ہے، اس کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں، ان احادیث میں '' أفضل الأعمال '' سے پہلے ''من '' پوشیدہ مانا جائے، مفہوم یہ ہوگا کہ یہ اعمال افضل ہیں، یا ان کا تذکرہ احوال واوقات اور جگہوں کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہے، یہ بھی کہا جاتاہے کہ مخاطب کی روسے مختلف اعمال کی افضلیت کو بیان کیاگیا ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی وہ قرض جس کی ادائیگی کی نیت نہ ہو۔
 
Top