• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّبِّ عَنْ عِرْضِ الْمُسْلِمِ
۲۰-باب: مسلمان کی عزت بچانے کابیان​


1931- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ مَرْزُوقٍ أَبِي بَكْرٍ التَّيْمِيِّ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَائِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ رَدَّ عَنْ عِرْضِ أَخِيهِ رَدَّ اللهُ عَنْ وَجْهِهِ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۹۵) (وانظر حم : ۶/۴۴۹، ۴۵۰) (صحیح)
۱۹۳۱- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جوشخص اپنے بھائی کی عزت (اس کی غیر موجود گی میں ) بچائے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرے کو جہنم سے بچائے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : بعض احادیث میں ''عن عرض أخيه'' کے بعد ''بالغيب'' کا اضافہ ہے، مفہوم یہ ہے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجود گی میں ا س کا دفاع کرے اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرے اس کی بڑی فضیلت ہے، اور اس کا بڑا مقام ہے، اس سے بڑی فضیلت اور کیا ہوسکتی ہے کہ رب العالمین اسے جہنم کی آگ سے قیامت کے دن محفوظ رکھے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْهَجْرِ لِلْمُسْلِمِ
۲۱-باب: مسلمان سے ترک تعلق اور اس سے بے رخی برتنے کی حرمت کابیان​


1932- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثٍ يَلْتَقِيَانِ فَيَصُدُّ هَذَا، وَيَصُدُّ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلاَمِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَنَسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَهِشَامِ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۶۲ (۶۰۷۷)، والإستئذان ۹ (۶۲۳۷)، م/البر والصلۃ ۸ (۲۵۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۷۹) (صحیح)
۱۹۳۲- ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہوتو وہ اس سیمنہ پھیرلے اور یہ اس سے منہ پھیرلے ، اور ان دونوں میں بہتروہ ہے جو پہلے سلام کرے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، انس ، ابوہریرہ ،ہشام بن عامر اورابوہندداری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں، اور اگراس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہوتو علماء کا کہناہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہوجائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جارہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَا جَاءَ فِي مُوَاسَاةِ الأَخِ
۲۲-باب: بھائی کے ساتھ مروت اورغم خواری کابیان​


1933- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ آخَى النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَقَالَ لَهُ: هَلُمَّ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ، وَلِيَ امْرَأَتَانِ، فَأُطَلِّقُ إِحْدَاهُمَا، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا، فَقَالَ: بَارَكَ اللهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ، وَمَالِكَ، دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ، فَدَلُّوهُ عَلَى السُّوقِ، فَمَا رَجَعَ يَوْمَئِذٍ إِلاَّ وَمَعَهُ شَيْئٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ، قَدْ اسْتَفْضَلَهُ، فَرَآهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَعْدَ ذَلِكَ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: " مَهْيَمْ " قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ، قَالَ: "فَمَا أَصْدَقْتَهَا" قَالَ: نَوَاةً، قَالَ: حُمَيْدٌ أَوْ قَالَ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: "أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَزْنُ ثَلاَثَةِ دَرَاهِمَ وَثُلُثٍ، و قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ وَزْنُ خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَذْكُرُ عَنْهُمَا هَذَا.
* تخريج: خ/البیوع ۱ (۲۰۴۹)، والکفالۃ ۲ (۲۲۹۳)، مناقب الأنصار ۳ (۳۷۸۱)، و ۵۰ (۳۹۳۷)، والنکاح ۶۸ (۵۱۶۷)، والأدب ۶۷ (۶۰۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۵۷۱)، وحم (۳/۱۹۰، ۲۰۴، ۲۷۱) (صحیح)
۱۹۳۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (ہجرت کر کے ) مدینہ آئے تونبی اکرمﷺ نے ان کے اورسعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا ، سعد بن ربیع نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا: آؤ تمہارے لیے اپناآدھاما ل بانٹ دوں ، اورمیرے پاس دوبیویاں ہیں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتاہوں، جب اس کی عدت گزر جائے تو اس سے شادی کرلو ،عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارے مال اور تمہاری اولاد میں برکت دے ، مجھے بازارکا راستہ بتاؤ، انہوں نے ان کو بازار کا راستہ بتادیا، اس دن وہ (بازار سے ) کچھ پنیر اورگھی لے کرہی لوٹے جونفع میں انہیں حاصل ہوا تھا ، اس کے (کچھ دنوں) بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کے اوپر زردی کا اثردیکھا تو پوچھا: کیابات ہے؟'' (یہ زردی کیسی) کہا: میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا:'' اس کو مہرمیں تم نے کیا دیا؟'' کہا: ایک (سونے کی) گٹھلی ، (یاگٹھلی کے برابر سونا) آپ نے فرمایا:'' ولیمہ کروا گرچہ ایک بکری ہی کا ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- احمدکہتے ہیں:گٹھلی کے برابرسوناسوا تین درہم کے برابر ہوتا ہے ، ۳- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: گٹھلی کے برابر سونا ، پانچ درہم کے برابر ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي الْغِيبَةِ
۲۳-باب: غیبت چغلی کابیان​


1934- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا الْغِيبَةُ؟ قَالَ: "ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ" قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ؟ قَالَ: "إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ بَهَتَّهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، وَابْنِ عُمَرَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/البر والصلۃ ۲۰ (۲۵۸۹)، د/الأدب ۴۰ (۴۸۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۴)، و حم (۲/۲۳۰، ۴۵۸)، دي/الرقاق ۶ (۲۷۵۶) (صحیح)
۱۹۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے کہا : اللہ کے رسول! غیبت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:'' اس انداز سے اپنے بھائی کاتمہاراذکر کرنا جسے وہ ناپسندکرے'' ، اس نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگروہ چیز اس میں موجودہو جسے میں بیان کررہاہوں؟ آپ نے فرمایا:'' جو تم بیان کررہے ہواگر وہ اس میں موجودہے تو تم نے اس کی غیبت(چغلی) کی ، اورجوتم بیان کررہے ہو اگروہ اس میں موجود نہیں ہے توتم نے اس پر تہمت باندھی '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوبرزہ ، ابن عمراورعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : غیبت (چغلی) حرام اور کبیرہ گناہ ہے، قرآن کریم میں اسے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس حدیث میں بھی اس کی قباحت بیان ہوئی، اور قباحت کی وجہ یہ ہے کہ غیبت کرنے والا اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی عزت وناموس پر حملہ کرتاہے، اور اس کی دل آزاری کا باعث بنتاہے، غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس طورپر کیاجائے کہ جو اسے ناپسند ہو، یہ تذکرہ الفاظ میں ہو،یا اشارہ وکنایہ میں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَسَدِ
۲۴-باب: حسدکابیان​


1935- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاَئِ الْعَطَّارُ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَقَاطَعُوا وَلاَ تَدَابَرُوا وَلاَتَبَاغَضُوا وَلاَتَحَاسَدُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا، وَلاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/الأدب ۵۷ (۶۰۶۵)، ۶۲ (۶۰۷۶)، م/البر والصلۃ ۷ (۲۵۵۹)، د/الأدب ۵۵ (۴۹۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۸)، وحم (۳/۱۹۹) (صحیح)
۱۹۳۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' آپس میں قطع تعلق نہ کرو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ اختیار کرو، باہم دشمنی و بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے حسدنہ کرو، اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے سلام کلام بند رکھے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق، زبیر بن عوام، ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اسلام نے مسلم معاشرہ کی اصلاح اور اس کی بہتری کا خاص خیال رکھا ہے، اس حدیث میں جن باتوں کا ذکر ہے ان کا تعلق بھی اصلاح معاشرہ اور سماج کی سدھار سے ہے، صلہ رحمی کا حکم دیاگیا ہے، ہاہمی بغض و عناد اور دشمنی سے باز رہنے کو کہاگیا ہے، حسد جومعاشرہ کے لیے ایسی مہلک بیماری ہے جس سے نیکیاں جل کر راکھ ہوجاتی ہیں، اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔


1936- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ حَسَدَ إِلاَّ فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالاً فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ هَذَا.
* تخريج: خ/التوحید ۴۵ (۷۵۲۹)، م/صلاۃ المسافرین ۴۷ (۸۱۵)، ق/الزہد ۲۲ (۴۲۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۶۸۱۵)، و حم (۲/۹، ۳۶، ۸۸، ۱۳۳، ۱۵۲) (صحیح)
۱۹۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' صرف دوآدمیوں پر رشک کرنا چاہئے ، ایک اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس میں سے رات دن(اللہ کی راہ میں) خرچ کرتا ہے ، دوسرا اس آدمی پر جس کو اللہ تعالیٰ نے علم قرآن دیا اوروہ رات دن اس کا حق اداکرتا ہے '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابن مسعوداورابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث آئی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : حسد کی دوقسمیں ہیں: حقیقی اور مجازی ، حقیقی حسد یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے پاس موجود نعمت کے ختم ہوجانے کی تمنا وخواہش کرے، حسد کی یہ قسم بالاتفاق حرام ہے، اس کی حرمت سے متعلق صحیح نصوص وارد ہیں، اسی لیے اس کی حرمت پر امت کا اجماع ہے، حسد کی دوسری قسم رشک ہے، یعنی دوسرے کی نعمت کے خاتمہ کی تمنا کیے بغیر اس نعمت کے مثل نعمت کے حصول کی تمنا کرنا، اس حدیث میں حسد کی یہی دوسری قسم مراد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّبَاغُضِ
۲۵-باب: آپس میں بغض رکھنے کی مذمت کابیان​


1937- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَئِسَ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ، وَلَكِنْ فِي التَّحْرِيشِ بَيْنَهُمْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ وَسُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ عَنْ أَبِيهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو سُفْيَانَ اسْمُهُ طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ.
* تخريج: م/المنافقین ۱۶ (۲۸۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۲۳۰۲)، وحم (۳/۳۱۳، ۳۵۴، ۳۶۶، ۳۸۴) (صحیح)
۱۹۳۷- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ مصلی اس کی عبادت کریں گے ، لیکن وہ ان کے درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش میں رہتا ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- اس باب میں انس اورسلیمان بن عمروبن احوص عن أبیہ سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ مسلمان مرتد ہوکر بت پرستی کریں گے، اور شیطان کو پوجیں گے، اس مایوسی کے بعد وہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے ، ان کے اندر بزدلی پیداکرنے، جنگ وجدال اور فتنوں میں انہیں مشغول رکھنے کی کوشش میں لگاہوا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي إِصْلاَحِ ذَاتِ الْبَيْنِ
۲۶-باب: آپس میں صلح کرانے کابیان​


1938- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ عُقْبَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لَيْسَ بِالْكَاذِبِ مَنْ أَصْلَحَ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ خَيْرًا أَوْ نَمَى خَيْرًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الصلح ۲ (۲۶۹۲)، م/البر والصلۃ ۳۷ (۲۶۰۵)، د/الأدب ۵۸ (۴۹۲۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵۳)، وحم (۶/۴۰۴) (صحیح)
۱۹۳۸- ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سنا :'' وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے اور وہ(خود ایک طرف سے دوسرے کے بارے میں) اچھی بات کہے، یا اچھی بات بڑھا کربیان کرے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : لوگوں کے درمیان صلح ومصالحت کی خاطر اچھی باتوں کا سہارا لے کر جھوٹ بولنا درست ہے، یہ اس جھوٹ کے دائرہ میں نہیں آتا جس کی قرآن و حدیث میں مذمت آئی ہے، مثلاً زید سے یہ کہنا کہ میں نے عمر کو تمہاری تعریف کرتے ہوئے سنا ہے وغیرہ، اسی طرح کی بات عمر کے سامنے رکھنا، ایسا شخص جھوٹانہیں ہے، بلکہ وہ ان دونوں کا محسن ہے، اور شریعت کی نظر میں اس کا شمار نیک لوگوں میں ہے۔


1939- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: ح و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ وَأَبُو أَحْمَدَ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلاَّ فِي ثَلاَثٍ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا، وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ، وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ". و قَالَ مَحْمُودٌ فِي حَدِيثِهِ: لاَ يَصْلُحُ الْكَذِبُ إِلاَّ فِي ثَلاَثٍ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَسْمَائَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ خُثَيْمٍ، وَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَسْمَائَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۷۰)، وانظر حم (۶/۴۵۴، ۴۵۹، ۴۶۰) (صحیح)
1939/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ.
* تخريج : تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۱۲) (صحیح)
۱۹۳۹- اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''صرف تین جگہ پر جھوٹ جائزاورحلال ہے ، ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے بات کرے تاکہ اس کو راضی کرلے ، دوسراجنگ میں جھوٹ بولنا اورتیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا'' ۔
ٍ ۱۹۳۹/م - داودبن ابی ہندنے یہ حدیث شہربن حوشب کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن اس میں ''اسماء رضی اللہ عنہا '' کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسماء کی حدیث کو ہم صرف ابن خیثم کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۳-اس باب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي الْخِيَانَةِ وَالْغِشِّ
۲۷-باب: خیانت اوردھوکہ دہی کابیان​


1940- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ لُؤْلُؤَةَ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَنْ ضَارَّ ضَارَّ اللهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللهُ عَلَيْهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۵)، ق/الأحکام ۱۷ (۲۳۴۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۶۶۳)، وحم (۳/۴۵۳) (حسن)
۱۹۴۰- ابوصرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جودوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ تعالیٰ اسے تکلیف دے گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوبکر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس نے کسی مسلمان کو مالی وجانی نقصان اور عزت و آبرو میں ناحق تکلیف دی، اللہ تعالیٰ اس پر اسی جیسی تکلیف ڈال دے گا، اسی طرح جس نے کسی مسلمان سے ناحق جھگڑا کیا اللہ اس پر مشقت نازل کرے گا۔


1941- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ الْعُكْلِيُّ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا فَرْقَدُ السَّبَخِيُّ، عَنْ مُرَّةَ بْنِ شَرَاحِيلَ الْهَمْدَانِيِّ وَهُوَ الطَّيِّبُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَلْعُونٌ مَنْ ضَارَّ مُؤْمِنًا أَوْ مَكَرَ بِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۹) (ضعیف)
(سندمیں فرقد سبخی ضعیف راوی ہیں)
۱۹۴۱- ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' وہ شخص ملعون (یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یااس کو دھوکہ دیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَا جَاءَ فِي حَقِّ الْجِوَارِ
۲۸-باب: پڑوسی کے حقوق کابیان​


1942- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ - هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ - عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۲۸ (۶۰۱۴)، م/البر والصلۃ ۴۲ (۲۶۲۴)، د/الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۱)، ق/الأدب ۴ (۲۶۷۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۴۷)، وحم (۶/۹۱، ۱۲۵) (صحیح)
۱۹۴۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مجھے جبریل علیہ السلام پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ وصیت (تاکید) کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وراثت میں (بھی) شریک ٹھہرادیں گے'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہواکہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کے حقوق کا خیال رکھنے کی اسلام میں کتنی اہمیت اور تاکید ہے۔


1943- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ وَبَشِيرٍ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرٍو ذُبِحَتْ لَهُ شَاةٌ فِي أَهْلِهِ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ، أَهْدَيْتُمْ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَازَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَالْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي شُرَيْحٍ وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا.
* تخريج: د/الأدب ۱۳۲ (۵۱۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۱۹) (صحیح)
۱۹۴۳- مجاہد سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کے لیے ان کے گھرمیں ایک بکری ذبح کی گئی، جب وہ آئے تو پوچھا: کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر (گوشت کا) ہدیہ بھیجا ؟ کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے گھر ہدیہ بھیجا ہے؟ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے ہوئے سناہے : مجھے جبریل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ہمیشہ تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ اسے وارث بنادیں گے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث مجاہد سے عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے،۳- اس باب میں عائشہ ، ابن عباس ، ابوہریرہ ، انس ، مقداد بن اسود، عقبہ بن عامر، ابوشریح اورابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : پڑوسی تین قسم کے ہیں: ایک پڑوسی وہ ہے جو غیرمسلم ہے یعنی کافرو مشرک اور یہودی ، نصرانی ،مجوسی وغیرہ، اسے صرف پڑوس میں رہنے کا حق حاصل ہے، دوسرا وہ پڑوسی ہے جو مسلم ہے، اسے اسلام اور پڑوس میں رہنے کے سبب ان دونوں کا حق حاصل ہے، ایک تیسرا پڑوسی وہ ہے جو مسلم بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ رشتہ ناتے والا بھی ہے، ایسے پڑوسی کو اسلام ، رشتہ داری اور پڑوس میں رہنے کے سبب تینوں حقوق حاصل ہیں،ایسے ہی مسافربھی پڑوسی ہے اس کے ساتھ اس تعلق سے بھی حقوق ہیں۔


1944- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خَيْرُ الأَصْحَابِ عِنْدَ اللهِ خَيْرُهُمْ لِصَاحِبِهِ وَخَيْرُ الْجِيرَانِ عِنْدَاللهِ خَيْرُهُمْ لِجَارِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ اسْمُهُ عَبْدُاللهِ بْنُ يَزِيدَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۸۶۵)، وانظر حم (۲/۱۶۸) (صحیح)
۱۹۴۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے نزدیک سب سے بہتر دوست وہ ہے جو لوگوں میں اپنے دوست کے لیے بہترہے ، اوراللہ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہترہے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29-بَاب مَا جَاءَ فِي الإِحْسَانِ إِلَى الْخَدَمِ
۲۹-باب: خادم اورنوکر کے ساتھ حسن سلوک کرنے کابیان​


1945- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِخْوَانُكُمْ جَعَلَهُمْ اللهُ فِتْيَةً تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِنْ طَعَامِهِ وَلْيُلْبِسْهُ مِنْ لِبَاسِهِ وَلاَ يُكَلِّفْهُ مَا يَغْلِبُهُ فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۲۲ (۳۰)، والتعق ۱۵ (۲۵۴۵)، والأدب ۴۴ (۶۰۵۰)، م/الأیمان والنذور ۱۰ (۱۶۶۱)، ق/الأدب ۱۰ (۳۶۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۰)، وحم (۵/۱۵۸، ۱۷۳) (صحیح)
۱۹۴۵- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کردیا ہے، لہذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم) ہو، وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے ، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اوراسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کردے ، اوراگر اسے کسی ایسے کام کامکلف بناتا ہے ، جو اسے عاجزکردے تو اس کی مدد کرے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، ام سلمہ ، ابن عمراورابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1946- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ يَحْيَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: ق/الأدب ۱۰ (۳۶۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۶۱۸) (ضعیف)
(سندمیں فرقد سبخی ضعیف راوی ہیں)
۱۹۴۶- ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جوخادموں کے ساتھ براسلوک کرتا ہے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ایوب سختیانی اورکئی لوگوں نے راوی فرقد سبخی کے بارے میں ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا ہے ۔
 
Top