• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
40-بَاب مَا جَاءَ فِي السَّخَائِ
۴۰-باب: سخاوت کی فضیلت کابیان​


1960- حَدَّثَنَا أَبُو الْخَطَّابِ زِيَادُ بْنُ يَحْيَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّهُ لَيْسَ لِي مِنْ بَيْتِي إِلاَّمَاأَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ أَفَأُعْطِي، قَالَ: "نَعَمْ، وَلاَ تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ" يَقُولُ: لاَ تُحْصِي فَيُحْصَى عَلَيْكِ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا عَنْ أَيُّوبَ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۲۱ (۱۴۳۳)، و۲۲ (۱۴۳۴)، والہبۃ ۱۵ (۲۵۹۰)، م/الزکاۃ ۲۸ (۱۰۲۹)، د/الزکاۃ ۴۶ (۱۶۹۹)، ن/الزکاۃ ۶۲ (۲۵۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۱۸)، وحم (۶/۳۴۴) (صحیح)
۱۹۶۰- اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! میرے گھر میں صرف زبیر کی کمائی ہے، کیا میں اس میں سے صدقہ وخیرات کروں ؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں ، صدقہ کرو اور گرہ مت لگاؤ ورنہ تمہارے اوپر گرہ لگادی جائے گی '' ۱؎ ۔''لاَ تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ'' کا مطلب یہ ہے کہ شمارکرکے صدقہ نہ کروورنہ اللہ تعالیٰ بھی شمار کرے گا اوربرکت ختم کردے گا ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو ''عن ابن أبي مليكة، عن عباد بن عبدالله بن زبير، عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما'' کی سند سے روایت کی ہے ۳؎ ، کئی لوگوں نے اس حدیث کی روایت ایوب سے کی ہے اوراس میں عبادبن عبیداللہ بن زبیر کا ذکر نہیں کیا ، ۳- اس باب میں عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : بخل نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ برکت ختم کردے گا۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ مال کے ختم ہوجانے کے ڈر سے صدقہ خیرات نہ کرنا منع ہے، کیوں کہ صدقہ وخیرات نہ کرنا ایک اہم سبب ہے جس سے برکت کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے، اس لیے کہ رب العالمین خرچ کرنے اور صدقہ دینے پر بے شمار ثواب اور برکت سے نوازتاہے، مگر شوہر کی کمائی میں سے صدقہ اس کی اجازت ہی سے کی جاسکتی ہے جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی صراحت آئی ہے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی ابن ابی ملیکہ اور اسماء بنت ابی بکر کے درمیان عباد بن عبداللہ بن زبیر کا اضافہ ہے۔


1961- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنْ اللهِ، قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ، قَرِيبٌ مِنْ النَّاسِ، بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ، وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللهِ، بَعِيدٌ مِنَ الْجَنَّةِ، بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ، قَرِيبٌ مِنْ النَّارِ، وَلَجَاهِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَالِمٍ بَخِيلٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنِ الأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَقَدْ خُولِفَ سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَائِشَةَ شَيْئٌ مُرْسَلٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۷۳) (ضعیف جداً)
(سندمیں ''سعید بن محمد الوراق'' سخت ضعیف ہے، بلکہ بعض کے نزدیک متروک الحدیث راوی ہے)
۱۹۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' سخی آدمی اللہ سے قریب ہے ، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دورہے ، بخیل آدمی اللہ سے دورہے ، جنت سے دورہے ، لوگوں سے دورہے، اورجہنم سے قریب ہے ، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابدسے کہیں زیادہ محبوب ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے ''عن يحيى بن سعيد، عن الأعرج، عن أبي هريرة'' کی سند سے صرف سعد بن محمد کی روایت سے جانتے ہیں، اور یحییٰ بن سعیدسے اس حدیث کی روایت کر نے میں سعید بن محمد کی مخالفت کی گئی ہے ،( سعیدبن محمد نے تو اس سندسے روایت کی ہے جو اوپرمذکورہے) جب کہ یہ '' عن یحیی بن سعید عن عائشہ '' کی سند سے بھی مرسلاً مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
41- بَاب مَا جَاءَ فِي الْبَخِيلِ
۴۱-باب: بخیل کی مذمت کابیان​


1962- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ غَالِبٍ الْحُدَّانِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خَصْلَتَانِ لاَ تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ الْبُخْلُ وَسُوئُ الْخُلُقِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ صَدَقَةَ بْنِ مُوسَى، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۱۱۰) (ضعیف)
(سندمیں ''صدقہ بن موسیٰ'' حافظہ کے کمزور ہیں)
۱۹۶۲- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مومن کے اندردوخصلتیں بخل اوربداخلاقی جمع نہیں ہوسکتیں ''۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف صدقہ بن موسیٰ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ حسن خلق اور خیر خواہی کانام ایمان ہے، اس لیے جس شخص میں یہ دونوں خوبیاں پائی جائے گی وہ مومن کامل ہوگا، اورایسا مومن کامل بخیل اور بد اخلاقی جیسی بری اورقابل مذمت صفات سے دورہوگا۔


1963- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ خَبٌّ وَلاَ مَنَّانٌ وَلاَ بَخِيلٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۶۲۰) (ضعیف)
(سندمیں صدقہ بن موسیٰ ،اور فرقد سبخی دونوں ضعیف ہیں)
۱۹۶۳- ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' دھوکہ باز، احسان جتانے والا اوربخیل جنت میں نہیں داخلہوں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ۔


1964- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمُؤْمِنُ غِرٌّ كَرِيمٌ وَالْفَاجِرُ خِبٌّ لَئِيمٌ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/الأدب ۶ (۴۷۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۶۲)، و حم (۲/۳۹۴) (حسن)
۱۹۶۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : مومن بھولابھالا اورشریف ہوتا ہے، اور فاجر دھوکہ باز اور کمینہ خصلت ہوتا ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی مومن اپنی شرافت اور سادگی کی وجہ سے دنیاوی منفعت کو منفعت سمجھتے ہوئے اس کا حریص نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات دھوکہ کھاکر اسے نقصان بھی اٹھانا پڑتاہے، اس کے برعکس ایک فاجر شخص دوسروں کو دھوکہ دے کر انہیں نقصان پہنچاتا ہے جو اس کے کمینہ خصلت ہونے کی دلیل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
42- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّفَقَةِ فِي الأَهْلِ
۴۲-باب: بال بچوں پر خرچ کرنے کی فضیلت کابیان​


1965- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ صَدَقَةٌ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الإیمان ۴۲ (۵۵)، والمغازي ۱۲ (۴۰۰۶)، والنفقات ۱ (۵۳۵۱)، م/الزکاۃ ۱۴ (۱۰۰۲)، ن/الزکاۃ ۶۰ (۲۵۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۹۹۶)، و حم (۴/۱۲۰، ۱۲۲)، و (۵/۲۷۳)، دي/الاستئذان ۳۵ (۲۶۶۷) (صحیح)
۱۹۶۵- ابومسعودانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' آدمی کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عمروبن امیہ ضمری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1966- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَائَ، عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "أَفْضَلُ الدِّينَارِ دِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى عِيَالِهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى دَابَّتِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَدِينَارٌ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ عَلَى أَصْحَابِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ" قَالَ أَبُوقِلاَبَةَ: بَدَأَ بِالْعِيَالِ، ثُمَّ قَالَ: "فَأَيُّ رَجُلٍ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ رَجُلٍ يُنْفِقُ عَلَى عِيَالٍ لَهُ صِغَارٍ يُعِفُّهُمْ اللهُ بِهِ وَيُغْنِيهِمْ اللهُ بِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزکاۃ ۱۲ (۹۹۴)، ق/الجھاد ۴ (۲۷۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۱)، وحم (۵/۲۷۷، ۲۷۹، ۲۸۴) (صحیح)
۱۹۶۶- ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' سب سے بہتردینا روہ دینارہے ، جسے آدمی اپنے اہل وعیال پرخرچ کرتاہے، اوروہ دینار ہے جسے آدمی اپنے جہاد کی سواری پرخرچ کرتا ہے، اوروہ دینار ہے جسے آدمی اپنے مجاہدساتھیوں پر خرچ کرتاہے، ابوقلابہ کہتے ہیں: آپ نے بال بچوں کے نفقہ (اخراجات) سے شروعا ت کی پھر فرمایا:'' اس آدمی سے بڑا اجروثواب والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پرخرچ کرتاہے، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں حرام چیزوں سے بچاتاہے اور انہیں مالداربناتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَا جَاءَ فِي الضِّيَافَةِ وَغَايَةِ الضِّيَافَةِ إِلَى كَمْ هِيَ
۴۳-باب: مہمان نوازی کاذکر اور اس کی مدت کا بیان​


1967- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ أَنَّهُ قَالَ: أَبْصَرَتْ عَيْنَايَ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَسَمِعَتْهُ أُذُنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ قَالَ: "مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ" قَالُوا: وَمَا جَائِزَتُهُ؟ قَالَ: "يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، وَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹) و ۸۵ (۶۱۳۵)، والرقاق ۲۳ (۶۴۷۶)، م/الإیمان ۱۹ (۴۸)، د/الأطعمۃ ۵ (۳۷۴۸)، ق/الأدب ۵ (۳۶۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۶)، وط/صفۃ النبي ﷺ ۱۰ (۲۲)، و حم (۴/۳۱)، و (۶/۳۸۴)، ودي/الأطعمۃ ۱۱ (۲۰۷۸) (صحیح)
۱۹۶۷- ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب رسول اللہﷺ یہ حدیث بیان فرمارہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اورکانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا:'' جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے ''، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت وتکریم اورآؤ بھگت کیاہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا:'' ایک دن اورایک رات ، اورمہمان نوازی تین دن تک ہے اورجو اس کے بعدہووہ صدقہ ہے ، جوشخص اللہ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتاہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے '' ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانابنایاجائے ۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں، مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیاجائے،اس کی مہمان نوازی کی جائے، پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کاانتظام کیا جائے، مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے، اپنی زبان ذکر الٰہی ، توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بے فائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔


1968- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَمَا أُنْفِقَ عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلاَ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ هُوَ الْكَعْبِيُّ وَهُوَ الْعَدَوِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمَعْنَى قَوْلِهِ لاَ يَثْوِي عِنْدَهُ يَعْنِي الضَّيْفَ، لاَ يُقِيمُ عِنْدَهُ حَتَّى يَشْتَدَّ عَلَى صَاحِبِ الْمَنْزِلِ. وَالْحَرَجُ هُوَ الضِّيقُ، إِنَّمَا قَوْلُهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ يَقُولُ حَتَّى يُضَيِّقَ عَلَيْهِ.
* تخريج: خ/الأدب ۳۱ (۶۰۱۹)، و ۸۵ (۶۱۳۵)، والرقاق ۲۳ (۶۴۷۶)، د/الأطعمۃ ۵ (۳۷۴۸)، ق/الأدب ۵ (۳۶۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۵۶) و ط/صفۃ النبي ﷺ ۱۰ (۲۲)، وحم (۴/۳۱)، و(۶/۳۸۴)، و دي/الأطعمۃ ۱۱ (۲۰۷۸) (صحیح)
۱۹۶۸- ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ضیافت (مہمان نوازی) تین دین تک ہے، اورمہمان کا عطیہ (یعنی اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کرنا) ایک دن اورایک رات تک ہے، اس کے بعد جو کچھ اس پر خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے،مہمان کے لیے جائزنہیں کہ میزبان کے پاس (تین دن کے بعد بھی) ٹھہرارہے جس سے اپنے میز بان کو پریشانی و مشقت میں ڈال دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک بن انس اورلیث بن سعد نے اس حدیث کی روایت سعید مقبری سے کی ہے،۳- ابوشریح خزاعی کی نسبت الکعبی اورالعدوی ہے ،اور ان کانام خویلد بن عمرو ہے، ۴- اس باب میں عائشہ اورابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۵- ''لا يثوي عنده'' کامطلب یہ ہے کہ مہمان گھر والے کے پاس ٹھہرانہ رہے تاکہ اس پر گراں گزرے، ۶- ''الحرج'' کا معنی ''الضيق'' (تنگی ہے) اور''حتى يحرجه '' کا مطلب ہے ''يضيق عليه''یہاں تک کہ وہ اسے پریشانی و مشقت میں ڈال دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
44- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّعْيِ عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالْيَتِيمِ
۴۴-باب: بیوہ اوریتیم پر خرچ کر نے کی فضیلت کابیان​


1969- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "السَّاعِي عَلَى الأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ أَوْكَالَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ".
* تخريج: خ/الأدب ۲۵ (۶۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۱۸) (صحیح)
(یہ روایت مرسل ہے، صفوان تابعی ہیں، اگلی روایت کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، مالک کے طرق کے لیے دیکھئے: فتح الباری ۹/۴۹۹)


1969/م- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَ ذَلِكَ.
وَهَذَا الْحَدِيثُ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُهُ سَالِمٌ مَوْلَى عَبْدِاللهِ بْنِ مُطِيعٍ، وَثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَدَنِيٌّ وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ شَامِيٌّ.
* تخريج : خ/النفقات ۱ (۵۳۵۳)، والأدب ۲۶ (۶۰۰۷)، م/الزہد ۲ (۲۹۸۲)، ن/الزکاۃ ۷۸ (۲۵۷۸)، ق/التجارات ۱ (۲۱۴۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۱۴)، وحم (۲/۳۶۱) (صحیح)
۱۹۶۹- صفوان بن سلیم نبی اکرم ﷺ سے مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:'' بیوہ اور مسکین پر خرچ کرنے والااللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ، یا اس آدمی کی طرح ہے جو دن میں صوم رکھتا ہے اور رات میں عبادت کرتاہے۔
۱۹۶۹/م- اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
45- بَاب مَا جَاءَ فِي طَلاَقَةِ الْوَجْهِ وَحُسْنِ الْبِشْرِ
۴۵-باب: خوش مزاجی اور مسکراہٹ سے ملنے کی فضیلت کابیان​


1970- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُنْكَدِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ، وَإِنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ، وَأَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَائِ أَخِيكَ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰۸۵) (وانظر : حم (۳/۳۴۴، ۳۶۰) (صحیح)
۱۹۷۰- جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ہربھلائی صدقہ ہے ، اوربھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملواوراپنے ڈول سے اس کے ڈول میں پانی ڈال دو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ صرف مال ہی خرچ کرنا صدقہ نہیں ہے، بلکہ ہرنیکی صدقہ ہے، چنانچہ اپنے ڈول سے دوسرے بھائی کے ڈول میں کچھ پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے، اور دوسرے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
46-بَاب مَا جَاءَ فِي الصِّدْقِ وَالْكَذِبِ
۴۶-باب: سچ کی فضیلت اورجھوٹ کی برائی کابیان​


1971- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ صِدِّيقًا، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَمَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللهِ كَذَّابًا".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعُمَرَ وَعَبْدِاللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ وَابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الأدب ۶۹ (۶۰۹۴)، م/البر والصلۃ ۲۹ (۲۶۰۷)، والقدر ۱ (۲۶۴۳)، ق/المقدمۃ ۷ (۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۶۱)، وحم (۱/۳۸۴، ۴۰۵)، و دي/الرقاق ۷ (۲۷۵۷) (صحیح)
۱۹۷۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' سچ بولو، اس لیے کہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتاہے اورنیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے، آدمی ہمیشہ سچ بولتاہے اورسچ کی تلاش میں رہتاہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے نزدیک سچالکھ دیا جاتاہے، اور جھوٹ سے بچو، اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اورگناہ جہنم میں لے جاتا ہے ، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اورجھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتاہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکرصدیق، عمر، عبداللہ بن شخیر اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ ہمیشہ جھوٹ سے بچنا اور سچائی کو اختیار کرنا چاہیے، کیوں کہ جھوٹ کا نتیجہ جہنم اور سچائی کا نتیجہ جنت ہے۔


1972- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِالرَّحِيمِ بْنِ هَارُونَ الْغَسَّانِيِّ، حَدَّثَكُمْ عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيلاً مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ" قَالَ يَحْيَى: فَأَقَرَّ بِهِ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ هَارُونَ، فَقَالَ: نَعَمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُالرَّحِيمِ بْنُ هَارُونَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۷۶۷) (ضعیف جداً)
(سندمیں '' عبد الرحیم بن ہارون '' سخت ضعیف راوی ہے)
۱۹۷۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب بندہ جھوٹ بولتاہے تو اس جھوٹ کی بدبوکی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دوربھاگتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن جیدغریب ہے ۲- یحیی بن موسی کہتے ہیں: میں نے عبدالرحیم بن ہارون سے پوچھا:کیا آپ سے عبدالعزیزبن ابی داود نے یہ حدیث بیان کی؟ کہا: ہاں،۳- ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اس کی روایت کرنے میں عبدالرحیم بن ہارون منفرد ہیں۔


1973- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا كَانَ خُلُقٌ أَبْغَضَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنَ الْكَذِبِ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُحَدِّثُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِالْكِذْبَةِ، فَمَا يَزَالُ فِي نَفْسِهِ حَتَّى يَعْلَمَ أَنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ مِنْهَا تَوْبَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (لم یذکرہ المزي ولا یوجد ھو في أکثر النسخ) (صحیح)
۱۹۷۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کے نزدیک جھوٹ سے بڑھ کر کوئی اور عادت نفرت کے قابل ناپسندیدہ نہیں تھی، اور جب کوئی آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس جھوٹ بولتا تو وہ ہمیشہ آپ کی نظرمیں قابل نفرت رہتا یہاں تک کہ آپ جان لیتے کہ اس نے جھوٹ سے توبہ کرلی ہے،امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
47-بَاب مَا جَاءَ فِي الْفُحْشِ وَالتَّفَحُّشِ
۴۷-باب: بے حیائی اوربدزبانی کی مذمت کابیان​


1974- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْئٍ إِلاَّ شَانَهُ، وَمَا كَانَ الْحَيَائُ فِي شَيْئٍ إِلاَّ زَانَهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالرَّزَّاقِ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۷ (۴۱۸۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۷۲)، وحم (۳/۱۶۵) (صحیح)
۱۹۷۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جس چیز میں بھی بے حیائی آتی ہے اسے عیب دار کردیتی ہے اورجس چیز میں حیاآتی ہے اسے زینت بخشتی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں عائشہ سے بھی روایت ہے۔


1975- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنِ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ أَخْلاَقًا" وَلَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ ﷺ فَاحِشًا وَلاَمُتَفَحِّشًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۵۹)، وفضائل الصحابۃ ۲۷ (۳۷۵۹)، م/الفضائل ۱۶ (۲۳۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳۳)، وحم (۲/۱۶۱، ۱۸۹، ۱۹۳، ۲۱۸) (صحیح)
۱۹۷۵- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' تم میں سب سے بہتروہ لوگ ہیں جو اخلاق میں بہترہیں، نبی اکرم ﷺ بے حیا اوربدزبان نہیں تھے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
48-بَاب مَا جَاءَ فِي اللَّعْنَةِ
۴۸-باب: لعنت کابیان​


1976- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَلاَعَنُوا بِلَعْنَةِ اللهِ وَلاَ بِغَضَبِهِ وَلاَ بِالنَّارِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الأدب ۵۳ (۴۹۰۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۵۹۴)، وانظر حم (۵/۱۵) (صحیح)
۱۹۷۶- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' تم لوگ (کسی پر) اللہ کی لعنت نہ بھیجو، نہ اس کے غضب کی لعنت بھیجواورنہ جہنم کی لعنت بھیجو '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابن عباس، ابوہریرہ، ابن عمراورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے وقت یہ مت کہو کہ تم پر اللہ کی لعنت، اس کے غضب کی لعنت اور جہنم کی لعنت ہو، کیوں کہ یہ ساری لعنتیں کفار ومشرکین اور یہود ونصاری کے لیے ہیں، نہ کہ آپ ﷺ کی امت کے لیے۔


1977- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلاَ اللَّعَّانِ وَلاَ الْفَاحِشِ وَلاَ الْبَذِيئِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۴۳۴) (صحیح)
۱۹۷۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مومن طعنہ دینے والا ، لعنت کرنے والا، بے حیا اور بدزبان نہیں ہوتا ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- یہ حدیث عبداللہ سے دوسری سند سے بھی آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں مومن کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ مومن کامل نہ تو کسی کو حقیروذلیل سمجھتاہے ، نہ ہی کسی کی لعنت وملامت کرتا ہے ، اور نہ ہی کسی کو گالی گلوج دیتاہے، اسی طرح چرب زبانی ، زبان درازی اور بے حیائی جیسی مذموم صفات سے بھی وہ خالی ہوتا ہے ۔


1978- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً لَعَنَ الرِّيحَ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "لاَتَلْعَنِ الرِّيحَ، فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ [ حَسَنٌ ] غَرِيبٌ، لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ بِشْرِ بْنِ عُمَرَ.
* تخريج: د/الأدب ۵۳ (۴۹۰۸) (تحفۃ الأشراف: ۵۴۲۶) (صحیح)
۱۹۷۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک آدمی نے ہواپرلعنت بھیجی تو آپ نے فرمایا:'' ہواپر لعنت نہ بھیجواس لیے کہ وہ تو (اللہ کے) حکم کی پابندہے، اورجس شخص نے کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجی جو لعنت کی مستحق نہیں ہے تو لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ۲-بشر بن عمرکے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوعابیان کیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
49- بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْلِيمِ النَّسَبِ
۴۹-باب: نسب جاننے کابیان​


1979- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عِيسَى الثَّقَفِيِّ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الأَهْلِ مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ مَنْسَأَةٌ فِي الأَثَرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ مَنْسَأَةٌ فِي الأَثَرِ يَعْنِي بِهِ الزِّيَادَةَ فِي الْعُمُرِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۶ (۱۵۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۵۳) (صحیح)
۱۹۷۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اس قدراپنا نسب جانوجس سے تم اپنے رشتے جوڑسکو، اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے ، مال ودولت میں اضافہ ہوتا ہے ، اورآدمی کی عمر بڑھادی جاتی ہے ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- ''منسأة في الأثر'' کا مطلب ہے ''زيادة في العمر'' یعنی عمرکے لمبی ہونے کاسبب ہے۔
وضاحت ۱؎ : عمر بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ نیک عمل کی توفیق ملتی ہے، اور مرنے کے بعد لوگوں میں اس کا ذکر جمیل باقی رہتاہے، اور اس کی نسل سے صالح اولاد پیداہوتی ہیں۔اگرحقیقی طورپر عمران نیک اعمال سے ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی بعیدبات نہیں ہے۔
 
Top