• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي الْحِجَامَةِ
۱۲-باب: پچھنالگوانے کابیان​


2051- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَحْتَجِمُ فِي الأَخْدَعَيْنِ وَالْكَاهِلِ، وَكَانَ يَحْتَجِمُ لِسَبْعَ عَشْرَةَ وَتِسْعَ عَشْرَةَ وَإِحْدَى وَعِشْرِينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الطب ۴(۳۸۶۰)، ق/الطب ۲۱ (۳۴۸۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۷)، وحم (۳/۱۱۹) (صحیح)
۲۰۵۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ گردن کی دونوں جانب موجود دوپوشیدہ رگوں اورکندھے پر پچھنا لگواتے تھے ،اور آپ مہینہ کی سترہویں، انیسویں اوراکیسویں تاریخ کو پچھنالگواتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عباس اورمعقل بن یسار رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2052- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بُدَيْلِ بْنِ قُرَيْشٍ الْيَامِّيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ - هُوَ ابْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ-، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: حَدَّثَ رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ أَنَّهُ لَمْ يَمُرَّ عَلَى مَلإٍ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ إِلاَّ أَمَرُوهُ أَنْ مُرْ أُمَّتَكَ بِالْحِجَامَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۳۶۴)، وانظر : حم (۱/۲۵۴) (صحیح)
( سندمیں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۲۰۵۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے معراج کی رات کا حال بیان کیا کہ آپ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے آپ کو یہ حکم ضرور دیاکہ اپنی امت کو پچھنالگوانے کا حکم دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابن مسعودکی روایت سے حسن غریب ہے۔


2053- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَال: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ، يَقُولُ: كَانَ لابْنِ عَبَّاسٍ غِلْمَةٌ ثَلاَثَةٌ حَجَّامُونَ، فَكَانَ اثْنَانِ مِنْهُمْ يُغِلاَّنِ عَلَيْهِ وَعَلَى أَهْلِهِ، وَوَاحِدٌ يَحْجُمُهُ وَيَحْجُمُ أَهْلَهُ، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ نَبِيُّ اللهِ ﷺ: " نِعْمَ الْعَبْدُ الْحَجَّامُ، يُذْهِبُ الدَّمَ، وَيُخِفُّ الصُّلْبَ، وَيَجْلُو عَنْ الْبَصَرِ " وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ حِينَ عُرِجَ بِهِ مَا مَرَّ عَلَى مَلإٍ مِنْ الْمَلاَئِكَةِ إِلاَّ قَالُوا: عَلَيْكَ بِالْحِجَامَةِ، وَقَالَ: إِنَّ خَيْرَ مَاتَحْتَجِمُونَ فِيهِ يَوْمَ سَبْعَ عَشْرَةَ وَيَوْمَ تِسْعَ عَشْرَةَ وَيَوْمَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَقَالَ: إِنَّ خَيْرَ مَاتَدَاوَيْتُمْ بِهِ السَّعُوطُ وَاللَّدُودُ وَالْحِجَامَةُ وَالْمَشِيُّ، وَإِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَدَّهُ الْعَبَّاسُ وَأَصْحَابُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: " مَنْ لَدَّنِي؟" فَكُلُّهُمْ أَمْسَكُوا، فَقَالَ: " لاَ يَبْقَى أَحَدٌ مِمَّنْ فِي الْبَيْتِ إِلاَّ لُدَّ غَيْرَ عَمِّهِ الْعَبَّاسِ " قَالَ عَبْدٌ: قَالَ النَّضْرُ: اللَّدُودُ الْوَجُورُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُورٍ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: ق/الطب ۲۰ (۳۴۷۸) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۳۸) (ضعیف)
(سندمیں عباد بن منصور مدلس اور مختلط راوی ہیں)
۲۰۵۳- عکرمہ کہتے ہیں: ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس پچھنالگانے والے تین غلام تھے ، ان میں سے دو ابن عباس اور ان کے اہل وعیال کے لیے غلہ حاصل کرتے تھے اورایک غلام ان کواوران کے اہل وعیال کو پچھنالگاتاتھا ، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' پچھنا لگانے والاغلام کیا ہی اچھاہے ، وہ (فاسد) خون کودور کرتاہے، پیٹھ کو ہلکا کرتاہے ، اورآنکھ کوصاف کرتاہے'' ۔ آپﷺ معراج میں فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرے انہوں نے یہ ضرورکہا کہ تم پچھنا ضرورلگواؤ، آپ نے فرمایا:'' تمہارے پچھنالگوانے کا سب سے بہتر دن مہینہ کی سترہویں، انیسویں اوراکیسو یں تاریخ ہے''، آپﷺنے مزید فرمایا:'' سب سے بہتر علاج جسے تم اپناؤ وہ ناک میں ڈالنے کی دوا، منہ کے ایک طرف سے ڈالی جانے والی دوا، پچھنا اوردست آوردواہے''، رسول اللہﷺ کے منہ میں عباس اورصحابہ کرام نے دواڈالی ، رسول اللہﷺ نے پوچھا:'' میرے منہ میں کس نے دواڈالی ہے ؟'' تمام لوگ خاموش رہے تو آپ نے فرمایا:'' گھر میں جوبھی ہو اس کے منہ میں دواڈالی جائے، سوائے آپ کے چچاعباس کے'' ۔
راوی عبدکہتے ہیں: نضرنے کہا: لدودسے مراد ''وجور''ہے (حلق میں ڈالنے کی ایک دوا) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے صرف عباد منصور ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲-اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّدَاوِي بِالْحِنَّائِ
۱۳-باب: مہندی سے علاج کرنے کابیان​


2054- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، حَدَّثَنَا فَائِدٌ مَوْلًى لآلِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عُبَيْدِاللهِ، عَنْ جَدَّتِهِ سَلْمَى وَكَانَتْ تَخْدُمُ النَّبِيَّ ﷺ قَالَتْ: مَا كَانَ يَكُونُ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ قَرْحَةٌ وَلاَ نَكْبَةٌ إِلاَّ أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أَضَعَ عَلَيْهَا الْحِنَّائَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ فَائِدٍ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ فَائِدٍ، وَقَالَ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَدَّتِهِ سَلْمَى وَعُبَيْدُاللهِ بْنُ عَلِيٍّ أَصَحُّ وَيُقَالُ سُلْمَى.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بھذا اللفظ، وأخرجہ نحوہ بھذا السند: د/الطب ۳ (۳۸۵۸)، ق/الطب ۲۹ (۳۵۰۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۹۳)، وحم (۶/۴۶۲) (صحیح)
2054/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ فَائِدٍ مَوْلَى عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ مَوْلاَهُ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَدَّتِهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۰۵۴- سلمی رضی اللہ عنہا سے (جونبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتی تھیں) کہتی ہیں: رسول اللہﷺ کو تلوار اور چاقو یاپتھراورکانٹے سے جوزخم بھی لگتا تھا آپﷺ مجھے اس پر مہندی رکھنے کا ضرورحکم دیتے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے فائدہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کی فائد سے روایت کرتے ہوئے سندمیں''عن علي بن عبيد الله، عن جدته سلمى'' کی بجائے ''عن عبيد الله بن علي، عن جدته سلمى'' بیان کیا ہے ، عبیداللہ بن علی ہی زیادہ صحیح ہے، سلمیٰ کو سُلمیٰ بھی کہا گیا ہے ۔
۲۰۵۴/م- ہم سے محمدبن علی نے ''عن زيد بن حباب، عن فائد مولى عبيدالله بن علي، عن مولاه عبيد الله بن علي،عن جدته، عن النبي ﷺ '' کی سند سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث بیان کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الرُّقْيَةِ
۱۴-باب: جھاڑپھونک کی کراہت کابیان​


2055- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَقَّارِ بْنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنِ اكْتَوَى أَوْ اسْتَرْقَى فَقَدْ بَرِئَ مِنَ التَّوَكُّلِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الطب ۲۳ (۳۴۸۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۱۸) (صحیح)
۲۰۵۵- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے بدن داغایاجھاڑپھونک کرائی وہ تو کل کرنے والوں میں سے نہ رہا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عباس اورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : شرکیہ الفاظ یا ایسے الفاظ جن کے معنی و مفہوم واضح نہ ہوں ان کے ذریعہ جھاڑ پھونک ممنوع ہے، ماثور الفاظ کے ساتھ جھاڑ پھونک جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
۱۵-باب: جھاڑپھونک کی اجازت کابیان​


2056- حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَخَّصَ فِي الرُّقْيَةِ مِنْ الْحُمَةِ وَالْعَيْنِ وَالنَّمْلَةِ.
* تخريج: الطب ۳۴ (۳۵۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۱) (صحیح)
2056/م- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ رَخَّصَ فِي الرُّقْيَةِ مِنَ الْحُمَةِ وَالنَّمْلَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ هِشَامٍ عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ أَبُوعِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَطَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ وَعَمْرِو بْنِ حَزْمٍ وَأَبِي خُزَامَةَ عَنْ أَبِيهِ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۰۵۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے بچھوکے ڈنک، نظربداورپسلی میں نکلنے والے دانے کے سلسلے میں، جھاڑ پھونک کی اجازت دی ہے۔
۲۰۵۶/م- اس سند سے انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بچھوکے ڈنک اورپسلی میں نکلنے والے دانے کے سلسلے میں جھاڑ پھونک کرانے کی اجازت دی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ۲- یہ حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے معاویہ بن ہشام نے سفیان سے روایت کی ہے ، ۳- اس باب میں بریدہ ، عمران بن حصین ، جابر، عائشہ ، طلق بن علی ، عمروبن حزم اورابوخزامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔


2057- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ رُقْيَةَ إِلاَّ مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ بُرَيْدَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ بِمِثْلِهِ.
* تخريج: د/الطب ۱۷ (۳۸۸۴)، وأخرجہ البخاري في الطب ۱۷ (۵۷۰۵) موقوفا علی عمران بن حصین رضي اللہ عنہ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۳۰)، وانظر حم (۴/۴۳۶، ۴۳۸، ۴۴۶) (صحیح)
۲۰۵۷- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جھاڑ پھونک صرف نظربداورپسلی میں نکلنے والے دانے کی وجہ سے ہی جائزہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے یہ حدیث ''عن حصين عن الشعبي عن بريدة عن النبي ﷺ'' کی سند سے اسی کے مثل روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کسی اور بیماری میں جھاڑ پھونک جائز نہیں ہے، کیوں کہ ان کے علاوہ میں جھاڑ پھونک احادیث سے ثابت ہے، اس لیے اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ان دونوں میں جھاڑ بھونک زیادہ مفید اور کارآمد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّقْيَةِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ
۱۶-باب: معوذتین (سورۃ الفلق وسورۃ الناس) کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنے کابیان​


2058- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنِ الْجَرِيرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَتَعَوَّذُ مِنَ الْجَانِّ وَعَيْنِ الإِنْسَانِ، حَتَّى نَزَلَتْ الْمُعَوِّذَتَانِ، فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاهُمَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ن/الاستعاذۃ ۳۷ (۵۴۹۶)، ق/الطب ۳۳ (۳۵۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۷) (صحیح)
۲۰۵۸- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ جنوں اورانسان کی نظربدسے پناہ مانگاکرتے تھے ، یہاں تک کہ معوذتین (سورۃ الفلق اورسورۃ الناس)نازل ہوئیں ، جب یہ سورتیں اترگئیں تو آ پ نے ان دونوں کو لے لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑدیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں سورتوں یعنی {قل أعوذ برب الفلق }اور{ قل أعوذ برب الناس } کے بہت سارے فائدے ہیں، انہیں صبح وشام تین تین بار پڑھنے والا إن شاء اللہ مختلف قسم کی بلاؤں اورآفتوں سے محفوظ رہے گا، ان سورتوں کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم ﷺ انہیں دونوں کے ذریعہ پناہ مانگا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّقْيَةِ مِنْ الْعَيْنِ
۱۷-باب: نظربدکی وجہ سے جھاڑ پھونک کرنے کابیان​


2059- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ - وَهُوَ ابْنُ عَامِرٍ -، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيِّ أَنَّ أَسْمَائَ بِنْتَ عُمَيْسٍ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ وَلَدَ جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَيْهِمْ الْعَيْنُ أَفَأَسْتَرْقِي لَهُمْ، فَقَالَ: "نَعَمْ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ شَيْئٌ سَابِقٌ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَبُرَيْدَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/الطب ۳۳ (۳۵۱۰)، (والنسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۵۸) (صحیح)
2059/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۰۵۹- عبیدبن رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کو بہت جلدنظربدلگ جاتی ہے ، کیا میں ان کے لیے جھاڑ پھونک کراؤں؟ آپ نے فرمایا:'' ہاں، اس لیے کہ اگرکوئی چیز تقدیرپر سبقت کرسکتی تواس پر نظربدضرورسبقت کرتی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث '' عن أيوب، عن عمرو بن دينار، عن عروة بن عامر، عن عبيد بن رفاعة، عن أسماء بنت عميس، عن النبي ﷺ'' کی سند سے بھی مروی ہے ، ۳- اس باب میں عمران بن حصین اوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۲۰۵۹/م- اس سند سے بھی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ نظر بد کا اثر بے انتہائی نقصان دہ اور تکلیف دہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی چیز خلاف تقدیر پیش آسکتی اور ضرر پہنچا سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18-باب
۱۸- باب: نظر بدکی وجہ سے جھاڑپھونک پر ایک اور باب​


2060- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ وَيَعْلَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، يَقُولُ: "أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ، وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ" وَيَقُولُ: "هَكَذَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَاقَ وَإِسْمَاعِيلَ عَلَيْهِمْ السَّلاَم".
* تخريج: خ/احادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۶۶۹)، د/السنۃ ۲۲ (۴۷۳۷)، ق/الطب ۳۶ (۳۵۲۵) (صحیح)
2060/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَعَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۰۶۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ کے رسول حسن اورحسین رضی اللہ عنہما پریہ کلمات پڑھ کرجھاڑپھونک کرتے تھے: ''أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ'' میں تمہارے لیے اللہ کے مکمل اورپورے کلمات کے وسیلے سے ہرشیطان اورہلاک کرنے والے زہریلے کیڑے اور نظر بد سے پناہ مانگتاہوں،اورآپ فرماتے تھے: اسماعیل اوراسحاق کے لیے اسی طرح ابراہیم علیہم السلام پناہ مانگتے تھے۔
۲۰۶۰/م- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ وَالْغَسْلُ لَهَا
۱۹-باب: نظربدکے حق ہونے اوراس کے لیے غسل کرنے کابیان​


2061- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي حَيَّةُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ شَيْئَ فِي الْهَامِ وَالْعَيْنُ حَقٌّ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۲۷۲)، وانظر حم (۴/۶۷) (صحیح)
(سندمیں حیہ بن حابس متابعت کے باب میں مقبول راوی ہیں، ا س لیے حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے،تراجع الالبانی/۵، السراج المنیر ۵۵۹۰)
۲۰۶۱- حابس تمیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: الّو(کے سلسلے میں لوگوں کے اعتقاد) کی کوئی حقیقت نہیں ہے اورنظربدکا اثرحقیقی چیزہے (یعنی سچ ہے) ۔


2062- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُوسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ كَانَ شَيْئٌ سَابِقٌ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَحَدِيثُ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ وَحَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ لاَيَذْكُرَانِ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: م/السلام ۱۶ (۲۱۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۱۶) (صحیح)
۲۰۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اگرکوئی چیز تقدیرپرسبقت (پہل) کرسکتی تو اس پرنظربدضرورسبقت (پہل)کرتی ،اور جب لوگ تم سے غسل کرائیں توتم غسل کرلو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ، ۲- حیہ بن حابس کی روایت (جواوپرمذکورہے) غریب ہے،۳- شیبان نے اسے ''عن يحيى بن أبي كثير، عن حية بن حابس، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ'' کی سند سے روایت کیا ہے جب کہ علی بن مبارک اورحرب بن شدادنے اس سندمیں ابوہریرہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے،۴- اس باب میں عبداللہ بن عمروسے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : زمانہ جاہلیت میں نظر بد کا ایک علاج یہ تھا کہ جس آدمی کی نظر لگنے کا اندیشہ ہوتا اس سے غسل کرواتے، اور اس پانی سے نظر لگنے والے کو غسل دیتے، نبی اکرم ﷺ نے اس عمل کو سند جواز عطا فرمایا، اور فرمایا کہ اگر کسی سے ایسے غسل کی طلب کی جائے تو وہ برانہ مانے اور غسل کرکے غسل کیا ہوا پانی نظر بد لگنے والے کو دیدے۔مگراس غسل کاطریقہ عام غسل سے سے قدرے مختلف ہے ، تفصیل کے لیے ہماری کتاب''مسنون وظائف واذکاراورشافی طریقہ علاج '' کا مطالعہ کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي أَخْذِ الأَجْرِ عَلَى التَّعْوِيذِ
۲۰-باب: تعویذ (جھاڑپھونک) پراجرت لینے کابیان​


2063- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ، فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ، فَسَأَلْنَاهُمْ الْقِرَى، فَلَمْ يَقْرُونَا فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا، فَقَالُوا: هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَرْقِي مِنْ الْعَقْرَبِ، قُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا وَلَكِنْ لاَ أَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا، قَالَ: فَأَنَا أُعْطِيكُمْ ثَلاَثِينَ شَاةً، فَقَبِلْنَا، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ {الْحَمْدُ لِلّهِ} سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرَأَ، وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ، قَالَ: فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْئٌ، فَقُلْنَا: لاَتَعْجَلُوا حَتَّى تَأْتُوا رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْهِ، ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ، قَالَ: "وَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ اقْبِضُوا الْغَنَمَ، وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ، وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ أَجْرًا، وَيَرَى لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى ذَلِكَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ -هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ، وَهُوَ أَبُوبِشْرٍ-، وَرَوَى شُعْبَةُ وَأَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: خ/الإجارۃ ۱۶ (۲۲۷۶)، وفضائل القرآن ۹ (۵۰۰۷)، والطب ۳۳ (۵۷۳۶)، و۳۹ (۵۷۴۹)، م/السلام ۲۳ (۲۲۰۱)، د/الطب ۱۹ (۳۹۰۰)، ق/التجارات ۷ (۲۱۵۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۰۷)، وحم (۳/۴۴) (صحیح)
۲۰۶۳- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤڈالا اوران سے ضیافت کی درخواست کی ، لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی ، اسی دوران ان کے سردارکو بچھونے ڈنک ماردیا، چنانچہ انہوں نے ہمارے پاس آکرکہا: کیا آپ میں سے کوئی بچھوکے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتاہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتاہوں، لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے،چنانچہ ہم نے قبول کرلیا اور میں نے سات بارسورہ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہوگیا اورہم نے بکریاں لے لیں ۱؎ ،ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ۲؎ ، لہذا ہم نے کہا: جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ جائیں ، جب ہم آپﷺ کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کردیا، آپ نے فرمایا:'' تم نے کیسے جانا کہ سورہ فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا)ہے؟ تم لوگ بکریاں لے لواوراپنے ساتھ اس میں میرابھی حصہ لگاؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- شعبہ ، ابوعوانہ ہشام اورکئی لوگوں نے یہ حدیث ''عن أبي المتوكل، عن أبي سعيد، عن النبي ﷺ'' کی سند سے روایت کی ہے ،۳- تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اوروہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔
وضاحت ۲؎ : جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان ، قضا، امامت، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جاسکتی ہے، کیوں کہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرکے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابوسعیدخدری کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعدکی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔


2064- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مَرُّوا بِحَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ، فَلَمْ يَقْرُوهُمْ، وَلَمْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَاشْتَكَى سَيِّدُهُمْ، فَأَتَوْنَا فَقَالُوا: هَلْ عِنْدَكُمْ دَوَائٌ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، وَلَكِنْ لَمْ تَقْرُونَا وَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَلاَ نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلاً، فَجَعَلُوا عَلَى ذَلِكَ قَطِيعًا مِنْ الْغَنَمِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنَّا يَقْرَأُ عَلَيْهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ، فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: "وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟" وَلَمْ يَذْكُرْ نَهْيًا مِنْهُ، وَقَالَ: "كُلُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۴۲۴۹) (صحیح)
۲۰۶۴- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کچھ صحابہ (جن میں شامل میں بھی تھا) عرب کے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے ، انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی ، اسی دوران ان کا سرداربیمارہوگیا ، چنانچہ ان لوگوں نے ہمارے پاس آکرکہا:آپ لوگوں کے پاس کوئی علاج ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی ہے اس لیے ہم اس وقت تک علاج نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت نہ متعین کردو، انہوں نے اس کی اجرت میں بکری کا ایک گلہ مقررکیا،ہم میں سے ایک آدمی (یعنی میں خود) اس کے اوپر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگا تو وہ صحت یاب ہوگیا ، پھرجب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے اس واقعہ کو بیان کیاتو آپ نے فرمایا:'' تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ جھاڑ پھونک (کی دعاء ) ہے؟ابوسعیدخدری نے آپ سے اس پر کوئی نکیر ذکرنہیں کی، آپ نے فرمایا: ''کھاؤاوراپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے ، ۲- یہ حدیث اعمش کی اس روایت سے جو جعفربن ایاس کے واسطہ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- کئی لوگوں نے یہ حدیث ''عن أبي بشر جعفر بن أبي وحشية، عن أبي المتوكل، عن أبي سعيد '' کی سند سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّقَى وَالأَدْوِيَةِ
۲۱-باب: جھاڑپھونک اوردواسے علاج کا بیان​


2065- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا، وَدَوَائً نَتَدَاوَى بِهِ، وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللهِ شَيْئًا؟ قَالَ: "هِيَ مِنْ قَدَرِ اللهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الطب ۱ (۳۴۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۹۸) (ضعیف)
(اس کی سند میں اضطراب ہے۔ یعنی ''أبوخزامة، عن أبيه''یا ''ابن أبي خزامة، عن أبيه'' نیز ابوخزامہ تابعی ہیں یا صحابی؟، اگر ''ابوخزامہ'' تابعی ہیں تو ان کا حال معلوم نہیں، اگر یہ صحابی ہیں تو ان کے بیٹے ''ابن أبی خزمہ'' ہیں، تراجع الالبانی ۳۴۴)


2065/م- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي خِزَامَةَ عَنْ أَبِيهِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ عَنْ ابْنِ أَبِي خِزَامَةَ عَنْ أَبِيهِ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ ابْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي خِزَامَةَ عَنْ أَبِيهِ، وَهَذَا أَصَحُّ وَلاَ نَعْرِفُ لأَبِي خِزَامَةَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (ضعیف)
۲۰۶۵- ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! جس دم سے ہم جھاڑپھونک کرتے ہیں، جس دواسے علاج کرتے ہیں اورجن بچاؤ کی چیزوں سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں(ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟) کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا:'' یہ سب بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیرہی کا حصہ ہیں ۱؎ ۔
۲۰۶۵/م- اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- دونوں روایتیں سفیان ابن عیینہ سے مروی ہیں، ان کے بعض شاگردوں نے سند میں ''عن أبي خزامة، عن أبيه'' کہاہے اور بعض نے ''عن ابن أبي خزامة، عن أبيه'' کہا ہے، ابن عیینہ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اسے ''عن الزهري، عن أبي خزامة، عن أبيه'' روایت کی ہے ، یہ زیادہ صحیح ہے ،۳- ہم اس روایت کے علاوہ ابوخزامہ سے ان کی دوسری کوئی روایت نہیں جانتے ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان کی توفیق حسب تقدیر الٰہی ہوتی ہے، اس لیے اسباب کو اپنانا چاہیے، لیکن یہ اعتقاد نہ ہو کہ ان سے تقدیر بدل جاتی ہے، کیوں کہ اللہ اپنے فیصلہ کو نہیں بدلتا۔
 
Top