• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
62-بَاب مَا جَاءَ فِي قَتْلِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ الدَّجَّالَ
۶۲-باب: عیسیٰ بن مریم کا دجال کوقتل کرنے کابیان​


2244- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِاللهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ الأَنْصَارِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمِّي مُجَمِّعَ ابْنَ جَارِيَةَ الأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "يَقْتُلُ ابْنُ مَرْيَمَ الدَّجَّالَ بِبَابِ لُدٍّ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَنَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ وَأَبِي بَرْزَةَ وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَكَيْسَانَ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ وَجَابِرٍ وَأَبِي أُمَامَةَ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ وَالنَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۱۵) (صحیح)
۲۲۴۴- مجمع بن جاریہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کوفرماتے سنا:'' ابن مریم علیہماالسلام دجال کوباب لُدکے پاس قتل کریں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمران بن حصین ، نافع بن عتبہ ، ابوبرزہ ، حذیفہ بن اسید، ابوہریرہ ، کیسان ، عثمان ، جابر، ابوامامہ، ابن مسعود ، عبداللہ بن عمرو، سمرہ بن جندب ، نوّاس بن سمعان ، عمروبن عوف اورحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2245- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَال سَمِعْتُ أَنَسًا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ وَقَدْ أَنْذَرَ أُمَّتَهُ الأَعْوَرَ الْكَذَّابَ أَلاَ إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَعْوَرَ مَكْتُوبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ك ف ر".
هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الفتن ۲۶ (۷۱۳۱)، والتوحید ۱۷ (۷۴۰۷)، م/الفتن ۲۰ (۲۹۳۳)، د/الملاحم ۱۴ (۴۳۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۱) (صحیح)
۲۲۴۵- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' کوئی نبی ایسانہیں تھاجس نے اپنی امت کو کانے اور جھوٹے (دجال ) سے نہ ڈرایاہو،سنو! وہ کانا ہے ، جب کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے، اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ ''ک ، ف، ر'' لکھا ہواہے ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
63-بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ
۶۳-باب: ابن صائد (ابن صیاد) کابیان​


2246- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِكْتُ أَنَا وَهُوَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ بِهِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْهُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَلَمَّا نَزَلْتُ قُلْتُ لَهُ: ضَعْ مَتَاعَكَ حَيْثُ تِلْكَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ، فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ، ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ، فَقَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ! اشْرَبْ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ وَإِنِّي أَكْرَهُ فِيهِ اللَّبَنَ، قَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلاً فَأُوثِقَهُ إِلَى شَجَرَةٍ، ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي، وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَى عَلَيْكُمْ، أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟، يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ! أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِنَّهُ كَافِرٌ؟، وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِنَّهُ عَقِيمٌ لاَ يُولَدُ لَهُ؟، وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ لاَ يَدْخُلُ أَوْلاَ تَحِلُّ لَهُ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ؟ أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَهُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَكَ إِلَى مَكَّةَ؟ فَوَاللهِ! مَا زَالَ يَجِيئُ بِهَذَا حَتَّى قُلْتُ: فَلَعَلَّهُ مَكْذُوبٌ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ! وَاللَّهِ! لأُخْبِرَنَّكَ خَبَرًا حَقًّا، وَاللهِ! إِنِّي لأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ وَالِدَهُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنَ الأَرْضِ، فَقُلْتُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفتن ۱۹ (۲۹۲۷/۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۸) (صحیح)
۲۲۴۶- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حج یاعمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اورہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تولوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اوراس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا ، چنانچہ جب میں سواری سے اتراتو اس سے کہا: اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو،پھراس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اورجاکردودھ نکا ل لایا،پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا: ابوسعید ! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پیناپسندنہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے (یعنی دجال ہے) چنانچہ میں نے اس سے کہا: آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا، اس نے کہا: ابوسعید! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اورگلاگھونٹ کر مرجاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں، بد گمانی کرتے ہیں، آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں ؟ انصارکی جماعت ! کیا آپ لو گ رسول اللہﷺ کی حدیث کے سب سے بڑے جانکارنہیں ہیں ؟ کیا رسول اللہﷺ نے (دجال کے بارے میں) یہ نہیں فرمایاہے کہ وہ کافرہے ؟ جب کہ میں مسلمان ہوں،کیارسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے؟اس کی اولادنہیں ہوگی، جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے، کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہوگا ؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں؟ اوراب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جارہاہوں، ابوسعیدخدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا : شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں، پھر اس نے کہا: ابوسعید ! اللہ کی قسم! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں؟ اللہ کی قسم! میں دجال کو جانتاہوں، اس کے باپ کو جانتا ہوں اوریہ بھی جانتاہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہ میں ہیتب میں نے کہا: تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو دلائل تم نے پیش کئے ان کی بنیاد پر تمہارے متعلق میں نے جو حسن ظن قائم کیاتھا تمہاری اس آخری بات کو سن کر میرا حسن ظن جاتارہا اور مجھے تجھ سے بد گمانی ہوگئی (شاید یہ اس کے ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے تھا، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو اس کی اول فول باتوں کی وجہ سے دجال تک سمجھنے لگے)


2247- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَاحْتَبَسَهُ، وَهُوَ غُلاَمٌ يَهُودِيٌّ، وَلَهُ ذُؤَابَةٌ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟" فَقَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "آمَنْتُ بِاللهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ" قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا تَرَى" قَالَ: أَرَى عَرْشًا فَوْقَ الْمَائِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ فَوْقَ الْبَحْرِ"، قَالَ: "فَمَا تَرَى؟" قَالَ: أَرَى صَادِقًا وَكَاذِبِينَ أَوْ صَادِقِينَ وَكَاذِبًا، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لُبِسَ عَلَيْهِ" فَدَعَاهُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَحَفْصَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: م/الفتن ۱۹ (۲۹۲۵/۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۹) (صحیح)
۲۲۴۷- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ابن صائد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملے ، آپ نے اسے پکڑلیا، وہ ایک یہودی لڑکا تھا، اس کے سر پر ایک چوٹی تھی، اس وقت آپ کے ساتھ ابوبکراورعمربھی تھے ، آپ نے فرمایا:'' کیا تم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟''، اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' میں اللہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اوریوم آخرت پرایمان لا یاہوں''، نبی اکرمﷺ نے پوچھا:''تم کیا دیکھتے ہو؟'' ۱؎ اس نے کہا: پانی کے اوپرایک عرش دیکھتاہوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تم سمندرکے اوپرابلیس کا عرش دیکھتے ہو''، آپ نے فرمایا:'' اوربھی کچھ دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: ایک سچا اوردوجھوٹے یا دوجھوٹے اورایک سچے کو دیکھتاہوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے ''، پھر آپ نے اسے چھوڑدیا ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عمر، حسین بن علی ، ابن عمر، ابوذر، ابن مسعود، جابر اورحفصہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جولوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے، اور جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، اس میں سے کیاد یکھتے ہو؟۔


2248- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَمْكُثُ أَبُوالدَّجَّالِ وَأُمُّهُ ثَلاَثِينَ عَامًا، لاَ يُولَدُ لَهُمَا وَلَدٌ، ثُمَّ يُولَدُ لَهُمَا غُلاَمٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْئٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، ثُمَّ نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَبَوَيْهِ، فَقَالَ: أَبُوهُ طِوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ كَأَنَّ أَنْفَهُ مِنْقَارٌ، وَأُمُّهُ فِرْضَاخِيَّةٌ طَوِيلَةُ الْيَدَيْنِ"، فَقَالَ أَبُوبَكْرَةَ: فَسَمِعْنَا بِمَوْلُودٍ فِي الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ فَذَهَبْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبَوَيْهِ، فَإِذَا نَعْتُ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِيهِمَا، فَقُلْنَا: هَلْ لَكُمَا وَلَدٌ؟ فَقَالاَ: مَكَثْنَا ثَلاَثِينَ عَامًا لاَ يُولَدُ لَنَا وَلَدٌ، ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلاَمٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْئٍ، وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً، تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، قَالَ: فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمَا، فَإِذَا هُوَ مُنْجَدِلٌ فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ، وَلَهُ هَمْهَمَةٌ، فَتَكَشَّفَ عَنْ رَأْسِهِ، فَقَالَ: مَا قُلْتُمَا؟ قُلْنَا: وَهَلْ سَمِعْتَ مَا قُلْنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، تَنَامُ عَيْنَايَ وَلاَ يَنَامُ قَلْبِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸۸) (ضعیف)
(سندمیں ''علی بن زید بن جدعان'' ضعیف ہیں)
۲۲۴۸- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' دجال کے باپ اورماں تیس سال تک اس حال میں رہیں گے کہ ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدانہیں ہوگا ،پھر ایک کانالڑکا پیداہو گا جس میں نقصان زیادہ اورفائدہ کم ہوگا ، اس کی آنکھیں سوئیں گی مگردل نہیں سوئے گا، پھررسول اللہﷺ نے اس کے والدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: '' اس کا باپ دراز قد اوردبلا ہوگا اور اس کی ناک چونچ کی طرح ہوگی ، اس کی ماں بھاری بھرکم اورلمبے ہاتھ والی ہوگی'' ، ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے مدینہ کے اندریہود میں ایک ایسے ہی لڑکے کے بارے میں سنا ، چنانچہ میں اورزبیربن عوام چلے یہاں تک کہ اس کے والدین کے پاس گئے تو وہ ویسے ہی تھے ، جیسا رسول اللہﷺ نے بتایا تھا ، ہم نے پوچھا: کیا تمہارا کوئی لڑکا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں تیس سال تک کوئی لڑکا پیدانہیں ہوا، پھر ہم سے ایک لڑکا پیداہو ا جس میں نقصان زیادہ اورفائدہ کم ہے ، اس کی آنکھیں سوتی ہیں مگراس کا دل نہیں سوتا ، ہم ان کے پاس سے نکلے تو وہ لڑکا دھوپ میں ایک موٹی چادرپر لیٹاتھا اورکچھ گنگنا رہا تھا، پھراس نے اپنے سرسے کپڑے ہٹایااورپوچھا:تم دونوں نے کیا کہا ہے ؟ ہم نے کہا: ہم نے جو کہا ہے کیاتم نے اسے سن لیا؟ اس نے کہا: ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں،مگردل نہیں سوتا ہے'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔


2249- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلاَمٌ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: "أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟" فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "آمَنْتُ بِاللهِ وَبِرُسُلِهِ"، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا يَأْتِيكَ؟" قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ" ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ" فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ" قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لاَ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ" قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ يَعْنِي الدَّجَّالَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۷۹ (۱۳۵۴)، والجھاد ۱۷۸ (۳۰۵۵)، والأدب ۹۷ (۶۶۱۸)، م/الفتن ۱۹ (۲۹۳۰)، د/الملاحم ۱۶ (۴۳۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۲)، وحم (۲/۱۴۸) (صحیح)
۲۲۴۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمربن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہاتھا ، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہوسکا یہاں تک کہ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا:'' کیاتم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا:میں گواہی دیتاہوں کہ آپ امیّوں کے رسول ہیں، پھرابن صیاد نے نبی اکرمﷺ سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میں اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لایاہوں، پھر نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا: تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیزآتی ہے؟ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اورایک جھوٹا آتا ہے ، پھر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تمہارے اوپرتیرا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے'' ،پھرآپﷺ نے فرمایا:'' میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اورآپ نے آیت:{ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} ۱؎ چھپالی، ابن صیادنے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) دخ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پھٹکارہوتجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا''، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑادوں، آپﷺ نے فرمایا:''اگروہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آسکتے اوراگروہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے''۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: ''حقا'' سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
وضاحت ۲؎ : بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبردی گئی ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے، معلوم ہوتاہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان دجاجلہ ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبردی تھی، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھاکر ابن صیاد کو دجال کہا حتی کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہاگیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
64-باب
۶۴-باب: یہ پیشین گوئی کہ سوسال کے بعدآج کا کوئی آدمی زندہ نہ بچے گا​


2250- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا عَلَى الأَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوسَةٌ يَعْنِي الْيَوْمَ تَأْتِي عَلَيْهَا مِائَةُ سَنَةٍ". قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَبُرَيْدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر م/فضائل الصحابۃ ۵۳ (۲۵۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۲۳۳۱)، وحم (۳/۳۰۵، ۳۱۴، ۳۲۲، ۳۴۵، ۳۸۵) (صحیح)
۲۲۵۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' آج روئے زمین پر جو بھی زندہ ہے سوسال بعدنہیں رہے گا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابن عمر، ابوسعیدخدری اوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک قرن ختم ہوجائے گا اوردوسرا قرن شروع ہوجائے گا۔


2251- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللهِ وَأَبِي بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّ عَبْدَاللهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ صَلاَةَ الْعِشَائِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ: "أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ عَلَى رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ" قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَهِلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ تِلْكَ فِيمَا يَتَحَدَّثُونَهُ مِنْ هَذِهِ الأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ" يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنْ يَنْخَرِمَ ذَلِكَ الْقَرْنُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/العلم ۴۱ (۱۱۶)، والمواقیت الصلاۃ ۲۰ (۶۰۱)، م/فضائل الصحابۃ ۵۳ (۲۵۳۷)، د/الملاحم ۱۸ (۴۳۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۴) (صحیح)
۲۲۵۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے اپنی آخری عمرمیں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، جب آپ سلام پھیر چکے توکھڑے ہوئے اور فرمایا:'' کیاتم نے اپنی اس رات کودیکھا اس وقت جتنے بھی آدمی اس روئے زمین پر ہیں سوسال گزرجانے کے بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا'' ۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:یہ سن کر لوگ مغالطے میں پڑگئے کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ سے ایسی حدیث بیان کرتے ہیں کہ سوسال کے بعد قیامت آجائے گی ، حالاں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا تھا کہ جو آج باقی ہیں ان میں سے کوئی روئے زمین پر باقی نہیں رہے گا ، یعنی اس نسل اورقرن کے لوگ ختم ہوجائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
65- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ سَبِّ الرِّيَاحِ
۶۵-باب: ہواکوگالی دینامنع ہے​


2252- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ تَسُبُّوا الرِّيحَ فَإِذَا رَأَيْتُمْ مَا تَكْرَهُونَ فَقُولُوا: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ، وَخَيْرِ مَا فِيهَا، وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ، وَشَرِّ مَا فِيهَا، وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِهِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ وَأَنَسٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۲۷۱ (۹۳۳، ۹۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۵۶)، وحم (۵/۱۲۳) (صحیح)
۲۲۵۲- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ہواکو گالی مت دو، اگراس میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھوتویہ دعاء پڑھو''اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِهِ '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ،ابوہریرہ، عثمان، انس، ابن عباس اورجابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہواکی بہتری مانگتے ہیں اوروہ بہتری جواس میں ہے اوروہ بہتری جس کی یہ مامورہے ، اورتیری پناہ مانگتے ہیں اس ہواکی شرسے اوراس شرسے جو اس میں ہے اوراس شرسے جس کی یہ مامورہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
66- باب
۶۶-باب: جساسہ کابیان​


2253- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ صَعِدَ الْمِنْبَرَ فَضَحِكَ، فَقَالَ: "إِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ حَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ فَفَرِحْتُ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمْ، حَدَّثَنِي أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا سَفِينَةً فِي الْبَحْرِ، فَجَالَتْ بِهِمْ حَتَّى قَذَفَتْهُمْ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَإِذَا هُمْ بِدَابَّةٍ لَبَّاسَةٍ نَاشِرَةٍ شَعْرَهَا، فَقَالُوا: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا: فَأَخْبِرِينَا، قَالَتْ: لاَ أُخْبِرُكُمْ وَلاَ أَسْتَخْبِرُكُمْ، وَلَكِنْ ائْتُوا أَقْصَى الْقَرْيَةِ، فَإِنَّ ثَمَّ مَنْ يُخْبِرُكُمْ وَيَسْتَخْبِرُكُمْ، فَأَتَيْنَا أَقْصَى الْقَرْيَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُوثَقٌ بِسِلْسِلَةٍ، فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ، قُلْنَا: مَلأَى تَدْفُقُ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنِ الْبُحَيْرَةِ، قُلْنَا: مَلأَى تَدْفُقُ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ الَّذِي بَيْنَ الأُرْدُنِّ وَفِلَسْطِينَ هَلْ أَطْعَمَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَخْبِرُونِي عَنِ النَّبِيِّ هَلْ بُعِثَ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَخْبِرُونِي كَيْفَ النَّاسُ إِلَيْهِ؟ قُلْنَا سِرَاعٌ، قَالَ: فَنَزَّى نَزْوَةً حَتَّى كَادَ، قُلْنَا: فَمَا أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا الدَّجَّالُ، وَإِنَّهُ يَدْخُلُ الأَمْصَارَ كُلَّهَا إِلاَّ طَيْبَةَ، وَطَيْبَةُ الْمَدِينَةُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ.
* تخريج: م/الفتن ۲۴ (۲۹۴۲)، د/الملاحم ۱۵ (۴۳۲۶)، ق/الفتن ۳۳ (۴۰۷۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۲۴)، وحم (۶/۳۷۴، ۴۱۸) (صحیح)
۲۲۵۳- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ منبرپرچڑھے ،ہنسے پھرفرمایا:'' تمیم داری نے مجھ سے ایک بات بیان کی ہے جس سے میں بے حد خوش ہوں اورچاہتاہوں کہ تم سے بھی بیان کروں ، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں ایک کشتی پر سوارہوئے ، وہ کشتی (طوفان میں پڑنے کی وجہ سے) کسی اور طرف چلی گئی حتی کہ انہیں سمندر کے کسی جزیرہ میں ڈال دیا ، اچانک ان لوگوں نے بہت کپڑے پہنے ایک رینگنے والی چیزکو دیکھاجس کے بال بکھرے ہوئے تھے ، ان لوگوں نے پوچھا: تم کیاہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ (جاسوسی کرنے والی)ہوں، ان لوگوں نے کہا: ہمیں(اپنے بارے میں) بتاؤ، اس نے کہا : نہ میں تم لوگوں کو کچھ بتاؤں گی اورنہ ہی تم لوگوں سے کچھ پوچھوں گی ، البتہ تم لوگ بستی کے آخرمیں جاؤ وہاں ایک آدمی ہے ، جو تم کو بتائے گا اورتم سے پوچھے گا ، چنانچہ ہم لوگ بستی کے آخرمیں آئے تو وہاں ایک آدمی زنجیرمیں بندھاہوا تھا اس نے کہا: مجھے زغر(ملک شام کی ایک بستی کا نام ہے) کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: بھرا ہوا ہے اورچھلک رہا ہے ، اس نے کہا: مجھے بیسان کے کھجوروں کے بارے میں بتاؤجو اردن اورفلسطین کے درمیان ہے ، کیا اس میں پھل آیا؟ ہم نے کہا: ہاں ، اس نے کہا: مجھے نبی (آخرالزماں ﷺ) کے بارے میں بتاؤکیا وہ مبعوث ہوئے ؟ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: بتاؤلوگ ان کی طرف کیسے جاتے ہیں؟ ہم نے کہا: تیزی سے، اس نے زورسے چھلانگ لگا ئی حتی کہ آزاد ہونے کے قریب ہوگیا ، ہم نے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے کہاکہ وہ دجال ہے اورطیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہوگا، طیبہ سے مراد مدینہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث شعبہ کے واسطہ سے قتادہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے کئی لوگوں نے شعبی کے واسطہ سے فاطمہ بنت قیس سے روایت کیا ہے ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : حدیث جسّاسہ کی تفصیل کے لیے صحیح مسلم میں ''کتاب الفتن''کا مطالعہ کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67- باب
۶۷-باب : آدمی کو اپنے سے کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہئے​


2254- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ جُنْدَبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَيَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ" قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ: "يَتَعَرَّضُ مِنَ الْبَلاَئِ لِمَا لاَ يُطِيقُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الفتن ۲۱ (۴۰۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۰۵)، وحم (۵/۴۰۵) (صحیح)
۲۲۵۴- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس کوذلیل کرے''، صحابہ نے عرض کیا : اپنے نفس کو کیسے ذلیل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا:'' اپنے آپ کو ایسی مصیبت سے دوچارکرے جسے جھیلنے کی وہ طاقت نہ رکھتاہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68-باب
۶۸-باب: ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرنے کابیان​


2255- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: "انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا" قُلْنَا: يَارَسُولَ اللهِ! نَصَرْتُهُ مَظْلُومًا، فَكَيْفَ أَنْصُرُهُ ظَالِمًا؟ قَالَ: "تَكُفُّهُ عَنِ الظُّلْمِ، فَذَاكَ نَصْرُكَ إِيَّاهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المظالم ۴ (۲۴۴۳، ۲۴۴۴)، والإکراہ ۷ (۶۹۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱)، وحم (۳/۹۹، ۲۰۱، ۲۲۴) (صحیح)
۲۲۵۵- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اپنے بھائی کی مددکروخواہ وہ ظالم ہویامظلوم''، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ! میں نے مظلوم ہونے کی صورت میں تو اس کی مددکی لیکن ظالم ہو نے کی صورت میں اس کی مددکیسے کروں؟ آپ نے فرمایا:'' اسے ظلم سے بازرکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مددہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- باب
۶۹-باب: فتنوں میں پڑنے والی چیزوں کابیان​


2256- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ سَكَنَ الْبَادِيَةَ جَفَا، وَمَنْ اتَّبَعَ الصَّيْدَ غَفَلَ، وَمَنْ أَتَى أَبْوَابَ السُّلْطَانِ افْتَتَنَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبَي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ.
* تخريج: د/الصید ۴ (۲۸۵۹)، ن/الصید ۲۴ (۴۳۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۶۵۳۹)، وحم (۱/۳۵۷) (صحیح)
۲۲۵۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''جس نے بادیہ(صحراء وبیابان) کی سکونت اختیار کی وہ سخت طبیعت والاہوگیا، جس نے شکارکاپیچھاکیاوہ غافل ہوگیا اورجوبادشاہ کے دروازے پر آیا وہ فتنوں کا شکارہوگیا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف ثوری کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ صحراء وبیابان کی سکونت اختیار کرنے والا اگر جمعہ و جماعت میں حاضر نہیں ہوتاہے اور علماء کی مجالس سے دوررہتاہے تو ایسا شخص تمدن وتہذیب سے دور ،سخت طبیعت والاہوگا، اسی طرح جو لہو و لعب کی غرض سے شکار کا عادی ہوا وہ غفلت میں مبتلا ہوجائے گا، البتہ جو رزق کی خاطر شکار کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ عمل اس کے لیے جائز ہے۔کیوں کہ بعض صحابہ کرام نے بھی یہ عمل اپنا یا ہے، باد شاہوں کے دربار میں حاضری دینے والا اگر مداہنت سے کام لیتاہے تو فتنہ میں پڑ جائے گا، البتہ جو بادشاہوں کے پاس رہ کر انہیں نصیحت کرے اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے تو یہ اس کے لیے افضل جہاد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70-باب
۷۰-باب : کچھ اور پیشین گوئیاں​


2257- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّكُمْ مَنْصُورُونَ وَمُصِيبُونَ وَمَفْتُوحٌ لَكُمْ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَتَّقِ اللهَ، وَلْيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْيَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۵۹) (ویأتي الجزء الأخیر منہ برقم : ۲۶۵۹) (صحیح)
۲۲۵۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: (دشمنوں پر) تمہاری مددکی جائے گی ، تمہیں ما ل ودولت ملے گی اورتمہارے لیے قلعے کے دروازے کھولے جائیں گے ، پس تم میں سے جوشخص ایسا وقت پائے اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے ، بھلائی کا حکم دے اوربرائی سے روکے اورجوشخص مجھ پرجان بوجھ کر جھوٹ بولے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71-باب
۷۱-باب: سمندر کی موج کی طرح کے فتنے کاذکر​


2258- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ وَحَمَّادٍ وَعَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ سَمِعُوا أَبَا وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ عُمَرُ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ مَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي الْفِتْنَةِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا، قَالَ حُذَيْفَةُ: فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ يُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَقَالَ عُمَرُ: لَسْتُ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ، وَلَكِنْ عَنِ الْفِتْنَةِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: يَاأَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ عُمَرُ: أَيُفْتَحُ أَمْ يُكْسَرُ؟ قَالَ: بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: إِذًا لاَ يُغْلَقُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، قَالَ أَبُو وَائِلٍ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: فَقُلْتُ لِمَسْرُوقٍ سَلْ حُذَيْفَةَ عَنِ الْبَابِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: عُمَرُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المواقیت ۴ (۵۲۵)، والزکاۃ ۲۳ (۱۴۳۵)، والصوم ۳ (۱۸۹۵)، والمناقب ۲۵ (۳۵۸۶)، والفتن ۱۷ (۷۰۹۶)، م/الإیمان ۶۵ (۱۴۴)، والفتن ۷ (۱۴۴/۲۶)، ق/الفتن ۹ (۳۵۵۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۳۷)، وحم (۵/۳۸۶ (صحیح)
۲۲۵۸- حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: رسول اللہﷺ نے فتنہ کے بارے میں جوفرمایاہے اسے کس نے یادرکھا ہے ؟ حذیفہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ نے بیان کیا:'' آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل ، مال، اولاد اورپڑوسی کے سلسلے میں ہوگا اسے صلاۃ،صوم ،زکاۃ ، امربالمعروف اورنہی عن المنکرمٹادیتے ہیں'' ۱؎ ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہاہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہاہوں جو سمندرکی موجوں کی طرح موجیں مارے گا ، انہوں نے کہا: امیرالمومنین ! آپ کے اور اس فتنے کے درمیان ایک بنددروازہ ہے ، عمرنے پوچھا: کیا وہ دروازہ کھولاجائے گا یا توڑ دیا جائے گا؟ انہوں نے کہا: توڑدیاجائے گا ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تب توقیامت تک بندنہیں ہوگا۔
حمادکی روایت میں ہے کہ ابووائل شقیق بن سلمہ نے کہا: میں نے مسروق سے کہاکہ حذیفہ سے اس دروازہ کے بارے میں پوچھو انہوں نے پوچھاتو کہا: وہ دروازہ عمرہیں ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل ، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جوکوتاہیاں ہوجاتی ہیں تو صلاۃ ، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ بیان کیا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا ، یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا، اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی، چنانچہ ہر کوئی سکون واطمینان کا متلاشی ہے۔
 
Top