63-بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ ابْنِ صَائِدٍ
۶۳-باب: ابن صائد (ابن صیاد) کابیان
2246- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ، فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِكْتُ أَنَا وَهُوَ، فَلَمَّا خَلَصْتُ بِهِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْهُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَلَمَّا نَزَلْتُ قُلْتُ لَهُ: ضَعْ مَتَاعَكَ حَيْثُ تِلْكَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ، فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ، ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ، فَقَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ! اشْرَبْ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ وَإِنِّي أَكْرَهُ فِيهِ اللَّبَنَ، قَالَ لِي: يَا أَبَا سَعِيدٍ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلاً فَأُوثِقَهُ إِلَى شَجَرَةٍ، ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي، وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَى عَلَيْكُمْ، أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟، يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ! أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِنَّهُ كَافِرٌ؟، وَأَنَا مُسْلِمٌ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِنَّهُ عَقِيمٌ لاَ يُولَدُ لَهُ؟، وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ، أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللهِ ﷺ لاَ يَدْخُلُ أَوْلاَ تَحِلُّ لَهُ مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ؟ أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَهُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَكَ إِلَى مَكَّةَ؟ فَوَاللهِ! مَا زَالَ يَجِيئُ بِهَذَا حَتَّى قُلْتُ: فَلَعَلَّهُ مَكْذُوبٌ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا سَعِيدٍ! وَاللَّهِ! لأُخْبِرَنَّكَ خَبَرًا حَقًّا، وَاللهِ! إِنِّي لأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ وَالِدَهُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنَ الأَرْضِ، فَقُلْتُ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفتن ۱۹ (۲۹۲۷/۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۸) (صحیح)
۲۲۴۶- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حج یاعمرہ میں ابن صائد (ابن صیاد) میرے ساتھ تھا، لوگ آگے چلے گئے اورہم دونوں پیچھے رہ گئے، جب میں اس کے ساتھ اکیلے رہ گیا تولوگ اس کے بارے میں جو کہتے تھے اس کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے اوراس سے مجھے خوف محسوس ہونے لگا ، چنانچہ جب میں سواری سے اتراتو اس سے کہا: اس درخت کے پاس اپنا سامان رکھ دو،پھراس نے کچھ بکریوں کو دیکھا تو پیالہ لیا اورجاکردودھ نکا ل لایا،پھر میرے پاس دودھ لے آیا اور مجھ سے کہا: ابوسعید ! پیو، لیکن میں نے اس کے ہاتھ کا کچھ بھی پیناپسندنہیں کیا، اس وجہ سے جو لوگ اس کے بارے میں کچھ کہتے تھے (یعنی دجال ہے) چنانچہ میں نے اس سے کہا: آج کا دن سخت گرمی کا ہے اس لیے میں آج دودھ پینا بہتر نہیں سمجھتا، اس نے کہا: ابوسعید! میں نے ارادہ کیا ہے کہ ایک رسی سے اپنے آپ کو اس درخت سے باندھ لوں اورگلاگھونٹ کر مرجاؤں یہ اس وجہ سے کہ لوگ جو میرے بارے میں کہتے ہیں، بد گمانی کرتے ہیں، آپ بتائیے لوگوں سے میری باتیں بھلے ہی چھپی ہوں مگر آپ سے تو نہیں چھپی ہیں ؟ انصارکی جماعت ! کیا آپ لو گ رسول اللہﷺ کی حدیث کے سب سے بڑے جانکارنہیں ہیں ؟ کیا رسول اللہﷺ نے (دجال کے بارے میں) یہ نہیں فرمایاہے کہ وہ کافرہے ؟ جب کہ میں مسلمان ہوں،کیارسول اللہﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ بانجھ ہے؟اس کی اولادنہیں ہوگی، جب کہ میں نے مدینہ میں اپنی اولاد چھوڑی ہے، کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہوگا ؟ کیا میں مدینہ کا نہیں ہوں؟ اوراب آپ کے ساتھ چل کر مکہ جارہاہوں، ابوسعیدخدری کہتے ہیں: اللہ کی قسم! وہ ایسی ہی دلیلیں پیش کرتا رہا یہاں تک کہ میں کہنے لگا : شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں، پھر اس نے کہا: ابوسعید ! اللہ کی قسم! اس کے بارے میں آپ کو سچی بات بتاؤں؟ اللہ کی قسم! میں دجال کو جانتاہوں، اس کے باپ کو جانتا ہوں اوریہ بھی جانتاہوں کہ وہ اس وقت زمین کے کس خطہ میں ہیتب میں نے کہا: تمہارے لیے تمام دن تباہی ہو ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جو دلائل تم نے پیش کئے ان کی بنیاد پر تمہارے متعلق میں نے جو حسن ظن قائم کیاتھا تمہاری اس آخری بات کو سن کر میرا حسن ظن جاتارہا اور مجھے تجھ سے بد گمانی ہوگئی (شاید یہ اس کے ذہنی مریض ہونے کی وجہ سے تھا، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کو اس کی اول فول باتوں کی وجہ سے دجال تک سمجھنے لگے)
2247- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: لَقِيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ابْنَ صَائِدٍ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَاحْتَبَسَهُ، وَهُوَ غُلاَمٌ يَهُودِيٌّ، وَلَهُ ذُؤَابَةٌ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟" فَقَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "آمَنْتُ بِاللهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ" قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا تَرَى" قَالَ: أَرَى عَرْشًا فَوْقَ الْمَائِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "تَرَى عَرْشَ إِبْلِيسَ فَوْقَ الْبَحْرِ"، قَالَ: "فَمَا تَرَى؟" قَالَ: أَرَى صَادِقًا وَكَاذِبِينَ أَوْ صَادِقِينَ وَكَاذِبًا، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لُبِسَ عَلَيْهِ" فَدَعَاهُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ مَسْعُودٍ وَجَابِرٍ وَحَفْصَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: م/الفتن ۱۹ (۲۹۲۵/۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۲۹) (صحیح)
۲۲۴۷- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ ابن صائد سے مدینہ کے کسی راستہ میں ملے ، آپ نے اسے پکڑلیا، وہ ایک یہودی لڑکا تھا، اس کے سر پر ایک چوٹی تھی، اس وقت آپ کے ساتھ ابوبکراورعمربھی تھے ، آپ نے فرمایا:'' کیا تم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟''، اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' میں اللہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اوریوم آخرت پرایمان لا یاہوں''، نبی اکرمﷺ نے پوچھا:''تم کیا دیکھتے ہو؟'' ۱؎ اس نے کہا: پانی کے اوپرایک عرش دیکھتاہوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تم سمندرکے اوپرابلیس کا عرش دیکھتے ہو''، آپ نے فرمایا:'' اوربھی کچھ دیکھتے ہو؟ اس نے کہا: ایک سچا اوردوجھوٹے یا دوجھوٹے اورایک سچے کو دیکھتاہوں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اس پر معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے ''، پھر آپ نے اسے چھوڑدیا ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عمر، حسین بن علی ، ابن عمر، ابوذر، ابن مسعود، جابر اورحفصہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جولوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے، اور جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، اس میں سے کیاد یکھتے ہو؟۔
2248- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَمْكُثُ أَبُوالدَّجَّالِ وَأُمُّهُ ثَلاَثِينَ عَامًا، لاَ يُولَدُ لَهُمَا وَلَدٌ، ثُمَّ يُولَدُ لَهُمَا غُلاَمٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْئٍ وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، ثُمَّ نَعَتَ لَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ أَبَوَيْهِ، فَقَالَ: أَبُوهُ طِوَالٌ ضَرْبُ اللَّحْمِ كَأَنَّ أَنْفَهُ مِنْقَارٌ، وَأُمُّهُ فِرْضَاخِيَّةٌ طَوِيلَةُ الْيَدَيْنِ"، فَقَالَ أَبُوبَكْرَةَ: فَسَمِعْنَا بِمَوْلُودٍ فِي الْيَهُودِ بِالْمَدِينَةِ فَذَهَبْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبَوَيْهِ، فَإِذَا نَعْتُ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِيهِمَا، فَقُلْنَا: هَلْ لَكُمَا وَلَدٌ؟ فَقَالاَ: مَكَثْنَا ثَلاَثِينَ عَامًا لاَ يُولَدُ لَنَا وَلَدٌ، ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلاَمٌ أَعْوَرُ أَضَرُّ شَيْئٍ، وَأَقَلُّهُ مَنْفَعَةً، تَنَامُ عَيْنَاهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، قَالَ: فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِهِمَا، فَإِذَا هُوَ مُنْجَدِلٌ فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ، وَلَهُ هَمْهَمَةٌ، فَتَكَشَّفَ عَنْ رَأْسِهِ، فَقَالَ: مَا قُلْتُمَا؟ قُلْنَا: وَهَلْ سَمِعْتَ مَا قُلْنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، تَنَامُ عَيْنَايَ وَلاَ يَنَامُ قَلْبِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۸۸) (ضعیف)
(سندمیں ''علی بن زید بن جدعان'' ضعیف ہیں)
۲۲۴۸- ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' دجال کے باپ اورماں تیس سال تک اس حال میں رہیں گے کہ ان کے ہاں کوئی لڑکا پیدانہیں ہوگا ،پھر ایک کانالڑکا پیداہو گا جس میں نقصان زیادہ اورفائدہ کم ہوگا ، اس کی آنکھیں سوئیں گی مگردل نہیں سوئے گا، پھررسول اللہﷺ نے اس کے والدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: '' اس کا باپ دراز قد اوردبلا ہوگا اور اس کی ناک چونچ کی طرح ہوگی ، اس کی ماں بھاری بھرکم اورلمبے ہاتھ والی ہوگی'' ، ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے مدینہ کے اندریہود میں ایک ایسے ہی لڑکے کے بارے میں سنا ، چنانچہ میں اورزبیربن عوام چلے یہاں تک کہ اس کے والدین کے پاس گئے تو وہ ویسے ہی تھے ، جیسا رسول اللہﷺ نے بتایا تھا ، ہم نے پوچھا: کیا تمہارا کوئی لڑکا ہے ؟ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں تیس سال تک کوئی لڑکا پیدانہیں ہوا، پھر ہم سے ایک لڑکا پیداہو ا جس میں نقصان زیادہ اورفائدہ کم ہے ، اس کی آنکھیں سوتی ہیں مگراس کا دل نہیں سوتا ، ہم ان کے پاس سے نکلے تو وہ لڑکا دھوپ میں ایک موٹی چادرپر لیٹاتھا اورکچھ گنگنا رہا تھا، پھراس نے اپنے سرسے کپڑے ہٹایااورپوچھا:تم دونوں نے کیا کہا ہے ؟ ہم نے کہا: ہم نے جو کہا ہے کیاتم نے اسے سن لیا؟ اس نے کہا: ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں،مگردل نہیں سوتا ہے'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
2249- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ بِابْنِ صَيَّادٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَهُوَ غُلاَمٌ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: "أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟" فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ: أَتَشْهَدُ أَنْتَ أَنِّي رَسُولُ اللهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "آمَنْتُ بِاللهِ وَبِرُسُلِهِ"، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَا يَأْتِيكَ؟" قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ" ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنِّي خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا وَخَبَأَ لَهُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ" فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ" قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنْ يَكُ حَقًّا فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لاَ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ" قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ يَعْنِي الدَّجَّالَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۷۹ (۱۳۵۴)، والجھاد ۱۷۸ (۳۰۵۵)، والأدب ۹۷ (۶۶۱۸)، م/الفتن ۱۹ (۲۹۳۰)، د/الملاحم ۱۶ (۴۳۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۲)، وحم (۲/۱۴۸) (صحیح)
۲۲۴۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ جس میں عمربن خطاب بھی تھے ابن صیاد کے پاس سے گزرے، اس وقت وہ بچوں کے ساتھ بنی مغالہ کے ٹیلوں کے پاس کھیل رہاتھا ، وہ ایک چھوٹا بچہ تھا اس لیے اسے آپ کی آمد کا احساس اس وقت تک نہ ہوسکا یہاں تک کہ آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس کی پیٹھ پر مارا، پھر فرمایا:'' کیاتم گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابن صیاد نے آپ کی طرف دیکھ کر کہا:میں گواہی دیتاہوں کہ آپ امیّوں کے رسول ہیں، پھرابن صیاد نے نبی اکرمﷺ سے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' میں اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لایاہوں، پھر نبی اکرم ﷺ نے دریافت کیا: تمہارے پاس (غیب کی) کون سی چیزآتی ہے؟ابن صیاد نے کہا: میرے پاس ایک سچا اورایک جھوٹا آتا ہے ، پھر نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''تمہارے اوپرتیرا معاملہ مشتبہ ہوگیا ہے'' ،پھرآپﷺ نے فرمایا:'' میں تمہارے لیے (دل میں) ایک بات چھپاتا ہوں اورآپ نے آیت:
{ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} ۱؎ چھپالی، ابن صیادنے کہا: وہ (چھپی ہوئی چیز) دخ ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' پھٹکارہوتجھ پر تو اپنی حد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا''، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس کی گردن اڑادوں، آپﷺ نے فرمایا:''اگروہ حقیقی دجال ہے تو تم اس پر غالب نہیں آسکتے اوراگروہ نہیں ہے تو اسے قتل کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے''۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: ''حقا'' سے آپ کی مراد دجال ہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔
وضاحت ۲؎ : بعض صحابہ کرام یہ سمجھتے تھے کہ یہی وہ مسیح دجال ہے جس کے متعلق قرب قیامت میں ظہور کی خبردی گئی ہے، لیکن فاطمہ بنت قیس کی روایت سے جس میں تمیم داری نے اپنے سمندری سفر کا حال بیان کیا ہے، معلوم ہوتاہے کہ قطعیت اس بات میں ہے کہ ابن صیاد دجال اکبر نہیں بلکہ کوئی اور ہے، ابن صیاد تو ان دجاجلہ ، کذابین میں سے ایک ہے جن کے ظہور کی رسول اللہ ﷺ نے خبردی تھی، اور ان میں سے اکثر کا ظہور ہوچکا ہے، رہے وہ صحابہ جنہوں نے وثوق کے ساتھ قسم کھاکر ابن صیاد کو دجال کہا حتی کہ آپ ﷺ کے سامنے بھی اسے دجال کہاگیا اور آپ خاموش رہے تو یہ سب تمیم داری والے واقعہ سے پہلے کی باتیں ہیں۔