59-بَاب مَا جَاءَ فِي فِتْنَةِ الدَّجَّالِ
۵۹-باب: دجال کے فتنے کابیان
2240- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، دَخَلَ حَدِيثُ أَحَدِهِمَا فِي حَدِيثِ الآخَرِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلاَبِيِّ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، قَالَ: فَانْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَيْهِ فَعَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: "مَا شَأْنُكُمْ؟" قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ، حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، قَالَ: "غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ، عَيْنُهُ طَافِئَةٌ شَبِيهٌ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ أَصْحَابِ الْكَهْفِ، قَالَ: يَخْرُجُ مَا بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَشِمَالاً، يَا عِبَادَ اللَّهِ! اثْبُتُوا"، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا لَبْثُهُ فِي الأَرْضِ؟ قَالَ: "أَرْبَعِينَ يَوْمًا، يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ" قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ الْيَوْمَ الَّذِي كَالسَّنَةِ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلاَةُ يَوْمٍ؟ قَالَ: "لاَوَلَكِنْ اقْدُرُوا لَهُ" قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ! فَمَا سُرْعَتُهُ فِي الأَرْضِ؟ قَالَ: "كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ، فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيُكَذِّبُونَهُ، وَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ وَيُصْبِحُونَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْئٌ، ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُصَدِّقُونَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَائَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ، وَيَأْمُرُ الأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ كَأَطْوَلِ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَمَدِّهِ خَوَاصِرَ وَأَدَرِّهِ ضُرُوعًا" قَالَ: "ثُمَّ يَأْتِي الْخَرِبَةَ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَيَنْصَرِفُ مِنْهَا فَيَتْبَعُهُ كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ، ثُمَّ يَدْعُو رَجُلاً شَابًّا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ، ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ هَبَطَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلاَم بِشَرْقِيِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَائِ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ، إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَّانٌ كَاللُّؤْلُؤِ"، قَالَ: "وَلاَ يَجِدُ رِيحَ نَفْسِهِ يَعْنِي أَحَدًا إِلاَّ مَاتَ، وَرِيحُ نَفْسِهِ مُنْتَهَى بَصَرِهِ"، قَالَ: "فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلَهُ" قَالَ: "فَيَلْبَثُ كَذَلِكَ مَا شَائَ اللهُ" قَالَ: "ثُمَّ يُوحِي اللهُ إِلَيْهِ أَنْ حَوِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ، فَإِنِّي قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادًا لِي لاَ يَدَانِ لأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ" قَالَ: "وَيَبْعَثُ اللهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ، وَهُمْ كَمَا قَالَ اللهُ: {مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ} قَالَ: "فَيَمُرُّ أَوَّلُهُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ، فَيَشْرَبُ مَا فِيهَا، ثُمَّ يَمُرُّ بِهَا آخِرُهُمْ، فَيَقُولُ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَائٌ، ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ بَيْتِ مَقْدِسٍ، فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الأَرْضِ، فَهَلُمَّ فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَائِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَائِ، فَيَرُدُّ اللهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مُحْمَرًّا دَمًا، وَيُحَاصَرُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لأَحَدِهِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ" قَالَ: "فَيَرْغَبُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى اللهِ وَأَصْحَابُهُ" قَالَ: "فَيُرْسِلُ اللهُ إِلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى مَوْتَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ" قَالَ: "وَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلاَ يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلاَّ وَقَدْ مَلأَتْهُ زَهَمَتُهُمْ وَنَتَنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ" قَالَ: "فَيَرْغَبُ عِيسَى إِلَى اللهِ وَأَصْحَابُهُ" قَالَ: "فَيُرْسِلُ اللهُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ" قَالَ: "فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهْبِلِ وَيَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّهِمْ وَنُشَّابِهِمْ وَجِعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ" قَالَ: "وَيُرْسِلُ اللهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لاَ يُكَنُّ مِنْهُ بَيْتُ وَبَرٍ وَلاَ مَدَرٍ" قَالَ: "فَيَغْسِلُ الأَرْضَ فَيَتْرُكُهَا كَالزَّلَفَةِ" قَالَ: "ثُمَّ يُقَالُ لِلأَرْضِ أَخْرِجِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقَحْفِهَا وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى إِنَّ الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنَ الإِبِلِ، وَإِنَّ الْقَبِيلَةَ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنَ الْبَقَرِ، وَإِنَّ الْفَخِذَ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنَ الْغَنَمِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللهُ رِيحًا فَقَبَضَتْ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ، وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ، فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لاَّ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ.
* تخريج: م/الفتن ۲۰ (۲۹۳۷)، د/الملاحم ۱۴ (۴۳۲۱)، ق/الفتن ۳۳ (۴۰۷۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۱)، وحم (۴/۱۸۱) (صحیح)
۲۲۴۰- نوّاس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ایک صبح دجال کاذکرکیا ،تو آپ نے (اس کی حقارت اوراس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دورانِ گفتگو)آواز کو بلند اور پست کیا ۱ ؎ حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے ، پھر ہم رسول اللہﷺ کے پاس سے واپس آگئے،(جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے توآپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اورفرمایا:'' کیامعاملہ ہے؟'' ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کاذکرکرتے ہوئے (اس کی حقارت اورسنگینی بیان کر تے ہوئے) اپنی آواز کو بلنداورپست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو نے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے ۔
آپ نے فرمایا:'' دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں،اگروہ نکلے اورمیں تمہارے بیچ موجودہوں تومیں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا، اوراگروہ نکلے اورمیں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا ، اوراللہ ہرمسلمان پرمیرا خلیفہ (جانشیں) ہے ۲؎ ، دجال گھنگھریالے بالوں والاجوان ہوگا ، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہوگی گویا کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتاہوں ، پس تم میں سے جو شخص اسے پالے اسے چاہئے کہ وہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے، وہ شام اورعراق کے درمیان سے نکلے گا اوردائیں بائیں فسادپھیلائے گا ، اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا''۔
ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا:'' چالیس دن ، ایک دن ایک سال کے برابرہوگا ، ایک دن ایک مہینہ کے برابرہوگا ، ایک دن ہفتہ کے برابرہوگااورباقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے''، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابرہوگا کیا اس میں ایک دن کی صلاۃ کافی ہوگی؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں بلکہ اس کااندازہ کرکے پڑھنا''۔
ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا ؟ آپ نے فرمایا:'' اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے (اوروہ بارش کو نہایت تیزی سے پورے علاقے میں پھیلادیتی ہے) ، وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا،انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اوراس کی بات ردکردیں گے، لہذا وہ ان کے پاس سے چلاجائے گا مگراس کے پیچھے پیچھے ان (انکار کرنے والوں) کے مال بھی چلے جائیں گے ،ان کا حال یہ ہوگا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہے، پھروہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا ، انہیں دعوت دے گا، اور اس کی دعوت قبول کریں گے اوراس کی تصدیق کریں گے ، تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا ۔
آسمان بارش برسائے گا ،وہ زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا ، زمین غلہ اُ گائے گی ،ان کے چرنے والے جانور شام کو جب (چراگاہ سے ) واپس آئیں گے ، توان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے ہوں گے، ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی اور ان کے تھن کامل طورپر(دودھ سے) بھرے ہوں گے، پھروہ کسی ویران جگہ میں آئے گا اور اس سے کہے گا : اپنا خزانہ نکال، پھروہاں سے واپس ہو گا تو اس زمین کے خزانے شہدکی مکھیوں کے سرداروں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے،پھروہ ایک بھرپوراورمکمل جوان کو بلائے گا اور تلوارسے مارکراس کے دوٹکڑے کردے گا۔
پھر اسے بلاے گا اور وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آجائے گا ، پس دجال اسی حالت میں ہوگا کہ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کی مشرقی جانب سفیدمینار پر زردکپڑوں میں ملبوس دوفرشتوں کے بازوپرہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے ، جب وہ اپناسرجھکائیں گے توپانی ٹپکے گا اورجب اٹھائیں گے تو اس سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی ،ان کی سانس کی بھاپ جس کافر کو بھی پہنچے گی وہ مرجائے گا اوران کی سانس کی بھاپ ان کی حدنگاہ تک محسوس کی جائے گی ، وہ دجال کوڈھونڈیں گے یہاں تک کہ اسے باب لُد ۳؎ کے پاس پالیں گے اوراسے قتل کردیں گے۔
اسی حالت میں اللہ تعالیٰ جتنا چاہے گا عیسیٰ علیہ السلام ٹھہریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس وحی بھیجے گا کہ میرے بندوں کو طورکی طرف لے جاؤ، اس لیے کہ میں نے کچھ ایسے بندے اتارے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں تاب نہیں ہے،'' اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اوروہ ویسے ہی ہوں گے جیسااللہ تعالیٰ نے کہاہے:
{مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ} (الأنبياء:96) (ہربلندی سے پھیل پڑیں گے) ان کا پہلا گروہ (شام کی )بحیرہ طبریہ ( نامی جھیل) سے گزرے گااوراس کا تمام پانی پی جائے گا، پھر اس سے ان کا دوسراگروہ گزرے گا توکہے گا : اس میں کبھی پانی تھا ہی نہیں،پھروہ لوگ چلتے رہیں گے یہاں تک کہ جبل بیت المقدس تک پہنچیں گے تو کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو قتل کردیا اب آؤآسمان والوں کو قتل کریں ، چنانچہ وہ لوگ آسمان کی طرف اپنے تیر چلائیں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو خون سے سرخ کرکے ان کے پاس واپس کردے گا، (اس عرصے میں) عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اوران کے ساتھی گھرے رہیں گے،یہاں تک کہ(شدید قحط سالی کی وجہ سے) اس وقت بیل کی ایک سری ان کے لیے تمہارے سودینار سے بہترمعلوم ہوگی(چیزیں اس قدر مہنگی ہوں گی) ، پھر عیسیٰ بن مریم اوران کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑاپیداکردے گا،جس سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مرجائیں گے، عیسیٰ اوران کے ساتھی (پہاڑسے) اتریں گے تو ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہ ہوگی جو ان کی لاشوں کی گندگی ،سخت بدبواورخون سے بھری ہوئی نہ ہو، پھر عیسیٰ علیہ السلام اوران کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے بڑے پرندوں کوبھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی ، وہ لاشوں کو اٹھاکر گڈھوں میں پھینک دیں گے، مسلمان ان کے کمان ، تیراورترکش سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے ۴ ؎ ۔
پھر اللہ تعالیٰ ان پر ایسی بارش برسائے گا جسے کوئی کچااورپکاگھرنہیں روک پائے گا ، یہ بارش زمین کودھودے گی اور اسے آئینہ کی طرح صاف شفاف کردے گی، پھرزمین سے کہاجائے گا : اپناپھل نکال اوراپنی برکت واپس لا، چنانچہ اس وقت ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہوگا،اس کے چھلکے سے یہ جماعت سایہ حاصل کرے گی ،اور دودھ میں ایسی برکت ہوگی کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لیے ایک دودھ دینے والی اونٹنی کافی ہوگی، اور دودھ دینے والی ایک گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہوگی اور دودھ دینے والی ایک بکری لوگوں میں سے ایک گھرانے کو کافی ہوگی، لوگ اسی حال میں (کئی سالوں تک) رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہوابھیجے گا جو سارے مومنوں کی روح قبض کرلے گی اورباقی لوگ گدھوں کی طرح کھلے عام زناکریں گے ، پھرانہیں لوگوں پر قیامت ہوگی ''۵؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف عبدالرحمن یزید بن جابرکی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱ ؎ :
فخض فيه ورفع کے معنی ومطلب کے بارے میں دوقول ہیں: ایک خفض ،'' حقر''کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ ذلیل وحقیر ہے ، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیامیں کانا پیداکیا، نبی اکرمﷺ کا ارشادہے کہ دجال اللہ رب العزت کے یہاں اس سے زیادہ ذلیل ہے یعنی وہ اس ایک آدمی کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے پر قدرت نہیں رکھے گا ، بلکہ ایساکرنے سے عاجز ہوگا ، اس کا معاملہ کمزورپڑجائے گا، اور اس کے بعد اس کا اور اس کے اتباع ومویدین کا قتل ہوجائے گا ، اور''رفع ''کے معنی اس کے شراور فتنے کی وسعت ہے اوریہ کہ اس کے پاس جوخرق عادت چیزیں ہوں گی وہ لوگو ں کے لیے ایک بڑا فتنہ ہوں گی ،یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے ڈرایا ،دوسرامعنی اس جملے کا یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کا تذکرہ اتنازیادہ کیا کہ لمبی گفتگوکے بعد آپ کی آواز کم ہوگئی تاکہ دورانِ گفتگوآپ آرام فرمالیں پھرسب کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کی آواز بلندہوگئی ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی میری زندگی کے بعد فتنہ دجال کے وقت میری امت کا نگراں اللہ رب العالمین ہے۔
وضاحت ۳؎ : لُد: بیت المقدس کے قریب ایک شہرہے ، النہایہ فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُدملک شام میں ایک جگہ ہے ، یہ بھی کہاگیا ہے کہ فلسطین میں ایک جگہ ہے، (یہ آج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے)
وضاحت ۴ ؎ : اُن کے اسلحہ کی مقدار اس قدرزیادہ ہوگی ، یا مسلمانوں کی تعداد اُس وقت اس قدرکم ہوگی۔
وضاحت ۵؎ : اس حدیث میں علامات قیامت، خروج دجال، نزول عیسیٰ بن مریم، یاجوج وماجوج کا ظہور اور ان کے مابین ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ ہے، دجال کی فتنہ انگیزیوں ، یاجوج وماجوج کے ذریعہ پیدا ہونے والے مصائب اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اور ان کی دعاؤں سے ان کے خاتمے کابیان ہے۔