11-باب
۱۱-باب: لایعنی بات کے برے انجام کابیان
2316- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: يَعْنِي رَجُلاً أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَوَلاَ تَدْرِي فَلَعَلَّهُ تَكَلَّمَ فِيمَا لاَ يَعْنِيهِ أَوْ بَخِلَ بِمَا لاَيَنْقُصُهُ". قَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳) (صحیح)
( امام ترمذی نے حدیث پر غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ایسے ہی تحفۃ الأشراف میں ہے ،نیز ترمذی نے لکھا ہے کہ أعمش کا سماع انس سے نہیں ہے (تحفۃ الأشراف )لیکن منذری کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا: حديث حسن صحيح اور خود منذری نے کہا کہ سند کے رواۃ ثقات ہیں، دوسرے طرق اورشواہد کی بناپر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب ۲۸۸۲، ۲۸۸۳، وتراجع الألبانی ۵۱۱)
۲۳۱۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی ، ایک آدمی نے کہا: تجھے جنت کی بشارت ہو ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بے فائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
2317- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْئِ تَرْكُهُ مَا لاَيَعْنِيهِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الفتن ۱۲ (۳۹۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۳۴) (صحیح)
۲۳۱۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اورفضول باتوں کوچھوڑ دے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ۲- ہم اس حدیث کوابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے اورابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جوباتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اورنہ ہی جن سے دینی یادنیاوی فائدہ حاصل ہوسکتاہے ان کی ٹوہ میں نہ لگارہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔
2318- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْئِ تَرْكَهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ مُرْسَلاً، وَهَذَا عِنْدَنَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (۱۹۱۳۴) (صحیح)
(علی بن حسین زین العابدین تابعی ہیں اس لیے یہ حدیث مرسل ہے، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے)
۲۳۱۸- علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑدے جواس سے غیرمتعلق ہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرح
''عن الزهري، عن علي بن حسين عن النبي ﷺ'' کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے، ۲- ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ، ۳- علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : اصل حدیث ثابت ہے، اس کی بحث ''زهد وكيع'' رقم ۳۶۴ میں دیکھیے۔