• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْبُكَائِ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ
۸-باب: اللہ تعالیٰ کے ڈر سے رونے کی فضیلت کابیان​


2311- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللهِ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لاَ يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ، وَلاَيَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ هُوَ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، وَهُوَ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۶۳۳ (صحیح)
۲۳۱۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کے خوف اورڈر سے رونے والا شخص جہنم میں نہیں جاسکتا جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ پہنچ جائے اور اللہ کی راہ کا گردو غبار اورجہنم کا دھواں دونوں اکٹھا نہیں ہوسکتے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوریحانہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- محمد بن عبدالرحمن آل طلحہ کے آزادکردہ غلام ہیں مدنی ہیں، ثقہ ہیں، ان سے شعبہ اور سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نہ کبھی دودھ تھن میں واپس ہوگااورنہ ہی اللہ کے خوف سے رونے والا جہنم میں ڈالاجائے گا ، اسی طرح راہ جہادمیں نکلنے والا بھی جہنم میں نہیں جاسکتا، کیونکہ جہادمجاہدکے لیے جہنم سے نجات کاذریعہ ہے ، معلوم ہوا کہ جہاد کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن یہ ثواب اس مجاہد کے لیے ہے جو کبیرہ گناہوں سے بچتا رہاہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9-بَاب فِي قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: "لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً"
۹- باب: نبی اکرم ﷺ کا فرمان کہ جو مجھے معلوم ہے وہ اگر تمہیں معلوم ہوجائے تو بہت کم ہنسوگے اوربہت زیادہ روؤگے​


2312- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنِّي أَرَى مَا لاَ تَرَوْنَ، وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُونَ، أَطَّتِ السَّمَائُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلاَّ وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا للهِ، وَاللهِ! لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنِّسَائِ عَلَى الْفُرُشِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَى الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَى اللهِ"، لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَنَّ أَبَا ذَرٍّ قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۹ (۴۱۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۸۶) (حسن)
(حدیث میں ''لوددت ...'' کا جملہ مرفوع نہیں ہے، ابوذر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے)
۲۳۱۲- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بیشک میں وہ چیزدیکھ رہاہوں جوتم نہیں دیکھتے اوروہ سن رہاہوں جو تم نہیں سنتے۔بیشک آسمان چرچرارہا ہے اور اسے چرچرانے کاحق بھی ہے ، اس لیے کہ اس میں چار انگل کی بھی جگہ نہیں خالی ہے مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی اللہ کے حضوررکھے ہوئے ہے، اللہ کی قسم! جو میں جانتاہوں اگر وہ تم لوگ بھی جان لوتو ہنسوگے کم اور رؤگے زیادہ اور بستروں پراپنی عورتوں سے لطف اندوز نہ ہوگے، اور یقینا تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاتے،(اورابوذر) فرما یاکرتے تھے کہ'' کاش میں ایک درخت ہوتا جوکاٹ دیاجاتا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس کے علاوہ ایک دوسری سندسے بھی مروی ہے کہ ابوذر فرمایاکرتے تھے: کاش میں ایک درخت ہوتا کہ جسے لوگ کاٹ ڈالتے،۳- اس باب میں ابوہریرہ ، عائشہ ، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


2313- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلاَّسُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْتَعْلَمُونَ مَاأَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا". هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۴۹)، وانظر حم (۲/۲۵۷، ۳۱۳) (صحیح)
۲۳۱۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جومیں جانتاہوں اگر تم لوگ جان لیتے توہنستے کم اورروتے زیادہ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10-بَاب فِيمَنْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُضْحِكُ بِهَا النَّاسَ
۱۰-باب: غیرشرعی طورپر ہنسنے ہنسانے کی بات کرنے والے پرواردوعیدکابیان​


2314- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ لاَ يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: خ/الرقاق ۲۳ (۶۴۷۷، ۶۴۷۸)، م/الزہد ۶ (۲۹۸۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۳)، وحم (۲/۲۳۶، ۳۵۵، ۳۷۹) (حسن صحیح)
۲۳۱۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''آدمی کبھی ایسی بات کہہ دیتاہے جس میں وہ خود کوئی حرج نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ ستر برس تک جہنم کی آگ میں گرتاچلاجائے گا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ایک شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان کی دلچسپی کی خاطراپنی زبان سے اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے یا بناوٹی اور جھوٹی بات کہتاہے، اور کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ وہ باعث گناہ اور لا ئق سزاہے حالانکہ وہ اپنی اس بات کے سبب جہنم کی سزاکا مستحق ہوتا ہے ، معلوم ہوا کہ دوسروں کوہنسانے اورانہیں خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی ہنسی کی بات نہیں کرنی چاہئے جو گناہ کی بات ہواور باعث عذاب ہو۔


2315- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ فَيَكْذِبُ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/الأدب ۸۸ (۴۹۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۸۱)، وحم (۵/۳)، ودي/الاستئذان ۶۶ (۲۷۴۴) (حسن)
۲۳۱۵- معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا ہے:'' تباہی وبربادی ہے اس شخص کے لیے جو ایسی بات کہتاہے کہ لوگ سن کر ہنسیں حالانکہ وہ بات جھوٹی ہوتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تباہی ہی تباہی ہے '' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ ہنسی کی وہ بات جو جھوٹی ہے قابل مذمت ہے ، لیکن بات اگرسچی ہے تو اس کے ذریعہ کبھی کبھارہنسی کی فضاہموارکرنا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، چنانچہ رسول اللہﷺ سے بعض مواقع پر ہنسی کی بات کرنا ثابت ہے، جیسے ایک بار آپ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی، اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺکو اس وقت ہنسے پر مجبورکردیاجب آپ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11-باب
۱۱-باب: لایعنی بات کے برے انجام کابیان​


2316- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: يَعْنِي رَجُلاً أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَوَلاَ تَدْرِي فَلَعَلَّهُ تَكَلَّمَ فِيمَا لاَ يَعْنِيهِ أَوْ بَخِلَ بِمَا لاَيَنْقُصُهُ". قَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۹۳) (صحیح)
( امام ترمذی نے حدیث پر غریب ہونے کا حکم لگایا ہے، اور ایسے ہی تحفۃ الأشراف میں ہے ،نیز ترمذی نے لکھا ہے کہ أعمش کا سماع انس سے نہیں ہے (تحفۃ الأشراف )لیکن منذری کہتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا: حديث حسن صحيح اور خود منذری نے کہا کہ سند کے رواۃ ثقات ہیں، دوسرے طرق اورشواہد کی بناپر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب ۲۸۸۲، ۲۸۸۳، وتراجع الألبانی ۵۱۱)
۲۳۱۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی کی وفات ہوگئی ، ایک آدمی نے کہا: تجھے جنت کی بشارت ہو ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' شاید تمہیں نہیں معلوم کہ اس نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بے فائدہ ہو، یا ایسی چیز کے ساتھ بخل سے کام لیا ہو جس کے خرچ کرنے سے اس کا کچھ نقصان نہ ہوتا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


2317- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ سَمَاعَةَ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْئِ تَرْكُهُ مَا لاَيَعْنِيهِ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الفتن ۱۲ (۳۹۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۳۴) (صحیح)
۲۳۱۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اورفضول باتوں کوچھوڑ دے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ۲- ہم اس حدیث کوابوسلمہ کی روایت سے جسے وہ ابوہریرہ سے اورابوہریرہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سندسے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جوباتیں اس سے متعلق نہیں ہیں اورنہ ہی جن سے دینی یادنیاوی فائدہ حاصل ہوسکتاہے ان کی ٹوہ میں نہ لگارہے بلکہ ان سے دور رہے یہی اس کے اسلام کی خوبی ہے۔


2318- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْئِ تَرْكَهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ مُرْسَلاً، وَهَذَا عِنْدَنَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (۱۹۱۳۴) (صحیح)
(علی بن حسین زین العابدین تابعی ہیں اس لیے یہ حدیث مرسل ہے، مگر سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے)
۲۳۱۸- علی بن حسین (زین العابدین) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑدے جواس سے غیرمتعلق ہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زہری کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں نے اسی طرح''عن الزهري، عن علي بن حسين عن النبي ﷺ'' کی سند سے مالک کی حدیث کی طرح مرسلا روایت کی ہے، ۲- ہمارے نزدیک یہ حدیث ابوسلمہ کی ابوہریرہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ، ۳- علی بن حسین (زین العابدین) کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : اصل حدیث ثابت ہے، اس کی بحث ''زهد وكيع'' رقم ۳۶۴ میں دیکھیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12-بَاب فِي قِلَّةِ الْكَلاَمِ
۱۲-باب: کم بولنے کی خوبی کابیان​


2319- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَال سَمِعْتُ بِلاَلَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ، فَيَكْتُبُ اللهُ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللهِ مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَابَلَغَتْ فَيَكْتُبُ اللهُ عَلَيْهِ بِهَا سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَ هَذَا، قَالُوا: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ بِلاَلِ بْنِ الْحَارِثِ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِيهِ عَنْ بِلاَلِ بْنِ الْحَارِثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ جَدِّهِ.
* تخريج: ق/الفتن ۱۲ (۳۹۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۲۸) (صحیح)
۲۳۱۹- صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا :'' تم میں سے کوئی اللہ کی رضامندی کی ایسی بات کہتاہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالاں کہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضامندی لکھ دیتاہے جس دن وہ اس سے ملے گا، اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتاکہ اس کی وجہ سے ا س کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے ہے جس دن وہ اس سے ملے گا اپنی ناراضگی لکھ دیتاہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوراسے اسی طرح سے کئی لوگوں نے محمد بن عمرو سے اسی کے مثل روایت کیا ہے یعنی ''عن محمد بن عمرو، عن أبيه، عن جده عن بلال بن الحارث'' کی سندسے، ۳- اس حدیث کو مالک نے ''عن محمد بن عمرو، عن أبيه، عن بلال بن الحارث'' کی سند سے روایت کیاہے لیکن اس میں ''عن أبيه'' کا ذکر نہیں ہے،۴- اس باب میں ام حبیبہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فضول باتوں سے پرہیزکرنا چاہئے ، اور کوشش کرنی چاہئے کہ حسب ضرورت مفیداورسچ بات زبان سے نکلے، بات کرتے وقت رضائے الٰہی پیش نظررہے ، کیونکہ وہ بات جو جھوٹ اورفضول ہوگی وہ اللہ کی ناراضگی کاباعث ہوگی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي هَوَانِ الدُّنْيَا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۱۳-باب: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حقارت کابیان​


2320- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَائٍ".
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۳ (۴۱۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۴۶۹۹) (صحیح)
۲۳۲۰- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کے نزدیک دینا کی وقعت اگرایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں دنیا کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے بلکہ یہ حقیر سے حقیرچیزہے ، اس کی حقارت کی دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی قدروقیمت ہوتی تو اسے صرف اپنے محبوب بندوں کو نوازتا، جب کہ حال یہ ہے کہ اسے اپنے دشمنوں یعنی کفارومشرکین کو دیتاہے ، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دینے والا اپنے دشمن کووہ چیزدے جو اس کے نزدیک قدروقیمت والی ہو ، کافروں کو جنت کی ایک ادنی نعمت سے اسی لیے محروم رکھاگیا ہے کیونکہ جنت اللہ کے محبوب بندوں کے لیے ہے ، نہ کہ اس کے دشمنوں کے لیے، معلوم ہو اکہ اللہ کے نزدیک دنیااور اس کے مال واسباب کی قطعاًکوئی اہمیت نہیں ہے، لہذا اہل ایمان کے نزدیک بھی اس کی زیادہ اہمیت نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے آخرت کی زندگی سنوارنے کا ایک ذریعہ سمجھناچاہئے۔


2321- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الرَّكْبِ الَّذِينَ وَقَفُوا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ عَلَى السَّخْلَةِ الْمَيِّتَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَتَرَوْنَ هَذِهِ هَانَتْ عَلَى أَهْلِهَا حِينَ أَلْقَوْهَا" قَالُوا: مِنْ هَوَانِهَا أَلْقَوْهَا يَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: "فَالدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ عَلَى أَهْلِهَا". وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُسْتَوْرِدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳ (۴۱۱۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۵۸) وانظر حم (۴/۲۲۹، ۲۳۰) (صحیح)
۲۳۲۱- مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں بھی ان سواروں کے ساتھ تھا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک بکری کے مرے ہوئے بچے کے پاس کھڑے تھے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :''کیاتم لوگ اسے دیکھ رہے ہو کہ جب یہ اس کے مالکوں کے نزدیک حقیراوربے قیمت ہوگیا'' تو انہوں نے اسے پھینک دیا، صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس کی بے قیمت ہونے کی بنیادہی پر لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے ، آپ نے فرمایا:'' دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیراوربے وقعت ہے جتنا یہ اپنے لوگوں کے نزدیک حقیراوربے وقعت ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- مستورد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مِنْهُ
۱۴-باب: دنیا کے ملعون اورحقیر ہونے کابیان​


2322- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ، قَال: سَمِعْتُ عَطَائَ بْنَ قُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَاللهِ بْنَ ضَمْرَةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "أَلاَ إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلاَّ ذِكْرُ اللهِ وَمَا وَالاَهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ". قَالَ: أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۳ (۴۱۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۷۲) (حسن)
۲۳۲۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :'' بیشک دنیا ملعون ہے اورجوکچھ دنیامیں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاداور اس چیزکے جس کو اللہ پسندکرتا ہے، یا عالم (علم والے) اورمتعلم(علم سیکھنے والے) کے'' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیااور دنیا کی تمام چیزیں جو اللہ کی یادسے غافل کردینے والی ہوں سب کی سب اللہ کے نزدیک ملعون ہیں، گویا لعنت دنیا کی ان چیزوں پر ہے جو ذکرالٰہی سے غافل کردینے والی ہوں ، اس سے دنیا کی وہ نعمتیں اورلذتیں مستثنیٰ ہیں جو اس بری صفت سے خالی ہیں، مثلاً مال اگر حلال طریقے سے حاصل ہو اور حلال مصارف پر خرچ ہو تو یہ اچھا ہے، بصورت دیگریہی مال برااورلعنت کے قابل ہے ، وہ علم بھی اچھاہے جو بندوں کو اللہ سے قریب کردے بصورت دیگریہ بھی برا ہے ، اس حدیث سے علماء اور طلبائے علوم دینیہ کی فضیلت ثابت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مِنْهُ
۱۵-باب: آخرت کے مقابلے میں دنیا سمندر کے ایک قطرے کی مانند ہے​


2323- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَال: سَمِعْتُ مُسْتَوْرِدًا أَخَا بَنِي فِهْرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَا الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَاذَا يَرْجِعُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ يُكْنَى أَبَاعَبْدِاللهِ وَوَالِدُ قَيْسٍ أَبُو حَازِمٍ اسْمُهُ عَبْدُ بْنُ عَوْفٍ وَهُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ.
* تخريج: م/صفۃ الجنۃ ۱۴ (۲۸۵۸)، ق/الزہد ۳ (۴۱۰۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۵۵)، وحم (۴/۲۲۹، ۲۳۰) (صحیح)
۲۳۲۳- مستورد بن شدادفہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' دنیا کی مثال آخرت کے سامنے ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندرمیں ڈبوئے اور پھردیکھے کہ اس کی انگلی سمندرکا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسماعیل بن ابی خالد کی کنیت ابوعبداللہ ہے، ۳-قیس کے والد ابوحازم کانام عبدبن عوف ہے اوریہ صحابی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں آخرت کی نعمتوں اور اس کی دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی قدروقیمت اور اس کی زندگی کا تناسب بیان کیا گیا ہے ، یہ تناسب ایسے ہی ہے جیسے ایک قطرہ پانی اور سمندرکے پانی کے درمیان تناسب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ
۱۶- باب: دنیا مومن کے لیے قید خانہ(جیل) اور کافر کے لیے جنت (باغ وبہار) ہے​


2324- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۵۶)، ق/الزہد ۳ (۴۱۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۵۵)، وحم (۲/۳۲۳، ۳۸۹، ۴۸۵) (صحیح)
۲۳۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' دنیا مومن کے لیے قید خانہ(جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ وبہار) ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قیدخانہ کا قیدی اس کے قواعدوضوابط کا پابندہوتا ہے اسی طرح یہ دنیا مومن کے لیے ایک قیدخانہ کی مثل ہے ، اس میں مومن شہوات وخواہشات نفس سے بچتاہوامومنانہ ومتقیانہ زندگی گزارتاہے ، اس کے برعکس کافرہرطرح سے آزادرہ کر خواہشات وشہوات کی لذتوں میں مست رہتاہے گویا دنیااس کے لیے جنت ہے جب کہ مومن کے لیے قیدخانہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ مَثَلُ الدُّنْيَا مَثَلُ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ
۱۷-باب: دنیا کی مثال چار قسم کے لوگوں کی مانند ہے​


2325- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ خَبَّابٍ عَنْ سَعِيدٍ الطَّائِيِّ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو كَبْشَةَ الأَنَّمَارِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "ثَلاَثَةٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: مَا نَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِنْ صَدَقَةٍ وَلاَ ظُلِمَ عَبْدٌ مَظْلَمَةً فَصَبَرَ عَلَيْهَا إِلاَّ زَادَهُ اللهُ عِزًّا، وَلاَ فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلاَّ فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا - وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ، قَالَ: إِنَّمَا الدُّنْيَا لأَرْبَعَةِ نَفَرٍ: عَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالاً وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالاً فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالاً لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَائٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللهُ مَالاً وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لاَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَلاَ يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلاَ يَعْلَمُ لِلّهِ فِيهِ حَقًّا فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ، وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللهُ مَالاً وَلاَ عِلْمًا فَهُوَ يَقُولُ: لَوْ أَنَّ لِي مَالاً لَعَمِلْتُ فِيهِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَائٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وأخرج ابن ماجہ نحوہ في الزہد ۲۶ (۴۲۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۴۵) (صحیح)
۲۳۲۵- ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :''میں تین باتوں پر قسم کھاتاہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کررہاہوں جسے یاد رکھو''،'' کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی (یہ پہلی بات ہے)، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتاہے(دوسری بات ہے)، اور اگر کوئی شخص پہنے کے لیے سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقرومحتاجی کا دروازہ کھول دیتاہے''۔ (یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا) (یہ تیسری بات ہے) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کررہاہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو: ''یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال اورعلم کی دولت دی ،وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتاہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتاہے ۱؎ اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتاہے ۲؎ ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہترہے۔اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال ودولت سے اسے محروم رکھا پھربھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتاہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہذااسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال ودولت سے نوازالیکن اسیعلم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیارکرتا ہے ، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتاہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتاہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے ، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال ودولت اور علم دونوں سے محروم رکھا ، وہ کہتاہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا (یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بارگناہ برابر ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرتاہے اور اعزاء واقرباء کا خاص خیال رکھتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی فریضہ زکاۃکی ادائیگی کرتاہے اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے جوکچھ اس پر واجب ہوتاہے خرچ کرتاہے اور اس میں سے عام صدقات وخیرات بھی کرتاہے۔
 
Top