25-بَاب مَا جَاءَ فِي قِصَرِ الأَمَلِ
۲۵-باب: آرزوئیں کم رکھنے کابیان
2333- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِبَعْضِ جَسَدِي، فَقَالَ: "كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُورِ" فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: إِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَائِ، وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلاَ تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، فَإِنَّكَ لاَ تَدْرِي يَا عَبْدَ اللهِ مَا اسْمُكَ غَدًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الأَعْمَشُ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/الرقاق ۳ (۶۴۱۶)، ق/الزہد ۳ (۴۱۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۸۶)، وحم (۲/۲۴، ۱۳۱) (صحیح)
2333/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۲۳۳۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن کے بعض حصے کوپکڑکرفرمایا :'' تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافریا راہ گیر ہو، اور اپناشمار قبروالوں میں کرو''۔مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا:جب تم صبح کرو توشام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کرلواس لیے کہ اللہ کے بندے ! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہوگا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اعمش نے مجاہد سے ، مجاہدنے ابن عمر سے اس حدیث کی اسی طرح سے روایت کی ہے۔
۲۳۳۳/م- اس سند سے بھی ابن عمر سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں دنیاسے بے رغبتی اوردنیاوی آرزوئیں کم رکھنے کابیان ہے ،مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ایک مسافردوران سفرکچھ وقت کے لیے کسی جگہ قیام کرتاہے ، تم دنیاکواپنے لیے ایساہی سمجھو، بلکہ اپناشمارقبروالوں میں کرو، گویاتم دنیاسے جاچکے، اسی لیے آگے فرمایا:صبح پالینے کے بعدشام کا انتظارمت کرواورشام پالینے کے بعدصبح کا انتظارمت کروبلکہ اپنی صحت وتندرستی کے وقت مرنے کے بعدوالی زندگی کے لیے کچھ تیاری کرلو، کیونکہ تمہیں کچھ خبرنہیں کہ کل تمہارا شمارمردوں میں ہوگایازندوں میں۔
2334- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "هَذَا ابْنُ آدَمَ، وَهَذَا أَجَلُهُ، وَوَضَعَ يَدَهُ عِنْدَ قَفَاهُ، ثُمَّ بَسَطَهَا فَقَالَ: وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ وَثَمَّ أَمَلُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۷ (۴۲۳۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۹) (صحیح)
۲۳۳۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہ ابن آدم ہے اور یہ اس کی موت ہے اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنی گدی پر رکھا پھر اسے دراز کیا اور فرمایا:''یہ اس کی امید ہے، یہ اس کی امید ہے ،یہ اس کی امیدہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ ابن آدم کی زندگی کی مدت بہت مختصرہے ،موت اس سے قریب ہے ،لیکن اس کی خواہشیں اورآرزوئیں لامحدود ہیں، اس لیے آدمی کوچاہئے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنی مختصرزندگی کو پیش نظررکھے، اورزیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی فکرکرے۔
2335- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا، فَقَالَ: "مَا هَذَا؟" فَقُلْنَا: قَدْ وَهَى فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، قَالَ: "مَا أَرَى الأَمْرَ إِلاَّ أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو السَّفَرِ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ يُحْمِدَ، وَيُقَالُ ابْنُ أَحْمَدَ الثَّوْرِيُّ.
* تخريج: د/الأدب ۱۶۹ (۵۲۳۵)، ق/الزہد ۱۳ (۴۱۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۸۶۵۰) (صحیح)
۲۳۳۵- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسو ل اللہ ﷺہمارے پاس سے گزرے، ہم اپنا چھپرکا مکان درست کررہے تھے، آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ گھر بوسیدہ ہوچکا ہے، لہذا ہم اس کو ٹھیک کررہے ہیں، آپ نے فرمایا:'' میں تومعاملے(موت) کو اس سے بھی زیادہ قریب دیکھ رہاہوں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ کے ارشادکا مطلب یہ نہیں ہے کہ مکان کی لیپاپوتی اور اس کی اصلاح ومرمت نہ کی جائے بلکہ مراد اس سے موت کی یاددہانی ہے، تاکہ موت ہروقت انسان کے سامنے رہے اورکسی وقت بھی اس سے غفلت نہ برتے۔