• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي: قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ
۲۸-باب: دوچیز کی محبت میں بوڑھے کا دل جوان ہوتاہے: عمراورمال​


2338- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: طُولِ الْحَيَاةِ وَكَثْرَةِ الْمَالِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۲۷ (۴۲۳۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۶۹)، وحم (۲/۳۱۷، ۳۳۵، ۳۳۸، ۳۳۹، ۳۵۸، ۳۷۹، ۳۹۴، ۴۴۳، ۴۴۷) (حسن صحیح)
۲۳۳۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' دوچیزوں کی محبت میں بوڑھے کادل جوان رہتا ہے: لمبی زندگی کی محبت، دوسرے مال کی محبت'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ بوڑھے کا دل لمبی عمرکی خواہش اورکثرت مال کی محبت سے سرشارہوتاہے، یعنی بوڑھاہونے کے باوجود اس کے اندرمال کی ہوس اورعمرکی زیادتی کی تمنایہ دونوں خواہشیں جوان ہوتی ہیں۔


2339- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ الْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ وَالْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزکاۃ ۳۹ (۱۰۴۷)، ق/الزہد ۲۷ (۴۲۳۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۴)، وحم (۳/۱۱۵، ۱۱۹، ۱۶۹، ۱۹۲، ۲۵۶، ۲۷۵) (صحیح)
۲۳۳۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' آدمی بوڑھا ہوجاتاہے البتہ اس کے اندر دوچیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی )زندگی کی خواہش، دوسرے مال کی حرص''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
29-بَاب مَا جَاءَ فِي الزَّهَادَةِ فِي الدُّنْيَا
۲۹-باب: دنیا سے بے رغبتی کا بیان​


2340- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الزَّهَادَةُ فِي الدُّنْيَا لَيْسَتْ بِتَحْرِيمِ الْحَلاَلِ، وَلاَ إِضَاعَةِ الْمَالِ، وَلَكِنَّ الزَّهَادَةَ فِي الدُّنْيَا أَنْ لاَ تَكُونَ بِمَا فِي يَدَيْكَ أَوْثَقَ مِمَّا فِي يَدَيِ اللهِ، وَأَنْ تَكُونَ فِي ثَوَابِ الْمُصِيبَةِ إِذَا أَنْتَ أُصِبْتَ بِهَا أَرْغَبَ فِيهَا لَوْ أَنَّهَا أُبْقِيَتْ لَكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيُّ اسْمُهُ عَائِذُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
* تخريج: ق/الزہد ۱ (۴۱۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۲۵) (ضعیف جداً)
(سندمیں عمرو بن واقد متروک الحدیث راوی ہے)
۲۳۴۰- ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:'' دنیا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے اور مال کوبربادکردے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جومال تمہارے ہاتھ میں ہے ، اس پر تم کو اس مال سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہیں مصیبت کے ثواب کی اس قدر رغبت ہوکہ جب تم مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ توخواہش کرو کہ یہ مصیبت باقی رہے'' ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- راوی حدیث عمرو بن واقد منکرالحدیث ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
30-بَاب مِنْهُ
۳۰-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


2341- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا حُرَيْثُ بْنُ السَّائِبِ، قَال: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: حَدَّثَنِي حُمْرَانُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ لابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ: بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَائِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الْحُرَيْثِ بْنِ السَّائِبِ، وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ سَلْمٍ الْبَلْخِيَّ يَقُولُ: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: جِلْفُ الْخُبْزِ يَعْنِي لَيْسَ مَعَهُ إِدَامٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۷۹۰)، وانظر حم (۱/۶۲) (ضعیف)
(سندمیں حریث وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے، اسی لیے اسرائیلی روایات کو انہوں نے مرفوع سمجھ کر روایت کردیا ہے، دیکھیے: الضعیفۃ رقم ۱۰۶۳)
۲۳۴۱- عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھرہو جس میں وہ زندگی بسرکرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث حریث بن سائب کی روایت سے ہے، ۳- میں نے ابوداود سلیمان بن سلم بلخی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نضر بن شمیل نے کہا:'' جلف الخبز'' کا مطلب ہے وہ روٹی ہے جس کے ساتھ سالن نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
31-بَاب مِنْهُ
۳۱-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


2342- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ يَقُولُ: {أَلْهَاكُمْ التَّكَاثُرُ} قَالَ: "يَقُولُ ابْنُ آدَمَ: مَالِي مَالِي، وَهَلْ لَكَ مِنْ مَالِكَ إِلاَّ مَا تَصَدَّقْتَ، فَأَمْضَيْتَ أَوْ أَكَلْتَ فَأَفْنَيْتَ أَوْلَبِسْتَ فَأَبْلَيْتَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱ (۲۹۵۹)، ن/الوصایا ۱ (۳۶۴۳)، ویأتي عند المؤلف في تفسیر''التکاثر'' (۳۳۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۵۳۴۶)، وحم (۴/۲۴، ۲۶) (صحیح)
۲۳۴۲- عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور آپ { أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ...}کی تلاوت کر رہے تھے توآپ نے فرمایا :''ابن آدم کہتا ہے کہ میرا مال ، میرامال ،حالاں کہ تمہارا مال صرف وہ ہے جوتم نے صدقہ کردیا اور اسے آگے چلادیا ۱؎ ، اور کھایا اور اسے ختم کردیا یا پہنا اور اسے پرانا کردیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اپنامال سمجھتاہے جو اس کے پاس ہے حالانکہ حقیقی مال وہ ہے جو حصول ثواب کی خاطراس نے صدقہ کردیا، اور یوم جزاء کے لیے جسے اس نے باقی رکھ چھوڑاہے، باقی مال کھاپی کراسے ختم کردیا یا پہن کراسے بوسیدا اورپرانا کردیا، صدقہ کئے ہوئے مال کے علاوہ کوئی مال آخرت میں اس کے کام نہیں آئے گا ، اس حدیث میں مستحقین پراوراللہ کی پسندیدہ راہوں پرخرچ کرنے کی ترغیب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
32-بَاب مِنْهُ
۳۲-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب​


2343- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ هُوَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا شَدَّادُ بْنُ عَبْدِاللهِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ إِنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَكَ، وَإِنْ تُمْسِكْهُ شَرٌّ لَكَ وَلاَ تُلاَمُ عَلَى كَفَافٍ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَشَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ يُكْنَى أَبَا عَمَّارٍ.
* تخريج: م/الزکاۃ ۳۲ (۱۰۳۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۸۷۹)، وحم (۵/۲۶۲) (صحیح)
۲۳۴۳- ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:'' ابن آدم! اگر تو اپنی حاجت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے گاتو یہ تیرے لیے بہتر ہوگا، اور اگر تو اسے روک رکھے گا تو یہ تیرے لیے برا ہوگا، اور بقدر کفاف خرچ کرنے میں تیری ملامت نہیں کی جائے گی اور صدقہ وخیرات دیتے وقت ان لوگوں سے شروع کر جن کی کفالت تیرے ذمہ ہے ، اور اوپروالا (دینے والا)ہاتھ نیچے والے ہاتھ (مانگنے والے) سے بہتر ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ اگراللہ نے تمہیں مال ودولت سے نوازاہے تو اس سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی ضرورت وحاجت کا خیال رکھو اورضرورت سے زائدمال حاجتمندوں اورمستحقین کے درمیان تقسیم کردوکیونکہ جمع خوری کا نتیجہ دنیااورآخرت دونوں جگہ صحیح نہیں، جمع خوری سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیداہوجاتی ہیں، اورآخرت میں بخل کا جوانجام ہے وہ بالکل واضح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
33-بَاب فِي التَّوَكُّلِ عَلَى اللَّهِ
۳۳-باب: اللہ پرتوکل(بھروسہ) کرنے کابیان​


2344- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ هُبَيْرَةَ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرُزِقْتُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَالِكٍ.
* تخريج: ق/الزہد ۱۴ (۴۱۶۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۶)، وحم (۱/۳۰، ۵۲) (صحیح)
۲۳۴۴- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:'' اگر تم لوگ اللہ پر توکل(بھروسہ) کرو جیساکہ اس پر توکل(بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتاہے کہ صبح کووہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ مومن کی زندگی رزق ومعیشت کی فکرسے خالی ہونی چاہئے ، اوراس کا دل پرندوں کی طرح ہوناچاہئے جواپنے لیے کچھ جمع کرکے نہیں رکھتے بلکہ ہرروزصبح تلاش رزق میں نکلتے ہیں اورشام کو شکم سیرہوکرلوٹتے ہیں۔


2345- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَخَوَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ فَكَانَ أَحَدُهُمَا يَأْتِي النَّبِيَّ ﷺ وَالآخَرُ يَحْتَرِفُ فَشَكَا الْمُحْتَرِفُ أَخَاهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۷۹) (صحیح)
۲۳۴۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:نبی اکرمﷺ کے زمانے میں دوبھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرمﷺ کی خدمت میں رہتاتھا اور دوسرامحنت ومزدوری کرتاتھا ،محنت ومزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:'' شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : محنت مزدوری کرنے والے نے یہ شکایت کی کہ یہ کمانے میں میرا تعاون نہیں کرتا اور میرے ساتھ کھاتا ہے، اس پر آپ ﷺ نے شکایت کرنے والے کی یہ فہمائش کی کہ وہ علم دین سیکھنے کے لیے میرے پاس رہتاہے، اس لیے یہ سمجھو کہ تم کو جو تمہاری کمائی سے روزی ملتی ہے اس میں اس کی برکت بھی شامل ہے، اس لیے تم گھمنڈ میں مت مبتلا ہوجاؤ، واضح رہے کہ دوسرا بھائی یونہی بے کار نہیں بیٹھا رہتاتھا، یا یونہی کام چوری نہیں کرتا تھا، علم دین کی تحصیل میں مشغول رہتاتھا، اس لیے اس حدیث سے بے کاری اور کام چوری کی دلیل نہیں نکالی جاسکتی، بلکہ اس سے یہ اشارہ ملتاہے کہ اللہ کے راستہ میں لگنے والوں کی تائید اور معاونت دیگر اہل خانہ کیا کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
34- باب
۳۴- باب: زہد وقناعت سے متعلق ایک اور باب​


2346- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ وَمَحْمُودُ بْنُ خِدَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي شُمَيْلَةَ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مِحْصَنٍ الْخَطْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ آمِنًا فِي سِرْبِهِ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مَرْوَانَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَحِيزَتْ جُمِعَتْ.
* تخريج: ق/الزہد ۹ (۴۱۴۱) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۳۹) (حسن)
2346/م- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ نَحْوَهُ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
۲۳۴۶- عبیداللہ بن محصن خطمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ وہ اپنے گھریا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ، اسے ہم صرف مروان بن معاویہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور ''حيزت'' کا مطلب یہ ہے کہ جمع کی گئی ۔
۲۳۴۶/م- اس سند سے بھی عبید اللہ بن محصن خطمی رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
اس باب میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مفہوم یہ ہے کہ امن وصحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انباروالی اس زندگی سے کہیں بہترہے جو امن وصحت والی نہ ہو، گویاانسان کو مال ودولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگناچاہئے بلکہ صبروقناعت کا راستہ اختیارکرناچاہئے کیونکہ امن وسکون اور راحت وآسائش اسی میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
35-بَاب مَا جَاءَ فِي الْكَفَافِ وَالصَّبْرِ عَلَيْهِ
۳۵-باب: بقدرکفاف (روزمرہ کے خرچ) پرصبرکی ترغیب​


2347- أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ أَغْبَطَ أَوْلِيَائِي عِنْدِي لَمُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنَ الصَّلاَةِ أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ وَأَطَاعَهُ فِي السِّرِّ وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لاَ يُشَارُ إِلَيْهِ بِالأَصَابِعِ، وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا فَصَبَرَ عَلَى ذَلِكَ"، ثُمَّ نَقَرَ بِيَدِهِ فَقَالَ: "عُجِّلَتْ مَنِيَّتُهُ قَلَّتْ بَوَاكِيهِ قَلَّ تُرَاثُهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۰۹) (ضعیف)
(یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے،عبیداللہ بن زحرعن علی بن یزید عن القاسم سب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی ۳۶۴)


2347/م- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "عَرَضَ عَلَيَّ رَبِّي لِيَجْعَلَ لِي بَطْحَائَ مَكَّةَ ذَهَبًا، قُلْتُ: لاَ يَا رَبِّ! وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًا وَأَجُوعُ يَوْمًا وَقَالَ ثَلاَثًا أَوْ نَحْوَ هَذَا فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَيْكَ وَذَكَرْتُكَ وَإِذَا شَبِعْتُ شَكَرْتُكَ وَحَمِدْتُكَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَالْقَاسِمُ هَذَا هُوَ ابْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَيُقَالُ أَيْضًا يُكْنَى أَبَا عَبْدِالْمَلِكِ، وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَهُوَ شَامِيٌّ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ، وَيُكْنَى أَبَا عَبْدِالْمَلِكِ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (ضعیف)
۲۳۴۷- ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' میرے دوستوں میں میرے نزدیک سب سے زیادہ رشک کرنے کے لائق وہ مومن ہے جو مال اوراولاد سے ہلکاپھلکاہو، صلاۃ میں جسے راحت ملتی ہو، اپنے رب کی عبادت اچھے ڈھنگ سے کرنے والا ہو، اور خلوت میں بھی اس کامطیع وفرماں برداررہاہو، لوگوں کے درمیان ایسی گمنامی کی زندگی گزار رہاہوکہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا، اور اس کا رزق بقدر کفاف ہو پھر بھی اس پر صابررہے، پھرآپ نے اپنا ہاتھ زمین پر مارااور فرمایا:'' جلدی اس کی موت آئے تاکہ اس پر رونے والیاں تھوڑی ہوں اور اس کی میراث کم ہو''۔
۲۳۴۷/م- اسی سند سے مزید روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' میرے رب نے مجھ پر اس بات کو پیش کیاکہ مکہ کی کنکریلی زمین کو سونا بنادے لیکن میں نے کہا:نہیں اے میرے رب! میں توچاہتاہوں کہ ایک دن آسودہ رہوں اور ایک دن بھوکا ، یافرمایا:'' تین دن، یا اسی کے مانندکچھ اورفرمایا، پس جب میں بھوکا رہوں گا توتیرے لیے عاجزی اور مسکنت ظاہر کروں گا اور تجھے یاد کروں گا، اور جب آسودہ رہوں گا تو تیرا شکر اداکروں گا اور تیری حمد بجالاؤں گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں فضالہ بن عبید سے بھی روایت ہے، اور قاسم یہ قاسم بن عبدالرحمن ہیں جن کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، یہ بھی کہاجاتاہے کہ ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے،یہ عبدالرحمن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزادکردہ غلام ہیں، شامی ہیں،ثقہ ہیں، ۳- علی بن یزیدحدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ان کی کنیت ابوعبدالملک ہے۔


2348- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَكَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الزکاۃ ۴۳ (۱۰۵۴)، ق/الزہد ۹ (۴۱۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۴۸)، وحم (۲/۱۶۸، ۱۷۳) (صحیح)
۲۳۴۸- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کامیاب ہوا وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا اور بقدر کفاف اسے روزی حاصل ہوئی اور اللہ نے اسے (اپنے دئے ہوئے پر) قانع بنادیا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آخرت کی کامیابی کا دارومدارصرف اورصرف اسلام ہے، اگربدقسمتی سے کسی کا دامن دولت اسلام سے خالی رہاتو دنیا بھر کے خزانے اسے اخروی کامیابی سے ہمکنارنہیں کرسکتے، اسی طرح بقدرضرورت اوربرابرسرابروالی زندگی میں جو امن وسکون میسر ہے وہ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش رکھنے والے انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، گویا بقدرکفاف روزی کے ساتھ قناعت واستغنا کا مل جاناامن وسکون کی ضمانت ہے۔


2349- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلاَنِيُّ أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ الْجَنْبِيَّ أَخْبَرَهُ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "طُوبَى لِمَنْ هُدِيَ إِلَى الإِسْلاَمِ، وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا وَقَنَعَ"، قَالَ: وَأَبُو هَانِئٍ اسْمُهُ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۳۳) (صحیح)
۲۳۴۹- فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :'' مبارکبادی ہو اس شخص کو جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اسے بقدر کفاف روزی ملی پھروہ اسی پر قانع ومطمئن رہا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابوہانی کانام حمید بن ہانی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
36-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْفَقْرِ
۳۶-باب: فقر کی فضیلت کا بیان​


2350- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِيُّ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّكَ، فَقَالَ: "انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ" قَالَ: وَاللهِ! إِنِّي لأُحِبُّكَ، فَقَالَ: "انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ" قَالَ: وَاللهِ! إِنِّي لأُحِبُّكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ: "إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۶۴۷) (ضعیف)
(سندمیں ''جابر بن عمرو ابو الوازع'' وہم کے شکار ہوجایا کرتے تھے، اور اسی لیے یہ منکر حدیث روایت کردی، دیکھیے الضعیفہ رقم : ۱۶۸۱)


2350/م- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ شَدَّادٍ أَبِي طَلْحَةَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْوَازِعِ الرَّاسِبِيُّ اسْمُهُ جَابِرُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ بَصْرِيٌّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۲۳۵۰- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتاہوں، آپ نے فرمایا:'' جوکہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو''، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتاہوں'' ، آپ نے فرمایا:''جوکہہ رہے ہواس کے بارے میں سوچ سمجھ لو''، اس نے پھرکہا: اللہ کی قسم!میں آپ سے محبت کرتاہوں،اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا:'' اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہوتو فقر ومحتاجی کاٹاٹ تیاررکھو اس لیے کہ جوشخص مجھے دوست بنانا چاہتاہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتناتیزسیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤکے رخ پرنہیں جاتا''۔
۲۳۵۰/م- اس سند سے بھی عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- ابوالوازع راسبی کانام جابربن عمرو ہے اوریہ بصری ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ فُقَرَائَ الْمُهَاجِرِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ
۳۷-باب: مہاجرفقراء جنت میں مالدارمہاجرسے پہلے جائیں گے​


2351- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "فُقَرَائُ الْمُهَاجِرِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِخَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۶ (۴۱۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۷) (صحیح)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۲۳۵۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مہاجر فقراء جنت میں مالدارمہاجر سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ ، عبداللہ بن عمرو اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس لیے کہ غریب مہاجرکے پاس چونکہ مال کم تھا، اس لیے انہیں حساب و کتاب میں زیادہ تاخیر نہیں ہوگی، جب کہ مالدار مہاجرین کو مال کے حساب میں بہت تاخیر ہوگی، اس سے غریب کی فضیلت معلوم ہوئی۔ آخرت کاآدھادن دنیاکے پانچ سوسال کے برابرہوگا، اس لحاظ سے جس حدیث میں آدھے دن کا ذکرہے اس سے آخرت کا آدھا دن مرادہے۔


2352- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَابِدُ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ النُّعْمَانِ اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا، وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: "إِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا، يَا عَائِشَةُ! لاَ تَرُدِّي الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، يَا عَائِشَةُ ! أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ، وَقَرِّبِيهِمْ، فَإِنَّ اللهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۱۹) (صحیح)
۲۳۵۲- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے دعاکی :''اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ '' ۱؎ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا اللہ کے رسول! ایساکیوں؟ آپ نے فرمایا:'' اس لیے کہ مساکین جنت میں اغنیاء سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے، لہذا اے عائشہ کسی بھی مسکین کو دروازے سے واپس نہ کرو اگرچہ کھجور کاایک ٹکڑا ہی سہی، عائشہ! مسکینوں سے محبت کرو اوران سے قربت اختیا رکرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم کو روزقیامت اپنے سے قریب کرے گا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یا اللہ ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں وفات دے اور قیامت کے روز مسکینوں کے زمرے میں اٹھا۔
وضاحت ۲؎ : اس حدیث میں تواضع کے اپنانے اورکبرونخوت سے دوررہنے کی ترغیب ہے، ساتھ ہی فقراء مساکین سے محبت اوران سے قربت اختیارکرنے کی تعلیم ہے۔


2353- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَدْخُلُ الْفُقَرَائُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الأَغْنِيَائِ بِخَمْسِ مِائَةِ عَامٍ نِصْفِ يَوْمٍ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الزہد ۶ (۴۱۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۲۹) (حسن صحیح)
۲۳۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' فقراء جنت میں مالداروں سے پانچ سو برس پہلے داخل ہوں گے اور یہ قیامت کے آدھا دن کے برابر ہوگا '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں پانچ سوسال کاذکرہے ، جب کہ اس سے پہلے والی حدیث میں چالیس سال کا ذکرہے ، مدت میں فرق فقراء کے درجات ومراتب میں فرق کے لحاظ سے ہے ، معلوم ہوا کہ کچھ فقراء اپنے مراتب ودرجات کے لحاظ سے پانچ سوسال پہلے جنت میں جائیں گے جب کہ کچھ فقراء چالیس سال پہلے جائیں گے۔


2354- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "يَدْخُلُ فُقَرَائُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَهُوَ خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ". وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳۹) (حسن صحیح)
۲۳۵۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:''فقیرومحتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے آدھادن پہلے داخل ہوں گے اور یہ آدھادن پانچ سو برس کے برابر ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2355- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "يَدْخُلُ فُقَرَائُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۵۰۳)، وانظر حم (۳/۳۲۴) (صحیح)
(فقراء المہاجرین کے لفظ سے صحیح ہے)
۲۳۵۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:'' فقیرومحتاج مسلمان جنت میں مالداروں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
 
Top