• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ فِي السَّهْوِ عَنْ وَقْتِ صَلاَةِ الْعَصْرِ
۱۶- باب: عصرکے وقت کو بھول جانے کا بیان​


175-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"الَّذِي تَفُوتُهُ صَلاَةُ الْعَصْرِ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ، وَنَوْفَلِ بْنِ مُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ أَيْضًا عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/المواقیت۱۴ (۵۵۲)، والمناقب ۲۵ (۳۶۰۲)، م/المساجد ۳۵ (۶۲۶)، د/الصلاۃ ۵ (۴۱۴)، ن/الصلاۃ ۱۷ (۴۷۹)، ق/الصلاۃ ۶ (۶۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۰۱)، ط/وقوت الصلاۃ ۵ (۲۱)، حم (۲/۱۳، ۲۷، ۴۸، ۶۴، ۷۵، ۷۶، ۱۰۲، ۱۳۴، ۱۴۵، ۱۴۷)، دي/الصلاۃ ۲۷ (۱۲۶۷) (صحیح)
۱۷۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'' جس سے عصر فوت ہوگئی گویا اس کا گھر اور مال لٹ گیا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں بریدہ اور نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الصَّلاَةِ إِذَا أَخَّرَهَا الإِمَامُ
۱۷- باب: جب امام صلاۃ دیر سے پڑھے تواُسے جلد پڑھ لینے کا بیان​


176- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"يَاأَبَا ذَرٍّ! أُمَرَائُ يَكُونُونَ بَعْدِي يُمِيتُونَ الصَّلاَةَ، فَصَلِّ الصَّلاَةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ صُلِّيَتْ لِوَقْتِهَا كَانَتْ لَكَ نَافِلَةً، وَإِلاَّ كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلاَتَكَ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الصَّلاَةَ لِمِيقَاتِهَا إِذَا أَخَّرَهَا الإِمَامُ، ثُمَّ يُصَلِّي مَعَ الإِمَامِ، وَالصَّلاَةُ الأُولَى هِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَأَبُوعِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ.
* تخريج: م/المساجد ۴۱ (۶۴۸)، د/الصلاۃ ۱۰ (۴۳۱)، ن/الإمامۃ ۲ (۷۷۹)، و۵۵ (۸۶۰)، ق/الإقامۃ ۱۵۰ (۱۲۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۵۰)، حم (۵/۱۶۸، ۱۶۹)، دي/الصلاۃ ۲۶ (۱۲۶۴) (صحیح)
۱۷۶- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :''ابوذر ! میرے بعد کچھ ایسے امراء (حکام) ہوں گے جو صلاۃ کو مارڈالیں گے ۱؎ ، تو تم صلاۃ کو اس کے وقت پر پڑھ لینا ۲ ؎ صلاۃ اپنے وقت پر پڑھ لی گئی تو امامت والی صلاۃ تمہارے لیے نفل ہوگی، ورنہ تم نے اپنی صلاۃ محفوظ کرہی لی ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۳- یہی اہل علم میں سے کئی لوگوں کا قول ہے، یہ لوگ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صلاۃ اپنے وقت پر پڑھ لے جب امام اسے مؤخر کرے، پھر وہ امام کے ساتھ بھی پڑھے اور پہلی صلاۃ ہی اکثر اہل علم کے نزدیک فرض ہوگی ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اسے دیرکرکے پڑھیں گے۔
وضاحت ۲؎ : یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے، اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
وضاحت ۳؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب صلاۃ کو اس کے اوّل وقت سے دیر کرکے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اوّل وقت میں اکیلے پڑھ لے، ابوداودکی روایت میں ''صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لك نافلة''(تم صلاۃ وقت پرپڑھ لو پھراگرتم ان کے ساتھ یہی صلاۃ پاؤتو دوبارہ پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل ہوگی، ظاہرحدیث عام ہے ساری صلاتیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجرکی ہو یا عصرکی یامغرب کی، بعضوں نے اسے ظہراورعشاء کے ساتھ خاص کیا ہے، وہ کہتے ہیں فجراور عصرکے بعدنفل پڑھنا درست نہیں اورمغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہوجائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّوْمِ عَنْ الصَّلاَةِ
۱۸- باب: صلاۃ سے سوجانے کا بیان​


177- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: ذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ ﷺ نَوْمَهُمْ عَنْ الصَّلاَةِ، فَقَالَ:"إِنَّهُ لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلاَةً أَوْ نَامَ عَنْهَا فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا".
وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي مَرْيَمَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، وَذِي مِخْبَرٍ، وَيُقَالُ: ذِي مِخْمَرٍ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي النَّجَاشِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي قَتَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الرَّجُلِ يَنَامُ عَنْ الصَّلاَةِ أَوْ يَنْسَاهَا، فَيَسْتَيْقِظُ أَوْ يَذْكُرُ وَهُوَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلاَةٍ، عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِهَا: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُصَلِّيهَا إِذَا اسْتَيْقَظَ، أَوْ ذَكَرَ وَإِنْ كَانَ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ أَوْ عِنْدَ غُرُوبِهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يُصَلِّي حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ أَوْ تَغْرُبَ.
* تخريج: م/المساجد ۵۵ (۶۸۱)، (في سیاق طویل)، د/الصلاۃ ۱۱ (۴۳۷)، ن/المواقیت ۵۳ (۶۱۶)، ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۸۵)، حم (۵/۳۰۵) (صحیح)
۱۷۷- ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی اکرمﷺ سے صلاۃ سے اپنے سوجانے کا ذکر کیاتو آپ نے فرمایا: ''سوجانے میں قصور اورکمی نہیں۔ قصوراورکمی تو جاگنے میں ہے ،(کہ جاگتارہے اورنہ پڑھے) لہذا تم میں سے کوئی جب صلاۃ بھول جائے، یاصلاۃ سے سوجائے ، تو جب اسے یاد آئے پڑھ لے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوقتادہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن مسعود، ابومریم ، عمران بن حصین ، جبیر بن مطعم ، ابو جحیفہ ، ابوسعید ، عمروبن امیہ ضمری اور ذو مخمر(جنہیں ذومخبربھی کہاجاتاہے، اور یہ نجاشی کے بھتیجے ہیں) رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کے درمیان اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جو صلاۃ سے سوجائے یااسے بھول جائے اورایسے وقت میں جاگے یا اسے یادآئے جوصلاۃ کا وقت نہیں مثلاً سورج نکل رہاہویاڈوب رہاہوتو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے پڑھ لے جب جاگے یایادآئے گو سورج نکلنے کا یا ڈوبنے کاوقت ہو،یہی احمد ، اسحاق بن راہویہ ، شافعی اور مالک کا قول ہے۔اوربعض کہتے ہیں کہ جب تک سورج نکل نہ جائے یا ڈوب نہ جائے نہ پڑھے۔ پہلا قول ہی راجح ہے ، کیونکہ یہ صلاۃ سبب والی (قضا)ہے اورسبب والی میں وقت کی پابندی نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنْسَى الصَّلاَةَ
۱۹-باب: آدمی صلاۃ بھول جائے تو کیا کرے؟​


178- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ نَسِيَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا". وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ، وَأَبِي قَتَادَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَيُرْوَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّهُ قَالَ فِي الرَّجُلِ يَنْسَى الصَّلاَةَ: قَالَ: يُصَلِّيهَا مَتَى مَاذَكَرَهَا فِي وَقْتٍ، أَوْ فِي غَيْرِ وَقْتٍ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَإِسْحَاقَ. وَيُرْوَى عَنْ أَبِي بَكْرَةَ: أَنَّهُ نَامَ عَنْ صَلاَةِ الْعَصْرِ، فَاسْتَيْقَظَ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ. وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى هَذَا. وَأَمَّا أَصْحَابُنَا فَذَهَبُوا إِلَى قَوْلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
* تخريج: خ/المواقیت ۳۷ (۵۹۷)، م/المساجد ۵۵ (۶۸۴)، د/الصلاۃ ۱۱ (۴۴۲)، ن/المواقیت ۵۲ (۶۱۴) ق/الصلاۃ ۱۰ (۶۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۰، وکذا: ۱۲۹۹) (صحیح)
۱۷۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ''جوشخص صلاۃ بھول جائے تو چاہئے کہ جب یاد آئے پڑھ لے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سمرہ اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں جو صلاۃ بھول جائے کہا کہ وہ پڑھ لے جب بھی اسے یادآئے خواہ وقت ہویانہ ہو۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے ، اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عصر میں سوگئے اورسورج ڈوبنے کے وقت اٹھے، تو انہوں نے صلاۃ نہیں پڑھی جب تک کہ سورج ڈوب نہیں گیا۔ اہل کوفہ کے کچھ لوگ اسی طرف گئے ہیں۔ رہے ہمارے اصحاب یعنی محدثین تووہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہی کے قول کی طرف گئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ
۲۰- باب: کئی وقت کی صلاۃ چھوٹ جائے توآدمی پہلے کون سی پڑھے؟​


179- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللهِ بْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَائَ اللهُ. فَأَمَرَ بِلاَلاً فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَصَلَّى الْعِشَائَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ إِلاَّ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللهِ. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْفَوَائِتِ: أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ لِكُلِّ صَلاَةٍ إِذَا قَضَاهَا. وَإِنْ لَمْ يُقِمْ أَجْزَأَهُ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: ن/المواقیت ۵۵ (۶۲۳)، والأذان ۲۲ (۶۶۳)، و۲۳ (۶۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۳۳) (حسن)
( سند میں ابوعبیدہ اوران کے باپ ابن مسعودکے درمیان انقطاع ہے ، نیز ابوالزبیرمدلس ہیں اور ''عنعنہ'' سے روایت کیے ہوئے ہیں، مگر شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن صحیح ہے/دیکھئے نسائی حدیث رقم ۴۸۳، ۵۳۶ اور ۶۲۲)
۱۷۹- ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو خندق کے دن چار صلاتوں سے روک دیا۔ یہاں تک کہ رات جتنی اللہ نے چاہی گزرگئی، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا توانہوں نے اذان کہی، پھراقامت کہی توآپﷺنے ظہر پڑھی،پھربلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی توآپ نے عصر پڑھی، پھربلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی توآپ نے مغرب پڑھی، پھرانہوں نے اقامت کہی توآپﷺ نے عشاء پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند میں کوئی برائی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سناہے، ۳- اور چھوٹی ہوئی صلاتوں کے سلسلے میں بعض اہل علم نے اسی کوپسند کیا ہے کہ آدمی جب ان کی قضا کرے توہرصلاۃ کے لیے الگ الگ اقامت کہے ۱؎ اور اگرو ہ الگ الگ اقامت نہ کہے توبھی وہ اُسے کافی ہوگا، اوریہی شافعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہرصلاۃ کے لیے الگ الگ اقامت ہی راجح ہے کیونکہ ابن مسعود اورابوسعید خدری رضی اللہ عنہما کی حدیثوں سے اس کی تائید ہوتی ہے، سب کے لیے ایک ہی اقامت محض قیاس ہے۔


180- وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَا كِدْتُ أُصَلِّي الْعَصْرَ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"وَاللهِ! إِنْ صَلَّيْتُهَا" قَالَ: فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَتَوَضَّأْنَا، فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺ الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا الْمَغْرِبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المواقیت ۳۶ (۵۹۶)، و۳۸ (۵۹۸)، والأذان ۲۶ (۶۴۱)، والخوف ۴ (۹۴۵)، والمغازی ۲۹ (۴۱۱۲)، م/المساجد (۶۳۶)، ن/السہو ۱۰۵ (۱۳۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵) (صحیح)
۱۸۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خندق کے روز کفارقریش کو برا بھلاکہتے ہوئے کہاکہ اللہ کے رسول! میں عصرنہیں پڑھ سکا یہاں تک کہ سورج ڈوبنے کے قریب ہوگیا،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:''اللہ کی قسم ! میں نے اُسے(اب بھی)نہیں پڑھی ہے''، وہ کہتے ہیں: پھر ہم وادی بطحان میں اترے تو رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا، پھر رسول اللہﷺ نے سورج ڈوب جانے کے بعد پہلے عصرپڑھی پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں مذکورواقعہ ابن مسعودوالے واقعہ کے علاوہ دوسرا واقعہ ہے ، یہاں صرف عصرکی قضاکا واقعہ ہے اوروہاں ظہرسے لے کر مغرب تک کی قضاء پھرعشاء کے وقت میں سب کی قضا ء کا واقعہ ہے جو دوسرے دن کا ہے ، غزوئہ خندق کئی دن تک ہوئی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ الْوُسْطَى أَنَّهَا الْعَصْرُ وَقَدْ قِيلَ إِنَّهَا الظُّهْرُ
۲۱- باب: صلاۃِ وسطیٰ ہی صلاۃِ عصر ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ صلاۃِ ظہر ہے​


181- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، وَأَبُو النَّضْرِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:"صَلاَةُ الْوُسْطَى صَلاَةُ الْعَصْرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المساجد ۳۶ (۶۲۸)، ق/الصلاۃ ۶ (۶۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۴۸)، حم (۱/۴۰۴، ۴۵۶)، (ویأتی عند المؤلف فی تفسیر البقرۃ(۲۹۸۵) (صحیح)
۱۸۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' صلاۃ وسطیٰ عصر کی صلاۃ ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : وسطیٰ یہ اس لیے ہے کہ یہ دن اور رات کی صلاتوں کی بیچ میں واقع ہے۔


182- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"صَلاَةُ الْوُسْطَى صَلاَةُ الْعَصْرِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِاللهِ: حَدِيثُ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ سَمِعَ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ فِي صَلاَةِ الْوُسْطَى حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْعُلَمَائِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. و قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، وَعَائِشَةُ: صَلاَةُ الْوُسْطَى صَلاَةُ الظُّهْرِ. و قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَابْنُ عُمَرَ: صَلاْةُ الْوُسْطَى صَلاَةُ الصُّبْحِ. حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، قَالَ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ: سَلِ الْحَسَنَ مِمَّنْ سَمِعَ حَدِيثَ الْعَقِيقَةِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُهُ مِنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمَدِينِيِّ، عَنْ قُرَيْشِ بْنِ أَنَسٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: قَالَ عَلِيٌّ: وَسَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، ویأتی عندہ فی تفسیر البقرۃ (۲۹۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۰۲) (صحیح)
(سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح لغیرہ ہے، حسن بصری کے سمرہ رضی اللہ عنہ سے سماع میں اختلاف ہے، نیز قتادہ اورحسن بصریمدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے )
۱۸۲- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''صلاۃ وسطیٰ عصر کی صلاۃ ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صلاۃ وسطیٰ کے سلسلہ میں سمرہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود ، زید بن ثابت ، عائشہ، حفصہ ، ابوہریرہ اور ابوہاشم بن عقبہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ علی بن عبداللہ(ابن المدینی) کاکہناہے : حسن بصری کی حدیث جسے انہوں نے سمرہ بن جندب سے روایت کیا ہے،صحیح حدیث ہے ،جسے انہوں نے سمرۃ سے سنا ہے، ۴- صحابہ کرام اوران کے علاوہ دیگر لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے،زید بن ثابت اور عائشہ رضی اللہ عنہا کاکہناہے کہ صلاۃ وسطیٰ ظہرکی صلاۃ ہے،ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ صلاۃِ وسطیٰ صبح کی صلاۃ (یعنی فجر) ہے ۲؎ ، ۵- وہ حبیب بن شہید کہتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے کہا کہ تم حسن بصری سے پوچھوکہ انہوں نے عقیقہ کی حدیث کس سے سنی ہے؟ تو میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہاکہ میں نے اسے سمرہ بن جندب سے سناہے، ۶- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ علی ابن المدینی نے کہاہے کہ سمرہ رضی اللہ عنہ سے حسن کا سماع صحیح ہے اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل پکڑی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صلاۃ وسطیٰ سے کون سی صلاۃ مراد ہے اس بارے میں مختلف حدیثیں وارد ہیں صحیح قول یہی ہے کہ اس سے مراد صلاۃ عصرہے یہی اکثرصحابہ اور تابعین کامذہب ہے، امام ابوحنیفہ ، امام احمد بھی اسی طرف گئے ہیں ۔
وضاحت ۲؎ : امام مالک اورامام شافعی کا مشہورمذہب یہی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الْفَجْرِ
۲۲- باب: عصر اور فجر کے بعد صلاۃ پڑھنے کی کراہت کا بیان​


183- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ - وَهُوَ ابْنُ زَاذَانَ - عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال: سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِنْهُمْ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَكَانَ مِنْ أَحَبِّهِمْ إِلَيَّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنْ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْفَجْرِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَعَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَسَمُرَةَ ابْنِ جُنْدَبٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَمُعَاذِ ابْنِ عَفْرَائَ، وَالصُّنَابِحِيِّ -وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ- وَسَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَعَائِشَةَ، وَكَعْبِ بْنِ مُرَّةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، وَيَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ الْفُقَهَائِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: أَنَّهُمْ كَرِهُوا الصَّلاَةَ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ صَلاَةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَأَمَّا الصَّلَوَاتُ الْفَوَائِتُ فَلاَ بَأْسَ أَنْ تُقْضَى بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ.
قَالَ عَلِيُّ ابْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ أَبِي الْعَالِيَةِ إِلاَّ ثَلاَثَةَ أَشْيَائَ: حَدِيثَ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَحَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لاَيَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى"، وَحَدِيثَ عَلِيٍّ"الْقُضَاةُ ثَلاَثَةٌ".
* تخريج: خ/المواقیت ۳۰ (۵۸۱)، م/المسافرین ۵۱ (۸۲۶)، د/الصلاۃ ۲۹۹ (۱۲۷۶)، ن/المواقیت ۳۲ (۵۶۳)، ق/الإقامۃ ۱۴۷ (۱۲۵۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۹۲)، حم (۱/۲۱، ۳۹)، دي/الصلاۃ ۱۴۲ (۱۴۷۳) (صحیح)
۱۸۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کئی لوگوں سے (جن میں عمر بن خطاب بھی ہیں اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں) سناکہ رسول اللہﷺ نے فجر کے بعد جب تک کہ سورج نکل نہ آئے ۱؎ اور عصر کے بعد جب تک کہ ڈوب نہ جائے صلاۃ ۲؎ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابن عباس کی حدیث جسے انہوں نے عمرسے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، ابن مسعود ،عقبہ بن عامر ،ا بوہریرہ ، ابن عمر، سمرہ بن جندب ، عبداللہ بن عمرو ، معاذ بن عفراء ، صنابحی( نبی اکرمﷺ سے انہوں نے نہیں سناہے) سلمہ بن اکوع، زید بن ثابت ، عائشہ، کعب بن مرہ ، ابوامامہ، عمرو بن عبسہ ، یعلی ابن امیہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر فقہا کا یہی قول ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد سورج نکلنے تک اورعصرکے بعد سورج ڈوبنے تک صلاۃ پڑھنے کومکروہ جانا ہے، رہیں فوت شدہ صلاتیں تو انہیں عصر کے بعد یا فجر کے بعد قضا کرنے میں کوئی حرج نہیں، ۴- شعبہ کہتے ہیں کہ قتادہ نے ابوالعالیہ سے صرف تین چیزیں سنی ہیں۔ ایک عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے عصر کے بعد صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ سورج نہ ڈوب جائے، اور فجرکے بعدبھی جب تک کہ سورج نکل نہ آئے، اور (دوسری) ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :''تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہترہوں اور (تیسری) علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں''۔
وضاحت ۱؎ : بخاری کی روایت میں ''حتى ترتفع الشمس''ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ اس حدیث میں طلوع سے مراد مخصوص قسم کا طلوع ہے اور وہ سورج کا نیزے کے برابراوپرچڑھ آنا ہے۔
وضاحت ۲؎ : مذکورہ دونوں اوقات میں صرف سبب والی نفلی صلاتوں سے منع کیاگیاہے ،فرض صلاتوں کی قضاء، تحیۃ المسجد،تحیۃ الوضوء، طواف کی دورکعتیں اورصلاۃ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ
۲۳- باب: عصر کے بعد صلاۃ پڑھنے کا بیان​


184- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّمَا صَلَّى النَّبِيُّ ﷺ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، لأَنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ فَشَغَلَهُ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَصَلاَّهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ لَهُمَا. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَمَيْمُونَةَ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ. وَهَذَا خِلاَفُ مَا رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ نَهَى عَنْ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ. وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَصَحُّ حَيْثُ قَالَ"لَمْ يَعُدْ لَهُمَا". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَحْوُ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذَا الْبَابِ رِوَايَاتٌ: رُوِيَ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَا دَخَلَ عَلَيْهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلاَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ. وَرُوِيَ عَنْهَا عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ نَهَى عَنْ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. وَالَّذِي اجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: عَلَى كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، إِلاَّ مَا اسْتُثْنِيَ مِنْ ذَلِكَ، مِثْلُ الصَّلاَةِ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ بَعْدَ الطَّوَافِ، فَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ رُخْصَةٌ فِي ذَلِكَ. وَقَدْ قَالَ بِهِ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ الصَّلاَةَ بِمَكَّةَ أَيْضًا بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَبَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۵۷۳) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں عطاء بن السائب اخیرعمرمیں مختلط ہوگئے تھے،جریربن عبدالحمید کی ان سے روایت اختلاط کے زمانہ کی ہے، لیکن صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ پھرنبی اکرمﷺ نے عصرکے بعد ان دو رکعتوں کوہمیشہ پڑھا اسی لیے ''ثم لم يعد لهما'' ''ان کو پھرکبھی نہیں پڑھا'' کاٹکڑا منکرہے)
۱۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عصر کے بعد دورکعتیں پڑھیں، اس لیے کہ آپ کے پاس کچھ مال آیاتھا، جس کی وجہ سے آپ کو ظہر کے بعد کی دونوں رکعتیں پڑھنے کاموقع نہیں مل سکاتھا تو آپ نے انہیں عصر کے بعد پڑھا پھرآپ نے انہیں دوبارہ نہیں پڑھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ام سلمہ، میمونہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- دیگرکئی لوگوں نے بھی نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے عصر بعد دورکعتیں پڑھیں یہ اس چیزکے خلاف ہے جوآپ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے عصرکے بعدجب تک سورج ڈوب نہ جائے صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے،۴- ابن عباس والی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے دوبارہ ایسا نہیں کیا،سب سے زیادہ صحیح ہے،۵- زید بن ثابت سے بھی ابن عباس ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے، ۶- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی کئی حدیثیں مروی ہیں،نیزان سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ جب بھی ان کے یہاں عصرکے بعد آتے دورکعتیں پڑھتے،۷- نیز انہوں نے ام سلمہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اورفجرکے بعد جب تک نکل نہ آئے صلاۃ پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔
۸- اکثر اہل علم کا اتفاق بھی اسی پرہے کہ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اور فجر کے بعدجب تک نکل نہ آئے صلاۃ پڑھنا مکروہ ہے سوائے ان صلاتوں کے جو اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً مکہ میں عصرکے بعد طواف کی دونوں رکعتیں پڑھنا یہاں تک سورج ڈوب جائے اور فجرکے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اس سلسلے میں نبی اکرمﷺ سے رخصت مروی ہے، صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے یہی کہاہے۔اور یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم نے عصر اور فجرکے بعد مکہ میں بھی صلاۃ پڑھنے کو مکروہ جاناہے،سفیان ثوری، مالک بن انس اور بعض اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایات ''ما ترك النبي ﷺ السجدتين بعد العصر عندي قط'' ''ما تركهما حتى لقى الله'' ''وما كان النبي ﷺ يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين''کے معارض ہے ان میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے اولایہ کہ ابن عباس کی یہ حدیث سندکے لحاظ سے ضعیف ہے ، یا کم از کم عائشہ کی حدیث سے کم ترہے ، دوسرے یہ کہ ابن عباس نے یہ نفی اپنے علم کی بنیادپر کی ہے کیونکہ آپ اسے گھر میں پڑھتے تھے اس لیے انہیں اس کا علم نہیں ہوسکا تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ
۲۴- باب: مغرب سے پہلے نفل صلاۃ پڑھنے کا بیان​


185- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، لِمَنْ شَائَ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ فِي الصَّلاَةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ: فَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ الصَّلاَةَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ قَبْلَ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ. و قَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: إِنْ صَلاَّهُمَا فَحَسَنٌ، وَهَذَا عِنْدَهُمَا عَلَى الاِسْتِحْبَابِ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۴ (۶۲۴)، و۱۶ (۶۲۷)، م/المسافرین ۵۶ (۸۳۸)، د/الصلاۃ ۳۰۰ (۱۲۸۳)، ن/الأذان ۳۹ (۶۸۲)، ق/الإقامۃ ۱۱۰ (۱۱۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۵۸)، حم (۴/۸۶)، و(۵/۵۴،۵۶)، دي/الصلاۃ ۱۴۵ (۱۴۸۰) (صحیح)
۱۸۵- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جونفلی صلاۃ پڑھنا چاہے اس کے لیے ہردو اذان ۱؎ کے درمیان صلاۃ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام کے درمیان مغرب سے پہلے کی صلاۃ کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں سے بعض کے نزدیک مغرب سے پہلے صلاۃ نہیں،اور صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے ،۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں پڑھے تو بہتر ہے، اور یہ ان دونوں کے نزدیک مستحب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہردواذان سے مراد اذان اوراقامت ہے، یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعددورکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے،اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہوجائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ صلاۃ بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے، مشکل سے دوتین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اوّل وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے صلاۃ مؤخرنہیں ہوتی۔(صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امرکا صیغہ ہے''مغرب سے پہلے صلاۃ پڑھو'')
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ
۲۵- باب: جسے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت مل جائے اُسے عصرمل گئی​


186- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنْ الأَعْرَجِ، يُحَدِّثُونَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"مَنْ أَدْرَكَ مِنْ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنْ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ".
وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَبِهِ يَقُولُ أَصْحَابُنَا وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَهُمْ لِصَاحِبِ الْعُذْرِ، مِثْلُ الرَّجُلِ الَّذِي يَنَامُ عَنْ الصَّلاَةِ أَوْ يَنْسَاهَا فَيَسْتَيْقِظُ وَيَذْكُرُ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا.
* تخريج: خ/المواقیت ۲۸ (۵۷۹)، و۲۹ (۵۸۰)، م/المساجد ۳۰ (۶۰۷)، د/الصلاۃ ۵ (۴۱۲)، ن/المواقیت ۱۱ (۵۱۶، ۵۱۸)، و۲۸ (۵۵۱)، ق/الصلاۃ ۱۱ (۱۱۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۶، و۱۳۶۴۶، و۱۴۲۱۶)، ط/وقوت الصلاۃ ۱ (۵)، حم (۲/۲۳۶، ۳۴۸، ۲۵۴، ۲۶۰، ۲۸۲، ۳۹۹، ۴۶۲، ۴۷۴، ۴۸۹، ۴۹۰، ۵۲۱)، دي/الصلاۃ ۲۲ (۱۲۵۸) (صحیح)
۱۸۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ''جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- ہمارے اصحاب، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ حدیث ان کے نزدیک صاحب عذرکے لیے ہے مثلاً ایسے شخص کے لیے جوصلاۃ سے سوگیا اورسورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت بیدارہوا ہو یا اُسے بھول گی ہو اور وہ سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت اسے صلاۃ یاد آئی ہو۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوگیا کہ اس کے ساتھ باقی اوررکعتیں ملا لے اس کی یہ صلاۃ اداسمجھی جائے گی قضانہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری صلاۃ کے لیے کافی ہوگی،اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صلاۃ کے دوران سورج نکلنے سے اس کی صلاۃ فاسد ہوجائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہوتو وہ صلاۃ کا اہل ہوگیا اور وہ صلاۃ اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہواہویاحائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندرایک رکعت پڑھ سکتا ہوتو وہ صلاۃ اس پر واجب ہوگی، لیکن نسائی کی روایت جس میں ''فليتم صلاته'' کے الفاظ واردہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔
 
Top