23- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ
۲۳- باب: عصر کے بعد صلاۃ پڑھنے کا بیان
184- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: إِنَّمَا صَلَّى النَّبِيُّ ﷺ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، لأَنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ فَشَغَلَهُ عَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَصَلاَّهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، ثُمَّ لَمْ يَعُدْ لَهُمَا. وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَمَيْمُونَةَ، وَأَبِي مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ. وَهَذَا خِلاَفُ مَا رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ نَهَى عَنْ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ. وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ أَصَحُّ حَيْثُ قَالَ"لَمْ يَعُدْ لَهُمَا". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَحْوُ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذَا الْبَابِ رِوَايَاتٌ: رُوِيَ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَا دَخَلَ عَلَيْهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلاَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ. وَرُوِيَ عَنْهَا عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ نَهَى عَنْ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ. وَالَّذِي اجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: عَلَى كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، إِلاَّ مَا اسْتُثْنِيَ مِنْ ذَلِكَ، مِثْلُ الصَّلاَةِ بِمَكَّةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ بَعْدَ الطَّوَافِ، فَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ رُخْصَةٌ فِي ذَلِكَ. وَقَدْ قَالَ بِهِ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ الصَّلاَةَ بِمَكَّةَ أَيْضًا بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَبَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۵۷۳) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں عطاء بن السائب اخیرعمرمیں مختلط ہوگئے تھے،جریربن عبدالحمید کی ان سے روایت اختلاط کے زمانہ کی ہے، لیکن صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ پھرنبی اکرمﷺ نے عصرکے بعد ان دو رکعتوں کوہمیشہ پڑھا اسی لیے
''ثم لم يعد لهما'' ''ان کو پھرکبھی نہیں پڑھا'' کاٹکڑا منکرہے)
۱۸۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے عصر کے بعد دورکعتیں پڑھیں، اس لیے کہ آپ کے پاس کچھ مال آیاتھا، جس کی وجہ سے آپ کو ظہر کے بعد کی دونوں رکعتیں پڑھنے کاموقع نہیں مل سکاتھا تو آپ نے انہیں عصر کے بعد پڑھا پھرآپ نے انہیں دوبارہ نہیں پڑھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ام سلمہ، میمونہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- دیگرکئی لوگوں نے بھی نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے عصر بعد دورکعتیں پڑھیں یہ اس چیزکے خلاف ہے جوآپ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے عصرکے بعدجب تک سورج ڈوب نہ جائے صلاۃ پڑھنے سے منع فرمایا ہے،۴- ابن عباس والی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے دوبارہ ایسا نہیں کیا،سب سے زیادہ صحیح ہے،۵- زید بن ثابت سے بھی ابن عباس ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے، ۶- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی کئی حدیثیں مروی ہیں،نیزان سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ جب بھی ان کے یہاں عصرکے بعد آتے دورکعتیں پڑھتے،۷- نیز انہوں نے ام سلمہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اورفجرکے بعد جب تک نکل نہ آئے صلاۃ پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔
۸- اکثر اہل علم کا اتفاق بھی اسی پرہے کہ عصر کے بعد جب تک سورج ڈوب نہ جائے اور فجر کے بعدجب تک نکل نہ آئے صلاۃ پڑھنا مکروہ ہے سوائے ان صلاتوں کے جو اس سے مستثنیٰ ہیں مثلاً مکہ میں عصرکے بعد طواف کی دونوں رکعتیں پڑھنا یہاں تک سورج ڈوب جائے اور فجرکے بعد یہاں تک کہ سورج نکل آئے، اس سلسلے میں نبی اکرمﷺ سے رخصت مروی ہے، صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے یہی کہاہے۔اور یہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں، صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے بعض اہل علم نے عصر اور فجرکے بعد مکہ میں بھی صلاۃ پڑھنے کو مکروہ جاناہے،سفیان ثوری، مالک بن انس اور بعض اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایات
''ما ترك النبي ﷺ السجدتين بعد العصر عندي قط'' ''ما تركهما حتى لقى الله'' ''وما كان النبي ﷺ يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين''کے معارض ہے ان میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے اولایہ کہ ابن عباس کی یہ حدیث سندکے لحاظ سے ضعیف ہے ، یا کم از کم عائشہ کی حدیث سے کم ترہے ، دوسرے یہ کہ ابن عباس نے یہ نفی اپنے علم کی بنیادپر کی ہے کیونکہ آپ اسے گھر میں پڑھتے تھے اس لیے انہیں اس کا علم نہیں ہوسکا تھا ۔