- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ
۲۶- باب: حضر (اقامت کی حالت)میں دوصلاتوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا بیان
187-حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ مَطَرٍ. قَالَ: فَقِيلَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أُمَّتَهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: رَوَاهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيُّ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ هَذَا.
* تخريج: خ/المواقیت ۱۲ (۵۴۳)، (بدون قولہ''فی غیر خوف ولا مطر'')، م/المسافرین ۶ (۷۰۵، ۷۰۶)، (وعندہ في روایۃ ''ولاسفر'')، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۰، ۱۲۱۱)، ن/المواقیت ۴۴ (۵۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۷۴)، ط/قصر الصلاۃ ۱ (۴)، حم (۱/۲۲۱، ۲۲۳، ۲۸۳) (صحیح)
۱۸۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بغیر خوف اور بارش ۱؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کوایک ساتھ جمع کیا ۲؎ ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرمﷺ کااس سے کیا منشأ تھی؟کہا: آپﷺ کا منشأیہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے خلاف بھی مرفوعا مروی ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوداود کی روایت میں''في غير خوف ولا سفر''ہے، نیز مسلم کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے، خوف ، سفر اور مطر(بارش) تینوں کاذکرایک ساتھ کسی روایت میں نہیں ہے مشہور'' من غير خوف ولا سفر''ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دوصلاۃ کو ایک ساتھ پڑھنا بوقت ضرورت حالت قیام میں بھی جائزہے، لیکن اسے عادت نہیں بنالینی چاہئے ۔
وضاحت ۳؎ : جسے امام ترمذی آگے نقل کر رہے ہیں، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے ،اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اورنہ اس حدیث سے استدلال جائز ہے۔
188-حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَنَشٌ هَذَا هُوَ: <أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ> وَهُوَ <حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ> وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنْ لاَ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ إِلاَّ فِي السَّفَرِ أَوْ بِعَرَفَةَ. وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ لِلْمَرِيضِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْمَطَرِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۲۵) (ضعیف جداً)
(سندمیں حسین بن قیس المعروف بہ حنش ضعیف بلکہ متروک ہے)
۱۸۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے بغیرعذرکے دوصلاتیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- حنش ہی ابوعلی رحبی ہیں اوروہی حسین بن قیس بھی ہے۔ یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے ، احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے،۲- اوراسی پر اہل علم کاعمل ہے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو صلاتیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں، ۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے مریض کو دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کرنے کی رخصت دی ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بارش کے سبب بھی دوصلاتیں جمع کی جاسکتی ہیں۔ شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ البتہ شافعی مریض کے لیے دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کر نے کو درست قرار نہیں دیتے۔
وضاحت ۱؎ : سفرمیں دوصلاۃ کے درمیان جمع کرنے کو ناجائزہونے پر احناف نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ روایت حددرجہ ضعیف ہے قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفرمیں جمع بین الصلاتین کی جواحادیث دلالت کرتی ہیں، وہ صحیح ہیں ان کی تخریج مسلم وغیرہ نے کی ہے اوراگربالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو ''عذر''سے مراد سفرہی تو ہے ، نیز دوسرے عذربھی ہوسکتے ہیں۔