• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ
۲۶- باب: حضر (اقامت کی حالت)میں دوصلاتوں کو ایک ساتھ جمع کرنے کا بیان​


187-حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَبَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ مَطَرٍ. قَالَ: فَقِيلَ لاِبْنِ عَبَّاسٍ: مَا أَرَادَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أُمَّتَهُ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: رَوَاهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيُّ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ هَذَا.
* تخريج: خ/المواقیت ۱۲ (۵۴۳)، (بدون قولہ''فی غیر خوف ولا مطر'')، م/المسافرین ۶ (۷۰۵، ۷۰۶)، (وعندہ في روایۃ ''ولاسفر'')، د/الصلاۃ ۲۷۴ (۱۲۱۰، ۱۲۱۱)، ن/المواقیت ۴۴ (۵۹۰)، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۷۴)، ط/قصر الصلاۃ ۱ (۴)، حم (۱/۲۲۱، ۲۲۳، ۲۸۳) (صحیح)
۱۸۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بغیر خوف اور بارش ۱؎ کے مدینے میں ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب اور عشاء کوایک ساتھ جمع کیا ۲؎ ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ نبی اکرمﷺ کااس سے کیا منشأ تھی؟کہا: آپﷺ کا منشأیہ تھی کہ آپ اپنی امت کو کسی پریشانی میں نہ ڈالیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کئی سندوں سے مروی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے خلاف بھی مرفوعا مروی ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوداود کی روایت میں''في غير خوف ولا سفر''ہے، نیز مسلم کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی ہے، خوف ، سفر اور مطر(بارش) تینوں کاذکرایک ساتھ کسی روایت میں نہیں ہے مشہور'' من غير خوف ولا سفر''ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دوصلاۃ کو ایک ساتھ پڑھنا بوقت ضرورت حالت قیام میں بھی جائزہے، لیکن اسے عادت نہیں بنالینی چاہئے ۔
وضاحت ۳؎ : جسے امام ترمذی آگے نقل کر رہے ہیں، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے ،اس لیے دونوں حدیثوں میں تعارض ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اورنہ اس حدیث سے استدلال جائز ہے۔


188-حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ أَتَى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَنَشٌ هَذَا هُوَ: <أَبُو عَلِيٍّ الرَّحَبِيُّ> وَهُوَ <حُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ> وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ وَغَيْرُهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنْ لاَ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ إِلاَّ فِي السَّفَرِ أَوْ بِعَرَفَةَ. وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ فِي الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ لِلْمَرِيضِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْمَطَرِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۲۵) (ضعیف جداً)
(سندمیں حسین بن قیس المعروف بہ حنش ضعیف بلکہ متروک ہے)
۱۸۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے بغیرعذرکے دوصلاتیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- حنش ہی ابوعلی رحبی ہیں اوروہی حسین بن قیس بھی ہے۔ یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے ، احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے،۲- اوراسی پر اہل علم کاعمل ہے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو صلاتیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں، ۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے مریض کو دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کرنے کی رخصت دی ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بارش کے سبب بھی دوصلاتیں جمع کی جاسکتی ہیں۔ شافعی، احمد، اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ البتہ شافعی مریض کے لیے دوصلاتیں ایک ساتھ جمع کر نے کو درست قرار نہیں دیتے۔
وضاحت ۱؎ : سفرمیں دوصلاۃ کے درمیان جمع کرنے کو ناجائزہونے پر احناف نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ روایت حددرجہ ضعیف ہے قطعاً استدلال کے قابل نہیں، اس کے برعکس سفرمیں جمع بین الصلاتین کی جواحادیث دلالت کرتی ہیں، وہ صحیح ہیں ان کی تخریج مسلم وغیرہ نے کی ہے اوراگربالفرض یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو ''عذر''سے مراد سفرہی تو ہے ، نیز دوسرے عذربھی ہوسکتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
31
ری ایکشن اسکور
32
پوائنٹ
54
السلام علیکم۔ کیا یہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ میں بھی ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ فِي بَدْئِ الأَذَانِ
۲۷- باب: اذان کی ابتدا کا بیان​


189- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا أَصْبَحْنَا أَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالرُّؤْيَا، فَقَالَ:"إِنَّ هَذِهِ لَرُؤْيَا حَقٍّ، فَقُمْ مَعَ بِلالٍ، فَإِنَّهُ أَنْدَى وَأَمَدُّ صَوْتًا مِنْكَ، فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا قِيلَ لَكَ، وَلْيُنَادِ بِذَلِكَ". قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نِدَائَ بِلاَلٍ بِالصَّلاَةِ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ، وَهُوَ يَجُرُّ إِزَارَهُ، وَهُوَ يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ الَّذِي قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"فَلِلّهِ الْحَمْدُ، فَذَلِكَ أَثْبَتُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ أَتَمَّ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ وَأَطْوَلَ، وَذَكَرَ فِيهِ قِصَّةَ الأَذَانِ مَثْنَى مَثْنَى، وَالإِقَامَةِ مَرَّةً مَرَّةً. وَعَبْدُ اللهِ بْنُ زَيْدٍ هُوَ ابْنُ عَبْدِ رَبِّهِ، - وَيُقَالُ ابْنُ عَبْدِ رَبٍّ -. وَلاَ نَعْرِفُ لَهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا يَصِحُّ إِلاَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْوَاحِدَ فِي الأَذَانِ. وَعَبْدُاللهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ لَهُ أَحَادِيثُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَهُوَ عَمُّ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۸ (۴۹۹)، ق/الأذان ۱ (۷۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۰۹)، حم (۴/۴۲)، دي/الصلاۃ ۳ (۱۲۲۴) (حسن)
۱۸۹- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے (مدینہ منورہ میں ایک رات) صبح کی توہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا ۱؎ توآپ نے فرمایا:'' یہ ایک سچا خواب ہے، تم اٹھو بلال کے ساتھ جاؤ وہ تم سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔ اور جو تمہیں بتایاگیا ہے ، وہ ان پرپیش کرو، وہ اسے زور سے پکارکرکہیں''، جب عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سنی تو اپنا تہ بند کھینچتے ہوئے رسول اللہﷺ کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول!قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بناکربھیجاہے، میں نے (بھی )اسی طرح دیکھا ہے جو انہوں نے کہا، رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' اللہ کا شکر ہے، یہ بات اور پکی ہوگئی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اورابراہیم بن سعد نے یہ حدیث محمد بن اسحاق سے اس سے بھی زیادہ کامل اورزیادہ لمبی روایت کی ہے۔ اور اس میں انہوں نے اذان کے کلمات کو دودوبار اوراقامت کے کلمات کو ایک ایک بارکہنے کاواقعہ ذکرکیاہے، ۴- عبداللہ بن زید ہی ابن عبدربہ ہیں اور انہیں ابن عبدرب بھی کہاجاتاہے،سوائے اذان کے سلسلے کی اس ایک حدیث کے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی نبی اکرمﷺ سے کوئی اوربھی حدیث صحیح ہے ، البتہ عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی کی کئی حدیثیں ہیں جنہیں وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں، اور یہ عباد بن تمیم کے چچاہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہﷺ اورصحابہ کرام کے درمیان ایک رات صلاۃ کے لیے لوگوں کو بلانے کی تدابیرپر گفتگو ہوئی، اسی رات عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا اورآکرآپﷺ سے بیان کیا (دیکھئے اگلی حدیث)۔


190- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ الْمُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَوَاتِ، وَلَيْسَ يُنَادِي بِهَا أَحَدٌ، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْيَهُودِ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ: أَوَلاَ تَبْعَثُونَ رَجُلاً يُنَادِي بِالصَّلاَةِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"يَابِلاَلُ! قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/الأذان ۱ (۶۰۴)، م/الصلاۃ ۱ (۳۷۷)، ن/الأذان ۱ (۶۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۷۵)، حم (۲/۱۴۸) (صحیح)
۱۹۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس وقت مسلمان مدینہ آئے تووہ اکٹھے ہوکر اوقاتِ صلاۃ کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی صلاۃ کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنالو، بعض نے کہا:کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن(یعنی کسی جانور کا سینگ) بنالو۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس پرعمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو صلاۃ کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بلال اٹھو جاؤ صلاۃ کے لیے پکارو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی (اُس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔(جسے بخاری ومسلم اور دیگرمحدثین نے روایت کیا ہے) ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ گفتگومدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے صلاۃ کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کر نے کااور بعض نے بوق (بگل)استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو صلاۃ کے لیے پکارنے پر مامور کردیا جائے؛ چنانچہ نبی اکرمﷺ کو یہ رائے پسند آئی اورآپ نے بلال کو باوازبلند''الصلاة جامعة'' کہنے کا حکم دیا۔اس کے بعدعبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اورجاکرخواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔
وضاحت ۲؎ : دیکھئے صحیح البخاری حدیث ۶۰۴وصحیح مسلم حدیث ۸۳۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّرْجِيعِ فِي الأَذَانِ
۲۸- باب: اذان میں ترجیع کا بیان​


191- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي مَحْذُورَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي وَجَدِّي، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَقْعَدَهُ وَأَلْقَى عَلَيْهِ الأَذَانَ حَرْفًا حَرْفًا، قَالَ إِبْرَاهِيمُ: مِثْلَ أَذَانِنَا، قَالَ بِشْرٌ: فَقُلْتُ لَهُ: أَعِدْ عَلَيَّ، فَوَصَفَ الأَذَانَ بِالتَّرْجِيعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مَحْذُورَةَ فِي الأَذَانِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ بِمَكَّةَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ۔
* تخريج: ن/الأذان ۳ (۶۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹) (صحیح)
(ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں الفاظ اذان کاذکر نہیں ہے،لیکن مجملاً یہ ذکر ہے کہ اذان کو ترجیع کے ساتھ بیان کیا، جب کہ اسی سند سے نسائی میں وارد حدیث میں اذان کے صرف سترہ کلمات کاذکرہے، اور اس میں ترجیع کی صراحت نہیں ہے، اس لیے نسائی والا سیاق منکر ہے، کیونکہ صحیح مسلم ، سنن نسائی اور ابن ماجہ (۷۰۸) میں اذان کے کلمات انیس آئے ہیں، دیکھیں مؤلف کی اگلی روایت (۱۹۲) اور نسائی کی روایت رقم ۳۰ ۶، ۶۳۱،۶۳۲، ۶۳۳)
۱۹۱- ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے انہیں بٹھاکراذان کا ایک ایک لفظ سکھایا۔
ابراہیم بن عبد العزیز بن عبدالملک بن ابی محذورہ کہتے ہیں: اس طرح جیسے ہماری اذان ہے۔ بشرکہتے ہیں تو میں نے ان سے یعنی ابراہیم سے کہا: اسے مجھ پردہرایئے تو انہوں نے ترجیع ۱؎ کے ساتھ اذان کاذکرکیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اذان کے سلسلے میں ابومحذورہ والی حدیث صحیح ہے، کئی سندوں سے مروی ہے،۲- اور اسی پر مکہ میں عمل ہے اور یہی شافعی کا قول ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اذان میں شہادتین کے کلمات کو پہلے دومرتبہ دھیمی آواز سے کہنے پھر دوبارہ دومرتبہ بلند آواز سے کہنے کو ترجیع کہتے ہیں ۔
وضاحت ۲؎ : اذان میں ترجیع مسنون ہے یا نہیں اس بارے میں ائمہ میں اختلاف ہے،صحیح قول یہ ہے کہ اذان ترجیع کے ساتھ اوربغیر ترجیع کے دونوں طرح سے جائزہے اور ترجیع والی روایات صحیحین کی ہیں اس لیے راجح ہیں، اور یہ کہنا کہ'' جس صحابی سے ترجیع کی روایات آئی ہیں انہیں تعلیم دینا مقصودتھا اس لیے کہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جنہیں آپ نے یہ تعلیم دی'' پہلی مرتبہ اسے دھیمی آوازمیں ادا کیا تھا پھر دوبارہ اسے بلندآوازسے اداکیا تھا،درست نہیں،کیونکہ ابومحذورہ مکہ میں برابرترجیع کے ساتھ اذان دیتے رہے اوران کے بعدبھی برابرترجیع سے اذان ہوتی رہی۔


192- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِالْوَاحِدِ الأَحْوَلِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ، عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ عَلَّمَهُ الأَذَانَ تِسْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً، وَالإِقَامَةَ سَبْعَ عَشْرَةَ كَلِمَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو مَحْذُورَةَ اسْمُهُ سَمُرَةُ بْنُ مِعْيَرٍ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا فِي الأَذَانِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ: أَنَّهُ كَانَ يُفْرِدُ الإِقَامَةَ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۳ (۳۷۹)، د/الصلاۃ ۲۸ (۵۰۲)، ن/الأذان ۴ (۶۳۱)، ق/الأذان ۲ (۷۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶۹) (حسن صحیح)
۱۹۲- ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے انہیں اذان کے انیس کلمات ۱؎ اور اقامت کے سترہ کلمات سکھائے۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم اذان کے سلسلے میں اسی طرف گئے ہیں،۳- ابومحذورہ سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ اقامت اکہری کہتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : یہ انیس کلمات ترجیع کے ساتھ ہوتے ہیں، یہ حدیث اذان میں ترجیع کے مسنون ہو نے پر نص صریح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب مَا جَاءَ فِي إِفْرَادِ الإِقَامَةِ
۲۹- باب: اقامت اکہری کہنے کا بیان​


193-حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ، وَيُوتِرَ الإِقَامَةَ.
وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَالتَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: خ/الأذان ۱ (۶۰۳)، و۲ (۶۰۵)، و۳ (۶۰۶)، م/الصلاۃ ۲ (۳۷۸)، ن/الصلاۃ ۲۹ (۵۰۸)، ن/الأذان ۲ (۶۲۸)، ق/الأذان ۶ (۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۴۳)، حم (۳/۱۰۳، ۱۸۹)، دي/الصلاۃ ۶ (۱۲۳۰، ۱۲۳۱) (صحیح)
۱۹۳- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیاگیاتھا کہ وہ اذان دہری اور اقامت اکہری کہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔ ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی قول ہے، اور مالک ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الإِقَامَةَ مَثْنَى مَثْنَى
۳۰- باب: اقامت دہری کہنے کا بیان​


194-حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كَانَ أَذَانُ رَسُولِ اللهِ ﷺ شَفْعًا شَفْعًا فِي الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ زَيْدٍ رَوَاهُ وَكِيعٌ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى أَنَّ عَبْدَاللهِ بْنَ زَيْدٍ رَأَى الأَذَانَ فِي الْمَنَامِ. و قَالَ شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ أَنَّ عَبْدَاللهِ بْنَ زَيْدٍ رَأَى الأَذَانَ فِي الْمَنَامِ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى. وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِاللهِ بْنِ زَيْدٍ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الأَذَانُ مَثْنَى مَثْنَى، وَالإِقَامَةُ مَثْنَى مَثْنَى. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: ابْنُ أَبِي لَيْلَى هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى كَانَ قَاضِيَ الْكُوفَةِ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ شَيْئًا، إِلاَّ أَنَّهُ يَرْوِي عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِيهِ۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۱۱) (ضعیف الإسناد)
(عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ کا سماع عبداللہ بن زیدسے نہیں ہے)
۱۹۴- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں اذان اوراقامت دونوں دہری ہوتی تھیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن زید کی حدیث کو وکیع نے بطریق '' الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى '' روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان (کا واقعہ) دیکھا، اور شعبہ نے بطریق ''عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى '' یہ روایت کی ہے کہ محمدرسول ﷺ کے اصحاب نے ہم سے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان (کاواقعہ)دیکھا، ۲- یہ ابن ابی لیلیٰ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے عبداللہ بن زید سے نہیں سنا ہے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اذان اور اقامت دونوں دہری ہیں یہی سفیان ثوری ، ابن مبارک اور اہل کو فہ کا قول ہے، ۴- ابن ابی لیلیٰ سے مراد محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ہیں۔ وہ کوفہ کے قاضی تھے، انہوں نے اپنے والد سے نہیں سناہے البتہ وہ ایک شخص سے روایت کرتے ہیں اوروہ ان کے والدسے ۔
وضاحت ۱؎ : مولف کا مقصدیہ ہے کہ : عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث تین طرق سے آئی ہے ، ایک یہی بطریق ''ابن ابی لیلیٰ ، عن عمروبن مرۃ، عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن عبداللہ''دوسرے بطریق ''الاعمش عن عمروبن مرۃ، عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ، عن عبداللہ ''تیسرے بطریق : شعبۃ عن عمرو بن مرۃ عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن اصحاب محمدﷺاوربقول مؤلف آخرالذکر تیسرا طریق زیادہ صحیح ہے، (کیونکہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا عبداللہ بن زیدسے سماع نہیں ہے)اوراس کا مضمون (نیز دوسرے کا مضمون بھی)پہلے سے الگ ہے ، یعنی صرف خواب دیکھنے کا بیان ہے اوربس۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّرَسُّلِ فِي الأَذَانِ
۳۱- باب: اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کے کہنے کا بیان​


195- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُنْعِمِ، هُوَ صَاحِبُ السِّقَائِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ وَعَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ لِبِلاَلٍ:"يَا بِلاَلُ! إِذَا أَذَّنْتَ فَتَرَسَّلْ فِي أَذَانِكَ، وَإِذَا أَقَمْتَ فَاحْدُرْ، وَاجْعَلْ بَيْنَ أَذَانِكَ وَإِقَامَتِكَ قَدْرَ مَا يَفْرُغُ الآكِلُ مِنْ أَكْلِهِ، وَالشَّارِبُ مِنْ شُرْبِهِ، وَالْمُعْتَصِرُ إِذَا دَخَلَ لِقَضَائِ حَاجَتِهِ، وَلاَتَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي"۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۲۲۲ و۲۴۹۳) (ضعیف جداً)
(سند میں عبدالمنعم متروک ہے)
۱۹۵- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: '' بلال! جب تم اذان دو تو ٹھہر ٹھہرکر دو اور جب اقامت کہوتوجلدی جلدی کہو، اور اپنی اذان واقامت کے درمیان اس قدر وقفہ رکھو کہ کھانے پینے والا اپنے کھانے پینے سے اور پاخانہ پیشاب کی حاجت محسوس کرنے والا اپنی حاجت سے فارغ ہوجائے اور اس وقت تک (اقامت کہنے کے لیے) کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔


196- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمُنْعِمِ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ عَبْدِالْمُنْعِمِ، وَهُوَ إِسْنَادٌ مَجْهُولٌ. وَعَبْدُ الْمُنْعِمِ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف جداً)
۱۹۶- اس سند سے بھی عبدالمنعم سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے یعنی عبدالمنعم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور یہ مجہول سند ہے، عبدالمنعم بصرہ کے شیخ ہیں۔ (یعنی ضعیف راوی ہیں)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَا جَاءَ فِي إِدْخَالِ الإِصْبَعِ فِي الأُذُنِ عِنْدَ الأَذَانِ
۳۲- باب: اذان کے وقت شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرنے کا بیان​


197- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ، وَيُتْبِعُ فَاهُ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، وَإِصْبَعَاهُ فِي أُذُنَيْهِ، وَرَسُولُ اللهِ ﷺ فِي قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَائَ، أُرَاهُ قَالَ: مِنْ أَدَمٍ، فَخَرَجَ بِلاَلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ بِالْعَنَزَةِ فَرَكَزَهَا بِالْبَطْحَائِ، فَصَلَّى إِلَيْهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ، يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ، وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَائُ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَرِيقِ سَاقَيْهِ، قَالَ سُفْيَانُ: نُرَاهُ حِبَرَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُدْخِلَ الْمُؤَذِّنُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فِي الأَذَانِ. وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: وَفِي الإِقَامَةِ أَيْضًا يُدْخِلُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ. وَهُوَ قَوْلُ الأَوْزَاعِيِّ. وَأَبُو جُحَيْفَةَ - اسْمُهُ وَهْبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ السُّوَائِيُّ -.
* تخريج: م/الصلاۃ ۴۷ (۵۰۳)، د/الصلاۃ ۳۴ (۵۲۰)، ن/الأذان ۱۳ (۶۴۴)، والزینۃ ۲۳ (۵۳۸۰)، ق/الأذان ۳ (۷۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۶)، حم (۴/۳۰۸)، دي/الصلاۃ ۸ (۱۲۳۴)، (وراجع أیضا ماعند خ/الأذان ۱۵ (۶۳۴) (صحیح)
۱۹۷- ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے بلال کو اذان دیتے دیکھا، وہ گھوم رہے تھے ۱؎ اپناچہرہ ادھر اور ادھرپھیررہے تھے اور ان کی انگلیاں ان کے دونوں کانوں میں تھیں ،رسول اللہﷺ اپنے سرخ خیمے میں تھے ، وہ چمڑے کاتھا، بلال آپ کے سامنے سے نیزہ لے کر نکلے اور اسے بطحاء (میدان) میں گاڑ دیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھائی۔ اس نیزے کے آگے سے ۲؎ کتے اور گدھے گزر رہے تھے۔آپ ایک سرخ چادر پہنے ہوئے تھے ، میں گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہاہوں۔ سفیان کہتے ہیں: ہمارا خیال ہے وہ چادر یمنی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوجحیفہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اس چیزکو مستحب سمجھتے ہیں کہ موذن اذان میں اپنی دو نوں انگلیاں اپنے کانوں میں داخل کرے،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اقامت میں بھی اپنی دونوں انگلیاں دونوں کانوں میں داخل کرے گا، یہی اوزاعی کا قول ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قیس بن ربیع کی روایت میں جو عون ہی سے مروی ہے یوں ہے''فلما بلغ حي على الصلاة حي على الفلاح لوّي عنقه يمينا وشمالا ولم يستدر'' (یعنی: بلال جب''حي الصلاة حي على الفلاح''پرپہنچے تو اپنی گردن دائیں بائیں گھمائی اورخودنہیں گھومے)دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ جنہوں نے گھومنے کا اثبات کیا ہے انہوں نے اس سے مرادسرکاگھومنا لیا ہے اور جنہوں نے اس کی نفی کی ہے انہوں نے پورے جسم کے گھومنے کی نفی کی ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی نیزہ اور قبلہ کے درمیان سے نہ کہ آپ کے اور نیز ے کے درمیان سے کیونکہ عمربن ابی زائدہ کی روایت میں ''ورأيت الناس والدواب يمرون بين يدي العنزة''ہے،(میں نے دیکھا کہ لوگ اورجانورنیزہ کے آگے سے گزررہے تھے)۔
وضاحت۳؎ : اس پرسنت سے کوئی دلیل نہیں،رہااسے اذان پرقیاس کرناتویہ قیاس مع الفارق ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّثْوِيبِ فِي الْفَجْرِ
۳۳- باب: فجرمیں تثویب کا بیان​


198- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ بِلاَلٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَتُثَوِّبَنَّ فِي شَيْئٍ مِنْ الصَّلَوَاتِ إِلاَّ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مَحْذُورَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بِلاَلٍ لاَنَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْرَائِيلَ الْمُلاَئِيِّ. وَأَبُوإِسْرَائِيلَ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ قَالَ: إِنَّمَا رَوَاهُ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ. وَأَبُو إِسْرَائِيلَ اسْمُهُ - إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ - وَلَيْسَ هُوَ بِذَاكَ الْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَفْسِيرِ التَّثْوِيبِ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: التَّثْوِيبُ أَنْ يَقُولَ فِي أَذَانِ الْفَجْرِ: الصَّلاَةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ. و قَالَ إِسْحَاقُ فِي التَّثْوِيبِ غَيْرَ هَذَا، قَالَ: التَّثْوِيبُ الْمَكْرُوهُ، هُوَ شَيْئٌ أَحْدَثَهُ النَّاسُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ، إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ فَاسْتَبْطَأَ الْقَوْمَ قَالَ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ: قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ، حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلاَحِ. قَالَ: وَهَذَا الَّذِي قَالَ إِسْحَاقُ: هُوَ التَّثْوِيبُ الَّذِي قَدْ كَرِهَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ، وَالَّذِي أَحْدَثُوهُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ. وَالَّذِي فَسَّرَ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ: أَنَّ التَّثْوِيبَ أَنْ يَقُولَ الْمُؤَذِّنُ فِي أَذَانِ الْفَجْرِ: الصَّلاَةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ. وَهُوَ قَوْلٌ صَحِيحٌ، وَيُقَالُ لَهُ التَّثْوِيبُ أَيْضًا. وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَرَأَوْهُ. وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ: الصَّلاَةُ خَيْرٌ مِنْ النَّوْمِ. وَرُوِيَ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ مَسْجِدًا، وَقَدْ أُذِّنَ فِيهِ، وَنَحْنُ نُرِيدُ أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِ، فَثَوَّبَ الْمُؤَذِّنُ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَقَالَ: اخْرُجْ بِنَا مِنْ عِنْدِ هَذَا الْمُبْتَدِعِ وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ. قَالَ: وَإِنَّمَا كَرِهَ عَبْدُاللهِ التَّثْوِيبَ الَّذِي أَحْدَثَهُ النَّاسُ بَعْدُ.
* تخريج: ق/الأذان ۳ (۷۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۴۲)، حم (۶/۱۴، ۱۵) (ضعیف)
(عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا سماع بلال رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ، نیز ابواسرائیل ملائی کو وہم ہوجایاکرتاتھااس لیے کبھی کہتے ہیں کہ حدیث میں نے حکم بن عتیبہ سے سنی ہے ، اورکبھی کہتے ہیں کہ حسن بن عمارۃ کے واسطہ سے حکم سے سنی ہے)
۱۹۸- بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' فجرکے سوا کسی بھی صلاۃ میں تثویب ۱؎ نہ کرو ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ہم صرف ابواسرائیل ملائی کی سند سے جانتے ہیں۔ اور ابواسرائیل نے یہ حدیث حکم بن عتیبہ سے نہیں سنی ۔ بلکہ انہوں نے اسے حسن بن عمارہ سے اورحسن نے حکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے، ۳- ابواسرائیل کا نام اسماعیل بن ابی اسحاق ہے ، اور وہ اہل الحدیث کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں،۴- اہل علم کا تثویب کی تفسیر کے سلسلے میں اختلاف ہے؛ بعض کہتے ہیں: تثویب فجر کی اذان میں ''الصلاة خير من النوم''(صلاۃ نیند سے بہتر ہے) کہنے کانام ہے ابن مبارک اور احمد کا یہی قول ہے،اسحاق کہتے ہیں: تثویب اس کے علاوہ ہے، تثویب مکروہ ہے، یہ ایسی چیز ہے جسے لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے بعد ایجاد کی ہے، جب موذن اذان دیتا اور لوگ تاخیر کرتے تو وہ اذان اور اقامت کے درمیان : '' قد قامت الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح'' کہتا،۴- اور جو اسحاق بن راہویہ نے کہاہے دراصل یہی وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے ناپسند کیاہے اور اسی کو لوگوں نے نبی اکرمﷺ کے بعد ایجاد کیاہے، ابن مبارک اور احمد کی جوتفسیر ہے کہ تثویب یہ ہے کہ مؤذن فجر کی اذان میں :''الصلاة خير من النوم''کہے تویہ کہنا صحیح ہے، اسے بھی تثویب کہاجاتاہے اور یہ وہ تثویب ہے جسے اہل علم نے پسند کیا اور درست جانا ہے،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ فجرمیں ''الصلاة خير من النوم''کہتے تھے، اور مجاہد سے مروی ہے کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک مسجد میں داخل ہواجس میں اذان دی جاچکی تھی۔ ہم اس میں صلاۃ پڑھنا چاہ رہے تھے۔ اتنے میں موذن نے تثویب کی، تو عبداللہ بن عمر مسجد سے باہر نکلے اورکہا : اس بدعتی کے پاس سے ہمارے ساتھ نکل چلو، اور اس مسجدمیں انہوں نے صلاۃ نہیں پڑھی ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس تثویب کوجسے لوگوں نے بعد میں ایجاد کرلیاتھاناپسندکیا۔
وضاحت ۱؎ : یہاں تثویب سے مرادفجرکی اذان میں''الصلاة خير من النوم''کہناہے۔
 
Top