• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ
۳۴- باب: جو اذان دے وہی اقامت کہے​


199- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أُؤَذِّنَ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ، فَأَذَّنْتُ، فَأَرَادَ بِلاَلٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ أَخَا صُدَائٍ قَدْ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ زِيَادٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الأَفْرِيقِيِّ. وَالأَفْرِيقِيُّ هُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ، قَالَ أَحْمَدُ: لاَ أَكْتُبُ حَدِيثَ الأَفْرِيقِيِّ. قَالَ: وَرَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُقَوِّي أَمْرَهُ، وَيَقُولُ: هُوَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ مَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ.
* تخريج: د/الصلاۃ۳۰(۵۱۴) ق/الأذان۳(۷۱۷) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۵۳) حم (۴/۱۶۹) (ضعیف)
(سند میں عبدالرحمن بن انعم افریقی ضعیف ہیں)
۱۹۹- زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے فجرکی اذان دینے کا حکم دیا تو میں نے اذان دی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنی چاہی تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' قبیلہ صداء کے ایک شخص نے اذان دی ہے اور جس نے اذان دی ہے وہی اقامت کہے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- زیاد رضی اللہ عنہ کی روایت کو ہم صرف افریقی کی سند سے جانتے ہیں اور افریقی محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ یحیی بن سعید قطان وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔ احمد کہتے ہیں: میں افریقی کی حدیث نہیں لکھتا، لیکن میں نے محمد بن اسماعیل کو دیکھا وہ ان کے معاملے کوقوی قراردے رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ یہ مقارب الحدیث ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ جو اذان دے وہی اقامت کہے ۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث ضعیف ہے ، اس لیے اس کی بناپرمساجدمیں جھگڑے مناسب نہیں، اگرصحیح بھی ہوتوزیادہ سے زیادہ مستحب کہہ سکتے ہیں، اورمستحب کے لیے مسلمانوں میں جھگڑے زیبانہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الأَذَانِ بِغَيْرِ وُضُوئٍ
۳۵- باب: بغیر وضوکے اذان دینے کی کراہت کا بیان​


200- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى الصَّدَفِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لاَ يُؤَذِّنُ إِلاَّ مُتَوَضِّئٌ"۔
* تخريج: تفرد المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۰۳) (ضعیف)
(سندمیں معاویہ بن یحیی صدفی ضعیف ہیں، نیزسند میں زہری اورابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے)
۲۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اذان وہی دے جو باوضو ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بہتر یہی ہے کہ اذان باوضوہی دی جائے اور باب کی حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن وائل اور ابن عباس کی احادیث اس کی شاہد ہیں۔


201- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لاَ يُنَادِي بِالصَّلاَةِ إِلاَّ مُتَوَضِّئٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَمْ يَرْفَعْهُ ابْنُ وَهْبٍ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ. وَالزُّهْرِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الأَذَانِ عَلَى غَيْرِ وُضُوئٍ: فَكَرِهَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَإِسْحَاقُ. وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۲۰۱- ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے کہا: صلاۃ کے لیے وہی اذان دے جو باوضو ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ابن وہب نے مرفوع روایت نہیں کیا، یہ ۱؎ ولید بن مسلم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۳- زہری نے ابوہریرہ سے نہیں سناہے، ۴- بغیر وضو کے اذان دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض نے اسے مکروہ کہاہے اوریہی شافعی اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے، اور بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں رخصت دی ہے، اوراسی کے قائل سفیان ثوری ، ابن مبارک اور احمد ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عبداللہ بن وہب کی موقوف روایت جسے انہوں نے بطریق '' يو نس عن الزهري، عن أبي هريرة موقوفاً '' روایت کی ہے، پہلی روایت ( جو مرفوع ہے) کے مقابلہ میں ارجح ہے اور اس کا ضعف کم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الإِمَامَ أَحَقُّ بِالإِقَامَةِ
۳۶- باب: امام کا اقامت (تکبیر)کا حق زیادہ ہے​


202- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، أَخْبَرَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ: كَانَ مُؤَذِّنُ رَسُولِ اللهِ ﷺ يُمْهِلُ فَلاَ يُقِيمُ، حَتَّى إِذَا رَأَى رَسُولَ اللهِ ﷺ قَدْ خَرَجَ أَقَامَ الصَّلاَةَ حِينَ يَرَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَهَكَذَا قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنَّ الْمُؤَذِّنَ أَمْلَكُ بِالأَذَانِ، وَالإِمَامُ أَمْلَكُ بِالإِقَامَةِ.
* تخريج: م/المساجد ۲۹ (۶۰۶)، د/الصلاۃ ۴۴ (۵۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۳۷)، حم (۵/۷۶، ۸۷، ۹۱، ۹۵، ۱۰۴، ۱۰۵) (صحیح)
۲۰۲- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا مؤذن دیر کرتا اور اقامت نہیں کہتا تھایہاں تک کہ جب وہ رسول اللہﷺ کو دیکھ لیتاکہ آپ نکل چکے ہیں تب وہ اقامت کہتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اورہم اسرائیل کی حدیث کوجسے انہوں نے سماک سے روایت کی ہے ، صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- اسی طرح بعض اہل علم نے کہاہے کہ مؤ ذن کو اذان کا زیادہ اختیار ہے ۱؎ اور امام کو اقامت کا زیادہ اختیار ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ مؤذن کو اذان کے وقت کا محافظ بنایا گیا ہے اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اذان کو مؤخرکرنے یا اسے مقدم کرنے پراسے مجبورکرے۔
وضاحت ۲؎ : اس لیے اس کے اشارہ یا اجازت کے بغیرتکبیرنہیں کہنی چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ فِي الأَذَانِ بِاللَّيْلِ
۳۷- باب: رات ہی میں اذان دے دینے کا بیان​


203- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَأُنَيْسَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الأَذَانِ بِاللَّيْلِ: فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ بِاللَّيْلِ أَجْزَأَهُ وَلاَ يُعِيدُ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَذَّنَ بِلَيْلٍ أَعَادَ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ بِلاَلاً أَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ ﷺ أَنْ يُنَادِيَ: إِنَّ الْعَبْدَ نَامََ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ". وَرَوَى عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ عَنْ نَافِعٍ: أَنَّ مُؤَذِّنًا لِعُمَرَ أَذَّنَ بِلَيْلٍ، فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يُعِيدَ الأَذَانَ. وَهَذَا لاَ يَصِحُّ أَيْضًا، لأَنَّهُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عُمَرَ: مُنْقَطِعٌ. وَلَعَلَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ أَرَادَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَالصَّحِيحُ رِوَايَةُ عُبَيْدِ اللهِ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَالزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَوْ كَانَ حَدِيثُ حَمَّادٍ صَحِيحًا لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى، إِذْ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ" فَإِنَّمَا أَمَرَهُمْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُ، و قَالَ:"إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ" وَلَوْ أَنَّهُ أَمَرَهُ بِإِعَادَةِ الأَذَانِ حِينَ أَذَّنَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ: لَمْ يَقُلْ:"إِنَّ بِلاَلاً يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ". قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَأَخْطَأَ فِيهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۲ (۶۲۰)، والصوم ۱۷ (۱۹۱۸)، والشہادات ۱۱ (۲۶۵۶)، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۴۸)، م/الصوم ۸ (۱۰۹۲)، ن/الأذان ۹ (۸۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۹۰۹)، ط/الصلاۃ ۳ (۱۴)، حم (۲/۹، ۵۷، ۱۲۳)، دي/الصلاۃ ۴ (۱۲۲۶) (صحیح)
۲۰۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں ، لہذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن مسعود ، عائشہ ، انیسہ ، انس ، ابوذر اور سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۳- رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہوتبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں،مالک ، ابن مبارک ، شافعی ،احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دے دے تو اسے دہرائے ۱؎ ،یہی سفیان ثوری کہتے ہیں، ۴- حماد بن سلمہ نے بطریق ایوب عن نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے رات ہی میں اذان دے دی ، تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکارکرکہہ دیں کہ بندہ سوگیاتھا۔ یہ حدیث غیرمحفوظ ہے،صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' بلال رات ہی میں ا ذان د ے د یتے ہیں ، لہذا تم کھاتے پیتے رہو،جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں،اور عبدالعزیز بن ابی روّاد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی توعمرنے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے،یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اورعمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور شاید حماد بن سلمہ ،کی مرادیہی حدیث ۲؎ ہو، صحیح عبیداللہ بن عمردوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے ، اورنافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اورسالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بلا ل رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، ۵- ـ اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کاکوئی معنی نہ ہوتا، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں ، آپ نے لوگوں کوآنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں'' اور اگر آپ طلوع فجرسے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ '' بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں''، علی بن مدینی کہتے ہیں: حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے، اورایوب نے نافع سے، اورنافع نے ابن عمر سے اور عمرنے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے، حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اوریہی راجح ہے ، کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی، نیز آپﷺنے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا، بلکہ صلاۃ فجر کے لیے بلال اذان دیاکرتے ۔
وضاحت ۲؎ : شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظرعمروالایہی اثررہاہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہو نے کا وہم ہوگیا ہو، گویا انہیں یوں کہنا چاہئے کہ عمرکے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمرنے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا، لیکن وہ وہم کے شکارہوگئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکارکرکہہ دیں کہ بندہ سوگیاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْخُرُوجِ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الأَذَانِ
۳۸- باب: اذان کے بعد مسجد سے باہر نکلنے کی کراہت کا بیان​


204- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَائِ، قَالَ: خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ مَا أُذِّنَ فِيهِ بِالْعَصْرِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ عَصَى أَبَا الْقَاسِمِ ﷺ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَعَلَى هَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: أَنْ لاَ يَخْرُجَ أَحَدٌ مِنْ الْمَسْجِدِ بَعْدَ الأَذَانِ إِلاَّ مِنْ عُذْرٍ: أَنْ يَكُونَ عَلَى غَيْرِ وُضُوئٍ، أَوْ أَمْرٍ لاَ بُدَّ مِنْهُ. وَيُرْوَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: يَخْرُجُ مَا لَمْ يَأْخُذِ الْمُؤَذِّنُ فِي الإِقَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا عِنْدَنَا لِمَنْ لَهُ عُذْرٌ فِي الْخُرُوجِ مِنْهُ. وَأَبُو الشَّعْثَائِ اسْمُهُ سُلَيْمُ بْنُ أَسْوَدَ، وَهُوَ وَالِدُ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَائِ. وَقَدْ رَوَى أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَائِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِيهِ.
* تخريج: م/المساجد ۳۵ (۶۵۵)، د/الصلاۃ ۴۳ (۵۳۶)، ن/الأذان ۴۰ (۶۸۵)، ق/الأذان ۷ (۷۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۷۷)، حم (۲/۴۱۰، ۴۱۶، ۴۱۷، ۵۰۶، ۵۳۷)، دي/الصلاۃ ۱۲ (۱۲۴۱) (حسن صحیح)
۲۰۴- ابوالشعثاء سُلیم بن اسود کہتے ہیں کہ ایک شخص عصرکی اذان ہو چکنے کے بعدمسجد سے نکلا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رہا یہ تواس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی روایت حسن صحیح ہے، ۲-اس باب میں عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث ہے، ۳-صحابہ کرام اوران کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ اذان ہوجانے کے بعد بغیرکسی عذرکے مثلاً بے وضو ہو یا کوئی ناگزیرضرورت آپڑی ہو جس کے بغیرچارہ نہ ہو کوئی مسجد سے نہ نکلے ۱؎ ، ۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب تک مؤذن اقامت شروع نہیں کرتاوہ باہر نکل سکتاہے، ۵- ہمارے نزدیک یہ اس شخص کے لیے ہے جس کے پاس نکلنے کے لیے کوئی عذر موجود ہو۔
وضاحت ۱؎ : ایک عذریہ بھی ہے کہ آدمی کسی دوسری مسجد کا امام ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39-بَاب مَا جَاءَ فِي الأَذَانِ فِي السَّفَرِ
۳۹- باب: سفر میں اذان کا بیان​


205- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ أَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِي، فَقَالَ لَنَا: إِذَا سَافَرْتُمَا فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا، وَلْيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، اخْتَارُوا الأَذَانَ فِي السَّفَرِ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: تُجْزِئُ الإِقَامَةُ، إِنَّمَا الأَذَانُ عَلَى مَنْ يُرِيدُ أَنْ يَجْمَعَ النَّاسَ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۷ (۶۲۸)، و۳۵ (۶۵۸)، و۴۹ (۶۸۵)، و۱۴۰ (۸۱۹)، والجہاد ۴۲ (۲۸۴۸)، وألادب ۲۷ (۲۰۰۸)، وأخبار الآحاد ۱ (۷۲۴۶)، م/المساجد ۵۳ (۶۷۲)، د/الصلاۃ ۶۱ (۵۸۹)، ن/الأذان ۷ (۶۳۵)، و۸ (۶۳۶)، و۲۹ (۶۷۰)، والإمامۃ ۴ (۷۸۲)، ق/الإقامۃ ۴۶ (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۸۲)، حم (۳/۴۳۶)، و(۵/۵۳)، دي/الصلاۃ ۴۲ (۱۲۸۸) (صحیح)
۲۰۵- مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور میرے چچا زاد بھائی دونوں رسول اللہﷺ کے پاس آئے توآپ نے ہم سے فرمایا: جب تم دونوں سفر میں ہو تو اذان دو اور اقامت کہو۔ اور امامت وہ کرے جوتم دونوں میں بڑا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کاعمل اسی پر ہے، ان لوگوں نے سفر میں اذان کو پسندکیاہے، اوربعض کہتے ہیں: اقامت کافی ہے، اذان تو اس کے لیے ہے جس کا ارادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ہو۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے اوریہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الأَذَانِ
۴۰- باب: اذان کی فضیلت کا بیان​


206- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"مَنْ أَذَّنَ سَبْعَ سِنِينَ مُحْتَسِبًا كُتِبَتْ لَهُ بَرَائَةٌ مِنْ النَّارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَثَوْبَانَ، وَمُعَاوِيَةَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَأَبُو تُمَيْلَةَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ. وَأَبُوحَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَيْمُونٍ. وَجَابِرُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ ضَعَّفُوهُ، تَرَكَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ. قَالَ أَبُوعِيسَى: سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَوْلاَ جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ حَدِيثٍ، وَلَوْلاَ حَمَّادٌ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ فِقْهٍ.
* تخريج: ق/الأذان ۵ (۷۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۶۳۸۱) (ضعیف)
(سند میں ''جابرجعفی''ضعیف متروک الحدیث راوی ہے)
۲۰۶ - عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جس نے سات سال تک ثواب کی نیت سے اذان دی اس کے لیے جہنم کی آگ سے نجات لکھ دی جائے گی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث غریب ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود ، ثوبان، معاویہ ، انس ، ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳ - اورجابر بن یزید جعفی کی لوگوں نے تضعیف کی ہے، یحیی بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی نے انہیں متروک قراردیا ہے، ۴- اگر جابر جعفی نہ ہوتے ۱؎ تو اہل کوفہ بغیر حدیث کے ہوتے ، اور اگر حماد نہ ہوتے تو اہل کوفہ بغیر فقہ کے ہوتے۔
وضاحت ۱؎ : اس کے باوجودباعتراف امام ابوحنیفہ جابر جعفی جھوٹا راوی ہے، امام ابوحنیفہ کی ہررائے پر ایک حدیث گھڑلیا کرتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الإِمَامَ ضَامِنٌ وَالْمُؤَذِّنَ مُؤْتَمَنٌ
۴۱- باب: امام ضامن اور مؤ ذن امین ہے​


207- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"الإِمَامُ ضَامِنٌ، وَالْمُؤَذِّنُ مُؤْتَمَنٌ، اللّهُمَّ أَرْشِدِ الأَئِمَّةَ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِينَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ الأَعْمَشِ قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى نَافِعُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت أَبَا زُرْعَةَ يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَائِشَةَ أَصَحُّ. وَذَكَرَ عَنْ عَلِيِّ ابْنِ الْمَدِينِيِّ أَنَّهُ لَمْ يُثْبِتْ حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلاَ حَدِيثَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ عَائِشَةَ فِي هَذَا.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۲ (۵۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۸۳)، حم (۲/۲۳۲، ۲۸۴، ۳۷۸، ۳۸۴، ۴۱۹، ۴۲۴، ۴۶۱، ۴۷۲، ۵۱۴) (صحیح)
۲۰۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' امام ضامن ہے ۱؎ اور مؤ ذن امین ۲؎ ہے، اے اللہ! توا ماموں کو راہ راست پر رکھ ۳؎ اور مؤ ذنوں کی مغفرت فرما '' ۴؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عائشہ، سہل بن سعد اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲-مولف نے حدیث کے طرق اورپہلی سند کی متابعت ذکرکرنے اورابوصالح کی عائشہ سے روایت کے بعدفرمایا: میں نے ابوزرعہ کو کہتے سناکہ ابوصالح کی ابوہریرہ سے مروی حدیث ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ نیز میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث زیادہ صحیح ہے اوربخاری، علی بن مدینی کہتے ہیں کہ ابوصالح کی حدیث ابوہریرہ سے مروی حدیث ثابت نہیں ہے اورنہ ہی ابوصالح کی عائشہ سے مروی حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی امام مقتدیوں کی صلاۃ کا نگراں اور محافظ ہے، کیونکہ مقتدیوں کی صلاۃ کی صحت امام کی صلاۃ کی صحت پر موقوف ہے، اس لیے اسے آداب طہارت اورآداب صلاۃ کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی لوگ اس کی اذان پر اعتماد کرکے صلاۃپڑھتے اور صوم رکھتے ہیں، اس لیے اسے وقت کا خیال رکھنا چاہئے، نہ پہلے اذان دے اور نہ دیر کرے۔
وضاحت ۳؎ : یعنی جو ذمہ داری انہوں نے اٹھارکھی ہے اس کا شعوررکھنے اور اس سے عہدہ برآہونے کی توفیق دے۔
وضاحت ۴؎ : یعنی اس امانت کی ادائیگی میں ان سے جو کوتاہی ہواسے بخش دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب مَا جَاءَ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ
۴۲- باب: مؤذن کی اذان کے جواب میں آدمی کیا کہے؟​


208- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، ح قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا سَمِعْتُمْ النِّدَائَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ " ۱؎ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَعَائِشَةَ، وَمُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، وَمُعَاوِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ مِثْلَ حَدِيثِ مَالِكٍ. وَرَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/الأذان ۷ (۶۱۱)، م/الصلاۃ ۷ (۳۸۳)، د/الصلاۃ ۳۶ (۵۲۲)، ن/الأذان ۳۳ (۶۷۴)، ق/الأذان ۴ (۷۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۱۵۰)، ط/الصلاۃ ۱ (۲)، حم (۳/۶، ۵۳، ۷۸)، دي/الصلاۃ ۱۰ (۱۲۳۴) (صحیح)
۲۰۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتاہے''۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - ابوسعید رضی اللہ عنہ والی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابورافع ،ا بوہریرہ ،ام حبیبہ ، عبداللہ بن عمرو، عبداللہ بن ربیعہ، عائشہ، معاذبن انس اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- معمر اور کئی رواۃ نے زہری سے مالک کی حدیث کے مثل روایت کی ہے، عبدالرحمن بن اسحاق نے اس حدیث کو بطریق: ''الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ '' روایت کیا ہے، مالک والی روایت سب سے صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں جس کی تخریج مسلم نے کی ہے ''سوى الحيعلتين فيقول لا حول ولا قوة إلا بالله'' (یعنی: ''حي على الصلاة اور حي على الفلاح ''کے علاوہ، ان پر''لا حول ولا قوة إلا بالله ''کہے) کے الفاظ وارد ہیں جس سے معلوم ہوا کہ''حي على الصلاة اور حي على الفلاح '' کے کلمات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان دونوں کلموں کے جواب میں سننے والا لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَأْخُذَ الْمُؤَذِّنُ عَلَى الأَذَانِ أَجْرًا
۴۳- باب: اذان کی اجرت لینے کی کراہت کا بیان​


209- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ- وَهُوَ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ - عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ قَالَ: إِنَّ مِنْ آخِرِ مَا عَهِدَ إِلَيَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ اتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لاَ يَأْخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، كَرِهُوا أَنْ يَأْخُذَ الْمُؤَذِّنُ عَلَى الأَذَانِ أَجْرًا، وَاسْتَحَبُّوا لِلْمُؤَذِّنِ أَنْ يَحْتَسِبَ فِي أَذَانِهِ۔
* تخريج: م/الصلاۃ ۳۷ (۴۶۸)، د/الصلاۃ ۴۰ (۵۳۱)، ن/الأذان ۳۲ (۶۷۳)، ق/الأذان ۳ (۷۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۶۳، وکذا ۹۷۷۰)، حم (۴/۲۱۷) (صحیح)
۲۰۹- عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہﷺ نے مجھے یہ کی کہ ''مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اہل علم کے نزدیک عمل اسی پر ہے، انہوں نے مکروہ جاناہے کہ موذن اذان پراجرت لے اور مستحب قراردیا ہے کہ مؤذن اذان اجر وثواب کی نیت سے دے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ جب ہے جب محلے میں ایسے افراد ہوں جو یہ کام اجروثواب کی نیت سے کرسکیں، مگرجہاں ایسے حالات نہ ہوں وہاں اجرت پرمؤذن رکھنے کی مجبوری ہے ، اوراس زمانہ میں زیادہ ترمحلوں میں حالات ایسے ہی ہیں ، نیز آج کل مساجدمیں مؤذن صرف اذان کے لیے ہی نہیں رکھے جاتے بلکہ مسجدکی دیگرخدمات بھی انجام دیتے ہیں ، چونکہ وقت وہ پورا وقت دیتے ہیں اس لیے آج کل جو مؤذنین کو اجرت دی جاتی ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
 
Top