- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى النِّسَائِ
۹-باب: عورتوں کو سلام کرنا
2697- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ؛ أَنَّهُ سَمِعَ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَسْمَائَ بِنْتَ يَزِيدَ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا وَعُصْبَةٌ مِنَ النِّسَائِ قُعُودٌ، فَأَلْوَى بِيَدِهِ بِالتَّسْلِيمِ، وَأَشَارَ عَبْدُالْحَمِيدِ بِيَدِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لاَ بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِالْحَمِيدِ ابْنِ بَهْرَامَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ شَهْرٌ حَسَنُ الْحَدِيثِ وَقَوَّى أَمْرَهُ و قَالَ إِنَّمَا تَكَلَّمَ فِيهِ ابْنُ عَوْنٍ ثُمَّ رَوَى عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ أَنْبَأَنَا أَبُو دَاوُدَ الْمَصَاحِفِيُّ بَلْخِيٌّ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ إِنَّ شَهْرًا نَزَكُوهُ قَالَ أَبُودَاوُدَ قَالَ النَّضْرُ نَزَكُوهُ أَيْ طَعَنُوا فِيهِ وَإِنَّمَا طَعَنُوا فِيهِ لأَنَّهُ وَلِيَ أَمْرَ السُّلْطَانِ.
* تخريج: د/الأدب ۱۴۸ (۵۲۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۶۶) (صحیح)
ٔ ۲۶۹۷- اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں گزرے وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، چنانچہ آپ نے انہیں اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- عبدالحمید (راوی) نے بھی پتے ہاتھ سے اشارہ کیا( کہ اس طرح)، ۳-احمد بن حنبل کہتے ہیں : شہر بن حوشب کے واسطہ سے عبدالحمید بن بہرام کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے، ۴-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: شہرحسن الحدیث ہیں اور ان کوروایت حدیث میں قوی بخاری کہتے ہیں: ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیا ہے۔ ا بن عون کہتے ہیں: ''إن شهرا نزكوه'' کے واسطہ سے کہا: شہر کی شخصیت کو محدثین نے داغ دار بتایا ہے۔ ابوداود کہتے ہیں کہ نضر کہتے ہیں ''نزكوه'' کا مطلب یہ ہے کہ ''طعنوا فيه'' یعنی ان کی شخصیت کو داغ دار بتایاہے، اور لوگوں نے ان پرجرح اس لیے کی ہے کہ وہ سلطان (حکومت) کے ملازم بن گئے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ جہاں فتنے کاخوف نہ ہو وہاں مرد اور عورتوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنا جائز ہے، مثلا عورتوں کی جماعت ہو یا کوئی بوڑھی عورت ہو، کیوں کہ ان دونوں صورتوں میں فتنے کا اندیشہ نہیں ہے، البتہ مرد کا کسی جوان عورت کو سلام کرنا جب کہ وہ تنہاہو اسی طرح تنہا جوان عورت کا کسی مرد کو سلام کرنا صحیح نہیں ، کیوں کہ یہ دونوں صورتیں فتنے سے خالی نہیں ہیں۔