• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى النِّسَائِ
۹-باب: عورتوں کو سلام کرنا​


2697- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُالْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ؛ أَنَّهُ سَمِعَ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَسْمَائَ بِنْتَ يَزِيدَ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَرَّ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمًا وَعُصْبَةٌ مِنَ النِّسَائِ قُعُودٌ، فَأَلْوَى بِيَدِهِ بِالتَّسْلِيمِ، وَأَشَارَ عَبْدُالْحَمِيدِ بِيَدِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لاَ بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِالْحَمِيدِ ابْنِ بَهْرَامَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ شَهْرٌ حَسَنُ الْحَدِيثِ وَقَوَّى أَمْرَهُ و قَالَ إِنَّمَا تَكَلَّمَ فِيهِ ابْنُ عَوْنٍ ثُمَّ رَوَى عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ أَنْبَأَنَا أَبُو دَاوُدَ الْمَصَاحِفِيُّ بَلْخِيٌّ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ إِنَّ شَهْرًا نَزَكُوهُ قَالَ أَبُودَاوُدَ قَالَ النَّضْرُ نَزَكُوهُ أَيْ طَعَنُوا فِيهِ وَإِنَّمَا طَعَنُوا فِيهِ لأَنَّهُ وَلِيَ أَمْرَ السُّلْطَانِ.
* تخريج: د/الأدب ۱۴۸ (۵۲۰۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۶۶) (صحیح)
ٔ ۲۶۹۷- اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں گزرے وہاں عورتوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی، چنانچہ آپ نے انہیں اپنے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- عبدالحمید (راوی) نے بھی پتے ہاتھ سے اشارہ کیا( کہ اس طرح)، ۳-احمد بن حنبل کہتے ہیں : شہر بن حوشب کے واسطہ سے عبدالحمید بن بہرام کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے، ۴-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: شہرحسن الحدیث ہیں اور ان کوروایت حدیث میں قوی بخاری کہتے ہیں: ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیا ہے۔ ا بن عون کہتے ہیں: ''إن شهرا نزكوه'' کے واسطہ سے کہا: شہر کی شخصیت کو محدثین نے داغ دار بتایا ہے۔ ابوداود کہتے ہیں کہ نضر کہتے ہیں ''نزكوه'' کا مطلب یہ ہے کہ ''طعنوا فيه'' یعنی ان کی شخصیت کو داغ دار بتایاہے، اور لوگوں نے ان پرجرح اس لیے کی ہے کہ وہ سلطان (حکومت) کے ملازم بن گئے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ جہاں فتنے کاخوف نہ ہو وہاں مرد اور عورتوں کا ایک دوسرے کو سلام کرنا جائز ہے، مثلا عورتوں کی جماعت ہو یا کوئی بوڑھی عورت ہو، کیوں کہ ان دونوں صورتوں میں فتنے کا اندیشہ نہیں ہے، البتہ مرد کا کسی جوان عورت کو سلام کرنا جب کہ وہ تنہاہو اسی طرح تنہا جوان عورت کا کسی مرد کو سلام کرنا صحیح نہیں ، کیوں کہ یہ دونوں صورتیں فتنے سے خالی نہیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ
۱۰-باب: اپنے گھر میں داخل ہوتوسلام کرے​


2698- حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ الْبَصْرِيُّ الأَنْصَارِيُّ مُسْلِمُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا بُنَيَّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُنْ بَرَكَةً عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۶۵) (ضعیف)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں)
۲۶۹۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا:'' بیٹے! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو انہیں سلام کیا کرو، یہ سلام تمہار ے لیے اور تمہارے گھروالوں کے لیے خیر وبرکت کا باعث ہوگا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ سلام گھر میں خیروبرکت کی کثرت کاسب سے بہترین نسخہ ہے، بہت افسوس ہے ایسے لوگوں پر جو سلام جیسی چیز کو چھوڑ کر خود بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی خیروبرکت اور سلامتی سے محروم رکھتے ہیں، ہوسکتاہے ایسے لوگ اپنے بیوی بچوں کو سلام کرنے میں اپنی سبکی محسوس کرتے ہوں، اس لیے گھر میں آتے جاتے سلام ضرور کرنا چاہیے تاکہ سلام کی خیر وبرکت سے محروم نہ رہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ فِي السَّلامِ قَبْلَ الْكَلامِ
۱۱-باب: بات چیت سے پہلے سلام کرنے کابیان​


2699- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ بَغْدَادِيٌّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "السَّلامُ قَبْلَ الْكَلامِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۰۷۴) (حسن) (سندمیں محمد بن زاذان اور عنبسہ بن عبد الرحمن دونوں ضعیف راوی ہیں،لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، الصحیحۃ ۸۱۶)
2699/م- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَتَدْعُوا أَحَدًا إِلَى الطَّعَامِ حَتَّى يُسَلِّمَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ ذَاهِبٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ زَاذَانَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ.
* تخريج: (موضوع ) (ضعیف الجامع ۳۳۷۳، ۳۳۷۴، الضعیفۃ ۱۷۳۶)
۲۶۹۹- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بات چیت شروع کرنے سے پہلے سلام کیاکرو''۔ اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے یہ بھی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:'' کسی کو کھانے پر نہ بلاؤ جب تک کہ وہ سلام نہ کرلے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث منکر ہے ہم اس حدیث کو اس سند کے سوا کسی اور سند سے نہیں جانتے،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سناہے کہ عنبسہ بن عبدالرحمن حدیث بیان کرنے میں ضعیف اور بہکنے والے، اور محمد بن زاذان منکرالحدیث ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ
۱۲-باب: ذمیوں سے سلام کابیان​


2700- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لاَ تَبْدَئُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلاَمِ، وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۶۰۲ (صحیح)
۲۷۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' یہود ونصاریٰ کوسلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تمہاری ان کے کسی فرد سے راستے میں ملاقات ہوجائے تو اسے تنگ راستے سے ہی جانے پر مجبور کرو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہود ونصاری اور غیر مسلموں کو مجبور کیا جائے کہ بھیڑ والے راستوں میں کناروں پر چلیں، اورمسلمان درمیان میں چلیں تاکہ ان کی شوکت و حشمت کا اظہار ہو۔اوراس طرح سے ان کوسلام اورمسلمانوں کے بارے میں مزید غوروفکرکاموقع ملے، شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کا دل عزت وغلبہ والے دین کے لیے کھول دے۔


2701- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ؛ قَالَتْ: إِنَّ رَهْطًا مِنَ الْيَهُودِ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "عَلَيْكُمْ" فَقَالَتْ عَائِشَةُ: بَلْ عَلَيْكُمْ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الأَمْرِ كُلِّهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا: قَالَ: قَدْ قُلْتُ: عَلَيْكُمْ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الستتابۃ المرتدین ۴ (۶۹۲۷)، م/السلام ۴ (۲۱۶۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۳۷)، وحم (۶/۱۹۹) (صحیح)
۲۷۰۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہا: ''السّام عليك'' (تم پر موت و ہلاکت آئے)، نبی اکرم ﷺ نے جواب میں فرمایا:''عليكم '' ۱؎ ، عائشہ نے (اس پر دولفظ بڑھاکر) کہا ''بل عليكم السام واللعنة'' (بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو)۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق ، نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتاہے''، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا آپ نے سنانہیں؟ انہوں نے کیا کہا ہے؟ ۔ آپ نے فرمایا:'' تبھی تو میں نے ''عليكم '' کہاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبصرہ غفاری، ابن عمر ، انس اور ابوعبدالرحمن جہنی سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : گویا آپ نے '' علیکم'' کہہ کر یہود کی بددعا خود انہیں پر لوٹادی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي السَّلاَمِ عَلَى مَجْلِسٍ فِيهِ الْمُسْلِمُونَ وَغَيْرُهُمْ
۱۳-باب: ایسی مجلس پر سلام جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہوں​


2702- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِمَجْلِسٍ وَفِيهِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْيَهُودِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر آل عمران ۱۵ (۴۵۶۶)، والمرضی ۱۵ (۵۶۶۳)، والأدب ۱۱۵ (۶۲۰۷)، والاستئذان ۲۰ (۶۲۵۴)، م/الجھاد ۴۰ (۱۷۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹)، وحم (۵/۲۰۳) (کلہم سوی المؤلف في سیاق طویل فیہ قصۃ) (صحیح)
۲۷۰۲- اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم ﷺ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اوریہوددونوں تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ ایسی مجلس جس میں مسلمان اور کافردونوں موجود ہوں ، اس میں مسلمانوں کو اپنا مخاطب سمجھ کر انہیں السلام علیکم کہنا چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ فِي تَسْلِيمِ الرَّاكِبِ عَلَى الْمَاشِي
۱۴-باب: سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے​


2703- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ"، وَزَادَ ابْنُ الْمُثَنَّى فِي حَدِيثِهِ، "وَيُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَ قَالَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ: إِنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۴ (۶۲۳۱)، و۵ (۶۲۳۲)، و۶ (۶۲۳۳)، و۷ (۶۲۳۴)، م/السلام ۱ (۹۲۱۶۰، د/الأدب ۱۴۵ (۵۱۹۸)، ۵۱۹۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۵۱)، وحم (۲/۳۲۵، ۵۱۰) (صحیح)
۲۷۰۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو ، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو (یعنی چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے''۔
اور ابن مثنی نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے:'' چھوٹا اپنے بڑے کوسلام کرے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ابوہریرہ سے متعدد سندوں سے مروی ہے،۲- ایوب سختیانی ،یونس بن عبید اور علی بن یزید کہتے ہیں کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے،۳- اس باب میں عبدالرحمن بن شبل ، فضالہ بن عبید اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ سلام کرنے میں حدیث میں جو طریقہ اور صورت مذکور ہے اس کا اعتبار ہوگا نہ کہ رتبے اور درجے کا،ا گر صورت میں اتفاق ہو گا مثلا دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں تو ایسی صورت میں سلام کرتے وقت چھوٹے اور بڑے کا لحاظ ہوگا۔


2704- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ". قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۶۷۹) (صحیح)
۲۷۰۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' چھوٹا بڑے کو، چلنے والابیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کوسلام کریں''۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2705- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ أَنْبَأَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ أَخْبَرَنِي أَبُوهَانِئٍ اسْمُهُ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ الْخَوْلانِيُّ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْجَنْبِيِّ، عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "يُسَلِّمُ الْفَارِسُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَائِمِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو عَلِيٍّ الْجَنْبِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۲۷ (۳۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۳۴)، ودي/الاستئذان ۶ (۲۶۷۶) (صحیح)
۲۷۰۵- فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سوار پیدل چلنے والے کواورچلنے والا کھڑے ہوئے شخص کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کوسلام کریں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ عِنْدَ الْقِيَامِ وَعِنْدَ الْقُعُودِ
۱۵-باب: مجلس میں بیٹھتے اوراس سے اٹھتے وقت سلام کرنا​


2706- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى مَجْلِسٍ فَلْيُسَلِّمْ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الآخِرَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُريِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: د/الأدب ۱۵۰ (۵۲۰۸)، ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۳۱ (۳۶۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۳۸)، وحم (۲/۲۳۰، ۲۸۷، ۴۳۹) (حسن صحیح)
۲۷۰۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس میں پہنچے تو سلام کرے ، پھراگر اس کا دل بیٹھنے کو چاہے تو بیٹھ جائے۔ پھر جب اٹھ کر جانے لگے توسلام کرے۔ پہلا (سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ ضروری نہیں ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- یہ حدیث ابن عجلان سے بھی آئی ہے، ابن عجلان نے بسند سعید المقبری عن أبیہ عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دونوں سلام کی یکساں اہمیت و ضرورت ہے، جیسے مجلس میں شریک ہوتے وقت سلام کرے ایسے ہی مجلس سے رخصت ہوتے وقت بھی سب کو سلامتی کی دعا دیتا ہوا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَا جَاءَ فِي الاسْتِئْذَانِ قُبَالَةَ الْبَيْتِ
۱۶-باب: گھرکے (دروازے ) کے سامنے کھڑے ہوکر اجازت مانگنے کابیان​


2707- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ كَشَفَ سِتْرًا فَأَدْخَلَ بَصَرَهُ فِي الْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ فَرَأَى عَوْرَةَ أَهْلِهِ فَقَدْ أَتَى حَدًّا لا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ لَوْ أَنَّهُ حِينَ أَدْخَلَ بَصَرَهُ اسْتَقْبَلَهُ رَجُلٌ فَفَقَأَ عَيْنَيْهِ مَا عَيَّرْتُ عَلَيْهِ، وَإِنْ مَرَّ الرَّجُلُ عَلَى بَابٍ لاسِتْرَ لَهُ غَيْرِ مُغْلَقٍ فَنَظَرَ فَلا خَطِيئَةَ عَلَيْهِ إِنَّمَا الْخَطِيئَةُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ وَأَبُو عَبْدِالرَّحْمَنِ الْحُبُلِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۶۰)، وحم (۵/۱۸۱) (صحیح) (تراجع الالبانی / ۱)
۲۷۰۷- ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (گھر میں داخل ہونے کی) اجازت ملنے سے پہلے ہی جس نے (دروازے کا) پردہ کھسکا کر کسی کے گھر کے اندر جھانکا ، اور گھر والے کی بیوی کی پردہ دری کی تو اس نے ایک ایسا کام کیا جس کا کرنا اس کے لیے حلال نہ تھا،جس وقت اس نے اپنی نگاہ اندر ڈالی تھی کاش اس وقت اس کا سامنا کسی ایسے شخص سے ہوجاتا جو اس کی دونوں آنکھیں پھوڑدیتا تو میں اس پر اسے خوں بہانہ دیتا۔ اور اگر کوئی شخص ایسے دروازے کے سامنے سے گزرا جس پرکوئی پردہ پڑاہوا نہیں ہے اوردروازہ بندبھی نہیں ہے پھر اس کی نظر اٹھ گئی تو اس کی کچھ خطا نہیں۔ غلطی وکوتاہی تو گھروالے کی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس طرح کی حدیث صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۳- اس باب میں ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَنِ اطَّلَعَ فِي دَارِ قَوْمٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِمْ
۱۷-باب: کسی کے گھر میں بغیر اجازت جھانکناکیساہے؟​


2708- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي بَيْتِهِ فَاطَّلَعَ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَأَهْوَى إِلَيْهِ بِمِشْقَصٍ فَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۱ (۶۲۴۲)، والدیات ۱۵ (۶۸۸۰)، و ۲۳ (۶۹۰۰)، م/الآداب ۹ (۲۱۵۷)، د/الأدب ۱۳۶ (۵۱۷۱)، ن/القسامۃ ۴۶ (۴۸۶۲) (تحفۃ الأشراف: ۷۲۱)، وحم (۳/۱۰۸، ۱۴۰، ۲۳۹، ۲۴۲) (صحیح)
۲۷۰۸- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے گھر میں تھے(اسی دوران) ایک شخص نے آپ کے گھر میں جھانکا، آپﷺ تیر کا پھل لے کر لپکے ( کہ اس کی آنکھیں پھوڑدیں) لیکن وہ فوراً پیچھے ہٹ گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2709- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ؛ أَنَّ رَجُلا اطَّلَعَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ جُحْرٍ فِي حُجْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ، وَمَعَ النَّبِيِّ ﷺ مِدْرَاةٌ يَحُكُّ بِهَا رَأْسَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ تَنْظُرُ لَطَعَنْتُ بِهَا فِي عَيْنِكَ إِنَّمَا جُعِلَ الاسْتِئْذَانُ مِنْ أَجْلِ الْبَصَرِ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/اللباس ۷۵ (۵۹۲۴)، والاستئذان ۱۱ (۶۲۴۱)، والدیات ۲۳ (۶۹۰۱)، م/الآداب ۹ (۲۱۵۶)، ن/القسامۃ ۴۶ (۴۸۶۳) (تحفۃ الأشراف: ۴۸۰۶)، وحم (۵/۳۳۰، ۳۳۵) (صحیح)
۲۷۰۹- سہل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے حجرے میں ایک سوراخ سے جھانکا (اس وقت ) نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ اپنا سر کھجارہے تھے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''اگر مجھے (پہلے سے) معلوم ہوتا کہ تو جھانک رہاہے تو میں اسے تیری آنکھ میں کونچ دیتا( تجھے پتانہیں) اجازت مانگنے کا حکم تودیکھنے کے سبب ہی سے ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ اجازت مانگنے سے پہلے کسی کے گھر میں جھانکنا اور ادھر ادھر نظر دوڑانا منع ہے، یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی اجازت طلب کئے بغیر داخل ہونا منع ہے، اگر اجازت طلب کرنا ضروری نہ ہوتاتو بہت سوں کی پردہ دری ہوتی اور نامحرم عورتوں پر بھی نظر پڑتی ، یہی وہ قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْلِيمِ قَبْلَ الاسْتِئْذَانِ
۱۸-باب: گھرمیں داخلہ کی اجازت لینے سے پہلے سلام کرنا (کیساہے؟)​


2710- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّ كَلَدَةَ بْنَ حَنْبَلٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ بَعَثَهُ بِلَبَنٍ وَلِبَإٍ وَضَغَابِيسَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ وَالنَّبِيُّ ﷺ بِأَعْلَى الْوَادِي قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، وَلَمْ أُسَلِّمْ، وَلَمْ أَسْتَأْذِنْ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "ارْجِعْ فَقُلْ: السَّلامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ صَفْوَانُ". قَالَ عَمْرٌو: وَأَخْبَرَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ أُمَيَّةُ بْنُ صَفْوَانَ، وَلَمْ يَقُلْ سَمِعْتُهُ مِنْ كَلَدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ وَرَوَاهُ أَبُوعَاصِمٍ أَيْضًا عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ مِثْلَ هَذَا.
* تخريج: د/الأدب ۱۳۷ (۵۱۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۶۷)، وحم (۳/۴۱۴) (صحیح)
۲۷۱۰- کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صفوان بن امیہ نے انہیں دودھ ، پیوسی اور ککڑی کے ٹکڑے دے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس بھیجا اور آپ اس وقت مکہ کے اونچائی والے حصہ میں تھے ، میں آپ کے پاس اجازت لیے اور سلام کئے بغیر چلاگیاتوآپﷺ نے فرمایا:'' واپس باہر جاؤ ۔ پھر کہو '' السلام علیکم '' ۔ کیا میں اندر آسکتاہوں؟'' یہ اس وقت کی بات ہے جب صفوان اسلام لاچکے تھے۔عمروبن عبداللہ کہتے ہیں: یہ حدیث امیہ بن صفوان نے مجھ سے بیان کی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں کہاکہ یہ حدیث میں نے کلدہ سے سنی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- اسے ہم صرف ابن جریج کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ۳- ابوعاصم نے بھی ابن جریج سے اسی طرح روایت کی ہے۔


2711- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي دَيْنٍ كَانَ عَلَى أَبِي؛ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقُلْتُ: أَنَا فَقَالَ: أَنَا أَنَا كَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الاستئذان ۱۷ (۶۲۵۰)، م/الآداب ۸ (۲۱۵۵)، د/الأدب ۱۳۹ (۵۱۸۷)، ق/الأدب ۱۷ (۳۷۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۰۴۲)، وحم (۳/۲۹۸)، ودي/الاستئذان ۲ (۲۶۷۲) (صحیح)
۲۷۱۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے ایک قرض کے سلسلے میں جو میرے والد کے ذمہ تھا کچھ بات کرنے کے لیے آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا: '' کون ہے؟''۔ میں نے کہا : میں ہوں، آپ نے فرمایا:'' میں میں (کیاہے؟) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ اجازت طلب کرتے وقت اگر گھر والے یہ جاننا چاہیں کہ آنے والا کون ہے تو '' میں'' کہنے کے بجائے اپنا نام اور اگر کنیت سے مشہور ہے تو کنیت بتلائے۔
 
Top