18-بَاب وَمِنْ سُورَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ
۱۸-باب: سورہ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر
3130- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "حِينَ أُسْرِيَ بِي لَقِيتُ مُوسَى قَالَ: فَنَعَتَهُ فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ قَالَ: مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوئَةَ، قَالَ: وَلَقِيتُ عِيسَى -قَالَ فَنَعَتَهُ- قَالَ: رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ -يَعْنِي الْحَمَّامَ- وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ قَالَ: وَأُتِيتُ بِإِنَائَيْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنٌ وَالآخَرُ خَمْرٌ فَقِيلَ لِي: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ؛ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ؛ فَشَرِبْتُهُ فَقِيلَ لِي: هُدِيتَ لِلْفِطْرَةِ، أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۲۴ (۳۳۹۴)، و ۴۹ (۳۴۱۳)، وتفسیر الإسراء ۳ (۴۷۰۹)، والأشربۃ ۱ (۵۵۷۶)، و۱۲ (۵۶۰۳)، م/الإیمان ۷۴ (۱۶۸)، ن/الأشربۃ ۴۱ (۵۶۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۷۰)، وحم (۲/۵۱۲) (صحیح)
۳۱۳۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:'' ( معراج کی رات) جب مجھے آسمان پرلے جایاگیا تو میری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام ) سے ہوئی، آپ نے ان کا حلیہ بتایا اور میرا گمان یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: ''موسیٰ لمبے قد والے تھے: ہلکے پھلکے روغن آمیز سر کے بال تھے، شنوء ۃ قوم کے لوگوں میں سے لگتے تھے ، آپ نے فرمایا: ''میری ملاقات عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوئی، آپ نے ان کا بھی وصف بیان کیا، فرمایا:'' عیسیٰ درمیانے قد کے سرخ (سفید) رنگ کے تھے، ایسا لگتا تھا گویا ابھی دیماس (غسل خانہ) سے نہا دھوکر نکل کر آرہے ہوں، میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا، میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہہ ہوں''،آپﷺنے فرمایا: ''میرے پاس دوبرتن لائے گئے، ایک دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرے میں شراب تھی''۔ مجھ سے کہاگیا: جسے چاہو لے لو، تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور دودھ پی گیا، مجھ سے کہاگیا: آپ کو فطرت کی طرف رہنمائی مل گئی، یا آپ نے فطرت سے ہم آہنگ اور درست قدم اٹھایا، اگرآپ نے شراب کا برتن لے لیاہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تباہی وبربادی کا شکار ہوتی اس لیے کہ شراب کا خاصہ ہی یہی ہے۔(مولف نے ان احادیث کو''اسراء اورمعراج ''کی مناسبت کی وجہ سے ذکرکیاجن کا بیان اس باب کے شروع میں ہے)
3131- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا؛ فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ؛ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ، قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۱) (صحیح الإسناد)
۳۱۳۱- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:جس رات آپ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایاگیا۔ براق لگام لگایا ہواتھااور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرئیل علیہ السلام نے اسے یہ کہہ کر جھڑ کا : تو محمدﷺ کے ساتھ ایسا کررہاہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہواہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہوگیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے ، ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
3132- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ جُنَادَةَ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ جِبْرِيلُ بِإِصْبَعِهِ؛ فَخَرَقَ بِهِ الْحَجَرَ وَشَدَّ بِهِ الْبُرَاقَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۷۵) (صحیح)
(تراجع الالبانی۳۵، السراج المنیر ۴۱۲۰)
۳۱۳۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' (معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرئیل علیہ السلام نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کردیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
3133- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَّى اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ؛ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَفِي الْبَاب عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۴۱ (۳۸۸۶)، وتفسیر الإسراء ۲ (۴۷۱۰)، م/الإیمان ۷۵ (۱۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۱۵۱)، وحم (۳/۳۷۷) (صحیح)
۳۱۳۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب قریش نے مجھے (معراج کے سفر کے بارے میں) جھٹلادیاکہ میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا اور اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہرکردیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی نشانیاں (پہچان) بتانے لگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں مالک بن صعصعہ ابوسعید ، ابن عباس ،ابوذر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
3134- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ}[الإسراء: 60] قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا النَّبِيُّ ﷺ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ. قَالَ: {وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ}[الإسراء: 60] هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۴۲ (۳۸۸۸)، وتفسیر الإسراء (۴۷۱۶)، والقدر ۱۰ (۶۶۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۷) (صحیح)
۳۱۳۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ:
{ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ} ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۲؎ انہوں نے یہ بھی کہا
( وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ) میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء ومعراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل:۶۰)
وضاحت ۲؎ : یعنی خواب میں سیر نہیں ،بلکہ حقیقی وجسمانی معراج تھی۔
3135- حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ قُرَشِيٌّ كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا}[الإسراء: 78] قَالَ: تَشْهَدُهُ مَلائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةُ النَّهَارِ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الصلاۃ ۲ (۶۷۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۳۲) (صحیح)
3135/م- وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۴۴) (صحیح)
۳۱۳۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آیت
{وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} ۱؎ کے متعلق فرمایا : اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سب حاضر (وموجود ) ہوتے ہیں'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۱۳۵/م- اس سندسے اعمش نے ابوصالح سے اورابوصالح نے ابوہریرہ اور ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے ایسی ہی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صبح کو قرآن پڑھا کرو کیوں کہ صبح قرآن پڑھنے کاوقت فرشتوں کے حاضر ہونے کا ہوتا ہے(بنی اسرئیل:۷۸)
3136- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ}[الإسراء: 71] قَالَ: "يُدْعَى أَحَدُهُمْ؛ فَيُعْطَى كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ، وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا، وَيُبَيَّضُ وَجْهُهُ، وَيُجْعَلُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَتَلألأُ؛ فَيَنْطَلِقُ إِلَى أَصْحَابِهِ؛ فَيَرَوْنَهُ مِنْ بَعِيدٍ فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ ائْتِنَا بِهَذَا وَبَارِكْ لَنَا فِي هَذَا حَتَّى يَأْتِيَهُمْ فَيَقُولُ أَبْشِرُوا لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلُ هَذَا قَالَ: وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُسَوَّدُ وَجْهُهُ، وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا عَلَى صُورَةِ آدَمَ؛ فَيُلْبَسُ تَاجًا فَيَرَاهُ أَصْحَابُهُ فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا اللَّهُمَّ لاَ تَأْتِنَا بِهَذَا قَالَ: فَيَأْتِيهِمْ فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ أَخْزِهِ؛ فَيَقُولُ أَبْعَدَكُمُ اللَّهُ فَإِنَّ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلَ هَذَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۶۱۶) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں عبد الرحمن ابن ابی کریمہ والد سدی مجہول الحال راوی ہے)
۳۱۳۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول
{ يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ } ۱؎ کے بارے میں فرمایا:'' ان میں سے جوکوئی (جنتی شخص) بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور اس کا جسم بڑھا کرساٹھ گزکا کردیا جائے گا، اس کا چہرہ چمکتا ہوا ہو گا اس کے سرپرموتیوں کا جھلملا تا ہوا تاج رکھاجائے گا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جائے گا، اسے لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے: اے اللہ ! ایسی ہی نعمتوں سے ہمیں بھی نواز، اور ہمیں بھی ان میں برکت عطاکر، وہ ان کے پاس پہنچ کر کہے گا : تم سب خوش ہوجاؤ۔ ہرشخص کو ایسا ہی ملے گا، لیکن کافر کا معاملہ کیاہوگا؟کا فر کا چہرہ کالا کردیاجائے گا، اور اس کا جسم ساٹھ گزکا کردیاجائے گا جیساکہ آدم علیہ السلام کا تھا، اسے تاج پہنایا جائے گا۔ اس کے ساتھی اسے دیکھیں گے تو کہیں گے اس کے شر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں ایسا تاج نہ دے، کہتے ہیں: پھر وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا وہ لوگ کہیں گے: اے اللہ ! اسے ذلیل کر ، وہ کہے گا: اللہ تمہیں ہم سے دورہی رکھے ، کیوں کہ تم میں سے ہر ایک کے لیے ایسا ہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- سدی کانام اسماعیل بن عبدالرحمن ہے۔
وضاحت ۱؎ : جس دن ہم ہر انسان کو اس کے امام (اگوا وپیشوا) کے ساتھ بلائیں گے(بنی اسرائیل:۷۱)۔
3137- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي قَوْلِهِ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} سُئِلَ عَنْهَا قَالَ هِيَ الشَّفَاعَةُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ دَاوُدُ الأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۸۴۸)، وحم (۲/۴۴۱، ۴۴۴، ۵۲۸) (صحیح)
(سندمیں داود ضعیف اور ان کے باپ یزید عبد الرحمن الأودی الزعافری لین الحدیث راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم : ۲۳۶۹، ۲۳۷۰)
۳۱۳۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے آیت:
{عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} ۱؎ کے بارے میں پوچھے جانے پر فرمایا:'' اس سے مراد شفاعت ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲-اور داود زغافری :داود اود بن یزید بن عبداللہ اودی ہیں، اور یہ عبداللہ بن ادریس کے چچا ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عنقریب آپ کا رب آپ کومقام محمودمیں کھڑاکرے گا(بنی اسرائیل :۷۹)
3138- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلاَثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَطْعَنُهَا بِمِخْصَرَةٍ فِي يَدِهِ، وَرُبَّمَا قَالَ بِعُودٍ، وَيَقُولُ: {جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا}[الإسراء: 81] {جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ}[سبأ: 49]. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
* تخريج: خ/المظالم ۳۲ (۲۴۷۸)، والمغازي ۴۹ (۴۲۸۷)، وتفسیر الإسراء ۱۱ (۴۷۲۰)، م/الجھاد ۳۲ (۱۷۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۹۳۳۴) (صحیح)
۳۱۳۸- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سوساٹھ بت نصب تھے ، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہاکہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے
{جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا} ۱؎
{ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ} ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس باب میں ابن عمر سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : حق آگیا باطل مٹ گیا باطل کومٹنااورختم ہونا ہی تھا ۔(بنی اسرائیل :۸۱)۔
وضاحت ۲؎ : حق غالب آگیا ہے، اب باطل نہ ابھرسکے گا اورنہ ہی لوٹ کرآئے گا۔(سبا:۴۹)۔
3139- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ بِمَكَّةَ ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ: {وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا} [الإسراء: 80]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۰۵) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں قابوس لین الحدیث ہیں)
۳۱۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مکہ میں تھے،پھرآپ کو ہجرت کا حکم ملا، اسی موقع پر آیت:
{وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا } ۱؎ نازل ہوئی ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : دعاکر، اے میرے رب! مجھے اچھی جگہ پہنچا اور مجھے اچھی طرح نکال، اور اپنی طرف سے مجھے قوی مددگار مہیا فرما (بنی اسرائیل:۸۰)۔
3140- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَهُودَ: أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ هَذَا الرَّجُلَ فَقَالَ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ قَالَ: فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا} قَالُوا أُوتِينَا عِلْمًا كَثِيرًا أُوتِينَا التَّوْرَاةَ، وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا فَأُنْزِلَتْ: {قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ} [الكهف: 85] إِلَى آخِرِ الآيَةَ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۶۰۸۳) (صحیح)
۳۱۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: قریش نے یہود سے کہاکہ ہمیں کوئی ایسا سوال دوجسے ہم اس شخص (یعنی محمد ﷺ ) سے پوچھیں ، انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیاہے؟) اس پر اللہ نے آیت
{وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا} ۱؎ ، انہوں نے کہا : ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں تو راۃ ملی ہے، اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی، اس پر آیت
{لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ}نازل ہوئی ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو ! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑاعلم دیاگیاہے(بنی اسرائیل:۸۵)
وضاحت ۲؎ : کہہ دیجیے: اگرمیرے رب کی باتیں ، کلمے ، معلومات ومقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہوجائے (مگرمیرے رب کی حمدوثناء ختم نہ ہو) (الکہف :۱۰۹)۔
3141- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ؛ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ سَأَلْتُمُوهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَتَسْأَلُوهُ؛ فَإِنَّهُ يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ؛ فَقَالُوا لَهُ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! حَدِّثْنَا عَنْ الرُّوحِ؛ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ سَاعَةً، وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَائِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ، ثُمَّ قَالَ: {الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا} [الإسراء:85].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/العلم ۴۷ (۱۲۵)، وتفسیر الإسراء ۱۲ (۴۷۲۱)، والإعتصام ۴ (۷۲۹۷)، والتوحید ۲۸ (۷۴۵۶)، و ۲۹ (۷۴۶۲)، م/المنافقین ۴ (۲۷۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۱۹) (صحیح)
۳۱۴۱- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نبی اکرمﷺکے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہاتھا ۔ آپ (کبھی کبھی) کھجور کی ایک ٹہنی کاسہارا لے لیاکرتے تھے، پھرآپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے (چہ میگوئی کی) کہا :کاش ان سے کچھ پوچھتے، بعض نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، کیوں کہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا(مگر وہ نہ مانے) کہا: ابوالقاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے، (یہ سوال سن کر ) آپ کچھ دیر (خاموش ) کھڑے رہے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے، چنانچہ وحی آہی گئی، پھر آپ نے بتایا : روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3142- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلاثَةَ أَصْنَافٍ صِنْفًا مُشَاةً، وَصِنْفًا رُكْبَانًا، وَصِنْفًا عَلَى وُجُوهِهِمْ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ يَمْشُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ؟ قَالَ: "إِنَّ الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَى أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَمَا إِنَّهُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى وُهَيْبٌ، عَنْ ابْن طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۳) (ضعیف)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں)
۳۱۴۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن لوگ تین طرح سے جمع کئے جائیں گے، ایک گروہ چل کر آئے گا ،اور ایک گروہ سوار ہوکر آئے گا اور ایک گروہ اپنے منہ کے بل آئے گا۔ پوچھا گیا : اللہ کے رسول! وہ لوگ اپنے منہ کے بل کیسے چلیں گے؟ آپ نے فرمایا:'' جس نے انہیں قدموں سے چلایاہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں ان کے منہ کے بل چلادے، سنو(یہی نہیں ہو گا کہ وہ چلیں گے بلکہ) وہ منہ ہی سے ہر بلندی (نشیب وفراز) اور کانٹے سے بچ کرچلیں گے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- وہیب نے ابن طاؤس سے اور انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف یہ حدیث ارشادباری تعالیٰ
{ وَنَحْشُرُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى وُجُوهِهِمْ}( الإسراء:97)۔
3143- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالا وَرُكْبَانًا وَتُجَرُّونَ عَلَى وُجُوهِكُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۲۴ (حسن)
۳۱۴۳- معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم (قیامت میں) جمع کئے جاؤگے: کچھ لوگ پیدل ہوں گے، کچھ لوگ سواری پر، اور کچھ لوگ اپنے منہ کے بل گھسیٹ کر اکٹھا کئے جائیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
3144- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُوالْوَلِيدِ، وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ أَنَّ يَهُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُهُ؛ فَقَالَ: لا تَقُلْ نَبِيٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَهَا تَقُولُ نَبِيٌّ كَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ؛ فَأَتَيَا النَّبِيَّ ﷺ فَسَأَلاهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ} [الإسراء: 101]، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلا تَزْنُوا، وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ، وَلا تَسْرِقُوا، وَلا تَسْحَرُوا، وَلا تَمْشُوا بِبَرِيئٍ إِلَى سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَهُ، وَلا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلاتَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلا تَفِرُّوا مِنْ الزَّحْفِ -شَكَّ شُعْبَةُ-، وَعَلَيْكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ خَاصَّةً لا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ"، فَقَبَّلا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ وَقَالا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: "فَمَا يَمْنَعُكُمَا أَنْ تُسْلِمَا؟" قَالا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللَّهَ أَنْ لايَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ، وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۷۳۳ ، ق/الأدب ۱۶ (۳۷۰۵)، والنسائی فی الکبری فی السیر (۸۶۵۶) وفی المحاربۃ (۳۵۴۱) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۵۱) وقد أخرجہ: حم (۴/۲۳۹) (ضعیف)
(سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں ،لیکن حافظہ میں تبدیلی آگئی تھی )
۳۱۴۴- صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چارآنکھیں ہوجائیں گی۔ پھروہ دونوں نبی اکرمﷺکے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ } ۱؎ کے بارے میں پوچھاکہ وہ نونشانیاں کیاتھیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، زنانہ کرو، ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو،کسی بَری (بے گناہ) شخص کو (مجرم بناکر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کردے، سود نہ کھاؤ، کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو۔شعبہ کو شک ہوگیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ با ت ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی(الٹ پھیر) نہ کرو، (یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اورکہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں ۔ آپ نے فرمایا:'' پھرتمہیں اسلام قبول کرلینے سے کیاچیز روک رہی ہے؟ دونوں نے جواب دیا داود(علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہو گا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈرہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کردیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : ہم نے موسیٰ کو نونشانیاں دیں(اسرائیل:۱۰۱)۔
3145- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُشَيْمٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَلاَتَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ قَالَ: نَزَلَتْ بِمَكَّةَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ سَبَّهُ الْمُشْرِكُونَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ} فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ وَلا تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِكَ بِأَنْ تُسْمِعَهُمْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر الإسراء ۱۴ (۴۷۲۲)، والتوحید ۱۳۴ (۷۴۹۰)، و ۴۴ (۷۵۲۵)، و ۵۲ (۷۵۴۷)، م/الصلاۃ ۳۱ (۴۴۶)، ن/الإفتتاح ۸۰ (۱۰۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۵۴۵۱)، وحم (۱/۲۳، ۲۱۵) (صحیح)
۳۱۴۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ:
{ وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ } ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ ﷺ جب بلندآواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اورجس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے
{ وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ}نازل کرکے صلاۃ میں قرآن بلندآوازسے پڑھنے سے منع فرمادیا تاکہ وہ قرآن ، اللہ تعالیٰ اور جبرئیل علیہ السلام کوگالیاں نہ دیں اور آگے
{وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا} نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی نہ پڑھو کہ آپ کے ساتھی سن نہ سکیں بلکہ یہ ہے کہ وہ آپ سے قرآن سیکھیں( بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اپنی صلاۃ بلندآوازسے نہ پڑھو(بنی اسرائیل :۱۱۰)۔
3146- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ: {وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا} [الإسراء: 110] قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ؛ فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ؛ فَكَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا سَمِعُوهُ شَتَمُوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ: {وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ} أَيْ بِقِرَائَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ، {وَلا تُخَافِتْ بِهَا} عَنْ أَصْحَابِكَ،{وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا} [الإسراء: 110].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۱۴۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ:
{وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلاً} ۱؎ کے بارے میں کہتے ہیں: یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں چھپے چھپے رہتے تھے، جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ صلاۃ پڑھتے تھے تو قرآن بلندآوازسے پڑھتے تھے، مشرکین جب سن لیتے تو قرآن ، قرآن نازل کرنے والے اور قرآن لانے والے سب کو گالیاں دیتے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺسے کہا:
{وَلاَتَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ} بلند آواز سے صلاۃ نہ پڑھو (یعنی بلند آواز سے قرأت نہ کرو) کہ جسے سن کر مشرکین قرآن کو گالیاں دینے لگیں اور نہ دھیمی آواز سے پڑھو( کہ تمہارے صحابہ سن نہ سکیں) بلکہ درمیان کاراستہ اختیار کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صلاۃ میں آواز بہت بلند نہ کیجئے اورنہ ہی بہت پست بلکہ دونوں کے درمیان کاراستہ اختیار کیجئے (الاسراء:۱۱۰)
3147- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ: أَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ: لاَ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ذَاكَ يَا أَصْلَعُ بِمَ تَقُولُ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: بِالْقُرْآنِ بَيْنِي وَبَيْنَكَ الْقُرْآنُ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: مَنْ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ؛ فَقَدْ أَفْلَحَ. قَالَ سُفْيَانُ: يَقُولُ: فَقَدْ احْتَجَّ، وَرُبَّمَا قَالَ: قَدْ اَفَلَحَ؛ فَقَالَ: {سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى}[الإسراء:1]، قَالَ أَفَتُرَاهُ صَلَّى فِيهِ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَتْ عَلَيْكُمُ الصَّلاةُ فِيهِ كَمَا كُتِبَتِ الصَّلاَةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ. قَالَ حُذَيْفَةُ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّهْرِ مَمْدُودَةٍ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ فَمَا زَايَلاَ ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّى رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الآخِرَةِ أَجْمَعَ، ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا قَالَ: وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ، وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: أخرجہ النسائي في الکبری فی التفسیر (۱۱۲۸۰) (تحفۃ الأشراف: ۳۳۲۴) (حسن)
۳۱۴۷- زرّ بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس میں صلاۃ پڑھی تھی ؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا : بے شک پڑھی تھی ، انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے ، تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتاہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زرّبن حبیش نے کہا : میں نے
{سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى} ۱؎ آیت پیش کی، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہوکہ آپ نے صلاۃ پڑھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں ،انہوں نے کہا: اگر آپ (ﷺ) نے وہاں صلاۃ پڑھ لی ہوتی تو تم پروہاں صلاۃ پڑھنی ویسے ہی فرض ہوجاتی جیسا کہ مسجد حرام میں پڑھنی فرض کردی گئی ہے ۲؎ ، حذیفہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور (براق) لایا گیا، اس کاقدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں، پھر وہ دونوں لوٹے، اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا ۳؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرئیل علیہ السلام نے اسے (یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا ، کیوں باندھ دیا تھا؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے؟ (غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب وموجو دہرچیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کردیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتاہے؟ نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتون رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
وضاحت ۲؎ : حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے،ورنہ احادیث میں واضح طورسے آیاہے کہ آپﷺنے وہاں انبیاء کی امامت کی تھی،اوربراق کو وہاں باندھابھی تھاجہاں دیگرانبیاء اپنی سواریاں باندھاکرتے تھے (التحفۃ مع الفتح)۔
وضاحت ۳؎ : یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے ۔
3148- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا فَخْرَ وَبِيَدِي لِوَائُ الْحَمْدِ، وَلا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ، وَلا فَخْرَ قَالَ: فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلاثَ فَزَعَاتٍ فَيَأْتُونَ آدَمَ؛ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ؛ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ فَيَقُولُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَى الأَرْضِ، وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا؛ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُ: إِنِّي دَعَوْتُ عَلَى أَهْلِ الأَرْضِ دَعْوَةً؛ فَأُهْلِكُوا، وَلَكِنْ اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُ: إِنِّي كَذَبْتُ ثَلاثَ كَذِبَاتٍ"، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْهَا كَذِبَةٌ إِلا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِينِ اللَّهِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى؛ فَيَأْتُونَ مُوسَى؛ فَيَقُولُ: إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا، وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُ إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا، قَالَ: فَيَأْتُونَنِي؛ فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ"، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ: قَالَ أَنَسٌ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي، وَيُرَحِّبُونَ بِي؛ فَيَقُولُونَ مَرْحَبًا؛ فَأَخِرُّ سَاجِدًا؛ فَيُلْهِمُنِي اللَّهُ مِنْ الثَّنَائِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِكَ، وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا}"[الإسراء: 79]. قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلاَّ هَذِهِ الْكَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
* تخريج: ق/الزہد ۳۷ (۴۳۰۸) (تحفۃ الأشراف: ۴۳۶۷) (صحیح)
(سندمیں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۳۱۴۸- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈنہیں ہے، میرے ہاتھ میں حمد (وشکر) کا پرچم ہوگا اور مجھے (اس اعزاز پر ) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی( اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے،آپ نے فرمایا:'' (قیامت میں ) لوگوں پر تین مرتبہ سخت گھبراہٹ طاری ہوگی ، لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: آپ ہمارے باپ ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت( سفارش) کردیجئے، وہ کہیں گے: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہوچکا ہے جس کی وجہ سے میں زمین پر بھیج دیاگیاتھا، تم لوگ نوح کے پاس جاؤ، وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، مگرنوح علیہ السلام کہیں گے: میں زمین والوں کے خلاف بددعا کرچکاہوں جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کیے جاچکے ہیں، لیکن ایسا کرو، تم لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے ، ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: میں تین جھوٹ بول چکاہوں آپ نے فرمایا:'' ان میں سے کوئی جھوٹ جھوٹ نہیں تھا، بلکہ اس سے اللہ کے دین کی حمایت وتائید مقصود تھی، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، تو وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے ، موسی علیہ السلام کہیں گے : میں ایک قتل کرچکاہوں ، لیکن تم عیسیی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔تووہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: اللہ کے سوا مجھے معبود بنالیاگیا تھا ، تم لوگ محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، آپ نے فرمایا:'' لوگ میرے پاس (سفارش کرانے کی غرض سے) آئیں گے، میں ان کے ساتھ (دربار الٰہی کی طرف) جاؤں گا ، ابن جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں : انس نے کہا: مجھے ایسا لگ رہاہے گویا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھ رہاہوں، آپ نے فرمایا:'' میں جنت کے دروازے کا حلقہ (زنجیر) پکڑ کر اسے ہلا ؤں گا، پوچھا جائے گا: کون ہے؟ کہاجائے گا : محمد ہیں، وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے، اور مجھے خوش آمدید کہیں گے، میں (اندر پہنچ کر اللہ کے حضور) سجدے میں گرجاؤں گا او ر حمد وثنا کے جو الفاظ اور کلمے اللہ میرے دل میں ڈالے گا وہ میں سجدے میں اداکروں گا، پھر مجھ سے کہاجائے گا: اپنا سر اٹھائیے ، مانگیے (جوکچھ مانگناہو) آپ کودیاجائے گا۔ (کسی کی سفارش کرنی ہوتو) سفارش کیجئے آپ کی شفاعت (سفارش) قبول کی جائے گی، کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ اوروہ جگہ( جہاں یہ باتیں ہوں گی) مقام محمود ہوگا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
{عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا } ۱؎ ۔سفیان ثوری کہتے ہیں: انس کی روایت میں اس کلمے
{ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا } کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- بعض محدثین نے یہ پوری حدیث ابونضرہ کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود میں بھیجے ۔(بنی اسرائیل:۷۹)