25-بَاب وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ
۲۵-باب: سورہ نورسے بعض آیات کی تفسیر
3177- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الأَخْنَسِ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: مَرْثَدُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ، وَكَانَ رَجُلا يَحْمِلُ الأَسْرَى مِنْ مَكَّةَ حَتَّى يَأْتِيَ بِهِمْ الْمَدِينَةَ قَالَ: وَكَانَتْ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ بِمَكَّةَ يُقَالُ لَهَا: عَنَاقٌ، وَكَانَتْ صَدِيقَةً لَهُ، وَإِنَّهُ كَانَ وَعَدَ رَجُلا مِنْ أُسَارَى مَكَّةَ يَحْمِلُهُ قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى ظِلِّ حَائِطٍ مِنْ حَوَائِطِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ، قَالَ: فَجَاءَتْ عَنَاقٌ؛ فَأَبْصَرَتْ سَوَادَ ظِلِّي بِجَنْبِ الْحَائِطِ؛ فَلَمَّا انْتَهَتْ إِلَيَّ عَرَفَتْهُ فَقَالَتْ: مَرْثَدٌ فَقُلْتُ: مَرْثَدٌ فَقَالَتْ: مَرْحَبًا وَأَهْلا هَلُمَّ فَبِتْ عِنْدَنَا اللَّيْلَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا عَنَاقُ! حَرَّمَ اللَّهُ الزِّنَا قَالَتْ: يَا أَهْلَ الْخِيَامِ! هَذَا الرَّجُلُ يَحْمِلُ أَسْرَاكُمْ، قَالَ: فَتَبِعَنِي ثَمَانِيَةٌ، وَسَلَكْتُ الْخَنْدَمَةَ؛ فَانْتَهَيْتُ إِلَى كَهْفٍ أَوْ غَارٍ؛ فَدَخَلْتُ؛ فَجَائُوا حَتَّى قَامُوا عَلَى رَأْسِي؛ فَبَالُوا؛ فَظَلَّ بَوْلُهُمْ عَلَى رَأْسِي، وَأَعْمَاهُمْ اللَّهُ عَنِّي قَالَ: ثُمَّ رَجَعُوا، وَرَجَعْتُ إِلَى صَاحِبِي؛ فَحَمَلْتُهُ، وَكَانَ رَجُلا ثَقِيلا حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى الإِذْخِرِ؛ فَفَكَكْتُ عَنْهُ كَبْلَهُ؛ فَجَعَلْتُ أَحْمِلُهُ، وَيُعْيِينِي حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ؛ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنْكِحُ عَنَاقًا؛ فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا حَتَّى نَزَلَتْ: {الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ}[النور: 3] فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:"يَا مَرْثَدُ! الزَّانِي لا يَنْكِحُ إِلا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لا يَنْكِحُهَا إِلا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ فَلا تَنْكِحْهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/النکاح ۵ (۲۰۵۱)، ن/النکاح ۱۲ (۳۲۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۸۷۵۳) (حسن)
۳۱۷۷- عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار وبہادر) شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور
مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کررکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے ) آگیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جاکر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آگئی۔ دیوار کے اوٹ میں میری سیاہ پرچھائیں اس نے دیکھ لی، جب میرے قریب پہنچی تو مجھے پہچان کرپوچھا : مرثد ہونا؟ میں نے کہا: ہاں، مرثد ہوں، ا س نے خوش آمدید کہا ، (اورکہا:)آؤ ، رات ہمارے پاس گزارو ، میں نے کہا: عناق! اللہ نے زنا کو حرام قراردیا ہے، اس نے شور کردیا، اے خیمہ والو( دوڑو) یہ شخص تمہارے قیدیوں کو اٹھا ئے لیے جارہاہے، پھرمیرے پیچھے آٹھ آدمی دوڑپڑے، میں خندمہ (نامی پہاڑ) کی طرف بھاگا اور ایک غار یاکھوہ کے پاس پہنچ کر اس میں گھس کر چھپ گیا، وہ لوگ بھی اُوپرچڑھ آئے اور میرے سر کے قریب ہی کھڑے ہوکر۔ انہوں نے پیشاب کیا تو ان کے پیشاب کی بوندیں ہمارے سرپر ٹپکیں،لیکن اللہ نے انہیں اندھا بنادیا، وہ ہمیں نہ د یکھ سکے، وہ لوٹے تو میں بھی لوٹ کر اپنے ساتھی کے پاس (جسے اٹھا کرمجھے لے جانا تھا) آگیا، وہ بھاری بھرکم آدمی تھے، میں نے انہیں ا ٹھاکر (پیٹھ پر ) لاد لیا، إذخر (کی جھاڑیوں میں) پہنچ کر میں نے ان کی بیڑیاں توڑ ڈالیں اورپھراٹھاکر چل پڑا ،کبھی کبھی اس نے بھی میری مدد کی (وہ بھی بیڑیاں لے کر چلتا ) اس طرح میں مدینہ آگیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کرلوں؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھریہ آیت
{ الزَّانِي لاَ يَنْكِحُ إِلاَّ زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لاَ يَنْكِحُهَا إِلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ} ۱؎ نازہوئی آپ نے (اس آیت کے نزول کے بعدمرثد بن ابی مرثد سے) فرمایا:'' اس سے نکاح نہ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اورہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : زانی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے اور زانیہ سے زانی یامشرک ہی نکاح کرے ، مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے (النور:۳) ۔
3178- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلاَعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ؛ فَقُمْتُ مِنْ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ؛ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ؛ فَقِيلَ لِي: إِنَّهُ قَائِلٌ فَسَمِعَ كَلامِي فَقَالَ لِيَ: ابْنَ جُبَيْرٍ ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلا حَاجَةٌ قَالَ: فَدَخَلْتُ؛ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! الْمُتَلاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلانُ بْنُ فُلانٍ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ فَلَمْ يُجِبْهُ؛ فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلا أَنْفُسُهُمْ} [النور: 6] حَتَّى خَتَمَ الآيَاتِ قَالَ: فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلاهُنَّ عَلَيْهِ، وَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ فَقَالَ: لا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ، وَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ فَقَالَتْ: لا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ؛ فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ؛ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنْ الْكَاذِبِينَ ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا.وَفِي الْبَاب عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۲۰۲ (صحیح)
۳۱۷۸- سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ کی امارت کے زمانے میں مجھ سے پوچھاگیا: کیا لعان کرنے والے مرد اورعورت کے درمیان جدائی کردی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں میں اپنی جگہ سے اٹھ کرعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے گھر آگیا، ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، مجھ سے کہاگیا کہ وہ قیلولہ فرمارہے ہیں، مگر انہوں نے میری بات چیت سن لی۔ اور مجھے (پکار کر) کہا: ابن جبیر! اندر آجاؤ، تم کسی (دینی) ضرورت ہی سے آئے ہوگے، میں اندر داخل ہوا، دیکھتاہوں کہ وہ اپنے کجاوے کے نیچے ڈالنے والا کمبل بچھائے ہوئے ہیں، میں نے کہا: ابوعبدالرحمن ! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی کرادی جائے گی؟ انہوں نے کہا : سبحان اللہ! پاک اوربرتر ذات ہے اللہ کی، ہاں، (سنو) سب سے پہلا شخص جس نے اس بارے میں مسئلہ پوچھا وہ فلاں بن فلاں تھے، وہ نبی اکرمﷺ کے پاس آئے ، کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا یعنی زنا کاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیاکرے؟ اگر بولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے اور اگر چپ رہتا ہے توبڑی بات پرچپ رہتاہے، آپ یہ سن کر چپ رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب اس کے بعد ایساواقعہ پیش ہی آگیا تو وہ نبی اکرمﷺکے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میں نے آپ سے جوبات پوچھی تھی، اس سے میں خوددوچارہوگیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی آیات
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلاَّ أَنْفُسُهُمْ} ۱؎ سے ختم آیات تک
{وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ} نازل فرمائیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر آپﷺ نے اس شخص کوبلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اسے نصیحت کیا، اسے سمجھایا بجھایا ، اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے، اس نے کہا:نہیں ،قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس عورت پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اسے بھی وعظ ونصیحت کی، سمجھایا بجھایا، اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکااورآسان ہے ۲؎ ، اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ! اس نے سچ نہیں کہاہے، پھر آپ نے لعان کی شروعات مرد سے کی، مردنے چار بار گواہیاں دی کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ سچا ہے، پانچویں بار میں کہا کہ اگروہ جھوٹا ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی اللہ کی چار گواہیاں دیں ، اللہ گواہ ہے کہ اس کا شوہر جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہا : اللہ کا غضب ہو اس پر اگر اس کا شوہر سچوں میں سے ہو، اس کے بعد آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : جولوگ اپنی بیویوں پربدکاری کی تہمت لگائیں اوران کاکوئی گواہ بجزخودان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چارمرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اورپانچویں مرتبہ کہیں کہ اس پر اللہ کی تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو،اور اس عورت سے سزااس طرح دورہوسکتی ہے کہ وہ چارمرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ یقینااس کا مردجھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہواگراس کا خاوندسچوں میں سے ہو(النور:۶-۹)۔
وضاحت ۲؎ : اگر گناہ سرزد ہواہے تو اسے قبول کرلو اور متعینہ سزا جھیل جاؤ ورنہ آخرت کا عذاب توبہت بھاری اور سخت ہو گا۔
3179- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ هِلالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَائِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْبَيِّنَةَ وَإِلا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، قَالَ: فَقَالَ هِلاَلٌ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلا عَلَى امْرَأَتِهِ أَيَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؛ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "الْبَيِّنَةَ وَإِلا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ"، قَالَ: فَقَالَ هِلاَلٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ، وَلَيَنْزِلَنَّ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنْ الْحَدِّ؛ فَنَزَلَ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلا أَنْفُسُهُمْ} فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ: {وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ} قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا؛ فَجَاءَا فَقَامَ هِلاَلُ بْنُ أُمَيَّةَ فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: "إنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ؛ فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟" ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ الْخَامِسَةِ {أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ}، قَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ؛ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ، وَنَكَسَتْ حَتَّى ظَنَّنَا أَنْ سَتَرْجِعُ؛ فَقَالَتْ: لا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَائِ" فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "لَوْلا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لَنَا وَلَهَا شَأْنٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، وَهَكَذَا رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ النور ۲ (۴۷۴۶)، والطلاق ۲۹ (۵۳۰۸)، د/الطلاق ۲۷ (۲۲۵۴)، ق/الطلاق ۲۷ (۲۰۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۵)، وحم (۱/۲۷۳) (صحیح)
۳۱۷۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی توآپ ﷺ نے فرمایا:'' گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہم بستری کرتاہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ ﷺ کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہوگی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے میں کوئی ایسی چیز ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچادے گی، پھر (اسی موقع پر) آیت
{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَائُ إِلا أَنْفُسُهُمْ }سے
{ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنْ الصَّادِقِينَ} تک نازل ہوئی آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب آپ پڑھ کر فارغ ہوئے توان دونوں کو بلابھیجا ، وہ دونوں آئے، پھر ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اورگواہیاں دیں، نبی اکرمﷺ انہیں سمجھا نے لگے: اللہ کو معلوم ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی ہے جو توبہ کرلے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی ، اوراس نے بھی گواہی دی، پھر جب پانچویں گواہی '' اللہ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ سچا ہو'' دینے کی باری آئی ،تو لوگوں نے اس سے کہا: یہ گواہی اللہ کے غضب کو واجب کردے گی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (لوگوں کی بات سن کر)وہ ٹھٹکی اورذلت وشرمندگی سے سرجھکالیا، ہم سب نے گمان کیاکہ شاید وہ (اپنی پانچویں گواہی) سے پھر جائے گی، مگر اس نے کہا: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ذلیل ورسوانہ کروں گی، نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ کالی آنکھوں والا موٹے چوتڑ والا اور بھری رانوں والا بچہ جنے تو سمجھ لو کہ دہ شریک بن سحماء کا ہے،تو اس نے ایسا ہی بچہ جنا، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' اگر کتاب اللہ (قرآن) سے اس کا فیصلہ (لعان کا) نہ آچکا ہوتا تو ہماری اور اس کی ایک عجیب ہی شان ہوتی '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سندسے ہشام بن حسان کی روایت سے حسن غریب ہے ،۲- اس حدیث کو عباد بن منصور نے عکرمہ سے اورعکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے، ۳-ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں اس پر حد جاری کرکے ہی رہتا۔
3180- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِيَّ خَطِيبًا فَتَشَهَّدَ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوئٍ قَطُّ، وَأَبَنُوا بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوئٍ قَطُّ، وَلا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلا غَابَ مَعِي فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنْ أَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ ابْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنَ الأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ شَرٌّ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ فَلَمَّا كَانَ مَسَائُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي، وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ؛ فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؛ فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ؛ فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ؛ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؛ فَسَكَتَتْ، ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ؛ فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ؛ فَانْتَهَرْتُهَا فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمُّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلا فِيكِ فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَيْئٍ قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الْحَدِيثَ قُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا قَالَتْ: نَعَمْ وَاللَّهِ لَقَدْ رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي، وَكَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلا وَلا كَثِيرًا، وَوُعِكْتُ فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي؛ فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلامَ؛ فَدَخَلْتُ الدَّارَ؛ فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ وَأَبُو بَكْرٍ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ قَالَتْ: فَأَخْبَرْتُهَا، وَذَكَرْتُ لَهَا الْحَدِيثَ فَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ! خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ؛ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتْ امْرَأَةٌ حَسْنَائُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلا حَسَدْنَهَا، وَقِيلَ: فِيهَا فَإِذَا هِيَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي قَالَتْ: قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي قَالَتْ: نَعَمْ قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ قَالَتْ: نَعَمْ وَاسْتَعْبَرْتُ، وَبَكَيْتُ فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ؛ فَنَزَلَ؛ فَقَالَ لأُمِّي: مَا شَأْنُهَا قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا؛ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ: أَقَسَمْتُ عَلَيْكِ يَا بُنَيَّةُ! إِلا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ؛ فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي؛ فَقَالَتْ: لا وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ؛ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَقَالَ: أَصْدِقِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الأَحْمَرِ؛ فَبَلَغَ الأَمْرُ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ: فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي فَلَمْ يَزَالا حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَقَدْ صَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ، عَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ ﷺ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ! إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوئًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ؛ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ وَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ؛ فَقُلْتُ: أَلا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي فَقُلْتُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ، فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي؛ فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ قَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا، قَالَتْ: فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَا تَشَهَّدْتُ؛ فَحَمِدْتُ اللَّهَ، وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ: إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ لِي لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ، وَأُشْرِبَتْ قُلُوبُكُمْ، وَلَئِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ إِنَّهَا قَدْ بَائَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي، وَلَكُمْ مَثَلا، قَالَتْ: وَالْتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ: {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ}[يوسف: 18] قَالَتْ: وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْ سَاعَتِهِ؛ فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ، وَإِنِّي لأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ، وَيَقُولُ: "الْبُشْرَى يَا عَائِشَةُ! فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَائَتَكِ"، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ؛ فَقُلْتُ: لا وَاللَّهِ لا أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلا أَحْمَدُهُ، وَلا أَحْمَدُكُمَا، وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَائَتِي لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ، وَلاغَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ؛ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا فَلَمْ تَقُلْ إِلا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ؛ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، وَالْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسُوسُهُ، وَيَجْمَعُهُ وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ هُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لايَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الآيَةَ: {وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ {أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَى قَوْلِهِ: {أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا! إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا، وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.
وَقَدْ رَوَاهُ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، وَمَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيِّ، وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَائِشَةَ هَذَا الْحَدِيثَ أَطْوَلَ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ وَأَتَمَّ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ النور ۶ (۴۷۵۰) و ۱۱ (۴۷۵۷) (تعلیقا)، والإعتصام ۲۹ (تعلیقا) م/التوبۃ ۱۰ (۲۷۷۰/۵۸)، د/الأدب ۱۵۶ (۵۲۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۹۸)، وحم (۶/۵۹) (صحیح)
۳۱۸۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب میرے بارے میں افواہیں پھیلائی جانے لگیں جو پھیلائی گئیں، میں ان سے بے خبر تھی، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور میرے تعلق سے ایک خطبہ دیا، آپ نے شہادتین پڑھیں، اللہ کے شایانِ شان تعریف وثنا کی، اور حمد وصلاۃ کے بعد فرمایا:'' لوگو! ہمیں ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری گھر والی پر تہمت لگائی ہے، قسم اللہ کی ! میں نے اپنی بیوی میں کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی ، انہوں نے میری بیوی کو اس شخص کے ساتھ متہم کیا ہے جس کے بارے میں اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی برائی نہیں جانی ، وہ میرے گھر میں کبھی بھی میری غیرموجو دگی میں داخل نہیں ہوا، وہ جب بھی میرے گھر میں آیا ہے میں موجود رہاہوں، اور جب بھی میں گھر سے غائب ہوا ، سفر میں رہا وہ بھی میرے ساتھ گھر سے دور سفر میں ر ہاہے، (یہ سن کر) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر ، عرض کیا : اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں ان کی گردنیں اڑادوں، (یہ سن کر) خزرج قبیلے کا ایک اور شخص جس کے قبیلے سے حسان بن ثابت کی ماں تھیں کھڑا ہوا اس نے (سعد بن معاذ سے مخاطب ہوکر) کہا: آپ جھوٹ اور غلط بات کہہ رہے ہیں، سنئے اللہ کی قسم! اگر یہ (تہمت لگانے والے آپ کے قبیلے ) اوس کے ہوتے تو یہ پسند نہ کرتے کہ آپ ان کی گردنیں اڑادیں، یہ بحث و تکرار اتنی بڑھی کہ اوس وخزرج کے درمیان مسجدہی میں فساد عظیم برپا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا، (عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) مجھے اس کی بھی خبر نہ ہوئی ،جب اس دن کی شام ہوئی تو میں اپنی (قضائے حاجت کی) ضرورت سے گھر سے باہرنکلی ، میرے ساتھ مسطح کی ماں بھی تھیں، وہ (راستہ میں) ٹھوکر کھائی توکہہ اٹھیں: مسطح تباہ بربادہو! میں نے ان سے کہا: آپ کیسی ماں ہیں بیٹے کو گالی دیتی ہیں؟ تو وہ چپ رہیں، پھر دوبارہ ٹھوکر کھائی تو پھر وہی لفظ دہرایا، مسطح ہلاک ہو، میں نے پھر (ٹوکا) میں نے کہا: آپ کیسی ماں ہیں؟ اپنے بیٹے کو گالی ( بددعا) دیتی ہیں؟ وہ پھر خاموش رہیں، پھر جب تیسری بار ٹھوکر کھائی تو پھریہی لفظ دہرایاتومیں نے ڈانٹا (اور جھڑک دیا) کیسی (خراب) ماں ہیں آپ؟ اپنے ہی بیٹے کو برابھلا کہہ رہی ہیں، وہ بولیں: (بیٹی ) قسم اللہ کی میں اسے صرف تیرے معاملے میں برا بھلا کہہ رہی ہوں ، میں نے پوچھا: میرے کس معاملے میں؟ تب انہوں نے مجھے ساری باتیں کھول کھول کر بتائیں، میں نے ان سے پوچھا : کیاایسا ہوا؟ (یہ ساری باتیں پھیل گئیں؟) انہوں نے کہا: ہاں، قسم اللہ کی! یہ سن کر میں گھر لوٹ آئی ، گویا کہ میں جس کام کے لیے نکلی تھی، نکلی ہی نہیں ، مجھے اس قضائے حاجت کی تھوڑی یا زیادہ کچھ بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی، (بلکہ) مجھے تیز بخار چڑھ آیا، میں نے رسول اللہ ﷺسے کہا: مجھے میرے ابا کے گھر بھیج دیجئے، رسول اللہ ﷺ نے میرے ساتھ ایک لڑکا کردیا، (اور میں اپنے ابا کے گھر آگئی) میں گھر میں داخل ہوئی تو (اپنی ماں) ام رومان کو نیچے پایا اور (اپنے ابا) ابوبکر کو گھر کے اوپر پڑھتے ہوئے پایا، میری ماں نے کہا: بیٹی ! کیسے آئیں؟ عائشہ کہتی ہیں: میں نے انہیں بتادیا اور انہیں ساری باتیں (اور ساراقصہ) سنادیا، مگر انہیں یہ باتیں سن کر وہ اذیت نہ پہنچی جومجھے پہنچی ، انہوں نے کہا: بیٹی !اپنے آپ کوسنبھالو، کیوں کہ اللہ کی قسم! بہت کم ایسا ہوتاہے کہ کسی مرد کی کوئی حسین وجمیل عورت ہو جس سے وہ مرد (بے انتہا) محبت کرتاہو، اس سے اس کی سوکنیں حسدنہ کرتی (اور جلن نہ رکھتی ) ہوں اور اس کے بارے میں لگائی بجھائی نہ کرتی ہوں، غرضیکہ انہیں اتنا صدمہ نہ پہنچا جتنا مجھے پہنچا، میں نے پوچھا :کیا میرے ابوجان کو بھی یہ بات معلوم ہوچکی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں نے (پھر) پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ بھی ان باتوں سے واقف ہوچکے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، (یہ سن کر) میں غم سے نڈھال ہوگئی اور روپڑی، ابوبکر رضی اللہ عنہ چھت پر قرآن پڑھ رہے تھے، میرے رونے کی آواز سن کر نیچے اتر آئے ، میری ماں سے پوچھا، اسے کیاہوا؟ (یہ کیوں رورہی ہے؟) انہوں نے کہا: اس کے متعلق جو باتیں کہی گئیں (اور افواہیں پھیلائی گئی ہیں) وہ اسے بھی معلوم ہوگئی ہیں، (یہ سن کر) ان کی بھی آنکھیں بہہ پڑیں، (مگر ) انہوں نے کہا: اے میری (لاڈلی) بیٹی! میں تمہیں قسم دلاکر کہتاہوں تواپنے گھر لوٹ جا، میں اپنے گھر واپس ہوگئی، رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی (بریرہ) سے میرے متعلق پوچھ تاچھ کی، اس نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ! میں ان میں کوئی عیب نہیں جانتی، ہاں ، بس یہ بات ہے کہ (کام کرتے کرتے تھک کر) سوجاتی ہیں اور بکری آکر گندھا ہوا آٹا کھاجاتی ہے، بعض صحابہ نے اسے ڈانٹا ، (باتیں نہ بنا)رسول اللہ ﷺ کو سچ سچ بتا( اس سے اس پوچھ تاچھ میں) وہ (اپنے مقام ومرتبہ سے) نیچے اتر آئے، اس نے کہا: سبحان اللہ! پاک وبرتر ہے اللہ کی ذات ، قسم اللہ کی! میں انہیں بس ایسی ہی جانتی ہوں جیسے سنار سرخ سونے کے ڈلے کو جانتا پہچانتا ہے،پھر اس معاملے کی خبر اس شخص کو بھی ہوگئی جس پر تہمت لگائی گئی تھی۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! قسم اللہ کی ، میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی کا سینہ اور پہلو نہیں کھولاہے ۱؎ ، عائشہ کہتی ہیں: وہ اللہ کی راہ میں شہیدہوکر مرے، میرے ماں باپ صبح ہی میرے پاس آگئے اور ہمارے ہی پاس رہے۔
عصر پڑھ کر رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لے آئے، اورہمارے پاس پہنچے، میرے ماں باپ ہمارے دائیں اوربائیں بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ ﷺ نے شہادتین پڑھی، اللہ کی شایان شان حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: ''حمدوصلاۃ کے بعد: '' عائشہ! اگر تو برائی کی مرتکب ہوگئی یا اپنے نفس پر ظلم کربیٹھی ہے تو اللہ سے توبہ کر، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے''، اسی دوران انصار کی ایک عورت آکر دروازے میں بیٹھ گئی تھی، میں نے عرض کیا: اس عورت کے سامنے (اس طرح کی) کوئی بات کرتے ہوئے کیا آپ کو شرم محسوس نہیں ہوئی؟ بہر حال رسول اللہﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی، میں اپنے باپ کی طرف متوجہ ہوئی، ان سے کہا: آپ رسول اللہ ﷺ کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا: میں کیاجواب دوں؟ میں اپنی ماں کی طرف پلٹی ، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جوبات کہی ہے اس بارے میں (میری طرف سے) صفائی دیجئے ، انہوں نے کہا: کیا کہوں میں؟ جب میرے ماں باپ نے کچھ جواب نہ دیا ، تو میں نے کلمہ شہادت اداکیا، اللہ کے شایان شان اس کی حمد وثنا بیان کی، پھر میں نے کہا: سنئے ، قسم اللہ کی! اگر میں آپ لوگوں سے کہتی ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اللہ گواہ ہے کہ میں سچی (بے گناہ) ہوں تب بھی مجھے آپ کے سامنے اس سے فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ ہی یہ بات کہنے والے ہیں اور آپ کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے اوراگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے ایسا کیاہے اور اللہ خوب جانتاہے کہ میں نے نہیں کیا، تو آپ ضرور کہیں گے کہ اس نے تو اعتراف جرم کرلیاہے، اور میں قسم اللہ کی ! اپنے اور آپ کے لیے اس سے زیادہ مناسب حال کوئی مثال نہیں پاتی (میں نے مثال دینے کے لیے) یعقوب علیہ السلام کانام ڈھونڈا اور یاد کیا، مگر میں اس پر قادر نہ ہوسکی، (مجھے ان کانام یاد نہ آسکا تو میں نے ابویوسف کہہ دیا) مگر یوسف علیہ السلام کے باپ کی مثال جب کہ انہوں نے
{ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ } کہا ۲؎ ۔
اسی وقت رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے لگی تو ہم سب خاموش ہوگئے، پھر آپ پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو میں نے آپ کے چہرے سے خوشی پھوٹتی ہوئی دیکھی ، آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمانے لگے : اے عائشہ! خوش ہوجاؤ اللہ نے تمہاری برأۃ میں آیت نازل فرمادی ہے، مجھے اس وقت سخت غصہ آیا جب میرے ماں باپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہوکر آپ کا شکریہ ادا کر، میں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی ! میں آپ کا شکریہ اداکرنے کے لیے کھڑی نہ ہوں گی،نہ میں ان کی تعریف کروں گی اور نہ آپ دونوں کی، نہ میں ان کی احسان مند ہوں گی اور نہ آپ دونوں کا بلکہ میں اس اللہ کا احسان منداور شکر گزار ہوں گی جس نے میری برأۃ میں آیت نازل فرمائی، آپ لوگوں نے تو میری غیبت وتہمت سنی، لیکن اس پر تردید وانکار نہ کیا، اورنہ اسے روک دینے اور بدل دینے کی کوشش کی، عائشہ کہاکرتی تھیں: رہی زینب بن حجش تو اللہ نے انہیں ان کی نیکی ودینداری کی وجہ سے بچالیا، انہوں نے اس قضیہ میں جب بھی کہا، اچھی وبھلی بات ہی کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ (شریک بہتان ہوکر) ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئی، اور جو لوگ اس بہتان بازی اور پروپیگنڈے میں لگے ہوئے تھے وہ مسطح، حسان بن ثابت اور منافق عبداللہ بن اُبی بن سلول تھے، اور یہی منافق (فتنہ پردازوں کا سردار وسرغنہ) ہی اس معاملہ میں اپنی سیاست چلاتا اور اپنے ہم خیال لوگوں کو یکجا رکھتا تھا، یہی وہ شخص تھا اور اس کے ساتھ حمنہ بھی تھی، جو اس فتنہ انگیزی میں پیش پیش تھی، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی کہ اب وہ (اس احسان فراموش وبدگو) مسطح کو کبھی کوئی فائدہ نہ پہنچائیں گے، اس پر آیت
{ وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ } ۳؎ نازل ہوئی، اس سے یہاں مراد ابوبکر ہیں،
{أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ} ۴؎ اس سے اشارہ مسطح کی طرف ہے۔
{ أَلاَ تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ } ۵؎ (یہ آیت سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، قسم اللہ کی ! ہمارے رب ! ہم پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں بخش دے، پھر مسطح کو دینے لگے جو پہلے دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس حدیث کو یونس بن یزید، معمر اور کئی دوسرے لوگوں نے عروہ بن زبیر ، سعید بن مسیب ، علقمہ بن وقاص لیثی اور عبید اللہ بن عبداللہ سے اور ان سبھوں نے عائشہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث ہشام بن عروہ کی حدیث سے لمبی بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔
وضاحت ۱؎ : میں نے کبھی کسی عورت کا آنچل تک نہیں سرکایا ہے چہ جائے گی میں ایسی گستاخی ا ورجسارت کروں۔
وضاحت ۲؎ : صبرہی بہترہے اورجوتم کہتے ،بیان کرتے ہواس پر اللہ ہی معاون ومددگارہے۔
وضاحت ۳؎ : اصحاب فضل اور فراخی والے قسم نہ کھائیں(النور:۲۲)۔
وضاحت۴؎ : رشتہ والوں ، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے(النور:۲۲)۔
وضاحت ۵؎ : کیاتمہیں پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے، اللہ بخشنے والا مہربان ہے(النور:۲۲)۔
3181- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَ عُذْرِي قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ فَذَكَرَ ذَلِكَإ وَتَلا الْقُرْآنَ فَلَمَّا نَزَلَ أَمَرَ بِرَجُلَيْنِ وَامْرَأَةٍ فَضُرِبُوا حَدَّهُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: د/الحدود ۳۵ (۴۴۷۴)، ق/الحدود ۱۵ (۲۵۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۹۸)، وحم (۶/۳۵) (حسن)
۳۱۸۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جب میری صفائی وپاکدامنی کی آیت نازل ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اس کا ذکر کیا، قرآن کی تلاوت کی، اور منبرسے اتر نے کے بعد دومردوں اورایک عورت پر حد (قذف) جاری کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ ان سب پر حد جاری کردی گئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے محمد بن اسحاق کی روایت کے سوا اور کسی طریقے سے نہیں جانتے ۔