- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
31-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الرُّومِ
۳۱-باب: سورہ روم سے بعض آیات کی تفسیر
3191- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لأَبِي بَكْرٍ فِي مُنَاحَبَةِ: {الم غُلِبَتْ الرُّومُ} "أَلاَ احْتَطْتَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّ الْبِضْعَ مَا بَيْنَ ثَلاَثٍ إِلَى تِسْعٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۸۵۶) (ضعیف)
(سندمیں عبد اللہ بن عبد الرحمن جمحی مجہول الحال ہیں، لیکن اس بابت اس قول کے سوا دیگر تفاصیل صحیح ہیں، دیکھیے حدیث رقم ۳۱۹۳، و۳۱۹۴)
۳۱۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کے (قریش سے) شرط لگانے پر کہا:'' اے ابوبکر تم نے شرط لگانے میں { الم غُلِبَتْ الرُّومُ }کی احتیاط کیوں نہ برتی، کیوں کہ لفظ (بضع) تین سے نوتک کے لیے بولاجاتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سندسے جسے زہری عبیداللہ کے واسطہ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : مرادہے اللہ تعالیٰ کا یہ قول : {سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ}(الروم:۴)۔
3192- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ظَهَرَتِ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ؛ فَأَعْجَبَ ذَلِكَ الْمُؤْمِنِينَ فَنَزَلَتْ: {الم غُلِبَتِ الرُّومُ -إِلَى قَوْلِهِ- يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ} قَالَ فَفَرِحَ الْمُؤْمِنُونَ بِظُهُورِ الرُّومِ عَلَى فَارِسَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ كَذَا قَرَأَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ غَلَبَتْ الرُّومُ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۹۳۵ (صحیح)
(بعد کی حدیث سے یہ صحیح لغیرہ ہے)
۳۱۹۲- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : بدر کی لڑائی کے موقع پر جب رومی اہل فارس پر غالب آگئے تو مومنوں کو اس سے خوشی حاصل ہوئی ۱؎ اس پر یہ آیت: { الم غُلِبَتِ الرُّومُ}سے لے کر { يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ } ۲؎ تک نازل ہوئی ،وہ کہتے ہیں: روم کے فارس پر غلبہ سے مسلمان بے حد خوش ہوئے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ایسے ہی نصر بن علی نے {غَلَبَتِ الرُّومُ } (''غ'' اور ''ل'' کے زبر کے ساتھ ) پڑھاہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ رومی اہل کتاب تھے اور مسلمان بھی اہل کتاب اس لیے ان کی کامیابی میں انہیں اپنی کامیابی دکھائی دی۔
وضاحت ۲؎ : رومی مغلوب ہوگئے ہیں، نزدیک کی زمین پر اوروہ مغلوب ہونے کے بعدعنقریب غالب آجائیں گے ، چندسال میں ہی ، اس سے پہلے اوراس کے بعدبھی اختیاراللہ تعالیٰ کا ہی ہے ، اس روزمسلمان شادمان ہوں گے (الروم:۱-۴)۔
3193- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْفَزَارِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْن عَبَّاسٍ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ} قَالَ غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ كَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْهَرَ أَهْلُ فَارِسَ عَلَى الرُّومِ لأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ الأَوْثَانِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ يَظْهَرَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ لأَنَّهُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ فَذَكَرُوهُ لأَبِي بَكْرٍ فَذَكَرَهُ أَبُو بَكْرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَمَا إِنَّهُمْ سَيَغْلِبُونَ" فَذَكَرَهُ أَبُوبَكْرٍ لَهُمْ فَقَالُوا: اجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ أَجَلا فَإِنْ ظَهَرْنَا كَانَ لَنَا كَذَا وَكَذَا، وَإِنْ ظَهَرْتُمْ كَانَ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا؛ فَجَعَلَ أَجَلا خَمْسَ سِنِينَ فَلَمْ يَظْهَرُوا فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "أَلا جَعَلْتَهُ إِلَى دُونَ" قَالَ: أُرَاهُ الْعَشْرَ، قَالَ أَبُوسَعِيدٍ: وَالْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ، قَالَ: ثُمَّ ظَهَرَتِ الرُّومُ بَعْدُ قَالَ: فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {الم غُلِبَتْ الرُّومُ -إِلَى قَوْلِهِ- وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ} قَالَ سُفْيَانُ: سَمِعْتُ أَنَّهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۴۸۹)، وحم (۱/۲۷۶، ۳۰۴) (صحیح)
۳۱۹۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت {الم غَلَبَتِ الرُّومُ فِي أدنىَ الاَرْضِ } کے بارے میں کہتے ہیں : ''غَلَبَتْ '' اور'' غُلِبَتْ '' دونوں پڑھاگیا ہے، کفارو مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس روم پر غالب آجائیں، اس لیے کہ کفارو مشرکین اور وہسب بت پرست تھے جب کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی اہل فارس پر غالب آجائیں ، اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے، انہوں نے اس کا ذکر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے ، آپ نے فرمایا: ''وہ (رومی) (مغلوب ہوجانے کے بعد پھر) غالب آجائیں گے ،ابوبکر نے جاکر انہیں یہ بات بتائی ، انہوں نے کہا: (ایسی بات ہے تو) ہمارے اور اپنے درمیان کوئی مدت متعین کرلو، اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں تم اتنا اتنا دینا ، اور اگر تم غالب آگئے (جیت گئے) تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ توانہوں نے پانچ سال کی مدت رکھ دی، لیکن وہ (رومی) اس مدت میں غالب نہ آسکے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات بھی رسول اللہ ﷺ کو بتائی ۔ آپ نے فرمایا:'' تم نے اس کی مدت اس سے کچھ آگے کیوں نہ بڑھادی ؟ راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ کی مراد اس سے دس (سال ) تھی، ابوسعید نے کہا کہ بضع دس سے کم کوکہتے ہیں،اس کے بعد رومی غالب آگئے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما ) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے قول {الم غُلِبَتِ الرُّومُ} سے {وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ} تک کا یہی مفہوم ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ وہ (رومی) لوگ ان پر اس دن غالب آئے جس دن بدر کی جنگ لڑی گئی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف سفیان ثوری کی اس روایت سے جسے وہ حبیب بن ابوعمرہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں، جانتے ہیں۔
3194- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ الأَسْلَمِيِّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: {الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ} فَكَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: قَاهِرِينَ لِلرُّومِ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَيْهِمْ لأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ وَفِي ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ} وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ لأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ لَيْسُوا بِأَهْلِ كِتَابٍ، وَلاَ إِيمَانٍ بِبَعْثٍ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الآيَةَ: خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَكَّةَ {الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ}[الروم: 1-4] قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ لأَبِي بَكْرٍ: فَذَلِكَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ زَعَمَ صَاحِبُكَ أَنَّ الرُّومَ سَتَغْلِبُ فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ أَفَلا نُرَاهِنُكَ عَلَى ذَلِكَ قَالَ: بَلَى، وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الرِّهَانِ؛ فَارْتَهَنَ أَبُو بَكْرٍ وَالْمُشْرِكُونَ، وَتَوَاضَعُوا الرِّهَانَ، وَقَالُوا لأَبِي بَكْرٍ: كَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلاثُ سِنِينَ إِلَى تِسْعِ سِنِينَ فَسَمِّ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ وَسَطًا تَنْتَهِي إِلَيْهِ قَالَ: فَسَمَّوْا بَيْنَهُمْ سِتَّ سِنِينَ قَالَ: فَمَضَتِ السِّتُّ سِنِينَ قَبْلَ أَنْ يَظْهَرُوا؛ فَأَخَذَ الْمُشْرِكُونَ رَهْنَ أَبِي بَكْرٍ؛ فَلَمَّا دَخَلَتِ السَّنَةُ السَّابِعَةُ ظَهَرَتِ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْمِيَةَ سِتِّ سِنِينَ لأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى: قَالَ فِي بِضْعِ سِنِينَ، وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِكَ نَاسٌ كَثِيرٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ نِيَارِ بْنِ مُكْرَمٍ لانَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۱۹) (حسن)
۳۱۹۴- نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آیت { الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ }نازل ہوئی، اس وقت اہل فارس روم پر غالب وقابض تھے، اور مسلمان چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آجائیں ، کیوں کہ رومی اور مسلمان دونوں ہی اہل کتاب تھے، اور اسی سلسلے میں یہ آیت: {وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ } ۱؎ بھی اتری ہے، قریش چاہتے تھے کہ اہل فارس غالب ہوں کیوں کہ وہ اورا ہل فارس دونوں ہی نہ تواہل کتاب تھے، اور نہ دونوں ہی قیامت پر ایمان رکھتے تھے، جب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ کے اطراف میں اعلان کرنے نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے چیخ چیخ کر (بآواز بلند) اعلان کیا، { الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ }(رومی مغلوب ہوگئے زمین میں، وہ مغلوب ہوجانے کے بعد چندسالوں میں پھر غالب آجائیں گے)توقریش کے کچھ لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آؤ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات پر شرط ہوجائے، تمہارے ساتھی (نبی) کا خیال ہے کہ رومی فارسیوں پر چند سالوں کے اند ر اندر غالب آجائیں گے، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم سے اس بات پر شرط لگالیں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں ؟ ہم تیار ہیں،ابوبکر اور مشرکین دونوں نے شرط لگالی، اور شرط کامال کہیں رکھوا دیا، مشرکین نے ابوبکر سے کہا: تم بضع کو تین سے ۹ سال کے اندر کتنے سال پر متعین ومشروط کرتے ہو؟ ہمارے اورا پنے درمیان بیچ کی ایک مدت متعین کرلو، جس پر فیصلہ ہوجائے، راوی کہتے ہیں: انہوں نے چھ سال کی مدت متعین اور مقرر کردی۔ راوی کہتے ہیں کہ روم کے مشرکین پر غالب آنے سے پہلے چھ سال گزر گئے تو مشرکین نے ابوبکر کے بطور شرط جمع کرائے ہوئے مال کو لے لیا ، مگر جب ساتواں سال شروع ہوا اور رومی فارسیوں پر غالب آگئے،تو مسلمانوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ پر نکتہ چینی کی کہ یہ ان کی غلطی تھی کہ چھ سال کی مدت متعین کی جب کہ اللہ تعالیٰ نے بضع سنین کہاتھا،(اور بضع تین سال سے ۹سال تک کے لیے مستعمل ہوتاہے)۔ راوی کہتے ہیں: اس پیشین گوئی کے برحق ثابت ہونے پر بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث نیار بن مکرم کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرحمن بن ابوالزناد کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس دن مومن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے، وہ زبردست ہے مہربان بھی ہے (الروم:۴-۵) ۔