85-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْقَدْرِ
۸۵-باب: سورہ قدر سے بعض آیات کی تفسیر
3350- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَعْدَ مَا بَايَعَ مُعَاوِيَةَ فَقَالَ: سَوَّدْتَ وُجُوهَ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ يَا مُسَوِّدَ وُجُوهِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: لاَ تُؤَنِّبْنِي رَحِمَكَ اللَّهُ؛ فَإِنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُرِيَ بَنِي أُمَيَّةَ عَلَى مِنْبَرِهِ فَسَائَهُ ذَلِكَ فَنَزَلَتْ: {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} يَا مُحَمَّدُ! يَعْنِي نَهْرًا فِي الْجَنَّةِ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةَ: {إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} يَمْلِكُهَا بَعْدَكَ بَنُو أُمَيَّةَ يَامُحَمَّدُ! قَالَ الْقَاسِمُ: فَعَدَدْنَاهَا فَإِذَا هِيَ أَلْفُ شَهْرٍ لاَ يَزِيدُ يَوْمٌ، وَلاَيَنْقُصُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، وَقَدْ قِيلَ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْل، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَازِنٍ، وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ هُوَ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَيُوسُفُ بْنُ سَعْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ، وَلاَ نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۴۰۷) (ضعیف)
(سند میں اضطراب ہے، اور متن منکر ہے، جیساکہ مؤلف نے بیان کردیا ہے)
۳۳۵۰- یوسف بن سعد کہتے ہیں : ایک شخص حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس ان کے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلینے کے بعد گیا اور کہا: آپ نے تومسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دی، (راوی کو شک ہے ''سودت'' کہا یا ''یا مسود وجوہ المومنین '' (مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دینے والا ) کہا، انہوں نے کہا تو مجھ پر الزام نہ رکھ، اللہ تم پر رحم فرمائے، نبی اکرمﷺ کو بنی امیہ اپنے منبر پر دکھائے گئے تو آپ کو یہ چیز بری لگی، اس پر آیت
{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ } ۱؎ نازل ہوئی۔ کوثر جنت کی ایک نہر ہے اور سورہ قدر کی آیات
{إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ} ۲؎ نازل ہوئیں، اے محمد تیر ے بعد بنو امیہ ان مہینوں کے مالک ہوں گے ۳؎ قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں: ہم نے بنی امیہ کے ایام حکومت کو گنا تو وہ ہزار مہینے ہی نکلے نہ ایک دن زیادہ نہ ایک دن کم ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اس سند سے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲-یہ بھی کہاگیا ہے کہ قاسم بن فضل سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے یوسف بن مازن سے روایت کی ہے، قاسم بن فضل حدانی ثقہ ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی نے ثقہ کہا ہے، اور یوسف بن سعد ایک مجہول شخص ہیں اور ہم اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اے محمد ! ہم نے آپ کو کوثر دی ۔
وضاحت ۲؎ : ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ،او ر تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔
وضاحت۳؎ : سندمیں اضطراب اورمجہول راوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے متن میں سخت نکارت ہے، کہاں آیت کا نزول شب قدر کی فضیلت کے بیان کے لیے ہونا ، اورکہاں بنوامیہ کی حدث خلافت ؟ یہ سب بے تکی باتیں ہیں، نیز کہاں
{إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ} کی شان نزول ، اورکہاں بنوامیہ کی چھوٹی خلافت۔
3351- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ وَعَاصِمٍ -هُوَ ابْنُ بَهْدَلَةَ-، سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ- وَزِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ يُكْنَى أَبَا مَرْيَمَ-يَقُولُ: قُلْتُ لأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: إِنَّ أَخَاكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ؛ فَقَالَ: يَغْفِرُ اللَّهُ لأَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَلَكِنَّهُ أَرَادَ أَنْ لا يَتَّكِلَ النَّاسُ، ثُمَّ حَلَفَ لا يَسْتَثْنِي أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِأَيِّ شَيْئٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ؟! قَالَ: بِالآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَوْ بِالْعَلامَةِ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لا شُعَاعَ لَهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۷۹۳ (حسن صحیح)
۳۳۵۱- زر بن حبیش (جن کی کنیت ابومریم ہے) کہتے ہیں: میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر (رات کو) کھڑے ہوکر صلاتیں پڑھتارہے وہ لیلۃ القدر پالے گا،ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمن کی مغفرت فرمائے ( ابوعبدالرحمن ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں (۲۷) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں( ۲۷) رات پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آجائیں ، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے قسم کھاکر کہا:(شب قدر) یہ (۲۷) رات ہی ہے، زربن حبیش کہتے ہیں : میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتائی ہے (یہاں راوی کو شک ہوگیا ہے کہ انہوں نے
''بالآیۃ'' کا لفظ استعمال کیا یا
'' بالعلامۃ'' کا آپ نے علامت یہ بتائی (کہ ۲۷ویں شب کی صبح ) سورج طلوع تو ہوگا لیکن اس میں شعاع نہ ہوگی ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : کئی برسوں کے تجربہ کی بنیادپرمذکورہ علامتوں کو۲۷/کی شب منطبق پانے بعد ہی ابی بن کعب رضی اللہ عنہ یہ دعویٰ کیا تھا اوراس کی سندبھی صحیح ہے ، اس لیے آپ کا دعویٰ مبنی برحق ہے ، لیکن سنت کے مطابق دس دن اعتکاف کرنا یہ الگ سنت ہے، اورالگ اجروثواب کا ذریعہ ہے ، نیز صرف طاق راتوں میں شب بیداری کرنے والوں کی شب قدرتو ملے گی ہے ، مزید اجروثواب الگ ہوگا ، ہاں!پورے سال میں شب قدرکی تلاش کی بات : یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کااپنا اجتہادہوسکتاہے ، ویسے بھی شب قدرکا حصول اوراجروثواب تومتعین ہی ہے۔