• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
94-باب
۹۴ - باب​


3369- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ؛ فَخَلَقَ الْجِبَالَ؛ فَقَالَ بِهَا عَلَيْهَا؛ فَاسْتَقَرَّتْ؛ فَعَجِبَتِ الْمَلاَئِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الْجِبَالِ قَالُوا: يَارَبِّ! هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ، قَالَ: نَعَمْ الْحَدِيدُ قَالُوا: يَا رَبِّ! فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنْ الْحَدِيدِ؟ قَالَ: نَعَمْ النَّارُ؛ فَقَالُوا: يَا رَبِّ! فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ؟ قَالَ: نَعَمْ الْمَائُ قَالُوا: يَا رَبِّ! فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَائِ؟ قَالَ: نَعَمْ الرِّيحُ، قَالُوا: يَا رَبِّ! فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْئٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّيحِ؟ قَالَ: نَعَمْ ابْنُ آدَمَ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ بِيَمِينِهِ يُخْفِيهَا مِنْ شِمَالِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۱) (ضعیف)
(سندمیں سلیمان بن ابی سلیمان الھاشمی لین الحدیث راوی ہیں)
۳۳۶۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جب اللہ نے زمین بنائی تو وہ ہلنے لگی چنانچہ اللہ نے پہاڑ بنائے اور ان سے کہا: اسے تھا مے رہو، تو زمین ٹھہر گئی، (اس کا ہلنا وجھکنا بند ہوگیا) فرشتوں کو پہاڑوں کی سختی ومضبوطی دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، انہوں نے کہا: اے میرے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں پہاڑ سے بھی زیادہ ٹھوس کوئی چیز ہے؟ اللہ نے فرمایا:'' ہاں ، لوہا ہے، انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! کیا آپ کی مخلوق میں لوہے سے بھی طاقتور کوئی چیز ہے؟ اللہ نے کہا: ہاں، آگ ہے، انہوں نے کہا: اے میرے رب! کیا آپ کی مخلوق میں آگ سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے؟ اللہ نے کہا: ہاں ، پانی ہے، انہوں نے کہا: اے ہمارے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے؟ اللہ نے فرمایا:'' ہاں، ہوا ہے، انہوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب ! کیا آپ کی مخلوق میں ہوا سے بھی زیادہ طاقتور کوئی مخلوق ہے۔ اللہ نے فرمایا:'' ہاں، ابن آدم ہے جو اپنے داہنے سے اس طرح صدقہ دیتا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبرنہیں ہونے پاتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

45-كِتَاب الدَّعَوَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۵- کتاب: مسنون ادعیہ واذکار


1-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الدُّعَائِ
۱-باب: دعاکی فضیلت کابیان​


3370- حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيْسَ شَيْئٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الدُّعَائِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ وَعِمْرَانُ الْقَطَّانُ هُوَ ابْنُ دَاوَرَ وَيُكْنَى أَبَا الْعَوَّامِ.
* تخريج: ق/الدعاء ۱ (۳۸۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۳۸) (حسن)
3370/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
۳۳۷۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز ومکرم کوئی چیز(عبادت) نہیں ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں، عمران القطان یہ ابن داور ہیں اور ان کی کنیت ابوالعوام ہے۔
۳۳۷۰/م- عبدالرحمن بن مہدی نے عمران القطان سے اسی طرح اسی سند سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیوں کہ بندہ رب العالمین کی طاقت و قدرت کے سامنے دعاکرتے وقت اپنی انتہائی بے بسی اور عاجز ی ومحتاجگی کا اظہارکرتاہے، اس لیے اللہ کے نزدیک دعاسے زیادہ معزز ومکرم چیز(عبادت) کوئی نہیں ہے۔


3371- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵) (ضعیف)
(سندمیں ''ابن لھیعہ'' ضعیف ہیں، اس لیے مخ العبادۃ کے لفظ سے حدیث ضعیف ہے، اور ''الدعاء ھو العبادۃ'' کے لفظ سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث)
۳۳۷۱- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' دعا عبادت کامغز (حاصل ونچوڑ) ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ دعا عبادت کا خلاصہ اور اصل ہے، اس لیے جو شخص اپنی حاجت برآری اور مشکل کشائی کے لیے غیر اللہ کو پکارتا ہے، وہ گویا غیر اللہ کی عبادت کرتاہے، جب کہ غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، اورشرک ایساگناہ ہے جو بغیرتوبہ کے ہرگز معاف نہیں ہوگا۔


3372- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيْعٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الدُّعَائُ هُوَ الْعِبَادَةُ"، ثُمَّ قَرَأَ: {وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ} [غافر: 10]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورٌ وَالأَعْمَشُ، عَنْ ذَرٍّ وَلا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ ذَرٍّ هُوَ ذَرُّ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ ثِقَةٌ وَالِدُ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۹۶۹، و۳۲۴۷ (صحیح)
۳۳۷۲- نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت:{وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ } ۱؎ پڑھی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- منصور نے یہ حدیث اعمش سے اور اعمش نے ذر سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف ذر کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ذر بن عبداللہ ہمدانی ہیں ثقہ ہیں، عمر بن ذر کے والد ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : تمہارا رب فرماتاہے، تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکار(دعاء ) کو قبول کروں گا، جو لوگ مجھ سے مانگنے سے گھمنڈکرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل وخوار ہوکر داخل ہوں گے (المومن :۶)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مِنْهُ
۲- فضائل دعاسے متعلق ایک اور باب​


3373- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ هَذَا الْحَدِيثَ، وَلاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (حسن)
3373/م- حَدَّثَنَا إسْحَاقُ بن منصور، قال: حدثنا أبو عاصم،عن حميد أبي المليح، عن أبي صالح،عن أبي هريرة، عن النبي ﷺ نحوه. وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُهُ صَبِيحٌ، سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُهُ، وَقَالَ: يُقَالُ لَهُ: الْفَارِسِيُّ، سكن المدينة.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
۳۳۷۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ۱؎ اللہ اس سے ناراض اورناخوش ہوتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع اور کئی راویوں نے یہ حدیث ابوالملیح سے روایت کی ہے، ہم اسے صر ف اسی سند سے جانتے ہیں، ابوالملیح کانام صبیح ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ایسا ہی کہتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے کہا کہ انہیں فارسی بھی کہاجاتاہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نہ توبہ واستغفار کرتاہے اور نہ دنیوی و اخروی اپنی ضرورت کی چیزیں طلب کرتاہے۔اللہ سے دعا سے بالکل ہی بے نیازی برتناہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
3-باب
۳- دعا سے متعلق ایک اور باب​


3374- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُونَعَامَةَ السَّعْدِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزَاةٍ فَلَمَّا قَفَلْنَا أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ؛ فَكَبَّرَ النَّاسُ تَكْبِيرَةً، وَرَفَعُوا بِهَا أَصْوَاتَهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَصَمَّ، وَلاغَائِبٍ هُوَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رُئُوسِ رِحَالِكُمْ، ثُمَّ قَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ! أَلا أُعَلِّمُكَ كَنْزًا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عِيسَى.
* تخريج: خ/الجھاد ۱۳۱ (۲۹۹۲)، والمغازي ۳۸ (۴۲۰۵)، والدعوات ۵۰ (۶۳۸۴)، ۶۶ (۶۴۰۹)، والقدر ۷ (۶۶۱۰)، والتوحید ۹ (۷۳۸۶)، م/الذکر والدعاء ۱۳ (۲۷۰۴)، د/الصلاۃ ۳۶۱ (۱۵۲۶)، ق/الأدب ۵۹ (۳۸۲۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۷) (صحیح)
3374/م- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حُمَيْدٍ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۳۷۴- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب وغیرحاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجو دہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا:'' عبداللہ بن قیس ! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ ''لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ'' ۱؎ (جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ابوعثمان نہدی کانام عبدالرحمن بن مل ہے اور ابونعامہ سعدی کانام عمرو بن عیسیٰ ہے۔
۳۳۷۴/م- اس سندسے ابوالملیح نے ابوصالح سے، اور ابوصالح نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: جواس کلمے کا وردکرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کامالک ہوجائے گا، کیونکہ اس کلمے کا مطلب برائی سے پھر نے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔''جب بندہ اس کا بارباراظہارکرتاہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہاخوش ہوتاہے، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہارتوعبادت حاصل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الذِّكْرِ
۴-باب: ذکرالٰہی کی فضیلت کابیان​


3375- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلاً قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ شَرَائِعَ الإِسْلامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ؛ فَأَخْبِرْنِي بِشَيْئٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ قَالَ: "لاَ يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الأدب ۵۳ (۳۷۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۵۱۹۶) (صحیح)
۳۳۷۵- عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول ! اسلام کے احکام وقوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتادیجئے جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ نے فرمایا: ''تمہاری زبان ہروقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تررہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ فرائض ، سنن اور نوافل کی شکل میں نیکیوں کی بہت کثرت ہے، مجھے کوئی ایسا جامع نسخہ بتائیے جس سے صرف فرائض و سنن پر اگر عمل کرسکوں اور نوافل و مستحبات رہ جائیں تو بھی میری نیکیاں کم نہ ہوں، آپ نے فرمایا:'' ذکر الٰہی سے اپنی زبان تررکھ اورا سے اپنی زندگی کا دائمی معمول بنالے، ایسا کرنے کی صورت میں اگر تو نوافل و مستحبات پر عمل نہ بھی کرسکا تو ذکر الٰہی کی کثرت سے اس کا ازالہ ہوجائے گا۔کیونکہ نوافل ومستحبات(عبادات)کاحاصل تویہی ہے نہ کہ بندے بارگاہ الٰہی میں اپنی عاجزی وخاکساری کااظہارکانذرانہ پیش کرتاہے ، سوکثرت ذکرسے بھی یہ مقصدحاصل ہوجاتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مِنْهُ
۵-باب: ذکرالٰہی سے متعلق ایک اورباب​


3376- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ أَيُّ الْعِبَادِ أَفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ: "الذَّاكِرُونَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتُ" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمِنِ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ: "لَوْ ضَرَبَ بِسَيْفِهِ فِي الْكُفَّارِ وَالْمُشْرِكِينَ حَتَّى يَنْكَسِرَ وَيَخْتَضِبَ دَمًا لَكَانَ الذَّاكِرُونَ اللَّهَ أَفْضَلَ مِنْهُ دَرَجَةً".
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ دَرَّاجٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۰۵۴) (ضعیف)
(سندمیں دراج ضعیف راوی ہیں)
۳۳۷۶- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے کون سے بندے سب سے افضل اور سب سے اونچے مرتبہ والے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا:''کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں''۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں لڑائی لڑنے والے (غازی) سے بھی بڑھ کر ؟ آپ نے فرمایا:'' (ہاں) اگرچہ اس نے اپنی تلوار سے کفار ومشرکین کو مارا ہو، اور اتنی شدید جنگ لڑی ہوکہ اس کی تلوار ٹوٹ گئی ہو، اور وہ خود خون سے رنگ گیا ہو، تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والے اس سے درجے میں بڑھے ہوئے ہوں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف درّاج کی روایت سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مِنْهُ
۶-باب: ذکرالٰہی سے متعلق ایک اورباب​


3377- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ -هُوَ ابْنُ أَبِي هِنْدٍ- عَنْ زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَلا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ، وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ: "ذِكْرُ اللَّهِ تَعَالَى"، قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَاشَيْئٌ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ.
وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ مِثْلَ هَذَا بِهَذَا الإِسْنَادِ وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ.
* تخريج: ق/الأدب ۵۳ (۳۷۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۵۰) (صحیح)
۳۳۷۷- ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم (میدان جنگ میں) اپنے دشمن سے ٹکراؤ ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی (یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل) لوگوں نے کہا: ہاں، (ضرور بتائیے)'' آپ نے فرمایا:'' وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے''، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: بعض نے یہ حدیث عبداللہ بن سعیداسی طرح اسی سند سے روایت کی ہے، اور بعضوں نے اسے ان سے مرسلاً روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ اللہ کا ذکر اللہ کے عذاب سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کیوں کہ ذکر: رب العالمین کی توحید، اس کی ثنا، تحمید وتمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پرجاری رکھنے کا نام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَوْمِ يَجْلِسُونَ فَيَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَا لَهُمْ مِنَ الْفَضْلِ
۷-باب: ایک جگہ بیٹھ کر ذکر الٰہی کرنے والوں کی فضیلت کابیان​


3378- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَغَرِّ أَبِي مُسْلِمٍ أَنَّهُ شَهِدَ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "مَا مِنْ قَوْمٍ يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلا حَفَّتْ بِهِمْ الْمَلائِكَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَذَكَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ".
* تخريج: م/الذکر والدعاء ۱۱ (۲۷۰۰)، ق/الأدب ۵۳ (۳۷۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۳۹۶۴، و۱۲۱۹۴) (صحیح)
3378/م- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَال: سَمِعْتُ الأَغَرَّ أَبَا مُسْلِمٍ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُمَا شَهِدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۳۷۸- ابوہریرہ اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: انہوں نے گواہی دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو قوم اللہ کو یاد کرتی ہے (ذکر الٰہی میں رہتی ہے) اسے فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی اسے ڈھانپ لیتی ہے، اس پر سکینت (طمانیت) نازل ہوتی ہے اور اللہ اس کا ذکر اپنے ہاں فرشتوں میں کرتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۱؎ ۔
۳۳۷۸/م- اس سندسے شعبہ نے ابواسحاق سے، ابواسحاق نے اغر (یعنی ابومسلم) سے سنا، انہوں نے کہا: میں ابوسعیدخدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کے متعلق گواہی دیتاہوں ، ان دونوں (بزرگوں) نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق گواہی دی، اورپھر اوپر والی حدیث جیسی حدیث ذکر کی۔
وضاحت ۱؎ : یہ طریق (۳۳۸۰)کے بعد مطبوع نسخوں میں تھا ،اور صحیح جگہ اس کی یہی ہے، جیسا کہ کئی قلمی نسخوں میں آیا ہے ، یہ سند محبوبی کی روایت سے ساقط تھی ،اسی لیے مزی نے اس سند کو تحفۃ الأشراف میں ذکر نہیں کیا، حافظ ابن حجر نے اس پر استدراک کیا اور کہا کہ ایسے ہی میں نے اس کو دیکھا ہے حافظ ابوعلی حسین بن محمد صدفی (ت: ۵۱۴ھ) کے قلم سے جامع ترمذی میں ، اور ایسے ہی ابن زوْج الحرۃ کی روایت میں ہے، اور میں نے اسے محبوبی کی روایت میں نہیں دیکھاہے (النکت الظراف ۳/۳۲۹)


3379- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُونَعَامَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا يُجْلِسُكُمْ؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ قَالَ: آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلا ذَاكَ قَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلا ذَاكَ قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَقَلَّ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ: "مَايُجْلِسُكُمْ؟" قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ وَنَحْمَدُهُ لِمَا هَدَانَا لِلإِسْلامِ، وَمَنَّ عَلَيْنَا بِهِ فَقَالَ: آللَّهِ مَاأَجْلَسَكُمْ إِلاَّ ذَاكَ قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا إِلاَّ ذَاكَ قَالَ: "أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ لِتُهْمَةٍ لَكُمْ، إِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلاَئِكَةَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عِيسَى، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ.
* تخريج: م/الذکر والدعاء ۱۱ (۲۷۰۱)، ن/القضاۃ ۳۷ (۵۴۲۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۱۶)، وحم (۴/۹۲) (صحیح)
۳۳۷۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد گئے (وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے) پوچھا: تم لوگ کس لیے بیٹھے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں، معاویہ نے کہا: کیا! قسم اللہ کی !تم کو اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا : قسم اللہ کی، ہم اسی مقصد سے یہاں بیٹھے ہیں، معاویہ نے کہا: میں نے تم لوگوں پر کسی تہمت کی بنا پر قسم نہیں کھلائی ہے ۱؎ ، رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے جیسا مقام ومنزلت رکھنے والا کوئی شخص مجھ سے کم (ادب واحتیاط کے سبب) آپ سے حدیثیں بیان کرنے والا نہیں ہے۔ (پھر بھی میں تمہیں یہ حدیث سنا رہاہوں) رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے پاس گئے وہ سب دائرہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، ان سے کہا: کس لیے بیٹھے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم یہاں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اللہ نے ہمیں اسلام کی طرف جو ہدایت دی ہے، اور مسلمان بنا کر ہم پر جو احسان فرمایا ہے ہم اس پر اس کا شکریہ اداکرتے ہیں، اوراس کی حمد بیان کرتے ہیں، آپ ﷺنے فرمایا:'' کیا واقعی ؟! قسم ہے تمہیں اسی چیز نے یہاں بٹھا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی، ہمیں اسی مقصد نے یہاں بٹھا یا ہے، آپ نے فرمایا:'' میں نے تمہیں قسم اس لیے نہیں دلائی ہے، میں نے تم لوگوں پرکسی تہمت کی بناپرقسم نہیں کھلائی ہے، بات یہ ہے کہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے بتایا اور خبردی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ فرشتوں پر فخر کرتاہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: بات یہ نہیں ہے کہ میں آپ لوگوں کی ثقاہت کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں اس لیے قسم کھلائی ہے ، بلکہ خود آپ ﷺنے اسی طرح صحابہ سے قسم لیکریہ حدیث بیان فرمائی تھی، اسی اتباع میں،میں نے بھی آپ لوگوں کوقسم کھلائی ہے، حدیثوں کی روایت کا یہ بھی ایک انداز ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جس کیفیت کے ساتھ حدیث بیان کی ہوتی ہے ، صحابہ سے لے کراخیرسندتک کے ساری راوی اسی طرح روایت کرتے ہیں، اس سے حدیث کی صحت پر اورزیادہ یقین بڑھ جاتاہے (اورخودآپﷺنے بھی کسی شک وشبہ کی بناپران سے قسم نہیں لی تھی ، بلکہ بیان کی جانے والی بات کی اہمیت جتانے کے لیے ایک اسلوب اختیارکیا تھا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَوْمِ يَجْلِسُونَ وَلاَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ
۸-باب: لوگوں کی مجلس اللہ کے ذکرسے غافل ہواس کی برائی کابیان​


3380- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ صَالِحٍ مَوْلَى التَّوْأَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ، وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَائَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَهُمْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَعْنَى قَوْلِهِ تِرَةً يَعْنِي حَسْرَةً وَنَدَامَةً، و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْعَرَبِيَّةِ التِّرَةُ هُوَ الثَّأْرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۰۶)، وحم (۲/۴۳۲، ۴۴۶، ۴۵۳) (صحیح)
(سندمیں صالح بن نبہان مولی التوأمۃ صدوق راوی ہیں، لیکن آخر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، اس لیے ان سے روایت کرنے والے قدیم تلامیذجیسے ابن ابی ذئب اور ابن جریج کی ان سے روایت مقبول ہے، لیکن اختلاط کے بعد روایت کرنے والے شاگردوں کی ان سے روایت ضعیف ہوگی، مسند احمدکی روایت زیاد بن سعد اور ابن ابی ذئب قدماء سے ہے ، نیز طبرانی او رحاکم میں ان سے راوی عمارہ بن غزیہ قدماء میں سے ہے، اور حاکم نے اس کی سند کو صحیح کہاہے، اور متابعات بھی ہیں، جن کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم: ۷۴)
۳۳۸۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کی یاد نہ کریں ، اور نہ اپنے نبی اکرمﷺ پر (درود) بھیجیں تو یہ چیز ان کے لیے حسرت وندامت کا باعث بن سکتی ہے۔ اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے، اور چاہے تو انہیں بخش دے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے، ۳- اور آپ کے قول ''ترة'' کے معنی ہیں حسرت وندامت کے، بعض عربی داں حضرات کہتے ہیں: ''ترة'' کے معنی بدلہ کے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کا سبق یہ ہے کہ مسلمان جب بھی کسی میٹنگ میں بیٹھیں توآخرمجلس کے خاتمہ پرپڑھی جانے والی دعاء ضرورپڑھ لیں، نہیں تویہ مجلس بجائے اجروثواب کے سبب کے وبال کا سبب بن جائے گی (یہ حدیث رقم ۳۴۳۳پر آرہی ہے )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ
۹-باب: مسلمان کی دعا کے مقبول ہونے کابیان​


3381- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْعُو بِدُعَائٍ إِلا آتَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ أَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنْ السُّوئِ مِثْلَهُ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۸۱) (حسن)
( سند میں ابن لھیعہ ضعیف، اور ابوالزبیر مدلس ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے)
۳۳۸۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا: ''جو کوئی بندہ اللہ سے دعاکرکے مانگتا ہے اللہ اسے یاتو اس کی مانگی ہوئی چیز دے دیتاہے، یا اس دعا کے نتیجہ میں اس دعا کے مثل اس پر آئی ہوئی مصیبت دور کردیتاہے، جب تک اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی (رشتہ ناتا توڑنے) کی دعا نہ کی ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابوسعید خدری اور عبادہ بن صامت سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : معلوم ہواکہ دعاء میں فائدہ ہے، اللہ کی مشیت کے مطابق اگر وہ قبول ہوجاتی ہے تو جو چیز اس سے مانگی گئی ہے وہ مانگنے والے کو دی جاتی ہے اور اگر جب مشیت قبول نہ ہوئی تو اس کی مثل مستقبل میں پہنچنے والی کوئی مصیبت اس سے دور کی جاتی ہے، یا پھر آخرت میں دعاء کی مثل رب العالمین مانگنے والے کو اجر عطا فرمائے گا، لیکن اگردعاء کسی گناہ کے لیے ہویا صلہ رحمی کے خلاف ہو تو نہ تو قبول ہوتی ہے،اور نہ ہی اس کا ثواب ملتاہے، اسی طرح دعاء کی قبولیت کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ دعاء آدمی کے حسب حال ہو، اس کی فطری حیثیت سے ماوراء نہ ہوجیسے کوئی غریب ہندی یہ دعا ء کرے کہ اے اللہ مجھے امریکہ کاصدربنادے ۔


3382- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَطِيَّةَ اللَّيْثِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَائَ فِي الرَّخَائِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۹۷) (حسن)
(سندمیں شہر بن حوشب متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو الصحیحۃ رقم: ۵۹۳)
۳۳۸۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جسے اچھا لگے ( اور پسند آئے) کہ مصائب ومشکلات (اور تکلیف دہ حالات) میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرے، تو اسے کشادگی وفراخی کی حالت میں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


3383- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "أَفْضَلُ الذِّكْرِ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَأَفْضَلُ الدُّعَائِ الْحَمْدُ لِلَّهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ.
وَقَدْ رَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۲۴۲ (۸۳۱)، ق/الأدب ۵۵ (۳۸۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۲۲۸۶) (حسن)
۳۳۸۳- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :'' سب سے بہترذکر ''لاإلہ إلا اللہ '' ہے، اور بہترین دعا '' الحمد للہ'' ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-علی بن مدینی اور کئی نے یہ حدیث موسیٰ بن ابراہیم سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : '' لا إله إلا الله'' افضل ترین ذکراس لیے ہے کہ یہ اصل التوحیدہے اورتوحید کے مثل کوئی نیکی نہیں، نیز یہ شرک کو سب سے زیادہ نفی کرنے والا جملہ ہے ، اوریہ دونوں باتیں اللہ کوسب سے زیادہ پسندہیں، اور'' الحمد لله''سب سے افضل دعاء اس معنی کرکے ہے کہ جوبندہ اللہ کی حمدکرتاہے وہ اللہ کی نعمتوں کاشکریہ اداکرتاہے ، اوراللہ تعالیٰ نے فرمایاہے''لئن شكرتم لأزيدنكم'' (اگرتم میرا شکراداکروگے تومیں تم کو اورزیادہ دوں گا ، تواس سے بہترطلب (دعاء)اورکیا ہوگی، اوربعض علماء کا کہناہے کہ ''الحمد لله''سے شارہ ہے سورہ الحمدللہ میں جودعاء اس کی طرف ،یعنی ''إهدنا الصراط المستقيم '' اوریہ سب سے افضل دعاء ہے۔


3384- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ الْبَهِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَالْبَهِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ.
* تخريج: خ/الأذان ۱۹ (تعلیقا) م/الطھارۃ ۳۰ (۳۷۳)، والحیض ۳۰ (۳۷۳)، د/الطھارۃ ۹ (۱۸)، ق/الطھارۃ ۱۱ (۳۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۶۱)، وحم (۶/۷۰، ۱۵۳، ۱۷۸) (صحیح)
۳۳۸۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ ہروقت اللہ کو یاد کرتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف یحییٰ بن زکریا بن أبی زائدہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سبھی اوقات سے یہ اوقات مستثنیٰ ہیں مثلاً: پاخانہ ، پیشاب کی حالت اور جماع کی حالت، کیوں کہ ان حالات میں ذکر الٰہی نہ کرنا، اسی طرح ان حالتوں میں موذن کے کلمات کا جواب نہ دینا اور چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہنا اور سلام کا جواب نہ دینا بہتر ہے۔
 
Top