• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74-بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ
۷۴-باب: سورہ مطففین سے بعض آیات کی تفسیر​


3334- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَائُ فَإِذَا هُوَ نَزَعَ، وَاسْتَغْفَرَ، وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ وَهُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ".
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۴۱ (۴۱۸)، ق/الزہد ۲۹ (۴۲۴۴) (حسن)
۳۳۳۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بندہ جب کوئی گناہ کرتاہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفاراور توبہ کرتاہے تو اس کے دل کی صفائی ہوجاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتاہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتاہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ ''ران'' ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت { كَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ } ۱؎ میں کیاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے(المطففین:۱۴)۔


3335- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ حَمَّادٌ: هُوَ عِنْدَنَا مَرْفُوعٌ {يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ} قَالَ: يَقُومُونَ فِي الرَّشْحِ إِلَى أَنْصَافِ آذَانِهِمْ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۲۲ (صحیح)
۳۳۳۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ آیت {يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ} ۱؎ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ لو گ آدھے کانوں تک پسینے میں شرابور ہوں گے۔
حماد کہتے ہیں: یہ حدیث ہمارے نزدیک مرفوع ہے۔
وضاحت ۱؎ : جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے(المطففین:۶)۔


3336- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: {يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ} قَالَ: يَقُومُ أَحَدُهُمْ فِي الرَّشْحِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۳۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت ''يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ'' کی تفسیر میں فرمایا کہ اس دن ہر ایک آدھے کانوں تک پسینے میں کھڑا ہوگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75-بَاب وَمِنْ سُورَةِ إِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ
۷۵-باب: سورہ إذا السماء انشقت سے بعض آیات کی تفسیر​


3337- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ هَلَكَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: {فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ -إِلَى قَوْلِهِ- يَسِيرًا} قَالَ: "ذَلِكِ الْعَرْضَُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۴۲۶ (صحیح)
3337/م1- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
3337/م2- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج : انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۳۳۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:'' جس سے حساب کی جانچ پڑتال کرلی گئی وہ ہلاک (برباد) ہوگیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تو فرماتا ہے {فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيْراً} ۱؎ آپ نے فرمایا:'' وہ حساب وکتاب نہیں ہے، وہ تو صرف نیکیوں کو پیش کردینا ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ہم سے بیان کیا سوید بن نصر نے وہ کہتے ہیں: ہمیں خبردی عبداللہ بن مبارک نے، اوروہ روایت کرتے ہیں عثمان بن اسود سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح،۳- ہم سے بیان کیا محمد بن ابان اور کچھ دیگر لوگوں نے انہوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا عبدالوہاب ثقفی نے اورانہوں نے ایوب سے، ایوب نے ابن ابوملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے عائشہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : جس کو کتاب دائیں ہاتھ میں ملی اس کا حساب آسانی سے ہوگا(الانشقاق:۷-۸)۔


3338- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْهَمَذَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ" قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَنَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۳) (حسن صحیح)
۳۳۳۸- انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایاکہ جس کا حساب ہوا (یوں سمجھو کہ) وہ عذاب میں پڑا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے قتادہ کی روایت سے جسے وہ انس سے،اور انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ
۷۶-باب: سورہ بروج سے بعض آیات کی تفسیر​


3339- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ يَوْمُ عَرَفَةَ، وَالشَّاهِدُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، وَمَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَلاَ غَرَبَتْ عَلَى يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْهُ فِيهِ سَاعَةٌ لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اللَّهَ بِخَيْرٍ إِلاَّ اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَلاَ يَسْتَعِيذُ مِنْ شَيْئٍ إِلا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۵۹) (حسن) (الصحیحۃ ۱۵۰۲)
3339م- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ الأَسَدِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ الرَّبَذِيُّ يُكْنَى أَبَا عَبْدِالْعَزِيزِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مَنْ الأَئِمَّةِ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، وَمُوسَى ابْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن) (الصحیحۃ ۱۵۰۲)
۳۳۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' {الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ} سے مراد قیامت کا دن ہے، اور {وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ} سے مراد عرفہ کادن اور(شاہد) سے مراد جمعہ کادن ہے، اورجمعہ کے دن سے افضل کوئی دن نہیں ہے جس پر سوج کا طلوع وغروب ہو اہو، اس دن میں ایک ایسی گھڑی ( ایک ایسا وقت ) ہے کہ اس میں جو کوئی بندہ اپنے رب سے بھلائی کی دعا کرتاہے تو اللہ اس کی دعاقبول کرلیتاہے، اور اس گھڑی میں جوکوئی مومن بندہ کسی چیز سے پناہ چاہتاہے تو اللہ اسے اس سے بچالیتا اور پناہ دے دیتاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا: وہ کہتے ہیں: ہم سے قرّان بن تمام اسدی نے بیان کیا، اورقرّان نے موسیٰ بن عبیدہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی،۲- موسیٰ بن عبیدہ ربذی کی کنیت ابوعبدالعزیز ہے، ان کے بارے میں ان کے حافظہ کے سلسلے میں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے کلام کیا ہے، شعبہ ، ثوری اور کئی اور ائمہ نے ان سے روایت کی ہے،۳- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۴- ہم اسے صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں،انہیں یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف ٹھہرا یاہے۔


3340- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ هَمَسَ وَالْهَمْسُ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ تَحَرُّكُ شَفَتَيْهِ كَأَنَّهُ يَتَكَلَّمُ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ هَمَسْتَ قَالَ: "إِنَّ نَبِيًّا مِنْ الأَنْبِيَائِ كَانَ أُعْجِبَ بِأُمَّتِهِ فَقَالَ: مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلائِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْهُمْ بَيْنَ أَنْ أَنْتَقِمَ مِنْهُمْ، وَبَيْنَ أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ؛ فَاخْتَارُوا النِّقْمَةَ؛ فَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتَ؛ فَمَاتَ مِنْهُمْ فِي يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفًا".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۹) (صحیح)
3340/م- قَالَ: "وَكَانَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ الآخَرِ قَالَ: كَانَ مَلِكٌ مِنْ الْمُلُوكِ، وَكَانَ لِذَلِكَ الْمَلِكِ كَاهِنٌ يَكْهَنُ لَهُ فَقَالَ الْكَاهِنُ: انْظُرُوا لِي غُلامًا فَهِمًا أَوْ قَالَ: فَطِنًا لَقِنًا؛ فَأُعَلِّمَهُ عِلْمِي هَذَا؛ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ؛ فَيَنْقَطِعَ مِنْكُمْ هَذَا الْعِلْمُ، وَلا يَكُونَ فِيكُمْ مَنْ يَعْلَمُهُ قَالَ: فَنَظَرُوا لَهُ عَلَى مَا وَصَفَ؛ فَأَمَرُوهُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِكَ الْكَاهِنَ، وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْهِ؛ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهِ، وَكَانَ عَلَى طَرِيقِ الْغُلاَمِ رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ -قَالَ مَعْمَرٌ: أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ كَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ- قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلاَمُ يَسْأَلُ ذَلِكَ الرَّاهِبَ كُلَّمَا مَرَّ بِهِ؛ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى أَخْبَرَهُ فَقَالَ: إِنَّمَا أَعْبُدُ اللَّهَ قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلامُ يَمْكُثُ عِنْدَ الرَّاهِبِ، وَيُبْطِئُ عَنْ الْكَاهِنِ؛ فَأَرْسَلَ الْكَاهِنُ إِلَى أَهْلِ الْغُلامِ إِنَّهُ لا يَكَادُ يَحْضُرُنِي؛ فَأَخْبَرَ الْغُلامُ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: إِذَا قَالَ لَكَ الْكَاهِنُ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْ: عِنْدَ أَهْلِي، وَإِذَا قَالَ لَكَ أَهْلُكَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّكَ كُنْتَ عِنْدَ الْكَاهِنِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا الْغُلامُ عَلَى ذَلِكَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنْ النَّاسِ كَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْهُمْ دَابَّةٌ؛ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ تِلْكَ الدَّابَّةَ كَانَتْ أَسَدًا قَالَ: فَأَخَذَ الْغُلامُ حَجَرًا؛ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مَا يَقُولُ الرَّاهِبُ: حَقًّا؛ فَأَسْأَلُكَ أَنْ أَقْتُلَهَا، قَالَ: ثُمَّ رَمَى فَقَتَلَ الدَّابَّةَ؛ فَقَالَ النَّاسُ: مَنْ قَتَلَهَا قَالُوا: الْغُلامُ؛ فَفَزِعَ النَّاسُ، وَقَالُوا: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْهُ أَحَدٌ قَالَ: فَسَمِعَ بِهِ أَعْمَى فَقَالَ لَهُ: إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَكَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ لَهُ: لا أُرِيدُ مِنْكَ هَذَا، وَلَكِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْكَ بَصَرُكَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّهُ عَلَيْكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ؛ فَرَدَّ عَلَيْهِ بَصَرَهُ؛ فَآمَنَ الأَعْمَى؛ فَبَلَغَ الْمَلِكَ أَمْرُهُمْ؛ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ؛ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَالَ: لأَقْتُلَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْكُمْ قِتْلَةً لا أَقْتُلُ بِهَا صَاحِبَهُ فَأَمَرَ بِالرَّاهِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ أَعْمَى؛ فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَى مَفْرِقِ أَحَدِهِمَا فَقَتَلَهُ، وَقَتَلَ الآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَى، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلامِ؛ فَقَالَ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا؛ فَأَلْقُوهُ مِنْ رَأْسِهِ؛ فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْجَبَلِ؛ فَلَمَّا انْتَهَوْا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوهُ مِنْهُ جَعَلُوا يَتَهَافَتُونَ مِنْ ذَلِكَ الْجَبَلِ، وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلا الْغُلامُ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ؛ فَأَمَرَ بِهِ الْمَلِكُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِهِ إِلَى الْبَحْرِ؛ فَيُلْقُونَهُ فِيهِ؛ فَانْطُلِقَ بِهِ إِلَى الْبَحْرِ؛ فَغَرَّقَ اللَّهُ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ وَأَنْجَاهُ فَقَالَ: الْغُلامُ لِلْمَلِكِ إِنَّكَ لا تَقْتُلُنِي حَتَّى تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلامِ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ؛ فَصُلِبَ، ثُمَّ رَمَاهُ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلامِ قَالَ: فَوَضَعَ الْغُلامُ يَدَهُ عَلَى صُدْغِهِ حِينَ رُمِيَ، ثُمَّ مَاتَ؛ فَقَالَ أُنَاسٌ: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلامُ عِلْمًا مَا عَلِمَهُ أَحَدٌ؛ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ هَذَا الْغُلامِ، قَالَ: فَقِيلَ لِلْمَلِكِ: أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَكَ ثَلاثَةٌ؛ فَهَذَا الْعَالَمُ كُلُّهُمْ قَدْ خَالَفُوكَ، قَالَ: فَخَدَّ أُخْدُودًا، ثُمَّ أَلْقَى فِيهَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ، ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ تَرَكْنَاهُ، وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ؛ فَجَعَلَ يُلْقِيهِمْ فِي تِلْكَ الأُخْدُودِ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِيهِ: {قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ -حَتَّى بَلَغَ- الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ} قَالَ: فَأَمَّا الْغُلامُ؛ فَإِنَّهُ دُفِنَ فَيُذْكَرُ أَنَّهُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَأُصْبُعُهُ عَلَى صُدْغِهِ كَمَا وَضَعَهَا حِينَ قُتِلَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱۷ (۳۰۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۹) (صحیح)
۳۳۴۰- صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب عصر پڑھتے تھے، تو''ہمس'' (سرگوشی) کرتے ، ''همس'' بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہونٹوں کو اس طرح حرکت دینا ( ہلانا) ہے گویا کہ وہ باتیں کررہاہے (آخرکار) آپ سے پوچھ ہی لیاگیا، اللہ کے رسول ! جب آپ عصر کی صلاۃ پڑھتے ہیں تو آپ دھیرے دھیرے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں (کیا پڑھتے ہیں؟) آپ نے نبیوں میں سے ایک نبی کا قصہ بیان کیا، وہ نبی اپنی امت کی کثرت دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اور کہا: ان کے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتاہے؟ اللہ نے اس نبی کو وحی کیا کہ تم اپنی قوم کے لیے دوباتوں میں سے کوئی ایک بات پسند کرلو، یاتومیں ان سے انتقام لوں یا میں ان پر ان کے دشمن کو مسلط کردوں، تو انہوں نے نقمہ (سزا و بدلہ) کو پسند کیا، نتیجۃً اللہ نے ان پر موت مسلط کردی،چنانچہ ایک دن میں ستر ہزار لوگ مرگئے ۱؎ ۔
صہیب (راوی) کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو اس کے ساتھ آپ نے ایک اور حدیث بھی بیان فرمائی ، آپ نے فرمایا:'' ایک بادشاہ تھا اس باد شاہ کا ایک کاہن تھا، وہ اپنے بادشاہ کو خبریں بتاتاتھا ، اس کا ہن نے بادشاہ سے کہا: میرے لیے ایک ہوشیار لڑکا ڈھونڈھ دو،راوی کو یہاں شبہہ ہوگیا کہ''غلاماً فهما ''کہا یا ''فطنا لقنا'' کہا (معنی تقریباً دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے، )میں اسے اپنا یہ علم سکھادوں، کیوں کہ میں ڈرتاہوں کہ اگر میں مرگیا تو تمہارے پاس سے یہ علم ختم ہوجائے گا اور تم میں کوئی نہ رہ جائے گا جو اس علم سے واقف ہو، آپ فرماتے ہیں :اس نے جن صفات وخصوصیات کا حامل لڑکا بتایا تھا لوگوں نے اس کے لیے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ دیا، لوگوں نے اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کا ہن کے پاس حاضر ہوا کر اوراس کے پاس بار بار آتا جاتا ہے وہ لڑکا اس کا ہن کے پاس آنے جانے لگا، اس لڑکے کے راستے میں ایک عبادت خانہ کے اندر ایک راہب رہاکرتاتھا (ا س حدیث کے ایک راوی) معمر کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں عبادت خانہ کے لوگ اس وقت کے مسلمان تھے، وہ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا دین کی کچھ نہ کچھ باتیں اس سے پوچھا کرتا، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس لڑکے نے راہب کو اپنے متعلق خبردی ، کہا: میں اللہ کی عبادت کرنے لگاہوں وہ لڑکا راہب کے پاس زیادہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے اور رکنے لگا اور کاہن کے پاس آنا جانا کم کردیا، کا ہن نے لڑکے والوں کے یہاں کہلا بھیجا کہ لگتا ہے لڑکا اب میرے پاس نہ آیاجایا کرے گا، لڑکے نے راہب کو بھی یہ بات بتادی، راہب نے لڑکے سے کہا کہ جب کاہن تم سے پوچھے کہاں تھے؟ تو کہہ دیا کرو گھروالوں کے پاس تھا ، اور جب تیرے گھر والے کہیں کہ تو کہاں تھا؟ تو ان کو بتایا کہ تم کاہن کے پاس تھے،راوی کہتے ہیں: غلام کے دن ایسے ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لڑکے کا گزر لوگوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پر ہواجنہیں ایک جانور نے روک رکھاتھا، بعض لوگوں نے کہا کہ وہ چوپایہ شیر تھا ، لڑکے نے یہ کیاکہ ایک پتھر اٹھایا اور کہا: اے اللہ ! راہب جو کہتا ہے اگروہ سچ ہے تو میں تجھ سے اسے قتل کردینے کی توفیق چاہتاہوں ، یہ کہہ کر اس نے اسے پتھر مارا اور جانور کو ہلاک کردیا، لوگوں نے پوچھا: اسے کس نے مارا؟ جنہوں نے دیکھا تھا ، انہوں نے کہا: فلاں لڑکے نے، یہ سن کر لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ، لوگوں نے کہا: اس لڑکے نے ایسا علم سیکھا ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا ، یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اس نے لڑکے سے کہا: اگر تومیری بینائی واپس لادے تو میں تجھے یہ دوں گا، لڑکے نے کہا: میں تجھ سے یہ سب چیزیں نہیں مانگتا تو یہ بتا اگر تیری بینائی تجھے واپس مل گئی تو کیا تو اپنی بینا ئی عطاکرنے والے پر ایمان لے آئے گا؟ اس نے کہا: ہاں۔(بالکل ایمان لے آؤں گا)۔
راوی کہتے ہیں: لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی، یہ دیکھ کر اندھا ایمان لے آیا، ان کامعاملہ بادشاہ تک پہنچ گیا،اس نے انہیں بلابھیجا تو انہیں لاکر حاضر کیاگیا، اس نے ان سے کہا: میں تم سب کو الگ الگ طریقوں سے قتل کرڈالوں گا ، پھراس نے راہب کو اور اس شخص کو جو پہلے اندھا تھا قتل کرڈالنے کا حکم دیا، ان میں سے ایک کے سرکے بیچوں بیچ (مانگ) پر آرا رکھ کر چیر دیا گیا اور دوسرے کو دوسرے طریقے سے قتل کردیاگیا، پھر لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ایسے پہاڑ پر لے جاؤ جو ایسا ایسا ہو اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر سے نیچے پھینک دو چنانچہ لوگ اسے اس خاص پہاڑ پر لے گئے اورجب اس آخری جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے وہ لوگ اسے پھینک دینا چاہتے تھے،تو وہ خود ہی اس پہاڑ سے لڑھک لڑھک کرگرنے لگے،یہاں تک کہ صرف لڑکاباقی بچا،پھرجب وہ واپس آیا توبادشاہ نے اس کے متعلق پھر حکم دیاکہ اسے سمندر میں لے جاؤ، اور اسے اس میں ڈبوکر آجاؤ، اسے سمندر پر لے جایاگیا تو اللہ نے ان سب کو جو اس لڑکے کے ساتھ گئے ہوئے تھے ڈبودیا، اور خود لڑکے کو بچالیا، (لڑکا بچ کر پھر بادشاہ کے پاس آیا) اور اس سے کہا: تم مجھے اس طرح سے مار نہ سکو گے إلا یہ کہ تم مجھے سولی پر لٹکا دو اور مجھے تیر مارو، اور تیر مارتے وقت کہو اس اللہ کے نام سے میں تیر چلارہاہوں جو اس لڑکے کارب ہے، بادشاہ نے اس لڑکے کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ،لڑکا سولی پر لٹکادیا گیا پھر بادشاہ نے اس پر تیر مارا، اور تیر مارتے ہوئے کہا:'' بسم اللہ رب ھذا الغلام '' بادشاہ نے تیر چلایاتو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ لیا پھر مرگیا(شہید)ہوگیا، لوگ بول اٹھے اس لڑکے کو ایسا علم حاصل تھا جو کسی اور کو معلوم نہیں ، ہم تو اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں، آپ نے فرمایا:'' بادشاہ سے کہاگیا کہ آپ تو تین ہی آدمیوں سے گھبرا گئے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی، اب تو یہ سارے کے سارے لوگ ہی آپ کے خلاف ہوگئے ہیں ( اب کیا کریں گے؟) آپ نے فرمایا:'' اس نے کئی ایک کھائیاں (گڈھے) کھود وائے اوراس میں لکڑیاں ڈلوادیں اور آگ بھڑکا دی، لوگوں کو اکٹھا کرکے کہا: جو اپنے (نئے) دین سے پھر جائے گا اسے ہم چھوڑ دیں گے اور جو اپنے دین سے نہ پلٹے گا ہم اسے اس آگ میں جھونک دیں گے ،پھر وہ انہیں ان گڈھوں میں ڈالنے لگا، آپ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے متعلق فرماتاہے(پھرآپ نے آیت {قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ } سے لے کر {وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ} تک پڑھی ۲؎ ۔
راوی کہتے ہیں: لڑکا (سولی پر لٹکا کر قتل کردیے جانے کے بعد ) دفن کردیا گیا تھا، کہاجاتاہے کہ وہ لڑکا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں زمین سے نکالا گیا، اس کی انگلیاں اس کی کنپٹی پر اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح اس نے اپنے قتل ہوتے وقت رکھاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا(جیساکہ مسنداحمدکی مطول روایت میں ہے): میں اپنی اس ہمس (خاموش سرگوشی) میں تمہاری اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کو خوش تو ہوتا ہوں لیکن اللہ کے اس طرح کے نقمہ (عذاب وسزا سے) پناہ مانگتاہوں اور میں اللہ سے یہ دعاکرتاہوں ''اللهم بك أقاتل وبك أحاول ولا حول ولا قوة إلا بالله''۔
وضاحت ۲؎ : ( خندقوں والے ہلاک کئے گئے وہ ایک آگ تھی ایندھن والی، جب کہ وہ لوگ اس کے آس پا س بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کررہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے، یہ لوگ ان مسلمانوں سے (کسی اور گناہ کا) بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے(البروج:۴-۸)یہ واقعہ رسول اللہ کی ولادت سے پچاس سال پہلے ملک یمن میں پیش آیا تھا، اس ظالم بادشاہ کا نام ذونواس یوسف تھا، یہ یہودی المذہب تھا، (تفصیل کے لیے دیکھئے الرحیق المختوم / صفی الرحمن مبارکپوری)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْغَاشِيَةِ
۷۷-باب: سورہ غاشیہ سے بعض آیات کی تفسیر​


3341- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَإِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ فَإِذَا قَالُوهَا عَصَمُوا مِنِّي دِمَائَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ، ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۸ (۲۱/۳۵) (تحفۃ الأشراف: ۲۷۴۴) (صحیح)
۳۳۴۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' مجھے حکم ملاہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں (جنگ جاری رکھو) جب تک کہ لوگ '' لا إلہ إلا اللہ'' کہنے نہ لگ جائیں، جب لوگ اس کلمے کو کہنے لگ جائیں تووہ اپنے خون اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیں گے، سوائے اس صورت کے جب کہ جان ومال دینا حق بن جائے تو پھردینا ہی پڑے گا، اور ان کا (حقیقی) حساب تو اللہ ہی لے گا، پھر آپ نے آیت {إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ} ۱؎ پڑھی '' ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں آپ کچھ ان پر داروغہ نہیں ہیں(الغاشیہ:۲۲)۔
وضاحت ۲؎ : بظاہراس باب کی حدیث اوراس آیت میں تضادنظرآرہاہے ، امام نووی فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے وقت قتال کاحکم نہیں تھا، بعدمیں ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْفَجْرِ
۷۸-باب: سورہ فجر سے بعض آیات کی تفسیر​


3342- حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَأَبُو دَاوُدَ قَالاَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عِصَامٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَنِ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ فَقَالَ: هِيَ الصَّلاةُ بَعْضُهَا شَفْعٌ وَبَعْضُهَا وِتْرٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ قَتَادَةَ، وَقَدْ رَوَاهُ خَالِدُ بْنُ قَيْسٍ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ أَيْضًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۹) (ضعیف الإسناد)
( سند میں ایک مبہم راوی ہے)
۳۳۴۲- عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ سے'' شفع'' اور'' وتر'' کے بارے میں پوچھاگیا کہ شفع (جفت) اور وتر(طاق) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:'' اس سے مراد صلاۃ ہے ، بعض صلاتیں شفع (جفت) ہیں اور بعض صلاتیں وتر(طاق) ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف قتادہ کی روایت سے جانتے ہیں،۳- خالد بن قیس حدانی نے بھی اسے قتادہ سے روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79-بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا
۷۹-باب: سورہ والشمس وضحاھا سے بعض آیات کی تفسیر​


3343- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَوْمًا يَذْكُرُ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَهَا فَقَالَ: إِذْ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَارِمٌ عَزِيزٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ النِّسَائَ فَقَالَ: "إِلى مَا يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ وَلَعَلَّهُ أَنْ يُضَاجِعَهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ" قَالَ: ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنْ الضَّرْطَةِ، فَقَالَ: "إِلى مَا يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۱۷ (۳۳۷۷)، وتفسیر الشمس ۱ (۴۹۴۲)، والنکاح ۹۴ (۵۲۰۴)، والأدب ۴۳ (۶۰۴۲)، م/الجنۃ والنار ۱۳ (۲۸۵۵)، ق/النکاح ۵۱ (۱۹۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹۴) (صحیح)
۳۳۴۳- عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک دن اس اونٹنی کا (مراد صالح علیہ السلام کی اونٹنی) اور جس شخص نے اس اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں کا ذکر کرتے ہوئے سنا ، آپ نے یہ آیت {إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا انْبَعَثَ} تلاوت کی، اس کا م کے لیے ایک شرِّ سخت دل طاقتور ، قبیلے کا قوی ومضبوط شخص اٹھا، مضبوط وقوی ایسا جیسے زمعہ کے باپ ہیں، پھر میں نے آپ کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا:'' آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے اور جب کہ اسے توقع ہوتی ہے کہ وہ اس دن کے آخری حصہ میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی، انہوں نے کہا: پھر آپ نے کسی کے ہوا خارج ہوجانے پر ان کے ہنسنے پر انہیں نصیحت کی ، آپ نے فرمایا:'' آخرتم میں کاکوئی کیوں ہنستا (ومذاق اڑاتا) ہے جب کہ وہ خود بھی وہی کام کرتاہے '' ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹنے والے بدبخت کے ذکرکے ساتھ اسلام کی دواہم ترین اخلاقی تعلیمات کاذکرہے ، ۱- اپنی شریک زندگی کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور۲- مجلس میں کسی کی ریاح زورسے خارج ہوجانے پرنہ ہنسنے کا مشورہ ، کس حکیمانہ پیرائے میں آپ ﷺنے دونوں باتوں کی تلقین کی ہے !قا بلِ غورہے، فداہ أبی وأمی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80-بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى
۸۰-باب: سورہ واللیل إذا یغشی سیبعض آیات کی تفسیر​


3344- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي الْبَقِيعِ فَأَتَى النَّبِيُّ ﷺ فَجَلَسَ، وَجَلَسْنَا مَعَهُ وَمَعَهُ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الأَرْضِ؛ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَائِ فَقَالَ: مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلا قَدْ كُتِبَ مَدْخَلُهَا؛ فَقَالَ الْقَوْمُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَلا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا؛ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ؛ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَائِ؛ فَإِنَّهُ يَعْمَلُ لِلشَّقَائِ قَالَ: بَلْ اعْمَلُوا؛ فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ؛ فَإِنَّهُ يُيَسَّرُ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَائِ؛ فَإِنَّهُ يُيَسَّرُ لِعَمَلِ الشَّقَائِ، ثُمَّ قَرَأَ: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى }[الليل: 5-10]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۳۶ (صحیح)
۳۳۴۴- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ہم (قبرستان) بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے، نبی اکرم ﷺ بھی تشریف لے آئے، آپ بیٹھ گئے، ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ بیٹھ گئے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کرید نے لگے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایااورفرمایا:'' ہرمتنفس کاٹھکانہ (جنت یا جہنم) پہلے سے لکھ دیاگیاہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم اپنے نوشتہ(تقدیر) پر اعتماد وبھروسہ کرکے بیٹھ رہیں؟ جو اہل سعادہ نیک بختوں میں سے ہوگا وہ نیک بختی ہی کے کام کرے گا، اور جو بد بختوں میں سے ہوگا وہ بدبختی ہی کے کام کرے گا، آپﷺنے فرمایا:''نہیں بلکہ عمل کرو،کیونکہ ہر ایک کو توفیق ملے گی، جو نیک بختوں میں سے ہوگا، اس کے لیے نیک بختی کے کام آسان ہوں گے اور جو بدبختوں میں سے ہوگا اس کے لیے بدبختی کے کام آسان ہوں گے، پھر آپ نے (سورہ واللیل کی) آیت {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى} ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے ، لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی تو ہم بھی اس کی تنگی اور مشکل کے سامان میسر کردیں گے (اللیل:۵-۱۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81-بَاب وَمِنْ سُورَةِ وَالضُّحَى
۸۱-باب: سورہ والضحی سے بعض آیات کی تفسیر​


3345- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ جُنْدَبٍ الْبَجَلِيِّ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي غَارٍ فَدَمِيَتْ أُصْبُعُهُ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:
"هَلْ أَنْتِ إِلا إِصْبَعٌ دَمِيتِ
وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ"
قَالَ: وَأَبْطَأَ عَلَيْهِ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلام فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ.
* تخريج: خ/الجھاد ۹ (۲۸۰۲)، والأدب ۹۰ (۶۱۴۶)، م/الجھاد ۳۹ (۱۷۹۶) (تحفۃ الأشراف: ۳۲۵۰)، وحم (۴/۳۱۲، ۳۱۳) (صحیح)
۳۳۴۵- جندب بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ایک غار میں تھا، آپ کی انگلی سے (کسی سبب سے) خون نکل آیا، اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تو صرف ایک انگلی ہے جس سے خون نکل آیا ہے اور یہ سب کچھ جو تجھے پیش آیا ہے اللہ کی راہ میں پیش آیا ہے، راوی کہتے ہیں: آپ کے پاس جبرئیل علیہ السلام کے آنے میں دیر ہوئی تو مشرکین نے کہا: (پروپگینڈہ کیا) کہ محمد (ﷺ) چھوڑدیے گئے، تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے (سورہ والضحیٰ کی ) آیت {مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى } ۱؎ نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے شعبہ اور ثوری نے بھی اسود بن قیس سے روایت کیا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : نہ توتیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اورنہ بیزار ہوا ہے(الضحیٰ:۳) (وحی میں یہ تاخیرکسی وجہ سے ہوئی تھی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82-بَاب وَمِنْ سُورَةِ أَلَمْ نَشْرَحْ
۸۲-باب: سورہ الم نشرح سے بعض آیات کی تفسیر​


3346- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ سَمِعْتُ قَائِلا يَقُولُ أَحَدٌ بَيْنَ الثَّلاَثَةِ؛ فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهَا مَائُ زَمْزَمَ؛ فَشَرَحَ صَدْرِي إِلَى كَذَا وَكَذَا -قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: مَا يَعْنِي؟- قَالَ: إِلَى أَسْفَلِ بَطْنِي؛ فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي؛ فَغُسِلَ قَلْبِي بِمَائِ زَمْزَمَ، ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَهُ ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً" وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَهَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ وَفِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۰۷)، ومناقب الأنصار ۴۲ (۳۳۳۲)، م/الإیمان ۷۴ (۱۶۴)، ن/الصلاۃ ۱ (۴۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۰۲)، وحم (۴/۱۰۷) (صحیح)
۳۳۴۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہاتھا اور کچھ جاگ رہاتھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھاتین آدمیوں میں سے ایک (محمدہیں) ۱؎ ،پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایاگیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک ، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا:''پیٹ کے نیچے تک،پھرآپ نے فرمایا:'' اس نے میرادل نکالا ، پھر اس نے میرے دل کو زمزم سے دھویا، پھر دل کو اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا اور ایمان وحکمت سے اسے بھر دیاگیا ۲؎ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ ہے'' ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۲- اسے ہشام دستوائی اورہمام نے قتادہ سے روایت کیا ہے ،۳- اس باب میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان تین میں ایک جعفر، ایک حمزہ اورایک نبیﷺتھے
وضاحت ۲؎ : شق صدرکا واقعہ کئی بارہواہے، انہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔
وضاحت۳؎ : یہ قصہ اسراء اورمعراج کاہے جوبہت معروف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83-بَاب وَمِنْ سُورَةِ التِّينِ
۸۳-باب: سورہ والتین سے بعض آیات کی تفسیر​


3347- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ قَال: سَمِعْتُ رَجُلا بَدَوِيًّا أَعْرَابِيًّا يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَرْوِيهِ يَقُولُ: مَنْ قَرَأَ: {وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ} فَقَرَأَ: {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} فَلْيَقُلْ بَلَى وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنْ الشَّاهِدِينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا يُرْوَى بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ هَذَا الأَعْرَابِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَلاَيُسَمَّى.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۵۴ (۸۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۰۰) (ضعیف)
(اس کا ایک راوی مبہم شخص ہے)
۳۳۴۷- اسماعیل بن امیہ کہتے ہیں : میں نے ایک بدوی اعرابی کو کہتے ہوئے سنا ، میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اسے روایت کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے تھے جو شخص ( سورہ) {وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ} پڑھے اور پڑھتے ہوئے {أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ} تک پہنچے تو کہے :''بلى وأنا ذلك من الشاهدين''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اسی سند کے ساتھ اسی اعرابی سے ابوہریرہ کے واسطے سے مروی ہے اور اس اعرابی کانام نہیں لیاگیا ہے۔
 
Top