76-بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْبُرُوجِ
۷۶-باب: سورہ بروج سے بعض آیات کی تفسیر
3339- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ يَوْمُ عَرَفَةَ، وَالشَّاهِدُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، وَمَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَلاَ غَرَبَتْ عَلَى يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْهُ فِيهِ سَاعَةٌ لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ يَدْعُو اللَّهَ بِخَيْرٍ إِلاَّ اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ وَلاَ يَسْتَعِيذُ مِنْ شَيْئٍ إِلا أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْهُ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۵۹) (حسن) (الصحیحۃ ۱۵۰۲)
3339م- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ الأَسَدِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ الرَّبَذِيُّ يُكْنَى أَبَا عَبْدِالْعَزِيزِ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَغَيْرُهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، وَالثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مَنْ الأَئِمَّةِ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، وَمُوسَى ابْنُ عُبَيْدَةَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَغَيْرُهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن) (الصحیحۃ ۱۵۰۲)
۳۳۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''
{الْيَوْمُ الْمَوْعُودُ} سے مراد قیامت کا دن ہے، اور
{وَالْيَوْمُ الْمَشْهُودُ} سے مراد عرفہ کادن اور(شاہد) سے مراد جمعہ کادن ہے، اورجمعہ کے دن سے افضل کوئی دن نہیں ہے جس پر سوج کا طلوع وغروب ہو اہو، اس دن میں ایک ایسی گھڑی ( ایک ایسا وقت ) ہے کہ اس میں جو کوئی بندہ اپنے رب سے بھلائی کی دعا کرتاہے تو اللہ اس کی دعاقبول کرلیتاہے، اور اس گھڑی میں جوکوئی مومن بندہ کسی چیز سے پناہ چاہتاہے تو اللہ اسے اس سے بچالیتا اور پناہ دے دیتاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم سے علی بن حجر نے بیان کیا: وہ کہتے ہیں: ہم سے قرّان بن تمام اسدی نے بیان کیا، اورقرّان نے موسیٰ بن عبیدہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی،۲- موسیٰ بن عبیدہ ربذی کی کنیت ابوعبدالعزیز ہے، ان کے بارے میں ان کے حافظہ کے سلسلے میں یحییٰ بن سعید قطان وغیرہ نے کلام کیا ہے، شعبہ ، ثوری اور کئی اور ائمہ نے ان سے روایت کی ہے،۳- یہ حدیث حسن غریب ہے ،۴- ہم اسے صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ حدیث بیان کرنے میں ضعیف مانے جاتے ہیں،انہیں یحییٰ بن سعید وغیرہ نے ضعیف ٹھہرا یاہے۔
3340- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ هَمَسَ وَالْهَمْسُ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ تَحَرُّكُ شَفَتَيْهِ كَأَنَّهُ يَتَكَلَّمُ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِذَا صَلَّيْتَ الْعَصْرَ هَمَسْتَ قَالَ: "إِنَّ نَبِيًّا مِنْ الأَنْبِيَائِ كَانَ أُعْجِبَ بِأُمَّتِهِ فَقَالَ: مَنْ يَقُومُ لِهَؤُلائِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ خَيِّرْهُمْ بَيْنَ أَنْ أَنْتَقِمَ مِنْهُمْ، وَبَيْنَ أَنْ أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ؛ فَاخْتَارُوا النِّقْمَةَ؛ فَسَلَّطَ عَلَيْهِمْ الْمَوْتَ؛ فَمَاتَ مِنْهُمْ فِي يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفًا".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۹) (صحیح)
3340/م- قَالَ: "وَكَانَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ الآخَرِ قَالَ: كَانَ مَلِكٌ مِنْ الْمُلُوكِ، وَكَانَ لِذَلِكَ الْمَلِكِ كَاهِنٌ يَكْهَنُ لَهُ فَقَالَ الْكَاهِنُ: انْظُرُوا لِي غُلامًا فَهِمًا أَوْ قَالَ: فَطِنًا لَقِنًا؛ فَأُعَلِّمَهُ عِلْمِي هَذَا؛ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ أَمُوتَ؛ فَيَنْقَطِعَ مِنْكُمْ هَذَا الْعِلْمُ، وَلا يَكُونَ فِيكُمْ مَنْ يَعْلَمُهُ قَالَ: فَنَظَرُوا لَهُ عَلَى مَا وَصَفَ؛ فَأَمَرُوهُ أَنْ يَحْضُرَ ذَلِكَ الْكَاهِنَ، وَأَنْ يَخْتَلِفَ إِلَيْهِ؛ فَجَعَلَ يَخْتَلِفُ إِلَيْهِ، وَكَانَ عَلَى طَرِيقِ الْغُلاَمِ رَاهِبٌ فِي صَوْمَعَةٍ -قَالَ مَعْمَرٌ: أَحْسِبُ أَنَّ أَصْحَابَ الصَّوَامِعِ كَانُوا يَوْمَئِذٍ مُسْلِمِينَ- قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلاَمُ يَسْأَلُ ذَلِكَ الرَّاهِبَ كُلَّمَا مَرَّ بِهِ؛ فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى أَخْبَرَهُ فَقَالَ: إِنَّمَا أَعْبُدُ اللَّهَ قَالَ: فَجَعَلَ الْغُلامُ يَمْكُثُ عِنْدَ الرَّاهِبِ، وَيُبْطِئُ عَنْ الْكَاهِنِ؛ فَأَرْسَلَ الْكَاهِنُ إِلَى أَهْلِ الْغُلامِ إِنَّهُ لا يَكَادُ يَحْضُرُنِي؛ فَأَخْبَرَ الْغُلامُ الرَّاهِبَ بِذَلِكَ فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: إِذَا قَالَ لَكَ الْكَاهِنُ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَقُلْ: عِنْدَ أَهْلِي، وَإِذَا قَالَ لَكَ أَهْلُكَ: أَيْنَ كُنْتَ؟ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّكَ كُنْتَ عِنْدَ الْكَاهِنِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا الْغُلامُ عَلَى ذَلِكَ إِذْ مَرَّ بِجَمَاعَةٍ مِنْ النَّاسِ كَثِيرٍ قَدْ حَبَسَتْهُمْ دَابَّةٌ؛ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ تِلْكَ الدَّابَّةَ كَانَتْ أَسَدًا قَالَ: فَأَخَذَ الْغُلامُ حَجَرًا؛ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ مَا يَقُولُ الرَّاهِبُ: حَقًّا؛ فَأَسْأَلُكَ أَنْ أَقْتُلَهَا، قَالَ: ثُمَّ رَمَى فَقَتَلَ الدَّابَّةَ؛ فَقَالَ النَّاسُ: مَنْ قَتَلَهَا قَالُوا: الْغُلامُ؛ فَفَزِعَ النَّاسُ، وَقَالُوا: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلامُ عِلْمًا لَمْ يَعْلَمْهُ أَحَدٌ قَالَ: فَسَمِعَ بِهِ أَعْمَى فَقَالَ لَهُ: إِنْ أَنْتَ رَدَدْتَ بَصَرِي فَلَكَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ لَهُ: لا أُرِيدُ مِنْكَ هَذَا، وَلَكِنْ أَرَأَيْتَ إِنْ رَجَعَ إِلَيْكَ بَصَرُكَ أَتُؤْمِنُ بِالَّذِي رَدَّهُ عَلَيْكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا اللَّهَ؛ فَرَدَّ عَلَيْهِ بَصَرَهُ؛ فَآمَنَ الأَعْمَى؛ فَبَلَغَ الْمَلِكَ أَمْرُهُمْ؛ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ؛ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَالَ: لأَقْتُلَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْكُمْ قِتْلَةً لا أَقْتُلُ بِهَا صَاحِبَهُ فَأَمَرَ بِالرَّاهِبِ وَالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ أَعْمَى؛ فَوَضَعَ الْمِنْشَارَ عَلَى مَفْرِقِ أَحَدِهِمَا فَقَتَلَهُ، وَقَتَلَ الآخَرَ بِقِتْلَةٍ أُخْرَى، ثُمَّ أَمَرَ بِالْغُلامِ؛ فَقَالَ: انْطَلِقُوا بِهِ إِلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا؛ فَأَلْقُوهُ مِنْ رَأْسِهِ؛ فَانْطَلَقُوا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْجَبَلِ؛ فَلَمَّا انْتَهَوْا بِهِ إِلَى ذَلِكَ الْمَكَانِ الَّذِي أَرَادُوا أَنْ يُلْقُوهُ مِنْهُ جَعَلُوا يَتَهَافَتُونَ مِنْ ذَلِكَ الْجَبَلِ، وَيَتَرَدَّوْنَ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلا الْغُلامُ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ؛ فَأَمَرَ بِهِ الْمَلِكُ أَنْ يَنْطَلِقُوا بِهِ إِلَى الْبَحْرِ؛ فَيُلْقُونَهُ فِيهِ؛ فَانْطُلِقَ بِهِ إِلَى الْبَحْرِ؛ فَغَرَّقَ اللَّهُ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ وَأَنْجَاهُ فَقَالَ: الْغُلامُ لِلْمَلِكِ إِنَّكَ لا تَقْتُلُنِي حَتَّى تَصْلُبَنِي وَتَرْمِيَنِي وَتَقُولَ إِذَا رَمَيْتَنِي بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلامِ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ؛ فَصُلِبَ، ثُمَّ رَمَاهُ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ رَبِّ هَذَا الْغُلامِ قَالَ: فَوَضَعَ الْغُلامُ يَدَهُ عَلَى صُدْغِهِ حِينَ رُمِيَ، ثُمَّ مَاتَ؛ فَقَالَ أُنَاسٌ: لَقَدْ عَلِمَ هَذَا الْغُلامُ عِلْمًا مَا عَلِمَهُ أَحَدٌ؛ فَإِنَّا نُؤْمِنُ بِرَبِّ هَذَا الْغُلامِ، قَالَ: فَقِيلَ لِلْمَلِكِ: أَجَزِعْتَ أَنْ خَالَفَكَ ثَلاثَةٌ؛ فَهَذَا الْعَالَمُ كُلُّهُمْ قَدْ خَالَفُوكَ، قَالَ: فَخَدَّ أُخْدُودًا، ثُمَّ أَلْقَى فِيهَا الْحَطَبَ وَالنَّارَ، ثُمَّ جَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ: مَنْ رَجَعَ عَنْ دِينِهِ تَرَكْنَاهُ، وَمَنْ لَمْ يَرْجِعْ أَلْقَيْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ؛ فَجَعَلَ يُلْقِيهِمْ فِي تِلْكَ الأُخْدُودِ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِيهِ: {قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ -حَتَّى بَلَغَ- الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ} قَالَ: فَأَمَّا الْغُلامُ؛ فَإِنَّهُ دُفِنَ فَيُذْكَرُ أَنَّهُ أُخْرِجَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَأُصْبُعُهُ عَلَى صُدْغِهِ كَمَا وَضَعَهَا حِينَ قُتِلَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: م/الزہد ۱۷ (۳۰۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۹۶۹) (صحیح)
۳۳۴۰- صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ جب عصر پڑھتے تھے، تو''ہمس'' (سرگوشی) کرتے ، ''همس'' بعض لوگوں کے کہنے کے مطابق اپنے دونوں ہونٹوں کو اس طرح حرکت دینا ( ہلانا) ہے گویا کہ وہ باتیں کررہاہے (آخرکار) آپ سے پوچھ ہی لیاگیا، اللہ کے رسول ! جب آپ عصر کی صلاۃ پڑھتے ہیں تو آپ دھیرے دھیرے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں (کیا پڑھتے ہیں؟) آپ نے نبیوں میں سے ایک نبی کا قصہ بیان کیا، وہ نبی اپنی امت کی کثرت دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اور کہا: ان کے مقابلے میں کون کھڑا ہوسکتاہے؟ اللہ نے اس نبی کو وحی کیا کہ تم اپنی قوم کے لیے دوباتوں میں سے کوئی ایک بات پسند کرلو، یاتومیں ان سے انتقام لوں یا میں ان پر ان کے دشمن کو مسلط کردوں، تو انہوں نے نقمہ (سزا و بدلہ) کو پسند کیا، نتیجۃً اللہ نے ان پر موت مسلط کردی،چنانچہ ایک دن میں ستر ہزار لوگ مرگئے ۱؎ ۔
صہیب (راوی) کہتے ہیں کہ جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو اس کے ساتھ آپ نے ایک اور حدیث بھی بیان فرمائی ، آپ نے فرمایا:'' ایک بادشاہ تھا اس باد شاہ کا ایک کاہن تھا، وہ اپنے بادشاہ کو خبریں بتاتاتھا ، اس کا ہن نے بادشاہ سے کہا: میرے لیے ایک ہوشیار لڑکا ڈھونڈھ دو،راوی کو یہاں شبہہ ہوگیا کہ
''غلاماً فهما ''کہا یا
''فطنا لقنا'' کہا (معنی تقریباً دونوں الفاظ کا ایک ہی ہے، )میں اسے اپنا یہ علم سکھادوں، کیوں کہ میں ڈرتاہوں کہ اگر میں مرگیا تو تمہارے پاس سے یہ علم ختم ہوجائے گا اور تم میں کوئی نہ رہ جائے گا جو اس علم سے واقف ہو، آپ فرماتے ہیں :اس نے جن صفات وخصوصیات کا حامل لڑکا بتایا تھا لوگوں نے اس کے لیے ویسا ہی لڑکا ڈھونڈ دیا، لوگوں نے اس لڑکے سے کہا کہ وہ اس کا ہن کے پاس حاضر ہوا کر اوراس کے پاس بار بار آتا جاتا ہے وہ لڑکا اس کا ہن کے پاس آنے جانے لگا، اس لڑکے کے راستے میں ایک عبادت خانہ کے اندر ایک راہب رہاکرتاتھا (ا س حدیث کے ایک راوی) معمر کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں عبادت خانہ کے لوگ اس وقت کے مسلمان تھے، وہ لڑکا جب بھی اس راہب کے پاس سے گزرتا دین کی کچھ نہ کچھ باتیں اس سے پوچھا کرتا، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس لڑکے نے راہب کو اپنے متعلق خبردی ، کہا: میں اللہ کی عبادت کرنے لگاہوں وہ لڑکا راہب کے پاس زیادہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے اور رکنے لگا اور کاہن کے پاس آنا جانا کم کردیا، کا ہن نے لڑکے والوں کے یہاں کہلا بھیجا کہ لگتا ہے لڑکا اب میرے پاس نہ آیاجایا کرے گا، لڑکے نے راہب کو بھی یہ بات بتادی، راہب نے لڑکے سے کہا کہ جب کاہن تم سے پوچھے کہاں تھے؟ تو کہہ دیا کرو گھروالوں کے پاس تھا ، اور جب تیرے گھر والے کہیں کہ تو کہاں تھا؟ تو ان کو بتایا کہ تم کاہن کے پاس تھے،راوی کہتے ہیں: غلام کے دن ایسے ہی کٹ رہے تھے کہ ایک دن لڑکے کا گزر لوگوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پر ہواجنہیں ایک جانور نے روک رکھاتھا، بعض لوگوں نے کہا کہ وہ چوپایہ شیر تھا ، لڑکے نے یہ کیاکہ ایک پتھر اٹھایا اور کہا: اے اللہ ! راہب جو کہتا ہے اگروہ سچ ہے تو میں تجھ سے اسے قتل کردینے کی توفیق چاہتاہوں ، یہ کہہ کر اس نے اسے پتھر مارا اور جانور کو ہلاک کردیا، لوگوں نے پوچھا: اسے کس نے مارا؟ جنہوں نے دیکھا تھا ، انہوں نے کہا: فلاں لڑکے نے، یہ سن کر لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ، لوگوں نے کہا: اس لڑکے نے ایسا علم سیکھا ہے جسے کوئی دوسرا نہیں جانتا ، یہ بات ایک اندھے نے سنی تو اس نے لڑکے سے کہا: اگر تومیری بینائی واپس لادے تو میں تجھے یہ دوں گا، لڑکے نے کہا: میں تجھ سے یہ سب چیزیں نہیں مانگتا تو یہ بتا اگر تیری بینائی تجھے واپس مل گئی تو کیا تو اپنی بینا ئی عطاکرنے والے پر ایمان لے آئے گا؟ اس نے کہا: ہاں۔(بالکل ایمان لے آؤں گا)۔
راوی کہتے ہیں: لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی، یہ دیکھ کر اندھا ایمان لے آیا، ان کامعاملہ بادشاہ تک پہنچ گیا،اس نے انہیں بلابھیجا تو انہیں لاکر حاضر کیاگیا، اس نے ان سے کہا: میں تم سب کو الگ الگ طریقوں سے قتل کرڈالوں گا ، پھراس نے راہب کو اور اس شخص کو جو پہلے اندھا تھا قتل کرڈالنے کا حکم دیا، ان میں سے ایک کے سرکے بیچوں بیچ (مانگ) پر آرا رکھ کر چیر دیا گیا اور دوسرے کو دوسرے طریقے سے قتل کردیاگیا، پھر لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ایسے پہاڑ پر لے جاؤ جو ایسا ایسا ہو اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر سے نیچے پھینک دو چنانچہ لوگ اسے اس خاص پہاڑ پر لے گئے اورجب اس آخری جگہ پر پہنچ گئے جہاں سے وہ لوگ اسے پھینک دینا چاہتے تھے،تو وہ خود ہی اس پہاڑ سے لڑھک لڑھک کرگرنے لگے،یہاں تک کہ صرف لڑکاباقی بچا،پھرجب وہ واپس آیا توبادشاہ نے اس کے متعلق پھر حکم دیاکہ اسے سمندر میں لے جاؤ، اور اسے اس میں ڈبوکر آجاؤ، اسے سمندر پر لے جایاگیا تو اللہ نے ان سب کو جو اس لڑکے کے ساتھ گئے ہوئے تھے ڈبودیا، اور خود لڑکے کو بچالیا، (لڑکا بچ کر پھر بادشاہ کے پاس آیا) اور اس سے کہا: تم مجھے اس طرح سے مار نہ سکو گے إلا یہ کہ تم مجھے سولی پر لٹکا دو اور مجھے تیر مارو، اور تیر مارتے وقت کہو اس اللہ کے نام سے میں تیر چلارہاہوں جو اس لڑکے کارب ہے، بادشاہ نے اس لڑکے کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ،لڑکا سولی پر لٹکادیا گیا پھر بادشاہ نے اس پر تیر مارا، اور تیر مارتے ہوئے کہا:'' بسم اللہ رب ھذا الغلام '' بادشاہ نے تیر چلایاتو لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھ لیا پھر مرگیا(شہید)ہوگیا، لوگ بول اٹھے اس لڑکے کو ایسا علم حاصل تھا جو کسی اور کو معلوم نہیں ، ہم تو اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں، آپ نے فرمایا:'' بادشاہ سے کہاگیا کہ آپ تو تین ہی آدمیوں سے گھبرا گئے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی، اب تو یہ سارے کے سارے لوگ ہی آپ کے خلاف ہوگئے ہیں ( اب کیا کریں گے؟) آپ نے فرمایا:'' اس نے کئی ایک کھائیاں (گڈھے) کھود وائے اوراس میں لکڑیاں ڈلوادیں اور آگ بھڑکا دی، لوگوں کو اکٹھا کرکے کہا: جو اپنے (نئے) دین سے پھر جائے گا اسے ہم چھوڑ دیں گے اور جو اپنے دین سے نہ پلٹے گا ہم اسے اس آگ میں جھونک دیں گے ،پھر وہ انہیں ان گڈھوں میں ڈالنے لگا، آپ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ انہیں لوگوں کے متعلق فرماتاہے(پھرآپ نے آیت {قُتِلَ أَصْحَابُ الأُخْدُودِ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ } سے لے کر
{وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ} تک پڑھی ۲؎ ۔
راوی کہتے ہیں: لڑکا (سولی پر لٹکا کر قتل کردیے جانے کے بعد ) دفن کردیا گیا تھا، کہاجاتاہے کہ وہ لڑکا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں زمین سے نکالا گیا، اس کی انگلیاں اس کی کنپٹی پر اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح اس نے اپنے قتل ہوتے وقت رکھاتھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا(جیساکہ مسنداحمدکی مطول روایت میں ہے): میں اپنی اس ہمس (خاموش سرگوشی) میں تمہاری اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کو خوش تو ہوتا ہوں لیکن اللہ کے اس طرح کے نقمہ (عذاب وسزا سے) پناہ مانگتاہوں اور میں اللہ سے یہ دعاکرتاہوں
''اللهم بك أقاتل وبك أحاول ولا حول ولا قوة إلا بالله''۔
وضاحت ۲؎ : ( خندقوں والے ہلاک کئے گئے وہ ایک آگ تھی ایندھن والی، جب کہ وہ لوگ اس کے آس پا س بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کررہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے، یہ لوگ ان مسلمانوں سے (کسی اور گناہ کا) بدلہ نہیں لے رہے تھے سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے(البروج:۴-۸)یہ واقعہ رسول اللہ کی ولادت سے پچاس سال پہلے ملک یمن میں پیش آیا تھا، اس ظالم بادشاہ کا نام ذونواس یوسف تھا، یہ یہودی المذہب تھا، (تفصیل کے لیے دیکھئے الرحیق المختوم / صفی الرحمن مبارکپوری)۔