129-بَاب فِي الْعَفْوِ وَالْعَافِيَةِ
۱۲۹-باب: دنیاوآخرت میں عافیت طلبی کا بیان
3594- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الدُّعَائُ لاَ يُرَدُّ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ" قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ زَادَ يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ هَذَا الْحَرْفَ قَالُوا: فَمَاذَا نَقُولُ: قَالَ: سَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۲ (منکر)
حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے ، لیکن اس کے بعد کا قصہ ''منکر''ہے اس لیے کہ سند میں یحیی بن الیمان اور زید العمی دونوں ضعیف راوی ہیں،اور قصے کا شاہد موجود نہیں ہے، تراجع الالبانی ۱۴۰)
۳۵۹۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اذان اور اقامت کے درمیان مانگی جانے والی دعا لوٹائی نہیں جاتی ، (یعنی قبول ہوجاتی ہے) لوگوں نے پوچھا: اس دوران ہم کون سی دعامانگیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'' دنیا اور آخرت (دونوں) میں عافیت مانگو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، یحییٰ بن ابان نے اس حدیث میں اس عبارت کا اضافہ کیا ہے کہ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم کیا کہیں؟ آپ نے فرمایا:'' دنیا و آخرت میں عافیت (یعنی امن وسکون ) مانگو۔
3595- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُو أَحْمَدَ وَأَبُونُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الدُّعَائُ لا يُرَدُّ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ الْكُوفِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۲ (صحیح)
۳۵۹۵- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے''، (یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔)امام ترمذی کہتے ہیں: ابواسحاق ہمدانی نے بریدبن ابی مریم کوفی سے اور برید کوفی نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے ایسے ہی روایت کی ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
3596- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلائِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " سَبَقَ الْمُفْرِدُونَ" قَالُوا: وَمَا الْمُفْرِدُونَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! قَالَ: "الْمُسْتَهْتَرُونَ فِي ذِكْرِ اللَّهِ يَضَعُ الذِّكْرُ عَنْهُمْ أَثْقَالَهُمْ فَيَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِفَافًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۱۱) (ضعیف)
(سندمیں ''عمر بن راشد'' ضعیف ہیں)
۳۵۹۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ہلکے پھلکے لوگ آگے نکل گئے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ ہلکے پھلکے لوگ کون ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا:'' اللہ کی یاد وذکر میں ڈوبے رہنے والے لوگ، ذکر ان کا بوجھ ان کے اوپر سے اتار کر رکھ دے گا اورقیامت کے دن ہلکے پھلکے آئیں گے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن غریب ہے۔
3597- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لأَنْ أَقُولَ سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلاَإِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الذکر والدعاء ۱۰ (۲۶۹۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۱۱) (صحیح)
۳۵۹۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ساری کائنات سے کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں :
'' سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ '' ۱؎ کہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : '' اللہ پاک ہے، تعریف اللہ کے لیے ہے اور اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے '' کہتاہوں۔
3598- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ سَعْدَانَ الْقُمِّيِّ، عَنْ أَبِي مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "ثَلاَثَةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَالإِمَامُ الْعَادِلُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ فَوْقَ الْغَمَامِ، وَيَفْتَحُ لَهَا أَبْوَابَ السَّمَائِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي لأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَسَعْدَانُ الْقُمِّيُّ -هُوَ سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ- وَقَدْ رَوَى عَنْهُ عِيسَى بْنُ يُونُسَ، وَأَبُو عَاصِمٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَأَبُو مُجَاهِدٍ هُوَ سَعْدٌ الطَّائِيُّ، وَأَبُومُدِلَّةَ هُوَ مَوْلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَيُرْوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثُ أَتَمَّ مِنْ هَذَا وَأَطْوَلَ.
* تخريج: ق/الصیام ۴۸ (۱۷۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۵۷)، وحم (۲/۳۰۴-۳۰۵، ۴۴۵، ۴۷۷) (ضعیف)
(''الإمام العادل'' کے لفظ سے ضعیف ہے، اور ''المسافر'' کے لفظ سے صحیح ہے، سندمیں ابومدلہ مولی عائشہ'' مجہول راوی ہے، نیز یہ حدیث ابوہریرہ ہی کی صحیح حدیث جس میں ''المسافر'' کا لفظ ہے کے خلاف ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم ۱۳۵۸، والصحیحۃ رقم: ۵۹۶)
۳۵۹۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تین لوگ ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی: ایک صائم، جب تک کہ صوم نہ کھول لے ، (دوسرے) امام عادل ، (تیسرے) مظلوم ، اس کی دعا اللہ بدلیوں سے اوپر تک پہنچاتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اوررب کہتاہے: میری عزت (قدرت) کی قسم! میں تیری مدد کروں گا، بھلے کچھ مدت کے بعد ہی کیوں نہ ہو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- سعدان قمی یہ سعد ان بن بشر ہیں، ان سے عیسیٰ بن یونس، ابوعاصم اور کئی بڑے محدثین نے روایت کی ہے۳- اور ابومجاہد سے مراد سعد طائی ہیں۴- اور ابو مدلہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ہیں ہم انہیں صرف اسی حدیث کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہی حدیث ان سے اس حدیث سے زیادہ مکمل اور لمبی روایت کی گئی ہے۔
3599- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَزِدْنِي عِلْمًا. الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۲۳ (۲۵۱)، والدعاء (۳۸۳۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۵۶) (صحیح)
''الحمد للہ ۔۔۔الخ) کا لفظ صحیح نہیں ہے، سند میں محمد بن ثابت مجہول راوی ہے، مگر پہلا ٹکڑا شواہد کی بنا پر صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی ۴۶۲)
۳۵۹۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی:
''اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي وَزِدْنِي عِلْمًا الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے اللہ! مجھے اس علم سے نفع دے جو تونے مجھے سکھایا ہے اور مجھے وہ علم سکھا جو مجھے فائدہ دے اور میرا علم زیادہ کر، ہر حال میں اللہ ہی کے لیے تعریف ہے اور میں جہنمیوں کے حال سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں۔