8-بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ
۸-باب: نبی اکرم ﷺ کے حلیہ ٔ مبارک کابیان
3635- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَائَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ، وَلاَ بِالطَّوِيلِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۷۲۴ (صحیح)
۳۶۳۵- براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جس کے بال کا ن کی لو کے نیچے ہوں سرخ جوڑے ۱؎ میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال آپ کے دونوں کندھوں سے لگے ہوتے تھے ۲؎ ، اور آپ کے دونوں کندھوں میں کافی فاصلہ ہوتاتھا ۳؎ ، نہ آپ پستہ قد تھے نہ بہت لمبے ۴؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : آپ کے بالوں کی مختلف اوقات میں کئی حالت ہواکرتی تھی ، کبھی آدھے کانوں تک ، کبھی کانوں کے لؤوں تک ، کبھی آدھی گردن تک ، اور کبھی کندھوں کو چھوتے ہوئے۔
وضاحت ۲؎ : مردوں کے لال کپڑے پہننے کے سلسلے میں علماء درمیان مختلف روایات کی وجہ سے اختلاف ہے ، زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا یہ جوڑا ایساتھا کہ اس کا تانہ لا ل رنگ تھا ، یہ بالکل خالص لا ل نہیں تھا ، کیونکہ آپ نے خود خالص لا ل سے مردوں کے لیے منع کیا ہے ، (دیکھئے کتاب اللباس میں مردوں کے لیے لا ل کپڑے پہننے کا باب)۔
وضاحت ۳؎ : یعنی آپ کے کندھے کافی چوڑے تھے۔
وضاحت ۴؎ : ناٹا اورلمبا ہونا دونوں معیوب صفتیں ہیں ، آپ درمیانی قدکے تھے ، عیب سے مبرا،ماشاء اللہ۔
3636- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَائَ أَكَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِثْلَ السَّيْفِ قَالَ: لا، مِثْلَ الْقَمَرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۵۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۹) (صحیح)
۳۶۳۶- ابواسحاق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے براء سے پوچھا :کیا رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں ،بلکہ چاند کی مانند تھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3637- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالطَّوِيلِ، وَلاَ بِالْقَصِيرِ شَثْنَ الْكَفَّيْنِ، وَالْقَدَمَيْنِ ضَخْمَ الرَّأْسِ ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ طَوِيلَ الْمَسْرُبَةِ إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ تَكَفُّؤًا كَأَنَّمَا انْحَطَّ مِنْ صَبَبٍ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلاَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۸۹) (صحیح)
3637/م- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ الْمَسْعُودِيِّ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۳۷- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نہ لمبے تھے نہ پستہ قد، آپ کی ہتھیلیاں اور پاؤں گوشت سے پُر تھے ، آپ بڑے سراور موٹے جوڑوں والے تھے، (یعنی گھٹنے اور کہنیاں گوشت سے پُر اور فربہ تھیں)، سینہ سے ناف تک باریک بال تھے، جب چلتے تو آگے جھکے ہوئے ہوتے گویا آپ اوپر سے نیچے اتررہے ہیں، میں نے نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کسی کو آپ جیسادیکھا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۳۶۳۷/م- ہم سے سفیان بن وکیع نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے میرے باپ وکیع نے بیان کیا اور انہوں نے مسعودی سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
3638- حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ أَبِي حَلِيمَةَ مِنْ قَصْرِ الأَحْنَفِ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَمْ يَكُنْ بِالطَّوِيلِ الْمُمَّغِطِ، وَلاَ بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَكَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلاَبِالسَّبِطِ كَانَ جَعْدًا رَجِلا، وَلَمْ يَكُنْ بِالْمُطَهَّمِ، وَلاَ بِالْمُكَلْثَمِ، وَكَانَ فِي الْوَجْهِ تَدْوِيرٌ أَبْيَضُ مُشْرَبٌ أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ أَهْدَبُ الأَشْفَارِ جَلِيلُ الْمُشَاشِ، وَالْكَتَدِ أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ أَجْوَدُ النَّاسِ كَفَّا، وَأَشْرَحُهُمْ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيكَةً، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ يَقُولُ نَاعِتُهُ لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلاَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ.
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: سَمِعْتُ الأَصْمَعِيَّ يَقُولُ فِي تَفْسِيرِهِ: صِفَةَ النَّبِيِّ ﷺ الْمُمَّغِطُ الذَّاهِبُ طُولاً وَسَمِعْتُ أَعْرَابِيًّا يَقُولُ تَمَغَّطَ فِي نُشَّابَةٍ أَيْ مَدَّهَا مَدًّا شَدِيدًا، وَأَمَّا الْمُتَرَدِّدُ فَالدَّاخِلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ قِصَرًا، وَأَمَّا الْقَطَطُ فَالشَّدِيدُ الْجُعُودَةِ، وَالرَّجِلُ الَّذِي فِي شَعْرِهِ حُجُونَةٌ أَيْ يَنْحَنِي قَلِيلاً، وَأَمَّا الْمُطَهَّمُ فَالْبَادِنُ الْكَثِيرُ اللَّحْمِ، وَأَمَّا الْمُكَلْثَمُ فَالْمُدَوَّرُ الْوَجْهِ، وَأَمَّا الْمُشْرَبُ فَهُوَ الَّذِي فِي نَاصِيَتِهِ حُمْرَةٌ، وَالأَدْعَجُ الشَّدِيدُ سَوَادِ الْعَيْنِ، وَالأَهْدَبُ الطَّوِيلُ الأَشْفَارِ، وَالْكَتَدُ مُجْتَمَعُ الْكَتِفَيْنِ وَهُوَ الْكَاهِلُ وَالْمَسْرُبَةُ هُوَ الشَّعْرُ الدَّقِيقُ الَّذِي هُوَ كَأَنَّهُ قَضِيبٌ مِنَ الصَّدْرِ إِلَى السُّرَّةِ، وَالشَّثْنُ الْغَلِيظُ الأَصَابِعِ مِنَ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، وَالتَّقَلُّعُ أَنْ يَمْشِيَ بِقُوَّةٍ، وَالصَّبَبُ الْحُدُورُ يَقُولُ: انْحَدَرْنَا فِي صَبُوبٍ، وَصَبَبٍ وَقَوْلُهُ جَلِيلُ الْمُشَاشِ يُرِيدُ رُئُوسَ الْمَنَاكِبِ وَالْعِشْرَةُ الصُّحْبَةُ وَالْعَشِيرُ الصَّاحِبُ، وَالْبَدِيهَةُ الْمُفَاجَأَةُ يُقَالُ بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ أَيْ فَجَأْتُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۲۴) (ضعیف)
(سند میں ابراہیم بن محمد اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، ابراہیم کی ملاقات علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)
۳۶۳۸- ابراہیم بن محمدجو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں ان سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جب نبی اکرم ﷺ کا حلیہ بیان کرتے تو کہتے : نہ آپ بہت لمبے تھے نہ بہت پستہ قد، بلکہ لوگوں میں درمیانی قد کے تھے، آپ کے بال نہ بہت گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کے بیچ میں تھے،نہ آپ بہت موٹے تھے اور نہ چہرہ بالکل گول تھا، ہاں اس میں کچھ گولائی ضرورتھی، آپ گورے سفید سرخی مائل، سیاہ چشم، لمبی پلکوں والے، بڑے جوڑوں والے اور بڑے شانہ والے تھے، آپ کے جسم پر زیادہ بال نہیں تھے، صرف بالوں کا ایک خط سینہ سے ناف تک کھنچا ہوا تھا، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گوشت سے پُر تھے جب چلتے زمین پر پیر جما کر چلتے، پلٹتے تو پورے بدن کے ساتھ پلٹتے، آپ کے دونوں شانوں کے بیچ میں مہر نبوت تھی، آپ خاتم النبیین تھے، لوگوں میں آپ سب سے زیادہ سخی تھے، آپ کھلے دل کے تھے، یعنی آپ کا سینہ بغض وحسد سے آئینہ کے مانند پاک وصاف ہوتاتھا، اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے ، نرم مزاج اور سب سے بہتر رہن سہن والے تھے، جو آپ کو یکایک دیکھتا ڈرجاتا اور جو آپ کو جان اور سمجھ کر آپ سے گھل مل جاتا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا، آپ کی توصیف کرنے والا کہتا: نہ آپ سے پہلے میں نے کسی کو آپ جیسا دیکھا ہے اور نہ آپ کے بعد ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، اس کی سند متصل نہیں ہے،۲- (نسائی کے شیخ)ابوجعفر کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کے حلیہ ٔ مبارک کی تفسیر میں اصمعی کو کہتے ہوئے سنا کہ
''الممغط'' کے معنی لمبائی میں جانے والے کے ہیں، میں نے ایک اعرابی کو سنا وہ کہہ رہاتھا
'' تمغط فی نشابۃ'' یعنی اس نے اپنا تیر بہت زیادہ کھینچا اور
''متردد'' ایسا شخص ہے جس کا بدن ٹھنگنے پن کی وجہ سے بعض بعض میں گھسا ہوا ہو اور
'' قطط'' سخت گھونگھریا لے بال کو کہتے ہیں، اور
'' رَجِل'' اس آدمی کو کہتے ہیں جس کے بالوں میں تھوڑی خمید گی ہو اور
''مطہم'' ایسے جسم والے کو کہتے ہیں جو موٹا اور زیادہ گوشت والاہو اور
''مکلثم'' جس کا چہرہ گول ہو اور
'' مشدب ''وہ شخص ہے جس کی پیشانی میں سرخی ہو اور
''ادعج'' وہ شخص ہے جس کے آنکھوں کی سیاہی خوب کالی ہو اور
''اہدب ''وہ ہے جس کی پلکیں لمبی ہوں اور
'' کتد'' دونوں شانوں کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور
'' مسربۃ'' وہ باریک بال ہیں جو ایک خط کی طرح سینہ سے ناف تک چلے گئے ہوں اور
'' شثن'' وہ شخص ہے جس کے ہتھیلیوں اور پیروں کی انگلیاں موٹی ہوں، اور
'' تقلع '' سے مراد پیر جماجما کر طاقت سے چلنا ہے اور
'' صبب'' اتر نے کے معنی میں ہے، عرب کہتے ہیں
'' انحدر نافی صبوب وصبب'' یعنی ہم بلندی سے اترے
''جلیل المشاش ''سے مراد شانوں کے سرے ہیں، یعنی آپ بلند شانہ والے تھے، اور
''عشرۃ ''سے مراد رہن سہن ہے اور
'' عشیرہ'' کے معنیٰ رہن سہن والے کے ہیں اور
''بدیھۃ ''کے معنی یکایک اور یکبار گی کے ہیں، عرب کہتے ہیں
''بَدَهْتُهُ بِأَمْرٍ'' میں ایک معاملہ کولے کر اس کے پاس اچانک آیا۔