اصول حدیث ، علل حدیث اورقواعد جرح وتعدیل
امام ترمذی کہتے ہیں: اس کتاب (السنن) کی ساری احادیث معمو ل بہ ہیں، بعض اہل علم نے ان پر عمل کیاہے، صرف دو حدیثیں اس سے مستثنیٰ ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ نبی اکرمﷺ نے مدینہ میں خوف اور بارش کے عذر کے بغیر ظہر و عصر اور مغرب وعشاء دونوں کو جمع کرکے ایک ساتھ اداکیا۔
۲- دوسری حدیث : نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں: جب شرابی شراب پئے تو اسے کوڑے لگاؤ، چوتھی بارپئے تو اس کو قتل کردو۔ہم نے ''کتاب السنن'' میں دونوں حدیثوں کی علت بیان کردی ہے ۔
فقہاء کے اقوال کی اسانید
ہم نے اس کتاب میں فقہاء کے اختیارات کا ذکر کیاہے ۔
۱- سفیان ثوری کے اکثر اقوال کو ہم نے بسند محمد بن عثمان کو فی عن عبیداللہ بن موسیٰ عن الثوری نقل کیا ہے۔
۲- بعض اقوال بسند ابوالفضل مکتوم بن عباس ترمذی عن محمد بن یوسف فریابی عن سفیان منقول ہیں۔
۳- مالک کے اکثر اقوال کو ہم نے بسند اسحاق بن موسیٰ انصاری عن معن بن عیسیٰ القزاز عن مالک نقل کیاہے۔
۴-ابواب الصیام کے اقوال بسند ابومصعب المدینی عن مالک منقول ہیں۔
۵- مالک کے بعض اقوال بسندموسیٰ بن حزام عن عبداللہ بن مسلمۃ القعنبی عن مالک منقول ہیں۔
۶- عبداللہ بن المبارک کے اقوال کی سند یہ ہے: عن احمد بن عبدہ أملی عن اصحاب ابن المبارک ، عن ابن المبارک ۔
۷- ابن المبارک کے بعض اقوال بسند ابووہب محمد بن مزاحم عن ابن المبارک مروی ہیں۔
۸- بعض اقوال بسند علی بن الحسن عن عبداللہ بن المبارک منقول ہیں۔
۹- بعض بسند عبدان عن سفیان بن عبدالملک عن ابن المبارک منقول ہیں۔
۱۰- بعض اقوال بسندحبان بن موسیٰ عن ابن المبارک منقول ہیں۔
۱۱- بعض بسند وہب بن زمعہ عن فضالہ نسوی عن عبداللہ بن المبارک مروی ہیں۔
۱۲- اس کے علاوہ ابن المبارک سے روایت کرنے والے اور رواۃ ہیں ، جن کا ذکر ہم نے یہاں نہیں کیا ہے ۔
۱۳- شافعی کے اکثر اقوال کی سند یہ ہے : عن الحسن بن محمد الزعفرانی، عن الشافعی ۔
۱۴-کتاب الوضوء اور کتاب الصلاۃ کے اقوال کی روایت ہم نے بسند ابو الولید المکی عن الشافعی کی ہے ۔
۱۵- بعض اقوال ہم تک بسند ابواسماعیل الترمذی عن یوسف بن یحیی القرشی البویطی عن الشافعی پہنچے ہیں۔
۱۶-بعض اقوال کو ربیع نے شافعی سے نقل کیا ہے ، جس کی ربیع نے ہمیں اجازت دی ہے، اور اس کو ہمارے پاس لکھ بھیجا ہے۔
۱۷- احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ کے اقوال کو ہم سے اسحاق بن منصورکوسج نے بیان کیا وہ احمد اور اسحاق بن راہویہ سے روایت کرتے ہیں۔
۱۸- حج، دیات اور حدود کے باب کے اقوال میں نے اسحاق بن منصور سے نہیں سنے ہیں، اس کو ہم سے محمد بن موسیٰ الاصم نے بسند اسحاق بن منصورعن احمد واسحاق بن راہویہ بیان کیا ۔
۱۹-اسحاق بن راہویہ کے بعض اقوال کی خبرہمیں محمدبن افلح نے دی ہے وہ اسحاق بن راہویہ سے روایت کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی موقوف سے متعلق کتاب میں ان باتوں کوبیان کیا ہے۔
۲۰-علل حدیث ، رجال حدیث اور تاریخ (کتب جرح وتعدیل) سے متعلق اقوال کی تخریج میں نے تاریخ کی کتابوں سے کی ہے، اکثراقوال پر محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا ہے ،بعض اقوال پر دارمی اورابوزرعہ سے مذاکرہ کیا ہے ، اکثر اقوال پر محمد بن اسماعیل بخاری سے گفتگوکی ہے، بہت کم اقوال پر عبداللہ بن احمداور ابوزرعہ رازی سے گفتگوکی ہے ، علل حدیث، تاریخ اور اسانید کی معرفت میں مجھے عراق اور خراسان میں محمد بن اسماعیل بخاری سے بڑا عالم کوئی اور نہیں ملا ۔
علل احادیث اور اقوال فقہاء کے ذکر کرنے کاسبب اور یہ بیان کہ رواۃ کے جرح وتعدیل پر سلف کا اجماع ہے
فقہاء کے اقوال اوراحادیث کی علل کاتذکرہ ہم نے اپنی کتاب میں اس لیے کیا ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال ہوا ، ہم ایک مدت تک ایسا نہیں کرتے تھے، ہم نے اقوال فقہاء اور علل حدیث کا تذکرہ اس واسطے کیا کہ اس میں لوگوں کے فوائد کی توقع ہے۔
اوائل مصنفین اسلام
اس لیے کہ ہم نے بہت سارے ائمہ کودیکھا کہ انہوں نے تصنیف وتالیف کا کام کیا ، ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا، ان میں سے مندرجہ ذیل علماء ہیں:
۱-ہشام بن حسان ،۲- عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج، ۳-سعید بن ابی عروبہ،۴- مالک بن انس، ۵-حماد بن سلمہ ، ۶-عبداللہ بن المبارک ،۷- یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ ،۸- وکیع بن الجراح ، ۹-عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ ، اہل علم وفضل ۔
ان افاضل نے تصنیف وتالیف کا کام کیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کتابوں میں بڑا فائدہ ودیعت فرمایا، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ان اعمال پر جن سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نفع پہنچایا ثواب جزیل عطافرمائے،تصنیف کے باب میں یہ ائمہ ہمارے پیشوا ہیں۔
عہد تابعین میں جرح وتعدیل
بعض نادان لوگوں نے اہل حدیث کو رجال حدیث پر جرح کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ ہم نے دیکھا کہ بعض ائمہ تابعین نے رواۃ احادیث پر کلام کیا، ان میں سے حسن بصری اور طاؤس نے معبدجہنی پر کلام کیا ۔
سعیدبن جبیر نے طلق بن حبیب پر نقدکیا ۔
اور ابراہیم نخعی اور عامر شعبی نے حارث اعور کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
اسی طرح ایوب سختیانی، عبداللہ بن عون، سلیمان تیمی، شعبہ بن الحجاج، سفیان ثوری ، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن المبارک ، یحیی بن سعید القطان وکیع بن الجراح اور عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ اہل علم کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے راوۃ حدیث پر کلام کیا ، اور ان کی تضعیف کی۔
رواۃ پر جرح وتنقید کا مقصد نصیحت اور خیرخواہی ہے
ہمارے نزدیک ان کو اس اقدام پر مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کے جذبہ نے ابھارا،و اللہ اعلم ۔
ان ائمہ کے بارے میں یہ خیال نہیں ہوناچاہئے کہ انہوں نے لوگوں کو مطعون کیا یا ان کی غیبت کی ۔
رواۃ حدیث کے اقسام
انہوں نے ہمارے خیال میں رواۃ کے ضعف کو اس لیے بیان کیا تاکہ ان کے بارے میں لوگوں کو علم ہوجائے اس لیے کہ،۱- بعض ضعیف رواۃ اہل بدعت میں سے تھے، ۲-اور بعض روایت حدیث کے باب میں متہم بالکذب تھے، ۳- بعض اصحاب غفلت اور کثیر الخطا تھے ، ان ائمہ نے دینی جذبہ سے ان رواۃ کے احوال کو بیان کیا اس لیے کہ دین کے بارے میں شہادت حقوق اور اموال میں شہادت سے زیادہ تحقیق اور ثبوت کی حقدار ہے۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری ، شعبہ ، مالک بن انس اور سفیان بن عیینہ سے راوی کے بارے میں سوال کیا کہ اس پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے ، یا اس میں ضعف ہے، تو میں خاموش رہوں یا بیان کردوں، تو ان سب لوگوں نے کہا : بیان کردو۔
یحیی بن آدم کہتے ہیں کہ ابوبکر بن عیاش سے کہا گیا: بعض لوگ درس دینے بیٹھتے ہیں ، اور لوگ ان کے پاس آکر بیٹھتے ہیں ، لیکن وہ درس دینے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ابوبکر بن عیاش نے کہا:جو شخص بھی درس دینے بیٹھتا ہے لوگ اس کے پا س بیٹھ جاتے ہیں ۔صاحب سنت (صحیح عقیدہ والا) جب مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذکر کا چرچہ کردیتا ہے، اور بدعتی کا ذکر مٹ جاتا ہے۔
اہل بدعت کی روایت سے اجتناب
محمدبن سیرین کہتے ہیں: پہلے زمانے میں لوگ سند حدیث کے بارے میں نہیں سوال کرتیتھے، لیکن جب سے فتنہ شروع ہوا ۱؎ لوگوں نے سند کے بارے میں سوال کرنا شروع کیاتاکہ احادیث اہل سنت سے لیں اور اہل بدعت کی احادیث چھوڑدیں ۲؎ ۔
سند حدیث کی دین میں اہمیت
عبداللہ بن المبارک کہتے ہیں: میرے نزدیک سند دین میں سے ہے، اگرسند نہ ہوتی تو جو جو چاہتا کہتا، جب اس سے کہاجاتا ہے کہ یہ حدیث تم سے کس نے روایت کی تو وہ چپ ہوجا تا ہے ۔
ضعفاء سے روایت کے بارےمیں محدثین کامذہب
حبان بن موسیٰ کہتے ہیں: عبداللہ بن المبارک سے ایک حدیث ذکر کی گئی تو آپ نے کہا : اس کے لیے تو پختہ اینٹوں کے ستون چاہئیں ،ترمذی کہتے ہیں : یعنی ابن المبارک نے اس کی سند کی تضعیف کی۔
وہب بن زمعہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن المبارک نے حسن بن عمارہ ، حسن بن دینار ، ابراہیم بن محمد اسلمی ، مقاتل بن سلیمان ، اور عثمان بری ، روح بن مسافر ، ابوشیبہ واسطی ، عمرو بن ثابت ، ایوب بن خوط ، ایوب بن سوید ، ابوجزء نصر بن طریف، حکم اور حبیب کی احادیث ترک کردی۔
عبداللہ بن المبارک نے حکم کی صرف ایک حدیث کتاب الزہد والرقاق میں روایت کی پھر اس کو ترک کردیا۔اور کہا: حبیب کو میں نہیں جانتا۔
عبدان کہتے ہیں: عبداللہ بن المبارک نے بکر بن خنیس کی احادیث پڑھی تھیں، بعدمیں جب وہ ان احادیث پر آتے تو ان سے صر ف نظر کرتے ،اور بکر کا تذکرہ نہیں کرتے تھے۔
ابووہب کہتے ہیں: لوگوں نے عبداللہ بن المبارک سے حدیث میں ایک متہم بالکذب راوی کا نام لیا تو آپ نے کہا:میں ڈاکہ ڈالوں یہ اس سے بہتر ہے کہ میں اس سے حدیث روایت کروں ۔
یزید بن ہارون کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ سلیمان بن عمرو کوفی سے روایت کرے۔
ابویحیی حمانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ کو کہتے سنا: میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹاکوئی راوی نہیں دیکھا اور نہ عطاء بن ابی رباح سے افضل کسی کو دیکھا ۔
جارود کہتے ہیں: میں نے وکیع بن جراح کو یہ کہتے سنا: جابر جعفی نہ ہوتا تو اہل کوفہ بغیر حدیث کے ہوتے ، اور حماد بن ابی سلیمان کوفی نہ ہوتے تو اہل کوفہ بغیرفقہ کے ہوتے ۔
ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن الحسن کو کہتے سنا: ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ کس پر جمعہ فرض ہے؟ بعض تابعی اور تبع تابعی اہل علم سے اس بارے میں اقوال ذکر کئے تو میں نے کہا: اس باب میں نبی اکرمﷺ سے ایک حدیث ہے، پوچھا:نبی اکرمﷺ سے؟ میں نے کہا: ہاں ، ہم سے حجاج بن نصیر نے بیان کیا ، حجاج سے معارک بن عباد نے اور معارک سے عبداللہ بن سعید مقبری نے ، عبداللہ بن سعیدنے اپنے والد سعید مقبری سے ، اور مقبری ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :'' جمعہ اس شخص پر فرض ہوتا ہے جو رات کو اپنے گھر تک پہنچ جائے ''۔اس پر احمد بن حنبل غصہ ہوئے اوردوبار کہا: اور أستغفر اللہ کہا، اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، اپنے رب سے مغفرت طلب کرو۔
ترمذی کہتے ہیں: احمد بن حنبل نے ایسا اس لیے کیا کہ سند کے ضعف کی وجہ سے یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح نہیں تھی ،اورآپ کو نبی اکرمﷺ سے اس کے ثابت ہونے کا علم نہیں تھا ، حجاج بن نصیر کی حدیث میں تضعیف کی گئی ہے،اور عبداللہ بن سعید مقبری کو یحیی بن سعید القطان نے حدیث میں بہت ضعیف قرار دیا ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: ہر وہ راوی جس سے کوئی حدیث روایت کی گئی ہو اور متہم بالکذب ہو یا غفلت اور کثرت اخطاء کی وجہ سے اس کی تضعیف کی گئی ہو اوروہ حدیث صرف ا س کے ہی طریق سے معروف ہو تو ایسے راوی سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ۱؎ ۔
ضعفاء سے روایت اور ان پر جرح
بہت سارے ائمہ نے ضعفاء سے روایت کی ہے اور لوگوں کے لیے ان کے حالات کو بھی بیان کردیا ہے ۔
یعلی بن عبید کہتے ہیں: ہم سے سفیان ثوری نے کہا: کلبی سے اجتناب کرو، ان سے کہا گیا کہ آپ تو اس سے روایت کرتے ہیں، کہا: مجھے اس کے سچ اور جھوٹ کی تمیز ہے۔
ابوعوانہ کہتے ہیں:جب حسن بصری کا انتقال ہوگیا تو مجھے ان کے اقوال جاننے کی خواہش ہوئی ،میں نے اصحاب حسن بصری کی تلاش کی ، ابان بن ابی عیاش کے پاس آیا تو اس نے ہم پر احادیث پڑھیں سب کی سب حسن بصری سے تھیں، میں ان میں سے کچھ بھی روایت کرنا حلال نہیں سمجھتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش سے غفلت اور ضعف کے باوجود کئی ائمہ نے روایت کی ہے، جیسا کہ ابوعوانہ وغیرہ نے کہا ہے، پس اگر ثقات لوگوں سے روایت کریں تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے اس لیے کہ ابن سیرین سے مروی ہے کہ آدمی مجھ سے حدیث بیان کرتا ہے،تومیں اسے متہم نہیں کرتا، بلکہ اس سے اوپر کے راوی کو متہم کرتاہوں ۔
کئی لوگوں سے سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور علقمہ،عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ رکوع سے پہلے وترمیں قنوت پڑھتے تھے۔
اورابان ابن ابی عیاش سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رکوع سے پہلے وترمیں قنوت پڑ ھتے تھے ، سفیان ثوری نے ابان بن ابی عیاش سے ایسے ہی روایت کی ہے ۔
بعض لوگوں نے بسند ابان ابن ابی عیاش ایسے ہی بیان کیا ہے، اور اس میں اتنا زیادہ ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکے پاس رات گزاری تو آپ کو رکوع سے پہلے وتر میں قنوت پڑھتے دیکھا ۔
ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش اگرچہ عبادت اور زہد وریاضت کے وصف سے متصف ہیں ، لیکن حدیث میں ان کا یہ حال ہے اورمحدثین کی جماعت حفظ والی تھی، توکبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی نیک اور صالح ہوتا ہے، لیکن نہ وہ شہادت دے سکتا ہے، اور نہ اسے یاد رکھتا ہے تو ہر متہم بالکذب راو ی یا مغفل راوی جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہے، اہل حدیث کی اکثریت کے مختار مذہب میں ایسے راویوں سے حدیث نہیں روایت کی جائے گی ۔ کیا یہ نہیں دیکھتے ہو کہ عبداللہ بن المبارک نے اہل علم کی ایک جماعت سے حدیث روایت کی تھی لیکن ان کے حالات کے واضح ہونے جانے پران سے روایت ترک کردی۔
صالح بن عبداللہ ترمذی کہتے ہیں: ہم ابومقاتل سمرقندی کے پاس تھے ، تو وہ لقمان کی وصیت ، اور سعید بن جبیر کے قتل سے متعلق لمبی لمبی احادیث اور اس طرح کی چیزیں عون بن ابی شداد سے روایت کرنے لگے ، ابومقاتل کے بھتیجے نے ان سے کہا: چچا! یہ نہ کہیں کہ ہم سے عون نے حدیث بیان کی ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے آپ نے ان سے کچھ بھی نہیں سنا ہے ، کہا: بیٹے !یہ اچھاکلام ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے جارود کو کہتے سنا : ہم ابومعاویہ کے پاس تھے تو اُن سے ابومقاتل کی حدیث کا ذکر کیا گیا کہ ابومقاتل نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے اور ثوری نے اعمش سے اور اعمش نے ابوظبیان سے ، ابوظبیان کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ سے بھڑوں کے چھتے کے بارے میں سوال گیا تو آپ نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے،یہ سمندری شکارکی طرح ہے، ابومعاویہ نے کہا : میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمہارے ساتھی (یعنی ابومقاتل ) کذاب ہیں، لیکن یہ حدیث جھوٹ ہے ۔
بعض اہل حدیث نے جلیل القدر اہل علم کی ایک جماعت پر جرح کی، حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ان کو ضعیف قرار دیا ، جب کہ دوسرے ائمہ نے ان کے صدق اور جلالت شان کی وجہ سے ان کی توثیق کی گرچہ ان کی بعض روایات میں اوہام ہیں۔
یحیی بن سعید القطان نے محمد بن عمرو پر کلام کیا ، پھر ان سے روایت کی ۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید القطان سے محمد بن عمرو بن علقمہ کے بارے میں دریافت کیا توآپ نے کہا: کیا ان کے بارے میں عفو ودرگزر پر مبنی رائے چاہتے ہو یا سخت بات؟ کہا: نہیں، سخت بات چاہتاہوں ؟ جواب دیا: وہ اس معیار کے نہیں جو تمہیں مطلوب ہے وہ روایت میں کہتے تھے:ہمارے مشائخ ابوسلمہ اور یحیی بن عبدالرحمن بن حاطب ہیں۔
یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں: میں نے مالک بن انس سے محمد بن عمرو کے بارے میں سوال کیا تو میرے قول کی طرح ان کے بارے میں مالک نے عرض کیا۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں: محمد بن عمرو، سہیل بن ابی صالح سے افضل ہیں، وہ میرے نزدیک عبدالرحمن بن حرملہ پر فوقیت رکھتے ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید بن القطان سے پوچھا: عبدالرحمن بن حرملہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کہا: اگر میں ان کو تلقین کرنا چاہوں تو کرسکتا ہوں، میں نے کہا: کیا ان کو تلقین کی جاتی تھی؟ کہا: ہاں!۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: یحیی بن سعید القطان نے تونہ شریک سے روایت کی ، نہ ابوبکر بن عیاش سے ، نہ ربیع بن صبیح سے اور نہ ہی مبارک بن فضالہ سے ۔
ترمذی کہتے ہیں: یحیی بن سعید القطان نے گرچہ ان لوگوں سے حدیث کی روایت ترک کردی تھی، لیکن ان کو کذب کے اتہام کی وجہ سے نہیں چھوڑا تھا، انہیں صرف ان کے حافظہ کی کمزور ی کی وجہ سے چھوڑا تھا۔
یحیی بن سعید القطان سے مروی ہے کہ وہ جب کسی راوی کو ایک مرتبہ اپنے حافظہ سے روایت کرتے دیکھتے، اور دوسری مرتبہ اپنی کتاب سے اور دونوں حالتوں میں وہ ایک روایت پر ثابت قدم نہیں رہتا تو اس کو ترک کردیتے تھے۔
اورجن رواۃ کو یحیی القطان نے ترک کردیا تھا ان سے عبداللہ بن المبارک، وکیع بن جراح ، عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ ائمہ حدیث نے روایت کی ہے ۱؎ ۔
ترمذی کہتے ہیں:ایسے ہی بعض اہل حدیث نے سہیل بن ابی صالح، محمد بن اسحاق ، حماد بن سلمہ ، محمد بن عجلان اور اس درجہ کے ائمہ حدیث پر کلام کیا ہے، ان پر کلام کا سبب ان کی بعض احادیث کی روایت میں ضعف ہے جب کہ دوسرے ائمہ نے ان سے روایت کی ہے ۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا: ہم سہیل بن ابی صالح کو حدیث میں ثقہ شمار کرتے تھے۔
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: محمد بن عجلان حدیث میں ثقہ اور مامون تھے ۔
ترمذی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک یحیی بن سعید القطان نے محمد بن عجلان کی سعید المقبری سے روایت میں کلام کیا ہے۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ محمدبن عجلان کہتے ہیں: سعید المقبری کی بعض احادیث ابوہریرہ سے روایت ہے، اور بعض بواسطہ رجل عن ابی ہریرہ، سعید کی روایات مجھ پر مختلط ہوگئیں، تو ہم نے سب کو سعید عن ابی ہریرہ کی سند سے روایت کردیا۔
ہمارے نزدیک یحیی بن سعید القطان نے ابن عجلان پر کلام اسی سبب سے کیا ہے ، جب کہ یحیی بن سعید القطان نے ابن عجلان سے بکثرت روایت کی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح ابن ابی لیلیٰ پر جس نے کلام کیا تو وہ صرف حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: شعبہ نے بسند ابن ابی لیلیٰ عن أخیہ عیسی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن أبی أیوب عن النبیﷺ چھینک کے بارے میں روایت کی ہے۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: پھرمیری ملاقات ابن ابی لیلیٰ سے ہوئی تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ ان سے ان کے بھائی عیسیٰ نے بیان کیا ، عیسی نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی ، اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی نے نبی اکرمﷺ سے۔
ترمذی کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ سے اس طرح کی کئی چیزیں روایت کی جاتی ہیں ، کبھی ایک چیز ایسے روایت کرتے ، پھر اس کی سند میں تبدیلی کردیتے ہیں اور یہ سب صرف حافظہ کی خرابی سے ہواہے ، گزشتہ عہد کے اکثر علماء احادیث لکھتے نہیں تھے ،اور جو لوگ لکھتے وہ سماع حدیث کے بعد لکھتے تھے۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے احمدبن الحسن کو کہتے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا: ابن ابی لیلیٰ سے حجت نہیں پکڑی جا ئے گی۔
ایسے ہی جن اہل علم نے مجالد بن سعید اور عبداللہ بن لہیعہ وغیرہ پر کلام کیا ہے تو اس کی وجہ صرف ان کے حافظہ کی خرابی اور روایت میں بکثرت خطا واقع ہونا ہے، جب کہ بہت سارے ائمہ نے ان سے روایت کی ہے تو جب ان رواۃ میں سے کوئی کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہو اور اس کی متابعت نہ پائی جائے تو وہ قابل حجت نہ ہوگا ، جیسے احمد بن حنبل کا قول کہ ابن ابی لیلیٰ قابل حجت نہیں ، احمد بن حنبل کا مقصد یہ ہے کہ جب ابن ابی لیلیٰ کسی چیز کی روایت میں منفرد ہوں تووہ قابل حجت نہیں ہیں۔ اور زیادہ یہ ہوتا ہے کہ راوی اسناد کو یاد نہیں رکھتا ، تو سند میں کمی یا زیادتی کردیتا ہے، یا سند بدل دیتا ہے، یاایسے الفاظ سے روایت کردیتا ہے جس سے معنی میں تبدیلی ہوجاتی ہے ۱؎ ۔
روایت بالمعنی کا جواز اور اس کی شروط
تو جس نے سندصحیح ذکر کی اور اسے یاد رکھا ، اورالفاظ میں تبدیلی کردی تومعنی نہ بدلنے کی صورت میں ایسا کرنے کی اہل علم کے نزدیک گنجائش ہے ۱؎ ۔
واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں: جب ہم تم سے حدیث بالمعنی روایت کردیں تو یہ تمہارے لیے کافی ہے ۔
محمدبن سیرین کہتے ہیں: حدیث کو میں دس مختلف سیاق سے سنتاتھا اورسب کا معنی ایک ہوتا تھا۔
ابن عون کہتے ہیں:ابراہیم نخعی ، حسن بصری اور شعبی بالمعنی حدیث روایت کرتے تھے ۔
اور قاسم بن محمد، محمد بن سیرین اور رجاء بن حیوہ حدیث کو اس کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے تھے۔
عاصم الأحول کہتے ہیں: میں نے ابوعثمان نہدی سے کہا کہ آپ ہم سے ایک بار حدیث بیان کرتے ہیں، پھر دوبارہ اس کی روایت کرتے ہیں تو وہ پہلے سے مختلف ہوتی ہے؟ عرض کیا :جو پہلی بار سنا ہے اس کو لے لو۔
حسن بصری کہتے ہیں: معنی اگر ٹھیک روایت کردو تو یہ تمہارے لیے کافی ہے۔
سیف بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد کو کہتے سنا: اگر چاہو تو حدیث بیان کرنے میں کمی کردو ، لیکن اس میں زیادتی نہ کرو۔( یعنی اپنی طرف سے اضافہ نہ کرو، مختصر روایت کرو، یا بعض فقرات روایت کرو)۔
سفیان ثوری کہتے ہیں: اگر میں یہ کہوں کہ میں تم سے بعینہ و یسے ہی روایت کرتاہوں جیسے میں نے سناہے، تو میری تصدیق نہ کرو، یہ روایت بالمعنی ہے ۔
وکیع کہتے ہیں: اگر بالمعنی روایت کی گنجائش نہ ہو تو لوگ ہلاک ہوجائیں گے ۔
ثقہ رواۃ اور ان کے مراتب ودرجات
ترمذی کہتے ہیں: اہل علم حفظ واتقان اور سماع حدیث کی تحقیق وتحری میں متفاوت ہیں، قوت حفظ کے باوجود بڑے سے بڑا کوئی امام وہم وخطا اور غلطی سے بچانہیں ہے۔
عمارہ بن قعقاع کہتے ہیں کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے کہا: جب آپ مجھ سے حدیث بیان کریں تو ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے بیان کریں، ابوزرعہ نے ایک بار مجھ سے ایک حدیث بیان کی پھر کئی سال کے بعد میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو ایک حرف بھی نہیں چھوڑا ۔
منصور کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی سے کہا: سالم بن ابی الجعد آپ سے زیادہ بہتر طورپرکیوں احادیث روایت کرتے ہیں؟کہا: اس لیے کہ وہ احادیث لکھتے تھے ۔
عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں: میں حدیث بیان کرتاہوں تو ایک حرف بھی نہیں چھوڑتا ۔
قتادہ کہتے ہیں: میرے کانوں نے جو کچھ سنا وہ دل میں بیٹھ گیا۔
قتادہ کہتے ہیں: میرے کانوں نے جو کچھ سنا وہ دل میں بیٹھ گیا۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں: زہری سے زیادہ میں نے کسی کو نص حدیث کی روایت کرتے نہیں دیکھا۔
ایوب سختیانی کہتے ہیں: میرے علم میں زہری کے بعد اہل مدینہ میں یحیی بن ابی کثیر سے بڑا حدیث کا کوئی عالم نہیں ہے۔
حماد بن زید کہتے ہیں: ابن عون حدیث بیان کرتے تھے ، جب میں ان کو ایوب سے اس کے خلاف روایت کرتا تو وہ اپنی روایت چھوڑدیتے ، میں کہتا کہ آپ نے وہ حدیث سنی ہے تو عرض کرتے : ایوب سختیانی ابن سیرین کی احادیث کے ہم میں سب سے زیادہ واقف کار تھے۔
علی بن المدینی کا قول ہے کہ میں نے یحیی بن سعید القطان سے سوال کیا: ہشام دستوائی زیادہ ثقہ اور معتبر ہیں، یا مسعر؟ کہا: میں نے مسعر کی طرح کسی کو نہیں دیکھا ، لوگوں میں مسعرسب سے زیادہ ثقہ اور معتبر تھے۔
حماد بن زید کہتے ہیں: جس حدیث میں بھی شعبہ نے میری مخالفت کی میں نے اس کو چھوڑدیا ۔
ابوالولید کہتے ہیں کہ حماد بن سلمہ نے کہا : اگر تمہیں حدیث چاہئے تو شعبہ کا دامن پکڑلو ۔
شعبہ کہتے ہیں:میں نے جس راوی سے بھی ایک حدیث روایت کی ، اس کے پاس ایک سے زیادہ بارآیا ، اور جس سے دس حدیث روایت کی اس کے پاس دس بار سے زیادہ آیا ، اور جس سے (۵۰) حدیث روایت کی اس کے پاس پچاس بار سے زیادہ آیا ، اور جس سے سوحدیث روایت کی اس کے پا س سوبار سے زیادہ آیا، إلا یہ کہ حیان کوفی سے میں نے یہ احادیث سنیں ، دوبارہ ان کے پاس گیا تو ان کی وفات ہوگئی تھی ۔
عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری کو کہتے سنا: شعبہ حدیث میں امیر المومنین ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان کو کہتے سنا: مجھے شعبہ سے زیادہ کوئی پسند نہیں ہے ، میرے نزدیک ان کا ہم پلہ کوئی نہیں، جب ان کی مخالفت سفیان ثوری کرتے ہیں ، تو میں سفیان ثوری کے قول کو قبول کرتا ہوں ۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان سے کہا: لمبی احادیث کو سفیان ثوری زیادہ یاد رکھتے ہیں، یا شعبہ ؟ کہا: شعبہ زیادہ یا د رکھتے تھے۔
یحیی القطان کہتے ہیں: شعبہ رواۃحدیث یعنی کون راوی کس سے روایت کرتا ہے کے سب سے بڑے ماہر عالم تھے، اور سفیان ثوری فقہی ابواب کے ما ہر تھے۔
عمروبن علی الفلاس کہتے ہیں کہ میں نے ابن مہدی کو کہتے سنا: ائمہ حدیث چار ہیں:سفیان ثوری، مالک بن انس ، اوزاعی اور حماد بن زید۔
وکیع کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ کوکہتے سنا: سفیان ثوری مجھ سے زیادہ حدیث کے حافظ ہیں، سفیان ثوری نے ہم سے جب بھی کسی شیخ کی حدیث روایت کی تو میں نے ان سے اس کے بارے میں سوال کیا، تو پایا کہ وہ ویسے ہی تھی جیسے مجھ سے بیان کیا تھا۔
معن بن عیسیٰ القزاز کہتے ہیں: مالک بن انس حدیث رسول کی روایت میں سختی کرتے تھے، ی ،ت وغیرہ الفاظ تک میں ۔
قاضی مدینہ ابراہیم بن عبداللہ بن قریم انصاری کہتے ہیں: امام مالک کاگزر ابوحازم پر ہوا تووہ بیٹھے تھے ، آگے گزر گئے،تو ان سے کہا گیا کہ آپ کیوں نہیں بیٹھے ؟ کہا: مجھے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ملی تو میں نے یہ بات ناپسندیدہ سمجھی کہ حدیث رسول کھڑے کھڑے سنوں۔
یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں:'' بسند مالک عن سعید بن المسیب''روایت کردہ حدیث مجھے ''سفیان ثوری عن ابراہیم نخعی'' سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: جماعت محدثین میں مالک سے زیادہ صحیح حدیث والاکوئی نہیں، مالک امام حدیث تھے۔
احمد بن الحسن کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا:میں نے یحیی بن سعید القطان کے ہم مثل کسی کو نہیں دیکھا۔
احمد بن الحسن کہتے ہیں: احمد بن حنبل سے وکیع اور عبدالرحمن بن مہدی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا: وکیع بن جراح دل کے ( یعنی ورع، تقوی ، زہد،عبادت اور ریاضت میں)بڑے ہیں، اور عبدالرحمن بن مہدی امام ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: اگر رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان مجھ سے حلف لیاجائے تو میں قسم کھاسکتا ہوں کہ میں نے عبدالرحمن بن مہدی سے بڑا عالم نہیں دیکھاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: رواۃ حدیث کے بارے میں کلام ، اور اہل علم سے اس موضوع پر روایات بہت ساری ہیں، ہم نے مختصرا کچھ باتیں ذکر کردی ہیں، تاکہ اس سے اہل علم کے مراتب اور ان کے مابین حفظ واتقان میں تفاوت اور فرق پر استدلال کیا جاسکے، اوریہ جاناجا سکے کہ اہل علم نے جن رواۃ پر کلام کیا ہے ، اس کے اسباب کیا ہیں ۱؎ ۔
حدیث سننے اور اسے روایت کرنے میں استعمال ہونے والے صیغے اور ان کے بارے میں محدثین کے مذاہب
امام ترمذی کہتے ہیں: عالم پر حدیث پڑھنا اگر وہ ان پڑھی جانے والی احادیث کا حافظ ہے، یا اگر وہ حافظ حدیث نہیں ہے تو اس پر پڑھی جانے والی کتاب کی اصل اس کے ہاتھ میں ہے تو یہ اہل حدیث کے نزدیک سماع کی طرح صحیح ہے ۱؎ ۔
ابن جریج کہتے ہیں: میں نے عطاء بن ابی رباح پر پڑھا تو ان سے کہا کہ میں کیسے کہوں؟ کہا: کہو ''حدثنا'' ہم سے (شیخ نے) اس حدیث کو بیان کیا۔
عکرمہ کہتے ہیں: ابن عباس کے پاس طائف کی ایک جماعت آئی جن کے ہاتھ میں ابن عباس کی کتابوں میں سے ایک کتاب تھی، تو ابن عباس نے ان پرپڑھنا شروع کردیا کبھی آگے سے پڑھتے اورکبھی پیچھے سے پڑھنے لگتے اور کہا: میں اس مصیبت سے عاجزہوں، تم مجھ پر پڑھو، میرا اقرار ویسے ہی ہے جیسے میں تم پر پڑھوں ۔
منصور بن معتمر کہتے ہیں: آدمی جب کسی کو اپنی کتاب ہاتھ میں پکڑا دے اور کہے کہ یہ مجھ روایت کرو تو اس کے لیے جائز ہے کہ اس کی روایت کر ے (اس کو محدثین کی اصطلاح میں'' مناولہ'' کہتے ہیں)۔
میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: میں نے ابوعاصم النبیل سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: مجھ پر پڑھو، میں نے یہ پسند کیا کہ وہ پڑھیں تو انہوں نے کہا: کیا تم قراء ۃ (شیخ پر پڑھنے) کو جائز نہیں کہتے ،جب کہ سفیان ثوری اور مالک بن انس شیخ پر قراء ۃ کو جائز کہتے تھے!۔
عبداللہ بن وہب کہتے ہیں: میں نے حدیث کی روایت میں''حدثنا'' کا صیغہ استعمال کیاتو اس سے مراد وہ احادیث ہیں جن کو ہم نے لوگوں کے ساتھ سنا، اور جب میں ''حدثنا'' کہتاہوں تو وہ میری تنہا مسموعات میں سے ہیں، اورجب ''أخبرنا'' کہتا ہوں تو وہ عالم حدیث پر پڑھی جانے والی احادیث ہیں ، جن میں میں حاضرتھا، اور جب میں ''اخبرنی'' کہتا ہوں تووہ میری عالم حدیث پر تنہا پڑھی ہوئی روایات ہوتی ہیں۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: ''حدثنا'' اور ''أخبرنا'' دونوں ہم معنی لفظ ہیں ۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم ابو مصعب کے پاس تھے ، ان پر ان کی بعض احادیث کو پڑھاگیا تو میں نے ان سے کہا: ہم حدیث روایت کرتے وقت کون سا صیغہ استعمال کریں؟ کہا: کہو : ''حدثنا ابو مصعب'' یعنی ہم سے ابومصعب نے حدیث بیان کی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: بعض اہل علم نے اجازئہ حدیث کو جائز کہا ہے،جب عالم حدیث کسی کو اپنی کسی حدیث کی روایت کی اجازت دے تو اس (مستجیز ) کے لیے جائز ہے کہ وہ مجیز(یعنی اجازئہ حدیث دینے والے شیخ) سے روایت کرے ۔
بشیر بن نہیک کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ کی روایت سے ایک کتاب لکھی توان سے کہا کہ میں اسے آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں، روایت کرو۔
محمد بن اسماعیل واسطی نے ہم سے بیان کیا ان سے محمد بن الحسن واسطی نے بیان کیا وہ عوف اعرابی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حسن بصری سے کہا: میرے پاس آپ کی بعض احادیث ہیں، کیا میں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔
ترمذی کہتے ہیں: محمد بن الحسن ''محبوب بن الحسن'' کے نام سے معروف ہیں، ان سے کئی ائمہ نے روایت کی ہے۔
عبیداللہ بن عمرکہتے ہیں: زہری کے پاس میں ایک کتاب لے کرآیا اور ان سے عرض کیاکہ یہ آپ کی احادیث ہیں، کیامیں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: ابن جریج، ہشام بن عروہ کے پاس ایک کتاب لے کر آئے اور ان سے کہا یہ آپ کی احادیث ہیں، کیا میں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: میں نے اپنے جی میں کہا: مجھے نہ معلوم ہوسکا کہ دونوں صورتوں میں کون زیادہ تعجب خیز بات ہے۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید القطان سے ابن جریج کی عطاخراسانی سے روایت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ضعیف ہے ، میں نے کہا: وہ''أخبرنی'' کہتے ہیں، کہا: بے کار بات ہے، یہ صرف کتاب ہے جو عطا نے ابن جریج کو دے دی تھی۔
مرسل حدیث کا حکم
ترمذی کہتے ہیں: جب حدیث مرسل ہو تووہ اہل حدیث کی اکثریت کے نزدیک صحیح نہیں ہے، کئی ائمہ حدیث نے اسے ضعیف قرار دیاہے۔
عتبہ بن ابی حکیم کہتے ہیں: زہری نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ کو'' قال رسول اللہﷺ'' کہتے سناتو کہا:اے ابن فروہ! اللہ تم سے جنگ کرے، تم ایسی حدیث ہمارے پاس لے کر آئے ہو جس کی نکیل ہے نہ لگا م (جس کا نہ سر نہ پیر)۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں:میرے نزدیک مجاہد کی مراسیل؛ عطاء بن ابی رباح کی مراسیل سے زیادہ پسندیدہ ہیں، عطا سب سے روایت کرتے تھے۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میرے نزدیک سعید بن جبیر کی مراسیل عطاء کی مراسیل سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان سے پوچھا: مجاہد کی مراسیل آپ کے نزدیک زیادہ اچھی ہیں یا طاؤس کی ؟ کہا: دونوں قریب قریب ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان کو کہتے سنا: ابواسحاق سبیعی کی مراسیل میرے نزدیک تقریبا کچھ بھی نہیں ہیں، ایسے ہی اعمش ، تیمی، یحیی بن ابی کثیر ، اور ابن عیینہ کی مراسیل سب ہواکی مانندہیں، پھر کہا: ہاں، اللہ کی قسم! اور سفیان بن سعید ثوری کی مراسیل بھی ۔
علی بن المدینی کہتے ہیں:میں نے یحیی بن سعید القطان سے پوچھا: آپ مالک کی مراسیل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟کہا: یہ مجھے زیادہ پسند ہیں، پھر یحیی بن سعیدالقطان نے کہا: رواۃ حدیث میں مالک سے زیادہ کسی کی حدیث صحیح نہیں ہے۔
سوار بن عبداللہ عنبری کہتے ہیں کہ میں نے یحیی القطان کوکہتے سنا: حسن بصری اپنی روایت میں جب ''قال رسول اللہﷺ'' کہتے ہیں تو ایک یا دو حدیث کے علاوہ مجھے ان کی ساری احادیث کی اصل مل گئی ۔
ترمذی کہتے ہیں: اور مرسل کو ضعیف کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ ان ائمہ نے ثقہ اور غیر ثقہ ہر طرح کے رواۃ سے روایت کی ہے ،تو جب ایک راوی نے نے کوئی حدیث روایت کی اور اس کو مرسل بیان کیا تو ہوسکتا ہے کہ اس نے غیر ثقہ راوی سے اس کی روایت کی ہوچنانچہ حسن بصری نے معبدجہنی پر جرح کی پھر اس سے روایت کی۔
مرحوم بن عبدالعزیز العطار کے والد اور چچا کہتے ہیں کہ ہم نے حسن بصری کو کہتے سنا: تم معبدجہنی سے بچو، کیونکہ وہ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا سے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:شعبی سے منقول ہے کہ حارث اعور نے ہم سے حدیث روایت کی اور وہ کذاب تھا، اور اس سے شعبی نے بھی روایت کی ہے ، فرائض کے باب میں علی وغیرہ سے ان کی اکثر روایات کا مصدر حارث اعور ہی ہے۔اورشعبی کا قول ہے کہ حارث اعور نے مجھے علم فرائض سکھائے ، حارث علم فرائض میں سب سے ماہر آدمی تھے۔
عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں: کیا تم سفیان بن عیینہ پر تعجب نہیں کروگے ،جابر جعفی نے جب ہزار سے زیادہ احادیث ان سے بیان کیں تو میں نے اس کو ان کے کہنے کی وجہ سے ترک کردیا، پھر وہ اس سے روایت کرتے ہیں۔
محمد بن بشار کہتے ہیں: عبدالرحمن بن مہدی نے جابر جعفی کو چھوڑدیا۔
مرسل کی حجیت کے قائلین
بعض اہل علم نے مرسل کو حجت مانا ہے۔
سلیمان بن مہران اعمش کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے کہا کہ آپ عبداللہ بن مسعود کی سند بیان کیجئے تو انہوں نے کہا: جب میں تم سے کہوں: ''حدثنا رجل عن عبداللہ بن مسعود'' (ہم سے ایک آدمی نے بیان کہ اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی) تویہ ایسی سند ہے جس میں میں نے راوی کا نام لیا ہے ، اور جب میں کہوں: ''قال عبداللہ'' تو وہ کئی رواۃ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی۔
ترمذی کہتے ہیں:اہل علم کے نزدیک رواۃ کی تضعیف میں اختلاف ہے جیسے دوسرے علوم و فنون میں علماء کا اختلاف ہے، شعبہ سے آیا ہے کہ انہوں نے ابوالزبیر مکی، عبدالملک بن ابی سلیمان ، اور حکیم بن جبیر کی تضعیف کی ،اور ان سے روایت ترک کردی ، پھر شعبہ نے حفظ وعدالت میں ان سے کم درجے کے رواۃ سے روایت کی ، یعنی جابر جعفی ، ابراہیم بن مسلم ہجر ی ، محمد بن عبیداللہ العرز می اور کئی راوی جو حدیث میں ضعیف قرار دیے گئے ہیں سے روایت کی ۔
امیہ بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے کہا: آپ عبدالملک بن ابی سلیمان کو چھوڑ کر محمد بن عبیداللہ عرزمی سے روایت کرتے ہیں؟ کہا: ہاں ۔
ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے پہلے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی پھر انہیں چھوڑ دیا ، اور کہا جا تا ہے کہ ان کے چھوڑ نے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے بسند عطاء بن ابی رباح عن جابر بن عبداللہ عن النبیﷺ یہ حدیث روایت کی : ''الرَّجُلُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا''۔
اور کئی ائمہ ابوالزبیر مکی ، عبدالملک بن ابی سلیمان اور حکیم بن جبیرکی توثیق کی،اور ان سے روایت کی ۔
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں: ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس سے نکل کر آپ کی احادیث کا مذاکرہ کیا،توابوالزبیر ان احادیث کے سب سے زیادہ حافظ تھے۔
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے آگے کرتے تھے،تاکہ میں ان کے لیے حدیث یاد کرلوں۔
ایوب سختیانی کہتے ہیں: ہم سے ابوالزبیر نے حدیث بیان کی ، اور ابوالزبیر اور ابوالزبیر،اور ابوالزبیر سفیان ثوری اپنا ہاتھ پکڑکر یہ کہہ رہے تھے ۔
ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس کلام سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حفظ حدیث اورروایتِ حدیث میں ابوالزبیر قوی اور پختہ ہیں۔
عبداللہ بن المبارک سے روایت ہے کہ سفیان ثوری کہتے تھے: عبدالملک بن ابی سلیمان علم کی میزان ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید القطان سے حکیم بن جبیر کے بارے میں سوال کیا تو کہا: صدقہ والی حدیث کی روایت کی وجہ سے شعبہ نے ان سے روایت ترک کردی ،یعنی ابن مسعودکی حدیث کہ نبی اکرمﷺ کا ارشادہے: ''جس نے سوال کیا اور اس کے پاس مو جود مال اس کو دوسروں سے بے نیاز کردینے والا ہے ، تو وہ قیامت کے دن ایسے ہوگا کہ اس کے چہرہ پر خراش ہوگی ، کہا گیا: اللہ کے رسول! اسے کون سی چیز دوسروں سے بے نیاز کرے گی ؟ فرمایا: پچاس درہم (چاندی کے) یااس قیمت کا سونا''۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: سفیان ثوری اور زائدہ نے حکیم بن جبیر سے روایت کی ہے ۔
اورعلی بن المدینی کہتے ہیں کہ یحیی بن سعید القطان کے نزدیک حکیم بن جبیر کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ان سے یحیی بن آدم نے ، یحیی نے سفیان ثوری سے روایت کی ، وہ کہتے ہیں کہ حکیم بن جبیرنے صدقہ والی حدیث روایت کی ۔
یحیی بن آدم کہتے ہیں: شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے سفیان ثوری سے کہا: اگرصدقہ والی حدیث حکیم بن جبیر کے علاوہ کسی اور نے روایت کی ہوتی تو کیا حکم ہوتا ؟۔
سفیان ثوری نے جواب دیا: حکیم کوکیا ہوگیا کہ شعبہ نے اُن سے روایت نہیں کی؟عبداللہ بن عثمان نے کہا: ہاں!(ایسے ہی ہے، شعبہ نے حکیم سے روایت نہیں کی ) توسفیان ثوری نے کہا: میں نے زبید کو یہ حدیث محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے سنا ہے۔
امام ترمذی کے نزدیک حدیث حسن کی تعریف
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم نے اس کتاب میں جس حدیث کو ''حسن'' کہاہے اس سے ہماری مراد اس کی سند کا حسن ہونا ہے۔
ہر وہ حدیث جس کی سندمیں متہم بالکذب راوی نہ ہو اور نہ وہ شاذ ہو اور وہ دوسرے طرق سے مروی ہو تو یہ ہمارے نزدیک حسن ہے ۱؎ ۔
علمائے حدیث کے نزدیک غریب احادیث کی اقسام
اور ہم نے اس کتاب میں جن احادیث کو ''غریب'' کہا ہے تو اہل حدیث کے نزدیک ''غریب حدیث '' کے مختلف معانی ہیں:
۱- کبھی حدیث کی غرابت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک سند سے مروی ہوتی ہے جیسے حماد بن سلمہ کی حدیث جس کو وہ ابوالعشرا ء سے روایت کرتے ہیں، اور وہ اپنے باپ سے، عشراء کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول : کیا ذبح کی جگہ صرف حلق اور گردن ہے؟ تو آپ نے فرمایا:'' اگر تم اس کی ران میں زخم لگاؤ گے تو یہ بھی کافی ہوگا '' ۔
حماد بن سلمہ اس حدیث کی ابوالعشر اء سے روایت میں منفرد ہیں، ابوالعشراء کی اپنے والد سے صرف یہی ایک حدیث معروف ہے، گرچہ اہل علم کے نزدیک یہ حدیث مشہور ہے ، اور یہ صرف حماد بن سلمہ کی حدیث سے مشہور ہے، ہمیں اس کا علم صرف انہیں کی حدیث سے ہے۔
۲- اور کبھی کوئی امام حدیث ایک حدیث روایت کرتا ہے، جو صرف اسی امام کی حدیث سے معروف ہوتی ہے، اور حدیث کی شہرت اس سے روایت کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے ، جیسے عبداللہ بن دینار کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اکرمﷺ نے ولاء کی خرید وفروخت اور ہبہ سے منع کیا ہے'' ، اس حدیث کو ہم صرف عبداللہ بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور ان سے روایت عبیداللہ بن عمر، شعبہ ، سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ اور دوسرے کئی ائمہ نے کی ہے۔
یحیی بن سلیم نے اس حدیث کی روایت بسند عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر کی ہے، یحیی بن سلیم کو اس روایت میں وہم ہوگیا ہے، صحیح بسند عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر ہی ہے ۔
ایسے ہی اس حدیث کی روایت عبدالوہاب ثقفی اور عبداللہ بن نمیر نے بسند عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر کی ہے۔مؤمل نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے کی ہے، شعبہ کہتے ہیں: مجھے یہ پسند ہے کہ عبداللہ بن دینار مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے پاس اٹھ کر آؤں اور ان کا سر چوم لوں ۔
۳- ترمذی کہتے ہیں: بعض مرتبہ حدیث میں غرابت کسی الفاظ کی زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
زیادت ثقہ کے مقبول ہونے کی شروط
الفاظ کی زیادتی اس وقت صحیح ہوگی جب یہ حفظ کے اعتبارسے قابل اعتماد راوی کی روایت سے ہو جیسے مالک بن انس کی بسند نافع عن ابن عمر روایت کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان میں زکاۃ فطر ہر مسلمان آزاد اور غلام مرد اور عورت سب پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض ہے۔
مالک نے اس حدیث میں ''من المسلمین'' کا لفظ زیادہ روایت کی ہے۔
ایوب سختیانی ، عبیداللہ بن عمر اور کئی ائمہ حدیث نے اس حدیث کو بسند نافع عن ابن عمر روایت کیاہے ، لیکن انہوں نے اس میں ''من المسلمین '' کا لفظ نہیں ذکر کیا۔
بعض رواۃ نے نافع سے مالک کی روایت کے ہم مثل روایت کی ،جو حفظ میں قابل اعتماد نہیں ہیں۔
کئی ائمہ حدیث نے مالک کی حدیث پر اعتماد کیا ہے جن میں شافعی اور احمد بن حنبل ہیں، یہ دونوں کہتے ہیں کہ آدمی کے پا س اگر غیر مسلم غلام ہوں تو ان کی طر ف سے زکاۃ فطر نہیں نکالے گا ۔اور اس پر مالک کی حدیث سے استدلال کیا ہے ۔
اور اگر حفظ میں قابل اعتماد راوی حدیث میں کوئی لفظ زیادہ روایت کرے تو اس کی زیادتی قبول کی جائے گی ۔
۴-اور کبھی حدیث بہت سارے طرق سے مروی ہوتی ہے لیکن غرابت مخصوص سند کے اعتبار سے ہوتی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے ابوکریب ، ابوہشام رفاعی ، ابوالسائب ، حسین بن الاسود نے روایت کی وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسامہ نے روایت کی ،ابواسامہ بسند برید بن عبداللہ بن ابی بردۃ عن جدہ ابی بردۃ روایت کرتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کہتے ہیں:'' مومن ایک آنت میں کھاتا ہے ، اور کافر سات آنت میں '' ۱؎ ۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، یہ متعدد طرق سے مرفوعا مروی ہے، غرابت صرف ابوموسی کی روایت سے ہے ۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں محمود بن غیلان سے پوچھا تو انہوں کہا: یہ صرف بروایت ابوکریب ،ابو اسامہ سے مروی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: یہ حدیث بروایت ابوکریب ابو اسامہ مروی ہے، یہ ہمیں صرف اسی طریق سے معلوم ہے، تو میں نے کہا: اس حدیث کو مجھ سے کئی آدمیوں نے بیان کیا وہ اس کی روایت ابواسامہ سے کرتے ہیں، تو آپ تعجب کرنے لگے ، اور عرض کیا کہ ابوکریب کے علاوہ میرے علم کے مطابق اس حدیث کی روایت کسی اور نے نہیں کی ہے۔
بخاری کہتے ہیں: ہمارے خیال میں ابوکریب نے اس حدیث کو ابواسامہ سے مذاکرہ کے دوران لیاہے۔
ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن ابی زیاد اور کئی دوسرے رواۃ نے ہم سے بیان کیا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا ، شبابہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے اور شعبہ نے بکیر بن عطاء سے اور بکیر عبدالرحمن بن یعمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے دباء (تونبی)اورمزفت (تارکول) والے برتن کے استعمال سے منع کیا ہے ۔
ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے ، ہمارے علم میں شبابہ کے علاوہ کسی اور نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے نہیں کی ہے، جب کہ بہت سارے طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دباء (تونبی) اور مزفت (تارکو ل) کے برتن میں نبیذبنانے سے منع کیا ہے ، شبابہ کی حدیث میں غرابت یہ ہے کہ وہ اس حدیث کی شعبہ سے روایت میں منفرد ہیں۔
شعبہ اور سفیان ثوری نے اس اسناد سے بسند بکر بن عطاء عبدالرحمن یعمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''حج عرفہ ہے'' ۔ یہ حدیث اہل حدیث کے یہاں اسی سند سے معروف ہے ۱؎ ۔
ترمذی کہتے: ہیں ہم سے محمدبن بشار نے بیان کیا،محمدبن بشار سے معاذ بن ہشام نے ،معاذ نے اپنے والد ہشام سے ، اور ہشام نے یحیی بن ابی کثیر سے ، یحیی سے ابومزاحم نے ، ابومزاحم کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرمﷺ کا ارشادہے: ''جوجنازے کے پیچھے چلا اور اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا ، اور جو جنازہ کے پیچھے آخر تک چلا حتی کہ وہ دفنادیا گیا تو اسے دوقیراط ثواب ملے گا ، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! دوقیراط کیا ہے : فرمایا: ''دونوں میں کاچھوٹا احدپہاڑ کے برابر ہے''۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے دارمی نے بیان کیا ،اور دارمی سے مروان بن محمد نے اور مروان سے معاویہ بن سلام نے اور معاویہ سے یحیی بن ابی کثیرنے ،اور یحیی ابو مزاحم سے روایت کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ''جو جنازہ کے پیچھے چلاتو اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے ...''سابقہ حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
دارمی کہتے ہیں: ہم سے مروان نے بیان کیا وہ معاویہ بن سلام سے روایت کرتے ہیں کہ یحیی بن ابی کثیر نے کہا: اور ہم سے ابوسعید مولی المہری نے بیان کیا وہ حمزہ بن سفینہ سے روایت کرتے ہیں، اور حمزہ بن سفینہ سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا،اورسابقہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے دار می سے پوچھا: کیا کہ عراق میں آپ کی کس حدیث کو لوگو ں نے غریب قرار دیا تو جواب دیا : سائب کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا، پھرحدیث ذکر کی۔
ترمذی کہتے ہیں:اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا وہ اس حدیث کی روایت دارمی سے کررہے تھے۔
ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث کئی طرق سے بسند عائشہ رضی اللہ عنہا مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
اس حدیث میں غرابت صرف سند کے اعتباسے ہے کہ اسے سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور عائشہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ۔
ترمذی کہتے ہیں:ہم سے ابوحفص عمر و بن علی الفلاس نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے یحیی بن سعید القطان نے بیان کیا ، یحیی القطان کہتے ہیں کہ ہم مغیر ہ بن ابی قرہ سدوسی نے بیان کیا، مغیرہ کہتے ہیں : میں نے انس مالک کو کہتے سناکہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اونٹنی باندھ لوں اور اللہ پر توکل کروں، یا اونٹنی چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: ''اونٹنی باندھ لو، پھر اللہ پر توکل کرو'' ۔
فلاس کہتے ہیں: یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے ، ہمیں انس کی حدیث سے صر ف اسی طریق کا علم ہے، اس طرح کی حدیث عمرو بن امیہ الضمری سے مرفوعا مروی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں:ہم نے یہ کتاب'' سنن الترمذی'' مختصرا فائدہ کی امید سے مرتب کی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سے نفع ہو، اس کو ہمارے لیے اپنی رحمت سے نفع بخش بنائے اور ا پنی ہی رحمت سے اس کوہمارے حق میں وبال جان نہ بنائے۔ آمین ۔
(۱) سنن الترمذی (۱۸۷) (وَلا سَفَرٍ کالفظ علل کے بعض نسخوں میں ہے، لیکن صحیحین اورترمذی میں اس کے بغیر ہے )
(۲) سنن الترمذی (۱۴۴۴)
(۳) دونوں حدیثیں صحیح ہیں، امام ترمذی کا مقصد دونو ں حدیثوں کی علت بیان کرنے سے یہ ہے کہ انہوں نے وہ دلائل ذکر کردیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں منسوخ ہیں۔
٭٭٭