• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
75-بَاب فِي فَضْلِ الشَّامِ وَالْيَمَنِ
۷۵-باب: شام اور یمن کی فضیلت کابیان​


3953- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ابْنُ ابْنَةِ أَزْهَرَ السَّمَّانِ، حَدَّثَنِي جَدِّي أَزْهَرُ السَّمَّانُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا" قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا قَالَ: "اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا" قَالُوا: وَفِي نَجْدِنَا قَالَ: هُنَاكَ الزَّلازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِهَا أَوْ قَالَ مِنْهَا يَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَوْنٍ.
وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/الاستسقاء ۲۷ (۱۰۳۷)، والفتن ۱۶ (۷۰۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴۵) (صحیح)
۳۹۵۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ ! ہمارے شام میں برکت عطافرما، اے اللہ ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما''، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا:'' اے اللہ ! ہمارے شام میں برکت عطافرما، اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا:'' یہاں زلزلے اور فتنے ہیں،اور اسی سے شیطان کی سینگ نکلے گی، (یعنی شیطان کا لشکر اور اس کے مدد گار نکلیں گے) ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے یعنی ابن عون کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲-یہ حدیث بطریق: سالم عن أبیہ عبداللہ بن عمر، عن النبیﷺ''بھی آئی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : محقق شارحین حدیث نے قطعی دلائل اورتاریخی حقائق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور ''نجد''سے مراد''عراق''ہے ، تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ دینی فتنے زیادہ تر عراق سے اٹھے ، لغت میں نجداونچی زمین (سطح مرتفع) کو کہا جاتا ہے، سعودیہ میں واقع ''نجد''کو بھی اسی وجہ سے ''نجد''کہاجاتاہے، اس اعتبارسے عراق پر بھی نجدکا لفظ صادق آتاہے، اورحسی ومعنوی دینی فتنوں کے عراق سے ظہورنے یہ ثابت کردیاکہ آپﷺکی مراد یہی عراق اورمضافات کا علاقہ تھا، بدعتی فرقوں نے اس حدیث کا مصداق شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کوقراردیا ہے ، ''شتان مابین الیزیدین''سلف صالحین کے عقیدہ اورفہم شریعت کے مطابق چلائی گئی تحریک چاہے مذمومہ نجدہی سے کیوں نہ ہواس حدیث کا مصداق کیسے ہوسکتی ہے؟ اگرنجدی تحریک مرادہوگی تو اصل اسلام ہی مرادہوگا ۔


3954- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِمَاسَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ نُؤَلِّفُ الْقُرْآنَ مِنَ الرِّقَاعِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "طُوبَى لِلشَّامِ" فَقُلْنَا: لأَيٍّ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "لأَنَّ مَلائِكَةَ الرَّحْمَنِ بَاسِطَةٌ أَجْنِحَتَهَا عَلَيْهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۷۲۸)، وانظر: حم (۵/۱۸۴) (صحیح)
(ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم ۵۰۳)
۳۹۵۴- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کررہے تھے، تو آپ نے فرمایا:'' مبارکبادی ہو شام کے لیے، ہم نے عرض کیا: کس چیز کی اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا:'' اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے بازو بچھا تے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یحییٰ بن ایوب کی روایت سے جانتے ہیں۔


3955- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ يَفْتَخِرُونَ بِآبَائِهِمْ الَّذِينَ مَاتُوا إِنَّمَا هُمْ فَحْمُ جَهَنَّمَ أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الْجُعَلِ الَّذِي يُدَهْدِهُ الْخِرَائَ بِأَنْفِهِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالآبَائِ إِنَّمَا هُوَ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ النَّاسُ كُلُّهُمْ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ".
وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۷۴) (حسن)
۳۹۵۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' باز آجائیں وہ قومیں جو اپنے ان آباء واجداد پر فخرکررہی ہیں جو مرگئے ہیں، وہ جہنم کا کوئلہ ہیں ورنہ وہ اللہ کے نزدیک اس گبریلے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجائیں گے، جو اپنے آگے اپنی ناک سے نجاست ڈھکیلتا رہتاہے ، اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کردیا ہے، اب تو لوگ مومن و متقی ہیں یا فاجر وبدبخت، لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیداکیے گئے ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مرادوہ آباء واجدادہیں جن کی وفات کفرکی حالت میں ہوچکی تھی ، وہ کیسے بھی عال نسب ہوں، ان پر مسلمانوں کوفخرکرنا درست نہیں کیونکہ ان کی وفات کفرپر ہوئی ہے ۔
وضاحت ۲؎ : قبائل کے فضائل کے اخیرمیں شاید اس حدیث کے لانے سے مولف کامقصد یہ ہوکہ مذکورہ قبائل کے جو بھی فضائل ہوں اصل کامیابی اورفضیلت کی بات اپنا ایمان وعمل ہے، قبیلہ خاندان کی برتری اوران پرفخرکچھ کام نہیں آئیگا، یہ فخربالآخرذلت کا سبب بن جائیگا۔


3956- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ الْفَرْوِيُّ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "قَدْ أَذْهَبَ اللَّهُ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَفَخْرَهَا بِالآبَائِ مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَذَا أَصَحُّ عِنْدَنَا مِنَ الْحَدِيثِ الأَوَّلِ وَسَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ قَدْ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ وَيَرْوِي عَنْ أَبِيهِ أَشْيَائَ كَثِيرَةً عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي عَامِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ.
* تخريج: د/الأدب ۱۲۰ (۵۱۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۳۳) (حسن)
۳۹۵۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے تم سے جاہلیت کی نخوت اور اپنے باپ دادا پر فخر کو ختم کردیا ہے، اب لوگ مومن و متقی ہیں یافاجرو بدبخت اور سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے ہیں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن اور یہ ہمارے نزدیک پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے،۲- سعید مقبری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور وہ اپنے باپ کے واسطے سے بہت سی چیزیں ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں،۳- سفیان ثوری اور کئی دوسرے راویوں نے یہ حدیث ہشام بن سعد سے، ہشام نے سعید مقبری سے اور سعید مقبری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے ابوعامر کی حدیث کے مانند روایت کی ہے جسے وہ ہشام بن سعد سے روایت کرتے ہیں۔

* * * * *​
* * *​
*​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
کتاب العلل

(اصول حدیث ، علل حدیث اورقواعد جرح وتعدیل)​
تالیف​
امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی (۲۰۰-۲۷۹ھ)​
(عربی متن، اردوترجمہ ، تخریج وتحشیہ )​
ترجمہ وتعلیق
ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی​
استاذ حدیث جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ، ریاض​
ناشر: دار الکتب السلفیۃ ، دہلی (انڈیا)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
كتاب العلل



قَالَ أَبُو عِيسَى: جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ. وَقَدْ أَخَذَ بِهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَا خَلا حَدِيثَيْنِ: 1- حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلا مَطَرٍ ۱؎ .
2-وَحَدِيثَ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ؛ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ" ۲؎ . وَقَدْ بَيَّنَّا عِلَّةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا فِي الْكِتَابِ ۳؎ .
قَالَ: وَمَا ذَكَرْنَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ اخْتِيَارِ الْفُقَهَائِ:
1- فَمَا كَانَ مِنْهُ مِنْ قَوْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ فَأَكْثَرُهُ مَا حَدَّثَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ.
2- وَمِنْهُ مَا حَدَّثَنِي بِهِ أَبُو الْفَضْلِ مَكْتُومُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ.
3- وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ قَوْلِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فَأَكْثَرُهُ مَا حَدَّثَنَا بِهِ إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
4- وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ أَبْوَابِ الصَّوْمِ؛ فَأَخْبَرَنَا بِهِ أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدِينِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
5- وَبَعْضُ كَلامِ مَالِكٍ مَا أَخْبَرَنَا بِهِ مُوسَى بْنُ حِزَامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
6- وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ قَوْلِ ابْنِ الْمُبَارَكِ فَهُوَ مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الآمُلِيُّ عَنْ أَصْحَابِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْهُ.
7- وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ أَبِي وَهْبٍ مُحَمَّدِ بْنِ مُزَاحِمٍ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ.
8- وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن المبارك.
9- وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدَانَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِالْمَلِكِ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ.
10- وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ حِبَّانَ بْنِ مُوسَى عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ.
11- وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ، عَنْ فَضَالَةَ النَّسَوِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ.
12-وَلَهُ رِجَالٌ مُسَمَّوْنَ سِوَى مَنْ ذَكَرْنَا عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ.
13- وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ قَوْلِ الشَّافِعِيِّ فَأَكْثَرُهُ مَا أَخْبَرَنَا بِهِ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، عَنْ الشَّافِعِيِّ.
14- وَمَا كَانَ مِنْ الْوُضُوئِ وَالصَّلَاةِ فَحَدَّثَنَا بِهِ أَبُوالْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ، عَنْ الشَّافِعِيِّ.
15- وَمِنْهُ مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو إِسْمَاعِيلَ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَحْيَى الْقُرَشِيُّ الْبُوَيْطِيُّ، عَنْ الشَّافِعِيِّ.
16- وَذُكِرَ مِنْهُ أَشْيَائُ عَنْ الرَّبِيعِ، عَنْ الشَّافِعِيِّ، وَقَدْ أَجَازَ لَنَا الرَّبِيعُ ذَلِكَ وَكَتَبَ بِهِ إِلَيْنَا.
17- وَمَا كَانَ مِنْ قَوْلِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَإِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ فَهُوَ مَا أَخْبَرَنَا بِهِ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ،عَنْ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
18- إِلا مَا فِي أَبْوَابِ الْحَجِّ وَالدِّيَاتِ وَالْحُدُودِ فَإِنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنِي بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الأَصَمُّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ مَنْصُورٍ، عَنْ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
19- وَبَعْضُ كَلامِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَفْلَحَ، عَنْ إِسْحَاقَ، وَقَدْ بَيَّنَّا هَذَا عَلَى وَجْهِهِ فِي الْكِتَابِ الَّذِي فِيهِ الْمَوْقُوفُ ۱؎ .
20- وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ ذِكْرِ الْعِلَلِ فِي الأَحَادِيثِ وَالرِّجَالِ وَالتَّارِيخِ فَهُوَ مَا اسْتَخْرَجْتُهُ مِنْ كِتَابِ التَّارِيخِ ۲؎ ، وَأَكْثَرُ ذَلِكَ مَا نَاظَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ، وَمِنْهُ مَا نَاظَرْتُ بِهِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَأَبَا زُرْعَةَ، وَأَكْثَرُ ذَلِكَ عَنْ مُحَمَّدٍ، وَأَقَلُّ شَيْئٍ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي زُرْعَةَ، وَلَمْ أَرَ أَحَدًا بِالْعِرَاقِ، وَلا بِخُرَاسَانَ فِي مَعْنَى الْعِلَلِ وَالتَّارِيخِ وَمَعْرِفَةِ الأَسَانِيدِ كَبِيرَ أَحَدٍ أَعْلَمَ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ ۳؎ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا حَمَلَنَا عَلَى مَا بَيَّنَّا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ قَوْلِ الْفُقَهَائِ وَعِلَلِ الْحَدِيثِ لأَنَّا سُئِلْنَا عَنْ هَذَا؛ فَلَمْ نَفْعَلْهُ زَمَانًا، ثُمَّ فَعَلْنَاهُ؛ لِمَا رَجَوْنَا فِيهِ مِنْ مَنْفَعَةِ النَّاسِ ۱؎ .
لأَنَّا قَدْ وَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ تَكَلَّفُوا مِنْ التَّصْنِيفِ مَا لَمْ يُسْبَقُوا إِلَيْهِ؛ مِنْهُمْ:
1- هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ،2- وَعَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ،3- وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ 4- وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،5- وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ،6- وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمَبَارَكِ.7- وَيَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ،8- وَوَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ،9- وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَغَيْرُهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ صَنَّفُوا فَجَعَلَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مَنْفَعَةً كَثِيرَةً؛ فَنَرْجُو لَهُمْ بِذَلِكَ الثَّوَابَ الْجَزِيلَ عِنْدَ اللَّهِ لِمَا نَفَعَ اللَّهُ بِهِ الْمُسْلِمِينَ؛ فَهُمْ الْقُدْوَةُ فِيمَا صَنَّفُوا.
وَقَدْ عَابَ بَعْضُ مَنْ لا يَفْهَمُ عَلَى أَهْلِ الْحَدِيثِ الْكَلامَ فِي الرِّجَالِ، وَقَدْ وَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ مِنْ التَّابِعِينَ قَدْ تَكَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ مِنْهُمْ: الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَطَاوُسٌ تَكَلَّمَا فِي مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ.
وَتَكَلَّمَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ فِي طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ.
وَتَكَلَّمَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَعَامِرٌ الشَّعْبِيُّ فِي الْحَارِثِ الأَعْوَرِ.
وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالأَوْزَاعِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَوَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ تَكَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ وَضَعَّفُوا.
وَإِنَّمَا حَمَلَهُمْ عَلَى ذَلِكَ عِنْدَنَا -وَاللَّهُ أَعْلَمُ- النَّصِيحَةُ لِلْمُسْلِمِينَ. لا يُظَنُّ بِهِمْ أَنَّهُمْ أَرَادُوا الْطَعْنَ عَلَى النَّاسِ أَوْ الْغِيبَةَ، إِنَّمَا أَرَادُوا عِنْدَنَا أَنْ يُبَيِّنُوا ضَعْفَ هَؤُلائِ؛ لِكَيْ يُعْرَفُوا.
لأَنَّ بَعْضَ الَّذِينَ ضُعِّفُوا كَانَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ، وَبَعْضَهُمْ كَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ، وَبَعْضَهُمْ كَانُوا أَصْحَابَ غَفْلَةٍ وَكَثْرَةِ خَطَإٍ؛ فَأَرَادَ هَؤُلائِ الأَئِمَّةُ أَنْ يُبَيِّنُوا أَحْوَالَهُمْ شَفَقَةً عَلَى الدِّينِ وَتَثْبِيتًا؛ ۱؎ لأَنَّ الشَّهَادَةَ فِي الدِّينِ أَحَقُّ أَنْ يُتَثَبَّتَ فِيهَا مِنْ الشَّهَادَةِ فِي الْحُقُوقِ وَالأَمْوَالِ.
قَالَ: و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: سَأَلْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ، وَشُعْبَةَ، وَمَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، وَسُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ عَنْ الرَّجُلِ تَكُونُ فِيهِ تُهْمَةٌ أَوْ ضَعْفٌ؛ أَسْكُتُ أَوْ أُبَيِّنُ؟ قَالُوا: بَيِّنْ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: قِيلَ لأَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ: إِنَّ أُنَاسًا يَجْلِسُونَ وَيَجْلِسُ إِلَيْهِمْ النَّاسُ، وَلا يَسْتَأْهِلُونَ؟! قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ: كُلُّ مَنْ جَلَسَ؛ جَلَسَ إِلَيْهِ النَّاسُ، وَصَاحِبُ السُّنَّةِ إِذَا مَاتَ أَحْيَا اللَّهُ ذِكْرَهُ، وَالْمُبْتَدِعُ لايُذْكَرُ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأَصَمُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ قَالَ: كَانَ فِي الزَّمَنِ الأَوَّلِ لايَسْأَلُونَ عَنْ الإِسْنَادِ؛ فَلَمَّا وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ سَأَلُوا عَنْ الإِسْنَادِ؛ لِكَيْ يَأْخُذُوا حَدِيثَ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَيَدَعُوا حَدِيثَ أَهْلِ الْبِدَعِ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَانَ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: الإِسْنَادُ عِنْدِي مِنْ الدِّينِ؛ لَوْلا الإِسْنَادُ؛ لَقَالَ مَنْ شَائَ مَا شَائَ؛ فَإِذَا قِيلَ لَهُ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ بَقِيَ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: ذُكِرَ لِعَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ حَدِيثٌ؛ فَقَالَ: يُحْتَاجُ لِهَذَا أَرْكَانٌ مِنْ آجُرٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: يَعْنِي أَنَّهُ ضَعَّفَ إِسْنَادَهُ.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ تَرَكَ حَدِيثَ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، وَالْحَسَنِ بْنِ دِينَارٍ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الأَسْلَمِيِّ، وَمُقَاتِلِ بْنِ سُلَيْمَانَ، وَعُثْمَانَ الْبُرِّيِّ، وَرَوْحِ بْنِ مُسَافِرٍ، وَأَبِي شَيْبَةَ الْوَاسِطِيِّ، وَعَمْرِو بْنِ ثَابِتٍ، وَأَيُّوبَ بْنِ خُوطٍ، وَأَيُّوبَ بْنِ سُوَيْدٍ، وَنَصْرِ بْنِ طَرِيفٍ -هُوَ أَبُو جَزْئٍ- وَالْحَكَمِ. وَحَبِيبٍ الْحَكَمُ رَوَى لَهُ حَدِيثًا فِي كِتَابِ الرِّقَاقِ، ثُمَّ تَرَكَهُ. وَقَالَ: حَبِيبٌ لا أَدْرِي.
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ: وَسَمِعْتُ عَبْدَانَ قَالَ: كَانَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَرَأَ أَحَادِيثَ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ؛ فَكَانَ أَخِيرًا إِذَا أَتَى عَلَيْهَا أَعْرَضَ عَنْهَا، وَكَانَ لايَذْكُرُهُ.
قَالَ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ، قَالَ: سَمَّوْا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ رَجُلا يُتَّهَمُ فِي الْحَدِيثِ؛ فَقَالَ: لأَنْ أَقْطَعَ الطَّرِيقَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُحَدِّثَ عَنْهُ.
قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حِزَامٍ، قَال: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ يَقُولُ: لا يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يَرْوِيَ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرٍو النَّخَعِيِّ الْكُوفِيِّ.
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُويَحْيَى الْحِمَّانِيُّ،قَال: سَمِعْتُ أَبَاحَنِيفَةَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، وَلا أَفْضَلَ مِنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت الْجَارُودَ يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَوْلا جَابِرٌ الْجُعْفِيُّ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ حَدِيثٍ، وَلَوْلا حَمَّادٌ لَكَانَ أَهْلُ الْكُوفَةِ بِغَيْرِ فِقْهٍ ۱؎ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ؛ فَذَكَرُوا مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ الْجُمُعَةُ؛ فَذَكَرُوا فِيهِ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ؛ فَقُلْتُ: فِيهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ حَدِيثٌ؛ فَقَالَ: عَنْ النَّبِيِّ ﷺ؟! قُلْتُ: نَعَمْ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُعَارِكُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ".
قَالَ: فَغَضِبَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَقَالَ: اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ،اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ -مَرَّتَيْنِ-.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا فَعَلَ هَذَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لأَنَّهُ لَمْ يُصَدِّقْ هَذَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ لِضَعْفِ إِسْنَادِهِ، لأَنَّهُ لَمْ يَعْرِفْهُ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ جِدًّا فِي الْحَدِيثِ ۱؎ .
قَالَ أَبُوعِيسَى: فَكُلُّ مَنْ رُوِيَ عَنْهُ حَدِيثٌ مِمَّنْ يُتَّهَمُ أَوْ يُضَعَّفُ لِغَفْلَتِهِ، وَكَثْرَةِ خَطَئِهِ، وَلايُعْرَفُ ذَلِكَ الْحَدِيثُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ، فَلا يُحْتَجُّ بِهِ.
وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ عَنْ الضُّعَفَائِ، وَبَيَّنُوا أَحْوَالَهُمْ لِلنَّاسِ.
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُنْذِرِ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ لَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: اتَّقُوا الْكَلْبِيَّ، فَقِيلَ لَهُ: فَإِنَّكَ تَرْوِي عَنْهُ؟! قَالَ: أَنَا أَعْرِفُ صِدْقَهُ مِنْ كَذِبِهِ.
قَالَ: و أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ اشْتَهَيْتُ كَلَامَهُ؛ فَتَتَبَّعْتُهُ عَنْ أَصْحَابِ الْحَسَنِ؛ فَأَتَيْتُ بِهِ أَبَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ؛ فَقَرَأَهُ عَلَيَّ كُلَّهُ عَنْ الْحَسَنِ فَمَا أَسْتَحِلُّ أَنْ أَرْوِيَ عَنْهُ شَيْئًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ رَوَى عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ، وَإِنْ كَانَ فِيهِ مِنْ الضَّعْفِ وَالْغَفْلَةِ مَا وَصَفَهُ أَبُو عَوَانَةَ وَغَيْرُهُ فَلا يُغْتَرُّ بِرِوَايَةِ الثِّقَاتِ عَنْ النَّاسِ لأَنَّهُ يُرْوَى عَنْ ابْنِ سِيرِينَ أنَّه قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحَدِّثُنِي فَمَا أَتَّهِمُهُ، وَلَكِنْ أَتَّهِمُ مَنْ فَوْقَهُ.
وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ.
وَرَوَى أَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْنُتُ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ. هَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ.
وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا: وَزَادَ فِيهِ "قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: وَأَخْبَرَتْنِي أُمِّي أَنَّهَا بَاتَتْ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَرَأَتْ النَّبِيَّ ﷺ قَنَتَ فِي وِتْرِهِ قَبْلَ الرُّكُوعِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبَانُ بْنُ أَبِي عَيَّاشٍ، وَإِنْ كَانَ قَدْ وُصِفَ بِالْعِبَادَةِ وَالاجْتِهَادِ؛ فَهَذِهِ حَالُهُ فِي الْحَدِيثِ؛ وَالْقَوْمُ كَانُوا أَصْحَابَ حِفْظٍ فَرُبَّ رَجُلٍ وَإِنْ كَانَ صَالِحًا لا يُقِيمُ الشَّهَادَةَ، وَلا يَحْفَظُهَا؛ فَكُلُّ مَنْ كَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ بِالْكَذِبِ أَوْ كَانَ مُغَفَّلا يُخْطِئُ الْكَثِيرَ؛ فَالَّذِي اخْتَارَهُ أَكْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِنْ الأَئِمَّةِ أَنْ لا يُشْتَغَلَ بِالرِّوَايَةِ عَنْهُ، أَلا تَرَى أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ حَدَّثَ عَنْ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَمْرُهُمْ تَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ.
أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ حِزَامٍ قَال: سَمِعْتُ صَالِحَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيِّ؛ فَجَعَلَ يَرْوِي عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي شَدَّادٍ الأَحَادِيثَ الطِّوَالَ الَّتِي كَانَ يَرْوِي فِي وَصِيَّةِ لُقْمَانَ، وَقَتْلِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَمَا أَشْبَهَ هَذِهِ الأَحَادِيثَ؛ فَقَالَ لَهُ ابْنُ أَخٍي أَبِي مُقَاتِلٍ: يَا عَمِّ! لا تَقُلْ: حَدَّثَنَا عَوْنٌ؛ فَإِنَّكَ لَمْ تَسْمَعْ هَذِهِ الأَشْيَائَ. قَالَ: يَا بُنَيَّ! هُوَ كَلامٌ حَسَنٌ.
وسمعتُ الجارودَ يقولُ: كنَّا عندَ أبي معاويةَ فذُكِرَ له حديث أبي مقاتلٍ، عن سفيانَ الثوريِّ، عن الأعمشِ، عن أبي ظبيانَ، قالَ: سُئلَ علي عن كور الزنابيرِ، قالَ: لا بأسَ به هو بمنزلةِ صيدِ البحرِ. فقال أبو معاوية: ما أقولُ: إن صاحبَكم كذاب، ولكن هذا الحديث كذبٌ ۱؎ .
وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي قَوْمٍ مِنْ أَجِلَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَضَعَّفُوهُمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ، وَوَثَّقَهُمْ آخَرُونَ مِنْ الأَئِمَّةِ لجَلالَتِهِمْ وَصِدْقِهِمْ وَإِنْ كَانُوا قَدْ وَهِمُوا فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا.
وقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ فِي مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، ثُمَّ رَوَى عَنْهُ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، قَالَ: تُرِيدُ الْعَفْوَ أَوْ تُشَدِّدُ. فَقَالَ: لا، بَلْ أُشَدِّدُ قَالَ: لَيْسَ هُوَ مِمَّنْ تُرِيدُ، كَانَ يَقُولُ: أَشْيَاخُنَا أَبُو سَلَمَةَ وَيَحْيَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ.
قَالَ يَحْيَى: سَأَلْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو فَقَالَ: فِيهِ نَحْوَ مَا قُلْتُ.
قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ: يَحْيَى: وَمُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو أَعْلَى مِنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَهُوَ عِنْدِي فَوْقَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ.
قَالَ عَلِيٌّ: فَقُلْتُ لِيَحْيَى: مَا رَأَيْتَ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ؟ قَالَ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أُلَقِّنَهُ لَفَعَلْتُ. قُلْتُ: كَانَ يُلَقَّنُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ عَلِيٌّ: وَلَمْ يَرْوِ يَحْيَى عَنْ شَرِيكٍ، وَلا عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَلا عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ، وَلا عَنْ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنْ كَانَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ قَدْ تَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْ هَؤُلائِ؛ فَلَمْ يَتْرُكْ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ أَنَّهُ اتَّهَمَهُمْ بِالْكَذِبِ، وَلَكِنَّهُ تَرَكَهُمْ لِحَالِ حِفْظِهِمْ. وذُكِرَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ كَانَ إِذَا رَأَى الرَّجُلَ يُحَدِّثُ عَنْ حِفْظِهِ مَرَّةً هَكَذَا وَمَرَّةً هَكَذَا، لايَثْبُتُ عَلَى رِوَايَةٍ وَاحِدَةٍ؛ تَرَكَهُ.
وَقَدْ حَدَّثَ عَنْ هَؤُلائِ الَّذِينَ تَرَكَهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَوَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُمْ مِنْ الأَئِمَّةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَحَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ، وَأَشْبَاهِ هَؤُلائِ مِنْ الأَئِمَّةِ إِنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ فِي بَعْضِ مَا رَوَوْا، وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُمْ الأَئِمَّةُ.
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، قَالَ: قَالَ لنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كُنَّا نَعُدُّ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ ثَبْتًا فِي الْحَدِيثِ.
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عِنْدَنَا فِي رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلانَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ.
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلانَ: أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ: بَعْضُهَا "سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ"، وَبَعْضُهَا "سَعِيدٌ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ"؛ فَاخْتَلَطَتْ عَلَيَّ فَصَيَّرْتُهَا "عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ"؛ فَإِنَّمَا تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عِنْدَنَا فِي ابْنِ عَجْلانَ لِهَذَا، وَقَدْ رَوَى يَحْيَى عَنْ ابْنِ عَجْلانَ الْكَثِيرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا مَنْ تَكَلَّمَ فِي ابْنِ أَبِي لَيْلَى إِنَّمَا تَكَلَّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ ۱؎ .
قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: رَوَى شُعْبَةُ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْعُطَاسِ ۲؎ .
قَالَ يَحْيَى: ثُمَّ لَقِيتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى، فَحَدَّثَنَا عَنْ أَخِيهِ عِيسَى، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ ۳؎ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى نَحْوُ هَذَا غَيْرَ شَيْئٍ، كَانَ يَرْوِي الشَّيْئَ مَرَّةً هَكَذَا، وَمَرَّةً هَكَذَا، يُغَيِّرُ الإِسْنَادَ، وَإِنَّمَا جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَأَكْثَرُ مَنْ مَضَى مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ كَانُوا لايَكْتُبُونَ، وَمَنْ كَتَبَ مِنْهُمْ إِنَّمَا كَانَ يَكْتُبُ لَهُمْ بَعْدَ السَّمَاعِ.
و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى لا يُحْتَجُّ بِهِ.
وَكَذَلِكَ مَنْ تَكَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ لَهِيعَةَ وَغَيْرِهِمَا إِنَّمَا تَكَلَّمُوا فِيهِمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ، وَكَثْرَةِ خَطَئِهِمْ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُمْ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ. فَإِذَا تَفَرَّدَ أَحَدٌ مِنْ هَؤُلائِ بِحَدِيثٍ، وَلَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ لَمْ يُحْتَجَّ بِهِ، كَمَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى لا يُحْتَجُّ بِهِ، إِنَّمَا عَنَى إِذَا تَفَرَّدَ بِالشَّيْئِ.وَأَشَدُّ مَا يَكُونُ هَذَا إِذَا لَمْ يَحْفَظْ الإِسْنَادَ؛ فَزَادَ فِي الإِسْنَادِ أَوْ نَقَصَ أَوْ غَيَّرَ الإِسْنَادَ أَوْ جَاءَ بِمَا يَتَغَيَّرُ فِيهِ الْمَعْنَى.
فَأَمَّا مَنْ أَقَامَ الإِسْنَادَ وَحَفِظَهُ وَغَيَّرَ اللَّفْظَ؛ فَإِنَّ هَذَا وَاسِعٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا لَمْ يَتَغَيَّرْ الْمَعْنَى.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ الْعَلائِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ قَالَ: إِذَا حَدَّثْنَاكُمْ عَلَى الْمَعْنَى؛ فَحَسْبُكُمْ.
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ الْحَدِيثَ مِنْ عَشَرَةٍ؛ اللَّفْظُ مُخْتَلِفٌ وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ قَالَ: كَانَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَالْحَسَنُ، وَالشَّعْبِيُّ يَأْتُونَ بِالْحَدِيثِ عَلَى الْمَعَانِي.
وَكَانَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، وَرَجَائُ بْنُ حَيْوَةَ يُعِيدُونَ الْحَدِيثَ عَلَى حُرُوفِهِ.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، قَالَ: قُلْتُ لأَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ: إِنَّكَ تُحَدِّثُنَا بِالْحَدِيثِ، ثُمَّ تُحَدِّثُنَا بِهِ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثْتَنَا؟! قَالَ: عَلَيْكَ بِالسَّمَاعِ الأَوَّلِ.
حَدَّثَنَا الجارودُ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيْعٌ، عن الرَّبيعِ بن صَبيحٍ، عن الحسنِ قال: إذا أصبتَ المعنى أجزأكَ.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَيْفٍ -هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ- قَال: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يَقُولُ: أَنْقِصْ مِنْ الْحَدِيثِ إِنْ شِئْتَ، وَلا تَزِدْ فِيهِ.
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، أَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ رَجُلٍ قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ فَقَالَ: إِنْ قُلْتُ لَكُمْ: إِنِّي أُحَدِّثُكُمْ كَمَا سَمِعْتُ فَلا تُصَدِّقُونِي، إِنَّمَا هُوَ الْمَعْنَى.
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَال: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: إِنْ لَمْ يَكُنْ الْمَعْنَى وَاسِعًا فَقَدْ هَلَكَ النَّاسُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا تَفَاضَلَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْحِفْظِ وَالإِتْقَانِ وَالتَّثَبُّتِ عِنْدَ السَّمَاعِ مَعَ أَنَّهُ لَمْ يَسْلَمْ مِنْ الْخَطَإِ وَالْغَلَطِ كَبِيرُ أَحَدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ مَعَ حِفْظِهِمْ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ قَالَ: قَالَ لِي إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ: إِذَا حَدَّثْتَنِي؛ فَحَدِّثْنِي عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ؛ فَإِنَّهُ حَدَّثَنِي مَرَّةً بِحَدِيثٍ، ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِسِنِينَ فَمَا أَخْرَمَ مِنْهُ حَرْفًا.
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ: قُلْتُ لإِبْرَاهِيمَ: مَا لِسَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ أَتَمُّ حَدِيثًا مِنْكَ؟ قَالَ: لأَنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ.
حَدَّثَنَا عَبْدُالْجَبَّارِ بْنُ الْعَلائِ بْنِ عَبْدِالْجَبَّارِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ: إِنِّي لأُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ فَمَا أَدَعُ مِنْهُ حَرْفًا.
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، قَالَ قَتَادَةُ: مَا سَمِعَتْ أُذُنَايَ شَيْئًا قَطُّ إِلا وَعَاهُ قَلْبِي.
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَنَصَّ لِلْحَدِيثِ مِنْ الزُّهْرِيِّ.
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ: مَا عَلِمْتُ أَحَدًا كَانَ أَعْلَمَ بِحَدِيثِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ بَعْدَ الزُّهْرِيِّ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عَوْنٍ يُحَدِّثُ فَإِذَا حَدَّثْتُهُ عَنْ أَيُّوبَ بِخِلافِهِ تَرَكَهُ فَأقُولُ: قَدْ سَمِعْتُهُ؛ فَيَقُولُ: إِنَّ أَيُّوبَ أَعْلَمُنَا بِحَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ.
حَدَّثَنَا أَبُو بُكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ: أَيُّهُمَا أَثْبَتُ: هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ أَمْ مِسْعَرٌ؟ قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ مِسْعَرٍ، كَانَ مِسْعَرٌ مِنْ أَثْبَتِ النَّاسِ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ قَال: سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ: مَا خَالَفَنِي شُعْبَةُ فِي شَيْئٍ إِلا تَرَكْتُهُ.
قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَحَدَّثَنِي أَبُوالْوَلِيدِ، قَالَ: قَالَ لِي حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ: إِنْ أَرَدْتَ الْحَدِيثَ فَعَلَيْكَ بِشُعْبَةَ.
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُودَاوُدَ، قَالَ: قَالَ شُعْبَةُ: مَا رَوَيْتُ عَنْ رَجُلٍ حَدِيثًا وَاحِدًا إِلا أَتَيْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ مَرَّةٍ، وَالَّذِي رَوَيْتُ عَنْهُ عَشَرَةَ أَحَادِيثَ أَتَيْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ عَشْرِ مِرَارٍ، وَالَّذِي رَوَيْتُ عَنْهُ خَمْسِينَ حَدِيثًا أَتَيْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسِينَ مَرَّةً، وَالَّذِي رَوَيْتُ عَنْهُ مِائَةً أَتَيْتُهُ أَكْثَرَ مِنْ مِائَةِ مَرَّةٍ، إِلا حَيَّانَ الْكُوفِيَّ الْبَارِقِيَّ؛ فَإِنِّي سَمِعْتُ مِنْهُ هَذِهِ الأَحَادِيثَ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ؛ فَوَجَدْتُهُ قَدْ مَاتَ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ قَال: سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ: شُعْبَةُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحَدِيثِ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ: لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ شُعْبَةَ، وَلا يَعْدِلُهُ أَحَدٌ عِنْدِي، وَإِذَا خَالَفَهُ سُفْيَانُ أَخَذْتُ بِقَوْلِ سُفْيَانَ.
قَالَ عَلِيٌّ: قُلْتُ لِيَحْيَى: أَيُّهُمَا كَانَ أَحْفَظَ لِلأَحَادِيثِ الطِّوَالِ سُفْيَانُ أَوْ شُعْبَةُ قَالَ: كَانَ شُعْبَةُ؟ أَمَرَّ فِيهَا.
قَالَ يَحْيَى: وَكَانَ شُعْبَةُ أَعْلَمَ بِالرِّجَالِ فُلانٌ عَنْ فُلانٍ، وَكَانَ سُفْيَانُ صَاحِبَ أَبْوَابٍ.
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: الأَئِمَّةُ فِي الأَحَادِيثِ أَرْبَعَةٌ: سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالأَوْزَاعِيُّ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ.
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَال سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: قَالَ شُعْبَةُ: سُفْيَانُ أَحْفَظُ مِنِّي، مَا حَدَّثَنِي سُفْيَانُ عَنْ شَيْخٍ بِشَيْئٍ فَسَأَلْتُهُ إِلا وَجَدْتُهُ كَمَا حَدَّثَنِي.
سَمِعْت إِسْحَاقَ بْنَ مُوسَى الأَنْصَارِيَّ، قَال: سَمِعْتُ مَعْنَ بْنَ عِيسَى الْقَزَّازَ يَقُولُ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُشَدِّدُ فِي حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الْيَائِ وَالتَّائِ وَنَحْوِهِمَا.
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ قُرَيْمٍ الأَنْصَارِيُّ قَاضِي الْمَدِينَةِ، قَالَ: مَرَّ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَلَى أَبِي حَازِمٍ وَهُوَ جَالِسٌ؛ فَجَازَهُ فَقِيلَ لَهُ: لِمَ لَمْ تَجْلِسْ؟ فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَجِدْ مَوْضِعًا أَجْلِسُ فِيهِ، وَكَرِهْتُ أَنْ آخُذَ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَنَا قَائِمٌ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: "مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ" أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ "سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ".
قَالَ يَحْيَى: مَا فِي الْقَوْمِ أَحَدٌ أَصَحُّ حَدِيثًا مِنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، كَانَ مَالِكٌ إِمَامًا فِي الْحَدِيثِ.
سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ.
قَالَ أَحْمَدُ بن الحسن : وَسُئِلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، عَنْ وَكِيعٍ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ فَقَالَ أَحْمَدُ: وَكِيعٌ أَكْبَرُ فِي الْقَلْبِ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ إِمَامٌ.
سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيَّ الْبَصْرِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ يَقُولُ: لَوْ حُلِّفْتُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ لَحَلَفْتُ أَنِّي لَمْ أَرَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْكَلامُ فِي هَذَا وَالرِّوَايَةُ عَنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَكْثُرُ، وَإِنَّمَا بَيَّنَّا شَيْئًا مِنْهُ عَلَى الاخْتِصَارِ لِيُسْتَدَلَّ بِهِ عَلَى مَنَازِلِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَتَفَاضُلِ بَعْضِهِمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْحِفْظِ وَالإِتْقَانِ، وَمَنْ تُكُلِّمَ فِيهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لأَيِّ شَيْئٍ تُكُلِّمَ فِيهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْقِرَائَةُ عَلَى الْعَالِمِ إِذَا كَانَ يَحْفَظُ مَا يُقْرَأُ عَلَيْهِ أَوْ يُمْسِكُ أَصْلَهُ فِيمَا يُقْرَأُ عَلَيْهِ إِذَا لَمْ يَحْفَظْ هُوَ صَحِيحٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ مِثْلُ السَّمَاعِ.
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ فَقُلْتُ لَهُ: كَيْفَ أَقُولُ؟ فَقَالَ: قُلْ: "حَدَّثَنَا".
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِي عِصْمَةَ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ: أَنَّ نَفَرًا قَدِمُوا عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ بِكِتَابٍ مِنْ كُتُبِهِ فَجَعَلَ يَقْرَأُ عَلَيْهِمْ فَيُقَدِّمُ وَيُؤَخِّرُ فَقَالَ: إِنِّي بَلِهْتُ لِهَذِهِ الْمُصِيبَةِ؛ فَاقْرَئُوا عَلَيَّ؛ فَإِنَّ إِقْرَارِي بِهِ كَقِرَائَتِي عَلَيْكُمْ ۱؎ .
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ قَالَ: إِذَا نَاوَلَ الرَّجُلُ كِتَابَهُ آخَرَ فَقَالَ: ارْوِ هَذَا عَنِّي؛ فَلَهُ أَنْ يَرْوِيَهُ.
و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا عَاصِمٍ النَّبِيلَ عَنْ حَدِيثٍ فَقَالَ: اقْرَأْ عَلَيَّ؛ فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَقْرَأَ هُوَ فَقَالَ: أَأَنْتَ لا تُجِيزُ الْقِرَائَةَ، وَقَدْ كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يُجِيزَانِ الْقِرَائَةَ؟!.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ الْجُعْفِيُّ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ مَا قُلْتُ: "حَدَّثَنَا" فَهُوَ مَا سَمِعْتُ مَعَ النَّاسِ وَمَا قُلْتُ: "حَدَّثَنِي" فَهُوَ مَا سَمِعْتُ وَحْدِي وَمَا قُلْتُ: "أَخْبَرَنَا" فَهُوَ مَا قُرِئَ عَلَى الْعَالِمِ وَأَنَا شَاهِدٌ، وَمَا قُلْتُ: "أَخْبَرَنِي" فَهُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى الْعَالِمِ يَعْنِي وَأَنَا وَحْدِي.
وسَمِعْت أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ، يَقُولُ: "حَدَّثَنَا" وَ "أَخْبَرَنَا" وَاحِد.
قَالَ أَبُو عِيسَى: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُصْعَبٍ الْمَدِينِيِّ فَقُرِئَ عَلَيْهِ بَعْضُ حَدِيثِهِ فَقُلْتُ لَهُ: كَيْفَ نَقُولُ؟ فَقَالَ: قُلْ: حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ أَجَازَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الإِجَازَةَ إِذَا أَجَازَ الْعَالِمُ لأَحَدٍ أَنْ يَرْوِيَ عَنْهُ شَيْئًا مِنْ حَدِيثِهِ فَلَهُ أَنْ يَرْوِيَ عَنْهُ.
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُدَيْرٍ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ قَالَ: كَتَبْتُ كِتَابًا عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ فَقُلْتُ: أَرْوِيهِ عَنْكَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ عَوْفٍ الأَعْرَابِيِّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلْحَسَنِ: عِنْدِي بَعْضُ حَدِيثِكَ أَرْوِيهِ عَنْكَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ إِنَّمَا يُعْرَفُ بِمَحْبُوبِ بْنِ الْحَسَنِ، وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ.
حَدَّثَنَا الْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَتَيْتُ الزُّهْرِيَّ بِكِتَابٍ؛ فَقُلْتُ له: هَذَا مِنْ حَدِيثِكَ، أَرْوِيهِ عَنْكَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ ابْنُ جُرَيْجٍ إِلَى هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ بِكِتَابٍ، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثُكَ أَرْوِيهِ عَنْكَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ.
قَالَ يَحْيَى: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لاأَدْرِي أَيُّهُمَا أَعْجَبُ أَمْرًا؟.
وَقَالَ عَلِيٌّ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ عَنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَائٍ الْخُرَاسَانِيِّ؟ فَقَالَ: ضَعِيفٌ؛ فَقُلْتُ: إِنَّهُ يَقُولُ: "أَخْبَرَنِي"! فَقَالَ: لا شَيْئَ، إِنَّمَا هُوَ كِتَابٌ دَفَعَهُ إِلَيْهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْحَدِيثُ إِذَا كَانَ مُرْسَلا؛ فَإِنَّهُ لا يَصِحُّ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَدْ ضَعَّفَهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْهُمْ.
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ قَالَ: سَمِعَ الزُّهْرِيُّ إِسْحَاقَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ يَقُولُ: "قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ" فَقَالَ الزُّهْرِيُّ: قَاتَلَكَ اللَّهُ يَا ابْنَ أَبِي فَرْوَةَ! تَجِيئُنَا بِأَحَادِيثَ لَيْسَتْ لَهَا خُطُمٌ وَلا أَزِمَّةٌ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مُرْسَلاتُ مُجَاهِدٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُرْسَلاتِ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ بِكَثِيرٍ، كَانَ عَطَائٌ يَأْخُذُ عَنْ كُلِّ ضَرْبٍ.
قَالَ عِلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى: مُرْسَلاتُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مُرْسَلاتِ عَطَائٍ.
قُلْتُ لِيَحْيَى: مُرْسَلاتُ مُجَاهِدٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَمْ مُرْسَلاتُ طَاوُسٍ؟ قَالَ: مَا أَقْرَبَهُمَا.
قَالَ عَلِيٌّ: وَسَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ يَقُولُ: مُرْسَلاتُ أَبِي إِسْحَاقَ عِنْدِي شِبْهُ لا شَيْئَ، وَالأَعْمَشُ، وَالتَّيْمِيُّ، وَيَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، وَمُرْسَلاتُ ابْنِ عُيَيْنَةَ شِبْهُ الرِّيحِ، ثُمَّ قَالَ: إِي وَاللَّهِ! وَسُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ.
قُلْتُ لِيَحْيَى: فَمُرْسَلاتُ مَالِكٍ؟ قَالَ: هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ، ثُمَّ قَالَ يَحْيَى: لَيْسَ فِي الْقَوْمِ أَحَدٌ أَصَحُّ حَدِيثًا مِنْ مَالِكٍ.
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَنْبَرِيُّ، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ يَقُولُ: مَا قَالَ الْحَسَنُ فِي حَدِيثِهِ: "قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ" إِلا وَجَدْنَا لَهُ أَصْلا إِلا حَدِيثًا أَوْ حَدِيثَيْنِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَنْ ضَعَّفَ الْمُرْسَلَ؛ فَإِنَّهُ ضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ أَنَّ هَؤُلائِ الأَئِمَّةَ قَدْ حَدَّثُوا عَنْ الثِّقَاتِ وَغَيْرِ الثِّقَاتِ؛ فَإِذَا رَوَى أَحَدُهُمْ حَدِيثًا، وَأَرْسَلَهُ؛ لَعَلَّهُ أَخَذَهُ عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ. قَدْ تَكَلَّمَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ فِي مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ، ثُمَّ رَوَى عَنْهُ.
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنِي أَبِي وَعَمِّي قَالا: سَمِعْنَا الْحَسَنَ يَقُولُ: إِيَّاكُمْ وَمَعْبَدًا الْجُهَنِيَّ؛ فَإِنَّهُ ضَالٌّ مُضِلٌّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ الأَعْوَرُ، وَكَانَ كَذَّابًا. وَقَدْ حَدَّثَ عَنْهُ، وَأَكْثَرُ الْفَرَائِضِ الَّتِي يَرْوِيهَا عَنْ عَلِيٍّ وَغَيْرِهِ هِيَ عَنْهُ. وَقَدْ قَالَ الشَّعْبِيُّ: الْحَارِثُ الأَعْوَرُ عَلَّمَنِي الْفَرَائِضَ، وَكَانَ مِنْ أَفْرَضِ النَّاسِ.
قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ بَشَّارٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ: أَلا تَعْجَبُونَ مِنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ! لَقَدْ تَرَكْتُ لِجَابِرٍ الْجُعْفِيِّ بِقَوْلِهِ؛ لَمَّا حَكَى عَنْهُ أَكْثَرَ مِنْ أَلْفِ حَدِيثٍ، ثُمَّ هُوَ يُحَدِّثُ عَنْهُ.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: وَتَرَكَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدِيثَ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ.
وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْمُرْسَلِ أَيْضًا.
حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ ابْنُ أَبِي السَّفَرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ قَالَ: قُلْتُ لإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ: أَسْنِدْ لِي عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؛ فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: إِذَا حَدَّثْتُكَ "عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ"؛ فَهُوَ الَّذِي سَمَّيْتُ، وَإِذَا قُلْتُ، "قَالَ عَبْدُاللَّهِ": فَهُوَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ اخْتَلَفَ الأَئِمَّةُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي تَضْعِيفِ الرِّجَالِ كَمَا اخْتَلَفُوا فِي سِوَى ذَلِكَ مِنْ الْعِلْمِ.
ذُكِرَ عَنْ شُعْبَةَ أَنَّهُ ضَعَّفَ أَبَا الزُّبَيْرِ الْمَكِّيَّ، وَعَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَحَكِيمَ بْنَ جُبَيْرٍ، وَتَرَكَ الرِّوَايَةَ عَنْهُمْ، ثُمَّ حَدَّثَ شُعْبَةُ عَمَّنْ هُوَ دُونَ هَؤُلائِ فِي الْحِفْظِ وَالْعَدَالَةِ، حَدَّثَ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُسْلِمٍ الْهَجَرِيِّ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ الْعَرْزَمِيِّ، وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِمَّنْ يُضَعَّفُونَ فِي الْحَدِيثِ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: تَدَعُ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ، وَتُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الْعَرْزَمِيِّ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ كَانَ شُعْبَةُ حَدَّثَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، ثُمَّ تَرَكَهُ، وَيُقَالُ: إِنَّمَا تَرَكَهُ لَمَّا تَفَرَّدَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي رَوَى عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيّ ﷺ قَالَ: "الرَّجُلُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا".
وَقَدْ ثَبَّتَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ، وَحَدَّثُوا عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ وَعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُليْمَانَ، وَحَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَائِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ: كُنَّا إِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ تَذَاكَرْنَا حَدِيثَهُ، وَكَانَ أَبُوالزُّبَيْرِ أَحْفَظَنَا لِلْحَدِيثِ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُوالزُّبَيْرِ: كَانَ عَطَائٌ يُقَدِّمُنِي إِلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَحْفَظُ لَهُمْ الْحَدِيثَ.
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَال: سَمِعْتُ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُوالزُّبَيْرِ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ، وَأَبُوالزُّبَيْرِ، قَالَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ يَقْبِضُهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: إِنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ الإِتْقَانَ وَالْحِفْظَ.
وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَقُولُ: كَانَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُليْمَانَ مِيزَانًا فِي الْعِلْمِ.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ فَقَالَ: تَرَكَهُ شُعْبَةُ مِنْ أَجْلِ الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَاهُ فِي الصَّدَقَةِ يَعْنِي حَدِيثَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ كَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا يُغْنِيهِ؟ قَالَ: "خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنْ الذَّهَبِ".
قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى: وَقَدْ حَدَّثَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَزَائِدَةُ.
قَالَ عَلِيُّ: وَلَمْ يَرَ يَحْيَى بِحَدِيثِهِ بَأْسًا.
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ بِحَدِيثِ الصَّدَقَةِ.
قَالَ يَحْيَى بْنُ آدَمَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ صَاحِبُ شُعْبَةَ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ: لَوْ غَيْرُ حَكِيمٍ حَدَّثَ بِهَذَا؟ فَقَالَ لَهُ سُفْيَانُ: وَمَا لِحَكِيمٍ لا يُحَدِّثُ عَنْهُ شُعْبَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: سَمِعْتُ زُبَيْدًا يُحَدِّثُ بِهَذَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَا ذَكَرْنَا فِي هَذَا الْكِتَابِ "حَدِيثٌ حَسَنٌ"؛ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِهِ حُسْنَ إِسْنَادِهِ عِنْدَنَا.
كُلُّ حَدِيثٍ يُرْوَى لا يَكُونُ فِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُتَّهَمُ بِالْكَذِبِ، وَلا يَكُونُ الْحَدِيثُ شَاذًّا، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوَ ذَاكَ؛ فَهُوَ عِنْدَنَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
وَمَا ذَكَرْنَا فِي هَذَا الْكِتَابِ "حَدِيثٌ غَرِيبٌ" فَإِنَّ أَهْلَ الْحَدِيثِ يَسْتَغْرِبُونَ الْحَدِيثَ لِمَعَانٍ:
1- رُبَّ حَدِيثٍ يَكُونُ غَرِيبًا لا يُرْوَى إِلا مِنْ وَجْهٍ وَاحِدٍ مِثْلُ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلا فِي الْحَلْقِ وَاللِّبَّةِ؟ فَقَالَ: "لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا أَجْزَأَ عَنْكَ" ۱؎ .
فَهَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ، وَلا يُعْرَفُ لأَبِي الْعُشَرَائِ، عَنْ أَبِيهِ إِلا هَذَا الْحَدِيثُ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مَشْهُورًا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ وَإِنَّمَا اشْتُهِرَ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ.
2-وَرُبَّ رَجُلٍ مِنْ الأَئِمَّةِ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لا يُعْرَفُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ، فَيَشْتَهِرُ الْحَدِيثُ لِكَثْرَةِ مَنْ رَوَى عَنْهُ مِثْلُ مَا رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلائِ وَعَنْ هِبَتِهِ". وَهَذَا حَدِيثٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، رَوَاهُ عَنْهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَشُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ.
وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ؛ فَوَهِمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، وَالصَّحِيحُ هُوَ "عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ" ۱؎ . هَكَذَا رَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَى الْمُؤَمِّلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ فَقَالَ شُعْبَةُ: لَوَدِدْتُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دِينَارٍ أَذِنَ لِي حَتَّى كُنْتُ أَقُومُ إِلَيْهِ فَأُقَبِّلُ رَأْسَهُ.
3- قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُبَّ حَدِيثٍ إِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ لِزِيَادَةٍ تَكُونُ فِي الْحَدِيثِ.
وَإِنَّمَا يَصِحُّ إِذَا كَانَتْ الزِّيَادَةُ مِمَّنْ يُعْتَمَدُ عَلَى حِفْظِهِ مِثْلُ مَا رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
قَالَ: وَزَادَ مَالِكٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ "مِنْ الْمُسْلِمِينَ".
وَرَوَى أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ: "مِنْ الْمُسْلِمِينَ" ۱؎ .
وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ مِمَّنْ لا يُعْتَمَدُ عَلَى حِفْظِهِ.
وَقَدْ أَخَذَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ بِحَدِيثِ مَالِكٍ، وَاحْتَجُّوا بِهِ، مِنْهُمْ: الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالا: إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ لَمْ يُؤَدِّ عَنْهُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ مَالِكٍ.
فَإِذَا زَادَ حَافِظٌ مِمَّنْ يُعْتَمَدُ عَلَى حِفْظِهِ قُبِلَ ذَلِكَ عَنْهُ.
4- وَرُبَّ حَدِيثٍ يُرْوَى مِنْ أَوْجُهٍ كَثِيرَةٍ، وَإِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ لِحَالِ الإِسْنَادِ.
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، وَأَبُو السَّائِبِ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ الأَسْوَدِ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ، وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ.
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَإِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.
سَأَلْتُ مَحْمُودَ بْنَ غَيْلانَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثُ أَبِي كُرَيْبٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ.
وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثُ أَبِي كُرَيْبٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، لَمْ نَعْرِفْهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ أَبِي كُرَيْبٍ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ. فَقُلْتُ لَهُ: حَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ بِهَذَا؛ فَجَعَلَ يَتَعَجَّبُ، وَقَالَ: مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا حَدَّثَ بِهَذَا غَيْرَ أَبِي كُرَيْبٍ ۱؎ .
و قَالَ مُحَمَّدٌ: كُنَّا نَرَى أَنَّ أَبَا كُرَيْبٍ أَخَذَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ فِي الْمُذَاكَرَةِ.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ الدُّبَّائِ وَالْمُزَفَّتِ ۲؎ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، لا نَعْلَمُ أَحَدًا حَدَّثَ بِهِ عَنْ شُعْبَةَ غَيْرَ شَبَابَةَ .
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ أَوْجُهٍ كَثِيرَةٍ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُنْتَبَذَ فِي الدُّبَّائِ، وَالْمُزَفَّتِ ۳؎ وَحَدِيثُ شَبَابَةَ إِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ لأَنَّهُ تَفَرَّدَ بِهِ عَنْ شُعْبَةَ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "الْحَجُّ عَرَفَةُ" فَهَذَا الْحَدِيثُ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ بِهَذَا الإِسْنَادِ.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو مُزَاحِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَصَلَّى عَلَيْهَا؛ فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ تَبِعَهَا حَتَّى يُقْضَى قَضَاؤُهَا؛ فَلَهُ قِيرَاطَانِ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الْقِيرَاطَانِ؟ قَالَ: "أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ".
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلامٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُزَاحِمٍ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلَهُ قِيرَاطٌ..." فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ ۲؎ .
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَأَخْبَرَنَا مَرْوَانُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلامٍ قَالَ: قَالَ يَحْيَى: وَحَدَّثَنِي أَبُوسَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ سَفِينَةَ، عَنْ السَّائِبِ سَمِعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
قُلْتُ لأَبِي مُحَمَّدٍ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ: مَا الَّذِي اسْتَغْرَبُوا مِنْ حَدِيثِكَ بِالْعِرَاقِ؟ فَقَالَ: حَدِيثَ السَّائِبِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيّ ﷺ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ.
و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ ۱؎ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيّ ﷺ.
وَإِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ هَذَا الْحَدِيثُ لِحَالِ إِسْنَادِهِ لِرِوَايَةِ السَّائِبِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْمُغْيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعْقِلُهَا، وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ؟ قَالَ: "اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ" ۱؎ .
قَالَ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: هَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا.
وَقَدْ وَضَعْنَا هَذَا الْكِتَابَ عَلَى الاخْتِصَارِ لِمَا رَجَوْنَا فِيهِ مِنْ الْمَنْفَعَةِ، نسأل اللهَ النفعَ بِمَا فِيهِ، وَأَنْ يَجْعَلَهُ لنَا حُجةً برحمتِهِ، وَأَنْ لايَجْعَلَهُ عَلَيْنَا وَبَالا بِرَحْمَتِهِ آمِينَ.


٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اصول حدیث ، علل حدیث اورقواعد جرح وتعدیل

امام ترمذی کہتے ہیں: اس کتاب (السنن) کی ساری احادیث معمو ل بہ ہیں، بعض اہل علم نے ان پر عمل کیاہے، صرف دو حدیثیں اس سے مستثنیٰ ہیں: ۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ نبی اکرمﷺ نے مدینہ میں خوف اور بارش کے عذر کے بغیر ظہر و عصر اور مغرب وعشاء دونوں کو جمع کرکے ایک ساتھ اداکیا۔
۲- دوسری حدیث : نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں: جب شرابی شراب پئے تو اسے کوڑے لگاؤ، چوتھی بارپئے تو اس کو قتل کردو۔ہم نے ''کتاب السنن'' میں دونوں حدیثوں کی علت بیان کردی ہے ۔
فقہاء کے اقوال کی اسانید
ہم نے اس کتاب میں فقہاء کے اختیارات کا ذکر کیاہے ۔
۱- سفیان ثوری کے اکثر اقوال کو ہم نے بسند محمد بن عثمان کو فی عن عبیداللہ بن موسیٰ عن الثوری نقل کیا ہے۔
۲- بعض اقوال بسند ابوالفضل مکتوم بن عباس ترمذی عن محمد بن یوسف فریابی عن سفیان منقول ہیں۔
۳- مالک کے اکثر اقوال کو ہم نے بسند اسحاق بن موسیٰ انصاری عن معن بن عیسیٰ القزاز عن مالک نقل کیاہے۔
۴-ابواب الصیام کے اقوال بسند ابومصعب المدینی عن مالک منقول ہیں۔
۵- مالک کے بعض اقوال بسندموسیٰ بن حزام عن عبداللہ بن مسلمۃ القعنبی عن مالک منقول ہیں۔
۶- عبداللہ بن المبارک کے اقوال کی سند یہ ہے: عن احمد بن عبدہ أملی عن اصحاب ابن المبارک ، عن ابن المبارک ۔
۷- ابن المبارک کے بعض اقوال بسند ابووہب محمد بن مزاحم عن ابن المبارک مروی ہیں۔
۸- بعض اقوال بسند علی بن الحسن عن عبداللہ بن المبارک منقول ہیں۔
۹- بعض بسند عبدان عن سفیان بن عبدالملک عن ابن المبارک منقول ہیں۔
۱۰- بعض اقوال بسندحبان بن موسیٰ عن ابن المبارک منقول ہیں۔
۱۱- بعض بسند وہب بن زمعہ عن فضالہ نسوی عن عبداللہ بن المبارک مروی ہیں۔
۱۲- اس کے علاوہ ابن المبارک سے روایت کرنے والے اور رواۃ ہیں ، جن کا ذکر ہم نے یہاں نہیں کیا ہے ۔
۱۳- شافعی کے اکثر اقوال کی سند یہ ہے : عن الحسن بن محمد الزعفرانی، عن الشافعی ۔
۱۴-کتاب الوضوء اور کتاب الصلاۃ کے اقوال کی روایت ہم نے بسند ابو الولید المکی عن الشافعی کی ہے ۔
۱۵- بعض اقوال ہم تک بسند ابواسماعیل الترمذی عن یوسف بن یحیی القرشی البویطی عن الشافعی پہنچے ہیں۔
۱۶-بعض اقوال کو ربیع نے شافعی سے نقل کیا ہے ، جس کی ربیع نے ہمیں اجازت دی ہے، اور اس کو ہمارے پاس لکھ بھیجا ہے۔
۱۷- احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ کے اقوال کو ہم سے اسحاق بن منصورکوسج نے بیان کیا وہ احمد اور اسحاق بن راہویہ سے روایت کرتے ہیں۔
۱۸- حج، دیات اور حدود کے باب کے اقوال میں نے اسحاق بن منصور سے نہیں سنے ہیں، اس کو ہم سے محمد بن موسیٰ الاصم نے بسند اسحاق بن منصورعن احمد واسحاق بن راہویہ بیان کیا ۔
۱۹-اسحاق بن راہویہ کے بعض اقوال کی خبرہمیں محمدبن افلح نے دی ہے وہ اسحاق بن راہویہ سے روایت کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی موقوف سے متعلق کتاب میں ان باتوں کوبیان کیا ہے۔
۲۰-علل حدیث ، رجال حدیث اور تاریخ (کتب جرح وتعدیل) سے متعلق اقوال کی تخریج میں نے تاریخ کی کتابوں سے کی ہے، اکثراقوال پر محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا ہے ،بعض اقوال پر دارمی اورابوزرعہ سے مذاکرہ کیا ہے ، اکثر اقوال پر محمد بن اسماعیل بخاری سے گفتگوکی ہے، بہت کم اقوال پر عبداللہ بن احمداور ابوزرعہ رازی سے گفتگوکی ہے ، علل حدیث، تاریخ اور اسانید کی معرفت میں مجھے عراق اور خراسان میں محمد بن اسماعیل بخاری سے بڑا عالم کوئی اور نہیں ملا ۔
علل احادیث اور اقوال فقہاء کے ذکر کرنے کاسبب اور یہ بیان کہ رواۃ کے جرح وتعدیل پر سلف کا اجماع ہے
فقہاء کے اقوال اوراحادیث کی علل کاتذکرہ ہم نے اپنی کتاب میں اس لیے کیا ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں ہم سے سوال ہوا ، ہم ایک مدت تک ایسا نہیں کرتے تھے، ہم نے اقوال فقہاء اور علل حدیث کا تذکرہ اس واسطے کیا کہ اس میں لوگوں کے فوائد کی توقع ہے۔
اوائل مصنفین اسلام
اس لیے کہ ہم نے بہت سارے ائمہ کودیکھا کہ انہوں نے تصنیف وتالیف کا کام کیا ، ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا، ان میں سے مندرجہ ذیل علماء ہیں:
۱-ہشام بن حسان ،۲- عبدالملک بن عبدالعزیز ابن جریج، ۳-سعید بن ابی عروبہ،۴- مالک بن انس، ۵-حماد بن سلمہ ، ۶-عبداللہ بن المبارک ،۷- یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ ،۸- وکیع بن الجراح ، ۹-عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ ، اہل علم وفضل ۔
ان افاضل نے تصنیف وتالیف کا کام کیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کتابوں میں بڑا فائدہ ودیعت فرمایا، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ان اعمال پر جن سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نفع پہنچایا ثواب جزیل عطافرمائے،تصنیف کے باب میں یہ ائمہ ہمارے پیشوا ہیں۔
عہد تابعین میں جرح وتعدیل
بعض نادان لوگوں نے اہل حدیث کو رجال حدیث پر جرح کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا، جب کہ ہم نے دیکھا کہ بعض ائمہ تابعین نے رواۃ احادیث پر کلام کیا، ان میں سے حسن بصری اور طاؤس نے معبدجہنی پر کلام کیا ۔
سعیدبن جبیر نے طلق بن حبیب پر نقدکیا ۔
اور ابراہیم نخعی اور عامر شعبی نے حارث اعور کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔
اسی طرح ایوب سختیانی، عبداللہ بن عون، سلیمان تیمی، شعبہ بن الحجاج، سفیان ثوری ، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن المبارک ، یحیی بن سعید القطان وکیع بن الجراح اور عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ اہل علم کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے راوۃ حدیث پر کلام کیا ، اور ان کی تضعیف کی۔
رواۃ پر جرح وتنقید کا مقصد نصیحت اور خیرخواہی ہے
ہمارے نزدیک ان کو اس اقدام پر مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کے جذبہ نے ابھارا،و اللہ اعلم ۔
ان ائمہ کے بارے میں یہ خیال نہیں ہوناچاہئے کہ انہوں نے لوگوں کو مطعون کیا یا ان کی غیبت کی ۔
رواۃ حدیث کے اقسام
انہوں نے ہمارے خیال میں رواۃ کے ضعف کو اس لیے بیان کیا تاکہ ان کے بارے میں لوگوں کو علم ہوجائے اس لیے کہ،۱- بعض ضعیف رواۃ اہل بدعت میں سے تھے، ۲-اور بعض روایت حدیث کے باب میں متہم بالکذب تھے، ۳- بعض اصحاب غفلت اور کثیر الخطا تھے ، ان ائمہ نے دینی جذبہ سے ان رواۃ کے احوال کو بیان کیا اس لیے کہ دین کے بارے میں شہادت حقوق اور اموال میں شہادت سے زیادہ تحقیق اور ثبوت کی حقدار ہے۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری ، شعبہ ، مالک بن انس اور سفیان بن عیینہ سے راوی کے بارے میں سوال کیا کہ اس پر جھوٹ بولنے کا الزام ہے ، یا اس میں ضعف ہے، تو میں خاموش رہوں یا بیان کردوں، تو ان سب لوگوں نے کہا : بیان کردو۔
یحیی بن آدم کہتے ہیں کہ ابوبکر بن عیاش سے کہا گیا: بعض لوگ درس دینے بیٹھتے ہیں ، اور لوگ ان کے پاس آکر بیٹھتے ہیں ، لیکن وہ درس دینے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ابوبکر بن عیاش نے کہا:جو شخص بھی درس دینے بیٹھتا ہے لوگ اس کے پا س بیٹھ جاتے ہیں ۔صاحب سنت (صحیح عقیدہ والا) جب مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذکر کا چرچہ کردیتا ہے، اور بدعتی کا ذکر مٹ جاتا ہے۔
اہل بدعت کی روایت سے اجتناب
محمدبن سیرین کہتے ہیں: پہلے زمانے میں لوگ سند حدیث کے بارے میں نہیں سوال کرتیتھے، لیکن جب سے فتنہ شروع ہوا ۱؎ لوگوں نے سند کے بارے میں سوال کرنا شروع کیاتاکہ احادیث اہل سنت سے لیں اور اہل بدعت کی احادیث چھوڑدیں ۲؎ ۔
سند حدیث کی دین میں اہمیت
عبداللہ بن المبارک کہتے ہیں: میرے نزدیک سند دین میں سے ہے، اگرسند نہ ہوتی تو جو جو چاہتا کہتا، جب اس سے کہاجاتا ہے کہ یہ حدیث تم سے کس نے روایت کی تو وہ چپ ہوجا تا ہے ۔
ضعفاء سے روایت کے بارےمیں محدثین کامذہب
حبان بن موسیٰ کہتے ہیں: عبداللہ بن المبارک سے ایک حدیث ذکر کی گئی تو آپ نے کہا : اس کے لیے تو پختہ اینٹوں کے ستون چاہئیں ،ترمذی کہتے ہیں : یعنی ابن المبارک نے اس کی سند کی تضعیف کی۔
وہب بن زمعہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن المبارک نے حسن بن عمارہ ، حسن بن دینار ، ابراہیم بن محمد اسلمی ، مقاتل بن سلیمان ، اور عثمان بری ، روح بن مسافر ، ابوشیبہ واسطی ، عمرو بن ثابت ، ایوب بن خوط ، ایوب بن سوید ، ابوجزء نصر بن طریف، حکم اور حبیب کی احادیث ترک کردی۔
عبداللہ بن المبارک نے حکم کی صرف ایک حدیث کتاب الزہد والرقاق میں روایت کی پھر اس کو ترک کردیا۔اور کہا: حبیب کو میں نہیں جانتا۔
عبدان کہتے ہیں: عبداللہ بن المبارک نے بکر بن خنیس کی احادیث پڑھی تھیں، بعدمیں جب وہ ان احادیث پر آتے تو ان سے صر ف نظر کرتے ،اور بکر کا تذکرہ نہیں کرتے تھے۔
ابووہب کہتے ہیں: لوگوں نے عبداللہ بن المبارک سے حدیث میں ایک متہم بالکذب راوی کا نام لیا تو آپ نے کہا:میں ڈاکہ ڈالوں یہ اس سے بہتر ہے کہ میں اس سے حدیث روایت کروں ۔
یزید بن ہارون کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ سلیمان بن عمرو کوفی سے روایت کرے۔
ابویحیی حمانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ کو کہتے سنا: میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹاکوئی راوی نہیں دیکھا اور نہ عطاء بن ابی رباح سے افضل کسی کو دیکھا ۔
جارود کہتے ہیں: میں نے وکیع بن جراح کو یہ کہتے سنا: جابر جعفی نہ ہوتا تو اہل کوفہ بغیر حدیث کے ہوتے ، اور حماد بن ابی سلیمان کوفی نہ ہوتے تو اہل کوفہ بغیرفقہ کے ہوتے ۔
ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن الحسن کو کہتے سنا: ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ کس پر جمعہ فرض ہے؟ بعض تابعی اور تبع تابعی اہل علم سے اس بارے میں اقوال ذکر کئے تو میں نے کہا: اس باب میں نبی اکرمﷺ سے ایک حدیث ہے، پوچھا:نبی اکرمﷺ سے؟ میں نے کہا: ہاں ، ہم سے حجاج بن نصیر نے بیان کیا ، حجاج سے معارک بن عباد نے اور معارک سے عبداللہ بن سعید مقبری نے ، عبداللہ بن سعیدنے اپنے والد سعید مقبری سے ، اور مقبری ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :'' جمعہ اس شخص پر فرض ہوتا ہے جو رات کو اپنے گھر تک پہنچ جائے ''۔اس پر احمد بن حنبل غصہ ہوئے اوردوبار کہا: اور أستغفر اللہ کہا، اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، اپنے رب سے مغفرت طلب کرو۔
ترمذی کہتے ہیں: احمد بن حنبل نے ایسا اس لیے کیا کہ سند کے ضعف کی وجہ سے یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح نہیں تھی ،اورآپ کو نبی اکرمﷺ سے اس کے ثابت ہونے کا علم نہیں تھا ، حجاج بن نصیر کی حدیث میں تضعیف کی گئی ہے،اور عبداللہ بن سعید مقبری کو یحیی بن سعید القطان نے حدیث میں بہت ضعیف قرار دیا ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: ہر وہ راوی جس سے کوئی حدیث روایت کی گئی ہو اور متہم بالکذب ہو یا غفلت اور کثرت اخطاء کی وجہ سے اس کی تضعیف کی گئی ہو اوروہ حدیث صرف ا س کے ہی طریق سے معروف ہو تو ایسے راوی سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ۱؎ ۔
ضعفاء سے روایت اور ان پر جرح
بہت سارے ائمہ نے ضعفاء سے روایت کی ہے اور لوگوں کے لیے ان کے حالات کو بھی بیان کردیا ہے ۔
یعلی بن عبید کہتے ہیں: ہم سے سفیان ثوری نے کہا: کلبی سے اجتناب کرو، ان سے کہا گیا کہ آپ تو اس سے روایت کرتے ہیں، کہا: مجھے اس کے سچ اور جھوٹ کی تمیز ہے۔
ابوعوانہ کہتے ہیں:جب حسن بصری کا انتقال ہوگیا تو مجھے ان کے اقوال جاننے کی خواہش ہوئی ،میں نے اصحاب حسن بصری کی تلاش کی ، ابان بن ابی عیاش کے پاس آیا تو اس نے ہم پر احادیث پڑھیں سب کی سب حسن بصری سے تھیں، میں ان میں سے کچھ بھی روایت کرنا حلال نہیں سمجھتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش سے غفلت اور ضعف کے باوجود کئی ائمہ نے روایت کی ہے، جیسا کہ ابوعوانہ وغیرہ نے کہا ہے، پس اگر ثقات لوگوں سے روایت کریں تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے اس لیے کہ ابن سیرین سے مروی ہے کہ آدمی مجھ سے حدیث بیان کرتا ہے،تومیں اسے متہم نہیں کرتا، بلکہ اس سے اوپر کے راوی کو متہم کرتاہوں ۔
کئی لوگوں سے سے روایت ہے کہ ابراہیم نخعی علقمہ سے روایت کرتے ہیں اور علقمہ،عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ رکوع سے پہلے وترمیں قنوت پڑھتے تھے۔
اورابان ابن ابی عیاش سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رکوع سے پہلے وترمیں قنوت پڑ ھتے تھے ، سفیان ثوری نے ابان بن ابی عیاش سے ایسے ہی روایت کی ہے ۔
بعض لوگوں نے بسند ابان ابن ابی عیاش ایسے ہی بیان کیا ہے، اور اس میں اتنا زیادہ ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری والدہ نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکے پاس رات گزاری تو آپ کو رکوع سے پہلے وتر میں قنوت پڑھتے دیکھا ۔
ترمذی کہتے ہیں: ابان بن ابی عیاش اگرچہ عبادت اور زہد وریاضت کے وصف سے متصف ہیں ، لیکن حدیث میں ان کا یہ حال ہے اورمحدثین کی جماعت حفظ والی تھی، توکبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی نیک اور صالح ہوتا ہے، لیکن نہ وہ شہادت دے سکتا ہے، اور نہ اسے یاد رکھتا ہے تو ہر متہم بالکذب راو ی یا مغفل راوی جو کثرت سے غلطیاں کرتا ہے، اہل حدیث کی اکثریت کے مختار مذہب میں ایسے راویوں سے حدیث نہیں روایت کی جائے گی ۔ کیا یہ نہیں دیکھتے ہو کہ عبداللہ بن المبارک نے اہل علم کی ایک جماعت سے حدیث روایت کی تھی لیکن ان کے حالات کے واضح ہونے جانے پران سے روایت ترک کردی۔
صالح بن عبداللہ ترمذی کہتے ہیں: ہم ابومقاتل سمرقندی کے پاس تھے ، تو وہ لقمان کی وصیت ، اور سعید بن جبیر کے قتل سے متعلق لمبی لمبی احادیث اور اس طرح کی چیزیں عون بن ابی شداد سے روایت کرنے لگے ، ابومقاتل کے بھتیجے نے ان سے کہا: چچا! یہ نہ کہیں کہ ہم سے عون نے حدیث بیان کی ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے آپ نے ان سے کچھ بھی نہیں سنا ہے ، کہا: بیٹے !یہ اچھاکلام ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے جارود کو کہتے سنا : ہم ابومعاویہ کے پاس تھے تو اُن سے ابومقاتل کی حدیث کا ذکر کیا گیا کہ ابومقاتل نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے اور ثوری نے اعمش سے اور اعمش نے ابوظبیان سے ، ابوظبیان کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ سے بھڑوں کے چھتے کے بارے میں سوال گیا تو آپ نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے،یہ سمندری شکارکی طرح ہے، ابومعاویہ نے کہا : میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمہارے ساتھی (یعنی ابومقاتل ) کذاب ہیں، لیکن یہ حدیث جھوٹ ہے ۔
بعض اہل حدیث نے جلیل القدر اہل علم کی ایک جماعت پر جرح کی، حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ان کو ضعیف قرار دیا ، جب کہ دوسرے ائمہ نے ان کے صدق اور جلالت شان کی وجہ سے ان کی توثیق کی گرچہ ان کی بعض روایات میں اوہام ہیں۔
یحیی بن سعید القطان نے محمد بن عمرو پر کلام کیا ، پھر ان سے روایت کی ۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید القطان سے محمد بن عمرو بن علقمہ کے بارے میں دریافت کیا توآپ نے کہا: کیا ان کے بارے میں عفو ودرگزر پر مبنی رائے چاہتے ہو یا سخت بات؟ کہا: نہیں، سخت بات چاہتاہوں ؟ جواب دیا: وہ اس معیار کے نہیں جو تمہیں مطلوب ہے وہ روایت میں کہتے تھے:ہمارے مشائخ ابوسلمہ اور یحیی بن عبدالرحمن بن حاطب ہیں۔
یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں: میں نے مالک بن انس سے محمد بن عمرو کے بارے میں سوال کیا تو میرے قول کی طرح ان کے بارے میں مالک نے عرض کیا۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں: محمد بن عمرو، سہیل بن ابی صالح سے افضل ہیں، وہ میرے نزدیک عبدالرحمن بن حرملہ پر فوقیت رکھتے ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید بن القطان سے پوچھا: عبدالرحمن بن حرملہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کہا: اگر میں ان کو تلقین کرنا چاہوں تو کرسکتا ہوں، میں نے کہا: کیا ان کو تلقین کی جاتی تھی؟ کہا: ہاں!۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: یحیی بن سعید القطان نے تونہ شریک سے روایت کی ، نہ ابوبکر بن عیاش سے ، نہ ربیع بن صبیح سے اور نہ ہی مبارک بن فضالہ سے ۔
ترمذی کہتے ہیں: یحیی بن سعید القطان نے گرچہ ان لوگوں سے حدیث کی روایت ترک کردی تھی، لیکن ان کو کذب کے اتہام کی وجہ سے نہیں چھوڑا تھا، انہیں صرف ان کے حافظہ کی کمزور ی کی وجہ سے چھوڑا تھا۔
یحیی بن سعید القطان سے مروی ہے کہ وہ جب کسی راوی کو ایک مرتبہ اپنے حافظہ سے روایت کرتے دیکھتے، اور دوسری مرتبہ اپنی کتاب سے اور دونوں حالتوں میں وہ ایک روایت پر ثابت قدم نہیں رہتا تو اس کو ترک کردیتے تھے۔
اورجن رواۃ کو یحیی القطان نے ترک کردیا تھا ان سے عبداللہ بن المبارک، وکیع بن جراح ، عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ ائمہ حدیث نے روایت کی ہے ۱؎ ۔
ترمذی کہتے ہیں:ایسے ہی بعض اہل حدیث نے سہیل بن ابی صالح، محمد بن اسحاق ، حماد بن سلمہ ، محمد بن عجلان اور اس درجہ کے ائمہ حدیث پر کلام کیا ہے، ان پر کلام کا سبب ان کی بعض احادیث کی روایت میں ضعف ہے جب کہ دوسرے ائمہ نے ان سے روایت کی ہے ۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا: ہم سہیل بن ابی صالح کو حدیث میں ثقہ شمار کرتے تھے۔
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: محمد بن عجلان حدیث میں ثقہ اور مامون تھے ۔
ترمذی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک یحیی بن سعید القطان نے محمد بن عجلان کی سعید المقبری سے روایت میں کلام کیا ہے۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ محمدبن عجلان کہتے ہیں: سعید المقبری کی بعض احادیث ابوہریرہ سے روایت ہے، اور بعض بواسطہ رجل عن ابی ہریرہ، سعید کی روایات مجھ پر مختلط ہوگئیں، تو ہم نے سب کو سعید عن ابی ہریرہ کی سند سے روایت کردیا۔
ہمارے نزدیک یحیی بن سعید القطان نے ابن عجلان پر کلام اسی سبب سے کیا ہے ، جب کہ یحیی بن سعید القطان نے ابن عجلان سے بکثرت روایت کی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح ابن ابی لیلیٰ پر جس نے کلام کیا تو وہ صرف حافظہ کی خرابی کی وجہ سے ۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: شعبہ نے بسند ابن ابی لیلیٰ عن أخیہ عیسی عن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن أبی أیوب عن النبیﷺ چھینک کے بارے میں روایت کی ہے۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: پھرمیری ملاقات ابن ابی لیلیٰ سے ہوئی تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ ان سے ان کے بھائی عیسیٰ نے بیان کیا ، عیسی نے ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی ، اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی نے نبی اکرمﷺ سے۔
ترمذی کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ سے اس طرح کی کئی چیزیں روایت کی جاتی ہیں ، کبھی ایک چیز ایسے روایت کرتے ، پھر اس کی سند میں تبدیلی کردیتے ہیں اور یہ سب صرف حافظہ کی خرابی سے ہواہے ، گزشتہ عہد کے اکثر علماء احادیث لکھتے نہیں تھے ،اور جو لوگ لکھتے وہ سماع حدیث کے بعد لکھتے تھے۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے احمدبن الحسن کو کہتے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا: ابن ابی لیلیٰ سے حجت نہیں پکڑی جا ئے گی۔
ایسے ہی جن اہل علم نے مجالد بن سعید اور عبداللہ بن لہیعہ وغیرہ پر کلام کیا ہے تو اس کی وجہ صرف ان کے حافظہ کی خرابی اور روایت میں بکثرت خطا واقع ہونا ہے، جب کہ بہت سارے ائمہ نے ان سے روایت کی ہے تو جب ان رواۃ میں سے کوئی کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہو اور اس کی متابعت نہ پائی جائے تو وہ قابل حجت نہ ہوگا ، جیسے احمد بن حنبل کا قول کہ ابن ابی لیلیٰ قابل حجت نہیں ، احمد بن حنبل کا مقصد یہ ہے کہ جب ابن ابی لیلیٰ کسی چیز کی روایت میں منفرد ہوں تووہ قابل حجت نہیں ہیں۔ اور زیادہ یہ ہوتا ہے کہ راوی اسناد کو یاد نہیں رکھتا ، تو سند میں کمی یا زیادتی کردیتا ہے، یا سند بدل دیتا ہے، یاایسے الفاظ سے روایت کردیتا ہے جس سے معنی میں تبدیلی ہوجاتی ہے ۱؎ ۔
روایت بالمعنی کا جواز اور اس کی شروط
تو جس نے سندصحیح ذکر کی اور اسے یاد رکھا ، اورالفاظ میں تبدیلی کردی تومعنی نہ بدلنے کی صورت میں ایسا کرنے کی اہل علم کے نزدیک گنجائش ہے ۱؎ ۔
واثلہ بن الاسقع کہتے ہیں: جب ہم تم سے حدیث بالمعنی روایت کردیں تو یہ تمہارے لیے کافی ہے ۔
محمدبن سیرین کہتے ہیں: حدیث کو میں دس مختلف سیاق سے سنتاتھا اورسب کا معنی ایک ہوتا تھا۔
ابن عون کہتے ہیں:ابراہیم نخعی ، حسن بصری اور شعبی بالمعنی حدیث روایت کرتے تھے ۔
اور قاسم بن محمد، محمد بن سیرین اور رجاء بن حیوہ حدیث کو اس کے اپنے الفاظ میں بیان کرتے تھے۔
عاصم الأحول کہتے ہیں: میں نے ابوعثمان نہدی سے کہا کہ آپ ہم سے ایک بار حدیث بیان کرتے ہیں، پھر دوبارہ اس کی روایت کرتے ہیں تو وہ پہلے سے مختلف ہوتی ہے؟ عرض کیا :جو پہلی بار سنا ہے اس کو لے لو۔
حسن بصری کہتے ہیں: معنی اگر ٹھیک روایت کردو تو یہ تمہارے لیے کافی ہے۔
سیف بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد کو کہتے سنا: اگر چاہو تو حدیث بیان کرنے میں کمی کردو ، لیکن اس میں زیادتی نہ کرو۔( یعنی اپنی طرف سے اضافہ نہ کرو، مختصر روایت کرو، یا بعض فقرات روایت کرو)۔
سفیان ثوری کہتے ہیں: اگر میں یہ کہوں کہ میں تم سے بعینہ و یسے ہی روایت کرتاہوں جیسے میں نے سناہے، تو میری تصدیق نہ کرو، یہ روایت بالمعنی ہے ۔
وکیع کہتے ہیں: اگر بالمعنی روایت کی گنجائش نہ ہو تو لوگ ہلاک ہوجائیں گے ۔
ثقہ رواۃ اور ان کے مراتب ودرجات
ترمذی کہتے ہیں: اہل علم حفظ واتقان اور سماع حدیث کی تحقیق وتحری میں متفاوت ہیں، قوت حفظ کے باوجود بڑے سے بڑا کوئی امام وہم وخطا اور غلطی سے بچانہیں ہے۔
عمارہ بن قعقاع کہتے ہیں کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے کہا: جب آپ مجھ سے حدیث بیان کریں تو ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے بیان کریں، ابوزرعہ نے ایک بار مجھ سے ایک حدیث بیان کی پھر کئی سال کے بعد میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو ایک حرف بھی نہیں چھوڑا ۔
منصور کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی سے کہا: سالم بن ابی الجعد آپ سے زیادہ بہتر طورپرکیوں احادیث روایت کرتے ہیں؟کہا: اس لیے کہ وہ احادیث لکھتے تھے ۔
عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں: میں حدیث بیان کرتاہوں تو ایک حرف بھی نہیں چھوڑتا ۔
قتادہ کہتے ہیں: میرے کانوں نے جو کچھ سنا وہ دل میں بیٹھ گیا۔
قتادہ کہتے ہیں: میرے کانوں نے جو کچھ سنا وہ دل میں بیٹھ گیا۔
عمرو بن دینار کہتے ہیں: زہری سے زیادہ میں نے کسی کو نص حدیث کی روایت کرتے نہیں دیکھا۔
ایوب سختیانی کہتے ہیں: میرے علم میں زہری کے بعد اہل مدینہ میں یحیی بن ابی کثیر سے بڑا حدیث کا کوئی عالم نہیں ہے۔
حماد بن زید کہتے ہیں: ابن عون حدیث بیان کرتے تھے ، جب میں ان کو ایوب سے اس کے خلاف روایت کرتا تو وہ اپنی روایت چھوڑدیتے ، میں کہتا کہ آپ نے وہ حدیث سنی ہے تو عرض کرتے : ایوب سختیانی ابن سیرین کی احادیث کے ہم میں سب سے زیادہ واقف کار تھے۔
علی بن المدینی کا قول ہے کہ میں نے یحیی بن سعید القطان سے سوال کیا: ہشام دستوائی زیادہ ثقہ اور معتبر ہیں، یا مسعر؟ کہا: میں نے مسعر کی طرح کسی کو نہیں دیکھا ، لوگوں میں مسعرسب سے زیادہ ثقہ اور معتبر تھے۔
حماد بن زید کہتے ہیں: جس حدیث میں بھی شعبہ نے میری مخالفت کی میں نے اس کو چھوڑدیا ۔
ابوالولید کہتے ہیں کہ حماد بن سلمہ نے کہا : اگر تمہیں حدیث چاہئے تو شعبہ کا دامن پکڑلو ۔
شعبہ کہتے ہیں:میں نے جس راوی سے بھی ایک حدیث روایت کی ، اس کے پاس ایک سے زیادہ بارآیا ، اور جس سے دس حدیث روایت کی اس کے پاس دس بار سے زیادہ آیا ، اور جس سے (۵۰) حدیث روایت کی اس کے پاس پچاس بار سے زیادہ آیا ، اور جس سے سوحدیث روایت کی اس کے پا س سوبار سے زیادہ آیا، إلا یہ کہ حیان کوفی سے میں نے یہ احادیث سنیں ، دوبارہ ان کے پاس گیا تو ان کی وفات ہوگئی تھی ۔
عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری کو کہتے سنا: شعبہ حدیث میں امیر المومنین ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان کو کہتے سنا: مجھے شعبہ سے زیادہ کوئی پسند نہیں ہے ، میرے نزدیک ان کا ہم پلہ کوئی نہیں، جب ان کی مخالفت سفیان ثوری کرتے ہیں ، تو میں سفیان ثوری کے قول کو قبول کرتا ہوں ۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان سے کہا: لمبی احادیث کو سفیان ثوری زیادہ یاد رکھتے ہیں، یا شعبہ ؟ کہا: شعبہ زیادہ یا د رکھتے تھے۔
یحیی القطان کہتے ہیں: شعبہ رواۃحدیث یعنی کون راوی کس سے روایت کرتا ہے کے سب سے بڑے ماہر عالم تھے، اور سفیان ثوری فقہی ابواب کے ما ہر تھے۔
عمروبن علی الفلاس کہتے ہیں کہ میں نے ابن مہدی کو کہتے سنا: ائمہ حدیث چار ہیں:سفیان ثوری، مالک بن انس ، اوزاعی اور حماد بن زید۔
وکیع کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ کوکہتے سنا: سفیان ثوری مجھ سے زیادہ حدیث کے حافظ ہیں، سفیان ثوری نے ہم سے جب بھی کسی شیخ کی حدیث روایت کی تو میں نے ان سے اس کے بارے میں سوال کیا، تو پایا کہ وہ ویسے ہی تھی جیسے مجھ سے بیان کیا تھا۔
معن بن عیسیٰ القزاز کہتے ہیں: مالک بن انس حدیث رسول کی روایت میں سختی کرتے تھے، ی ،ت وغیرہ الفاظ تک میں ۔
قاضی مدینہ ابراہیم بن عبداللہ بن قریم انصاری کہتے ہیں: امام مالک کاگزر ابوحازم پر ہوا تووہ بیٹھے تھے ، آگے گزر گئے،تو ان سے کہا گیا کہ آپ کیوں نہیں بیٹھے ؟ کہا: مجھے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ملی تو میں نے یہ بات ناپسندیدہ سمجھی کہ حدیث رسول کھڑے کھڑے سنوں۔
یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں:'' بسند مالک عن سعید بن المسیب''روایت کردہ حدیث مجھے ''سفیان ثوری عن ابراہیم نخعی'' سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: جماعت محدثین میں مالک سے زیادہ صحیح حدیث والاکوئی نہیں، مالک امام حدیث تھے۔
احمد بن الحسن کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا:میں نے یحیی بن سعید القطان کے ہم مثل کسی کو نہیں دیکھا۔
احمد بن الحسن کہتے ہیں: احمد بن حنبل سے وکیع اور عبدالرحمن بن مہدی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا: وکیع بن جراح دل کے ( یعنی ورع، تقوی ، زہد،عبادت اور ریاضت میں)بڑے ہیں، اور عبدالرحمن بن مہدی امام ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: اگر رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان مجھ سے حلف لیاجائے تو میں قسم کھاسکتا ہوں کہ میں نے عبدالرحمن بن مہدی سے بڑا عالم نہیں دیکھاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: رواۃ حدیث کے بارے میں کلام ، اور اہل علم سے اس موضوع پر روایات بہت ساری ہیں، ہم نے مختصرا کچھ باتیں ذکر کردی ہیں، تاکہ اس سے اہل علم کے مراتب اور ان کے مابین حفظ واتقان میں تفاوت اور فرق پر استدلال کیا جاسکے، اوریہ جاناجا سکے کہ اہل علم نے جن رواۃ پر کلام کیا ہے ، اس کے اسباب کیا ہیں ۱؎ ۔
حدیث سننے اور اسے روایت کرنے میں استعمال ہونے والے صیغے اور ان کے بارے میں محدثین کے مذاہب
امام ترمذی کہتے ہیں: عالم پر حدیث پڑھنا اگر وہ ان پڑھی جانے والی احادیث کا حافظ ہے، یا اگر وہ حافظ حدیث نہیں ہے تو اس پر پڑھی جانے والی کتاب کی اصل اس کے ہاتھ میں ہے تو یہ اہل حدیث کے نزدیک سماع کی طرح صحیح ہے ۱؎ ۔
ابن جریج کہتے ہیں: میں نے عطاء بن ابی رباح پر پڑھا تو ان سے کہا کہ میں کیسے کہوں؟ کہا: کہو ''حدثنا'' ہم سے (شیخ نے) اس حدیث کو بیان کیا۔
عکرمہ کہتے ہیں: ابن عباس کے پاس طائف کی ایک جماعت آئی جن کے ہاتھ میں ابن عباس کی کتابوں میں سے ایک کتاب تھی، تو ابن عباس نے ان پرپڑھنا شروع کردیا کبھی آگے سے پڑھتے اورکبھی پیچھے سے پڑھنے لگتے اور کہا: میں اس مصیبت سے عاجزہوں، تم مجھ پر پڑھو، میرا اقرار ویسے ہی ہے جیسے میں تم پر پڑھوں ۔
منصور بن معتمر کہتے ہیں: آدمی جب کسی کو اپنی کتاب ہاتھ میں پکڑا دے اور کہے کہ یہ مجھ روایت کرو تو اس کے لیے جائز ہے کہ اس کی روایت کر ے (اس کو محدثین کی اصطلاح میں'' مناولہ'' کہتے ہیں)۔
میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: میں نے ابوعاصم النبیل سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: مجھ پر پڑھو، میں نے یہ پسند کیا کہ وہ پڑھیں تو انہوں نے کہا: کیا تم قراء ۃ (شیخ پر پڑھنے) کو جائز نہیں کہتے ،جب کہ سفیان ثوری اور مالک بن انس شیخ پر قراء ۃ کو جائز کہتے تھے!۔
عبداللہ بن وہب کہتے ہیں: میں نے حدیث کی روایت میں''حدثنا'' کا صیغہ استعمال کیاتو اس سے مراد وہ احادیث ہیں جن کو ہم نے لوگوں کے ساتھ سنا، اور جب میں ''حدثنا'' کہتاہوں تو وہ میری تنہا مسموعات میں سے ہیں، اورجب ''أخبرنا'' کہتا ہوں تو وہ عالم حدیث پر پڑھی جانے والی احادیث ہیں ، جن میں میں حاضرتھا، اور جب میں ''اخبرنی'' کہتا ہوں تووہ میری عالم حدیث پر تنہا پڑھی ہوئی روایات ہوتی ہیں۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: ''حدثنا'' اور ''أخبرنا'' دونوں ہم معنی لفظ ہیں ۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم ابو مصعب کے پاس تھے ، ان پر ان کی بعض احادیث کو پڑھاگیا تو میں نے ان سے کہا: ہم حدیث روایت کرتے وقت کون سا صیغہ استعمال کریں؟ کہا: کہو : ''حدثنا ابو مصعب'' یعنی ہم سے ابومصعب نے حدیث بیان کی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: بعض اہل علم نے اجازئہ حدیث کو جائز کہا ہے،جب عالم حدیث کسی کو اپنی کسی حدیث کی روایت کی اجازت دے تو اس (مستجیز ) کے لیے جائز ہے کہ وہ مجیز(یعنی اجازئہ حدیث دینے والے شیخ) سے روایت کرے ۔
بشیر بن نہیک کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ کی روایت سے ایک کتاب لکھی توان سے کہا کہ میں اسے آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں، روایت کرو۔
محمد بن اسماعیل واسطی نے ہم سے بیان کیا ان سے محمد بن الحسن واسطی نے بیان کیا وہ عوف اعرابی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حسن بصری سے کہا: میرے پاس آپ کی بعض احادیث ہیں، کیا میں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔
ترمذی کہتے ہیں: محمد بن الحسن ''محبوب بن الحسن'' کے نام سے معروف ہیں، ان سے کئی ائمہ نے روایت کی ہے۔
عبیداللہ بن عمرکہتے ہیں: زہری کے پاس میں ایک کتاب لے کرآیا اور ان سے عرض کیاکہ یہ آپ کی احادیث ہیں، کیامیں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: ابن جریج، ہشام بن عروہ کے پاس ایک کتاب لے کر آئے اور ان سے کہا یہ آپ کی احادیث ہیں، کیا میں انہیں آپ سے روایت کروں؟ کہا: ہاں۔
یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: میں نے اپنے جی میں کہا: مجھے نہ معلوم ہوسکا کہ دونوں صورتوں میں کون زیادہ تعجب خیز بات ہے۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید القطان سے ابن جریج کی عطاخراسانی سے روایت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ضعیف ہے ، میں نے کہا: وہ''أخبرنی'' کہتے ہیں، کہا: بے کار بات ہے، یہ صرف کتاب ہے جو عطا نے ابن جریج کو دے دی تھی۔
مرسل حدیث کا حکم
ترمذی کہتے ہیں: جب حدیث مرسل ہو تووہ اہل حدیث کی اکثریت کے نزدیک صحیح نہیں ہے، کئی ائمہ حدیث نے اسے ضعیف قرار دیاہے۔
عتبہ بن ابی حکیم کہتے ہیں: زہری نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ کو'' قال رسول اللہﷺ'' کہتے سناتو کہا:اے ابن فروہ! اللہ تم سے جنگ کرے، تم ایسی حدیث ہمارے پاس لے کر آئے ہو جس کی نکیل ہے نہ لگا م (جس کا نہ سر نہ پیر)۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں:میرے نزدیک مجاہد کی مراسیل؛ عطاء بن ابی رباح کی مراسیل سے زیادہ پسندیدہ ہیں، عطا سب سے روایت کرتے تھے۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میرے نزدیک سعید بن جبیر کی مراسیل عطاء کی مراسیل سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان سے پوچھا: مجاہد کی مراسیل آپ کے نزدیک زیادہ اچھی ہیں یا طاؤس کی ؟ کہا: دونوں قریب قریب ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں کہ میں نے یحیی بن سعید القطان کو کہتے سنا: ابواسحاق سبیعی کی مراسیل میرے نزدیک تقریبا کچھ بھی نہیں ہیں، ایسے ہی اعمش ، تیمی، یحیی بن ابی کثیر ، اور ابن عیینہ کی مراسیل سب ہواکی مانندہیں، پھر کہا: ہاں، اللہ کی قسم! اور سفیان بن سعید ثوری کی مراسیل بھی ۔
علی بن المدینی کہتے ہیں:میں نے یحیی بن سعید القطان سے پوچھا: آپ مالک کی مراسیل کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟کہا: یہ مجھے زیادہ پسند ہیں، پھر یحیی بن سعیدالقطان نے کہا: رواۃ حدیث میں مالک سے زیادہ کسی کی حدیث صحیح نہیں ہے۔
سوار بن عبداللہ عنبری کہتے ہیں کہ میں نے یحیی القطان کوکہتے سنا: حسن بصری اپنی روایت میں جب ''قال رسول اللہﷺ'' کہتے ہیں تو ایک یا دو حدیث کے علاوہ مجھے ان کی ساری احادیث کی اصل مل گئی ۔
ترمذی کہتے ہیں: اور مرسل کو ضعیف کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ ان ائمہ نے ثقہ اور غیر ثقہ ہر طرح کے رواۃ سے روایت کی ہے ،تو جب ایک راوی نے نے کوئی حدیث روایت کی اور اس کو مرسل بیان کیا تو ہوسکتا ہے کہ اس نے غیر ثقہ راوی سے اس کی روایت کی ہوچنانچہ حسن بصری نے معبدجہنی پر جرح کی پھر اس سے روایت کی۔
مرحوم بن عبدالعزیز العطار کے والد اور چچا کہتے ہیں کہ ہم نے حسن بصری کو کہتے سنا: تم معبدجہنی سے بچو، کیونکہ وہ خود گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا سے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:شعبی سے منقول ہے کہ حارث اعور نے ہم سے حدیث روایت کی اور وہ کذاب تھا، اور اس سے شعبی نے بھی روایت کی ہے ، فرائض کے باب میں علی وغیرہ سے ان کی اکثر روایات کا مصدر حارث اعور ہی ہے۔اورشعبی کا قول ہے کہ حارث اعور نے مجھے علم فرائض سکھائے ، حارث علم فرائض میں سب سے ماہر آدمی تھے۔
عبدالرحمن بن مہدی کہتے ہیں: کیا تم سفیان بن عیینہ پر تعجب نہیں کروگے ،جابر جعفی نے جب ہزار سے زیادہ احادیث ان سے بیان کیں تو میں نے اس کو ان کے کہنے کی وجہ سے ترک کردیا، پھر وہ اس سے روایت کرتے ہیں۔
محمد بن بشار کہتے ہیں: عبدالرحمن بن مہدی نے جابر جعفی کو چھوڑدیا۔
مرسل کی حجیت کے قائلین
بعض اہل علم نے مرسل کو حجت مانا ہے۔
سلیمان بن مہران اعمش کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے کہا کہ آپ عبداللہ بن مسعود کی سند بیان کیجئے تو انہوں نے کہا: جب میں تم سے کہوں: ''حدثنا رجل عن عبداللہ بن مسعود'' (ہم سے ایک آدمی نے بیان کہ اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی) تویہ ایسی سند ہے جس میں میں نے راوی کا نام لیا ہے ، اور جب میں کہوں: ''قال عبداللہ'' تو وہ کئی رواۃ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی۔
ترمذی کہتے ہیں:اہل علم کے نزدیک رواۃ کی تضعیف میں اختلاف ہے جیسے دوسرے علوم و فنون میں علماء کا اختلاف ہے، شعبہ سے آیا ہے کہ انہوں نے ابوالزبیر مکی، عبدالملک بن ابی سلیمان ، اور حکیم بن جبیر کی تضعیف کی ،اور ان سے روایت ترک کردی ، پھر شعبہ نے حفظ وعدالت میں ان سے کم درجے کے رواۃ سے روایت کی ، یعنی جابر جعفی ، ابراہیم بن مسلم ہجر ی ، محمد بن عبیداللہ العرز می اور کئی راوی جو حدیث میں ضعیف قرار دیے گئے ہیں سے روایت کی ۔
امیہ بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے کہا: آپ عبدالملک بن ابی سلیمان کو چھوڑ کر محمد بن عبیداللہ عرزمی سے روایت کرتے ہیں؟ کہا: ہاں ۔
ترمذی کہتے ہیں: شعبہ نے پہلے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی پھر انہیں چھوڑ دیا ، اور کہا جا تا ہے کہ ان کے چھوڑ نے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے بسند عطاء بن ابی رباح عن جابر بن عبداللہ عن النبیﷺ یہ حدیث روایت کی : ''الرَّجُلُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا''۔
اور کئی ائمہ ابوالزبیر مکی ، عبدالملک بن ابی سلیمان اور حکیم بن جبیرکی توثیق کی،اور ان سے روایت کی ۔
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں: ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس سے نکل کر آپ کی احادیث کا مذاکرہ کیا،توابوالزبیر ان احادیث کے سب سے زیادہ حافظ تھے۔
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح مجھے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے آگے کرتے تھے،تاکہ میں ان کے لیے حدیث یاد کرلوں۔
ایوب سختیانی کہتے ہیں: ہم سے ابوالزبیر نے حدیث بیان کی ، اور ابوالزبیر اور ابوالزبیر،اور ابوالزبیر سفیان ثوری اپنا ہاتھ پکڑکر یہ کہہ رہے تھے ۔
ترمذی کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ اس کلام سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حفظ حدیث اورروایتِ حدیث میں ابوالزبیر قوی اور پختہ ہیں۔
عبداللہ بن المبارک سے روایت ہے کہ سفیان ثوری کہتے تھے: عبدالملک بن ابی سلیمان علم کی میزان ہیں۔
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید القطان سے حکیم بن جبیر کے بارے میں سوال کیا تو کہا: صدقہ والی حدیث کی روایت کی وجہ سے شعبہ نے ان سے روایت ترک کردی ،یعنی ابن مسعودکی حدیث کہ نبی اکرمﷺ کا ارشادہے: ''جس نے سوال کیا اور اس کے پاس مو جود مال اس کو دوسروں سے بے نیاز کردینے والا ہے ، تو وہ قیامت کے دن ایسے ہوگا کہ اس کے چہرہ پر خراش ہوگی ، کہا گیا: اللہ کے رسول! اسے کون سی چیز دوسروں سے بے نیاز کرے گی ؟ فرمایا: پچاس درہم (چاندی کے) یااس قیمت کا سونا''۔
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں: سفیان ثوری اور زائدہ نے حکیم بن جبیر سے روایت کی ہے ۔
اورعلی بن المدینی کہتے ہیں کہ یحیی بن سعید القطان کے نزدیک حکیم بن جبیر کی حدیث میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ان سے یحیی بن آدم نے ، یحیی نے سفیان ثوری سے روایت کی ، وہ کہتے ہیں کہ حکیم بن جبیرنے صدقہ والی حدیث روایت کی ۔
یحیی بن آدم کہتے ہیں: شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے سفیان ثوری سے کہا: اگرصدقہ والی حدیث حکیم بن جبیر کے علاوہ کسی اور نے روایت کی ہوتی تو کیا حکم ہوتا ؟۔
سفیان ثوری نے جواب دیا: حکیم کوکیا ہوگیا کہ شعبہ نے اُن سے روایت نہیں کی؟عبداللہ بن عثمان نے کہا: ہاں!(ایسے ہی ہے، شعبہ نے حکیم سے روایت نہیں کی ) توسفیان ثوری نے کہا: میں نے زبید کو یہ حدیث محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے سنا ہے۔
امام ترمذی کے نزدیک حدیث حسن کی تعریف
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم نے اس کتاب میں جس حدیث کو ''حسن'' کہاہے اس سے ہماری مراد اس کی سند کا حسن ہونا ہے۔
ہر وہ حدیث جس کی سندمیں متہم بالکذب راوی نہ ہو اور نہ وہ شاذ ہو اور وہ دوسرے طرق سے مروی ہو تو یہ ہمارے نزدیک حسن ہے ۱؎ ۔
علمائے حدیث کے نزدیک غریب احادیث کی اقسام
اور ہم نے اس کتاب میں جن احادیث کو ''غریب'' کہا ہے تو اہل حدیث کے نزدیک ''غریب حدیث '' کے مختلف معانی ہیں:
۱- کبھی حدیث کی غرابت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک سند سے مروی ہوتی ہے جیسے حماد بن سلمہ کی حدیث جس کو وہ ابوالعشرا ء سے روایت کرتے ہیں، اور وہ اپنے باپ سے، عشراء کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول : کیا ذبح کی جگہ صرف حلق اور گردن ہے؟ تو آپ نے فرمایا:'' اگر تم اس کی ران میں زخم لگاؤ گے تو یہ بھی کافی ہوگا '' ۔
حماد بن سلمہ اس حدیث کی ابوالعشر اء سے روایت میں منفرد ہیں، ابوالعشراء کی اپنے والد سے صرف یہی ایک حدیث معروف ہے، گرچہ اہل علم کے نزدیک یہ حدیث مشہور ہے ، اور یہ صرف حماد بن سلمہ کی حدیث سے مشہور ہے، ہمیں اس کا علم صرف انہیں کی حدیث سے ہے۔
۲- اور کبھی کوئی امام حدیث ایک حدیث روایت کرتا ہے، جو صرف اسی امام کی حدیث سے معروف ہوتی ہے، اور حدیث کی شہرت اس سے روایت کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے ، جیسے عبداللہ بن دینار کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اکرمﷺ نے ولاء کی خرید وفروخت اور ہبہ سے منع کیا ہے'' ، اس حدیث کو ہم صرف عبداللہ بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور ان سے روایت عبیداللہ بن عمر، شعبہ ، سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ اور دوسرے کئی ائمہ نے کی ہے۔
یحیی بن سلیم نے اس حدیث کی روایت بسند عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر کی ہے، یحیی بن سلیم کو اس روایت میں وہم ہوگیا ہے، صحیح بسند عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر ہی ہے ۔
ایسے ہی اس حدیث کی روایت عبدالوہاب ثقفی اور عبداللہ بن نمیر نے بسند عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر کی ہے۔مؤمل نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے کی ہے، شعبہ کہتے ہیں: مجھے یہ پسند ہے کہ عبداللہ بن دینار مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے پاس اٹھ کر آؤں اور ان کا سر چوم لوں ۔
۳- ترمذی کہتے ہیں: بعض مرتبہ حدیث میں غرابت کسی الفاظ کی زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
زیادت ثقہ کے مقبول ہونے کی شروط
الفاظ کی زیادتی اس وقت صحیح ہوگی جب یہ حفظ کے اعتبارسے قابل اعتماد راوی کی روایت سے ہو جیسے مالک بن انس کی بسند نافع عن ابن عمر روایت کہ نبی اکرمﷺ نے رمضان میں زکاۃ فطر ہر مسلمان آزاد اور غلام مرد اور عورت سب پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض ہے۔
مالک نے اس حدیث میں ''من المسلمین'' کا لفظ زیادہ روایت کی ہے۔
ایوب سختیانی ، عبیداللہ بن عمر اور کئی ائمہ حدیث نے اس حدیث کو بسند نافع عن ابن عمر روایت کیاہے ، لیکن انہوں نے اس میں ''من المسلمین '' کا لفظ نہیں ذکر کیا۔
بعض رواۃ نے نافع سے مالک کی روایت کے ہم مثل روایت کی ،جو حفظ میں قابل اعتماد نہیں ہیں۔
کئی ائمہ حدیث نے مالک کی حدیث پر اعتماد کیا ہے جن میں شافعی اور احمد بن حنبل ہیں، یہ دونوں کہتے ہیں کہ آدمی کے پا س اگر غیر مسلم غلام ہوں تو ان کی طر ف سے زکاۃ فطر نہیں نکالے گا ۔اور اس پر مالک کی حدیث سے استدلال کیا ہے ۔
اور اگر حفظ میں قابل اعتماد راوی حدیث میں کوئی لفظ زیادہ روایت کرے تو اس کی زیادتی قبول کی جائے گی ۔
۴-اور کبھی حدیث بہت سارے طرق سے مروی ہوتی ہے لیکن غرابت مخصوص سند کے اعتبار سے ہوتی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے ابوکریب ، ابوہشام رفاعی ، ابوالسائب ، حسین بن الاسود نے روایت کی وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسامہ نے روایت کی ،ابواسامہ بسند برید بن عبداللہ بن ابی بردۃ عن جدہ ابی بردۃ روایت کرتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کہتے ہیں:'' مومن ایک آنت میں کھاتا ہے ، اور کافر سات آنت میں '' ۱؎ ۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، یہ متعدد طرق سے مرفوعا مروی ہے، غرابت صرف ابوموسی کی روایت سے ہے ۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں محمود بن غیلان سے پوچھا تو انہوں کہا: یہ صرف بروایت ابوکریب ،ابو اسامہ سے مروی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: یہ حدیث بروایت ابوکریب ابو اسامہ مروی ہے، یہ ہمیں صرف اسی طریق سے معلوم ہے، تو میں نے کہا: اس حدیث کو مجھ سے کئی آدمیوں نے بیان کیا وہ اس کی روایت ابواسامہ سے کرتے ہیں، تو آپ تعجب کرنے لگے ، اور عرض کیا کہ ابوکریب کے علاوہ میرے علم کے مطابق اس حدیث کی روایت کسی اور نے نہیں کی ہے۔
بخاری کہتے ہیں: ہمارے خیال میں ابوکریب نے اس حدیث کو ابواسامہ سے مذاکرہ کے دوران لیاہے۔
ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن ابی زیاد اور کئی دوسرے رواۃ نے ہم سے بیان کیا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا ، شبابہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے اور شعبہ نے بکیر بن عطاء سے اور بکیر عبدالرحمن بن یعمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے دباء (تونبی)اورمزفت (تارکول) والے برتن کے استعمال سے منع کیا ہے ۔
ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے ، ہمارے علم میں شبابہ کے علاوہ کسی اور نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے نہیں کی ہے، جب کہ بہت سارے طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے دباء (تونبی) اور مزفت (تارکو ل) کے برتن میں نبیذبنانے سے منع کیا ہے ، شبابہ کی حدیث میں غرابت یہ ہے کہ وہ اس حدیث کی شعبہ سے روایت میں منفرد ہیں۔
شعبہ اور سفیان ثوری نے اس اسناد سے بسند بکر بن عطاء عبدالرحمن یعمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''حج عرفہ ہے'' ۔ یہ حدیث اہل حدیث کے یہاں اسی سند سے معروف ہے ۱؎ ۔
ترمذی کہتے: ہیں ہم سے محمدبن بشار نے بیان کیا،محمدبن بشار سے معاذ بن ہشام نے ،معاذ نے اپنے والد ہشام سے ، اور ہشام نے یحیی بن ابی کثیر سے ، یحیی سے ابومزاحم نے ، ابومزاحم کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرمﷺ کا ارشادہے: ''جوجنازے کے پیچھے چلا اور اس کی صلاۃ جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا ، اور جو جنازہ کے پیچھے آخر تک چلا حتی کہ وہ دفنادیا گیا تو اسے دوقیراط ثواب ملے گا ، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول ! دوقیراط کیا ہے : فرمایا: ''دونوں میں کاچھوٹا احدپہاڑ کے برابر ہے''۔
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے دارمی نے بیان کیا ،اور دارمی سے مروان بن محمد نے اور مروان سے معاویہ بن سلام نے اور معاویہ سے یحیی بن ابی کثیرنے ،اور یحیی ابو مزاحم سے روایت کرتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ''جو جنازہ کے پیچھے چلاتو اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے ...''سابقہ حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
دارمی کہتے ہیں: ہم سے مروان نے بیان کیا وہ معاویہ بن سلام سے روایت کرتے ہیں کہ یحیی بن ابی کثیر نے کہا: اور ہم سے ابوسعید مولی المہری نے بیان کیا وہ حمزہ بن سفینہ سے روایت کرتے ہیں، اور حمزہ بن سفینہ سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا،اورسابقہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
ترمذی کہتے ہیں: میں نے دار می سے پوچھا: کیا کہ عراق میں آپ کی کس حدیث کو لوگو ں نے غریب قرار دیا تو جواب دیا : سائب کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا، پھرحدیث ذکر کی۔
ترمذی کہتے ہیں:اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا وہ اس حدیث کی روایت دارمی سے کررہے تھے۔
ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث کئی طرق سے بسند عائشہ رضی اللہ عنہا مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔
اس حدیث میں غرابت صرف سند کے اعتباسے ہے کہ اسے سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور عائشہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ۔
ترمذی کہتے ہیں:ہم سے ابوحفص عمر و بن علی الفلاس نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے یحیی بن سعید القطان نے بیان کیا ، یحیی القطان کہتے ہیں کہ ہم مغیر ہ بن ابی قرہ سدوسی نے بیان کیا، مغیرہ کہتے ہیں : میں نے انس مالک کو کہتے سناکہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اونٹنی باندھ لوں اور اللہ پر توکل کروں، یا اونٹنی چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: ''اونٹنی باندھ لو، پھر اللہ پر توکل کرو'' ۔
فلاس کہتے ہیں: یحیی بن سعیدالقطان کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ حدیث منکر ہے۔
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے ، ہمیں انس کی حدیث سے صر ف اسی طریق کا علم ہے، اس طرح کی حدیث عمرو بن امیہ الضمری سے مرفوعا مروی ہے۔
ترمذی کہتے ہیں:ہم نے یہ کتاب'' سنن الترمذی'' مختصرا فائدہ کی امید سے مرتب کی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سے نفع ہو، اس کو ہمارے لیے اپنی رحمت سے نفع بخش بنائے اور ا پنی ہی رحمت سے اس کوہمارے حق میں وبال جان نہ بنائے۔ آمین ۔
(۱) سنن الترمذی (۱۸۷) (وَلا سَفَرٍ کالفظ علل کے بعض نسخوں میں ہے، لیکن صحیحین اورترمذی میں اس کے بغیر ہے )
(۲) سنن الترمذی (۱۴۴۴)
(۳) دونوں حدیثیں صحیح ہیں، امام ترمذی کا مقصد دونو ں حدیثوں کی علت بیان کرنے سے یہ ہے کہ انہوں نے وہ دلائل ذکر کردیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں منسوخ ہیں۔
٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
الحمدللہ​
سنن الترمذی اردو ترجمہ کے ساتھ مکمل ہوئی۔ محمد آصف مغل بھائی کو اللہ تعالی جزائے خیر دے جنہوں نے اس کی یونیکوڈ فائلز مہیا کیں۔ آمین۔
کسی بھائی یا بہن کو اس میں کوئی غلطی نظر آئے تو برائے مہربانی یہاں مطلع کریں تاکہ تصحیح کی جاسکے۔
محدث فورم کے مالکان و انتظامیہ کو اللہ تعالی بہترین جزاء دے۔ آمین یا رب العالمین۔

نوٹ: احادیث نمبر2950 سے 3073 تک غلطی سے پوسٹ ہونا رہ گئی تھیں۔۔اس لیے انہیں بعد میں پوسٹ کیا گیا ہے۔تکلیف کے لیے معذرت قبول کریں۔جزاک اللہ خیرا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
کتاب: تفسیر قرآن کریم
باب مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ
باب : اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرنے والے کا بیان​

حدیث نمبر: 2950
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے بغیر علم کے (بغیر سمجھے بوجھے) قرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۵۵۴۳) (ضعیف) (سند میں عبدالاعلی بن عامر ثعلبی روایت میں وہم کا شکار ہو جایا کرتے تھے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (234) ، نقد التاج، // ضعيف الجامع الصغير (5737) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2950

حدیث نمبر: 2951
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری طرف سے کوئی بات اس وقت تک نہ بیان کرو جب تک کہ تم (اچھی طرح) جان نہ لو کیونکہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات میری طرف منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا وہ بھی اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (ضعیف) (تراجع الالبانی ۱۵۸)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (235) ، نقد التاج، الضعيفة (1783) ، صفة الصلاة // ضعيف الجامع الصغير وزيادته (114) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2951

حدیث نمبر: 2952
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَزْمٍ أَخُو حَزْمٍ الْقُطَعِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي سُهَيْلِ بْنِ أَبِي حَزْمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُمْ شَدَّدُوا فِي هَذَا فِي أَنْ يُفَسَّرَ الْقُرْآنُ بِغَيْرِ عِلْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الَّذِي رُوِيَ عَنْ مُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ فَسَّرُوا الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ الظَّنُّ بِهِمْ أَنَّهُمْ قَالُوا فِي الْقُرْآنِ أَوْ فَسَّرُوهُ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُمْ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا قُلْنَا أَنَّهُمْ لَمْ يَقُولُوا مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ.
جندب بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے (اور اپنی صواب دید) سے کی، اور بات صحیح و درست نکل بھی گئی تو بھی اس نے غلطی کی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- بعض محدثین نے سہیل بن ابی حزم کے بارے کلام کیا ہے، ۳- اسی طرح بعض اہل علم صحابہ اور دوسروں سے مروی ہے کہ انہوں نے سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ قرآن کی تفسیر بغیر علم کے کی جائے، لیکن مجاہد، قتادہ اور ان دونوں کے علاوہ بعض اہل علم کے بارے میں جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر (بغیر علم کے) کی ہے تو یہ کہنا درست نہیں، ایسے (ستودہ صفات) لوگوں کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے قرآن کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یا انہوں نے قرآن کی جو تفسیر کی ہے یہ بغیر علم کے یا اپنے جی سے کی ہے، ۴- ان ائمہ سے ایسی باتیں مروی ہیں جو ہمارے اس قول کو تقویت دیتی ہیں کہ انہوں نے کوئی بات بغیر علم کے اپنی جانب سے نہیں کہی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العلم ۵ (۳۶۵۲) (تحفة الأشراف : ۳۲۶۲) (ضعیف) (سند میں سہیل ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (235) ، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2952

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْبَصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَعْمَرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ إِلَّا وَقَدْ سَمِعْتُ فِيهَا شَيْئًا.
قتادہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کی تفسیر میں میں نے کوئی بات (یعنی کوئی روایت) نہ سنی ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۹۲۶۲) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (235) ، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2952

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ مُجَاهِدٌ:‏‏‏‏ لَوْ كُنْتُ قَرَأْتُ قِرَاءَةَ ابْنِ مَسْعُودٍ لَمْ أَحْتَجْ إِلَى أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ كَثِيرٍ مِنَ الْقُرْآنِ مِمَّا سَأَلْتُ.
مجاہد کہتے ہیں کہ اگر میں نے ابن مسعود کی قرأت پڑھی ہوتی تو مجھے قرآن سے متعلق ابن عباس رضی الله عنہما سے وہ بہت سی باتیں پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہوتی جو میں نے ان سے پوچھیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۹۲۶۳) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (235) ، نقد التاج //، ضعيف أبي داود (789 / 3652) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2952
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
باب وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
باب : سورۃ فاتحہ سے بعض آیات کی تفسیر​

حدیث نمبر: 2953
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ الْفَارِسِيِّ فَاقْرَأْهَا فِي نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ " قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، ‏‏‏‏‏‏يَقْرَأُ الْعَبْدُ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ حَمِدَنِي عَبْدِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 فَيَقُولُ اللَّهُ:‏‏‏‏ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مَجَّدَنِي عَبْدِي وَهَذَا لِي وَبَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سورة الفاتحة آية 5 وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‏‏‏‏ 6 ‏‏‏‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ‏‏‏‏ 7 ‏‏‏‏ سورة الفاتحة آية 6-7 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ،وَإِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، وہ نماز ناقص ہے، نامکمل ہے ۱؎ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے کہا: ابوہریرہ! میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا: فارسی لڑکے! اسے اپنے جی میں (دل ہی دل میں) پڑھ لیا کرو ۲؎ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۳؎ اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دی ہے۔ آدھی نماز میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو مانگے۔ میرا بندہ پڑھتا ہے: «الحمد لله رب العالمين» تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری حمد یعنی تعریف کی۔ بندہ کہتا ہے: «الرحمن الرحيم» تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا کی، بندہ«مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی اور عظمت اور بزرگی صرف میرے لیے ہے، اور میرے اور میرے بندے کے درمیان «إياك نعبد وإياك نستعين» سے لے کر سورۃ کی آخری آیات تک ہیں، اور بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے۔ بندہ کہتا ہے«اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» "ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی"
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی دوسرے رواۃ نے ایسی ہی حدیث علاء بن عبدالرحمٰن سے، علاء نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۱ (۳۹۵) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۱۳۶ (۸۲۱) ، سنن النسائی/الإفتتاح ۲۳ (۹۱۰) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۱ (۸۳۸) (تحفة الأشراف : ۱۴۰۸۰) ، وط/الصلاة ۹ (۳۹) ، و مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۵۰، ۲۸۵، ۴۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جائے گی ، کیونکہ اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔ ۲؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حدیث کے سب سے بڑے راوی اور جانکار صحابی ابوہریرہ رضی الله عنہ کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ خواہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو پڑھنی فرض ہے اور یہ کہ یہ مسئلہ منسوخ نہیں ہوا ہے۔ ۳؎ : فرمایا تو تھا " میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے ، اور جب اس تقسیم کی تفصیل بیان کی تو سورۃ فاتحہ کا نام لیا اور اس کی تقسیم بتائی ، پتا چلا کہ صلاۃ فاتحہ ہے ، اور فاتحہ صلاۃ ہے ، یعنی " فاتحہ " نماز کا ایسا رنگ ہے جو نماز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ، اس کا آدھا حصہ اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور آدھا حصہ دعا و مناجات پر مشتمل ہے جسے بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2953

وَرَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي السَّائِبِ، مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ابن جریج اور مالک بن انس علاء بن عبدالرحمٰن سے علاء نے ہشام بن زہر کے آزاد کردہ غلام ابوسائب سے اور ابوسائب نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے -
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2953
وَرَوَى ابْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ الْفَارِسِيُّ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي، وَأَبُو السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ وَكَانَا جَلِيسَيْنِ لِأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ "، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَبِي أُوَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْعَلَاءِ.
ابن ابی اویس نے اپنے باپ ابواویس سے اور ابواویس نے علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے، انہوں نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں اس نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) نہ پڑھی تو یہ نماز ناقص ہے ناتمام (و نامکمل)ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسماعیل بن ابی اویس کی حدیث میں اس سے زیادہ کچھ ذکر نہیں ہے، میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اور انہوں نے دلیل دی ابن ابی اویس کی حدیث سے جسے وہ اپنے باپ سے اور ان کے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۸۷۰) (حسن)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2953

حدیث نمبر: 2954​
أَخْبَرَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْقَوْمُ:‏‏‏‏ هَذَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُ بِغَيْرِ أَمَانٍ وَلَا كِتَابٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَيْهِ أَخَذَ بِيَدِي وَقَدْ كَانَ قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ:‏‏‏‏ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ يَدَهُ فِي يَدِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَامَ بِي فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ وَصَبِيٌّ مَعَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ إِنَّ لَنَا إِلَيْكَ حَاجَةً، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ مَعَهُمَا حَتَّى قَضَى حَاجَتَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي حَتَّى أَتَى بِي دَارَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَلْقَتْ لَهُ الْوَلِيدَةُ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا وَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ " مَا يُفِرُّكَ أَنْ تَقُولَ:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلَهٍ سِوَى اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ تَكَلَّمَ سَاعَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ وَتَعْلَمُ أَنَّ شَيْئًا أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِنَّ الْيَهُودَ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ وَإِنَّ النَّصَارَى ضُلَّالٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَإِنِّي جِئْتُ مُسْلِمًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ وَجْهَهُ تَبَسَّطَ فَرَحًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ أَمَرَ بِي فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ جَعَلْتُ أَغْشَاهُ آتِيهِ طَرَفَيِ النَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَبَيْنَمَا أَنَا عِنْدَهُ عَشِيَّةً إِذْ جَاءَهُ قَوْمٌ فِي ثِيَابٍ مِنَ الصُّوفِ مِنْ هَذِهِ النِّمَارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏وَقَامَ فَحَثَّ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ وَلَوْ صَاعٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ بِنِصْفِ صَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ بِقَبْضَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ بِبَعْضِ قَبْضَةٍ يَقِي أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ أَوِ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ بِتَمْرَةٍ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَاقِي اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَائِلٌ لَهُ مَا أَقُولُ لَكُمْ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ مَالًا وَوَلَدًا ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَيْنَ مَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِكَ ؟ فَيَنْظُرُ قُدَّامَهُ وَبَعْدَهُ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ لَا يَجِدُ شَيْئًا يَقِي بِهِ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ، ‏‏‏‏‏‏لِيَقِ أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنِّي لَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الْفَاقَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ نَاصِرُكُمْ وَمُعْطِيكُمْ حَتَّى تَسِيرَ الظَّعِينَةُ فِيمَا بَيْنَ يَثْرِبَ وَالْحِيرَةِ أَوْ أَكْثَرَ مَا تَخَافُ عَلَى مَطِيَّتِهَا السَّرَقَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَعَلْتُ أَقُولُ فِي نَفْسِي فَأَيْنَ لُصُوصُ طَيِّئٍ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، لوگوں نے کہا: یہ عدی بن حاتم ہیں، میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا، جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ "مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا" ۱؎۔ عدی کہتے ہیں: آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے، اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی، ان دونوں نے عرض کیا: ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے۔ آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی ضرورت پوری فرما دی۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے اپنے گھر آ گئے۔ ایک بچی نے آپ کے لیے ایک گدا بچھا دیا، جس پر آپ بیٹھ گئے اور میں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: "(بتاؤ) تمہیں «لا إلہ إلا اللہ» کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو؟" میں نے کہا: نہیں، آپ نے کچھ دیر باتیں کیں، پھر فرمایا: "اللہ اکبر کہنے سے بھاگ رہے ہو؟" کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "یہود پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں"، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، پھر آپ نے میرے لیے حکم فرمایا: تو میں ایک انصاری صحابی کے یہاں (بطور مہمان) ٹھہرا دیا گیا، پھر میں دن کے دونوں کناروں پر یعنی صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہونے لگا۔ ایک شام میں آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے (ان کے آنے کے بعد) آپ نے نماز پڑھی، پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا۔ آپ نے فرمایا: "(صدقہ) دو اگرچہ ایک صاع ہو، اگرچہ آدھا صاع ہو، اگرچہ ایک مٹھی ہو، اگرچہ ایک مٹھی سے بھی کم ہو جس کے ذریعہ سے تم میں کا کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی یا جہنم سے بچا سکتا ہے۔(تم صدقہ دو) چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ چاہے آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ کیونکہ تم میں سے ہر کوئی اللہ کے پاس پہنچنے والا ہے، اللہ اس سے وہی بات کہنے والا ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں، (وہ پوچھے گا) کیا ہم نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں نہیں بنائیں؟ وہ کہے گا: ہاں، کیوں نہیں! اللہ پھر کہے گا: کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد نہ دی؟، وہ کہے گا: کیوں نہیں تو نے ہمیں مال و اولاد سے نوازا۔ وہ پھر کہے گا وہ سب کچھ کہاں ہے جو تم نے اپنی ذات کی حفاظت کے لیے آگے بھیجا ہے؟ (یہ سن کر) وہ اپنے آگے، اپنے پیچھے، اپنے دائیں بائیں (چاروں طرف) دیکھے گا، لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچا سکے۔ اس لیے تم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچانے کی کوشش و تدبیر کرنی چاہیئے ایک کھجور ہی صدقہ کر کے کیوں نہ کرے۔ اور اگر یہ بھی نہ میسر ہو تو اچھی و بھلی بات کہہ کر ہی اپنے کو جہنم کی گرمی سے بچائے۔ مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ تم فقر و فاقہ کا شکار ہو جاؤ گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے، اور تمہیں دینے والا ہے (اتنا دینے والا ہے) کہ ایک ہودج سوار عورت (تنہا) یثرب (مدینہ) سے حیرہ تک یا اس سے بھی لمبا سفر کرے گی اور اسے اپنی سواری کے چوری ہو جانے تک کا ڈر نہ ہو گا ۲؎" عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں: (اس وقت) میں سوچنے لگا کہ قبیلہ بنی طی کے چور کہاں چلے جائیں گے ۳؎؟
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف سماک بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں، ۳- شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے، عباد بن حبیش سے، اور عباد بن حبیش نے عدی بن حاتم رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری حدیث روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (حسن) (الصحیحة ۳۲۶۳)
وضاحت: ۱؎ : وہ مجھ پر ایمان لے آئیں گے اور میری اطاعت قبول کر لیں گے۔ ۲؎ : یعنی اس وقت اتنی مالداری آ جائے گی اور اسلامی شریعت کے نفاذ کی برکت سے چاروں طرف امن و امان ہو گا کہ کسی کو چوری کرنے کی نہ ضرورت ہو گی اور نہ ہی ہمت۔ ۳؎ : عدی بن حاتم رضی الله عنہ قبیلہ بنی طے کے چوروں کا خیال انہیں اس لیے آیا کہ وہ خود بھی اسی قبیلہ کے تھے ، اور اسی تعلق کی بنا پر انہیں اپنے قبیلہ کے چوروں کا خیال آیا ، اس قبیلہ کے لوگ عراق اور حجاز کے درمیان آباد تھے ، ان کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا وہ ان پر حملہ کر کے اس کا سارا سامان لوٹ لیا کرتے تھے ، اسی لیے عدی رضی الله عنہ کو تعجب ہوا کہ میرے قبیلے والوں کی موجودگی میں ایک عورت تن تنہا امن و امان کے ساتھ کیسے سفر کرے گی ؟
قال الشيخ الألباني: (قول عدي بن حاتم: أتيت ... الحديث) حسن، (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) صحيح (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) تخريج الطحاوية (811)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2954
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " الْيَهُودُ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّصَارَى ضُلَّالٌ "، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہودی وہ ہیں جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئے وہ «مغضوب عليهم» ہیں اور نصاریٰ گمراہ لوگ ہیں ۱؎"، پھر (انہوں نے) پوری حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث کی باب سے مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: (قول عدي بن حاتم: أتيت ... الحديث) حسن، (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) صحيح (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) تخريج الطحاوية (811)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2954
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
باب : سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر​

حدیث نمبر: 2955
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ومحمد بن جعفر، وعبد الوهاب، قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے اور نرم مزاج و گرم مزاج، بد باطن و پاک طینت لوگ پیدا ہوئے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ السنة ۱۷ (۴۶۹۳) (تحفة الأشراف : ۹۰۲۵) ، و مسند احمد (۴/۴۰۰، ۴۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث سورۃ البقرہ کی آیت : «إني جاعل في الأرض خليفة» (البقرة : 30) کی تفسیر میں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (100) ، الصحيحة (1630)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2955

حدیث نمبر: 2956
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ:‏‏‏‏ " ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا سورة النساء آية 154، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلُوا مُتَزَحِّفِينَ عَلَى أَوْرَاكِهِمْ "، ‏‏‏‏‏‏أَيْ مُنْحَرِفِينَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «ادخلوا الباب سجدا» "اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا"(البقرہ: ۵۸) کے بارے میں فرمایا: "بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۲۸ (۳۴۰۳) ، وتفسیر البقرة ۵ (۴۴۷۹) ، وسورة الأعراف ۴ (۴۶۴۱) ، صحیح مسلم/التفسیر ح ۱ (۳۰۱۵) (تحفة الأشراف : ۱۴۶۹۷) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2956
وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ سورة البقرة آية 59، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اور اسی سند کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (آیت) «فبدل الذين ظلموا قولا غير الذي قيل لهم» "پھر ان ظالموں نے اس بات کو جوان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی"۔ (البقرہ: ۵۹) کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "بنی اسرائیل نے «حبة في شعرة» ۱؎ کہا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی بنی اسرائیل نے «حطۃ» (ہمارے گناہ معاف فرما دے) کہنے کے بجائے «حبۃ فی شعرۃ» (یعنی بالی میں گندم) کہا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2956

حدیث نمبر: 2957
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ السَّمَّانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرِهِ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ نَدْرِ أَيْنَ الْقِبْلَةُ فَصَلَّى كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا عَلَى حِيَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَصْبَحْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ:‏‏‏‏ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَشْعَثَ السَّمَّانِ أَبِي الرَّبِيعِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَشْعَثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک انتہائی اندھیری رات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، کوئی نہ جان سکا کہ قبلہ کدھر ہے۔ چنانچہ جو جس رخ پر تھا اس نے اسی رخ پر نماز پڑھ لی، جب صبح ہوئی تو ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو (اس وقت) یہ آیت «فأينما تولوا فثم وجه الله» "تم جدھر بھی منہ کروا ادھر اللہ کا منہ ہے" (البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۶۰ (۱۰۲۰) (تحفة الأشراف : ۵۰۳۵) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : لیکن بہرحال یہ اضطراری حالت کے لیے ہے ، عام حالات اور معلوم ہو جانے کی صورت میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نماز کی شرط ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1020)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2957

حدیث نمبر: 2958
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍيُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ تَطَوُّعًا أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ جَاءٍ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ عُمَرَ هَذِهِ الْآيَةَ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ سورة البقرة آية 115، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ فَفِي هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ آتے ہوئے نفل نماز اپنی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ اونٹنی جدھر بھی چاہتی منہ پھیرتی ۱؎، ابن عمر نے پھر یہ آیت «ولله المشرق والمغرب» "اللہ ہی کے لیے مغرب و مشرق ہیں" (البقرہ: ۱۱۵) پڑھی۔ ابن عمر کہتے ہیں: یہ آیت اسی تعلق سے نازل ہوئی ہے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- قتادہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: آیت: «ولله المشرق والمغرب فأينما تولوا فثم وجه الله»(البقرة: ۱۱۵) منسوخ ہے، اور اسے منسوخ کرنے والی آیت «فول وجهك شطر المسجد الحرام» "آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں" (البقرہ: ۱۴۴) ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۴ (۷۰۰) ، سنن النسائی/الصلاة ۲۳ (۴۹۲) ، تحفة الأشراف : ۷۰۵۷) ، و مسند احمد (۲/۲۰، ۴۱) ، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الوتر ۶ (۱۰۰۰) وتقصیر الصلاة ۹ (۱۰۹۸) ، ۱۲ (۱۱۰۵) ، و سنن ابی داود/ الصلاہ ۲۷۷ (۱۲۲۴) ، وسنن النسائی/الصلاة ۲۳ (۴۹۱) ، والقبلة ۱ (۷۴۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ مسافر اپنی سواری پر نفلی نماز پڑھ سکتا ہے ، اس سواری کا رخ کسی بھی سمت ہو ، شرط یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قبلہ رخ ہونا ضروری ہے اس کے بعد جہت قبلہ سے ہٹ جانے میں کوئی حرج نہیں۔ ۲؎ : عموماً ایسا ہوتا ہے کہ ایک آیت کے سبب نزول کے سلسلے میں کئی واقعات منقول ہوتے ہیں ، دراصل ان سب پروہ آیت صادق آتی ہے ، یا متعدد واقعات پر وہ آیت دوبارہ نازل ہوتی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2958

وَيُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ فِي هَذِهِ الْآيَةِ وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115 قَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ هِيَ مَنْسُوخَةٌ نَسَخَهَا قَوْلُهُ:‏‏‏‏ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 " أَيْ تِلْقَاءَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ.
بیان کیا اسے مجھ سے محمد بن عبدالملک بن ابی الشوارب نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا یزید بن زریع نے اور یزید بن زریع نے سعید کے واسطہ سے قتادہ سے روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۹۲۷۶) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2958​

وَيُرْوَى عَنْ مُجَاهِدٍ فِي هَذِهِ الْآيَةِ:‏‏‏‏ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ سورة البقرة آية 115، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَثَمَّ قِبْلَةُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بِذَلِكَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ، عَنْ مُجَاهِدٍ بِهَذَا.
مجاہد سے اس آیت: «فأينما تولوا فثم وجه الله» سے متعلق مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جدھر منہ کرو ادھر قبلہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صفة الصلاة
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2958

حدیث نمبر: 2959
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَوْ صَلَّيْنَا خَلْفَ الْمَقَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہم مقام (مقام ابراہیم) کے پیچھے نماز پڑھتے، تو آیت: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» "تم مقام ابراہیم کو جائے صلاۃ مقرر کر لو" (البقرہ: ۱۲۵) نازل ہوئی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۳۲ (۴۰۲) ، وتفسیر البقرة ۹ (۴۴۸۳) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۵۶ (۱۰۰۹) (تحفة الأشراف : ۱۰۴۰۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اور یہ حکم طواف کے بعد کی دو رکعتوں کے سلسلے میں ہے ، لیکن طواف میں اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو تو حرم میں جہاں بھی جگہ ملے یہ دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے۔ ۲؎ : مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر ابراہیم علیہ السلام نے کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2959

حدیث نمبر: 2960
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوِ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اگر آپ مقام ابراہیم کو مصلی (نماز پڑھنے کی جگہ) بنا لیتے (تو کیا ہی اچھی بات ہوتی) تو آیت «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2960

حدیث نمبر: 2961
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ:‏‏‏‏ " وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا سورة البقرة آية 143، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عَدْلًا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا» "ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے" (البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: " «وسط» سے مراد عدل ہے" (یعنی انصاف پسند)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء ۳ (۳۳۳۹) ، وتفسیر سورة البقرة ۱۳ (۴۴۸۷) ، والاعتصام ۱۹ (۷۳۴۹) ، سنن ابن ماجہ/الزہد ۳۴ (۴۲۸۴) (تحفة الأشراف : ۴۰۰۳) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2961

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يُدْعَى نُوحٌ فَيُقَالُ:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغْتَ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَيُدْعَى قَوْمُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ هَلْ بَلَّغَكُمْ ؟ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيُقَالُ:‏‏‏‏ مَنْ شُهُودُكَ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَيُؤْتَى بِكُمْ تَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے اس سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(قیامت کے دن) نوح علیہ السلام طلب کئے جائیں گے، پھر ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے (اپنی امت کو) پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: "جی ہاں"، پھر ان کی قوم بلائی جائے گی، اور اس سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تم لوگوں تک (میرا پیغام) پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا، اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اور آیا، (نوح علیہ السلام سے) کہا جائے گا: تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت، آپ نے فرمایا: "تو تم گواہی کے لیے پیش کئے جاؤ گے، تم گواہی دو گے کہ ہاں، انہوں نے پہنچایا ہے۔ یہی مفہوم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا» "ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں" (البقرہ: ۱۴۳) کا،«وسط» کا معنی بیچ اور درمیانی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2961

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی اسی طرح روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2961

حدیث نمبر: 2962
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ " صَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة البقرة آية 144 فَوَجِّهَ نَحْوَ الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُحِبُّ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى رَجُلٌ مَعَهُ الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ مَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ رُكُوعٌ فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هُوَ يَشْهَدُ أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّهُ قَدْ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْحَرَفُوا وَهُمْ رُكُوعٌ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاق.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے، تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام» "ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں" (البقرہ: ۱۴۴)، پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، اور آپ یہی چاہتے ہی تھے۔ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ نماز عصر پڑھی، پھر وہ کچھ انصاری لوگوں کے پاس سے گزرا وہ لوگ بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رکوع کی حالت میں تھے، اس شخص نے (اعلان کرتے ہوئے) کہا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ پھیر کر نماز پڑھنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ یہ سن کر لوگ حالت رکوع ہی میں (کعبہ کی طرف) پھر گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے سفیان ثوری نے بھی ابواسحاق سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۳۴۰ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح أصل صفة الصلاة
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2962

حدیث نمبر: 2963
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانُوا رُكُوعًا فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ "، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَارَةَ بْنِ أَوْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ لوگ فجر کی نماز ۱؎ میں حالت رکوع میں تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمرو بن عوف مزنی، ابن عمر، عمارہ بن اوس اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۳۴۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ مسجد قباء کا واقعہ ہے صحیح بخاری میں اس کی صراحت آئی ہے ، وہاں تحویل قبلہ کی خبر فجر میں ملی تھی ، اور پچھلی حدیث میں جو واقعہ ہے وہ بنو حارثہ کی مسجد کا واقعہ ہے۔ جسے مسجد قبلتین کہا جاتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح أصل صفة الصلاة، الإرواء (290)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2963

حدیث نمبر: 2964
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " لَمَّا وُجِّهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ بِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور وہ گزر گئے تو (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وما كان الله ليضيع إيمانكم» "اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان ضائع نہ کرے گا" (البقرہ: ۱۴۳) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ السنة ۱۶ (۴۶۸۰) (تحفة الأشراف : ۶۱۰۸) (صحیح) (سند میں سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن صحیح بخاری کی براء رضی الله عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت یہی حکم الٰہی تھا ، اس آیت میں «ایمان» سے مراد«صلاۃ» ہے نہ کہ بعض بزعم خود مفسر قرآن بننے والے نام نہاد مفسرین کا یہ کہنا کہ یہاں «ایمان» ہی مراد ہے ، یہ صحیح حدیث کا صریح انکار ہے ، «عفا اللہ عنہ»۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2964

حدیث نمبر: 2965
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " قُلْتُ لِعَائِشَةَ:‏‏‏‏ مَا أَرَى عَلَى أَحَدٍ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ بِئْسَمَا، ‏‏‏‏‏‏قُلْتَ:‏‏‏‏ يَا ابْنَ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 وَلَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ لَكَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْجَبَهُ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُونَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُونَ:‏‏‏‏ إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ آخَرُونَ:‏‏‏‏ مِنَ الْأَنْصَارِ إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأُرَاهَا قَدْ نَزَلَتْ فِي هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرے، اور میں خود اپنے لیے ان کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں پاتا۔ تو عائشہ نے کہا: اے میرے بھانجے! تم نے بری بات کہہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کیا اور مسلمانوں نے بھی کیا ہے۔ ہاں ایسا زمانہ جاہلیت میں تھا کہ جو لوگ مناۃ (بت) کے نام پر جو مشلل ۱؎ میں تھا احرام باندھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان طواف نہیں کرتے تھے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما»۲؎ نازل فرمائی۔ اگر بات اس طرح ہوتی جس طرح تم کہہ رہے ہو تو آیت اس طرح ہوتی «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» (یعنی اس پر صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے)۔ زہری کہتے ہیں: میں نے اس بات کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کیا تو انہیں یہ بات بڑی پسند آئی۔ کہا: یہ ہے علم و دانائی کی بات۔ اور (بھئی) میں نے تو کئی اہل علم کو کہتے سنا ہے کہ جو عرب صفا و مروہ کے درمیان طواف نہ کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ ہمارا طواف ان دونوں پتھروں کے درمیان جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔ اور کچھ دوسرے انصاری لوگوں نے کہا: ہمیں تو خانہ کعبہ کے طواف کا حکم ملا ہے نہ کہ صفا و مروہ کے درمیان طواف کا۔ (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے آیت: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» نازل فرمائی ۳؎۔ ابوبکر بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت انہیں لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۷۹ (۱۶۴۳) ، والعمرة ۱۰ (۱۷۹۰) ، وتفسیر البقرة ۲۱ (۴۴۹۵) ، وتفسیر النجم ۳ (۴۸۶۱) ، صحیح مسلم/الحج ۴۳ (۱۲۷۷) ، سنن ابی داود/ الحج ۵۶ (۱۹۰۱) ، سنن النسائی/الحج ۴۳ (۲۹۸۶) (تحفة الأشراف : ۱۶۴۳۸) ، وط/الحج ۴۲ (۱۲۹) ، و مسند احمد (۶/۱۴۴، ۱۶۲، ۲۲۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مشلل مدینہ سے کچھ دوری پر ایک مقام کا نام ہے جو قُدید کے پاس ہے۔ ۲؎ : (صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں) اس لیے بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کر لینے میں بھی کوئی گناہ نہیں (البقرہ : ۱۵۸)۔ ۳؎ : خلاصہ یہ ہے کہ آیت کے سیاق کا یہ انداز انصار کی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے جو اسلام لانے کے بعد حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو معیوب سمجھتے تھے کیونکہ صفا پر ایک بت " اِساف " نام کا تھا ، اور مروہ پر " نائلہ " نام کا ، اس پر اللہ نے فرمایا : ارے اب اسلام میں ان دونوں کو توڑ دیا گیا ہے ، اب ان کے درمیان سعی کرنے میں شرک کا شائبہ نہیں رہ گیا ، بلکہ اب تو یہ سعی فرض ہے ، ارشاد نبوی ہے «اسعوا فإن اللہ کتب علیکم السعی» " (احمد والحاکم بسند حسن) " (یعنی : سعی کرو ، کیونکہ اللہ نے اس کو تم پر فرض کر دیا ہے)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2986)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2965

حدیث نمبر: 2966
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، قَالَ:‏‏‏‏ " سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍعَنِ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَانَا مِنْ شَعَائِرِ الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْهُمَا فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 قَالَ:‏‏‏‏ هُمَا تَطَوُّعٌ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 158 " قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عاصم الأحول کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ دونوں جاہلیت کے شعائر میں سے تھے ۱؎، پھر جب اسلام آیا تو ہم ان دونوں کے درمیان طواف کرنے سے رک گئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت «إن الصفا والمروة من شعائر الله» (صفا و مروہ شعائر الٰہی میں سے ہیں) نازل فرمائی۔ تو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس کے لیے ان دونوں کے درمیان طواف (سعی) کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے درمیان طواف (سعی) نفل ہے اور جو کوئی بھلائی کام ثواب کی خاطر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا قدردان اور علم رکھنے والا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۸۰ (۱۶۴۸) ، وتفسیر البقرة ۲۱ (۴۴۹۶) ، صحیح مسلم/الحج ۴۳ (۱۲۷۸) (تحفة الأشراف : ۹۲۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی ان علامات اور نشانیوں میں سے ہیں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش و پوجا ہوتی تھی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2966

حدیث نمبر: 2967
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأَ " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ وَقَرَأَ:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے اور آپ بیت اللہ کا سات طواف کیا تو میں نے آپ کو یہ آیت پڑھتے سنا:«واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» "مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو"۔ آپ نے مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی، پھر حجر اسود کے پاس آ کر اسے چوما، پھر فرمایا: "ہم (سعی) وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ نے (اس کا ذکر) شروع کیا ہے۔ اور آپ نے پڑھا «إن الصفا والمروة من شعائر الله»۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۸۵۶ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2960)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2967

حدیث نمبر: 2968
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ:‏‏‏‏ " كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرَ لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ وَلَا يَوْمَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا حَضَرَ الْإِفْطَارُ أَتَى امْرَأَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عِنْدَكِ طَعَامٌ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجَاءَتْهُ امْرَأَتُهُ فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ خَيْبَةً لَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ غُشِيَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ سورة البقرة آية 187 فَفَرِحُوا بِهَا فَرَحًا شَدِيدًا وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ شروع میں کے صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی آدمی روزہ رکھتا اور افطار کا وقت ہوتا اور افطار کرنے سے پہلے سو جاتا، تو پھر وہ ساری رات اور سارا دن نہ کھاتا یہاں تک کہ شام ہو جاتی۔ قیس بن صرمہ انصاری کا واقعہ ہے کہ وہ روزے سے تھے جب افطار کا وقت آیا تو وہ اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ انہوں نے کہا: ہے تو نہیں، لیکن میں جاتی ہوں اور آپ کے لیے کہیں سے ڈھونڈھ لاتی ہوں، وہ دن بھر محنت مزدوری کرتے تھے اس لیے ان کی آنکھ لگ گئی۔ وہ لوٹ کر آئیں تو انہیں سوتا ہوا پایا، کہا: ہائے رے تمہاری محرومی و بدقسمتی۔ پھر جب دوپہر ہو گئی تو قیس پر غشی طاری ہو گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی گئی تو اس وقت یہ آیت: «أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم» "روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا" (البقرہ: ۱۸۷)، نازل ہوئی، لوگ اس آیت سے بہت خوش ہوئے۔ (اس کے بعد یہ حکم نازل ہو گیا) «وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر» تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ظاہر ہو جائے" (البقرہ: ۱۸۷)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۱۵ (۱۹۱۵) ، سنن ابی داود/ الصوم ۱ (۲۳۱۴) ، سنن النسائی/الصوم ۲۹ (۲۱۷۰) (تحفة الأشراف : ۱۸۰۱) ، و مسند احمد (۴/۲۹۵) ، وسنن الدارمی/الصیام ۷ (۱۷۳۵) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2004)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2968

حدیث نمبر: 2969
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيِّعٍ الْكِنْدِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ:‏‏‏‏ " وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ سورة غافر آية 60 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ "، ‏‏‏‏‏‏وَقَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم» "اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا، یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے اعراض کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے"(المؤمن: ۶۰)، کی تفسیر میں فرمایا کہ دعا ہی عبادت ہے۔ پھر آپ نے سورۃ مومن کی آیت «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم» سے «داخرين» ۱؎تک پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے منصور نے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۳۵۸ (۱۴۷۹) ، سنن ابن ماجہ/الدعاء ۱ (۳۸۲۸) (تحفة الأشراف : ۱۱۶۴۳) ، و مسند احمد (۴/۲۷۱، ۲۷۶) ، ویأتي برقم ۳۲۴۷) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3828)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2969

حدیث نمبر: 2970
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، أَخْبَرَنَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِنَّمَا ذَاكَ بَيَاضُ النَّهَارِ مِنْ سَوَادِ اللَّيْلِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود من الفجر» نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "اس سے مراد رات کی تاریکی سے دن کی سفیدی (روشنی) کا نمودار ہو جانا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصوم ۱۶ (۱۹۱۶) ، وتفسیر البقرة ۲۸ (۴۵۰۹) ، صحیح مسلم/الصوم ۸ (۱۰۹۰) ، سنن ابی داود/ الصوم ۱۷ (۲۳۴۹) (تحفة الأشراف : ۹۸۵۶) ، و مسند احمد (۴/۳۷۷) ، وسنن الدارمی/الصوم ۷ (۱۷۳۶) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2034)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2970

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ نے اس سند سے بھی سابقہ حدیث کے ہم مثل حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2034)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2970

حدیث نمبر: 2971
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187 قَالَ:‏‏‏‏ فَأَخَذْتُ عِقَالَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا أَبْيَضُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُ أَسْوَدُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا هُوَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: «حتى يتبين لكم الخيط الأبيض من الخيط الأسود» "یہاں تک کہ سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے نمایاں ہو جائے" تو میں نے دو ڈوریاں لیں۔ ایک سفید تھی دوسری کالی، میں انہیں کو دیکھ کر (سحری کے وقت ہونے یا نہ ہونے کا) فیصلہ کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کچھ باتیں کہیں (ابن ابی عمر کہتے ہیں: میرے استاد) سفیان انہیں یاد نہ رکھ سکے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے مراد رات اور دن ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۹۸۶۷) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2034)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2971
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حدیث نمبر: 2972
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ فَأَخْرَجُوا إِلَيْنَا صَفًّا عَظِيمًا مِنْ الرُّومِ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِثْلُهُمْ أَوْ أَكْثَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى أَهْلِ مِصْرَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى الْجَمَاعَةِ فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَحَمَلَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى صَفِّ الرُّومِ حَتَّى دَخَلَ فِيهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَصَاحَ النَّاسُ وَقَالُوا:‏‏‏‏ سُبْحَانَ اللَّهِ يُلْقِي بِيَدَيْهِ إِلَى التَّهْلُكَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ:‏‏‏‏ " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُمْ تَتَأَوَّلُونَ هَذِهِ الْآيَةَ هَذَا التَّأْوِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَمَّا أَعَزَّ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ سِرًّا دُونَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَمْوَالَنَا قَدْ ضَاعَتْ وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَزَّ الْإِسْلَامَ وَكَثُرَ نَاصِرُوهُ فَلَوْ أَقَمْنَا فِي أَمْوَالِنَا فَأَصْلَحْنَا مَا ضَاعَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْنَا مَا قُلْنَا:‏‏‏‏ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195 فَكَانَتِ التَّهْلُكَةُ الْإِقَامَةَ عَلَى الْأَمْوَالِ وَإِصْلَاحِهَا وَتَرْكَنَا الْغَزْوَ فَمَا زَالَ أَبُو أَيُّوبَ شَاخِصًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى دُفِنَ بِأَرْضِ الرُّومِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
اسلم ابوعمران تجیبی کہتے ہیں کہ ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر رضی الله عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔ (یہ سن کر) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں (یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہو گئی ہیں) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے (حمایتی) و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے، چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا: «وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» "اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو" (البقرہ: ۱۹۵)، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے (یہی وجہ تھی کہ)ابوایوب انصاری رضی الله عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجھاد ۲۳ (۲۵۱۲) (تحفة الأشراف : ۳۴۵۲) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (13)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2972

حدیث نمبر: 2973
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مُغِيرَةُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ:‏‏‏‏ " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَفِيَّ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِيَّايَ عَنَى بِهَا فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ حَصَرَنَا الْمُشْرِكُونَ وَكَانَتْ لِي وَفْرَةٌ فَجَعَلَتِ الْهَوَامُّ تَسَاقَطُ عَلَى وَجْهِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَأَنَّ هَوَامَّ رَأْسِكَ تُؤْذِيكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاحْلِقْ، ‏‏‏‏‏‏وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُجَاهِدٌ:‏‏‏‏ الصِّيَامُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالطَّعَامُ لِسِتَّةِ مَسَاكِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالنُّسُكُ شَاةٌ فَصَاعِدًا ".
مجاہد کہتے ہیں کہ کعب بن عجرہ رضی الله عنہ نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہ آیت: «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك» "البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈا لے) تو اس پر فدیہ ہے، خواہ روزے رکھ لے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے" (البقرہ: ۱۹۶)، میرے بارے میں اتری ہم حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے، مشرکوں نے ہمیں روک رکھا تھا، میرے بال کانوں کے لو کے برابر تھے، سر کے جوئیں چہرے پر گرنے لگیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہمارے پاس سے ہوا(ہمیں دیکھ کر) آپ نے فرمایا: "لگتا ہے تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟" میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "سر لو مونڈ ڈالو"، پھر یہ آیت(مذکورہ) اتری۔ مجاہد کہتے ہیں: روزے تین دن ہیں، کھانا چھ مسکینوں ۱؎ کو کھلانا ہے۔ اور قربانی (کم از کم) ایک بکری، اور اس سے زیادہ بھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۹۶۳ (تحفة الأشراف : ۱۱۱۱۴، و۱۱۱۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایک دوسری حدیث میں صراحت آ گئی ہے کہ تین صاع چھ مسکین کو کھلائے یعنی فی مسکین آدھا صاع (جو بھی کھانا وہاں کھایا جاتا ہو)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2973​

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
کعب بن عجرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سند سے بھی اسی طرح روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۹۵۳ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2973
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَصْبِهَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ نَحْوَ هَذَا أَيْضَا.
کعب بن عجرہ سے اس سند سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت آئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اس حدیث کو عبدالرحمٰن بن اصبہانی نے بھی عبداللہ بن معقل سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۹۵۳ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2973

حدیث نمبر: 2974
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى جَبْهَتِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ حَاجِبَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاحْلِقْ رَأْسَكَ وَانْسُكْ نَسِيكَةً، ‏‏‏‏‏‏أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَيُّوبُ:‏‏‏‏ لَا أَدْرِي بِأَيَّتِهِنَّ بَدَأَ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میں ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میری پیشانی یا بھوؤں پر بکھر رہی تھیں، آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "اپنا سر مونڈ ڈالو اور بدلہ میں قربانی کر دو، یا تین دن روزہ رکھ لو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو"۔ ایوب (راوی) کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں رہا کہ (میرے استاذ نے) کون سی چیز پہلے بتائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (2973)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2974

حدیث نمبر: 2975
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ الْحَجُّ عَرَفَاتٌ، ‏‏‏‏‏‏أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثٌ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ سورة البقرة آية 203، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَدْرَكَ عَرَفَةَ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ:‏‏‏‏ وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ 63 الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ.
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے، منیٰ (میں قیام) کے دن تین ہیں۔ مگر جو جلدی کر کے دو دنوں ہی میں واپس ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور جو تین دن پورے کر کے گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۲؎ اور جو طلوع فجر سے پہلے عرفہ پہنچ گیا، اس نے حج کو پا لیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ نے کہا: یہ ثوری کی سب سے عمدہ حدیث ہے، جسے انہوں نے روایت کی ہے، ۳- اسے شعبہ نے بھی بکیر بن عطاء سے روایت کیا ہے، ۴- اس حدیث کو ہم صرف بکیر بن عطاء کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۸۸۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس میں ارشاد باری تعالیٰ : «واذكروا الله في أيام معدودات فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه» کی طرف اشارہ ہے (البقرہ : ۲۰۳)۔ ۲؎ : یعنی : بارہ ذی الحجہ ہی کو رمی جمار کر کے واپس ہو جائے یا تین دن مکمل قیام کر کے تیرہ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی (کنکری مار) کر کے واپس ہو جائے حاجی کو اختیار ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى برقم (896)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2975​

حدیث نمبر: 2976
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَبْغَضُ الرِّجَالِ إِلَى اللَّهِ الْأَلَدُّ الْخَصِمُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ جھگڑالو ہو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ۱۵ (۲۴۵۷) ، وتفسیر سورة البقرة ۳۷ (۴۵۲۳) ، والأحکام ۳۴ (۷۱۸۸) ، صحیح مسلم/العلم ۲ (۲۶۶۸) ، سنن النسائی/القضاة ۳۴ (۵۴۲۵) (تحفة الأشراف : ۱۲۶۴۸) ، و مسند احمد (۶/۵۵، ۶۳، ۲۰۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ اشارہ ہے ارشاد باری : «ومن الناس من يعجبك قوله في الحياة الدنيا ويشهد الله على ما في قلبه وهو ألد الخصام» (البقرہ : ۲۰۴) کی طرف ، یعنی " لوگوں میں سے بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دنیاوی زندگی میں ان کی بات آپ کو اچھی لگے گی جب کہ اللہ تعالیٰ کو وہ جو اس کے دل میں ہے گواہ بنا رہا ہوتا ہے ، حقیقت میں وہ سخت جھگڑالو ہوتا ہے "۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2976

حدیث نمبر: 2977
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَتْ الْيَهُودُ إِذَا حَاضَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُمْ لَمْ يُؤَاكِلُوهَا وَلَمْ يُشَارِبُوهَا وَلَمْ يُجَامِعُوهَا فِي الْبُيُوتِ، ‏‏‏‏‏‏" فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى سورة البقرة آية 222 فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُؤَاكِلُوهُنَّ وَيُشَارِبُوهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَكُونُوا مَعَهُنَّ فِي الْبُيُوتِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ يَفْعَلُوا كُلَّ شَيْءٍ مَا خَلَا النِّكَاحَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ الْيَهُودُ:‏‏‏‏ مَا يُرِيدُ أَنْ يَدَعَ شَيْئًا مِنْ أَمْرِنَا إِلَّا خَالَفَنَا فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجَاءَ عَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ بِذَلِكَ وَقَالَا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَفَلَا نَنْكِحُهُنَّ فِي الْمَحِيضِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ غَضِبَ عَلَيْهِمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَا هَدِيَّةٌ مِنْ لَبَنٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آَثَارِهِمَا فَسَقَاهُمَا فَعَلِمْنَا أَنَّهُ لَمْ يَغْضَبْ عَلَيْهِمَا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کے یہاں جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تھی تو وہ اسے اپنے ساتھ نہ کھلاتے تھے نہ پلاتے تھے۔ اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ گھر میں رہنے دیتے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى» ۱؎ نازل فرمائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں اپنے ساتھ کھلائیں پلائیں اور ان کے ساتھ گھروں میں رہیں۔ اور ان کے ساتھ جماع کے سوا (بوس و کنار وغیرہ) سب کچھ کریں، یہودیوں نے کہا: یہ شخص ہمارا کوئی کام نہیں چھوڑتا جس میں ہماری مخالفت نہ کرتا ہو، عباد بن بشیر اور اسید بن حضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو یہودیوں کی یہ بات بتائی اور کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے حالت حیض میں جماع (بھی) نہ کریں؟ یہ سن کر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ آپ ان دونوں سے سخت ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ اٹھ کر (اپنے گھر چلے) ان کے نکلتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ کا ہدیہ آ گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انہیں بلانے کے لیے) ان کے پیچھے آدمی بھیجا (وہ آ گئے) تو آپ نے ان دونوں کو دودھ پلایا، جس سے انہوں نے جانا کہ آپ ان دونوں سے غصہ نہیں ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۳ (۳۰۲) ، سنن ابی داود/ الطھارة ۱۰۳ (۲۵۸) ، والنکاح ۴۷ (۲۱۶۵) ، سنن النسائی/الطھارة ۱۸۱ (۲۸۹) ، والحیض ۸ (۳۶۹) ، سنن ابن ماجہ/الطھارة ۱۲۵ (۶۴۴) (تحفة الأشراف : ۳۰۸) ، و مسند احمد (۳/۲۴۶) ، وسنن الدارمی/الطھارة ۱۰۶ (۱۰۹۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : " لوگ پوچھے ہیں تم سے کہ حیض کیا ہے ؟ کہہ دو کہ وہ ایک تکلیف ہے " (البقرہ : ۲۲۲)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح آداب الزفاف (44) ، صحيح أبي داود (250)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2977

حدیث نمبر: 2978
حدثنا ابن أبي عمر حدثنا سفيان عن ابن المنكدر سمع جابرا يقول كانت اليهود تقول من أتى امرأته في قبلها من دبرها كان الولد أحول فنزلت (نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم) قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح.
انس رضی الله عنہ سے اس سند سے بھی اسی کے ہم معنی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1925)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2978​

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ:‏‏‏‏ " كَانَتْ الْيَهُودُ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي قُبُلِهَا مِنْ دُبُرِهَا كَانَ الْوَلَدُ أَحْوَلَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہود کہتے تھے کہ جو اپنی بیوی سے پیچھے کی طرف سے آگے کی شرمگاہ میں (جماع کرے) تو بھینگا لڑکا پیدا ہو گا، اس پر آیت:«نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» ۱؎ نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر البقرة ۳۹ (۴۵۲۸) ، صحیح مسلم/النکاح ۱۹ (۱۴۳۵) ، سنن ابی داود/ النکاح ۴۶ (۲۱۶۳) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۲۹ (۱۹۲۵) (تحفة الأشراف : ۳۰۲۲) ، وسنن الدارمی/الطھارة ۱۱۳ (۱۱۷۲) ، والنکاح ۲۶۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : " تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں ، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ " (البقرہ : ۲۲۳) ، یعنی : چاہے آگے کی طرف سے آگے میں دخول یا پیچھے کی طرف سے آگے میں دخول کرو تمہارے لیے سب طریقے ہیں ، بس احتیاط یہ رہے کہ پیچھے میں دخول نہ کرو ، ورنہ یہ چیز لعنت الٰہی کا سبب ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1925)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2978

حدیث نمبر: 2979
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فِي قَوْلِهِ:‏‏‏‏ " نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 يَعْنِي صِمَامًا وَاحِدًا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ خُثَيْمٍ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنُ سَابِطٍ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَابِطٍ الْجُمَحِيُّ الْمَكِّيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَحَفْصَةُ هِيَ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُرْوَى " فِي سِمَامٍ وَاحِدٍ ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» کی تفسیر میں فرمایا: اس سے مراد ایک سوراخ (یعنی قبل اگلی شرمگاہ) میں دخول ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۸۲۵۲) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح آداب الزفاف (27 - 28)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2979

حدیث نمبر: 2980
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلَكْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " وَمَا أَهْلَكَكَ ؟ " قَالَ:‏‏‏‏ حَوَّلْتُ رَحْلِي اللَّيْلَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَأَنْزَلَ اللهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ سورة البقرة آية 223 أَقْبِلْ وَأَدْبِرْ وَاتَّقِ الدُّبُرَ وَالْحَيْضَةَ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَشْعَرِيُّ هُوَ يَعْقُوبُ الْقُمِّيُّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں تو ہلاک ہو گیا، آپ نے فرمایا: "کس چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا؟" کہا: رات میں نے سواری تبدیل کر دی (یعنی میں نے بیوی سے آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے صحبت کر لی) ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر) انہیں کوئی جواب نہ دیا، تو آپ پر یہ آیت: «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» نازل ہوئی، بیوی سے آگے سے صحبت کرو چاہے پیچھے کی طرف سے کرو، مگر دبر سے اور حیض سے بچو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۵۴۶۹) ، وانظر مسند احمد (۱/۲۹۷) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: حسن الآداب (28 - 29)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2980

حدیث نمبر: 2981
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، " أَنَّهُ زَوَّجَ أُخْتَهُ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَتْ عِنْدَهُ مَا كَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً لَمْ يُرَاجِعْهَا حَتَّى انْقَضَتِ الْعِدَّةُ، ‏‏‏‏‏‏فَهَوِيَهَا وَهَوِيَتْهُ ثُمَّ خَطَبَهَا مَعَ الْخُطَّابِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ يَا لُكَعُ أَكْرَمْتُكَ بِهَا وَزَوَّجْتُكَهَا فَطَلَّقْتَهَا وَاللَّهِ لَا تَرْجِعُ إِلَيْكَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَعَلِمَ اللَّهُ حَاجَتَهُ إِلَيْهَا وَحَاجَتَهَا إِلَى بَعْلِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ سورة البقرة آية 232، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَمِعَهَا مَعْقِلٌ قَالَ:‏‏‏‏ سَمْعًا لِرَبِّي وَطَاعَةً، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُزَوِّجُكَ وَأُكْرِمُكَ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الْحَسَنِ وَهُوَ عَنْ الْحَسَنِ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ النِّكَاحُ بِغَيْرِ وَلِيٍّ لِأَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ كَانَتْ ثَيِّبًا فَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ إِلَيْهَا دُونَ وَلِيِّهَا لَزَوَّجَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تَحْتَجْ إِلَى وَلِيِّهَا مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا خَاطَبَ اللَّهُ فِي هَذِهِ الْآيَةِ الْأَوْلِيَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فَلا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ سورة البقرة آية 232 فَفِي هَذِهِ الْآيَةِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْأَمْرَ إِلَى الْأَوْلِيَاءِ فِي التَّزْوِيجِ مَعَ رِضَاهُنَّ.
معقل بن یسار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم کے زمانے میں اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان شخص سے کر دی۔ وہ اس کے یہاں کچھ عرصے تک رہیں، پھر اس نے انہیں ایسی طلاق دی کہ اس کے بعد ان سے رجوع نہ کیا یہاں تک کہ عدت کی مدت ختم ہو گئی۔ پھر دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی خواہش و چاہت پیدا ہوئی اور (دوسرے) پیغام نکاح دینے والوں کے ساتھ اس نے بھی پیغام نکاح دیا۔ معقل رضی الله عنہ نے اس سے کہا: بیوقوف! میں نے تمہاری شادی اس سے کر کے تیری عزت افزائی کی تھی پھر بھی تو اسے طلاق دے بیٹھا، قسم اللہ کی! اب وہ تمہاری طرف زندگی بھر کبھی بھی لوٹ نہیں سکتی، اور اللہ معلوم تھا کہ اس شخص کو اس عورت کی حاجت و خواہش ہے اور اس عورت کو اس شخص کی حاجت و چاہت ہے۔ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت: «وإذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن» سے «وأنتم لا تعلمون» ۱؎ تک نازل فرمائی۔ جب معقل رضی الله عنہ نے یہ آیت سنی تو کہا: اب اپنے رب کی بات سنتا ہوں اور اطاعت کرتا ہوں (یہ کہہ کر) بلایا اور کہا: میں تمہاری شادی (دوبارہ) کیے دیتا ہوں اور تجھے عزت بخشتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ کئی سندوں سے حسن بصری سے مروی ہے۔ حسن بصری کے واسطہ سے یہ غریب ہے، ۳- اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ معقل بن یسار کی بہن ثیبہ تھیں۔ اگر ولی کی بجائے معاملہ ان کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ اپنی شادی آپ کر سکتی تھیں اور وہ اپنے ولی معقل بن یسار کی محتاج نہ ہوتیں۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو خطاب کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اپنے (سابق) شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔ تو اس آیت میں اس بات کا ثبوت ہے کہ نکاح کا معاملہ عورتوں کی رضا مندی کے ساتھ اولیاء کے ہاتھ میں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تفسیر سورة البقرة ۴۰ (۴۵۷۹) ، والنکاح ۶۰ (۵۱۵۹) ، والطلاق ۴۴ (۵۳۳۱) ، سنن ابی داود/ النکاح ۲۱ (۲۰۸۷) (تحفة الأشراف : ۱۱۴۶۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : " اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو انہیں ان کے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں ، یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو ، یہ حکم تمہارے لیے بہت پاکیزہ اور ستھرا ہے ، اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے " (البقرہ : ۲۳۲)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1843) ، صحيح أبي داود (1820)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2981

حدیث نمبر: 2982
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ ح وَحَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِالْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ " إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238 فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمْلَتْ عَلَيَّ:‏‏‏‏ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ رضی الله عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھ کر تیار کر دوں۔ اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تم آیت: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى» ۱؎ پر پہنچو تو مجھے خبر دو، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا اور میں نے انہیں خبر دی، تو انہوں نے مجھے بول کر لکھایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» ۱؎ "نمازوں پر مداومت کرو اور درمیانی نماز کا خاص خیال کرو، اور نماز عصر کا بھی خاص دھیان رکھو اور اللہ کے آگے خضوع و خشوع سے کھڑے ہوا کرو"۔ اور انہوں نے کہا کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں حفصہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۳۶ (۶۲۹) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۵ (۴۱۰) ، سنن النسائی/الصلاة ۱۴ (۴۷۳) (تحفة الأشراف : ۱۷۸۰۹) ، و مسند احمد (۶/۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : نمازوں کی حفاظت کرو ، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو (البقرہ : ۲۳۸) ۲؎ : یہ قراءت شاذ ہے اس لیے اس کا اعتبار نہیں ہو گا ، یا یہاں "واو" عطفِ مغایرت کے لیے نہیں ہے بلکہ عطفِ "تفسیری" ہے تب اگلی حدیث کے مطابق ہو جائے گا کہ «الصلاة الوسطى» سے مراد عصر کی نماز ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (437)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2982

حدیث نمبر: 2983
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الْعَصْرِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «صلاة الوسطى» (بیچ کی نماز) نماز عصر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۸۲ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (634)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2983
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حدیث نمبر: 2984
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدٍ بِنْ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا حَدَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:‏‏‏‏ " اللَّهُمَّ امْلَأْ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُهُ مُسْلِمٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے دن فرمایا: "اے اللہ! ان کفار و مشرکین کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے جیسے کہ انہوں نے ہمیں درمیانی نماز (نماز عصر) پڑھنے سے روکے رکھا، یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث علی رضی الله عنہ سے متعدد سندوں سے مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد ۹۸ (۲۹۳۱) ، والمغازي ۲۹ (۴۱۱۱) ، وتفسیر البقرة (۴۵۳۳) ، والدعوات ۵۸ (۶۳۹۶) ، صحیح مسلم/المساجد ۳۵ (۶۲۶) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۵ (۴۰۹) ، سنن النسائی/الصلاة ۱۴ (۴۷۴) ، سنن ابن ماجہ/الصلاة ۶ (۶۸۴) (تحفة الأشراف : ۱۰۲۳۲) ، و مسند احمد (۱/۸۱، ۸۲، ۱۱۳، ۱۲۲، ۱۲۶، ۱۳۵، ۱۳۷، ۱۴۴، ۱۴۶، ۱۵۰، ۱۵۲، ۱۵۳، ۱۵۴) ، وسنن الدارمی/الصلاة ۲۸ (۱۲۸۶) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (436)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2984

حدیث نمبر: 2985
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، وَأَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْمُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " صَلَاةُ الْوُسْطَى صَلَاةُ الْعَصْرِ "، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «صلاة الوسطى» سے مراد عصر کی نماز ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں زید بن ثابت، ابوہاشم بن عتبہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۸۱ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (634)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2985

حدیث نمبر: 2986
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:‏‏‏‏ " كُنَّا نَتَكَلَّمُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ:‏‏‏‏ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238 فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ ".
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نماز کے اندر باتیں کیا کرتے تھے، تو جب آیت «وقوموا لله قانتين»(البقرہ: ۲۳۸)، نازل ہوئی تو ہمیں چپ رہنے کا حکم ملا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۴۰۵ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (875)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2986​

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ فِيهِ " وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ.
اس سند سے بھی کہتے ہیں کہ اسماعیل بن ابی خالد نے اسی طرح بیان کیا اور انہوں نے اس میں «نهينا عن الكلام» کا اضافہ کیا (ہم بات چیت سے روک دیئے گئے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۴۰۵ (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (875)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2986

حدیث نمبر: 2987
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْالْبَرَاءِ، وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَزَلَتْ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ كُنَّا أَصْحَابَ نَخْلٍ فَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي مِنْ نَخْلِهِ عَلَى قَدْرِ كَثْرَتِهِ وَقِلَّتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الرَّجُلُ يَأْتِي بِالْقِنْوِ وَالْقِنْوَيْنِ فَيُعَلِّقُهُ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَهْلُ الصُّفَّة لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا جَاعَ أَتَى الْقِنْوَ فَضَرَبَهُ بِعَصَاهُ فَيَسْقُطُ مِنَ الْبُسْرِ وَالتَّمْرِ فَيَأْكُلُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ نَاسٌ مِمَّنْ لَا يَرْغَبُ فِي الْخَيْرِ يَأْتِي الرَّجُلُ بِالْقِنْوِ فِيهِ الشِّيصُ وَالْحَشَفُ وَبِالْقِنْوِ قَدِ انْكَسَرَ فَيُعَلِّقُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ تَعَالَى:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأَرْضِ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ سورة البقرة آية 267، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أُهْدِيَ إِلَيْهِ مِثْلُ مَا أَعْطَاهُ لَمْ يَأْخُذْهُ إِلَّا عَلَى إِغْمَاضٍ أَوْ حَيَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ يَأْتِي أَحَدُنَا بِصَالِحِ مَا عِنْدَهُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو مَالِكٍ هُوَ الْغِفَارِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ اسْمُهُ غَزْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ السُّدِّيِّ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آیت «ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون» ۱؎ ہم گروہ انصار کے بارے میں اتری ہے۔ ہم کھجور والے لوگ تھے، ہم میں سے کوئی آدمی اپنی کھجوروں کی کم و بیش پیداوار و مقدار کے اعتبار سے زیادہ یا تھوڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا۔ بعض لوگ کھجور کے ایک دو گچھے لے کر آتے، اور انہیں مسجد میں لٹکا دیتے، اہل صفہ کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں تھا تو ان میں سے جب کسی کو بھوک لگتی تو وہ گچھے کے پاس آتا اور اسے چھڑی سے جھاڑتا کچی اور پکی کھجوریں گرتیں پھر وہ انہیں کھا لیتا۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں خیر سے رغبت و دلچسپی نہ تھی، وہ ایسے گچھے لاتے جس میں خراب، ردی اور گلی سڑی کھجوریں ہوتیں اور بعض گچھے ٹوٹے بھی ہوتے، وہ انہیں لٹکا دیتے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه» ۲؎ نازل فرمائی۔ لوگوں نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کو ویسا ہی ہدیہ دیا جائے جیسا دین سے بیزار لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو وہ اسے نہیں لے گا اور لے گا بھی تو منہ موڑ کر، اس کے بعد ہم میں سے ہر شخص اپنے پاس موجود عمدہ چیز میں سے لانے لگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- سفیان ثوری نے سدی سے اس روایت میں سے کچھ روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۹۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : " ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرنا " (البقرہ : ۲۶۷)۔ ۲؎ : " اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصدہ نہ کرنا جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ، الاّ یہ کہ اگر آنکھیں بند کر لو تو " (البقرہ : ۲۶۷)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1822)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2987

حدیث نمبر: 2988
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِنَّ لِلشَّيْطَانِ لَمَّةً بِابْنِ آدَمَ وَلِلْمَلَكِ لَمَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَّا لَمَّةُ الشَّيْطَانِ فَإِيعَادٌ بِالشَّرِّ وَتَكْذِيبٌ بِالْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا لَمَّةُ الْمَلَكِ فَإِيعَادٌ بِالْخَيْرِ وَتَصْدِيقٌ بِالْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ وَجَدَ ذَلِكَ فَلْيَعْلَمْ أَنَّهُ مِنَ اللَّهِ فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ وَجَدَ الْأُخْرَى فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ سورة البقرة آية 268 "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ حَدِيثُ أَبِي الْأَحْوَصِ لَا نَعْلَمُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی پر شیطان کا اثر (وسوسہ) ہوتا ہے اور فرشتے کا بھی اثر (الہام) ہوتا ہے۔ شیطان کا اثر یہ ہے کہ انسان سے برائی کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کو جھٹلاتا ہے۔ اور فرشتے کا اثر یہ ہے کہ وہ خیر کا وعدہ کرتا ہے، اور حق کی تصدیق کرتا ہے۔ تو جو شخص یہ پائے ۱؎ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جو دوسرا اثر پائے یعنی شیطان کا تو شیطان سے اللہ کی پناہ حاصل کرے۔ پھر آپ نے آیت «الشيطان يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء» ۲؎ پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوالاحوص کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف ابوالاحوص کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۹۵۵۰) (صحیح) (صحیح موارد الظمآن ۳۸، و ۴۰)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کے دل میں نیکی بھلائی کے جذبات جاگیں تو سمجھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہیں۔ ۲؎ : " شیطان تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے " (البقرہ : ۲۶۸)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (74) // ضعيف الجامع الصغير (1963) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2988

حدیث نمبر: 2989
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يَأَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ سورة المؤمنون آية 51، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ سورة البقرة آية 172، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَهُ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حَازِمٍ هُوَ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "لوگو! اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی پسند کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو انہیں چیزوں کا حکم دیا ہے جن چیزوں کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے۔ اللہ نے فرمایا: «يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم» ۱؎ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے «يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم» ۲؎ (پھر) آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے۔ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے (میرے رب! اے میرے رب!) اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے۔ پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو گی" ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت ہی سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۲۰ (۱۰۱۵) (تحفة الأشراف : ۱۳۴۱۳) ، و مسند احمد (۲/۳۲۸) ، وسنن الدارمی/الرقاق ۹ (۲۷۵۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : " اے رسولو ! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو ، تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں " (المومنون : ۵۱)۔ ۲؎ : " اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ ، پیو " (البقرہ : ۱۷۲)۔ ۳؎ : معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت کے لیے جہاں بہت ساری شرطیں ہیں ، انہی میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ انسان کا ذریعہ معاش حلال ہو ، کھانے ، پینے ، پہننے اور اوڑھنے سے متعلق جو بھی چیزیں ہیں وہ سب حلال طریقے سے حاصل کی جاری ہوں جبھی دعا کے قبول ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن غاية المرام (17)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2989

حدیث نمبر: 2990
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَنْ، سَمِعَعَلِيًّا، يَقُولُ:‏‏‏‏ " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ سورة البقرة آية 284، ‏‏‏‏‏‏أَحْزَنَتْنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْنَا:‏‏‏‏ يُحَدِّثُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ فَيُحَاسَبُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَدْرِي مَا يُغْفَرُ مِنْهُ وَلَا مَا لَا يُغْفَرُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ سورة البقرة آية 286 ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله فيغفر لمن يشاء ويعذب من يشاء» ۱؎نازل ہوئی۔ تو اس نے ہم سب کو فکرو غم میں مبتلا کر دیا۔ ہم نے کہا: ہم میں سے کوئی اپنے دل میں باتیں کرے پھر اس کا حساب لیا جائے۔ ہمیں معلوم نہیں اس میں سے کیا بخشا جائے گا اور کیا نہیں بخشا جائے؟، اس پر یہ آیت نازل ہوئی «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت» ۲؎اور اس آیت نے اس سے پہلی والی آیت کو منسوخ کر دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۳۳۶) (ضعیف الإسناد) (سدی اور علی رضی الله عنہ کے درمیان کا راوی مبہم ہے)
وضاحت: ۱؎ : " تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا ، پھر جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے " (البقرہ : ۲۸۴)۔ ۲؎ : " اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ، جو نیکی کرے وہ اس کے لیے اور جو برائی کرے وہ بھی اس پر ہے " (البقرہ : ۲۸۶)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2990​

حدیث نمبر: 2991
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أُمَيَّةَ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ سورة البقرة آية 284 وَعَنْ قَوْلِهِ:‏‏‏‏ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ " مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذِهِ مُعَاتَبَةُ اللَّهِ الْعَبْدَ فِيمَا يُصِيبُهُ مِنَ الْحُمَّى وَالنَّكْبَةِ حَتَّى الْبِضَاعَةُ يَضَعُهَا فِي كُمِّ قَمِيصِهِ فَيَفْقِدُهَا فَيَفْزَعُ لَهَا حَتَّى إِنَّ الْعَبْدَ لَيَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِهِ كَمَا يَخْرُجُ التِّبْرُ الْأَحْمَرُ مِنَ الْكِيرِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
امیہ کہتی ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله» ۱؎ اور(دوسرے) قول «من يعمل سوءا يجز به» ۲؎ کا مطلب پوچھا، تو انہوں نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا مطلب پوچھا ہے تب سے (تمہارے سوا) کسی نے مجھ سے ان کا مطلب نہیں پوچھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "یہ اللہ کی جانب سے بخار اور مصیبت (وغیرہ) میں مبتلا کر کے بندے کی سرزنش ہے۔ یہاں تک کہ وہ سامان جو وہ اپنی قمیص کی آستین میں رکھ لیتا ہے پھر گم کر دیتا ہے پھر وہ گھبراتا اور اس کے لیے پریشان ہوتا ہے، یہاں تک کہ بندہ اپنے گناہوں سے ویسے ہی پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ سرخ سونا بھٹی سے (صاف ستھرا) نکلتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۸۲۳) (ضعیف الإسناد) (’’ علی بن زید بن جدعان ‘‘ ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : البقرہ : ۲۸۶۔ ۲؎ : " جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا " (النساء : ۱۲۳)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6086) ، المشكاة (1557) //
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2991​

حدیث نمبر: 2992
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ آدَمَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ سورة البقرة آية 284، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلَ قُلُوبَهُمْ مِنْهُ شَيْءٌ لَمْ يَدْخُلْ مِنْ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ " قُولُوا:‏‏‏‏ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا فَأَلْقَى اللَّهُ الْإِيمَانَ فِي قُلُوبِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:‏‏‏‏ آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ سورة البقرة آية 285 لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا سورة البقرة آية 286 قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا سورة البقرة آية 286 قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ فَعَلْتُ رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا سورة البقرة آية 286، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ فَعَلْتُ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَآدَمُ بْنُ سُلَيْمَانَ يُقَالُ هُوَ وَالِدُ يَحْيَى بْنِ آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله» نازل ہوئی تو لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف و خطر پیدا ہوا جو اور کسی چیز سے پیدا نہ ہوا تھا۔ لوگوں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تو آپ نے فرمایا: "(پہلے تو) تم «سمعنا وأطعنا»کہو یعنی ہم نے سنا اور ہم نے بے چون و چرا بات مان لی، (چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کہا) تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا۔ اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں «آمن الرسول بما أنزل إليه من ربه والمؤمنون» سے لے کر آخری آیت «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا» ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "میں نے ایسا کر دیا (تمہاری دعا قبول کر لی)" «ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا» "ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا"، اللہ نے فرمایا:"میں نے تمہارا کہا کر دیا"، «ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا واغفر لنا وارحمنا» "اے اللہ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی طاقت ہم میں نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما"، اللہ نے فرمایا: "میں نے ایسا کر دیا (یعنی تمہاری دعا قبول کر لی)"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابن عباس رضی الله عنہما سے دوسری سند سے بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ۵۷ (۱۲۵) (تحفة الأشراف : ۵۴۳۴) (صحیح)
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 2992
 
Top