• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55-بَاب مَنَاقِبِ الْبَرَائِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۵۵-باب: براء بن مالک رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3854- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "كَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ لا يُؤْبَهُ لَهُ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لأَبَرَّهُ مِنْهُمْ الْبَرَائُ بْنُ مَالِكٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۵، و۱۱۰۱)، وحم (۳/۱۴۵) (صحیح)
۳۸۵۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' کتنے پراگندہ بال غبار آلود داورپرانے کپڑے والے ہیں کہ جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ایسے ہیں کہ اگر اللہ کے بھروسہ پر قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو سچی کردے ۱؎ ، انہیں میں سے براء بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ان کے اللہ تعالیٰ کے نہایت محبوب ہونے کی دلیل ہے ، اوریہ محبوبیت یونہی حاصل ہوجاتی ، بلکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی اوراحکامات کی صدق دل اورفدائیت کے ساتھ بجاآوری کرتے ہیں، اس لیے ان کو یہ مقام حاصل ہوجاتاہے ، اوران میں براء بن مالک بھی تھے، رضی اللہ عنہ ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56-بَاب مَنَاقِبِ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
۵۶-باب: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مناقب کابیان​


3855- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "يَاأَبَامُوسَى! لَقَدْ أُعْطِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ.
* تخريج: خ/فضائل القرآن ۳۱ (۵۰۴۸)، م/المسافرین ۳۴ (۷۹۳) (تحفۃ الأشراف: ۹۰۶۸) (صحیح)
۳۸۵۵- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' ابوموسیٰ تمہیں آل داود کی خوش الحانیوں(اچھی آوازوں) میں سے ایک خوش الحانی دی گئی ہے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- اس باب میں بریدہ ، ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : ایک باراللہ کے نبیﷺ اورعائشہ رضی اللہ عنہا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس سے گزرے ابوموسیٰ نہایت خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کررہے تھے ، صبح کو اسی واقعہ پر آپ نے ان کی بابت یہ فرمایا،مزمار(بانسری)گرچہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعہ اچھی آواز نکالی جاتی ہے،مگریہاں صرف اچھی آواز مرادہے ، داود علیہ السلام اپنی کتاب زبورکی تلاوت اس خوش الحانی سے فرماتے کہ اڑتی ہوئی چڑیاں فضا میں رک کر آپ کی تلاوت سننے لگتی تھیں۔


3856- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُوحَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ فَيَمُرُّ بِنَا فَقَالَ: "اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشَ الآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو حَازِمٍ اسْمُهُ سَلَمَةُ بْنُ دِينَارٍ الأَعْرَجُ الزَّاهِدُ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۹ (۳۷۹۷)، والمغازي ۲۹ (۴۰۹۸)، والرقاق ۱ (۶۴۱۴) (تحفۃ الأشراف: ۴۷۳۷) (صحیح)
۳۸۵۶- سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ خندق کھود رہے تھے اور ہم مٹی ڈھورہے تھے، آپ نے ہمیں دیکھا تو فرمایا:'' اے اللہ زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے، تو انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : صاحب تحفہ الأحوذی نے اس حدیث پر ''باب مناقب سہل بن سعد ''کاعنوان لگایاہے، اوریہی مناسب ہے ، کہ اس حدیث کا تعلق ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کسی طرح نہیں ہے ، اور اس میں تمام مہاجرین وانصار صحابہ کی منقبت کا بیان ہے ، جوخاص طورپر خندق کھودنے میں شریک تھے ، رضی اللہ عنہم اجمعین۔


3857- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشَ الآخِرَهْ فَأَكْرِمْ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۹ (۳۷۹۵)، والرقاق ۱ (۶۴۱۳)، م/الجھاد ۴۴ (۱۸۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۴۶) (صحیح)
۳۸۵۷- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے تھے:


اللَّهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشَ الآخِرَهْ
فَأَكْرِمْ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ


(بار الٰہا زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار ومہاجرین کی تکریم فرما) ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اگلی حدیث کے استشہادمیں لائے ہیں، یہی اس باب سے اس کی مناسبت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
57-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ مَنْ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ وَصَحِبَهُ
۵۷-باب: رسول اکرمﷺکو دیکھنے اور آپ کے ساتھ رہنے والوں کے مناقب وفضائل کابیان​


3858- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الأَنْصَارِيُّ قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي".
قَالَ طَلْحَةُ: فَقَدْ رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، و قَالَ مُوسَى: وَقَدْ رَأَيْتُ طَلْحَةَ، قَالَ يَحْيَى: وَقَالَ لِيّ مُوسَى: وَقَدْ رَأَيْتُنِي وَنَحْنُ نَرْجُو اللَّهَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ الأَنْصَارِيِّ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ عَنْ مُوسَى هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۲۸۸) (ضعیف)
(سند میں موسیٰ بن ابراہیم انصاری صدوق ہیں، لیکن احادیت کی روایت میں غلطی کرتے ہیں، گرچہ حدیث کی تحسین ترمذی نے کی ہے،اور ضیاء مقدسی نے اسے احادیث مختارہ میں ذکرکیا ہے ، اور البانی نے بھی مشکاۃ کی پہلی تحقیق میں اس کی تحسین کی تھی ، لیکن ضعیف الترمذی میں اسے ضعیف قرار دیا، حدیث میں نکارہ بھی ہے کہ اس میں سارے صحابہ اور صحابہ کے تابعین سب کے بارے میں عذاب جہنم کی نفی موجود ہے ،جب کہ اس عموم پر کوئی اور دلیل نہیں ہے ، اس لیے یہ حدیث منکربھی قرار پائے گی ، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی ۳۵۹)
۳۸۵۸- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''جہنم کی آگ کسی ایسے مسلمان کو نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا ،یا کسی ایسے شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہے''، طلحہ(راوی حدیث) نے کہا: تو میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کودیکھا ہے اور موسیٰ نے کہا: میں نے طلحہ کودیکھا ہے اور یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ (راوی حدیث) نے کہا: اور تم نے مجھے دیکھا ہے اور ہم سب اللہ سے نجات کے امیدوار ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف موسیٰ بن ابراہیم انصاری کی روایت سے جانتے ہیں،۲- اس حدیث کو علی بن مدینی نے اور محدثین میں سے کئی اورلوگوں نے بھی موسیٰ سے روایت کی ہے۔


3859- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ -هُوَ السَّلْمَانِيُّ- عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي قَوْمٌ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ تَسْبِقُ أَيْمَانُهُمْ شَهَادَاتِهِمْ أَوْ شَهَادَاتُهُمْ أَيْمَانَهُمْ". وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَبُرَيْدَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الشھادات ۹ (۲۶۵۲)، وفضائل الصحابۃ ۱ (۳۶۵۱)، والأیمان والنذور ۱۰ (۶۴۲۹)، والرقاق ۷ (۶۶۵۸)، م/فضائل الصحابۃ ۵۲ (۲۵۳۳)، ق/الأحکام ۲۷ (۲۳۶۲) (تحفۃ الأشراف: ۹۴۰۳)، وحم (۱/۳۷۸، ۴۱۷، ۴۳۴) (صحیح)
۳۸۵۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' لوگوں میں سب سے بہتر میرازمانہ ہے ۱؎ ، پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد ہیں ۲؎ ، پھر ان کا جو ان کے بعد ہیں ۳؎ ، پھر ان کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جو گواہیوں سے پہلے قسم کھائے گی یا قسموں سے پہلے گواہیاں دے گی'' ۴؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، عمران بن حصین اور بریدہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کازمانہ جونبیﷺکے زمانہ میں تھے، ان کا عہد ایک قرن ہے ،جوایک ہجری کے ذرا سابعدتک ممتدہے ، آخری صحابی (واثلہ بن اسقع )کا اورانس رضی اللہ عنہ کا انتقال ۱۱۰ھ میں ہواتھا۔
وضاحت ۲؎ : یعنی تابعین رحمہم اللہ ۔
وضاحت ۳؎ : یعنی: اتباع تابعین رحمہم اللہ ان کا زمانہ سسنہ ۲۲۰ھ تک ممتد ہے (بعض علماء نے ان تین قرون سے :عہدصدیقی ، عہدفاروقی اورعہد عثمانی مرادلیاہے ،کہ عہدعثمانی کے بعدفتنہ وفسادکا دور دورہ ہوگیاتھا، واللہ اعلم)۔
وضاحت ۴؎ : یعنی گواہی دینے اور قسم کھانے کے بڑے حریص ہوں گے، ہروقت اس کے لیے تیار رہیں گے ذرا بھی احتیاط سے کام نہیں لیں گے، یہ باتیں اتباع تابعین کے بعد عام طورسے مسلمانوں میں پیداہوگئی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
58-بَاب فِي فَضْلِ مَنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ
۵۸-باب: بیعت رضوان والوں کی فضیلت کابیان​


3860- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لاَ يَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ مِمَّنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/السنۃ ۹ (۴۸۵۳) (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۸)، وحم (۳/۳۵۰) (صحیح)
۳۸۶۰- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جن لوگوں نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جس درخت کے نیچے بیعت ہوئی تھی یہ ایک کیکر کا درخت تھا اور اس بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے، یہ ۶ ھ؁ میں مقام حدیبیہ میں ہوئی ، اس میں تقریبا تیرہ سو صحابہ شامل تھے۔ایسے لوگوں کے منہ خاک آلوداوران کی عاقبت بربادہوجوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بکواس کرتے اور اُن پر تہمتیں دھرتے ہیں ، ہماری اس بددُعاکی تائیدکے لیے اگلی احادیث پڑھ لیجئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
59-بَاب فِيمَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ
۵۹-باب: صحابہ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں کابیان​


3861- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ أَبَا صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لاَتَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَنَصِيفَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ نَصِيفَهُ يَعْنِي نِصْفَ مُدِّهِ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۷۳)، م/فضائل الصحابۃ ۵۴ (۲۵۴۱)، د/السنۃ ۱۱ (۴۶۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۴۰۰۱)، وحم (۳/۱۱) (صحیح)
3861/م- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، وَكَانَ حَافِظًا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِىِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۸۶۱- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرے صحابہ ۱؎ کو برا بھلانہ کہو ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،ا گر تم میں سے کوئی احدپہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد بلکہ آدھے مد کے (اجرکے) برابر بھی نہیں پہنچ سکے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- آپ کے قول '' نصیف'' سے مراد نصف (آدھا) مد ہے۔
۳۸۶۱/م- ہم سے حسن بن خلال نے بیان کیا اور وہ حافظ تھے، وہ کہتے ہیں: ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا اور ابومعاویہ نے اعمش سے ، اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوسعید خدری کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ۔
وضاحت ۱؎ : ان اصحاب سے مراد عام صحابہ نہیں بلکہ سابقوں اولون مرادہیں، اس لیے کہ ایک تو آپ کے اس فرمان کاسبب خالدبن ولید اور عبدالرحمن بن عوف( رضی اللہ عنہما )کے درمیان ایک جھگڑا تھاجس میں خالدنے عبدالرحمن بن عوف کوبرابھلاکہدیاتھا (اور خالد بھی صحابی ہیں)دوسرے آپ کا یہ فرمان ہے ''اگرتم میں سے کوئی...''اورظاہربات ہے کہ اس ''تم''سے صحابہ ہی مخاطب ہیں، ویسے جب یہ جائز نہیں ہواکہ متاخرصحابہ مقدم صحابہ کوبرابھلا کہیں، تو یہ بدرجہ اولیٰ ناجائزہوا کہ ایک غیرصحابی صحابہ کرام کو برا بھلا کہے۔


3862- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۶۶۲)، وحم (۴/۸۷) (ضعیف)
(سند میں عبد الرحمن بن زیاد مجہول راوی ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم: ۲۹۰۱)
۳۸۶۲- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا،جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذاء پہنچا ئی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


3863- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ السَّمَّانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ خِدَاشٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مَنْ بَايَعَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ إِلاَّ صَاحِبَ الْجَمَلِ الأَحْمَرِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۰۲) (ضعیف)
(سندمیں خداش بن عیاش لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)
۳۸۶۳- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی (یعنی بیعت رضوان میں شریک رہے) وہ ضرور جنت میں داخل ہوں گے، سوائے سرخ اونٹ والے کے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : کہاجاتاہے کہ سرخ اونٹ والے سے جدّ بن قیس منافق مراد ہے اس کا اونٹ کھوگیا تھا اس سے کہاگیا آکر بیعت کرلو تو اس نے کہا: میرا اونٹ مجھے مل جائے ، یہ مجھے بیعت کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔(مگریہ حدیث ضعیف ہے اس لیے حتمی طورپریہ کہناصحیح نہیں ہے)


3864- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عَبْدًا لِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَشْكُو حَاطِبًا فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَيَدْخُلَنَّ حَاطِبٌ النَّارَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "كَذَبْتَ لاَ يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/فضائل الصحابۃ ۳۶ (۲۴۹۵/۱۶۲) (تحفۃ الأشراف: ۲۹۱۰) (صحیح)
۳۸۶۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا ایک غلام نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر حاطب کی شکایت کرنے لگا، اس نے کہا: اللہ کے رسول ! حاطب ضرور جہنم میں جائیں گے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم نے غلط کہا وہ اس میں داخل نہیں ہوں گے، کیوں کہ وہ بدر اور حدیبیہ دونوں میں موجود رہے ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اوراللہ نے بدریوں کی عام مغفرت کااعلان کردیاہے۔


3865- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ نَاجِيَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَبِي طَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي يَمُوتُ بِأَرْضٍ إِلاَّ بُعِثَ قَائِدًا وَنُورًا لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَبِي طَيْبَةَ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً وَهُوَ أَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۸۳) (ضعیف)
(سند میں عبد اللہ بن مسلم ابوطیبہ روایت میں وہم کے شکار ہوجایاکرتے تھے)
۳۸۶۵- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرے صحابہ میں سے جو بھی کسی سرزمین پر مرے گا تو وہ قیامت کے دن اس سرزمین والوں کا پیشوا اور ان کے لیے نور بنا کر اٹھایا جائے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- یہ حدیث عبداللہ بن مسلم ابوطیبہ سے مروی ہے اور انہوں نے اسے بریدہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
60-بَابٌ
۶۰-باب: سابقہ باب سے متعلق ایک اورباب​


3866- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالنَّضْرُ مَجْهُولٌ، وَسَيْفٌ مَجْهُولٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۷۱۳) (ضعیف جدا)
(سندمیں نضراور سیف دونوں مجہول ہیں)
۳۸۶۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب تم ایسے لوگوں کودیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو : اللہ کی لعنت ہوتمہارے شر پر''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے ، ہم اسے عبیداللہ بن عمر(عمری) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور نضر اور سیف دونوں مجہول راوی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
61-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ ﷺ
۶۱-باب: فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان​


3867- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: "إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي فِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَلاَ آذَنُ ثُمَّ لاَ آذَنُ، ثُمَّ لاَ آذَنُ إِلاَّ أَنْ يُرِيدَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي، وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّهَا بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: خ/الخمس ۵ (۳۱۱۰)، وفضائل الصحابۃ ۲۹ (۳۷۶۷)، والنکاح ۱۰۹ (۵۲۳۰)، والطلاق ۱۳ (۵۲۷۸)، م/فضائل الصحابۃ ۱۴ (۲۳۸۴)، د/النکاح ۱۳ (۲۰۶۹-۲۰۷۱)، ق/النکاح ۵۶ (۱۹۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۶۷)، وحم (۴/۳۲۳) (صحیح)
۳۸۶۷- مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا اور آپ منبر پر تھے : ''ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کانکاح علی سے کردیں، تو میں اس کی اجازت نہیں دیتا، نہیں دیتا، نہیں دیتا، مگر ابن ابی طالب چاہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں، اور ان کی بیٹی سے شادی کرلیں، اس لیے کہ میری بیٹی میرے جسم کا ٹکڑا ہے، مجھے وہ چیز بری لگتی ہے جو اسے بری لگے اور مجھے ایذا دیتی ہے وہ چیز جو اسے ایذا دے'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے عمرو بن دینار نے اسی طرح ابن ابی ملیکہ سے اورابن ابی ملیکہ نے مسور بن مخرمہ سے روایت کیا ہے۔


3868- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ جَعْفَرٍ الأَحْمَرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ أَحَبَّ النِّسَائِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَاطِمَةُ، وَمِنْ الرِّجَالِ عَلِيٌّ قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ يَعْنِي مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۸۱) (منکر)
(سندمیں عبد اللہ بن عطاء روایت میں غلطیاں کرجاتے تھے، اور جعفر بن زیاد الاحمر شیعی ہے،اور روایت میں تشیع ہے)
۳۸۶۸- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ رضی اللہ عنہ تھیں اور مردوں میں علی رضی اللہ عنہ تھے، ابراہیم بن سعد کہتے ہیں: یعنی اپنے اہل بیت میں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔


3869- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَلِيًّا ذَكَرَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: "إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا وَيُنْصِبُنِي مَا أَنْصَبَهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ؛ هَكَذَا قَالَ أَيُّوبُ: عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، وَقَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ: عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ رَوَى عَنْهُمَا جَمِيعًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۷۱) (صحیح)
۳۸۶۹- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کا ذکر کیا تواس کی خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی ،آپ نے فرمایا:'' فاطمہ میرے جسم کا ٹکرا ہے، مجھے تکلیف دیتی ہے وہ چیز جو اسے تکلیف دیتی ہے، اور تعب میں ڈالتی ہے مجھے وہ چیز جو اسے تعب میں ڈالتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح ایوب نے ابی ملیکہ سے اور انہوں نے ابن زبیر سے روایت کی ہے جبکہ متعدد لوگوں نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے مسور بن مخرمہ سے روایت کی ہے۔(جیساکہ حدیث رقم:۳۸۸۰)۳- اس بات کا احتمال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے ایک ساتھ دونوں ہی سے روایت کیا ہو۔ (اورایسابہت ہواہے)۔


3870- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ صُبَيْحٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ لِعَليٍّ وَفَاطِمَةَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ: "أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمْتُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ؛ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَصُبَيْحٌ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۴۵) (تحفۃ الأشراف: ۳۶۶۲) (ضعیف)
(سندمیں صبیح لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)
۳۸۷۰- زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ''میں لڑنے والاہوں اس سے جس سے تم لڑو اور صلح جوئی کرنے والاہوں اس سے جس سے تم صلح جوئی کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور صبیح مولیٰ ام سلمہ معروف نہیں ہیں۔


3871- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ جَلَّلَ عَلَى الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَعَلِيٍّ وَفَاطِمَةَ كِسَائً، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ هَؤُلاَئِ أَهْلُ بَيْتِي وَخَاصَّتِي أَذْهِبْ عَنْهُمْ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا" فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: "إِنَّكِ إِلَى خَيْرٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ؛ وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ، وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَبِي الْحَمْرَائِ، وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَائِشَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماتقدم برقم ۳۲۰۵، و۳۷۸۷ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۶۵) (صحیح)
(سندمیں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں،لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،دیکھئے حدیث نمبر (۳۷۸۷)
۳۸۷۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن، حسین، علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہم کو ایک چادر سے ڈھانپ کرفرمایا:'' اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت اور میرے خاص الخاص لوگ ہیں، توان سے گندگی کو دور فرمادے، اور انہیں اچھی طرح سے پاک کردے''، تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا بولیں: اور میں بھی ان کے ساتھ ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:'' تو(بھی) خیر پر ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں جو حدیثیں مروی ہیں ان میں سب سے اچھی ہے ،۲- اس باب میں عمر بن ابی سلمہ ، انس بن مالک ، ابوالحمراء، معقل بن یسار، اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


3872- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَشْبَهَ سَمْتًا وَدَلا وَهَدْيًا بِرَسُولِ اللَّهِ فِي قِيَامِهَا، وَقُعُودِهَا مِنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَتْ: وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ قَامَ إِلَيْهَا فَقَبَّلَهَا، وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ مِنْ مَجْلِسِهَا فَقَبَّلَتْهُ وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا فَلَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ ﷺ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَأَكَبَّتْ عَلَيْهِ؛ فَقَبَّلَتْهُ، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا؛ فَبَكَتْ، ثُمَّ أَكَبَّتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَتْ رَأْسَهَا؛ فَضَحِكَتْ فَقُلْتُ: إِنْ كُنْتُ لأَظُنُّ أَنَّ هَذِهِ مِنْ أَعْقَلِ نِسَائِنَا فَإِذَا هِيَ مِنَ النِّسَائِ فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ ﷺ قُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ حِينَ أَكْبَبْتِ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ فَبَكَيْتِ، ثُمَّ أَكْبَبْتِ عَلَيْهِ؛ فَرَفَعْتِ رَأْسَكِ فَضَحِكْتِ مَا حَمَلَكِ عَلَى ذَلِكَ قَالَتْ: إِنِّي إِذًا لَبَذِرَةٌ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَيِّتٌ مِنْ وَجَعِهِ هَذَا فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي أَسْرَعُ أَهْلِهِ لُحُوقًا بِهِ فَذَاكَ حِينَ ضَحِكْتُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ.
* تخريج: د/الأدب ۱۵۵ (۵۲۱۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۸۳) (صحیح)
۳۸۷۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طوروطریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی اللہ عنہ سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا ، وہ کہتی ہیں : جب وہ نبی اکرم ﷺکے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ،اورجب نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم ﷺ بیمارہوئے توفاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ پر جھکیں اور اپنا سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، پہلے تو میں یہ خیال کرتی تھی کہ یہ ہم عورتوں میں سب سے زیادہ عقل والی ہیں مگر ان کے ہنسنے پر یہ سمجھی کہ یہ بھی آخر(عام) عورت ہی ہیں، یعنی یہ کون سا موقع ہنسنے کا ہے، پھر جب نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوگئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کیابات تھی کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ تم نبی اکرم ﷺ پر جھکیں پھر سراٹھایا تو رونے لگیں، پھر جھکیں اور سر اٹھایا تو ہنسنے لگیں، تو انہوں نے کہا: اگر آپ کی زندگی میں یہ بات بتادیتی تو میں ایک ایسی عورت ہوتی جو آپ کے راز کو افشاء کرنے والی ہوتی، بات یہ تھی کہ پہلے آپ نے مجھے اس بات کی خبردی کہ اس بیماری میں میں انتقال کرجانے والاہوں ، یہ سن کر میں روپڑی، پھر آپ نے مجھے بتایا کہ ان کے گھروالوں میں سب سے پہلے میں ان سے ملوں گی، تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، اور یہ عائشہ سے متعدد سندوں سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے، ۱- فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے اخلاق وعادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں، ۲- فاطمہ آپ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں،۳- آخرت میں آپ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ کوحاصل ہوئی( رضی اللہ عنہا )۔


3873- أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ دَعَا فَاطِمَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ، ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا، وَضَحِكِهَا قَالَتْ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلاَّ مَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (وھو عند الجماعۃ من حدیث فاطمۃ نفسھا) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۸۷) (صحیح)
۳۸۷۳- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فاطمہ کو بلایا، اور ان سے سرگوشی کی تو وہ روپڑیں، پھر دوبارہ آپ نے ان سے بات کی تو وہ ہنسنے لگیں، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ بتایا کہ آپ عنقریب وفات پاجائیں گے، تو میں روپڑی، پھر آپ نے مجھے بتایا کہ میں مریم بنت عمران کو چھوڑکر اہل جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہوں گی تو میں ہنسنے لگی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : پچھلی حدیث اوراس حدیث میں کوئی تضادنہیں ہے، وہ دوسراواقعہ اوریہ دوسرا واقعہ ہے، نیز فاطمہ رضی اللہ عنہا ہنسنے کے دونوں اسباب میں بھی تضادنہ سمجھاجائے ،دونوں باتیں خوش ہونے کی ہیں۔


3874- حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي الْجَحَّافِ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَى عَائِشَةَ فَسُئِلَتْ أَيُّ النَّاسِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَتْ فَاطِمَةُ: فَقِيلَ مِنَ الرِّجَالِ: قَالَتْ: زَوْجُهَا إِنْ كَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، قَالَ: وَأَبُو الْجَحَّافِ اسْمُهُ دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَوْفٍ، وَيُرْوَى عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ، وَكَانَ مَرْضِيًّا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۵۴) (منکر)
(سندمیں ابوالجحاف داود بن عوف دونوں شیعہ ہیں، اور روایت میں شیعیت موجود ہے)
۳۸۷۴- جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ عائشہ کے پاس آیا تو ان سے پوچھا گیا: لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو انہوں نے کہا: فاطمہ ، پھر پوچھاگیا: مردوں میں کون تھا؟ انہوں نے کہا: ان کے شوہر ، یعنی علی، میں خوب جانتی ہوں وہ بڑے صائم اور تہجد گزار تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ابوجحاف کانام داود بن ابی عوف ہے، اور سفیان ثوری سے '' عن ابی الجحاف '' کے بجائے یوں مروی ہے: '' حَدَّثَنَا أَبُو الْجَحَّافِ وَكَانَ مَرْضِيًّا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
62-بَاب فَضْلِ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
۶۲-باب: ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان​


3875- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَمَابِي أَنْ أَكُونَ أَدْرَكْتُهَا، وَمَا ذَاكَ إِلاَّ لِكَثْرَةِ ذِكْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لَهَا، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ؛ فَيَتَتَبَّعُ بِهَا صَدَائِقَ خَدِيجَةَ فَيُهْدِيهَا لَهُنَّ .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۰۱۷ (صحیح)
۳۸۷۵- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجات میں سے کسی پر مجھے اتنا رشک نہیں آیا جتنا خدیجہ پر آیا، اور اگر میں ان کو پالیتی تو میرا کیا حال ہوتا؟ اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ انہیں کثرت سے یاد کرتے تھے،ا گر آپ بکری بھی ذبح کرتے تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر خدیجہ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھیجتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔


3876- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: مَا حَسَدْتُ أَحَدًا مَا حَسَدْتُ خَدِيجَةَ، وَمَا تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلاَّ بَعْدَ مَا مَاتَتْ، وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَشَّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لاَصَخَبَ فِيهِ، وَلا نَصَبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. مِنْ قَصَبٍ قَالَ: إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ قَصَبَ اللُّؤْلُؤِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۷۱۴۲) (صحیح)
۳۸۷۶- ام المو منین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کسی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا پر کیا، حالاں کہ مجھ سے تو آپ نے نکاح اس وقت کیا تھا جب وہ انتقال کرچکی تھیں، اور اس رشک کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں موتی کے ایک ایسے گھر کی بشارت دی تھی جس میں نہ شور وشغف ہو اور نہ تکلیف و ایذا کی کوئی بات۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- ''من قصبٍ'' سے مراد موتی کے بانس ہیں۔


3877- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "خَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/أحادیث الأنبیاء ۴۵ (۳۴۳۲)، وفضائل الأنصار ۲۰ (۳۸۱۵)، م/فضائل الصحابۃ ۱۲ (۲۴۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۶۱) (صحیح)
۳۸۷۷- علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر (اپنے زمانہ میں) خدیجہ بنت خویلد تھیں اور دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر (اپنے زمانہ میں) مریم بنت عمران تھیں'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ، انس ، ابن عباس اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔


3878- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ زَنْجُوَيْهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "حَسْبُكَ مِنْ نِسَائِ الْعَالَمِينَ مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۶) (صحیح)
۳۸۷۸- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ساری دنیا کی عورتوں میں سے تمہیں مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد، اور فرعون کی بیوی آسیہ کافی ہیں '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یہ چاروں عورتیں ساری دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں اور پیروی و اقتداء کے لائق ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
63-بَاب مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
۶۳-باب: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان​


3879- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَاجْتَمَعَ صَوَاحِبَاتِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْنَ: يَا أُمَّ سَلَمَةَ! إِنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، وَإِنَّا نُرِيدُ الْخَيْرَ كَمَا تُرِيدُ عَائِشَةُ فَقُولِي لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَأْمُرُ النَّاسَ يُهْدُونَ إِلَيْهِ أَيْنَمَا كَانَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهَا، ثُمَّ عَادَ إِلَيْهَا فَأَعَادَتِ الْكَلاَمَ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ صَوَاحِبَاتِي قَدْ ذَكَرْنَ أَنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ؛ فَأْمُرِ النَّاسَ يُهْدُونَ أَيْنَمَا كُنْتَ فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ قَالَتْ: ذَلِكَ قَالَ يَا أُمَّ سَلَمَةَ! لا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّهُ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ، وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رُمَيْثَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ شَيْئًا مِنْ هَذَا، وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَلَى رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ، وَقَدْ رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
* تخريج: خ/الھبۃ ۷ (۲۵۷۴)، و۸ (۲۵۸۰، ۲۵۸۱)، وفضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۷۵)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۱)، ن/عشرۃ النساء ۳ (۳۳۹۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۶۱)، وحم (۶/۲۹۳) (صحیح)
۳۸۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : لوگ اپنے ہدئے تحفے بھیجنے کے لیے عائشہ کے دن (باری کے دن) کی تلاش میں رہتے تھے، تو میری سوکنیں سب ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جمع ہوئیں، اور کہنے لگیں: ام سلمہ ! لوگ اپنے ہدایا بھیجنے کے لیے عائشہ کے دن کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہم سب بھی خیر کی اسی طرح خواہاں ہیں جیسے عائشہ ہیں، تو تم رسول اللہ ﷺ سے جاکر کہو کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں(یعنی جس کے یہاں بھی باری ہو) وہ لوگ وہیں آپ کو ہدایا بھیجا کریں ، چنانچہ ام سلمہ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ نے اعراض کیا، اور ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، پھر آپ ان کی طرف پلٹے تو انہوں نے اپنی بات پھر دہرائی اور بولیں: میری سوکنیں کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدایا کے لیے عائشہ کی باری کی تاک میں رہتے ہیں تو آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں وہ ہدایا بھیجا کریں ، پھر جب انہوں نے تیسری بار آپ سے یہی کہا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' ام سلمہ تم عائشہ کے سلسلہ میں مجھے نہ ستاؤ کیوں کہ عائشہ کے علاوہ تم سب میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جس کے لحاف میں مجھ پر وحی اتری ہو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو حماد بن زید سے، حماد نے ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے،۳- یہ حدیث ہشام بن عروہ کے طریق سے عوف بن حارث سے بھی آئی ہے جسے عوف بن حارث نے رمیثہ کے واسطہ سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے ، ہشام بن عروہ سے مروی یہ حدیث مختلف طریقوں سے آئی ہے، ۴-سلیمان بن بلال نے بھی بطریق: ''ہشام بن عروہ، عن عروہ ، عن عائشہ'' حماد بن زید کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ کی قبولیت کی وحی کے بارے میں آیا ہے کہ یہ وحی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں نازل ہوئی،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اورام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک ہی لحاف میں تھے، لحاف میں وحی نازل ہونے کی خصوصیت صرف عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے ، اور یہ بہت بڑی فضیلت کی بات ہے۔


3880- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ الْمَكِّيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَائَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ مُرْسَلاً، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ، وَقَدْ رَوَى أَبُوأُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۵۸) (صحیح)
۳۸۸۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جبرئیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عمرو بن علقمہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲- عبدالرحمن بن مہدی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو بن علقمہ سے اسی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے،۳- ابواسامہ نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہوسکتاہے کہ یہ واقعہ تصویر کی حرمت سے پہلے کاہو، کیونکہ اللہ نے ہرطرح کے جاندار کی تصویر کو حرام کردیاہے، یا یہ اللہ کے خاص حکم سے جبرئیل علیہ السلام کا کام تھاجس کا تعلق عام انسانوں سے نہیں ہے، عام انسانوں کے لیے وہی حرمت والامعاملہ ہے، واللہ اعلم۔
وضاحت ۲؎ : یہ روایت صحیح بخاری کتاب النکاح باب رقم ۵اورباب رقم:۳۵میں آئی ہے ، اس میں جبرئیل کی بجائے صرف ''فرشتہ''کا لفظ ہے۔


3881- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَا عَائِشَةُ! هَذَا جِبْرِيلُ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلاَمَ قَالَتْ: قُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ تَرَى مَا لاَ نَرَى". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۱۷)، وفضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۶۸)، والأدب ۱۱۱ (۶۲۰۱)، والاستئذان ۱۶ (۶۲۴۹)، و۱۹ (۶۲۵۳)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۷)، ن/عشرۃ النساء ۳ (۳۴۰۵، ۳۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۶۶)، وحم (۶/۱۴۶، ۱۵۰، ۲۰۸، ۲۲۴) (صحیح)
۳۸۸۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عائشہ ! یہ جبرئیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ، میں نے عرض کیا: اور انہیں بھی میری طرف سے سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ پاتے'' (جیسے جبرئیل کو) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں عائشہ کے لیے انتہائی شرف کی بات ہے ، ( رضی اللہ عنہا )اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ خدیجہ، عائشہ سے افضل ہیں، کیونکہ خدیجہ آپ کوجبرئیل اللہ کی طرف سے سلام کررہے ہیں، جبکہ عائشہ کے لیے جبرئیل نے اپنی طرف سے سلام پہنچایا۔


3882- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ جِبْرِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلامَ فَقُلْتُ وَعَلَيْهِ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ، وحدیث رقم ۲۶۹۳ (صحیح)
۳۸۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جبرئیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں تو میں نے عرض کیا: ان پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اورا س کی برکتیں ہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔


3883- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح)
۳۸۸۳- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول اللہ ﷺ پرجب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ سے پوچھاتو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرورملی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وسعت علمی کی دلیل ہے ، اوراس سے عام صحابہ پرفضیلت ثابت ہوتی ہے۔


3884- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ابْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۶۸/الف) (صحیح)
۳۸۸۴- موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا ۔
امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔


3885- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لابْنِ يَعْقُوبَ قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلاسِلِ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "عَائِشَةُ" قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ قَالَ: "أَبُوهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۶۲)، والمغازي ۶۳ (۴۳۵۸)، م/فضائل الصحابۃ ۱ (۲۳۸۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۸) (صحیح)
۳۹۸۵- عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں لشکر ذات السلاسل کا امیر مقرر کیا ، وہ کہتے ہیں: تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' عائشہ ، میں نے پوچھا : مردوں میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' ان کے باپ '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : پیچھے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب میں گزراہے کہ عورتوں میں فاطمہ اورمردوں میں ان کے شوہرعلی اللہ کے رسول ﷺ کو زیادہ محبوب تھے، لیکن وہ حدیث ضعیف منکرہے، اوریہ حدیث صحیح ہے ، اوردونوں عورتوں اوردونوں مردوں کے اللہ کے رسول ﷺکے زیادہ محبوب ہونے میں تضادہی کیاہے، یہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔


3886- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "عَائِشَةُ" قَالَ: مِنَ الرِّجَالِ قَالَ: "أَبُوهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۴۵) (صحیح)
۳۸۸۶- عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' عائشہ ، انہوں نے پوچھا: مردوں میں؟ آپ نے فرمایا:'' ان کے والد''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی اسماعیل کی روایت سے جسے وہ قیس سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔


3887- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَائِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي مُوسَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ هُوَ أَبُوطُوَالَةَ الأَنْصَارِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۷۰)، والأطعمۃ ۲۵ (۵۴۱۹)، و۳۰ (۵۴۲۸)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۶)، ق/الأطعمۃ ۱۴ (۳۲۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰)، وحم (۳/۱۵۶، ۲۶۴) (صحیح)
۳۸۸۷- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عورتوں پر عائشہ کی فضیلت اسی طرح ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پرہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ابوموسیٰ اشعری سے احادیث آئی ہیں، ۳-عبداللہ بن عبدالرحمن بن معمر انصاری سے مراد ابوطوالہ انصاری مدنی ہیں اور وہ ثقہ ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان عورتوں میں سے مریم، خدیجہ اورفاطمہ مستثنیٰ ہیں، جیساکہ دوسری روایات سے ثابت ہوتاہے۔


3888- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ أَنَّ رَجُلا نَالَ مِنْ عَائِشَةَ عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَقَالَ: أَغْرِبْ مَقْبُوحًا مَنْبُوحًا أَتُؤْذِي حَبِيبَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۴) (ضعیف الإسناد)
(سند میں عمرو بن غالب لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)
۳۸۸۸- عمروبن غالب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ کی عیب جوئی کی تو انہوں نے کہا: ہٹ مردود کمینے، کیا تو رسول اللہ ﷺ کی محبوبہ کو اذیت پہنچا رہاہے؟۔
امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3889- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الأَسَدِيِّ قَال: سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ يَقُولُ: هِيَ زَوْجَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ يَعْنِي عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ.
* تخريج: خ/الفتن ۱۸ (۷۱۰۰، ۷۱۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۵۶) (صحیح)
۳۸۸۹- عبداللہ بن زیاد اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کی بیوی ہیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : دیگرازواج مطہرات کے دنیامیں دوسرے شوہربھی تھے، جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کاآپ کے سوا کوئی شوہرنہ تھا، اورآخرت میں عائشہ کے آپ کی بیوی ہونے سے یہ لازم نہیں آتاکہ دیگرازواج مطہرات آخرت میں آپ کی بیویاں نہیں ہوں گی، عائشہ بھی ہوں گی ، وہ بھی ہوں گی۔


3890- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "عَائِشَةُ" قِيلَ: مِنْ الرِّجَالِ قَالَ: "أَبُوهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴) (صحیح)
۳۸۹۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ سے عرض کیاگیا: اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' عائشہ ، عرض کیاگیا مردوں میں؟ آپ نے فرمایا:'' ان کے والد''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
64-بَاب فَضْلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ
۶۴-باب: امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی فضیلت کابیان​


3891- حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ الْعَنْبَرِيُّ أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ وَكَانَ ثِقَةً، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ: قِيلَ لابْنِ عَبَّاسٍ بَعْدَ صَلاَةِ الصُّبْحِ مَاتَتْ فُلانَةُ لِبَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ فَسَجَدَ فَقِيلَ لَهُ: أَتَسْجُدُ هَذِهِ السَّاعَةَ؟ فَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا رَأَيْتُمْ آيَةً فَاسْجُدُوا فَأَيُّ آيَةٍ أَعْظَمُ مِنْ ذَهَابِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۲۶۹ (۱۱۹۷) (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۷) (حسن)
۳۸۹۱- عکرمہ کہتے ہیں کہ فجر کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہاگیا کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج میں سے فلاں کا انتقال ہوگیا، تو وہ سجدہ میں گرگئے، ان سے پوچھا گیا: کیا یہ سجدہ کرنے کا وقت ہے؟ تو انہوں نے کہا: کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا:'' جب تم اللہ کی طرف سے کوئی خوفناک بات دیکھو تو سجدہ کرو، تو نبی اکرمﷺ کے ازواج کے دنیا سے رخصت ہونے سے بڑی اور کون سی ہوسکتی ہے؟ '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث یادیگراحادیث میں اس جیسے سیاق وسباق میں''آیۃ''کا لفظ بطورخوفناک عذاب یا آسمانی مصیبت وغیرہ کے معنی میں استعمال ہواہے، جس سے مقصودبندوں کوڈراناہوتاہے، تو ازواج مطہرات دنیامیں برکت کاسبب تھیں، ان کے اٹھ جانے سے برکت اٹھ جاتی ہے ، اوریہ بات خوفناک ہے۔


3892- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا هَاشِمٌ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا كِنَانَةُ قَالَ: حَدَّثَتْنَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ بَلَغَنِي عَنْ حَفْصَةَ، وَعَائِشَةَ كَلاَمٌ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: أَلاَ قُلْتِ: فَكَيْفَ تَكُونَانِ خَيْرًا مِنِّي، وَزَوْجِي مُحَمَّدٌ وَأَبِي هَارُونُ، وَعَمِّي مُوسَى، وَكَانَ الَّذِي بَلَغَهَا أَنَّهُمْ قَالُوا: نَحْنُ أَكْرَمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مِنْهَا وَقَالُوا: نَحْنُ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ ﷺ وَبَنَاتُ عَمِّهِ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ صَفِيَّةَ إِلا مِنْ حَدِيثِ هَاشِمٍ الْكُوفِيِّ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَلِكَ الْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۰۵) (ضعیف الإسناد)
(سند میں ہاشم بن سعید الکوفی ضعیف راوی ہیں)
۳۸۹۲- ام المومنین صفیہ بنت حیّ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، مجھے حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے ایک (تکلیف دہ)بات پہنچی تھی جسے میں نے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا:'' تم نے یہ کیوں نہیں کہا؟ کہ تم دونوں مجھ سے بہتر کیسے ہوسکتی ہو، میرے شوہر محمد ﷺ ہیں اور باپ ہارون ہیں، اور چچا موسیٰ ہیں اور جو بات پہنچی تھی وہ یہ تھی کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہاتھا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے نزدیک ان سے زیادہ باعزت ہیں، اس لیے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی ازواج ہیں، اور آپ کے چچا کی بیٹیاں ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- صفیہ کی اس حدیث کو ہاشم کوفی کی روایت سے جانتے ہیں، اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے،۳- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔


3893- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ ابْنُ عَثْمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ الزَّمْعِيُّ، عَنْ هَاشِمِ بْنِ هَاشِمٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ، ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا قَالَتْ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ يَمُوتُ؛ فَبَكَيْتُ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَائِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلاَّمَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۸۷۳ (صحیح)
۳۸۹۳- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال فاطمہ کو بلایا اور ان کے کان میں کچھ باتیں کہیں تو وہ روپڑیں، پھر آپ نے دوبارہ ان سے کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے تو میں نے ان سے ان کے رونے اور ہنسنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے یہ بتایا تھا کہ عنقریب آپ وفات پاجائیں گے، تو ( یہ سن کر) میں رونے لگی تھی، پھر آپ نے جب مجھے یہ بتایا کہ مریم بنت عمران کوچھوڑ کر میں اہل جنت کے تمام عورتوں کی سردار ہوں گی ۱؎ ، تو یہ سن کر میں ہنسنے لگی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : بعض روایات میں آیاہے (الفتح : مناقب خدیجہ) کہ دنیاکی عورتوں کی سردار: مریم ، پھرفاطمہ پھرخدیجہ ، پھرآسیہ ہیں، اورحاکم کی روایت میں ہے کہ ''جنت کی عورتوں میں سب سے افضل: خدیجہ ، فاطمہ، مریم اورآسیہ ہیں، معلوم ہواکہ یہ چاروں دنیااورجنت دونوں میں دیگرساری عورتوں سے افضل ہیں۔


3894- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَلَغَ صَفِيَّةَ أَنَّ حَفْصَةَ قَالَتْ: بِنْتُ يَهُودِيٍّ، فَبَكَتْ؛ فَدَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ ﷺ وَهِيَ تَبْكِي فَقَالَ: "مَا يُبْكِيكِ؟" فَقَالَتْ: قَالَتْ لِي حَفْصَةُ: إِنِّي بِنْتُ يَهُودِيٍّ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّكِ لابْنَةُ نَبِيٍّ، وَإِنَّ عَمَّكِ لَنَبِيٌّ، وَإِنَّكِ لَتَحْتَ نَبِيٍّ، فَفِيمَ تَفْخَرُ عَلَيْكِ، ثُمَّ قَالَ: اتَّقِي اللَّهَ يَا حَفْصَةُ !".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (صحیح)
۳۸۹۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات پہنچی کہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہودی کی بیٹی ہونے کا طعنہ دیا ہے، تو وہ رونے لگیں، نبی اکرم ﷺ ان کے پاس آئے توو ہ رورہی تھیں، آپ نے پوچھا: تم کیوں رورہی ہو؟ تو انہوں نے کہا: حفصہ نے مجھے یہ طعنہ دیا ہے کہ میں یہودی کی بیٹی ہوں، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' تو ایک نبی کی بیٹی ہے، تیرا چچا بھی نبی ہے ۱؎ اور تو ایک نبی کے عقد میں ہے، تو وہ کس بات میں تجھ پر فخر کررہی ہے، پھر آپ نے (حفصہ سے ) فرمایا:'' حفصہ ! اللہ سے ڈر ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی صفیہ موسیٰ علیہ السلام کی اولادمیں سے ہیں، اوران کے بھائی ہارون بھی نبی تھے، تو باپ اورچچادونوں نبی ہوئے ، ویسے حفصہ بھی ایک (نبی اسماعیل علیہ السلام )کی اولادمیں سے تھیں، اوراسماعیل کے بھائی اسحاق (چچا)بھی نبی تھے، اورنبی کی زوجیت میں بھی تھیں، اس لحاظ سے دونوں برابرتھیں، صرف اس طرح کے تفاخرسے آپ کو انہیں تنبیہ کرنا مقصودتھا۔


3895- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي، وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ مَا أَقَلَّ مَنْ رَوَاهُ عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَرُوِيَ هَذَا عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بھذا التمام (تحفۃ الأشراف: ۱۶۹۱۹)، وأخرج الجملۃ الأخیرۃ ''إذا مات ...'' کل من : خ/الجنائز ۹۷ (۴۸۹۹)، ون/الجنائز ۵۲ (۱۹۳۸)، وحم (۶/۱۸۰) (صحیح)
۳۸۹۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھروالوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مرجائے تو اسے خیر باد کہہ دو، یعنی اس کی برائیوں کو یاد نہ کرو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب صحیح ہے اور ثوری سے روایت کرنے والے اسے کتنے کم لوگ ہیں اور یہ حدیث ہشام بن عروہ سے عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاًبھی آئیہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ اور اس کے بعدکی دونوں حدیثوں کی اس باب سے کوئی مناسبت نہیں، یہ گویا اس کتاب کی متفرق چھوٹی چھاٹی احادیث کے طورپر یہاں درج کی گئی ہیں۔


3896- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ الْوَلِيدِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لاَيُبَلِّغُنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِي شَيْئًا؛ فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْهِمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ" قَالَ عَبْدُاللَّهِ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِمَالٍ فَقَسَّمَهُ فَانْتَهَيْتُ إِلَى رَجُلَيْنِ جَالِسَيْنِ وَهُمَا يَقُولانِ: وَاللَّهِ مَا أَرَادَ مُحَمَّدٌ بِقِسْمَتِهِ الَّتِي قَسَمَهَا وَجْهَ اللَّهِ، وَلاَ الدَّارَ الآخِرَةَ فَتَثَبَّتُّ حِينَ سَمِعْتُهُمَا فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، وَأَخْبَرْتُهُ فَاحْمَرَّ وَجْهُهُ وَقَالَ: دَعْنِي عَنْكَ فَقَدْ أُوذِيَ مُوسَى بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ؛ وَقَدْ زِيدَ فِي هَذَا الإِسْنَادِ رَجُلٌ.
* تخريج: د/الأدب ۳۳ (۴۸۶۰) (تحفۃ الأشراف: ۹۲۲۷) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں زید بن زائدہ لین الحدیث راوی ہیں)
۳۸۹۶- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میرے اصحاب میں سے کوئی کسی کی برائی مجھ تک نہ پہنچائے، کیوں کہ میں یہ پسند کرتاہوں کہ جب میں ان کی طرف نکلوں تو میرا سینہ صاف ہو ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ایک بار) رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال آیا اور آپ نے اسے تقسیم کردیا، تو میں دو آدمیوں کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے : قسم اللہ کی ! محمد نے اپنی اس تقسیم سے جو انہوں نے کی ہے نہ رضائے الٰہی طلب کی ہے نہ دار آخرت ، جب میں نے اسے سنا تویہ بات مجھے بری لگی، چنانچہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو اس کی خبردی تو آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا:'' مجھے جانے دو کیوں کہ موسیٰ کو تو اس سے بھی زیادہ ستایا گیا پھر بھی انہوں نے صبر کیا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے اور اس سند میں ایک آدمی کا اضافہ کردیا گیا ہے۔


3897- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَيُبَلِّغُنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ شَيْئًا". وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ هَذَا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۸۹۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' کوئی کسی کی کوئی بات مجھے نہ پہنچائے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کا کچھ حصہ اس سند کے علاوہ سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے۔
 
Top