63-بَاب مِنْ فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
۶۳-باب: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت کابیان
3879- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ قَالَتْ: فَاجْتَمَعَ صَوَاحِبَاتِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقُلْنَ: يَا أُمَّ سَلَمَةَ! إِنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، وَإِنَّا نُرِيدُ الْخَيْرَ كَمَا تُرِيدُ عَائِشَةُ فَقُولِي لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَأْمُرُ النَّاسَ يُهْدُونَ إِلَيْهِ أَيْنَمَا كَانَ فَذَكَرَتْ ذَلِكَ أُمُّ سَلَمَةَ؛ فَأَعْرَضَ عَنْهَا، ثُمَّ عَادَ إِلَيْهَا فَأَعَادَتِ الْكَلاَمَ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ صَوَاحِبَاتِي قَدْ ذَكَرْنَ أَنَّ النَّاسَ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ؛ فَأْمُرِ النَّاسَ يُهْدُونَ أَيْنَمَا كُنْتَ فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ قَالَتْ: ذَلِكَ قَالَ يَا أُمَّ سَلَمَةَ! لا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ فَإِنَّهُ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ الْوَحْيُ، وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا .
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رُمَيْثَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ شَيْئًا مِنْ هَذَا، وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَلَى رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ، وَقَدْ رَوَى سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
* تخريج: خ/الھبۃ ۷ (۲۵۷۴)، و۸ (۲۵۸۰، ۲۵۸۱)، وفضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۷۵)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۱)، ن/عشرۃ النساء ۳ (۳۳۹۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۶۱)، وحم (۶/۲۹۳) (صحیح)
۳۸۷۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : لوگ اپنے ہدئے تحفے بھیجنے کے لیے عائشہ کے دن (باری کے دن) کی تلاش میں رہتے تھے، تو میری سوکنیں سب ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جمع ہوئیں، اور کہنے لگیں: ام سلمہ ! لوگ اپنے ہدایا بھیجنے کے لیے عائشہ کے دن کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہم سب بھی خیر کی اسی طرح خواہاں ہیں جیسے عائشہ ہیں، تو تم رسول اللہ ﷺ سے جاکر کہو کہ آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں(یعنی جس کے یہاں بھی باری ہو) وہ لوگ وہیں آپ کو ہدایا بھیجا کریں ، چنانچہ ام سلمہ نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ نے اعراض کیا، اور ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، پھر آپ ان کی طرف پلٹے تو انہوں نے اپنی بات پھر دہرائی اور بولیں: میری سوکنیں کہتی ہیں کہ لوگ اپنے ہدایا کے لیے عائشہ کی باری کی تاک میں رہتے ہیں تو آپ لوگوں سے کہہ دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں وہ ہدایا بھیجا کریں ، پھر جب انہوں نے تیسری بار آپ سے یہی کہا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' ام سلمہ تم عائشہ کے سلسلہ میں مجھے نہ ستاؤ کیوں کہ عائشہ کے علاوہ تم سب میں سے کوئی عورت ایسی نہیں جس کے لحاف میں مجھ پر وحی اتری ہو ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- بعض راویوں نے اس حدیث کو حماد بن زید سے، حماد نے ہشام بن عروہ سے اور ہشام نے اپنے باپ عروہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے،۳- یہ حدیث ہشام بن عروہ کے طریق سے عوف بن حارث سے بھی آئی ہے جسے عوف بن حارث نے رمیثہ کے واسطہ سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس کا کچھ حصہ روایت کیا ہے ، ہشام بن عروہ سے مروی یہ حدیث مختلف طریقوں سے آئی ہے، ۴-سلیمان بن بلال نے بھی بطریق: ''ہشام بن عروہ، عن عروہ ، عن عائشہ'' حماد بن زید کی حدیث کی طرح روایت کی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : صحیح بخاری میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ کی قبولیت کی وحی کے بارے میں آیا ہے کہ یہ وحی ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں نازل ہوئی،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اورام سلمہ رضی اللہ عنہا ایک ہی لحاف میں تھے، لحاف میں وحی نازل ہونے کی خصوصیت صرف عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہے ، اور یہ بہت بڑی فضیلت کی بات ہے۔
3880- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ الْمَكِّيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَائَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَلْقَمَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ مُرْسَلاً، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ، وَقَدْ رَوَى أَبُوأُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۵۸) (صحیح)
۳۸۸۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : جبرئیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عمرو بن علقمہ کی روایت سے جانتے ہیں،۲- عبدالرحمن بن مہدی نے اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو بن علقمہ سے اسی سند سے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں عائشہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے،۳- ابواسامہ نے اس حدیث کے کچھ حصہ کو ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ہوسکتاہے کہ یہ واقعہ تصویر کی حرمت سے پہلے کاہو، کیونکہ اللہ نے ہرطرح کے جاندار کی تصویر کو حرام کردیاہے، یا یہ اللہ کے خاص حکم سے جبرئیل علیہ السلام کا کام تھاجس کا تعلق عام انسانوں سے نہیں ہے، عام انسانوں کے لیے وہی حرمت والامعاملہ ہے، واللہ اعلم۔
وضاحت ۲؎ : یہ روایت صحیح بخاری کتاب النکاح باب رقم ۵اورباب رقم:۳۵میں آئی ہے ، اس میں جبرئیل کی بجائے صرف ''فرشتہ''کا لفظ ہے۔
3881- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَا عَائِشَةُ! هَذَا جِبْرِيلُ وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلاَمَ قَالَتْ: قُلْتُ: وَعَلَيْهِ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ تَرَى مَا لاَ نَرَى". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/بدء الخلق ۶ (۳۲۱۷)، وفضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۶۸)، والأدب ۱۱۱ (۶۲۰۱)، والاستئذان ۱۶ (۶۲۴۹)، و۱۹ (۶۲۵۳)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۷)، ن/عشرۃ النساء ۳ (۳۴۰۵، ۳۴۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۶۶)، وحم (۶/۱۴۶، ۱۵۰، ۲۰۸، ۲۲۴) (صحیح)
۳۸۸۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عائشہ ! یہ جبرئیل ہیں، تمہیں سلام کہہ رہے ہیں ، میں نے عرض کیا: اور انہیں بھی میری طرف سے سلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں، آپ وہ دیکھتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ پاتے'' (جیسے جبرئیل کو) ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں عائشہ کے لیے انتہائی شرف کی بات ہے ، ( رضی اللہ عنہا )اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ خدیجہ، عائشہ سے افضل ہیں، کیونکہ خدیجہ آپ کوجبرئیل اللہ کی طرف سے سلام کررہے ہیں، جبکہ عائشہ کے لیے جبرئیل نے اپنی طرف سے سلام پہنچایا۔
3882- حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ جِبْرِيلَ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلامَ فَقُلْتُ وَعَلَيْهِ السَّلامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ، وحدیث رقم ۲۶۹۳ (صحیح)
۳۸۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جبرئیل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں تو میں نے عرض کیا: ان پر سلام اور اللہ کی رحمتیں اورا س کی برکتیں ہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
3883- حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلاَّ وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (صحیح)
۳۸۸۳- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول اللہ ﷺ پرجب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ سے پوچھاتو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرورملی ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وسعت علمی کی دلیل ہے ، اوراس سے عام صحابہ پرفضیلت ثابت ہوتی ہے۔
3884- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ابْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۶۸/الف) (صحیح)
۳۸۸۴- موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا ۔
امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
3885- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لابْنِ يَعْقُوبَ قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى جَيْشِ ذَاتِ السُّلاسِلِ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "عَائِشَةُ" قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ قَالَ: "أَبُوهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۵ (۳۶۶۲)، والمغازي ۶۳ (۴۳۵۸)، م/فضائل الصحابۃ ۱ (۲۳۸۴) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۸) (صحیح)
۳۹۸۵- عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں لشکر ذات السلاسل کا امیر مقرر کیا ، وہ کہتے ہیں: تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' عائشہ ، میں نے پوچھا : مردوں میں کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' ان کے باپ '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : پیچھے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب میں گزراہے کہ عورتوں میں فاطمہ اورمردوں میں ان کے شوہرعلی اللہ کے رسول ﷺ کو زیادہ محبوب تھے، لیکن وہ حدیث ضعیف منکرہے، اوریہ حدیث صحیح ہے ، اوردونوں عورتوں اوردونوں مردوں کے اللہ کے رسول ﷺکے زیادہ محبوب ہونے میں تضادہی کیاہے، یہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔
3886- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "عَائِشَةُ" قَالَ: مِنَ الرِّجَالِ قَالَ: "أَبُوهَا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۴۵) (صحیح)
۳۸۸۶- عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' عائشہ ، انہوں نے پوچھا: مردوں میں؟ آپ نے فرمایا:'' ان کے والد''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی اسماعیل کی روایت سے جسے وہ قیس سے روایت کرتے ہیں حسن غریب ہے۔
3887- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَائِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي مُوسَى.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ هُوَ أَبُوطُوَالَةَ الأَنْصَارِيُّ الْمَدَنِيُّ ثِقَةٌ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ.
* تخريج: خ/فضائل الصحابۃ ۳۰ (۳۷۷۰)، والأطعمۃ ۲۵ (۵۴۱۹)، و۳۰ (۵۴۲۸)، م/فضائل الصحابۃ ۱۳ (۲۴۴۶)، ق/الأطعمۃ ۱۴ (۳۲۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۰)، وحم (۳/۱۵۶، ۲۶۴) (صحیح)
۳۸۸۷- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عورتوں پر عائشہ کی فضیلت اسی طرح ہے جیسے ثرید کی فضیلت دوسرے کھانوں پرہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، ابوموسیٰ اشعری سے احادیث آئی ہیں، ۳-عبداللہ بن عبدالرحمن بن معمر انصاری سے مراد ابوطوالہ انصاری مدنی ہیں اور وہ ثقہ ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان عورتوں میں سے مریم، خدیجہ اورفاطمہ مستثنیٰ ہیں، جیساکہ دوسری روایات سے ثابت ہوتاہے۔
3888- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ أَنَّ رَجُلا نَالَ مِنْ عَائِشَةَ عِنْدَ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ فَقَالَ: أَغْرِبْ مَقْبُوحًا مَنْبُوحًا أَتُؤْذِي حَبِيبَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۶۴) (ضعیف الإسناد)
(سند میں عمرو بن غالب لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)
۳۸۸۸- عمروبن غالب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ کی عیب جوئی کی تو انہوں نے کہا: ہٹ مردود کمینے، کیا تو رسول اللہ ﷺ کی محبوبہ کو اذیت پہنچا رہاہے؟۔
امام ترمذی کہتے ہی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3889- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الأَسَدِيِّ قَال: سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ يَقُولُ: هِيَ زَوْجَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ يَعْنِي عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ.
* تخريج: خ/الفتن ۱۸ (۷۱۰۰، ۷۱۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۵۶) (صحیح)
۳۸۸۹- عبداللہ بن زیاد اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ یہ یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا دنیا اور آخرت دونوں میں آپ کی بیوی ہیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : دیگرازواج مطہرات کے دنیامیں دوسرے شوہربھی تھے، جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کاآپ کے سوا کوئی شوہرنہ تھا، اورآخرت میں عائشہ کے آپ کی بیوی ہونے سے یہ لازم نہیں آتاکہ دیگرازواج مطہرات آخرت میں آپ کی بیویاں نہیں ہوں گی، عائشہ بھی ہوں گی ، وہ بھی ہوں گی۔
3890- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَنْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيْكَ؟ قَالَ: "عَائِشَةُ" قِيلَ: مِنْ الرِّجَالِ قَالَ: "أَبُوهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ.
* تخريج: ق/المقدمۃ ۱۱ (۱۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۷۷۴) (صحیح)
۳۸۹۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ سے عرض کیاگیا: اللہ کے رسول ! لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ نے فرمایا:'' عائشہ ، عرض کیاگیا مردوں میں؟ آپ نے فرمایا:'' ان کے والد''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے یعنی انس کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔