• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
163- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَتَطَوَّعُ جَالِسًا
۱۶۳- باب: بیٹھ کر نفل صلاۃ پڑھنے کا بیان​


373- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ السَّائِبِ ابْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، وَيَقْرَأُ بِالسُّورَةِ وَيُرَتِّلُهَا، حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا. وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَفْصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَبِيّ ﷺ: أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ جَالِسًا، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَائَتِهِ قَدْرُ ثَلاَثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ. وَرُوِيَ عَنْهُ: أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي قَاعِدًا، فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ، رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَاعِدٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ. قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: وَالْعَمَلُ عَلَى كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ. كَأَنَّهُمَا رَأَيَا كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحًا مَعْمُولاً بِهِمَا.
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۳)، ن/قیام اللیل ۱۹ (۱۶۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۱۲)، ط/الجماعۃ ۷ (۲۱)، حم (۶/۲۸۵) (صحیح)
۳۷۳- ام المو منین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کبھی بیٹھ کرنفل صلاۃ پڑھتے نہیں دیکھا، یہاں تک کہ جب وفات میں ایک سال رہ گیا تو آپ بیٹھ کر نفلی صلاۃ پڑھنے لگے ۔اور سورت پڑھتے تو اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ لمبی سے لمبی ہوجاتی ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام سلمہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہے، ۳- نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ رات کو بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے اور جب تیس یاچالیس آیتوں کے بقدرقرأت باقی رہ جاتی توآپ کھڑے ہوجاتے اور قرأت کرتے پھر رکوع میں جاتے۔ پھردوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔اورآپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے ۔اور جب کھڑے ہو کرقرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہوکر کرتے اور جب بیٹھ قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ ہی کرکرتے۔ ۴-احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دونوں حدیثیں صحیح اورمعمول بہ ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : لیکن نفل صلاۃ بیٹھ کرپڑھنے سے آپ ﷺکا اجرامتیوں کی طرح آدھا نہیں ہے ، یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔


374- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُصَلِّي جَالِسًا، فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَائَتِهِ قَدْرُ مَايَكُونُ ثَلاَثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تقصیر الصلاۃ ۲۰ (۱۱۱۸، ۱۱۱۹)، والتہجد ۱۶ (۱۱۴۸)، م/المسافرین ۱۶ (۷۳۱)، د/الصلاۃ ۱۷۹ (۹۵۳، ۹۵۴)، ن/قیام اللیل ۱۸ (۱۶۴۹)، ق/الإقامۃ ۱۴۰ (۱۲۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۰۹)، ط/الجماعۃ ۷ (۲۳)، حم (۶/۱۷۸۴۶، ۲۳۱) (صحیح)
۳۷۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ بیٹھ کر صلاۃ پڑھتے تو قرأت بھی بیٹھ ہی کر کرتے ، پھر جب تیس یاچالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہوجاتے اورانہیں کھڑے ہوکر پڑھتے پھر رکوع اورسجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


375- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، وَهُوَ الْحَذَّاءُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: سَأَلْتُهَا عَنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ عَنْ تَطَوُّعِهِ، قَالَتْ: كَانَ يُصَلِّي لَيْلاً طَوِيلاً قَائِمًا، وَلَيْلاً طَوِيلاً قَاعِدًا، فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ جَالِسٌ رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ جَالِسٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المسافرین ۱۶ (۷۳۰)، د/الصلاۃ ۲۹۰ (۱۲۵۱)، ن/قیام اللیل ۱۸ (۱۶۴۷، ۱۶۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۰۷)، حم (۶/۳۰) (صحیح)
۳۷۵- عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺکی نفل صلاۃ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے کہا:آپ رات تک کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھتے اوردیرتک بیٹھ کرپڑھتے جب آپ کھڑے ہوکر قرأت کرتے تو رکوع اورسجدہ بھی کھڑے کھڑے کرتے اور جب بیٹھ کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ کرہی کرتے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
164-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ إِنِّي لأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فِي الصَّلاَةِ فَأُخَفِّفُ
۱۶۴- باب: نبی اکرمﷺ کے صلاۃمیں بچے کے رونے کی آواز سن کر صلاۃ ہلکی کردینے کا بیان​


376- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ:"وَاللهِ! إِنِّي لأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، وَأَنَا فِي الصَّلاَةِ، فَأُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَتَنَ أُمُّهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وراجع: خ/الأذان ۶۵ (۷۰۹، ۷۱۰)، م/الصلاۃ ۳۷ (۴۷۰)، ق/الإقامۃ ۴۹ (۹۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۲) (صحیح)
۳۷۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قسم ہے اللہ کی! جب صلاۃ میں ہوتا ہوں اوراُس وقت بچّے کا رونا سنتاہوں تو اس ڈر سے صلاۃ کو ہلکی کردیتا ہوں کہ اس کی ماں کہیں فتنے میں نہ مبتلا ہوجائے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوقتادہ ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ امام کوایسی صورت میں یا اسی طرح کی صورتوں میں بروقت صلاۃ ہلکی کردینی چاہئے،تاکہ بچوں کی مائیں ان کے رونے اورچلانے سے گھبرانہ جائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
165- بَاب مَا جَاءَ لاَ تُقْبَلُ صَلاَةُ الْمَرْأَةِ إِلاَّ بِخِمَارٍ
۱۶۵- باب: اوڑھنی کے بغیر عورت کی صلاۃ کے قبول نہ ہونے کا بیان​


377- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ صَفِيَّةَ ابْنَةِ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَ تُقْبَلُ صَلاَةُ الْحَائِضِ إِلاَّ بِخِمَارٍ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَقَوْلُهُ: الْحَائِضِ يَعْنِي الْمَرْأَةَ الْبَالِغَ، يَعْنِي إِذَا حَاضَتْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا أَدْرَكَتْ فَصَلَّتْ وَشَيْئٌ مِنْ شَعْرِهَا مَكْشُوفٌ لاَتَجُوزُ صَلاَتُهَا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، قَالَ: لاَ تَجُوزُ صَلاَةُ الْمَرْأَةِ وَشَيْئٌ مِنْ جَسَدِهَا مَكْشُوفٌ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَقَدْ قِيلَ: إِنْ كَانَ ظَهْرُ قَدَمَيْهَا مَكْشُوفًا فَصَلاَتُهَا جَائِزَةٌ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۸۵ (۶۴۱)، ق/الطہارۃ ۱۳۲ (۶۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۸۴۶)، حم (۶/۱۵۰، ۲۱۸، ۲۵۹) (صحیح)
۳۷۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بالغ عورت کی صلاۃ بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کی جاتی'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ جب عورت بالغ ہوجائے اورصلاۃپڑھے اور اس کے بال کا کچھ حصہ کھُلا ہوتو اس کی صلاۃ جائزنہیں، یہی شافعی کابھی قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عورت اس حال میں صلاۃ پڑھے کہ اس کے جسم کا کچھ حصہ کھلا ہوجائز نہیں، نیزشافعی یہ بھی کہتے ہیں کہ کہا گیا ہے : اگر اس کے دونوں پاؤں کی پُشت کھلی ہو تو صلاۃ درست ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ عورت کے سرکے بال سترمیں داخل ہیں، اورسترکوڈھکے بغیرصلاۃنہیں ہوتی ۔
وضاحت ۲؎ : اس مسئلہ میں اگرچہ علماء کا اختلاف ہے مگرتحقیقی بات یہی ہے کہ عورت کے قدم سترمیں داخل نہیں ہیں، اس لیے کھلے قدم صلاۃ ہوجائیگی جیسے ہتھیلیوں کے کھلے ہو نے کی صورت میں عورت کی صلاۃجائزہے،عورتوں کے پاؤں ڈھکنے کی حدیث جو ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، جو موقوفاً و مرفوعاً دونوں حالتوں میں ضعیف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
166-بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ السَّدْلِ فِي الصَّلاَةِ
۱۶۶- باب: صلاۃ میں سدل کی کراہت کا بیان​


378- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلاَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عِسْلِ بْنِ سُفْيَانَ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السَّدْلِ فِي الصَّلاَةِ فَكَرِهَ بَعْضُهُمْ السَّدْلَ فِي الصَّلاَةِ، وَقَالُوا: هَكَذَا تَصْنَعُ الْيَهُودُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا كُرِهَ السَّدْلُ فِي الصَّلاَةِ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ، فَأَمَّا إِذَا سَدَلَ عَلَى الْقَمِيصِ فَلاَ بَأْسَ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَكَرِهَ ابْنُ الْمُبَارَكِ السَّدْلَ فِي الصَّلاَةِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۸۶ (۶۴۳)، (تعلیقا من طریق عسل عن عطاء، ومتصلاً من طریق سلیمان الأحول عن عطاء) (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۹۵)، دي/الصلاۃ ۱۰۴ (۱۴۱۹) (حسن)
(عسل بن سفیان بصری ضعیف راوی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، لیکن ابوجحیفہ کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہے )
۳۷۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے صلاۃ میں سدل کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - ہم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کوعطاکی روایت سے جسے انہوں نے ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی ہے عسل بن سفیان ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ ۳-سدل کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے: بعض لوگ کہتے ہیں کہ صلاۃ میں سدل کرنا مکروہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس طرح یہود کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ صلاۃ میں سدل اس وقت مکروہ ہوگا جب جسم پر ایک ہی کپڑا ہو، رہی یہ بات کہ جب کوئی کُرتے کے اوپرسدل کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۲؎ یہی احمد کا قول ہے لیکن ابن المبارک نے صلاۃ میں سدل کو (مطلقاً) مکروہ قرار دیاہے۔
وضاحت ۱؎ : سدل کی صور ت یہ ہے کہ چادریارومال وغیر ہ کو اپنے سر یا دونوں کندھوں پر ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو لٹکتا چھوڑ دیا جائے اورسدل کی ایک تفسیریہ بھی کی جاتی ہے کہ کُرتایا جبہ اس طرح پہناجائے کہ دونوں ہاتھ آستین میں ڈالنے کے بجائے اندر ہی رکھے جائیں اوراسی حالت میں رکوع اورسجدہ کیاجائے۔
وضاحت ۲؎ : اس تقییدپر کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مطلق ہے اس لیے کہ سدل مطلقاًجائزنہیں،کرتے کے اوپرسے سدل میں اگرچہ سترکھلنے کا خطرہ نہیں ہے لیکن اس سے صلاۃ میں خلل تو پڑتاہی ہے ، چاہے سدل کی جوبھی تفسیرکی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
167- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَسْحِ الْحَصَى فِي الصَّلاَةِ
۱۶۷- باب: صلاۃ میں کنکری ہٹانے کی کراہت کا بیان​


379- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَلاَيَمْسَحِ الْحَصَى فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَيْقِيبٍ، وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَحُذَيْفَةَ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ كَرِهَ الْمَسْحَ فِي الصَّلاَةِ، وَقَالَ: إِنْ كُنْتَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَمَرَّةً وَاحِدَةً، كَأَنَّهُ رُوِيَ عَنْهُ رُخْصَةٌ فِي الْمَرَّةِ الْوَاحِدَةِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۷۵ (۹۴۵)، ن/السہو ۷ (۱۱۹۲)، ق/الإقامۃ ۶۳ (۱۰۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۹۷)، دي/الصلاۃ ۱۱۰ (۱۴۲۸) (ضعیف)
(ابوالأحوص لین الحدیث ہیں)
۳۷۹- ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''ـ جب تم میں سے کوئی صلاۃ کے لیے کھڑا ہو تو اپنے سامنے سے کنکریاں نہ ہٹائے ۱ ؎ کیونکہ اللہ کی رحمت اس کاسامناکررہی ہوتی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوذر کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں معیقیب ، علی بن ابی طالب، حذیفہ ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے صلاۃ میں کنکری ہٹانے کو ناپسند کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر ہٹانا ضروری ہوتو ایک بار ہٹا دے،گویا آپ سے ایک بار کی رخصت مروی ہے،۴- اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ مصلی صلاۃ میں صلاۃ کے علاوہ دوسری چیزوں کی طرف متوجہ نہ ہو، اس لیے کہ اللہ کی رحمت اس کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اگروہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ کرتا ہے تو اندیشہ ہے کہ اللہ کی رحمت اس سے روٹھ جائے اور وہ اس سے محروم رہ جائے اس لیے اس سے منع کیاگیاہے۔


380- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ مُعَيْقِيبٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنْ مَسْحِ الْحَصَى فِي الصَّلاَةِ؟ فَقَالَ:"إِنْ كُنْتَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَمَرَّةً وَاحِدَةً".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/العمل فی الصلاۃ ۸ (۱۲۰۷)، م/المساجد ۱۲ (۵۴۶)، د/الصلاۃ ۱۷۵ (۶۴۶)، ن/السہو ۸ (۱۱۹۳)، ق/الإقامۃ ۶۲ (۱۰۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۵)، حم (۳/۴۲۶)، و (۵/۴۲۵، ۴۲۶) دي/الصلاۃ ۱۱۰ (۱۴۲۷) (صحیح)
۳۸۰- معیقیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صلاۃ میں کنکری ہٹانے کے سلسلے میں رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا:'' اگر ہٹاناضروری ہی ہو توایک بار ہٹالو''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
168- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّفْخِ فِي الصَّلاَةِ
۱۶۸- باب: صلاۃ میں پھونک مارنے کی کراہت کا بیان​


381- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا مَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: رَأَى النَّبِيُّ ﷺ غُلاَمًا لَنَا يُقَالُ لَهُ: أَفْلَحُ إِذَا سَجَدَ نَفَخَ فَقَالَ: يَا أَفْلَحُ! تَرِّبْ وَجْهَكَ. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: وَكَرِهَ عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ النَّفْخَ فِي الصَّلاَةِ. وَقَالَ: إِنْ نَفَخَ لَمْ يَقْطَعْ صَلاَتَهُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ: وَبِهِ نَأْخُذُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَالَ: مَوْلًى لَنَا يُقَالُ لَهُ رَبَاحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۴۴) (ضعیف)
(سندمیں میمون ابوحمزہ القصاب ضعیف ہیں)
۳۸۱- ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ہمارے (گھرکے) ایک لڑکے کودیکھا جسے افلح کہاجاتاتھا کہ جب وہ سجدہ کرتاتو پھونک مارتاہے، توآپ نے فرمایا :''افلح ! اپنے چہرے کو گرد آلود ہ کر'' ۱؎ ۔
احمد بن منیع کہتے ہیں کہ عباد بن العوام نے صلاۃ میں پھونک مارنے کو مکروہ قراردیاہے اورکہا ہے کہ اگر کسی نے پھونک مارہی دی تواس کی صلاۃ باطل نہ ہوگی۔ احمد بن منیع کہتے ہیں کہ اسی کو ہم بھی اختیارکرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو بعض دیگر لوگوں نے ابوحمزہ کے واسطہ سے روایت کی ہے ۔ اور ''غُلاَمًا لَنَا يُقَالُ لَهُ أَفْلَحُ'' کے بجائے '' مَوْلًى لَنَا يُقَالُ لَهُ رَبَاحٌ '' (ہمارے مولیٰ کو جسے رباح کہاجاتاتھا)کہا ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ تواضع سے یہی زیادہ قریب ترہے۔


382- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي حَمْزَةَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَقَالَ: غُلاَمٌ لَنَا يُقَالُ لَهُ رَبَاحٌ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ، وَمَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ قَدْ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي النَّفْخِ فِي الصَّلاَةِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ نَفَخَ فِي الصَّلاَةِ اسْتَقْبَلَ الصَّلاَةَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُكْرَهُ النَّفْخُ فِي الصَّلاَةِ وَإِنْ نَفَخَ فِي صَلاَتِهِ لَمْ تَفْسُدْ صَلاَتُهُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۳۸۲- اس سندسے حمادبن زیدنے میمون ابی حمزہ سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے اور اس میں''غُلاَمٌ لَنَا يُقَالُ لَهُ رَبَاحٌ''ہے ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی سند کچھ زیادہ قوی نہیں ، میمون ابوحمزہ کو بعض اہل علم نے ضعیف قراردیا ہے، ۲- اورصلاۃ میں پھونک مارنے کے سلسلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص صلاۃ میں پھونک مارے تو وہ صلاۃدوبارہ پڑھے، یہی قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔اور بعض نے کہا ہے کہ صلاۃ میں پھونک مارنا مکروہ ہے ، اور اگرکسی نے اپنی صلاۃ میں پھونک مارہی دی تو اس کی صلاۃ فاسد نہ ہوگی ، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ کا قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
169- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الاِخْتِصَارِ فِي الصَّلاَةِ
۱۶۹- باب: صلاۃ میں کوکھ پرہاتھ رکھنے کی ممانعت کا بیان​


383- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الاِخْتِصَارَ فِي الصَّلاَةِ، وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَمْشِيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا، وَالاِخْتِصَارُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ عَلَى خَاصِرَتِهِ فِي الصَّلاَةِ أَوْ يَضَعَ يَدَيْهِ جَمِيعًا عَلَى خَاصِرَتَيْهِ، وَيُرْوَى أَنَّ إِبْلِيسَ إِذَا مَشَى مَشَى مُخْتَصِرًا.
* تخريج: خ/العمل فی الصلاۃ ۱۷ (۱۲۲۰)، م/المساجد ۱۱ (۵۴۵)، د/الصلاۃ ۱۷۶ (۹۴۷)، ن/الافتتاح ۱۲ (۸۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۶۰)، حم (۲/۲۳۲، ۲۹۰، ۲۹۵، ۳۳۱، ۳۹۹)، دي/الصلاۃ ۱۳۸ (۱۴۶۸) (صحیح)
۳۸۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے کوکھ پرہاتھ رکھ کر صلاۃپڑھنے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- بعض اہل علم نے صلاۃ میں کوکھ پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ قراردیا ہے، اوربعض نے آدمی کے کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چلنے کو مکروہ کہا ہے، اوراختصاریہ ہے کہ آدمی صلاۃ میں اپناہاتھ اپنی کوکھ پر رکھے، یا اپنے دونوں ہاتھ اپنی کوکھوں پر رکھے۔اور روایت کی جاتی ہے کہ شیطان جب چلتاہے تو کوکھ پرہاتھ رکھ کر چلتاہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ تکبرکی علامت ہے جب کہ صلاۃ اللہ کے حضور عجزونیازمندی کے اظہارکانام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
170- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ كَفِّ الشَّعْرِ فِي الصَّلاَةِ
۱۷۰- باب: جوڑا باندھے ہوئے صلاۃ پڑھنے کی کراہت کا بیان​


384- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ أَنَّهُ مَرَّ بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَهُوَ يُصَلِّي، وَقَدْ عَقَصَ ضَفِرَتَهُ فِي قَفَاهُ، فَحَلَّهَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الْحَسَنُ مُغْضَبًا فَقَالَ: أَقْبِلْ عَلَى صَلاَتِكَ وَلاَ تَغْضَبْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: ذَلِكَ كِفْلُ الشَّيْطَانِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: كَرِهُوا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ مَعْقُوصٌ شَعْرُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَعِمْرَانُ بْنُ مُوسَى هُوَ الْقُرَشِيُّ الْمَكِّيُّ وَهُوَ أَخُو أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى.
* تخريج: د/الصلاۃ ۸۸ (۶۴۶)، ق/الإقامۃ ۱۶۷ (۱۰۴۲)، (۶/۸، ۳۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۳۰)، دي/الصلاۃ ۱۰۵ (۱۴۲۰) (حسن)
۳۸۴- ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرے ، وہ صلاۃ پڑھ رہے تھے اوراپنی گدی پرجوڑا باندھ رکھا تھا، ابورافع رضی اللہ عنہ نے اسے کھول دیا ، حسن رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف غصہ سے دیکھا توانہوں نے کہا: اپنی صلاۃ پرتوجہ دو اور غصہ نہ کرو کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے سنا ہے کہ'' یہ شیطان کا حصہ ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابورافع رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ام سلمہ اورعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اسی پراہل علم کا عمل ہے۔ ان لوگوں نے اس بات کومکروہ کہاکہ صلاۃپڑھے اوروہ اپنے بالوں کاجوڑا باندھے ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : لیکن یہ مردوں کے لیے ہے ، عورتوں کو جوڑا باندھے ہوئے صلاۃ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ، عورتوں کو تونبی اکرم ﷺ نے غسل جنابت تک میں جوڑا کھولنے سے معاف کردیا ہے، صلاۃ میں عورت کے جوڑا کھولنے سے اس کے بال اوڑھنی سے باہر نکل سکتے ہیں جب کہ عورت کے بال صلاۃ کی حالت میں اوڑھنی سے باہر نکلنے سے صلاۃ باطل ہوجائے گی، نیز ہرصلاۃ کے وقت جوڑا کھول دینے اورصلاۃ کے بعد باندھ لینے میں پریشانی بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
171- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّخَشُّعِ فِي الصَّلاَةِ
۱۷۱- باب: صلاۃ میں خشوع خضوع کرنے کا بیان​


385- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"الصَّلاَةُ مَثْنَى مَثْنَى، تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَتَخَشَّعُ، وَتَضَرَّعُ، وَتَمَسْكَنُ، وَتَذَرَّعُ، وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ، يَقُولُ: تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ، مُسْتَقْبِلاً بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ، وَتَقُولُ: يَارَبِّ يَا رَبِّ! وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: و قَالَ غَيْرُ ابْنِ الْمُبَارَكِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يَقُولُ: رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، فَأَخْطَأَ فِي مَوَاضِعَ، فَقَالَ: عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، وَهُوَ عِمْرَانُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ، وَإِنَّمَا هُوَ عَبْدُاللهِ بْنُ نَافِعِ ابْنِ الْعَمْيَاءِ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، وَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْمُطَّلِبِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَإِنَّمَا هُوَ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ هُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ، يَعْنِي أَصَحَّ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف ورواہ النسائی في الکبری فی الصلاۃ (۱۱۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۴۳) (ضعیف)
(سندمیں عبداللہ بن نافع ضعیف ہیں)
۳۸۵- فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صلاۃدو دورکعت ہے اور ہر دورکعت کے بعد تشہد ہے، صلاۃخشوع وخضوع ،مسکنت اورگریہ وزاری کا اظہار ہے ،اور تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ۔یعنی تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھاؤ اس حال میں کہ ہتھیلیاں تمہارے منہ کی طرف ہوں اور کہہ: اے رب! اے رب! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابن مبارک کے علاوہ اورلوگوں نے اس حدیث میں ''مَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ'' (جس نے ایسانہیں کیا اس کی صلاۃناقص ہے)کہا ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ شعبہ نے یہ حدیث عبدربہ بن سعید سے روایت کی ہے اور ان سے کئی مقامات پرغلطیاں ہوئی ہیں:ایک تویہ کہ انہوں نے انس بن ابی انس سے روایت کی حالاں کہ وہ عمران بن ابی انس ہیں،دوسرے یہ کہ انہوں نے ''عن عبدالله بن حارث'' کہاہے حالانکہ وہ ''عبدالله بن نافع بن العمياء عن ربيعة بن الحارث''ہے، تیسرے یہ کہ شعبہ نے '' عن عبدالله بن الحارث عن المطلب عن النبي ﷺ'' کہا ہے حالانکہ صحیح ''عن ربيعة بن الحارث بن عبدالمطلب عن الفضل بن عباس عن النبي ﷺ '' ہے ۔محمدبن اسماعیل (بخاری) کہتے ہیں: لیث بن سعد کی حدیث صحیح ہے یعنی شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے(ورنہ اصلاً توضعیف ہی ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
172- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّشْبِيكِ بَيْنَ الأَصَابِعِ فِي الصَّلاَةِ
۱۷۲- باب: صلاۃ میں ایک ہاتھ کی انگلیوں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنے کی کراہت کا بیان​


386- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ:"إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ فَأَحْسَنَ وُضُوئَهُ، ثُمَّ خَرَجَ عَامِدًا إِلَى الْمَسْجِدِ فَلاَ يُشَبِّكَنَّ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، فَإِنَّهُ فِي صَلاَةٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ، مِثْلَ حَدِيثِ اللَّيْثِ. وَرَوَى شَرِيكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَحَدِيثُ شَرِيكٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
* تخريج: (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۲۱)، وأخرجہ حم (۴/۲۴۲)، ق/الإقامۃ ۴۲ (۹۶۷) (ضعیف)
(پہلی سند میں ایک راوی مبہم ہے، نیز اس سند میں سخت اضطراب بھی ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے، اور دوسری سند میں شریک القاضی ضعیف ہیں، جن کی حدیث کے بارے میں ترمذی کہتے ہیں کہ یہ غیر محفوظ ہے،لیکن اس حدیث کی اصل بسند اسماعیل بن امیہ عن سعید المقبری عن ابی ہریرہ مرفوعا صحیح ہے (سنن الدارمی :۱۴۱۳ ) و صححہ ابن خزیمۃ وقال الحاکم: صحیح علی شرطہما وقال المنذری : وفیما قالہ نظر ) تفصیل کے لیے دیکھئے : الار واء رقم: ۳۷۹)
۳۸۶- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح سے وضوکرے اور پھر مسجد کے ارادے سے نکلے تو وہ تشبیک نہ کرے (یعنی ایک ہاتھ کی اگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست نہ کرے) کیونکہ وہ صلاۃ میں ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- کعب بن عجرہ کی حدیث کو ابن عجلان سے کئی لوگوں نے لیث والی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۲- اورشریک نے بطریق : '' مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ'' اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے اورشریک کی روایت غیرمحفوظ ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ شریک نے لیث اوردیگرکئی لوگوں کی مخالفت کی ہے، نیز شریک کا حافظہ کمزورہوگیا تھا اور وہ روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے، اس کے برخلاف لیث بن سعد حددرجہ ثقہ ہیں۔
 
Top