28-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّدَقَةِ
۲۸-باب: صدقہ کی فضیلت کا بیان
661- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ وَلاَ يَقْبَلُ اللهُ إِلاَّ الطَّيِّبَ إِلاَّ أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً تَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فُلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، وَحَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَبُرَيْدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۸ (تعلیقا عقب حدیث رقم: ۱۴۱۰)، والتوحید ۲۳ (تعلیقا عقب حدیث رقم: ۷۴۳۰)، م/الزکاۃ ۱۹ (۱۰۱۴)، ن/الزکاۃ ۴۸ (۲۵۲۶)، ق/الزکاۃ ۲۸ (۱۸۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۷۹)، حم (۲/۳۳۱، ۴۱۸، ۵۳۸)، دي/الزکاۃ ۳۵ (۱۷۱۷) (صحیح) وأخرجہ : خ/الزکاۃ ۸ (۱۴۱۰)، والتوحید ۲۳ (۷۴۳۰)، وم/الزکاۃ (المصدر المذکور)، وحم (۲/۳۸۱، ۴۱۹، ۴۳۱، ۴۷۱، ۵۴۱) من غیر ہذا الطریق
۶۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اوراللہ پاکیزہ چیزہی قبول کرتاہے ۱؎ تو رحمن اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتاہے ۲؎ اگرچہ وہ ایک کھجورہی ہو، یہ مال صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہوجاتاہے ، جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یاگائے کے بچے کوپالتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام المومنین عائشہ ، عدی بن حاتم ، انس، عبداللہ بن ابی اوفیٰ ، حارثہ بن وہب ، عبدالرحمن بن عوف اوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حرام صدقہ اللہ قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ صدقہ دینے والا حرام کا مالک ہی نہیں ہوتا اس لیے اسے اس میں تصرف کر نے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
وضاحت ۲؎ : یمین کا ذکرتعظیم کے لیے ہے ورنہ رحمن کے دونوں ہاتھ یمین ہی ہیں۔
662- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ اللهَ يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ وَيَأْخُذُهَا بِيَمِينِهِ فَيُرَبِّيهَا لأَحَدِكُمْ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ مُهْرَهُ. حَتَّى إِنَّ اللُّقْمَةَ لَتَصِيرُ مِثْلَ أُحُدٍ". وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ {أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ} وَ {يَمْحَقُ اللهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا. وَقَدْ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَمَا يُشْبِهُ هَذَا مِنَ الرِّوَايَاتِ مِنَ الصِّفَاتِ. وَنُزُولِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا. قَالُوا: قَدْ تَثْبُتُ الرِّوَايَاتُ فِي هَذَا وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلاَ يُتَوَهَّمُ، وَلاَ يُقَالُ كَيْفَ؟. هَكَذَارُوِيَ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُمْ قَالُوا فِي هَذِهِ الأَحَادِيثِ: أَمِرُّوهَا بِلاَ كَيْفٍ. وَهَكَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ. وَأَمَّا الْجَهْمِيَّةُ فَأَنْكَرَتْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ وَقَالُوا: هَذَا تَشْبِيهٌ. وَقَدْ ذَكَرَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابهِ: الْيَدَ وَالسَّمْعَ وَالْبَصَرَ. فَتَأَوَّلَتْ الْجَهْمِيَّةُ هَذِهِ الآيَاتِ فَفَسَّرُوهَا عَلَى غَيْرِ مَا فَسَّرَ أَهْلُ الْعِلْمِ. وَقَالُوا: إِنَّ اللهَ لَمْ يَخْلُقْ آدَمَ بِيَدِهِ. وَقَالُوا: إِنَّ مَعْنَى الْيَدِ هَاهُنَا الْقُوَّةُ. وَ قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: إِنَّمَا يَكُونُ التَّشْبِيهُ إِذَا قَالَ: يَدٌ كَيَدٍ أَوْ مِثْلُ يَدٍ، أَوْ سَمْعٌ كَسَمْعٍ أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ. فَإِذَا قَالَ: سَمْعٌ كَسَمْعٍ، أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ فَهَذَا التَّشْبِيهُ. وَأَمَّا إِذَا قَالَ كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَدٌ وَسَمْعٌ وَبَصَرٌ، وَلاَ يَقُولُ كَيْفَ وَلاَ يَقُولُ مِثْلُ سَمْعٍ وَلاَ كَسَمْعٍ، فَهَذَا لاَ يَكُونُ تَشْبِيهًا. وَهُوَ كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابهِ: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۷)، وانظر: حم (۲/۲۶۸،۴۰۴) (منکر)
( ''
وتصدیق ذلک'' کے لفظ سے منکر ہے،عبادبن منصور اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے اوردوسرے کی روایتوں میں اس اضافہ کا تذکرہ نہیں ہے ، یعنی اس اضافہ کے بغیر حدیث صحیح ہے)
۶۶۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ صدقہ قبول کرتاہے اور اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتاہے اور اسے پالتاہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے کوپالتا ہے یہاں تک کہ لقمہ احدپہاڑ کے مثل ہوجاتا ہے۔ اس کی تصدیق اللہ کی کتاب (قرآن) سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے
{أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ } : ( کیا انھیں نہیں معلوم کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور صدقات لیتاہے ''۔ اور
{وَ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ} '' اللہ سود کو مٹاتاہے اور صدقات کو بڑھاتاہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نیز عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے بارے میں اور اس جیسی صفات کی دوسری روایات کے بارے میں اورباری تعالیٰ کے ہررات آسمان دنیاپر اترنے کے بارے میں کہاہے کہ '' اس سلسلے کی روایات ثابت ہیں، ان پر ایمان لایاجائے ، ان میں کسی قسم کا وہم نہ کیاجائے گا، اور نہ اس کی کیفیت پوچھی جائے ۔ اوراسی طرح مالک ، سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، ان لوگوں نے ان احادیث کے بارے میں کہاہے کہ ان حدیثوں کوبلا کیفیت جاری کرو ۱؎ اسی طرح کا قول اہل سنت والجماعت کے اہل علم کا ہے، البتہ جہمیہ نے ان روایات کا انکار کیاہے، وہ کہتے ہیں کہ ان سے تشبیہ لازم آتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے کئی مقامات پر ''ہاتھ، کان، آنکھ '' کا ذکر کیا ہے۔جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اوران کی ایسی تشریح کی ہے جو اہل علم کی تفسیرکے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا، دراصل ہاتھ کے معنی یہاں قوت کے ہیں۔اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: تشبیہ تو تب ہوگی جب کوئی کہے: ''يد كيد أو مثل يد '' یا
''سمع كسمع أو مثل سمع'' (یعنی اللہ کاہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح ہے، یاہمارے ہاتھ کے مانند ہے ، اس کا کان ہمارے کان کی طرح ہے یاہمارے کان کے مانند ہے) تویہ تشیبہ ہوئی۔ (نہ کہ صرف یہ کہنا کہ اللہ کا ہاتھ ہے، اس سے تشبیہ لازم نہیں آتی) اور جب کوئی کہے جیسے اللہ نے کہاہے کہ اس کے ہاتھ کا ن اورآنکھ ہے اوریہ نہ کہے کہ وہ کیسے ہیں اور نہ یہ کہے کہ فلاں کے کان کی مانند یا فلاں کے کان کی طرح ہے تو یہ تشبیہ نہیں ہوئی، یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا:
''لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ''( اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع ہے بصیر ہے)۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان پر ایمان لاؤاوران کی کیفیت کے بارے میں گفتگونہ کرو۔یہاں آج کل کے صوفیاء ومبتدعین کے عقائد کا بھی ردہوا ، یہ لوگ سلف صالحین کے برعکس اللہ کی صفات کی تاویل اورکیفیت بیان کرتے ہیں۔
663- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ:"شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ"، قِيلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَى لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِذَاكَ الْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۴۹) (ضعیف)
(سندمیں صدقہ بن موسیٰ حافظہ کے ضعیف راوی ہے)
۶۶۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے پوچھا گیاـ: رمضان کے بعد کون سا صوم افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''شعبان کے صیام جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہوں''، پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: ''رمضان میں صدقہ کرنا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- صدقہ بن موسیٰ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی راوی نہیں ہیں۔
664- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عِيسَى الْخَزَّارُ الْبَصْرِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِيتَةِ السُّوءِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹) (صحیح)
( حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے )
(سندمیں حسن بصری مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے، اورعبداللہ بن عیسیٰ الخزارضعیف ہیں لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں دیکھئے الصحیحۃ رقم:۱۹۰۸)
۶۶۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتاہے اور بری موت سے بچاتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔