• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ
۱۹-باب: زکاۃ وصول کرنے میں ظلم وزیادتی کرنے والے کا بیان​


646- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فِي سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ. وَهَكَذَا يَقُولُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. وَيَقُولُ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ وَابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسٍ. قَالَ: و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: وَالصَّحِيحُ سِنَانُ بْنُ سَعْدٍ. وَقَوْلُهُ:"الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا" يَقُولُ: عَلَى الْمُعْتَدِي مِنْ الإِثْمِ كَمَا عَلَى الْمَانِعِ إِذَا مَنَعَ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۴ (۱۵۸۵)، ق/الزکاۃ ۱۴ (۱۸۰۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۷) (حسن)
۶۴۶- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''زکاۃ وصول کرنے میں ظلم وزیادتی کرنے والا زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے''۔اما م ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابن عمر، ام سلمہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- انس کی حدیث اس سند سے غریب ہے، ۳- احمد بن حنبل نے سعد بن سنان کے سلسلہ میں کلام کیاہے۔ اسی طرح لیث بن سعد بھی کہتے ہیں۔ وہ بھی''عن يزيد بن حبيب، عن سعد بن سنان، عن أنس بن مالك'' کہتے ہیں، اور عمروبن حارث اور ابن لہیعہ ''عن يزيد بن حبيب، عن سنان بن سعد، عن أنس بن مالك''کہتے ہیں ۱؎ ، ۴- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ صحیح'' سنان بن سعد'' ہے،۵- او ر زکاۃ وصول کرنے میں زیادتی کرنے والازکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے کا مطلب یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے پر وہی گناہ ہے جو نہ دینے والے پر ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی یزیدبن ابی حبیب اورانس کے درمیان جوراوی ہیں ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے، لیث بن سعدنے ''سعدبن سنان'' کہا ہے اورعمروبن حارث اورلہیعہ نے ''سنان بن سعد''کہاہے ،امام بخاری نے عمروبن حارث اورابن لہیعہ کے قول کوصحیح کہاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي رِضَا الْمُصَدِّقِ
۲۰-باب: زکاۃ وصول کرنے والے کی رضامندی کا بیان​


647- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"إِذَا أَتَاكُمْ الْمُصَدِّقُ فَلاَ يُفَارِقَنَّكُمْ إِلاَّ عَنْ رِضًا".
* تخريج: م/الزکاۃ ۵۵ (۹۸۹)، ن/الزکاۃ ۱۴ (۲۴۶۳)، ق/الزکاۃ ۱۱ (۱۸۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۱۵)، حم (۴/۳۶۰، ۳۶۱، ۳۶۴، ۳۶۵) (صحیح)
۶۴۷- جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''جب زکاۃ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ تم سے راضی اورخوش ہوکرہی جدا ہو''۔
648- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَرِيرٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، بِنَحْوِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ دَاوُدَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ. وَقَدْ ضَعَّفَ مُجَالِدًا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ كَثِيرُ الْغَلَطِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۶۴۸- اس سند سے بھی جریر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: داود کی شعبی سے روایت کی ہوئی حدیث مجالد کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، مجالد کو بعض اہل علم نے ضعیف گرداناہے وہ کثیر الغلط ہیں یعنی ان سے بکثرت غلطیاں ہوتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الصَّدَقَةَ تُؤْخَذُ مِنْ الأَغْنِيَاءِ فَتُرَدُّ فِي الْفُقَرَاءِ
۲۱-باب: مالداروں سے صدقہ لے کر فقراء ومساکین کو لوٹانے کا بیان​


649- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ ﷺ. فَأَخَذَ الصَّدَقَةَ مِنْ أَغْنِيَائِنَا فَجَعَلَهَا فِي فُقَرَائِنَا. وَكُنْتُ غُلاَمًا يَتِيمًا، فَأَعْطَانِي مِنْهَا قَلُوصًا.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۰۴) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں اشعث بن سوارضعیف ہیں، لیکن مسئلہ یہی ہے جو دیگر دلائل سے ثابت ہے)
۶۴۹- ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہﷺ کا مصدق(زکاۃ وصول کرنے والا) آیا اوراس نے زکاۃ ہمارے مال داروں سے لی اوراسے ہمارے فقراء کو دے دیا۔میں اس وقت ایک یتیم لڑکا تھا، تواس نے مجھے بھی اس میں سے ایک اونٹنی دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوجحیفہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ مَنْ تَحِلُّ لَهُ الزَّكَاةُ
۲۲- باب: زکاۃ کس کے لیے جائز ہے؟​


650- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، وَقَالَ عَلِيٌّ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ (وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ) عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيْهِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَسْأَلَتُهُ فِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ، أَوْ خُدُوشٌ، أَوْ كُدُوحٌ". قِيلَ: يَارَسُولَ اللهِ! وَمَا يُغْنِيهِ قَالَ:"خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنْ الذَّهَبِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۲۳ (۱۶۲۶)، ن/الزکاۃ ۸۷ (۲۵۹۳)، ق/الزکاۃ ۲۶ (۱۸۴۰)، (تحفۃ الأشراف: ۹۳۸۷) (صحیح)
(سندمیں حکیم بن جبیراورشریک القاضی دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن اگلی روایت میں زبیدکی متابعت کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے )
۶۵۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو لوگوں سے سوال کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اُسے سوال کرنے سے بے نیازکردے تو وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کا سوال کرنا اس کے چہرے پر خراش ہوگی ۱؎ ، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کتنے مال سے وہ سوال کرنے سے بے نیازہوجاتاہے؟ آپ نے فرمایا: ''پچاس درہم یا اس کی قیمت کے بقدر سونے سے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن مسعود کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے، ۳- شعبہ نے اسی حدیث کی وجہ سے حکیم بن جبیر پرکلام کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : راوی کو شک ہے کہ آپ نے خموش کہا یا خدوش یا کدوح سب کے معنی تقریباً خراش کے ہیں ، بعض حضرات خدوش ، خموش اورکدوح کو مترادف قراردے کرشک راوی پرمحمول کرتے ہیں اوربعض کہتے ہیں کہ یہ زخم کے مراتب ہیں کم درجے کا زخم کدوح پھرخدوش اور پھرخموش ہے۔


651- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ. فَقَالَ لَهُ عَبْدُاللهِ بْنُ عُثْمَانَ صَاحِبُ شُعْبَةَ: لَوْ غَيْرُ حَكِيمٍ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ. فَقَالَ لَهُ سُفْيَانُ: وَمَا لِحَكِيمٍ لاَ يُحَدِّثُ عَنْهُ شُعْبَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ سُفْيَانُ: سَمِعْتُ زُبَيْدًا يُحَدِّثُ بِهَذَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِنَا. وَبِهِ يَقُولُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. قَالُوا: إِذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ خَمْسُونَ دِرْهَمًا، لَمْ تَحِلَّ لَهُ الصَّدَقَةُ.
قَالَ: وَلَمْ يَذْهَبْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى حَدِيثِ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ. وَوَسَّعُوا فِي هَذَا وَقَالُوا: إِذَا كَانَ عِنْدَهُ خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ أَكْثَرُ، وَهُوَ مُحْتَاجٌ، فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ الزَّكَاةِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ وَالْعِلْمِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۶۵۱- سفیان نے بھی حکیم بن جبیرسے یہ حدیث اسی سند سے روایت کی ہے۔
جب سفیان نے یہ حدیث روایت کی تو ان سے شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے کہا : کاش حکیم کے علاوہ کسی اورنے اس حدیث کوبیان کیا ہوتا، توسفیان نے ان سے پوچھاـ: کیا بات ہے کہ شعبہ حکیم سے حدیث روایت نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ نہیں کرتے۔تو سفیان نے کہا: میں نے اسے زبید کومحمد بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے سناہے، اوراسی پر ہمارے بعض اصحاب کاعمل ہے اوریہی سفیان ثوری ، عبداللہ بن مبارک ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،ان لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی کے پاس پچاس درہم ہوں تو اس کے لئے زکاۃ جائز نہیں۔ اوربعض اہل علم حکیم بن جبیر کی حدیث کی طرف نہیں گئے ہیں بلکہ انہوں نے اس میں مزید گنجائش رکھی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب کسی کے پاس پچاس درہم یا اس سے زیادہ ہوں اور وہ ضرورت مند ہو تو اس کو زکاۃ لینے کا حق ہے، اہل فقہ واہل حدیث میں سے شافعی وغیرہ کایہی قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23-بَاب مَا جَاءَ مَنْ لاَ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ
۲۳-باب: زکاۃ لینا کس کس کے لئے جائز نہیں؟​


652- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، ح و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ رَيْحَانَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"لاَتَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، وَقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ <لاَ تَحِلُّ الْمَسْأَلَةُ لِغَنِيٍّ وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ> وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ قَوِيًّا مُحْتَاجًا وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ شَيْئٌ فَتُصُدِّقَ عَلَيْهِ أَجْزَأَ عَنْ الْمُتَصَدِّقِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَوَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى الْمَسْأَلَةِ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۲۳ (۱۶۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۲۶)، حم (۲/۱۶۴)، دي/الزکاۃ ۱۵ (۱۶۷۹) (صحیح)
۶۵۲- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''کسی مالدار کے لیے مانگناجائزنہیں اور نہ کسی طاقتوراور صحیح سالم شخص کے لیے مانگنا جائزہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن عمرو کی حدیث حسن ہے،۲- اور شعبہ نے بھی یہ حدیث اسی سند سے سعد بن ابراہیم سے روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیاہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ ،حبشی بن جنادہ اور قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اوراس حدیث کے علاوہ میں نبی اکرمﷺسے مروی ہے کہ ''کسی مالدار کے لئے مانگنا جائز نہیں اورنہ کسی ہٹے کٹے کے لیے مانگنا جائز ہے'' اور جب آدمی طاقتور وتوانا ہو لیکن محتاج ہواور اس کے پاس کچھ نہ ہو اور اسے صدقہ دیا جائے تو اہل علم کے نزدیک اس دینے والے کی زکاۃ اداہوجائے گی۔بعض اہل علم نے اس حدیث کی توجیہ یہ کی ہے کہ '' لا تحل له الصدقة'' کا مطلب ہے کہ اس کے لئے مانگنا درست نہیں ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ''ذی مرّۃ ''کے معنی ذی قوّۃ کے ہیں اور''سویّ ''کے معنی جسمانی طورپر صحیح وسالم کے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : یعنی'' لا تحل له الصدقة''میں صدقہ مسئلہ (مانگنے )کے معنی میں ہے۔


653- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ السَّلُولِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ. أَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِطَرَفِ رِدَائِهِ، فَسَأَلَهُ إِيَّاهُ فَأَعْطَاهُ، وَذَهَبَ فَعِنْدَ ذَلِكَ حَرُمَتِ الْمَسْأَلَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:"إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لاَ تَحِلُّ لِغَنِيٍّ، وَلاَ لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ، إِلاَّ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ، وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيُقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُكْثِرْ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۱) (صحیح)
(سندمیں مجالدضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح لغیرہ ہے ، صحیح الترغیب ۸۰۲، وتراجع الألبانی ۵۵۷)
۶۵۳- حبشی بن جنادہ سلولی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو حجۃ الوداع میں فرماتے سناآپ عرفہ میں کھڑے تھے، آپ کے پاس ایک اعرابی آیا اور آپ کی چادر کا کنارا پکڑ کر آپ سے مانگا، آپ نے اسے دیااور وہ چلاگیا، اس وقت مانگنا حرام ہوا،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''کسی مال دار کے لیے مانگنا جائز نہیں نہ کسی ہٹے کٹے صحیح سالم آدمی کے لیے سوائے جان لیوافقر والے کے اورکسی بھاری تاوان میں دبے شخص کے ۔ اورجو لوگوں سے اس لیے مانگے کہ اس کے ذریعہ سے اپنا مال بڑھائے تو یہ مال قیامت کے دن اس کے چہرے پر خراش ہوگا۔اوروہ جہنم کا ایک گرم پتھر ہوگا جسے وہ کھارہاہو گا، تو جو چاہے اسے کم کرلے اور جوچاہے زیادہ کرلے'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : مانگنے کی عادت اختیارکرنے والوں کو اس وعید پر غوروفکرکرناچاہئے ، بالخصوص دینِ حق کی اشاعت ودعوت کا کام کرنے والے داعیان ومبلغین کو۔


654- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدِالرَّحِيمِ بْنِ سُلَيْمَانَ، نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
(اس میں بھی مجالد ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناپر صحیح لغیرہ ہے)
۶۵۴- اس سند سے بھی عبدالرحیم بن سلیمان سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ مَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ مِنَ الْغَارِمِينَ وَغَيْرِهِمْ
۲۴-باب: قرض داروں اوردیگرلوگوں میں سے کس کس کے لیے زکاۃ حلال ہے؟​


655- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِاللهِ عَنْ، أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا فَكَثُرَ دَيْنُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ" فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِغُرَمَائِهِ:"خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ، وَلَيْسَ لَكُمْ إِلاَّ ذَلِكَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَجُوَيْرِيَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/المساقاۃ (۱۵۵۶)، د/البیوع ۶۰ (۳۴۶۹)، ن/البیوع ۳۰ (۴۵۳۴)، و۹۴ (۴۶۸۲)، ق/الأحکام ۲۵ (۲۳۵۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۷۰)، حم (۳/۳۶) (صحیح)
۶۵۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک شخص ۱؎ کے پھلوں میں جو اس نے خریدے تھے، کسی آفت کی وجہ سے جو اسے لاحق ہوئی نقصان ہوگیااور اس پر قرض زیادہ ہوگیا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اسے صدقہ دو'' چنانچہ لوگوں نے اسے صدقہ دیا، مگروہ اس کے قرض کی مقدار کو نہ پہنچا، تو رسول اللہﷺ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا: ''جتنا مل رہاہے لے لو، اس کے علاوہ تمہارے لیے کچھ نہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱-ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ، جویریہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ایک قول یہ ہے کہ اس سے مرادمعاذبن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّدَقَةِ لِلنَّبِيِّ ﷺ أَهْلِ بَيْتِهِ وَمَوَالِيهِ
۲۵-باب: نبی اکرمﷺ، اہل بیت اور آپ کے موالی سب کے لیے زکاۃ لینے کی حرمت​


656- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَيُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الضُّبَعِيُّ السَّدُوسِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا أُتِيَ بِشَيْئٍ سَأَلَ أَصَدَقَةٌ هِيَ أَمْ هَدِيَّةٌ، فَإِنْ قَالُوا: صَدَقَةٌ لَمْ يَأْكُلْ. وَإِنْ قَالُوا: هَدِيَّةٌ أَكَلَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ وَأَبِي عَمِيرَةَ (جَدِّ مُعَرِّفِ بْنِ وَاصِلٍ وَاسْمُهُ رُشَيْدُ بْنُ مَالِكٍ) وَمَيْمُونِ أَوْ مِهْرَانَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي رَافِعٍ وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَقِيلٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَجَدُّ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ اسْمُهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ حَيْدَةَ الْقُشَيْرِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ن/الزکاۃ ۹۸ (۲۶۱۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۸۶)، حم (۵/۵) (حسن صحیح)
۶۵۶- معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے : ''صدقہ ہے یا ہدیہ؟'' اگرلوگ کہتے کہ صدقہ ہے تو آپ نہیں کھاتے اور اگر کہتے کہ ہدیہ ہے تو کھالیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- بہز بن حکیم کی یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں سلمان ، ابوہریرہ، انس، حسن بن علی، ابوعمیرہ (معرّف بن واصل کے دادا ہیں ان کانام رشید بن مالک ہے)، میمون (یا مہران) ، ابن عباس ، عبداللہ بن عمرو ، ابورافع اور عبدالرحمن بن علقمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نیزیہ حدیث '' عبدالرحمن بن علقمة،سے بھی مروی ہے انہوں نے اسے عبدالرحمن بن أبي عقيل سے اور عبدالرحمن نے نبي ﷺ'' سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صدقہ اورہدیہ میں فرق یہ ہے کہ صدقہ سے آخرت کا ثواب مقصودہوتا ہے اوراس کا دینے والاباعزت اورلینے والا ذلیل وحاجت مند سمجھا جاتا ہے جب کہ ہدیہ سے ہدیہ کئے جانے والے کاتقرب مقصود ہوتا ہے اورہدیہ کرنے والی کی نظرمیں اس کے باعزت اور مکرم ہو نے کا پتہ چلتا ہے۔


657- حَدَّثَنَا مُحَمّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ رَجُلاً مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ عَلَى الصَّدَقَةِ. فَقَالَ لأَبِي رَافِعٍ: اصْحَبْنِي كَيْمَا تُصِيبَ مِنْهَا، فَقَالَ: لاَ، حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَأَسْأَلَهُ. فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: إِنَّ الصَّدَقَةَ لاَ تَحِلُّ لَنَا وَإِنَّ مَوَالِيَ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو رَافِعٍ مَوْلَى النَّبِيِّ ﷺ اسْمُهُ أَسْلَمُ، وَابْنُ أَبِي رَافِعٍ هُوَ عُبَيْدُاللهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ كَاتِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۲۹ (۱۶۵۰)، ن/الزکاۃ ۹۷ (۲۶۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۸)، حم (۶/۱۰) (صحیح)
۶۵۷- ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بنی مخزوم کے ایک شخص کوصدقہ کی وصولی پربھیجاتواس نے ابورافع سے کہا: تم میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی اس میں سے حصہ پاسکو،مگرانہوں نے کہا: نہیں، یہاں تک کہ میں جاکر رسول اللہﷺ سے پوچھ لوں، چنانچہ انہوں نے نبی اکرمﷺکے پاس جا کرپوچھا تو آپ نے فرمایا: ''ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں، اور قوم کے موالی بھی قوم ہی میں سے ہیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابورافع نبی اکرمﷺکے مولیٰ ہیں، ان کانام اسلم ہے اور ابن ابی رافع کا نام عبیداللہ بن ابی رافع ہے، وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے منشی تھے۔
وضاحت ۱؎ : اس اصول کے تحت ابورافع کے لیے صدقہ لیناجائزنہیں ہوا کیونکہ ابورافع رسول اللہﷺکے مولیٰ تھے، لہذا وہ بھی بنی ہاشم میں سے ہوئے اوربنی ہاشم کے لیے صدقہ لیناجائزنہیں ہے۔بنی ہاشم، بنی فاطمہ اورآل نبی کی طرف منسوب کرنے والے آج کتنے ہزار لوگ ہیں جولوگوں سے زکاۃ وصدقات کا مال مانگ مانگ کرکھاتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ''شاہ جی ''ہوتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّدَقَةِ عَلَى ذِي الْقَرَابَةِ
۲۶-باب: رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا بیان​


658- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَابِ، عَنْ عَمِّهَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ:"إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ. فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ، فَإِنَّهُ طَهُورٌ".
وَ قَالَ: الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ. وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ: صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالرَّبَابُ هِيَ أُمُّ الرَّائِحِ بِنْتُ صُلَيْعٍ. وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ. وَرَوَى شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ الرَّبَابِ. وَحَدِيثُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ عُيَيْنَةَ أَصَحُّ. وَهَكَذَا رَوَى ابْنُ عَوْنٍ وَهِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَابِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ.
* تخريج: د/الصوم ۲۱ (۲۳۵۵)، (بالشطر الأول فحسب)، ن/الزکاۃ ۸۲ (۲۵۸۳)، (بالشطر الثانی فحسب)، ق/الصیام ۲۵ (۱۶۹۹)، (بالشطر الأول)، والزکاۃ ۲۸ (۱۸۴۴)، (بالشطر الثانی)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۶)، حم (۴/۱۸، ۲۱۴)، دي/الزکاۃ ۳۸ (۱۷۲۳)، (بالشطر الثانی)
نیز دیکھئے رقم : ۶۹۵پہلا فقرہ صیام سے متعلق (ضعیف) ہے، سند میں رباب، أم الرائح لین الحدیث ہیں،اورصدقہ سے متعلق دوسرا فقرہ صحیح ہے، تراجع الالبانی ۱۳۲، والسراج المنیر ۱۸۷۳، ۱۸۷۴)
۶۵۸- سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی صیام افطارکرے تو کھجور سے افطارکرے،کیونکہ اس میں برکت ہے، اگرکھجور میسر نہ ہوتو پانی سے افطارکرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے''، نیز فرمایا: '' مسکین پر صدقہ ،صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ میں دوبھلائیاں ہیں، یہ صدقہ بھی ہے اورصلہ رحمی بھی''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلمان بن عامر کی حدیث حسن ہے، ۲- سفیان ثوری نے بھی عاصم سے بطریق : ''حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي ﷺ'' اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،۳- نیز شعبہ نے بطریق : '' عاصم، عن حفصة، عن سلمان بن عامر'' روایت کی ہے اوراس میں انہوں نے رباب کا ذکر نہیں کیاہے، ۴- سفیان ثوری اور ابن عیینہ کی حدیث ۱؎ زیادہ صحیح ہے، ۵- اسی طرح ابن عون اورہشام بن حسان نے بھی بطریق: ''حفصة، عن الرباب، عن سلمان بن عامر'' روایت کی ہے،۶- اس باب میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب ، جابر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : جس میں رباب کے واسطے کاذکرہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ
۲۷-باب: ما ل میں زکاۃ کے علاوہ بھی حق ہے​


659- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ: سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ عَنْ الزَّكَاةِ فَقَالَ:"إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ"، ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ} الآيَةَ.
* تخريج: ق/الزکاۃ ۳ (۱۷۸۹)، (لکن لفظہ ''لیس فی المال حق سوی الزکاۃ'')، دي/الزکاۃ ۱۳(۱۶۷۷) (ضعیف)
(سندمیں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف راوی ہے ،ابوحمزہ میمون بھی ضعیف ہیں، اورابن ماجہ کے یہاں اسودبن عامرکی جگہ یحییٰ بن آدم ہیں لیکن ان کی روایت شریک کے دیگر تلامذہ کے برخلاف ہے ،دونوں سیاق سے یہ ضعیف ہے)
۶۵۹- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا، یا نبی اکرمﷺسے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: '' مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے ۱؎ '' پھر آپ نے سورہ بقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ}( نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیرلو) ۲؎ الآیۃ۔
وضاحت ۱؎ : بظاہریہ حدیث '' ليس في المال حق سوى الزكاة ''کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ زکاۃ اللہ کا حق ہے اورمال میں زکاۃ کے علاوہ جودوسرے حقوق واجبہ ہیں ان کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے۔
وضاحت ۲؎ : پوری آیت اس طرح ہے:{لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ} (البقرة:177) (ساری اچھائی مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقۃً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اورنبیوں پر ایمان رکھنے والاہو،جومال سے محبت کرنے کے باوجودقرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اورسوال کرنے والے کودے غلاموں کو آزادکرنے صلاۃ کی پابندی اورزکاۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تو اسے پوراکرے تنگدستی دکھ درداورلڑائی کے وقت صبرکرے یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگارہیں)آیت سے استدلال اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ وجوہ میں مال دینے کا ذکرفرمایا ہے پھراس کے بعد صلاۃقائم کرنے اورزکاۃ دینے کاذکرکیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔


660- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الطُّفَيْلِ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:"إِنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ. وَأَبُو حَمْزَةَ مَيْمُونٌ الأَعْوَرُ يُضَعَّفُ. وَرَوَى بَيَانٌ وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ قَوْلَهُ وَهَذَا أَصَحُّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۶۶۰- فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں' ' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص نہیں ہے ۱؎ ، ۲- ابوحمزہ میمون الاعور کو ضعیف گرداناجاتا ہے، ۳- بیان اور اسماعیل بن سالم نے یہ حدیث شعبی سے روایت کی ہے اوراسے شعبی ہی کا قول قراردیا ہے اوریہی زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : '' إسناده ليس بذلك ''الفاظ جرح میں سے ہے، اس کاتعلق مراتب جرح کے پہلے مرتبہ سے ہے، جوسب سے ہلکا مرتبہ ہے، ایسے راوی کی حدیث قابل اعتبارہوتی ہے یعنی تقویت کے قابل اوراس کے لیے مزید روایات تلاش کی جاسکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28-بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الصَّدَقَةِ
۲۸-باب: صدقہ کی فضیلت کا بیان​


661- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ وَلاَ يَقْبَلُ اللهُ إِلاَّ الطَّيِّبَ إِلاَّ أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً تَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فُلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، وَحَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَبُرَيْدَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۸ (تعلیقا عقب حدیث رقم: ۱۴۱۰)، والتوحید ۲۳ (تعلیقا عقب حدیث رقم: ۷۴۳۰)، م/الزکاۃ ۱۹ (۱۰۱۴)، ن/الزکاۃ ۴۸ (۲۵۲۶)، ق/الزکاۃ ۲۸ (۱۸۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۳۷۹)، حم (۲/۳۳۱، ۴۱۸، ۵۳۸)، دي/الزکاۃ ۳۵ (۱۷۱۷) (صحیح) وأخرجہ : خ/الزکاۃ ۸ (۱۴۱۰)، والتوحید ۲۳ (۷۴۳۰)، وم/الزکاۃ (المصدر المذکور)، وحم (۲/۳۸۱، ۴۱۹، ۴۳۱، ۴۷۱، ۵۴۱) من غیر ہذا الطریق
۶۶۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: '' جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اوراللہ پاکیزہ چیزہی قبول کرتاہے ۱؎ تو رحمن اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتاہے ۲؎ اگرچہ وہ ایک کھجورہی ہو، یہ مال صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہوجاتاہے ، جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یاگائے کے بچے کوپالتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام المومنین عائشہ ، عدی بن حاتم ، انس، عبداللہ بن ابی اوفیٰ ، حارثہ بن وہب ، عبدالرحمن بن عوف اوربریدہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حرام صدقہ اللہ قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ صدقہ دینے والا حرام کا مالک ہی نہیں ہوتا اس لیے اسے اس میں تصرف کر نے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
وضاحت ۲؎ : یمین کا ذکرتعظیم کے لیے ہے ورنہ رحمن کے دونوں ہاتھ یمین ہی ہیں۔


662- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَءِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ اللهَ يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ وَيَأْخُذُهَا بِيَمِينِهِ فَيُرَبِّيهَا لأَحَدِكُمْ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ مُهْرَهُ. حَتَّى إِنَّ اللُّقْمَةَ لَتَصِيرُ مِثْلَ أُحُدٍ". وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ {أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ} وَ {يَمْحَقُ اللهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا. وَقَدْ قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَمَا يُشْبِهُ هَذَا مِنَ الرِّوَايَاتِ مِنَ الصِّفَاتِ. وَنُزُولِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا. قَالُوا: قَدْ تَثْبُتُ الرِّوَايَاتُ فِي هَذَا وَيُؤْمَنُ بِهَا وَلاَ يُتَوَهَّمُ، وَلاَ يُقَالُ كَيْفَ؟. هَكَذَارُوِيَ عَنْ مَالِكٍ وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُمْ قَالُوا فِي هَذِهِ الأَحَادِيثِ: أَمِرُّوهَا بِلاَ كَيْفٍ. وَهَكَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ. وَأَمَّا الْجَهْمِيَّةُ فَأَنْكَرَتْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ وَقَالُوا: هَذَا تَشْبِيهٌ. وَقَدْ ذَكَرَ اللهُ عَزَّوَجَلَّ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كِتَابهِ: الْيَدَ وَالسَّمْعَ وَالْبَصَرَ. فَتَأَوَّلَتْ الْجَهْمِيَّةُ هَذِهِ الآيَاتِ فَفَسَّرُوهَا عَلَى غَيْرِ مَا فَسَّرَ أَهْلُ الْعِلْمِ. وَقَالُوا: إِنَّ اللهَ لَمْ يَخْلُقْ آدَمَ بِيَدِهِ. وَقَالُوا: إِنَّ مَعْنَى الْيَدِ هَاهُنَا الْقُوَّةُ. وَ قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: إِنَّمَا يَكُونُ التَّشْبِيهُ إِذَا قَالَ: يَدٌ كَيَدٍ أَوْ مِثْلُ يَدٍ، أَوْ سَمْعٌ كَسَمْعٍ أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ. فَإِذَا قَالَ: سَمْعٌ كَسَمْعٍ، أَوْ مِثْلُ سَمْعٍ فَهَذَا التَّشْبِيهُ. وَأَمَّا إِذَا قَالَ كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَدٌ وَسَمْعٌ وَبَصَرٌ، وَلاَ يَقُولُ كَيْفَ وَلاَ يَقُولُ مِثْلُ سَمْعٍ وَلاَ كَسَمْعٍ، فَهَذَا لاَ يَكُونُ تَشْبِيهًا. وَهُوَ كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى فِي كِتَابهِ: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۸۷)، وانظر: حم (۲/۲۶۸،۴۰۴) (منکر)
( ''وتصدیق ذلک'' کے لفظ سے منکر ہے،عبادبن منصور اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے اوردوسرے کی روایتوں میں اس اضافہ کا تذکرہ نہیں ہے ، یعنی اس اضافہ کے بغیر حدیث صحیح ہے)
۶۶۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ صدقہ قبول کرتاہے اور اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتاہے اور اسے پالتاہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے کوپالتا ہے یہاں تک کہ لقمہ احدپہاڑ کے مثل ہوجاتا ہے۔ اس کی تصدیق اللہ کی کتاب (قرآن) سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے{أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ } : ( کیا انھیں نہیں معلوم کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور صدقات لیتاہے ''۔ اور{وَ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ} '' اللہ سود کو مٹاتاہے اور صدقات کو بڑھاتاہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نیز عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے اس حدیث کے بارے میں اور اس جیسی صفات کی دوسری روایات کے بارے میں اورباری تعالیٰ کے ہررات آسمان دنیاپر اترنے کے بارے میں کہاہے کہ '' اس سلسلے کی روایات ثابت ہیں، ان پر ایمان لایاجائے ، ان میں کسی قسم کا وہم نہ کیاجائے گا، اور نہ اس کی کیفیت پوچھی جائے ۔ اوراسی طرح مالک ، سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے، ان لوگوں نے ان احادیث کے بارے میں کہاہے کہ ان حدیثوں کوبلا کیفیت جاری کرو ۱؎ اسی طرح کا قول اہل سنت والجماعت کے اہل علم کا ہے، البتہ جہمیہ نے ان روایات کا انکار کیاہے، وہ کہتے ہیں کہ ان سے تشبیہ لازم آتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے کئی مقامات پر ''ہاتھ، کان، آنکھ '' کا ذکر کیا ہے۔جہمیہ نے ان آیات کی تاویل کی ہے اوران کی ایسی تشریح کی ہے جو اہل علم کی تفسیرکے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا، دراصل ہاتھ کے معنی یہاں قوت کے ہیں۔اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: تشبیہ تو تب ہوگی جب کوئی کہے: ''يد كيد أو مثل يد '' یا ''سمع كسمع أو مثل سمع'' (یعنی اللہ کاہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح ہے، یاہمارے ہاتھ کے مانند ہے ، اس کا کان ہمارے کان کی طرح ہے یاہمارے کان کے مانند ہے) تویہ تشیبہ ہوئی۔ (نہ کہ صرف یہ کہنا کہ اللہ کا ہاتھ ہے، اس سے تشبیہ لازم نہیں آتی) اور جب کوئی کہے جیسے اللہ نے کہاہے کہ اس کے ہاتھ کا ن اورآنکھ ہے اوریہ نہ کہے کہ وہ کیسے ہیں اور نہ یہ کہے کہ فلاں کے کان کی مانند یا فلاں کے کان کی طرح ہے تو یہ تشبیہ نہیں ہوئی، یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا: ''لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْئٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ''( اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع ہے بصیر ہے)۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان پر ایمان لاؤاوران کی کیفیت کے بارے میں گفتگونہ کرو۔یہاں آج کل کے صوفیاء ومبتدعین کے عقائد کا بھی ردہوا ، یہ لوگ سلف صالحین کے برعکس اللہ کی صفات کی تاویل اورکیفیت بیان کرتے ہیں۔


663- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ ﷺ أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ:"شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ"، قِيلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:"صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَصَدَقَةُ بْنُ مُوسَى لَيْسَ عِنْدَهُمْ بِذَاكَ الْقَوِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۴۹) (ضعیف)
(سندمیں صدقہ بن موسیٰ حافظہ کے ضعیف راوی ہے)
۶۶۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺسے پوچھا گیاـ: رمضان کے بعد کون سا صوم افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: ''شعبان کے صیام جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہوں''، پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا: ''رمضان میں صدقہ کرنا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- صدقہ بن موسیٰ محدثین کے نزدیک زیادہ قوی راوی نہیں ہیں۔


664- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عِيسَى الْخَزَّارُ الْبَصْرِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ عَنْ مِيتَةِ السُّوءِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۲۹) (صحیح)
( حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے )
(سندمیں حسن بصری مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے، اورعبداللہ بن عیسیٰ الخزارضعیف ہیں لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں دیکھئے الصحیحۃ رقم:۱۹۰۸)
۶۶۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتاہے اور بری موت سے بچاتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
 
Top