35- بَاب مَا جَاءَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ
۳۵-باب: صدقہ ٔ فطر کا بیان
673- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ ابْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ - إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللهِ ﷺ - صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ. فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، فَتَكَلَّمَ فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ إِنِّي لأَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ.
قَالَ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلاَ أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. يَرَوْنَ مِنْ كُلِّ شَيْئٍ صَاعًا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ . وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: مِنْ كُلِّ شَيْئٍ صَاعٌ إِلاَّ مِنْ الْبُرِّ، فَإِنَّهُ يُجْزِءُ نِصْفُ صَاعٍ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ . وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يَرَوْنَ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۲ (۱۵۰۵)، و۷۳ (۱۵۰۶)، و۷۵ (۱۵۰۸)، و۷۶ (۱۵۱۰)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۵)، د/الزکاۃ ۱۹ (۱۶۱۶)، ن/الزکاۃ ۳۸ (۲۵۱۵)، ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۹)، حم (۳/۲۳، ۷۳، ۹۸)، دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۴) (صحیح)
۶۷۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ -جب رسول اللہﷺ ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہء فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو، یاایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ توہم اسی طرح برابر صدقہء فطرنکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، توانہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتاہوں۔ تو لوگوں نے اسی کواختیارکرلیا یعنی لوگ دومدآدھاصاع گیہوں دینے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے ان کا خیال ہے کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے، یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے سوائے گیہوں کے، اس میں آدھا صاع کافی ہے،۴- یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا بھی قول ہے ۔اور اہل کوفہ کی بھی رائے ہے کہ گیہوں میں نصف صاع ہی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صدقہ فطرکی فرضیت رمضان کے آغازکے بعد عید سے صرف دوروز پہلے ۲ھمیں ہوئی، اس کی ادائیگی کاحکم بھی صلاۃ عیدسے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مندحضرات اس روزمانگنے سے بے نیازہوکرعام مسلمانوں کے ساتھ عیدکی خوشی میں شریک ہوسکیں، اس کی مقدارایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو، صدقہء فطرکے لیے صاحب نصاب ہوناضروری نہیں۔اورصاع ڈھائی کلوگرام کے برابرہوتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : ''صاعاً من طعام '' میں طعام سے مرادحنطۃ(گیہوں)ہے کیونکہ طعام کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولاجاتاتھاجب کہاجاتاہے : إذهب إلى سوق الطعام تو اس سے سوق الحنطۃ (گیہوں کابازار) ہی سمجھاجاتاتھا، اوربعض لوگوں نے کہا من طعام مجمل ہے اورآگے اس کی تفسیرہے، یہ عطف الخاص علی العام ہے۔
674- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ مُنَادِيًا فِي فِجَاجِ مَكَّةَ"أَلاَ إِنَّ صَدَقَةَ الْفِطْرِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ: مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ أَوْ سِوَاهُ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ .
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۴۸) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں سالم بن نوح حافظے کے ضعیف ہیں، مگر اس حدیث کی اصل ثابت ہے)
674/م- وَرَوَى عُمَرُ بْنُ هَارُونَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ. وَقَالَ: عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ مِينَاءَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ. حَدَّثَنَا جَارُودُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف الإسناد)
۶۷۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ایک شخص کو مکہ کی گلیوں میں منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ'' سنو! صدقۂ فطر ہرمسلمان مرد ہو یا عورت ، آزاد ہویا غلام، چھوٹاہو یا بڑا، گیہوں سے دومداور گیہوں کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- عمر بن ہارون نے یہ حدیث ابن جریج سے روایت کی، اور کہا:'' عباس بن میناء عن النبی ﷺ''پھرآگے اس حدیث کا کچھ حصہ ذکرکیا۔
675- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ. قَالَ: فَعَدَلَ النَّاسُ إِلَى نِصْفِ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَدِّ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، وَثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۷ (۱۵۱۱)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۴)، ن/الزکاۃ ۳۰ (۲۵۰۲)، و۳۱ (۲۵۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۰)، حم (۲/۵) (صحیح) وأخرجہ: خ/الزکاۃ ۷۰ (۱۵۰۳)، و۷۱ (۱۵۰۴)، و۷۴ (۱۵۰۷)، و۷۴ (۱۵۰۷)، و۷۸ (۱۵۱۲)، وم/الزکاۃ (المصدرالسابق)، ود/الزکاۃ ۱۹ (۱۶۱۱)، ون/الزکاۃ ۳۲ (۲۵۰۴)، و۳۳ (۲۵۰۵)، وق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۵، و۱۸۲۶)، (۵۲)، وحم (۲/۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷)، و دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۶۶۸)، من غیر ہذا الطریق عنہ، وانظر الحدیث الآتی۔
۶۷۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ ٔ فطر مرد، عورت ، آزاد اور غلام پر، ایک صاع کھجور ، یاایک صاع جوفرض کیا، راوی کہتے ہیں: پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کواس کے برابرکرلیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعید ، ابن عباس ، حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب کے دادا (یعنی ابوذباب) ، ثعلبہ بن ابی صعیر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
676- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ أَيُّوبَ. وَزَادَ فِيهِ (مِنْ الْمُسْلِمِينَ). وَرَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ (مِنْ الْمُسْلِمِينَ). وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ، لَمْ يُؤَدِّ عَنْهُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُؤَدِّي عَنْهُمْ، وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُسْلِمِينَ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۱) (صحیح)
۶۷۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاداور غلام ، مرد اورعورت پر فرض کیاہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- مالک نے بھی بطریق :
'' نافع، عن ابن عمر، عن النبي ﷺ '' ایوب کی حدیث کی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں
'' من المسلمين'' کا اضافہ ہے۔ ۳-اور دیگرکئی لوگوں نے نافع سے روایت کی ہے، اس میں
''من المسلمين'' کا ذکرنہیں ہے، ۴- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو وہ ان کا صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا۔ یہی مالک ، شافعی اور احمد کا قول ہے۔ اوربعض کہتے ہیں کہ وہ غلاموں کا صدقہ فطر اداکرے گا خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں، یہ ثوری ، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت میں لفظ
'' فَرضَ'' استعمال ہواہے جس کے معنی فرض اورلازم ہونے کے ہیں، اس سے معلوم ہواکہ صدقہ فطرفرض ہے بعض لوگوں نے
'' فَرضَ'' کو
''قَدَّرَ''کے معنی میں لیاہے لیکن یہ ظاہرکے سراسرخلاف ہے۔
ان لوگوں کا کہناہے کہ روایت میں
''من المسلمين'' کی قیداتفاقی ہے۔