• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29-بَاب مَا جَاءَ فِي حَقِّ السَّائِلِ
۲۹-باب: مانگنے والے کے حق کا بیان​


665- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ بُجَيْدٍ، وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ الْمِسْكِينَ لَيَقُومُ عَلَى بَابِي فَمَا أَجِدُ لَهُ شَيْئًا أُعْطِيْهِ إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنْ لَمْ تَجِدِي شَيْئًا تُعْطِينَهُ إِيَّاهُ إِلاَّ ظِلْفًا مُحْرَقًا، فَادْفَعِيهِ إِلَيْهِ فِي يَدِهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ بُجَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۳۳ (۱۶۶۷)، ن/الزکاۃ ۷۰ (۲۵۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۵)، حم (۶/۳۸۲- ۳۸۳)، وأخرجہ ط/صفۃ النبیﷺ ۵ (۸)، وحم (۷۰۴)، و (۶/۴۳۵)، من غیر ہذا الطریق والسیاق (صحیح)
۶۶۵- عبدالرحمن بن بجید کی دادی ام بجیدحوّا رضی اللہ عنہا (جورسول اللہﷺ سے بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی چیزنہیں ہوتی۔(تومیں کیا کروں؟)رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا:''اگر اسے دینے کے لئے تمہیں کوئی جلی ہوئی کھُرہی ملے تووہی اس کے ہاتھ میں دے دو'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام بجید رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، حسین بن علی، ابوہریرہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس میں مبالغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ سائل کو یوں ہی مت لوٹاؤجو بھی میسرہو اسے دیدو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب مَا جَاءَ فِي إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ
۳۰-باب: تالیف قلب اور قریب لانے کے مقصد سے زکاۃ میں سے خرچ کرنے کا بیان​


666- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: أَعْطَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَإِنَّهُ لأَبْغَضُ الْخَلْقِ إِلَيَّ: فَمَا زَالَ يُعْطِينِي حَتَّى إِنَّهُ لأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ بِهَذَا أَوْ شِبْهِهِ فِي الْمُذَاكَرَةِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ صَفْوَانَ رَوَاهُ مَعْمَرٌ وَغَيْرُهُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ قَالَ: أَعْطَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ. وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ أَصَحُّ وَأَشْبَهُ. إِنَّمَا هُوَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ صَفْوَانَ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي إِعْطَاءِ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ. فَرَأَى أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لاَيُعْطَوْا، وَقَالُوا: إِنَّمَا كَانُوا قَوْمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ كَانَ يَتَأَلَّفُهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ حَتَّى أَسْلَمُوا، وَلَمْ يَرَوْا أَنْ يُعْطَوْا الْيَوْمَ مِنْ الزَّكَاةِ عَلَى مِثْلِ هَذَا الْمَعْنَى. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ : مَنْ كَانَ الْيَوْمَ عَلَى مِثْلِ حَالِ هَؤُلاَءِ وَرَأَى الإِمَامُ أَنْ يَتَأَلَّفَهُمْ عَلَى الإِسْلاَمِ فَأَعْطَاهُمْ، جَازَ ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: م/الفضائل ۱۴ (۲۳۱۳)، (بلفظ ''عن ابن المسیب أن صفوان قال:...'')، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۴۴)، حم (۳/۴۰۱) و (۶/۴۶۵) (صحیح)
۶۶۶- صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حنین کے روز مجھے دیا ،آپ مجھے (فتح مکہ سے قبل) تمام مخلوق میں سب سے زیادہ مبغوض تھے، اوربرابر آپ مجھے دیتے رہے یہاں تک کہ آپ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہوگئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حسن بن علی نے مجھ سے اس حدیث یا اس جیسی چیزکومذاکرہ میں بیان کیا، ۲- اس باب میں ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- صفوان کی حدیث معمر وغیرہ نے زہری سے اور زہری نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے جس میں ''عن صفوان بن أمية '' کے بجائے ''أن صفوان بن أمية قال: اعطاني رسو الله ﷺ''ہے گویا یہ حدیث یونس بن یزیدکی حدیث سے زیادہ صحیح اور اشبہ ہے، یہ عن سعید بن المسیب عن صفوان کے بجائے '' عن سعيد بن مسيب أن صفوان''ہی ہے ۱؎ ،۴- جن کا دل رجھانا اورجن کو قریب لانا مقصودہو انھیں دینے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اکثر اہل علم کہتے ہیں کہ انہیں نہ دیاجائے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نبی اکرمﷺ کے زمانے کے چند لوگ تھے جن کی آپ تالیف قلب فرمارہے تھے یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئے لیکن اب اس طرح ہرکسی کو زکاۃ کا مال دینا جائزنہیں ہے، سفیان ثوری ، اہل کوفہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں ،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں اوربعض کہتے ہیں کہ اگر کوئی آج بھی ان لوگوں جیسی حالت میں ہو اور امام اسلام کے لیے اس کی تالیف قلب ضروری سمجھے اور اُسے کچھ دے تو یہ جائز ہے، یہ شافعی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ سعیدبن مسیب نے صفوان بن امیہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے اور راوی فلان عن فلان اسی وقت کہتاہے جب اس نے اس سے کچھ سنا ہو گو ایک ہی حدیث ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح مسلم میں ''أن صفوان قال'' ہی ہے)امام شافعی کا قول قابل قبول اور قابل عمل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُتَصَدِّقِ يَرِثُ صَدَقَتَهُ
۳۱-باب: صدقہ دینے والا اپنے صدقہ کا وارث ہوجائے توکیسا ہے؟​


667- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَطَاءِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي كُنْتُ تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ. وَإِنَّهَا مَاتَتْ. قَالَ:"وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ". قَالَتْ: يَارَسُولَ اللهِ! إِنَّهَا كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ. أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ:"صُومِي عَنْهَا". قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ:"نَعَمْ، حُجِّي عَنْهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لاَ يُعْرَفُ هَذَا مِنْ حَدِيثِ بُرَيْدَةَ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَعَبْدُاللهِ بْنُ عَطَاءِ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ ثُمَّ وَرِثَهَا حَلَّتْ لَهُ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّمَا الصَّدَقَةُ شَيْئٌ جَعَلَهَا لِلّهِ. فَإِذَا وَرِثَهَا فَيَجِبُ أَنْ يَصْرِفَهَا فِي مِثْلِهِ. وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَزُهَيْرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَطَاءِ.
* تخريج: م/الصوم ۲۷ (۱۱۴۹)، د/الزکاۃ ۳۱ (۱۶۵۶)، ق/الصدقات ۳ (۲۳۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۸۰)، حم (۵/۳۵۱، ۳۶۱) (صحیح)
۶۶۷- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺکے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں ایک عورت نے آپ کے پاس آکر کہا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی ماں کو ایک لونڈی صدقے میں دی تھی ،اب وہ مرگئیں (تواس لونڈی کا کیا ہوگا؟) آپ نے فرمایا: ''تمہیں ثواب بھی مل گیا اور میراث نے اُسے تمہیں لوٹا بھی دیا۔ اس نے پوچھا:اللہ کے رسول! میری ماں پر ایک ماہ کے صیام فرض تھے ، کیا میں ان کی طرف سے صیام رکھ لوں؟ آپ نے فرمایا:''تو ان کی طرف سے صوم رکھ لے''، اس نے پوچھا:اللہ کے رسول ! انہوں نے کبھی حج نہیں کیا، کیامیں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں ، ان کی طرف سے حج کرلے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بریدہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صرف اسی طریق سے جانی جاتی ہے۔ ۳- اکثر اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ آدمی جب کوئی صدقہ کرے پھر وہ اس کاوارث ہوجائے تو اس کے لئے وہ جائز ہے،۴- اوربعض کہتے ہیں: صدقہ توا س نے اللہ کی خاطر کیاتھالہذا جب اس کا وارث ہوجائے تو لازم ہے کہ پھر اُسے اسی کے راستے میں صرف کردے۔ (یہ زیادہ افضل ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْعَوْدِ فِي الصَّدَقَةِ
۳۲-باب: صدقہ دے کر واپس لینے کی کراہت کا بیان​


668- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ. حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ: أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللهِ، ثُمَّ رَآهَا تُبَاعُ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:"لاَ تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: ن/الزکاۃ ۱۰۰ (۲۶۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۲۶)، وأخرجہ : خ/الزکاۃ ۵۹ (۱۴۹۰)، والہبۃ ۳۰ (۲۶۲۳)، و۳۷ (۲۶۳۶)، والوصایا ۳۱ (۲۷۷۵)، والجہاد ۱۱۹ (۲۹۷۰)، و۱۳۷ (۳۰۰۳)، م/الہبات ۱ (۱۶۲۰)، ن/الزکاۃ ۱۰۰ (۲۶۱۶)، ق/الصدقات ۱ (۲۳۹۰)، ط/الزکاۃ ۲۶ (۴۹)، حم (۱/۴۰، ۵۴)، من غیر ہذا الطریق کما أخرجہ خ/الزکاۃ ۵۹ (۱۴۸۹)، ون/الزکاۃ ۱۰۰ (۲۶۱۸)، من مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (صحیح)
۶۶۸- عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھاکہ وہ گھوڑا بیچا جارہاہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرمﷺنے فرمایا:''اپنا صدقہ واپس نہ لو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ صدقہ دے کرواپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہاہے، لیکن جمہورنے اسے کراہت تنزیہی پرمحمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسااوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتاہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتاہے، نیز بظاہریہ حدیث ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث''لا تحل الصدقة إلا لخمسة لعامل عليها أو رجل اشتراها بما...الحديث''کے معارض ہے،تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پرمحمول کی جائیگی اور ابوسعید رضی اللہ عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اورابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33-بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّدَقَةِ عَنِ الْمَيِّتِ
۳۳-باب: میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا بیان​


669- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَجُلاً: قَالَ يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا فَأُشْهِدُكَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَبِهِ يَقُولُ أَهْلُ الْعِلْمِ. يَقُولُونَ: لَيْسَ شَيْئٌ يَصِلُ إِلَى الْمَيِّتِ إِلاَّ الصَّدَقَةُ وَالدُّعَاءُ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ إِنَّ لِي مَخْرَفًا يَعْنِي بُسْتَانًا.
* تخريج: خ/الوصایا ۲۰ (۲۷۶۲)، د/الوصایا ۱۵ (۲۸۸۲)، ن/الوصایا ۸ (۳۶۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۴) (صحیح)
۶۶۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہوچکی ہیں، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں توکیایہ ان کے لئے مفیدہوگا؟ آپ نے فرمایا: ''ہاں''، اس نے عرض کیا: میرا ایک باغ ہے، آپ گواہ رہئے کہ میں نے اُسے والدہ کی طرف سے صدقہ میں دے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق عمرو بن دینا ر عن عکرمہ عن النبیﷺ مرسلاً روایت کی ہے، ۳- اوریہی اہل علم بھی کہتے ہیں کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو میت کو پہنچتی ہوسوائے صدقہ اوردعاکے ۱؎ ، ۴- ''إِنَّ لِي مَخْرَفًا'' میں مخرفاً سے مراد باغ ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان دونوں کے سلسلہ میں اہل سنت والجماعت میں کوئی اختلاف نہیں، اختلاف صرف بدنی عبادتوں کے سلسلہ میں ہے جیسے صوم و صلاۃاورقرأت قرآن وغیرہ عبادتیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب فِي نَفَقَةِ الْمَرْأَةِ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا
۳۴-باب: عورت اپنے شوہر کے گھر سے خرچ کرے توکیساہے؟​


670- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ يَقُولُ:"لاَتُنْفِقُ امْرَأَةٌ شَيْئًا مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلاَّ بِإِذْنِ زَوْجِهَا". قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَلاَ الطَّعَامُ. قَالَ:"ذَاكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: ق/التجارات ۶۵ (۲۲۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۸۳)، حم (۵/۲۶۷) (حسن)
۶۷۰- ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہﷺ کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا: ''عورت اپنے شوہرکے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے ''، عرض کیاگیا : اللہ کے رسول ! اور کھانابھی نہیں؟ ۔ آپ نے فرمایا: ''یہ ہمارے مالوں میں سب سے افضل مال ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں سعد بن ابی وقاص ، اسماء بنت ابی بکر، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیرشوہرکی اجازت کے بیوی خرچ نہیں کرسکتی اوراگلی روایت میں اجازت کی قید نہیں،دونوں میں تطبیق اس طرح دی جائے گی کہ اجازت کی دوقسمیں ہیں اجازت قولی اوراجازت حالی، بعض دفعہ شوہر بغیر اجازت کے بیوی کے کچھ دے دینے پرراضی ہوتا ہے جیسے دیہات وغیرہ میں فقیروں کو عورتیں کچھ غلّہ اورآٹاوغیرہ دے دیاکرتی ہیں اور شوہراس پر ان کی کوئی گرفت نہیں کرتا۔


671- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:"إِذَا تَصَدَّقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، كَانَ لَهَا بِهِ أَجْرٌ، وَلِلزَّوْجِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلاَيَنْقُصُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ أَجْرِ صَاحِبِهِ شَيْئًا، لَهُ بِمَا كَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۵۴) (صحیح)
۶۷۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے صدقہ کرے تو اسے اس کا اجر ملتاہے اور اتناہی اجر اس کے شوہر کو بھی، اورخزانچی کو بھی، اور ان میں کسی کااجر دوسرے کے اجرکی وجہ سے کم نہیں کیا جاتا۔ شوہر کواس کے کمانے کا اجر ملتاہے اورعورت کواس کے خرچ کرنے کا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


672- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا الْمُؤَمَّلُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِذَا أَعْطَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا بِطِيبِ نَفْسٍ غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا مِثْلُ أَجْرِهِ لَهَا مَا نَوَتْ حَسَنًا، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لاَ يَذْكُرُ فِي حَدِيثِهِ عَنْ مَسْرُوقٍ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۱۷ (۱۴۲۵)، و۲۵ (۱۴۳۷)، و۲۶ (۱۴۳۹)، والبیوع ۱۲ (۲۰۶۵)، م/الزکاۃ ۲۵ (۱۰۲۴)، د/الزکاۃ ۴۴ (۱۶۸۵)، ن/الزکاۃ ۵۷ (۲۵۴۰)، ق/التجارات ۶۵ (۲۲۹۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۰۸)، حم (۶/۴۴، ۹۹، ۳۷۸) (صحیح)
۶۷۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے خوش دلی کے ساتھ بغیرفسادکی نیت کے کوئی چیز دے تو اسے مردکے ثواب کے برابرثواب ملے گا۔ اسے اپنی نیک نیتی کا ثواب ملے گا اورخازن کوبھی اسی طرح ثواب ملے گا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابووائل سے روایت کی ہے ، زیادہ صحیح ہے، عمرو بن مرہ اپنی روایت میں مسروق کے واسطے کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب مَا جَاءَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ
۳۵-باب: صدقہ ٔ فطر کا بیان​


673- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ ابْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ: كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ - إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللهِ ﷺ - صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ. فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُهُ حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، فَتَكَلَّمَ فَكَانَ فِيمَا كَلَّمَ بِهِ النَّاسَ إِنِّي لأَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ.
قَالَ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ. قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلاَ أَزَالُ أُخْرِجُهُ كَمَا كُنْتُ أُخْرِجُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. يَرَوْنَ مِنْ كُلِّ شَيْئٍ صَاعًا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ . وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: مِنْ كُلِّ شَيْئٍ صَاعٌ إِلاَّ مِنْ الْبُرِّ، فَإِنَّهُ يُجْزِءُ نِصْفُ صَاعٍ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ . وَأَهْلُ الْكُوفَةِ يَرَوْنَ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۲ (۱۵۰۵)، و۷۳ (۱۵۰۶)، و۷۵ (۱۵۰۸)، و۷۶ (۱۵۱۰)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۵)، د/الزکاۃ ۱۹ (۱۶۱۶)، ن/الزکاۃ ۳۸ (۲۵۱۵)، ق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۴۲۶۹)، حم (۳/۲۳، ۷۳، ۹۸)، دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۷۰۴) (صحیح)
۶۷۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ -جب رسول اللہﷺ ہمارے درمیان موجود تھے - صدقہء فطر ۱؎ میں ایک صاع گیہوں ۲؎ یا ایک صاع جو، یاایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر نکالتے تھے۔ توہم اسی طرح برابر صدقہء فطرنکالتے رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، توانہوں نے لوگوں سے خطاب کیا، اس خطاب میں یہ بات بھی تھی کہ میں شام کے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور کے برابر سمجھتاہوں۔ تو لوگوں نے اسی کواختیارکرلیا یعنی لوگ دومدآدھاصاع گیہوں دینے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے ان کا خیال ہے کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے، یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ہرچیز میں ایک صاع ہے سوائے گیہوں کے، اس میں آدھا صاع کافی ہے،۴- یہی سفیان ثوری اور ابن مبارک کا بھی قول ہے ۔اور اہل کوفہ کی بھی رائے ہے کہ گیہوں میں نصف صاع ہی ہے۔
وضاحت ۱؎ : صدقہ فطرکی فرضیت رمضان کے آغازکے بعد عید سے صرف دوروز پہلے ۲ھ؁میں ہوئی، اس کی ادائیگی کاحکم بھی صلاۃ عیدسے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورت مندحضرات اس روزمانگنے سے بے نیازہوکرعام مسلمانوں کے ساتھ عیدکی خوشی میں شریک ہوسکیں، اس کی مقدارایک صاع ہے خواہ کوئی بھی جنس ہو، صدقہء فطرکے لیے صاحب نصاب ہوناضروری نہیں۔اورصاع ڈھائی کلوگرام کے برابرہوتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : ''صاعاً من طعام '' میں طعام سے مرادحنطۃ(گیہوں)ہے کیونکہ طعام کا لفظ مطلقاً گیہوں کے معنی میں بولاجاتاتھاجب کہاجاتاہے : إذهب إلى سوق الطعام تو اس سے سوق الحنطۃ (گیہوں کابازار) ہی سمجھاجاتاتھا، اوربعض لوگوں نے کہا من طعام مجمل ہے اورآگے اس کی تفسیرہے، یہ عطف الخاص علی العام ہے۔


674- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَ مُنَادِيًا فِي فِجَاجِ مَكَّةَ"أَلاَ إِنَّ صَدَقَةَ الْفِطْرِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ: مُدَّانِ مِنْ قَمْحٍ أَوْ سِوَاهُ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ .
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۴۸) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں سالم بن نوح حافظے کے ضعیف ہیں، مگر اس حدیث کی اصل ثابت ہے)


674/م- وَرَوَى عُمَرُ بْنُ هَارُونَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ. وَقَالَ: عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ مِينَاءَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْحَدِيثِ. حَدَّثَنَا جَارُودُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ هَذَا الْحَدِيثَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف الإسناد)
۶۷۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ایک شخص کو مکہ کی گلیوں میں منادی کرنے کے لیے بھیجا کہ'' سنو! صدقۂ فطر ہرمسلمان مرد ہو یا عورت ، آزاد ہویا غلام، چھوٹاہو یا بڑا، گیہوں سے دومداور گیہوں کے علاوہ دوسرے غلوں سے ایک صاع واجب ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- عمر بن ہارون نے یہ حدیث ابن جریج سے روایت کی، اور کہا:'' عباس بن میناء عن النبی ﷺ''پھرآگے اس حدیث کا کچھ حصہ ذکرکیا۔


675- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللهِ ﷺ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ. قَالَ: فَعَدَلَ النَّاسُ إِلَى نِصْفِ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَدِّ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، وَثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي صُعَيْرٍ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۷ (۱۵۱۱)، م/الزکاۃ ۴ (۹۸۴)، ن/الزکاۃ ۳۰ (۲۵۰۲)، و۳۱ (۲۵۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۰)، حم (۲/۵) (صحیح) وأخرجہ: خ/الزکاۃ ۷۰ (۱۵۰۳)، و۷۱ (۱۵۰۴)، و۷۴ (۱۵۰۷)، و۷۴ (۱۵۰۷)، و۷۸ (۱۵۱۲)، وم/الزکاۃ (المصدرالسابق)، ود/الزکاۃ ۱۹ (۱۶۱۱)، ون/الزکاۃ ۳۲ (۲۵۰۴)، و۳۳ (۲۵۰۵)، وق/الزکاۃ ۲۱ (۱۸۲۵، و۱۸۲۶)، (۵۲)، وحم (۲/۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷)، و دي/الزکاۃ ۲۷ (۱۶۶۸)، من غیر ہذا الطریق عنہ، وانظر الحدیث الآتی۔
۶۷۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے صدقہ ٔ فطر مرد، عورت ، آزاد اور غلام پر، ایک صاع کھجور ، یاایک صاع جوفرض کیا، راوی کہتے ہیں: پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کواس کے برابرکرلیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعید ، ابن عباس ، حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب کے دادا (یعنی ابوذباب) ، ثعلبہ بن ابی صعیر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


676- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ حَدِيثِ أَيُّوبَ. وَزَادَ فِيهِ (مِنْ الْمُسْلِمِينَ). وَرَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ (مِنْ الْمُسْلِمِينَ). وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ، لَمْ يُؤَدِّ عَنْهُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُؤَدِّي عَنْهُمْ، وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُسْلِمِينَ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۱) (صحیح)
۶۷۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاداور غلام ، مرد اورعورت پر فرض کیاہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- مالک نے بھی بطریق : '' نافع، عن ابن عمر، عن النبي ﷺ '' ایوب کی حدیث کی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں '' من المسلمين'' کا اضافہ ہے۔ ۳-اور دیگرکئی لوگوں نے نافع سے روایت کی ہے، اس میں ''من المسلمين'' کا ذکرنہیں ہے، ۴- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو وہ ان کا صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا۔ یہی مالک ، شافعی اور احمد کا قول ہے۔ اوربعض کہتے ہیں کہ وہ غلاموں کا صدقہ فطر اداکرے گا خواہ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہوں، یہ ثوری ، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس روایت میں لفظ'' فَرضَ'' استعمال ہواہے جس کے معنی فرض اورلازم ہونے کے ہیں، اس سے معلوم ہواکہ صدقہ فطرفرض ہے بعض لوگوں نے'' فَرضَ'' کو''قَدَّرَ''کے معنی میں لیاہے لیکن یہ ظاہرکے سراسرخلاف ہے۔
ان لوگوں کا کہناہے کہ روایت میں ''من المسلمين'' کی قیداتفاقی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب مَا جَاءَ فِي تَقْدِيمِهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ
۳۶-باب: صلاۃِ عید سے پہلے صدقہ ٔ فطر ادا کرنے کا بیان​


677- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، أَبُو عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، عَنْ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَأْمُرُ بِإِخْرَاجِ الزَّكَاةِ قَبْلَ الْغُدُوِّ لِلصَّلاَةِ يَوْمَ الْفِطْرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ: أَنْ يُخْرِجَ الرَّجُلُ صَدَقَةَ الْفِطْرِ قَبْلَ الْغُدُوِّ إِلَى الصَّلاَةِ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۷۶ (۱۵۰۹)، م/الزکاۃ ۵ (۹۸۶)، د/الزکاۃ ۱۸ (۱۶۱۰)، ن/الزکاۃ ۴۵ (۲۵۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۵۲)، حم (۲/۱۵۱، ۱۵۵) (صحیح)
وأخرجہ : ن/الزکاۃ ۳۳ (۲۵۰۶) من غیر ہذا الطریق
۶۷۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺعید الفطر کے دن صلاۃ کے لیے جانے سے پہلے صدقہ فطر نکالنے کاحکم دیتے تھے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اور اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صدقہ فطر صلاۃ کے لیے جانے سے پہلے نکال دے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37-بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ
۳۷-باب: وقت سے پہلے زکاۃ دینے کا بیان​


678- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۲۱ (۱۶۲۴)، ق/الزکاۃ ۷ (۱۷۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۶۳)، دي/الزکاۃ ۱۲ (۱۶۷۶) (حسن)
۶۷۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے اپنی زکاۃ وقت سے پہلے دینے کے بارے میں پوچھا توآپ نے انہیں اس کی اجازت دی۔


679- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ دِينَارٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ جَحْلٍ، عَنْ حُجْرٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعُمَرَ:"إِنَّا قَدْ أَخَذْنَا زَكَاةَ الْعَبَّاسِ عَامَ الأَوَّلِ لِلْعَامِ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: لاَ أَعْرِفُ حَدِيثَ تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ . وَحَدِيثُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ زَكَرِيَّا عَنْ الْحَجَّاجِ، عِنْدِي، أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَعْجِيلِ الزَّكَاةِ قَبْلَ مَحِلِّهَا. فَرَأَى طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لاَ يُعَجِّلَهَا. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. قَالَ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ لاَ يُعَجِّلَهَا. و قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِنْ عَجَّلَهَا قَبْلَ مَحِلِّهَا أَجْزَأَتْ عَنْهُ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن)
۶۷۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ''ہم عباس سے اس سال کی زکاۃ گزشتہ سال ہی لے چکے ہیں''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- اسرائیل کی پہلے زکاۃ نکالنے والی حدیث کوجسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۳- اسماعیل بن زکریا کی حدیث جسے انہوں نے حجاج سے روایت کی ہے میرے نزدیک اسرائیل کی حدیث سے جسے انہوں نے حجاج بن دینار سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے، ۴- نیزیہ حدیث حکم بن عتیبہ سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے ،۵- اہل علم کا وقت سے پہلے پیشگی زکاۃ دینے میں اختلاف ہے، اہل علم میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ اسے پیشگی ادانہ کرے، سفیان ثوری اسی کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں: کہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ یہی ہے کہ اسے پیشگی ادانہ کرے، اوراکثر اہل علم کاکہنا ہے کہ اگر وقت سے پہلے پیشگی اداکر دے تو جائز ہے۔ شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اوریہی قول راجح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38-بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنِ الْمَسْأَلَةِ
۳۸-باب: دوسروں سے مانگنے کی ممانعت کا بیان​


680- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ بَيَانِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"لأَنْ يَغْدُوَ أَحَدُكُمْ فَيَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَتَصَدَّقَ مِنْهُ فَيَسْتَغْنِيَ بِهِ عَنْ النَّاسِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلاً، أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ ذَلِكَ، فَإِنَّ الْيَدَ الْعُلْيَا أَفْضَلُ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ وَعَطِيَّةَ السَّعْدِيِّ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَمَسْعُودِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عَبَّاسٍ وَثَوْبَانَ وَزِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ الصُّدَائِيِّ، وَأَنَسٍ وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ وَقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ وَسَمُرَةَ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ عَنْ قَيْسٍ.
* تخريج: م/الزکاۃ ۳۵ (۱۰۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۹۳) (صحیح) أخرجہ : خ/الزکاۃ ۵۰ (۴۷۰)، و۵۳ (۱۴۸۰)، والبیوع ۱۵ (۲۰۷۴)، والمساقاۃ ۱۳ (۲۳۷۴)، ون/الزکاۃ ۸۳ (۲۵۸۵)، و۸۵ (۲۵۹۰)، وق/الزکاۃ ۲۵ (۱۸۳۶)، وط/الصدقۃ ۲ (۱۰)، وحم (۲/۲۴۳، ۲۵۷، ۳۰۰، ۴۱۸، ۴۷۵، ۴۹۶) من غیر ہذا الطریق عنہ
۶۸۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ''تم میں سے کوئی شخص صبح سویرے جائے اور لکڑیوں کا گٹھراپنی پیٹھ پررکھ کر لائے اور اس میں سے (یعنی اس کی قیمت میں سے) صدقہ کرے اور اس طرح لوگوں سے بے نیاز رہے (یعنی ان سے نہ مانگے) اس کے لیے اس بات سے بہترہے کہ وہ کسی سے مانگے، وہ اسے دے یا نہ دے ۱؎ کیونکہ اوپر والاہاتھ نیچے والے ہاتھ سے افضل ہے ۲؎ ، اور پہلے اسے دو جس کی تم خود کفالت کرتے ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- وہ بیان کی حدیث سے جسے انہوں نے قیس سے روایت کی ہے غریب جانی جاتی ہے،۳- اس باب میں حکیم بن حزام،ابوسعید خدری ، زبیر بن عوام ، عطیہ سعدی، عبداللہ بن مسعود،مسعود بن عمرو، ابن عباس، ثوبان، زیاد بن حارث صدائی ، انس،حبشی بن جنادہ، قبیصہ بن مخارق ، سمرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : عزیمت کی راہ یہی ہے کہ آدمی ضرورت وحاجت ہو نے پر بھی کسی سے سوال نہ کر ے اگرچہ ضرورت وحاجت کے وقت سوال کرنا جائز ہے۔
وضاحت ۲؎ : اوپروالے ہاتھ سے مراددینے والاہاتھ ہے اورنیچے والے ہاتھ سے مراد لینے والاہاتھ ہے۔


681- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"إِنْ الْمَسْأَلَةَ كَدٌّ يَكُدُّ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ إِلاَّ أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ سُلْطَانًا أَوْ فِي أَمْرٍ لاَ بُدَّ مِنْهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۲۶ (۱۶۳۹)، ن/الزکاۃ ۹۲ (۲۶۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۱۴) (صحیح)
۶۸۱- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مانگنا ایک زخم ہے جس سے آدمی اپنا چہرہ زخمی کرلیتاہے، سوائے اس کے کہ آدمی حاکم سے مانگے ۱؎ یا کسی ایسے کام کے لیے مانگے جوضروری اورناگزیرہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : حاکم سے مانگنے کا مطلب بیت المال کی طرف رجوع کرنا ہے جو اس مقصد کے لیے ہوتا ہے کہ اس سے ضرورت مندکی آبرومندانہ کفالت کی جائے اگروہاں تک نہ پہنچ سکے تو ناگزیرحالات ومعاملات میں دوسروں سے سوال کرنا جائزہے۔


* * *​
 
Top