12- بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الْحُلِيِّ
۱۲-باب: زیور کی زکاۃ کا بیان
635- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ:"يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (بہذا السیاق وبہذا المناسبۃ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۸۷) وانظر: حم (۶/۳۶۳) (صحیح)
(اگلی حدیث (۶۳۶) سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )
۶۳۵- عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے خطاب کیااور فرمایا: ''اے گروہ عورتوں کی جماعت! زکاۃ دو ۱؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی''۔
وضاحت ۱؎ : مولف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مرادلی ہے کیونکہ
'' تصدقن'' امرکاصیغہ ہے اورامرمیں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے، لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پرمحمول کیا ہے اور اس سے مرادنفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کوہے جو وہاں موجودتھیں اوران میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی، یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہوگی اور اس سے زیورکی زکاۃ کے وجوب پراستدلال صحیح نہیں ہوگا۔
636- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ أَبَاوَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۴۸ (۱۴۶۶)، م/الزکاۃ ۱۴ (۱۰۰۰)، ن/الزکاۃ ۸۲ (۲۵۸۴)، (تحفۃ الأشراف: أیضا: ۱۵۸۸۷)، حم (۳/۵۰۲)، دي/الزکاۃ ۲۳ (۱۶۹۴) (صحیح)
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَهِمَ فِي حَدِيثِهِ فَقَالَ: عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ. وَالصَّحِيحُ إِنَّمَا هُوَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ إِبْنِ أَخِي زَيْنَبَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ رَأَى فِي الْحُلِيِّ زَكَاةً. وَفِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ مَقَالٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ. فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ فِي الْحُلِيِّ زَكَاةَ مَا كَانَ مِنْهُ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ. وَ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةُ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: لَيْسَ فِي الْحُلِيِّ زَكَاةٌ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
۶۳۶- اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کے واسطے سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔انہیں اپنی حدیث میں وہم ہوا ہے ۱؎ انہوں نے کہا ہے '' عمرو بن الحارث سے روایت ہے وہ عبداللہ بن مسعودکی بیوی زینب کے بھتیجے سے روایت کررہے ہیں'' اورصحیح یوں ہے ''زینب کے بھتیجے عمروبن حارث سے روایت ہے''، ۲- نیز عمروبن شعیب سے بطریق : ''
عن أبيه، عن جده ،عبدالله بن عمرو بن العاص عن النبي ﷺ '' روایت ہے کہ آپ نے زیورات میں زکاۃ واجب قرار دی ہے ۲؎ اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ۳- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم سونے چاندی کے زیورات میں زکاۃ کے قائل ہیں ۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک بھی یہی کہتے ہیں۔اوربعض صحابہ کرام جن میں ابن عمر ، عائشہ، جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم شامل ہیں،کہتے ہیں کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے۔ بعض تابعین فقہاء سے بھی اسی طرح مروی ہے،اوریہی مالک بن انس ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ انہوں نے عمروبن حارث اورعبداللہ بن مسعودکی بیوی زینب کے بھتیجے کو دوالگ الگ آدمی جانا ہے اور پہلا دوسرے سے روایت کررہا ہے جب کہ معاملہ ایسانہیں ہے بلکہ دونوں ایک ہی آدمی ہیں ''ابن اخی زینب''عمروبن حارث کی صفت ہے عمروبن حارث اورابن اخی زینب کے درمیان ''عن''کی زیادتی ابومعاویہ کا وہم ہے صحیح بغیر''عن'' کے ہے جیساکہ شعبہ کی روایت میں ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس سلسلہ میں بہتراورمناسب بات یہ ہے کہ استعمال کے لیے بنائے گئے زیورات اگرفخرومباہات ،اوراسراف وتبذیرکے لیے اورزکاۃ سے بچنے کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ ہے بصورت دیگران میں زکاۃ واجب نہیں ہے۔سونے کے زیورات کی زکاۃ کا نصاب ساڑھے سات تولے یعنی ۸۰گرام اصلی سوناہے کہ کم ازکم اتنے وزن اصلی سونے پر ایک سال گزرجائے تومالک ۵۰۔۲%کے حساب سے زکاۃ اداکرے ، زیورات میں اصلی سونا معلوم کرنے کا کلیہ قاعدہ (فارمولا) یوں ہے = کل وزن( ﷺ/۲۴) قیراط زیور مثلاً : آپ کے پاس (۲۱ ) قیراط میں بناہوا دس تولے سونا ہے اور آپ اس میں سے اصلی سونے کا وزن معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یوں دریافت کریں گے ۱۰ تولے ﷺ۲۱ (۳۵/۴=۸) تولے اور۹ماشے فرض کریں اصلی سونے کی قیمت اس وقت کہ جب مذکوربالا زیورپر ایک سال گزرگیا،دس ہزارروپے فی تولہ ہو تو ۹-۸ماشے تولے کی قیمت =/۸۷۵۰۰روپے ہوئی ، اس پر ۵۰۔۲%کے حساب سے =/۳۵۰۰روپے اداکرلیں، وعلی ہذا القیاس والأصول ، یا درکھیے اصلی خالص سونا ہال قیراط ہوتا ہے ،تفصیل کے لیے ''فقہ الزکاۃ''میں دیکھی جاسکتی ہے۔(ابویحیی)
637- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ أَتَتَا رَسُولَ اللهِ ﷺ وَفِي أَيْدِيهِمَا سُوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهُمَا:"أَتُؤَدِّيَانِ زَكَاتَهُ؟" قَالَتَا: لاَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللهُ بِسُوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟" قَالَتَا: لاَ، قَالَ:"فَأَدِّيَا زَكَاتَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، نَحْوَ هَذَا. وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ وَابْنُ لَهِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ وَلاَ يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۰) (حسن)
(یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، سندمیں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، مگر دوسری سند اوردوسرے سیاق سے یہ حدیث حسن ہے، الإرواء ۳/۲۹۶، صحیح ابی داود ۱۳۹۶)
۶۳۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دوعورتیں رسو ل اللہ ﷺ کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن تھے، توآپ نے ان سے فرمایا: ''کیا تم دونوں اس کی زکاۃ اداکرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تورسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: '' کیا تم پسند کروگی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دوکنگن پہنائے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''توتم دونوں ان کی زکاۃ اداکرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو مثنیٰ بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح روایت کیاہے اور مثنیٰ بن صباح اور ابن لہیعہ دونوں حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، نبی اکرمﷺسے اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔