• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الْعَسَلِ
۹-باب: شہد کی زکاۃ کا بیان​


629- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ. حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ التِّنِّيسِيُّ، عَنْ صَدَقَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ يَسَارٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"فِي الْعَسَلِ فِي كُلِّ عَشَرَةِ أَزُقٍّ زِقٌّ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَيَّارَةَ الْمُتَعِيِّ، وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ. وَلاَ يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ كَبِيرُ شَيْئٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : لَيْسَ فِي الْعَسَلِ شَيْئٌ وَصَدَقَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ لَيْسَ بِحَافِظٍ. وَقَدْ خُولِفَ صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ نَافِعٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۵۰۹) (صحیح)
(سندمیں صدقہ بن عبداللہ ضعیف راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے )
۶۲۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''شہد میں ہردس مشک پر ایک مشک زکاۃ ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابوہریرہ ، ابوسیارہ متعی اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی سند میں کلام ہے ۱؎ نبی اکرمﷺ سے اس باب میں کچھ زیادہ صحیح چیزیں مروی نہیں اوراسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ شہد میں کوئی زکاۃ نہیں ۲؎ ،۴- صدقہ بن عبداللہ حافظ نہیں ہیں۔ نافع سے اس حدیث کو روایت کرنے میں صدقہ بن عبداللہ کی مخالفت کی گئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس کی روایت میں صدقہ بن عبداللہ منفرد ہیں اوروہ ضعیف ہیں۔
وضاحت ۲؎ : امام بخاری اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں کہ شہدکی زکاۃ کے بارے میں کوئی چیز ثابت نہیں۔


630- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ. حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ قَالَ: سَأَلَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ عَنْ صَدَقَةِ الْعَسَلِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا عِنْدَنَا عَسَلٌ نَتَصَدَّقُ مِنْهُ وَلَكِنْ أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ أَنَّهُ قَالَ: لَيْسَ فِي الْعَسَلِ صَدَقَةٌ. فَقَالَ عُمَرُ: عَدْلٌ مَرْضِيٌّ فَكَتَبَ إِلَى النَّاسِ أَنْ تُوضَعَ يَعْنِي عَنْهُمْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۴۴۸) (صحیح الإسناد)
(سند صحیح ہے لیکن سابقہ حدیث کے مخالف ہے،دیکھئے : الإرواء رقم: ۸۱۰)
۶۳۰- نافع کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبدالعزیزنے شہد کی زکاۃ کے بارے میں پوچھاتومیں نے کہاکہ ہمارے پاس شہدنہیں کہ ہم اس کی زکاۃ دیں، لیکن ہمیں مغیرہ بن حکیم نے خبردی ہے کہ شہد میں زکاۃ نہیں ہے۔تو عمربن عبدالعزیزنے کہا: یہ مبنی بر عدل اورپسندیدہ بات ہے۔چنانچہ انہوں نے لوگوں کو لکھا کہ ان سے شہد کی زکاۃ معاف کردی جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
10- بَاب مَا جَاءَ لاَ زَكَاةَ عَلَى الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ
۱۰- باب: حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر سال نہ گزرجائے​


631- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الطَّلْحِيُّ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"مَنْ اسْتَفَادَ مَالاً فَلاَ زَكَاةَ عَلَيْهِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّهِ". وَفِي الْبَاب عَنْ سَرَّاءَ بِنْتِ نَبْهَانَ الْغَنَوِيَّةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۷۳۱) (صحیح)
(سندمیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف راوی ہے،لیکن متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، دیکھئے اگلی حدیث اور مولف کا کلام، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء ۷۸۷، وتراجع الألبانی ۵۰۳)
۶۳۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جسے کوئی مال حاصل ہوتواس پر کوئی زکاۃ نہیں جب تک کہ اس پر اس کے مالک کے یہاں ایک سال نہ گزرجائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں سرّا ء بنت نبھان غنویہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے۔


632- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَنْ اسْتَفَادَ مَالاً فَلاَ زَكَاةَ فِيهِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى أَيُّوبُ وَعُبَيْدُاللهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا. وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ. ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ. وَهُوَ كَثِيرُ الْغَلَطِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنْ لاَ زَكَاةَ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ عِنْدَهُ مَالٌ تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ، فَفِيهِ الزَّكَاةُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ سِوَى الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ، مَا تَجِبُ فِيهِ الزَّكَاةُ لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ الْمُسْتَفَادِ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ. فَإِنْ اسْتَفَادَ مَالاً قَبْلَ أَنْ يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ، فَإِنَّهُ يُزَكِّي الْمَالَ الْمُسْتَفَادَ مَعَ مَالِهِ الَّذِي وَجَبَتْ فِيهِ الزَّكَاةُ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۵۹۵) (صحیح الإسناد)
(یہ اثر عبد اللہ بن عمرکا قول ہے ، یعنی موقوف ہے ، جو مرفوع حدیث کے حکم میں ہے ۔)
۶۳۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:جسے کوئی مال حاصل ہوتو اس پرزکاۃ نہیں جب تک کہ اس کے ہاں اس مال پر ایک سال نہ گزرجائے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ (موقوف ) حدیث عبدالرحمن بن زید بن اسلم کی (مرفوع) حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ ۲- ایوب، عبیداللہ بن عمر اور دیگرکئی لوگوں نے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر سے موقوفاً (ہی) روایت کی ہے۔ ۳-عبدالرحمن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں، احمد بن حنبل ، علی بن مدینی اوران کے علاوہ دیگر محدثین نے ان کی تضعیف کی ہے وہ کثرت سے غلطیاں کرتے ہیں، ۴- صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ حاصل شدہ مال میں زکاۃ نہیں ہے،جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مالک بن انس ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۵- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس پہلے سے اتنامال ہوجس میں زکاۃ واجب ہو توحاصل شدہ مال میں بھی زکاۃواجب ہوگی اور اگر اس کے پاس حاصل شدہ مال کے علاوہ کوئی اورمال نہ ہو جس میں زکاۃ واجب ہوئی ہو توکمائے ہوئے مال میں بھی کوئی زکاۃ واجب نہیں ہوگی جب تک کہ اس پر سال نہ گزرجائے، اور اگر اسے (پہلے سے نصاب کو پہنچے ہوئے) مال پر سال گزرنے سے پہلے کوئی کمایا ہوا مال ملاتو وہ اس مال کے ساتھ جس میں زکاۃ واجب ہوگئی ہے، مال مستفادکی بھی زکاۃ نکالے گاسفیان ثوری اور اہل کوفہ اسی کے قائل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ جِزْيَةٌ
۱۱-باب: مسلمانوں پر جزیہ نہیں ہے​


633- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"لاَ تَصْلُحُ قِبْلَتَانِ فِي أَرْضٍ وَاحِدَةٍ وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ جِزْيَةٌ".
* تخريج: د/الخراج ۲۸ (۳۰۳۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۹۹)، حم (۱/۲۸۵) (ضعیف)
(سندمیں قابوس ضعیف ہیں)
۶۳۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ایک سر زمین پردوقبلے ہونادرست نہیں ۱؎ اورنہ ہی مسلمانوں پر جزیہ درست ہے'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ایک سرزمیں پردوقبلے کاہونادرست نہیں کامطلب یہ ہے کہ ایک سرزمین پردودین والے بطوربرابری کے نہیں رہ سکتے کوئی حاکم ہوگا کوئی محکوم۔
وضاحت ۲؎ : نہ ہی مسلمانوں پرجزیہ درست ہے کامطلب یہ ہے کہ ذمیوں میں سے کوئی ذمی اگرجزیہ کی ادائیگی سے پہلے مسلمان ہوگیا ہو تو اس سے جزیہ کامطالبہ نہیں کیاجائے گا۔


634- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ قَابُوسَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
وَفِي الْبَاب عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَجَدِّ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِاللهِ الثَّقَفِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ قَدْ رُوِيَ عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ النَّصْرَانِيَّ إِذَا أَسْلَمَ وُضِعَتْ عَنْهُ جِزْيَةُ رَقَبَتِهِ. وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ"لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ" إِنَّمَا يَعْنِي بِهِ جِزْيَةَ الرَّقَبَةِ. وَفِي الْحَدِيثِ مَايُفَسِّرُ هَذَا حَيْثُ قَالَ:"إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، وَلَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ".
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۶۳۴- اس سند سے بھی قابوس سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث قابوس بن أبی ظبیان سے مروی ہے جسے انہوں نے اپنے والدسے اوران کے والدنے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے،۲- اس باب میں سعید بن زید اور حرب بن عبید اللہ ثقفی کے دادا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ نصرانی جب اسلام قبول کرلے تو اس کی اپنی گردن کا جزیہ معاف کردیاجائے گا، اور نبی اکرمﷺکے قول"لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ عُشُورٌ" (مسلمانوں پر عشر نہیں ہے) کا مطلب بھی گردن کا جزیہ ہے، اور حدیث میں بھی اس کی وضاحت کردی گئی ہے جیساکہ آپ نے فرمایا: '' عشر صرف یہود ونصاریٰ پر ہے، مسلمانوں پر کوئی عشر نہیں'' ۱ ؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : یہ حدیث سنن ابی دوادمیں ہے اس حدیث کا تشریح ''المرقاۃ شرح المشکاۃ اور عون المعبودمیں دیکھ لیں، کچھ وضاحت اس مقام پر ''تحفۃ الأحوذی ''میں بھی آگئی ہے ، اور عُشر سے مراد ٹیکس ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الْحُلِيِّ
۱۲-باب: زیور کی زکاۃ کا بیان​


635- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ:"يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ! تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (بہذا السیاق وبہذا المناسبۃ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۸۷) وانظر: حم (۶/۳۶۳) (صحیح)
(اگلی حدیث (۶۳۶) سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے )
۶۳۵- عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہم سے خطاب کیااور فرمایا: ''اے گروہ عورتوں کی جماعت! زکاۃ دو ۱؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی''۔
وضاحت ۱؎ : مولف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مرادلی ہے کیونکہ'' تصدقن'' امرکاصیغہ ہے اورامرمیں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے، لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پرمحمول کیا ہے اور اس سے مرادنفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کوہے جو وہاں موجودتھیں اوران میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی، یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہوگی اور اس سے زیورکی زکاۃ کے وجوب پراستدلال صحیح نہیں ہوگا۔


636- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ قَال: سَمِعْتُ أَبَاوَائِلٍ يُحَدِّثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ، امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِاللهِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۴۸ (۱۴۶۶)، م/الزکاۃ ۱۴ (۱۰۰۰)، ن/الزکاۃ ۸۲ (۲۵۸۴)، (تحفۃ الأشراف: أیضا: ۱۵۸۸۷)، حم (۳/۵۰۲)، دي/الزکاۃ ۲۳ (۱۶۹۴) (صحیح)
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُعَاوِيَةَ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَهِمَ فِي حَدِيثِهِ فَقَالَ: عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ. وَالصَّحِيحُ إِنَّمَا هُوَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ إِبْنِ أَخِي زَيْنَبَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ رَأَى فِي الْحُلِيِّ زَكَاةً. وَفِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ مَقَالٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ. فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَالتَّابِعِينَ فِي الْحُلِيِّ زَكَاةَ مَا كَانَ مِنْهُ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ. وَ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةُ، وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِاللهِ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: لَيْسَ فِي الْحُلِيِّ زَكَاةٌ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
۶۳۶- اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا کے واسطے سے نبی اکرمﷺسے اسی طرح مروی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ ابومعاویہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔انہیں اپنی حدیث میں وہم ہوا ہے ۱؎ انہوں نے کہا ہے '' عمرو بن الحارث سے روایت ہے وہ عبداللہ بن مسعودکی بیوی زینب کے بھتیجے سے روایت کررہے ہیں'' اورصحیح یوں ہے ''زینب کے بھتیجے عمروبن حارث سے روایت ہے''، ۲- نیز عمروبن شعیب سے بطریق : '' عن أبيه، عن جده ،عبدالله بن عمرو بن العاص عن النبي ﷺ '' روایت ہے کہ آپ نے زیورات میں زکاۃ واجب قرار دی ہے ۲؎ اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ۳- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین میں سے بعض اہل علم سونے چاندی کے زیورات میں زکاۃ کے قائل ہیں ۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک بھی یہی کہتے ہیں۔اوربعض صحابہ کرام جن میں ابن عمر ، عائشہ، جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم شامل ہیں،کہتے ہیں کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے۔ بعض تابعین فقہاء سے بھی اسی طرح مروی ہے،اوریہی مالک بن انس ، شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ انہوں نے عمروبن حارث اورعبداللہ بن مسعودکی بیوی زینب کے بھتیجے کو دوالگ الگ آدمی جانا ہے اور پہلا دوسرے سے روایت کررہا ہے جب کہ معاملہ ایسانہیں ہے بلکہ دونوں ایک ہی آدمی ہیں ''ابن اخی زینب''عمروبن حارث کی صفت ہے عمروبن حارث اورابن اخی زینب کے درمیان ''عن''کی زیادتی ابومعاویہ کا وہم ہے صحیح بغیر''عن'' کے ہے جیساکہ شعبہ کی روایت میں ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس سلسلہ میں بہتراورمناسب بات یہ ہے کہ استعمال کے لیے بنائے گئے زیورات اگرفخرومباہات ،اوراسراف وتبذیرکے لیے اورزکاۃ سے بچنے کے لیے ہوں تو ان میں زکاۃ ہے بصورت دیگران میں زکاۃ واجب نہیں ہے۔سونے کے زیورات کی زکاۃ کا نصاب ساڑھے سات تولے یعنی ۸۰گرام اصلی سوناہے کہ کم ازکم اتنے وزن اصلی سونے پر ایک سال گزرجائے تومالک ۵۰۔۲%کے حساب سے زکاۃ اداکرے ، زیورات میں اصلی سونا معلوم کرنے کا کلیہ قاعدہ (فارمولا) یوں ہے = کل وزن( ﷺ/۲۴) قیراط زیور مثلاً : آپ کے پاس (۲۱ ) قیراط میں بناہوا دس تولے سونا ہے اور آپ اس میں سے اصلی سونے کا وزن معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یوں دریافت کریں گے ۱۰ تولے ﷺ۲۱ (۳۵/۴=۸) تولے اور۹ماشے فرض کریں اصلی سونے کی قیمت اس وقت کہ جب مذکوربالا زیورپر ایک سال گزرگیا،دس ہزارروپے فی تولہ ہو تو ۹-۸ماشے تولے کی قیمت =/۸۷۵۰۰روپے ہوئی ، اس پر ۵۰۔۲%کے حساب سے =/۳۵۰۰روپے اداکرلیں، وعلی ہذا القیاس والأصول ، یا درکھیے اصلی خالص سونا ہال قیراط ہوتا ہے ،تفصیل کے لیے ''فقہ الزکاۃ''میں دیکھی جاسکتی ہے۔(ابویحیی)


637- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَتَيْنِ أَتَتَا رَسُولَ اللهِ ﷺ وَفِي أَيْدِيهِمَا سُوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهُمَا:"أَتُؤَدِّيَانِ زَكَاتَهُ؟" قَالَتَا: لاَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللهِ ﷺ:"أَتُحِبَّانِ أَنْ يُسَوِّرَكُمَا اللهُ بِسُوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟" قَالَتَا: لاَ، قَالَ:"فَأَدِّيَا زَكَاتَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، نَحْوَ هَذَا. وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ وَابْنُ لَهِيعَةَ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ وَلاَ يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۳۰) (حسن)
(یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے، سندمیں ابن لہیعہ ضعیف ہیں، مگر دوسری سند اوردوسرے سیاق سے یہ حدیث حسن ہے، الإرواء ۳/۲۹۶، صحیح ابی داود ۱۳۹۶)
۶۳۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دوعورتیں رسو ل اللہ ﷺ کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن تھے، توآپ نے ان سے فرمایا: ''کیا تم دونوں اس کی زکاۃ اداکرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تورسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: '' کیا تم پسند کروگی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دوکنگن پہنائے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: ''توتم دونوں ان کی زکاۃ اداکرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو مثنیٰ بن صباح نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح روایت کیاہے اور مثنیٰ بن صباح اور ابن لہیعہ دونوں حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، نبی اکرمﷺسے اس باب میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ الْخَضْرَاوَاتِ
۱۳-باب: سبزیوں کی زکاۃ کا بیان​


638- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ مُعَاذٍ: أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يَسْأَلُهُ عَنِ الْخَضْرَاوَاتِ وَهِيَ الْبُقُولُ، فَقَالَ:"لَيْسَ فِيهَا شَيْئٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: إِسْنَادُ هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ بِصَحِيحٍ. وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئٌ، وَإِنَّمَا يُرْوَى هَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنْ لَيْسَ فِي الْخَضْرَاوَاتِ صَدَقَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْحَسَنُ هُوَ ابْنُ عُمَارَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. ضَعَّفَهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُهُ. وَتَرَكَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۵۴) (صحیح)
(سندمیں حسن بن عمارہ ضعیف ہیں، لیکن شواہدکی بناپر یہ حدیث صحیح ہے ، دیکھئے : إرواء الغلیل رقم: ۸۰۱)
۶۳۸- معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺکولکھا ،وہ آپ سے سبزیوں کی زکاۃکے بارے میں پوچھ رہے تھے تو آپ نے فرمایا: ''ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سندصحیح نہیں ہے،۲- اوراس باب میں نبی اکرمﷺسے کوئی چیز صحیح نہیں ہے، اور اسے صرف موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیاجاتاہے اور انہوں نے نبی اکرمﷺسے مرسلاً روایت کی ہے، ۳- اسی پراہل علم کا عمل ہے کہ سبزیوں میں زکاۃ نہیں ہے، ۴- حسن ، عمارہ کے بیٹے ہیں ، اوریہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔شعبہ وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے، اور ابن مبارک نے انہیں متروک قراردیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن چونکہ متعدد طرق سے مروی ہے جس سے تقویت پاکر یہ اس قابل ہوجاتی ہے کہ اس سے استدلال کیا جاسکے، اسی لیے اہل علم نے زکاۃ کے سلسلہ میں وارد نصوص کے عموم کی اس حدیث سے تخصیص کی ہے اورکہاہے کہ سبزیوں میں زکاۃ نہیں ہے۔اس حدیث سے بھی ثابت ہوا اوردیگربیسیوں روایات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام کے درمیان ،صحابہ کرام کا آپس میں ایک دوسرے کے درمیان اورغیرمسلم بادشاہوں، سرداروں اورامراء اورنبی اکرم ﷺکے مابین تحریری خط وکتابت کا سلسلہ عہدنبوی وعہدصحابہ میں جاری تھا، قارئین کرام منکرین حدیث کی دروغ گوئی اور کذب بیانی سے خبردار ہیں، اصل دین کے دشمن یہی لوگ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّدَقَةِ فِيمَا يُسْقَى بِالأَنْهَارِ وَغَيْرِهَا
۱۴-باب: نہر وغیرہ سے سینچائی کرکے پیداکی گئی فصل کی زکاۃ کا بیان​


639- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:"فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ. وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الأَشَجِّ، وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً. وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ. وَقَدْ صَحَّ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ.
* تخريج: ق/الزکاۃ ۱۷ (۱۸۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۰۸ و۱۳۴۸۳) (صحیح)
۶۳۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس فصل کی سینچائی بارش یا نہر کے پانی سے کی گئی ہو، اس میں زکاۃ دسواں حصہ ہے، اور جس کی سینچائی ڈول سے کھینچ کر کی گئی ہوتو اس میں زکاۃ دسویں حصّے کاآدھایعنی بیسواں حصہ ۱؎ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس بن مالک، ابن عمر اور جابر سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہ حدیث بکیر بن عبداللہ بن اشج، سلیمان بن یسار اور بسر بن سعید سے بھی روایت کی گئی ہے، اور ا ن سب نے اسے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کی ہے، گویا یہ زیادہ صحیح ہے،۳- اور اس باب میں ابن عمر کی حدیث بھی صحیح ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے ۲؎ ،۴- اور اسی پربیشترفقہاء کا عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس میں بالاتفاق ''حولان حول'' (سال کا پوراہونا) شرط نہیں، البتہ نصاب شرط ہے یا نہیں جمہورائمہ عشریانصف عشر کے لیے نصاب کو شرط مانتے ہیں، جب تک پانچ وسق نہ ہو عشریا نصف عشرواجب نہیں ہوگا، اورامام ابوحنیفہ کے نزدیک نصاب شرط نہیں، وہ کہتے ہیں :{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ} [البقرة:267] (اے ایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اورزمین میں سے تمہارے لیے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ، ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کر نے کا قصد نہ کرنا، جسے تم خودلینے والے نہیں ہو، ہاں اگرآنکھیں بندکرلو تو ،اور جان لو اللہ تعالیٰ بے پرواہ اور خوبیوں والا ہے)۔ مِمَّا أَخْرَجْنَامیں'' ما''کلمہء عموم ہے اس طرح''فيما سقت السماء وفيما سقى بالنضح ''میں بھی'' ما''کلمہء عموم ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اورجوآگے آرہی ہے۔


640- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ سَنَّ فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرَ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفَ الْعُشْرِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الزکاۃ ۵۵ (۱۴۸۳)، د/الزکاۃ ۱۱ (۱۵۹۶)، ن/الزکاۃ ۲۵ (۲۴۹۰)، ق/الزکاۃ ۱۷ (۱۸۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۷۷) (صحیح)
۶۴۰- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہ طریقہ جاری فرمایاکہ جسے بارش یاچشمے کے پانی نے سیراب کیا ہو، یا عثر ی یعنی رطوبت والی زمین ہوجسے پانی دینے کی ضرورت نہ پڑتی ہوتو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اورجسے ڈول سے سیراب کیا جاتا ہواس میں دسویں کاآدھایعنی بیسواں حصہ زکاۃ ہے۔
ا مام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي زَكَاةِ مَالِ الْيَتِيمِ
۱۵-باب: یتیم کے مال کی زکاۃ کا بیان​


641- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ:"أَلاَ مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ، وَلاَ يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، لأَنَّ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ...... فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا الْبَابِ. فَرَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةً. مِنْهُمْ عُمَرُ وَعَلِيٌّ وَعَائِشَةُ وَابْنُ عُمَرَ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ فِي مَالِ الْيَتِيمِ زَكَاةٌ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ. وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ. وَشُعَيْبٌ قَدْ سَمِعَ مِنْ جَدِّهِ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ فِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، وَقَالَ: هُوَ عِنْدَنَا وَاهٍ. وَمَنْ ضَعَّفَهُ فَإِنَّمَا ضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ أَنَّهُ يُحَدِّثُ مِنْ صَحِيفَةِ جَدِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. وَأَمَّا أَكْثَرُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فَيَحْتَجُّونَ بِحَدِيثِ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ فَيُثْبِتُونَهُ. مِنْهُمْ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ وَغَيْرُهُمَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۷۷) (ضعیف)
(سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں ، اخیر عمر میں مختلط بھی ہوگئے تھے )
۶۴۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے لوگوں سے خطاب کیاتو فرمایا: ''جو کسی ایسے یتیم کاولی (سرپرست) ہو جس کے پاس کچھ مال ہو تووہ اُسے تجارت میں لگادے، اسے یونہی نہ چھوڑدے کہ اسے زکاۃ کھالے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صرف اسی سند سے مروی ہے اور اس کی سند میں کلام ہے اس لئے کہ مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں، ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے کہا:... اور آگے یہی حدیث ذکر کی، ۳- عمرو : شعیب کے بیٹے ہیں ، اور شعیب محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کے بیٹے ہیں۔اورشعیب نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو سے سماعت کی ہے، یحییٰ بن سعید نے عمروبن شعیب کی حدیث میں کلام کیاہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ ہمارے نزدیک ضعیف ہیں، اور جس نے انہیں ضعیف قراردیا ہے صرف اس وجہ سے ضعیف کہاہے کہ انہوں نے اپنے دادا عبداللہ بن عمرو کے صحیفے سے حدیث بیان کی ہے۔ لیکن اکثر اہل حدیث علماء عمرو بن شعیب کی حدیث سے دلیل لیتے ہیں اور اُسے ثابت مانتے ہیں جن میں احمد اور اسحاق بن راہویہ وغیرہما بھی شامل ہیں، ۴- اس باب میں اہل علم کا اختلاف ہے ، صحابہ کرام میں سے کئی لوگوں کی رائے ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ ہے، انہیں میں عمر، علی ، عائشہ، اور ابن عمر ہیں۔اوریہی مالک ، شافعی،احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،۵- اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یتیم کے مال میں زکاۃ نہیں ہے۔ سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی زکاۃ دیتے دیتے کل مال ختم ہوجائے
وضاحت ۲؎ : یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ''رفع القلم عن ثلاث: صبي، ومجنون، ونائم'' کے خلاف ہے اورحدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ '' تأكله الصدقة '' میں صدقہ سے مراد نفقہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْعَجْمَاءَ جَرْحُهَا جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ
۱۶-باب: جانوروں کا زخم رائیگاں ہے یعنی اس میں تاوان نہیں اور مدفون مال میں سے خمس( پانچواں حصہ) نکالاجائے گا​


642- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ:"الْعَجْمَاءُ جَرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الدیات ۲۸ (۶۹۱۲)، م/الحدود ۱۱ (۱۷۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۲۷)، و۱۵۲۳۸) (صحیح) وأخرجہ: خ/الزکاۃ ۶۶ (۱۴۹۹)، والمساقاۃ ۳ (۲۳۵۵)، والدیات ۲۹ (۶۹۱۳)، د/الخراج ۴۰ (۳۰۸۵)، والدیات ۳۰ (۴۵۹۳)، ن/الزکاۃ ۲۸ (۲۴۹۷)، ق/الأحکام ۴ (۲۶۷۳)، ط/الزکاۃ ۴ (۹)، العقول ۱۸ (۱۲)، حم (۲/۲۲۸، ۲۵۴، ۲۷۴، ۲۸۵، ۳۱۹، ۳۸۲، ۳۸۶، ۴۰۶، ۴۱۱، ۴۵۴، ۴۵۶، ۴۶۷، ۴۷۵، ۴۸۲، ۴۹۵، ۵۰۱، ۵۰۷)، دي/الزکاۃ ۳۰ (۱۷۱۰)، والمؤلف في الأحکام ۳۷ (۱۳۷۷) من غیر ذلک الطریق
۶۴۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جانور کا زخم رائیگاں ہے ۱؎ یعنی معاف ہے،کان رائیگاں ہے اورکنواں رائیگاں ہے ۲؎ اوررکاز( دفینے )میں سے پانچواں حصہ دیاجائے گا ''۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس بن مالک ، عبداللہ بن عمرو ، عبادہ بن صامت، عمرو بن عوف مزنی اور جابر رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جانورکسی کوزخمی کردے تو جانورکے مالک پر اس زخم کی دیت نہ ہوگی۔
وضاحت ۲؎ : یعنی کان یا کنویں میں گرکرکوئی ہلاک ہوجائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہوگی۔
وضاحت ۳؎ : یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رکاز (دفینہ) میں زکاۃ نہیں بلکہ خمس ہے، اس کی حیثیت مال غنیمت کی سی ہے، اس میں خمس واجب ہے جو بیت المال میں جمع کیا جائے گا اور باقی کا مالک وہ ہو گا جسے یہ دفینہ ملا ہے، رہا معدن (کان)تووہ رکاز نہیں ہے اس لیے اس میں خمس نہیں ہوگا بلکہ اگروہ نصاب کو پہنچ رہاہے تواس میں زکاۃ واجب ہوگی، جمہورکی یہی رائے ہے، حنفیہ کہتے ہیں رکاز معدن اورکنزدونوں کوعام ہے اس لیے وہ معدن میں بھی خمس کے قائل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا جَاءَ فِي الْخَرْصِ
۱۷-باب: درخت میں موجود پھل کا تخمینہ لگانا​


643- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ قَال: سَمِعْتُ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ مَسْعُودِ بْنِ نِيَارٍ يَقُولُ: جَاءَ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ إِلَى مَجْلِسِنَا فَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ:"إِذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوا وَدَعُوا الثُّلُثَ فَإِنْ لَمْ تَدَعُوا الثُّلُثَ فَدَعُوا الرُّبُعَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَعَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْخَرْصِ. وَبِحَدِيثِ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَالْخَرْصُ إِذَا أَدْرَكَتْ الثِّمَارُ مِنَ الرُّطَبِ وَالْعِنَبِ مِمَّا فِيهِ الزَّكَاةُ، بَعَثَ السُّلْطَانُ خَارِصًا يَخْرُصُ عَلَيْهِمْ. وَالْخَرْصُ أَنْ يَنْظُرَ مَنْ يُبْصِرُ ذَلِكَ فَيَقُولُ: يَخْرُجُ مِنْ هَذَا الزَّبِيبِ كَذَا وَكَذَا، وَمِنَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا، فَيُحْصِي عَلَيْهِمْ وَيَنْظُرُ مَبْلَغَ الْعُشْرِ مِنْ ذَلِكَ فَيُثْبِتُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ يُخَلِّي بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الثِّمَارِ. فَيَصْنَعُونَ مَا أَحَبُّوا. فَإِذَا أَدْرَكَتِ الثِّمَارُ أُخِذَ مِنْهُمْ الْعُشْرُ. هَكَذَا فَسَّرَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: وَبِهَذَا يَقُولُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۱۴ (۱۶۰۵)، ن/الزکاۃ ۱۴ (۱۶۰۵)، ن/الزکاۃ ۲۶ (۲۴۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۴۶۴۷)، حم (۴/۳) (ضعیف)
(سندمیں عبدالرحمن بن مسعودلین الحدیث ہیں)
۶۴۳- عبدالرحمن بن مسعود بن نیار کہتے ہیں کہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہماری مجلس میں آئے تو بیان کیا کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے: ''جب تم تخمینہ لگاؤتوتخمینہ کے مطابق لو اورایک تہائی چھوڑدیاکرو، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی چھوڑدیاکرو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ا س باب میں عائشہ، عتاب بن اسید اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۲-تخمینہ لگانے کے سلسلے میں اکثر اہل علم کاعمل سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پرہے اورسہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہی کے مطابق احمداور شافعی بھی کہتے ہیں، تخمینہ لگانا یہ ہے کہ جب کھجور یا انگور کے پھل جن کی زکاۃ دی جاتی ہے پک جائیں تو سلطان (انتظامیہ) ایک تخمینہ لگانے والے کوبھیجے جواندازہ لگاکربتائے کہ اس میں کتناغلّہ یاپھل ہوگا اور تخمینہ لگانا یہ ہے کہ کوئی تجربہ کار آدمی دیکھ کر یہ بتائے کہ اس درخت سے اتنا اتنا انگور نکلے گا، اور اس سے اتنی اتنی کھجور نکلے گی۔ پھر وہ اسے جوڑکر دیکھے کہ کتنا عشر کی مقدار کو پہنچا ، تو ان پر وہی عشر مقرر کردے ۔اور پھل کے پکنے تک اُن کو مہلت دے، پھل توڑنے کے وقت اپناعشر دیتے رہیں۔ پھر مالکوں کو اختیار ہوگا کہ بقیہ سے جو چاہیں کریں۔ بعض اہل علم نے تخمینہ لگانے کی تشریح اسی طرح کی ہے ،اوریہی مالک شافعی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ خطاب زکاۃ وصول کر نے والے عمال اوران لوگوں کوہے جو زکاۃ کی وصولی کے لیے دوڑدھوپ کرتے ہیں،تہائی یا چوتھائی حصہ چھوڑدینے کا حکم اس لیے ہے تاکہ مالک پھل توڑتے وقت اپنے اعزاء واقرباء اوراپنے ہمسایوں مسافروں وغیرہ پرخرچ کرسکے اوراس کی وجہ سے وہ کسی حرج اورتنگی میں مبتلانہ ہو۔


644- حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو مُسْلِمُ بْنُ عَمْرٍو الْحَذَّاءُ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَالِحٍ التَّمَارِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَبْعَثُ عَلَى النَّاسِ مَنْ يَخْرُصُ عَلَيْهِمْ كُرُومَهُمْ وَثِمَارَهُمْ.
وَبِهَذَا الإِسْنَادِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ فِي زَكَاةِ الْكُرُومِ:"إِنَّهَا تُخْرَصُ كَمَا يُخْرَصُ النَّخْلُ ثُمَّ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ زَبِيبًا كَمَا تُؤَدَّى زَكَاةُ النَّخْلِ تَمْرًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: حَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَحَدِيثُ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عَتَّابِ بْنِ أَسِيدٍ، أَثْبَتُ وَأَصَحُّ.
* تخريج: د/الزکاۃ ۱۳ (۱۶۰۳)، ن/الزکاۃ ۱۰۰ (۲۶۱۹)، ق/الزکاۃ ۱۸ (۱۸۹۱)، (تحفۃ الأشراف: ۹۷۴۸) (ضعیف)
(سعید بن المسیب اورعتاب رضی اللہ عنہ کے درمیان سندمیں انقطاع ہے)
۶۴۴- عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺلوگوں کے پاس ایک آدمی بھیجتے تھے جو ان کے انگوروں اور دوسرے پھلوں کا تخمینہ لگاتاتھا۔ اسی سند سے ہے کہ نبی اکرمﷺنے انگور کی زکاۃ کے بارے میں فرمایا:'' اس کابھی تخمینہ لگایا جائے گا، جیسے کھجور کالگایاجاتاہے، پھرکشمش ہوجانے کے بعد اس کی زکاۃ نکالی جائے گی جیسے کھجور کی زکاۃ تمر ہوجانے کے بعد نکالی جاتی ہے۔(یعنی جب خشک ہوجائیں)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ابن جریج نے یہ حدیث بطریق : '' ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة '' روایت کی ہے، ۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: ابن جریج کی حدیث محفوظ نہیں ہے اور ابن مسیب کی حدیث جسے انہوں نے عتاب بن اسید سے روایت کی ہے زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے۔(بس صرف سنداً، ورنہ ضعیف یہ بھی ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَامِلِ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ
۱۸-باب: صحیح ڈھنگ سے صدقہ وصول کرنے والے کی فضیلت کا بیان​


645- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عَاصِمِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ:"الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ، كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللهِ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَيَزِيدُ بْنُ عِيَاضٍ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ أَصَحُّ.
* تخريج: د/الخراج ۷ (۲۹۳۶) ق/الزکاۃ۱۴(۱۸۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۳۵۸۳) (صحیح)
۶۴۵- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: ''صحیح ڈھنگ سے صدقہ وصول کرنے والا، اللہ کی راہ میں لڑنے والے غازی کی طرح ہے،جب تک کہ وہ اپنے گھر لوٹ نہ آئے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یزید بن عیاض محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں، ۳- محمد بن اسحاق کی یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔
 
Top