• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ مَنَامِهِ فَلاَيَغْمِسْ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ حَتَّى يَغْسِلَهَا
۱۹-باب: جب آدمی نیند سے بیدار ہوتو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھونہ لے​


24- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ - يُقَالُ: هُوَ مِنْ وَلَدِ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ صَاحِبِ النَّبِيِّ ﷺ - حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ اللَّيْلِ فَلاَيُدْخِلْ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ حَتَّى يُفْرِغَ عَلَيْهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاْثًا، فَإِنَّهُ لاَيَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأُحِبُّ لِكُلِّ مَنْ اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ، قَائِلَةً كَانَتْ أَوْ غَيْرَهَا: أَنْ لاَيُدْخِلَ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا. فَإِنْ أَدْخَلَ يَدَهُ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا كَرِهْتُ ذَلِكَ لَهُ، وَلَمْ يُفْسِدْ ذَلِكَ الْمَاءَ إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ نَجَاسَةٌ. و قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ مِنْ اللَّيْلِ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، فَأَعْجَبُ إِلَيَّ أَنْ يُهْرِيقَ الْمَاءَ. وقَالَ إِسْحَاقُ: إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ بِاللَّيْلِ أَوْ بِالنَّهَارِ فَلاَيُدْخِلْ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا.
* تخريج: خ/الوضوء ۲۶ (۱۶۲)، م/الطہارۃ ۲۶ (۲۷۸)، د/الطہارۃ ۴۹ (۱۰۳)، ن/الطہارۃ ۱ (۱)، و۱۱۶ (۱۶۱)، والغسل ۲۹ (۴۴۲)، ق/الطہارۃ ۴۰ (۳۹۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۸۹ و۱۵۲۰۳)، ط/الطہارۃ ۱۲ (۹)، حم (۲/۲۴۱، ۲۵۳، ۲۵۹، ۳۴۹، ۳۸۲) (صحیح)
۲۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' جب تم میں سے کوئی رات کو نیندسے اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن ۱؎ میں نہ ڈالے جب تک کہ اس پردویاتین بارپانی نہ ڈال لے، کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کاہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن عمر، جابراور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- شافعی کہتے ہیں : میں ہرسوکراٹھنے والے کے لیے - چاہے وہ دوپہرمیںقیلولہ کرکے اٹھاہویا کسی اوروقت میں- پسندکرتا ہوں کہ وہ جب تک اپنا ہاتھ نہ دھوئے اسے وضوکے پانی میں نہ ڈالے اوراگر اس نے دھونے سے پہلے ہاتھ ڈال دیا تو میں اس کے اس فعل کومکروہ سمجھتاہوں لیکن اس سے پانی فاسدنہیں ہوگا بشرطیکہ اس کے ہاتھ میں کوئی نجاست نہ لگی ہو ۲؎ ،احمدبن حنبل کہتے ہیں: جب کوئی رات کوجاگے اوردھونے سے پہلے پانی میں ہاتھ ڈال دے تو اس پانی کومیرے نزدیک بہادینابہترہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب وہ رات یا دن کسی بھی وقت نیندسے جاگے تو اپنا ہاتھ وضوکے پانی میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے دھونہ لے۔
وضاحت ۱؎ : برتن کی قید سے حوض ، تالاب اورنہروغیرہ اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے کیونکہ ان کا پانی قلتین سے زیادہ ہوتاہے ، پس سوکر اٹھنے کے بعدان میں ہاتھ داخل کرناجائزہے۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی نے باب کی اس حدیث کواستحباب پر محمول کیا ہے، یہی جمہورکا قول ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے وجوب پر محمول کیا ہے، لیکن احمدنے اسے رات کی نیندکے ساتھ خاص کردیا ہے اوراسحاق بن راہویہ نے اسے عام رکھاہے ، صاحب تحفہ الأحوذی نے اسحاق بن راہویہ کے مذہب کو راجح قراردیا ہے، احتیاط اسی میں ہے، رات کی قید صرف اس لیے ہے کہ آدمی رات میں عموماً سوتاہے، نیز صحیحین کی روایات میں''من الليل ''کی بجائے '' ممن نومه''(اپنی نیندسے) ہے تو یہ رات اوردن ہرنیندکے لیے عام ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْمِيَةِ عِنْدَ الْوُضُوءِ
۲۰-باب: وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنے کابیان​


25- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَبِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، قَالاَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ أَبِي ثِفَالٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ، عَنْ جَدَّتِهِ، عَنْ أَبِيهَا قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَوُضُوءَ لِمَنْ لَمْ يَذْكُرْ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لاَأَعْلَمُ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثًا لَهُ إِسْنَادٌ جَيِّدٌ. و قَالَ إِسْحَاقُ: إِنْ تَرَكَ التَّسْمِيَةَ عَامِدًا أَعَادَ الْوُضُوءَ، وَإِنْ كَانَ نَاسِيًا أَوْ مُتَأَوِّلاً أَجْزَأَهُ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَدَّتِهِ عَنْ أَبِيهَا، وَأَبُوهَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ. وَأَبُو ثِفَالٍ الْمُرِّيُّ اسْمُهُ ثُمَامَةُ بْنُ حُصَيْنٍ. وَرَبَاحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ - هُوَ أَبُو بَكْرِ بْنُ حُوَيْطِبٍ - مِنْهُمْ مَنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حُوَيْطِبٍ، فَنَسَبَهُ إِلَى جَدِّهِ.
* تخريج: ق/الطہارۃ ۴۱ (۳۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۴۴۷۰) حم (۴/۷۰) و (۵/۳۸۱-۳۸۲) و۶/۳۸۲) (حسن)
۲۵- سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا: جو بسم اللہ کرکے وضو شروع نہ کرے اس کا وضو نہیں ہوتا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عائشہ ، ابوہریرہ،ابوسعیدخدری، سہل بن سعد اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھیاس باب میں کوئی ایسی حدیث نہیں معلوم جس کی سندعمدہ ہو، ۳- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : اگر کوئی قصداًبسم اللہ کہناچھوڑدے تو وہ دوبارہ وضوکرے اوراگربھول کرچھوڑے یا وہ اس حدیث کی تاویل کررہاہوتویہ اسے کافی ہوجائے گا،۴- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے اچھی یہی مذکورہ بالا حدیث رباح بن عبدالرحمن کی ہے، یعنی سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کی حدیث۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بسم اللہ کا پڑھنا وضوکے لیے رکن ہے یا شرط اس کے بغیر وضوصحیح نہیں ہوگا، کیونکہ ''لاوضوء''سے صحت اوروجودکی نفی ہورہی ہے نہ کہ کمال کی، بعض لوگوں نے اسے کمال کی نفی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ بغیربسم اللہ کیے بھی وضوصحیح ہو جائے گا لیکن وضوکامل نہیں ہوگا، لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ ''لا''کواپنے حقیقی معنی نفی صحت میں لیناہی حقیقت ہے ، اور''نفی کمال''کے معنی میں لینا مجازہے اوریہاں مجازی معنی لینے کی کوئی مجبوری نہیں ہے، نفی کمال کے معنی میں آئی احادیثثابت نہیں ہیں، امام احمدکے نزدیک راجح بسم اللہ کا وجوب ہے۔


26- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي ثِفَالٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ رَبَاحِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حُوَيْطِبٍ، عَنْ جَدَّتِهِ بِنْتِ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِيهَا، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن)
۲۶- اس سندسے بھی سعیدبن زید رضی اللہ عنہ سے اوپروالی حدیث کے مثل مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمَضْمَضَةِ وَالاسْتِنْشَاقِ
۲۱-باب: وضو اورغسل میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بیان​


27- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ وَجَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ يَسَافٍ،عَنْ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَثِرْ، وَإِذَا اسْتَجْمَرْتَ فَأَوْتِرْ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ وَلَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ تَرَكَ الْمَضْمَضَةَ وَالإسْتِنْشَاقَ، فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: إِذَا تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ حَتَّى صَلَّى أَعَادَ الصَّلاَةَ. وَرَأَوْا ذَلِكَ فِي الْوُضُوءِ وَالْجَنَابَةِ سَوَائً. وَبِهِ يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ. و قَالَ أَحْمَدُ: الإسْتِنْشَاقُ أَوْكَدُ مِنْ الْمَضْمَضَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُعِيدُ فِي الْجَنَابَةِ، وَلاَيُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ. وَقَالَتْ طَائِفَةٌ: لاَيُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ وَلاَفِي الْجَنَابَةِ لاَنَّهُمَا سُنَّةٌ مِنْ النَّبِيِّ ﷺ، فَلاَتَجِبُ الا عَادَةُ عَلَى مَنْ تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ وَلاَفِي الْجَنَابَةِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ فِي آخِرَةَ.
* تخريج: ن/الطہارۃ ۷۲(۸۹) ق/الطہارۃ ۴۴ (۴۰۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۵۵۶) (صحیح)
۲۷- سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :'' جب تم وضو کرو تو ناک جھاڑو اور جب ڈھیلے سے استنجا کروتوطاق ڈھیلے لو ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عثمان، لقیط بن صبرہ ، ابن عباس ، مقدام بن معدیکرب، وائل بن حجراور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۲- سلمہ بن قیس والی حدیث حسن صحیح ہے،۳- جوکلی نہ کرے اورناک میں پانی نہ چڑھائے اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے: ایک گروہ کاکہنا ہے کہ جب کوئی ان دونوں چیزوں کو وضو میں چھوڑدے اورصلاۃپڑھ لے تو وہ صلاۃکو لوٹائے ۱؎ ان لوگوں کی رائے ہے کہ وضواورجنابت دونوں میں یہ حکم یکساں ہے، ابن ابی لیلیٰ، عبداللہ بن مبارک، احمداوراسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں، امام احمد(مزید)کہتے ہیں کہ ناک میں پانی چڑھانا کلی کرنے سے زیادہ تاکیدی حکم ہے، اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جنابت میں کلی نہ کرنے اورناک نہ جھاڑنے کی صورت میں صلاۃ لوٹائے اوروضومیں نہ لوٹائے ۲؎ یہ سفیان ثوری اوربعض اہل کوفہ کاقول ہے، ایک گروہ کاکہنا ہے کہ نہ وضومیں لوٹائے اورنہ جنابت میں کیونکہ یہ دونوں چیزیں مسنون ہیں،توجوانہیں وضو اور جنابت میں چھوڑدے اس پر صلاۃ لوٹانا واجب نہیں، یہ مالک اورشافعی کاآخری قول ہے ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ان کے نزدیک یہ دونوں عمل وضو اورغسل دونوں میں فرض ہیں ، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، اس میں امرکا صیغہ استعمال ہواہے، اور''امر''کاصیغہ وجوب پردلالت کرتاہے، الایہ کہ کوئی قرینہ ایساقرینہ موجودہوجس سے امرکا صیغہ حکم اور وجوب کے معنی سے استحباب کے معنی میں بدل جائے جوان کے بقول یہاں نہیں ہے، صاحب تحفۃ الاحوذی اسی کے مویدہیں۔
وضاحت ۲؎ : ان لوگوں کے یہاں یہ دونوں عمل وضو میں مسنون اورجنابت میں واجب ہیں کیونکہ جنابت میں پاکی میں مبالغہ کا حکم ہے ۔
وضاحت ۳؎ : یہی جمہورعلماء کا قول ہے کیونکہ عطاء کے سواکسی بھی صحابی یا تابعی سے یہ منقول نہیں ہے کہ وہ بغیرکلی اورناک جھاڑے پڑھی ہوئی صلاۃدہرانے کے قائل ہو، گویا یہ مسنون ہوا فرض اورواجب نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22- بَاب الْمَضْمَضَةِ وَالاسْتِنْشَاقِ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ
۲۲-باب: ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کابیان​


28- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ فَعَلَ ذَلِكَ ثَلاثًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رَوَى مَالِكٌ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى وَلَمْ يَذْكُرُوا هَذَا الْحَرْفَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ، وَإِنَّمَا ذَكَرَهُ خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْمَضْمَضَةُ وَالاسْتِنْشَاقُ مِنْ كَفٍّ وَاحِدٍ يُجْزِءُ، و قَالَ بَعْضُهُمْ: تَفْرِيقُهُمَا أَحَبُّ إِلَيْنَا. و قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنْ جَمَعَهُمَا فِي كَفٍّ وَاحِدٍ فَهُوَ جَائِزٌ، وَإِنْ فَرَّقَهُمَا فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا.
* تخريج: خ/الوضوء ۳۸ (۱۸۵)، و۳۹ (۱۸۶)، و۴۱ (۱۹۱)، و۴۲ (۱۹۲)، و۴۵ (۱۹۷)، م/الطہارۃ ۷ (۲۳۵)، د/الطہارۃ ۵۰ (۱۱۸)، ن/الطہارۃ ۸۰-۸۲ (۹۷،۹۸،۹۹)، ق/الطھارۃ ۵۱ (۴۳۴) (نحوہ) و ۶۱ (۴۷۱) (مختصرا) (تحفۃ الأشراف: ۵۳۰۸) ط/الطہارۃ ۱ (۱)، حم (۴/۳۸،۳۹)، دي/ الطہارۃ ۲۸ (۷۲۱) (صحیح)
۲۸- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم ﷺ کودیکھاکہ آپ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا،تین بارآپ نے ایساکیا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث حسن غریب ہے،۳- مالک ، سفیان ،ابن عیینہ اوردیگرکئی لوگوں نے یہ حدیث عمرو بن یحییٰ سے روایت کی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے یہ بات ذکرنہیں کی کہ نبی اکرم ﷺْ نے ایک ہی چلو سے کلی کی اورناک میں پانی ڈالا،اسے صرف خالدہی نے ذکرکیاہے اور خالد محدّثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں۔بعض اہل علم نے کہا ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کرنااورناک میں پانی ڈالنا کافی ہوگا،اوربعض نے کہا ہے کہ دونوں کے لیے الگ الگ پانی لیناہمیںزیادہ پسندہے ، شافعی کہتے ہیں کہ اگران دونوں کو ایک ہی چلومیں جمع کرے تو جائز ہے لیکن اگرالگ الگ چلّوسے کرے تویہ ہمیںزیادہ پسندہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ہی چلوسے کلی کرنے اورناک میں پانی چڑھانا افضل ہے دونوں کے لیے الگ الگ پانی لینے کی بھی احادیث آئی ہیں لیکن ایک چلوسے دونوں میں پانی ڈالنے کی احادیث زیادہ اور صحیح ترین ہیں، دونوں صورتیں جائز ہیں، لیکن ایک چلوسے دونوں میں پانی ڈالنا زیادہ اچھاہے، علامہ محمدبن اسماعیل الأمیرالیمانی ''سبل السلام''میں فرماتے ہیں: اقرب یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں اختیارہے اورہرایک سنت ہے ، گرچہ دونوں کو ایک کلی میں جمع کرنے کی روایات زیادہ ہیں اورصحیح ترہیں، واضح رہے کہ اختلاف زیادہ بہترہونے میں ہے جائز اورناجائزکی بات نہیں ہے۔
وضاحت ۲؎ : امام شافعی سے اس سلسلہ میں دوقول مروی ہیں ایک تو یہی جسے امام ترمذی نے یہاں نقل کیا ہے اوردوسراایک ہی چلومیں دونوں کو جمع کرنے کا اوریہ ان کا مشہورقول ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ فِي تَخْلِيلِ اللِّحْيَةِ
۲۳-باب: داڑھی کے خلال کرنے کابیان​


29- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ تَوَضَّأَ فَخَلَّلَ لِحْيَتَهُ، فَقِيلَ لَهُ، أَوْ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: أَتُخَلِّلُ لِحْيَتَكَ؟ قَالَ: وَمَا يَمْنَعُنِي؟ وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ.
* تخريج: ق/الطہارۃ ۵۰ (۴۲۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۴۶) (صحیح)
۲۹- حسان بن بلال کہتے ہیں : میں نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کودیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تواپنی داڑھی میں خلال کیا ۱؎ ان سے کہاگیا یا راوی حدیث حسان نے کہا کہ میں نے ان سے کہا:کیاآپ اپنی داڑھی کا خلال کررہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں داڑھی کا خلال کیوں نہ کروں جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوداڑھی کا خلال کرتے دیکھاہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ داڑھی کا خلال مسنون ہے، بعض لوگ وجوب کے قائل ہیں، لیکن تمام دلائل کا جائزہ لینے سے یہی ثابت ہوتاہے کہ سنت ہے واجب نہیں، جمہورکا یہی قول ہے ۔


30- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ، عَنْ عَمَّارٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ، وَعَائِشَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَأَبِي أَيُّوبَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: و سَمِعْت إِسْحَاقَ بْنَ مَنْصُورٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ: قَالَ: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: لَمْ يَسْمَعْ عَبْدُ الْكَرِيمِ مِنْ حَسَّانَ بْنِ بِلاَلٍ حَدِيثَ التَّخْلِيلِ. و قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُوعِيسَى: و قَالَ بِهَذَا أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ: رَأَوْا تَخْلِيلَ اللِّحْيَةِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ. و قَالَ أَحْمَدُ: إِنْ سَهَا عَنْ تَخْلِيلِ اللِّحْيَةِ فَهُوَ جَائِزٌ. و قَالَ إِسْحَاقُ: إِنْ تَرَكَهُ نَاسِيًا أَوْ مُتَأَوِّلاَ أَجْزَأَهُ، وَإِنْ تَرَكَهُ عَامِدًا أَعَادَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۰- اس سندسے بھی عماربن یاسرسے اوپرہی کی حدیث کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عثمان ، عائشہ، ام سلمہ، انس، ابن ابی اوفی اور ابوایوب رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث عامربن شقیق کی ہے، جسے انہوں نے ابووائل سے اورابووائل نے عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے (جو آگے آرہی ہے)۔ ۴- صحابہ اور تابعین میں سے اکثراہل علم اسی کے قائل ہیں، ان لوگوں کی رائے ہے کہ داڑھی کا خلال (مسنون)ہے اوراسی کے قائل شافعی بھی ہیں، احمد کہتے ہیں کہ اگرکوئی داڑھی کا خلال کرنابھول جائے تو وضو جائزہو گا،اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بھول کرچھوڑدے یاخلال والی حدیث کی تاویل کررہا ہوتو اسے کا فی ہوجائے گااوراگرقصداً جان بوجھ کرچھوڑے تووہ اسے(وضو کو) لوٹائے۔


31- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُخَلِّلُ لِحْيَتَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ ۔
* تخريج: ق/الطہارۃ ۵۰ (۴۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۰۹) (صحیح)
۳۱- عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
24- باب مَا جَاءَ فِي مَسْحِ الرَّأْسِ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِمُقَدَّمِ الرَّأْسِ إِلَى مُؤَخَّرِهِ
۲۴-باب: سرکے اگلے حصہ سے مسح شروع کرنے اورپچھلے حصہ تک لے جانے کابیان​


32- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى الاَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى الْقَزَّازُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَسَحَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ بَدَأَ بِمُقَدَّمِ رَأْسِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ بِهِمَا إِلَى قَفَاهُ، ثُمَّ رَدَّهُمَا حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي بَدَأَ مِنْهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاوِيَةَ، وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَحْسَنُ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ.
* تخريج: انظر رقم: ۲۸ (صحیح)
۳۲- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے سرکا مسح کیا تو انہیں آگے سے پیچھے لے گئے اور پیچھے سے آگے لائے، یعنی اپنے سرکے اگلے حصہ سے شروع کیا پھرانہیں گدی تک لے گئے پھر انہیں واپس لوٹایا یہاں تک کہ اسی جگہ واپس لے آئے جہاں سے شروع کیا تھا،پھرآپ نے دونوں پیر دھوئے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں معاویہ، مقدام بن معدی کرب اورعائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث سب سے صحیح اور عمدہ ہے۔اوراسی کے قائل شافعی احمداوراسحاق بن راہویہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
25- بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِمُؤَخَّرِ الرَّأْسِ
۲۵- باب: مسح سرکے پچھلے حصہ سے شروع کرنے کابیان​


33- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّتَيْنِ: بَدَأَ بِمُؤَخَّرِ رَأْسِهِ، ثُمَّ بِمُقَدَّمِهِ، وَبِأُذُنَيْهِ كِلْتَيْهِمَا: ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَصَحُّ مِنْ هَذَا وَأَجْوَدُ إِسْنَادًا. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، مِنْهُمْ وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ.
* تخريج: د/الطہارۃ ۵۰ (۱۲۶)، ق/الطہارۃ ۳۹ (۳۹۰)، و۵۲ (۴۴۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۳۷) (حسن)
۳۳- ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکا دومرتبہ ۱؎ مسح کیا، آپ نے (پہلے) اپنے سرکے پچھلے حصہ سے شروع کیا ۲؎ ، پھر (دوسری بار) اس کے اگلے حصہ سے اور اپنے کانوں کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کا مسح کیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے اور عبداللہ بن زید کی حدیث سندکے اعتبارسے اس سے زیادہ صحیح اور زیادہ عمدہ ہے،۲- اہل کوفہ میں سے بعض لوگ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،انہیں میں سے وکیع بن جراح بھی ہیں ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حقیقت میں یہ ایک ہی مسح ہے آگے اورپیچھے دونوں کو راوی نے الگ الگ مسح شمارکرکے اسے ''مرتین'' (دوبار) سے تعبیرکیا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سرکامسح سرکے پچھلے حصہ سے شروع کیاجائے، لیکن عبداللہ بن زید کی متفق علیہ روایت جو اوپرگزری اس کے معارض اوراس سے زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ربیع کی حدیث میں ایک راوی عبداللہ بن محمدبن عقیل متکلم فیہ ہیں اوراگراس کی صحت مان بھی لی جائے تو ممکن ہے آپ نے بیان جواز کے لیے ایسابھی کیا ہو ۔
وضاحت ۳؎ : یہ مرجوح مذہب ہے، راجح سرکے اگلے حصہ ہی سے شروع کرنا ہے،جیسا کہ سابقہ حدیث میں گزرا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةً
۲۶-باب: سرکامسح صرف ایک بار ہے ۱؎​


34- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ: أَنَّهَا رَأَتْ النَّبِيَّ ﷺ يَتَوَضَّأُ، قَالَتْ: مَسَحَ رَأْسَهُ، وَمَسَحَ مَا أَقْبَلَ مِنْهُ وَمَا أَدْبَرَ، وَصُدْغَيْهِ وَأُذُنَيْهِ مَرَّةً وَاحِدَةً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَجَدِّ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ الرُّبَيِّعِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَّهُ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مَرَّةًَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: رَأَوْا مَسْحَ الرَّأْسِ مَرَّةً وَاحِدَةً. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَكِّيُّ قَال: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: سَأَلْتُ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنْ مَسْحِ الرَّأْسِ: أَيُجْزِءُ مَرَّةً؟ فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (حسن الإسناد)
۳۴- ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ،آپ نے اپنے سرکاایک بارمسح کیا، اگلے حصہ کا بھی اورپچھلے حصہ کا بھی اوراپنی دونوں کنپٹیوں اورکانوں کابھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ربیع رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی اور طلحہ بن مصرف بن عمرو کے دادا (عمرو بن کعب یامی) رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اوربھی سندوں سے یہ بات مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکا مسح ایک بار کیا،۴- صحابہ کرام اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اکثراہل علم کا اسی پرعمل ہے اور جعفر بن محمد ، سفیان ثوری ، ابن مبارک ، شافعی ۲؎ احمد بن حنبل اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، ۵- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر بن محمد سے سرکے مسح کے بارے میں پوچھا:کیا ایک مرتبہ سرکا مسح کرلینا کافی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اللہ کی ۔
وضاحت ۱؎ : اس باب سے مؤلف ان لوگوں کا ردکرنا چاہتے ہیں جوتین بارمسح کے قائل ہیں۔
وضاحت ۲؎ : امام ترمذی نے امام شافعی سے ایساہی نقل کیاہے ، مگربغوی نے نیز تمام شافعیہ نے امام شافعی کے بارے میں تین بارمسح کرنے کا قول نقل کیاہے، عام شافعیہ کا عمل بھی تین ہی پرہے، مگریاتویہ دیگراعضاء پرقیاس ہے جو نص صریح کے مقابلہ میں صحیح نہیں ہے ، یا کچھ ضعیف حدیثوں سے تمسک ہے (صحیحین کی نیز دیگراحادیث میں صرف ایک پر اکتفاء کی صراحت ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ يَأْخُذُ لِرَأْسِهِ مَائً جَدِيدًا
۲۷-باب: سرکے مسح کے لیے نیا پانی لینے کابیان​


35- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ حَبَّانَ ابْنِ وَاسِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ، وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَائٍ غَيْرِ فَضْلِ يَدَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى ابْنُ لَهِيعَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ حَبَّانَ بْنِ وَاسِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَوَضَّأَ، وَأَنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ بِمَائٍ غَبَرَ فَضْلِ يَدَيْهِ. وَرِوَايَةُ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ حَبَّانَ أَصَحُّ، لاَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِهِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَذَ لِرَأْسِهِ مَائً جَدِيدًا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ: رَأَوْا أَنْ يَأْخُذَ لِرَأْسِهِ مَائً جَدِيدًا.
* تخريج: م/الطہارۃ ۷ (۲۳۶)، د/الطہارۃ ۵۰ (۱۲۰)، وانظر أیضا رقم: ۲۸ (تحفۃ الأشراف: ۵۳۰۷) (صحیح)
۳۵- عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی کے علاوہ نئے پانی سے اپنے سرکا مسح کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن لھیعہ نے یہ حدیث بسندحبان بن واسع عن أبیہ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا : نبی اکرم ﷺ نے وضو کیا اور اپنے سر کا مسح اپنے دونوں ہاتھوں کے بچے ہوئے پانی سے کیا، ۳- عمرو بن حارث کی روایت جسے انہوں نے حبان سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے ۱؎ کیوں کہ اوربھی کئی سندوں سے عبداللہ بن زید وغیرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکے مسح کے لیے نیا پانی لیا، ۴- اکثر اہل علم کا عملاسی پر ہے، ان کی رائے ہے کہ سر کے مسح کے لیے نیا پانی لیا جائے۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف نے عمروبن حارث کی روایت کے لیے ''زیادہ صحیح ''کا لفظ اس لیے اختیارکیاہے کہ ''ابن لہیعہ ''کی روایت بھی صحیح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن وہب کی روایت سے ہے ، اورعبادلہ اربعہ کی روایت ابن لہیعہ سے صحیح ہوتی ہے،لیکن اس روایت میں ابن لہیعہ اکیلے ہیں، اس لیے ان کی روایت ''عمروبن حارث''کی روایت کے مقابلہ میں شاذہے اورعمرو بن حارث کی روایت ہی محفوظ ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَا جَاءَ فِي مَسْحِ الأُ ذُنَيْنِ ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا
۲۸-باب: دونوں کانوں کے بالائی اوراندورنی حصوں کے مسح کرنے کابیان ۱؎​


36- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ: ظَاهِرِهِمَا وَبَاطِنِهِمَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ الرُّبَيِّعِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَرَوْنَ مَسْحَ الأُذُنَيْنِ: ظُهُورِهِمَا وَبُطُونِهِمَا.
* تخريج: خ/الوضوء ۷ (۱۴۰)، د/الطہارۃ ۵۲ (۱۳۷)، ن/الطہارۃ ۸۴ (۱۰۱، ۱۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۷۸) (حسن صحیح)
۳۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے سرکا اوراپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندورنی حصوں کا مسح کیا۔
اما م ترمذی کہتے ہیں :۱- ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ربیع رضی اللہ عنہا سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم کااسی پرعمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ دونوں کانوں کے بالائی اوراندورنی دونوں حصوں کا مسح کیاجائے۔
وضاحت ۱؎ : اس باب اورحدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرناہے کہ کانوں کے اندورنی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سرکے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کاردکریں، اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے،اورنص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔
 
Top