• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب مَا جَاءَ فِي إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ
۳۹-باب: کامل طورسے وضوکرنے کابیان​


51- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا، إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلاَءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "أَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الصَّلاَةِ، فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ"۔
* تخريج: م/ الطہارۃ ۱۴(۲۵۱) ن/الطہارۃ۱۰۷ (۱۴۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۸۱) ط/السفر۱۸(۵۵) حم (۲/۲۷۷،۳۰۳) (صحیح)
۵۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' کیا میں تمہیں ایسی چیزیں نہ بتاؤں جن سے اللہ گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند کرتاہے؟'' لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !کیوں نہیں ،آپ ضرور بتائیں،آپ نے فرمایا: ''ناگواری کے باوجودمکمل وضوکرنا ۱؎ اورمسجدوں کی طرف زیادہ چل کرجانا ۲؎ اورصلاۃکے بعدصلاۃکا انتظار کرنا،یہی سرحدکی حقیقی پاسبانی ہے '' ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ناگواری کے باوجودمکمل وضوکرنے کامطلب ہے سخت سردی میں اعضاء کا مکمل طورپردھونا، یہ طبیعت پر نہایت گراں ہوتا ہے اس کے باوجودمسلمان محض اللہ کی رضاکے لیے ایساکرتا ہے اس لیے اس کا اجرزیادہ ہوتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : مسجد کا قرب بعض اعتبارسے مفیدہے لیکن گھر کامسجدسے دورہونا اس لحاظ سے بہترہے کہ جتنے قدم مسجد کی طرف اٹھیں گے اتنا ہی اجروثواب زیادہ ہوگا۔
وضاحت۳؎ : یعنی یہ تینوں اعمال اجروثواب میں سرحدوں کی پاسبانی اوراللہ کی راہ میں جہادکرنے کی طرح ہیں، یا یہ مطلب ہے کہ جس طرح سرحدوں کی نگرانی کے سبب دشمن ملک کے اندر گھس نہیں پاتااسی طرح ان اعمال پر مواظبت سے شیطان نفس پرغالب نہیں ہوپاتا۔


52- وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلاَءِ نَحْوَهُ، و قَالَ قُتَيْبَةُ فِي حَدِيثِهِ: فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ، فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ، فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ، ثَلاَثًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبِيدَةَ - وَيُقَالُ عُبَيْدَةُ بْنُ عَمْرٍو - وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيِّ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَلاَءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ يَعْقُوبَ الْجُهَنِيُّ الْحُرَقِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۷۱) (صحیح)
۵۲- اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس طرح روایت ہے، لیکن قتیبہ نے اپنی روایت میں ''فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ فَذَلِكُمْ الرِّبَاطُ '' تین بارکہاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس باب میں حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، عبداللہ بن عمرو، ابن عباس،عَبیدہ - یا۔۔۔ عُبیدہ بن عمرو- عائشہ، عبدالرحمن بن عائش الحضرمی اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَا جَاءَ فِي التَّمَنْدُلِ بَعْدَ الْوُضُوءِ
۴۰-باب: وضو کے بعد رومال سے بدن پونچھنے کا بیان​


53- حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ، عَنْ أَبِي مُعَاذٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ خِرْقَةٌ يُنَشِّفُ بِهَا بَعْدَ الْوُضُوءِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ لَيْسَ بِالْقَائِمِ، وَلاَ يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ شَيْئٌ. وَأَبُو مُعَاذٍ يَقُولُونَ: هُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ أَرْقَمَ وَهُوَ ضَعِيفٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ.
* تخريج: تفرد بہ المولف (تحفۃ الأشراف: ۱۶۴۵۷) (حسن)
(سندمیں ''ابومعاذ سلیمان بن ارقم'' ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق کی وجہ حسن ہے ، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی ۵۰۲، والصحیحہ ۲۰۹۹)
۵۳- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے آپ وضوکے بعد اپنا بدن پونچھتے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت درست نہیں ہے،نبی اکرم ﷺ سے اس باب میں کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے، ابومعاذ سلیمان بن ارقم محدّثین کے نزدیک ضعیف ہیں ،۲- اس باب میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، نیزاس باب میں واردکوئی بھی صریح حدیث صحیح نہیں ہے جیساکہ امام ترمذی نے صراحت کی ہے ، مگرام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو صحیحین کی حدیث سے اس سے اس کے جواز پر استدلال کیاگیاہے، اس میں ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد ام سلمہ نے نبی اکرم ﷺ کو تولیہ پیش کیا تو آپ نے نہیں لیا، اس سے ثابت ہو اکہ غسل کے بعد تولیہ استعمال کرنے کی عادت تھی تبھی توام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پیش کیا ، مگراس وقت کسی وجہ سے آپ نے اسے استعمال نہیں کیا اورایسا بہت ہوتا ہے۔


54- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ إِذَا تَوَضَّأَ مَسَحَ وَجْهَهُ بِطَرَفِ ثَوْبِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ. وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمٍ الأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ. وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِي التَّمَنْدُلِ بَعْدَ الْوُضُوءِ. وَمَنْ كَرِهَهُ إِنَّمَا كَرِهَهُ مِنْ قِبَلِ: أَنَّهُ قِيلَ إِنَّ الْوُضُوءَ يُوزَنُ. وَرُوِيَ ذَلِكَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَالزُّهْرِيِّ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ مُجَاهِدٍ عَنِّي، وَهُوَ عِنْدِي ثِقَةٌ، عَنْ ثَعْلَبَة، عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ: إِنَّمَا كُرِهَ الْمِنْدِيلُ بَعْدَ الْوُضُوءِ لأَنَّ الْوُضُوءَ يُوزَنُ.
* تخريج: تفردبہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۳۴) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں رشدین بن سعد اورعبدالرحمن افریقی دونوں ضعیف ہیں)
۵۴- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ وضو کرتے تو چہرے کو اپنے کپڑے کے کنارے سے پونچھتے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے ، رشدین بن سعد اور عبدالرحمن بن زیاد بن انعم الافریقی دونوں حدیث میں ضعیف قراردیئے جاتے ہیں،۲- صحابہ کرام اوران کے بعدکے لوگوں میں سے اہل علم کے ایک گروہ نے وضوکے بعدرومال سے پونچھنے کی اجازت دی ہے، اورجن لوگوں نے اسے مکروہ کہاہے تومحض اس وجہ سے کہا ہے کہ کہاجاتاہے : وضوکو( قیامت کے دن )تولاجائے گا ،یہ بات سعیدبن مسیب اورزہری سے روایت کی گئی ہے، ۳- زہری کہتے ہیں کہ وضو کے بعد تولیہ کا استعمال اس لئے مکروہ ہے کہ وضوکاپانی (قیامت کے روز) تولا جائے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس معنی میں بھی کوئی مرفوع صحیح حدیث وارد نہیں ہے ، اورقیامت کے دن وزن کیے جانے کی بات اجروثواب کی بات ہے کوئی چاہے تو اپنے طورپریہ اجرحاصل کرے، لیکن اس سے یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ تولیہ کا استعمال ہی مکروہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب فِيمَا يُقَالُ بَعْدَ الْوُضُوءِ
۴۱-باب: وضو کے بعد کیا دعا پڑھی جائے؟​


55- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ابْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، وَأَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ: فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ قَدْ خُولِفَ زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ: وَرَوَى عَبْدُاللهِ بْنُ صَالِحٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عُمَرَ، وَعَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ عُمَرَ. وَهَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، وَلاَ يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ كَثِيْرُ شَيْئٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَبُوإِدْرِيسَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ شَيْئًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۸۰) وأخرجہ بدون قولہ ''اللھم اجعلني ... '' کل من: م/الطھارۃ ۶ (۲۳۴)، والطھارۃ ۶۵ (۱۶۹)، و ن/الطھارۃ ۱۰۹ (۱۴۸)، والطھارۃ ۶۰ (۴۷۰)، وحم (۱/۱۴۶، ۱۵۱، ۱۵۳) من طریق عقبۃ بن عامر عن عمر (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۰۹) (صحیح)
(سند میں اضطراب ہے،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے ، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم ۱۶۲)
۵۵- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے: ''أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ'' (میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ !مجھے توبہ کرنے والوں اورپاک رہنے والوں میں سے بنادے) تواس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس اورعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲- امام ترمذی نے عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے طرق ۱؎ ذکرکرنے کے بعد فرما یا کہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے،۳- اس باب میںزیادہ تر چیزیں نبی اکرم ﷺسے صحیح ثابت نہیں ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سندسے کی ہے (رقم:۲۳۴) اور اس میں ''اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ'' کااضافہ نہیں ہے، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اورمحفوظ ہے، احناف اورشوافع نے اپنی کتابوں میں ہرعضوکے دھونے کے وقت جوالگ الگ دعائیں نقل کی ہیں: مثلاً چہرہ دھونے کے وقت ''اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه'' اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت ''اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً '' ان کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
وضاحت ۳؎ : ترمذی کی سندمیں''ابوادریس کی روایت براہ راست عمر رضی اللہ عنہ سے ہے، لیکن زیدبن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگراس میں ''ابوادریس ''کے بعد ''جبیربن نفیرعن عقبہ بن عامر، عن عمر''ہے جیسا کہ ترمذی نے خودتصریح کی ہے ، بہرحال ترمذی کی روایت میں ''اللهم أجعلني...''کا اضافہ بزاراورطبرانی کے یہاں ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجودہے، حافظ ابن حجرنے اس کو تلخیص میں ذکرکرکے سکوت اختیارکیاہے۔ (ملاحظہ ہو: الإرواء رقم ۹۶، وصحیح أبی داود رقم ۱۶۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب فِيمَا يُقَالُ بَعْدَ الْوُضُوءِ
۴۱-باب: وضو کے بعد کیا دعا پڑھی جائے؟​


55- حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ابْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، وَأَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ، وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ: فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ قَدْ خُولِفَ زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ: وَرَوَى عَبْدُاللهِ بْنُ صَالِحٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عُمَرَ، وَعَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ عُمَرَ. وَهَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، وَلاَ يَصِحُّ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي هَذَا الْبَابِ كَثِيْرُ شَيْئٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَبُوإِدْرِيسَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ شَيْئًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۸۰) وأخرجہ بدون قولہ ''اللھم اجعلني ... '' کل من: م/الطھارۃ ۶ (۲۳۴)، والطھارۃ ۶۵ (۱۶۹)، و ن/الطھارۃ ۱۰۹ (۱۴۸)، والطھارۃ ۶۰ (۴۷۰)، وحم (۱/۱۴۶، ۱۵۱، ۱۵۳) من طریق عقبۃ بن عامر عن عمر (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۰۹) (صحیح)
(سند میں اضطراب ہے،لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے ، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم ۱۶۲)
۵۵- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :'' جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے: ''أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ'' (میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتاہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ !مجھے توبہ کرنے والوں اورپاک رہنے والوں میں سے بنادے) تواس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس اورعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،۲- امام ترمذی نے عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے طرق ۱؎ ذکرکرنے کے بعد فرما یا کہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے،۳- اس باب میں زیادہ تر چیزیں نبی اکرم ﷺسے صحیح ثابت نہیں ہیں ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سندسے کی ہے (رقم:۲۳۴) اور اس میں ''اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ'' کااضافہ نہیں ہے، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اورمحفوظ ہے، احناف اورشوافع نے اپنی کتابوں میں ہرعضوکے دھونے کے وقت جوالگ الگ دعائیں نقل کی ہیں: مثلاً چہرہ دھونے کے وقت ''اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه'' اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت ''اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً '' ان کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
وضاحت ۳؎ : ترمذی کی سندمیں''ابوادریس کی روایت براہ راست عمر رضی اللہ عنہ سے ہے، لیکن زیدبن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگراس میں ''ابوادریس ''کے بعد ''جبیربن نفیرعن عقبہ بن عامر، عن عمر''ہے جیسا کہ ترمذی نے خودتصریح کی ہے ، بہرحال ترمذی کی روایت میں ''اللهم أجعلني...''کا اضافہ بزاراورطبرانی کے یہاں ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجودہے، حافظ ابن حجرنے اس کو تلخیص میں ذکرکرکے سکوت اختیارکیاہے۔ (ملاحظہ ہو: الإرواء رقم ۹۶، وصحیح أبی داود رقم ۱۶۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب فِي الْوُضُوءِ بِالْمُدِّ
۴۲-باب: ایک مد پانی سے وضو کرنے کا بیان​


56- وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَعَليُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَبِي رَيْحَانَةَ، عَنْ سَفِينَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَفِينَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو رَيْحَانَةَ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَطَرٍ. وَهَكَذَا رَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوُضُوءَ بِالْمُدِّ، وَالْغُسْلَ بِالصَّاعِ. وَ قَالَ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ: لَيْسَ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عَلَى التَّوَقِّيتِ أَنَّهُ لاَ يَجُوزُ أَكْثَرُ مِنْهُ وَلاَ أَقَلُّ مِنْهُ وَهُوَ قَدْرُ مَا يَكْفِي۔
* تخريج: م/الحیض۱۰ (۳۲۶) ق/الطہارۃ ۱ (۲۶۷) (تحفۃ الأشراف: ۴۴۷۹) حم (۵/۲۲۲) دی/الطہارۃ ۲۳ (۷۱۵) (صحیح)
۵۶- سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ ایک مد ۱؎ پانی سے وضو اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سفینہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عائشہ ،جابر اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کی رائے یہی ہے کہ ایک مدپانی سے وضوکیاجائے اورایک صاع پانی سے غسل ، شافعی ،احمد اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کامقصودتحدید نہیں ہے کہ اس سے زیادہ یاکم جائزنہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ مقدارایسی ہے جوکافی ہوتی ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مدایک رطل اورتہائی رطل کاہوتا ہے اورصاع چارمدکاہوتا ہے جو موجودہ زمانہ کے وزن کے حساب سے ڈھائی کلوکے قریب ہوتا ہے ۔
وضاحت ۲؎ : مسلم میں ایک ''فرق''پانی سے نبی اکرم ﷺ کے غسل کرنے کی روایت بھی آئی ہے، فرق ایک برتن ہوتا تھا جس میں لگ بھگ سات کیلو پانی آتاتھا، ایک روایت میں تو یہ بھی مذکورہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اورنبی اکرم ﷺدونوں ایک فرق پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے،یہ سب آدمی کے مختلف حالات اورمختلف آدمیوں کے جسموں پرمنحصرہے، ایک ہی آدمی جاڑااورگرمی ، یا بدن کی زیادہ یاکم گندگی کے سبب کم وبیش پانی استعمال کرتاہے، نیزبعض آدمیوں کے بدن موٹے اورلمبے چوڑے ہوتے ہیں اوربعض آدمیوں کے ناٹے اوردبلے پتلے ہوتے ہیں،اس حساب سے پانی کی ضرورت پڑتی ہے ، بہرحال ضرورت سے زیادہ خواہ مخواہ پانی نہ بہائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الإِسْرَافِ فِي الْوُضُوءِ بِالْمَاءِ
۴۳-باب: وضومیں پانی کے بے جااستعمال کی کراہت کابیان​


57- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاودَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ مُصْعَبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عُتَيِّ بْنِ ضَمْرَةَ السَّعْدِيِّ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِنَّ لِلْوُضُوءِ شَيْطَانًا يُقَالُ لَهُ الْوَلَهَانُ فَاتَّقُوا وَسْوَاسَ الْمَاءِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، لأَنَّا لاَ نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ خَارِجَةَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ الْحَسَنِ: قَوْلَهُ وَلاَ يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ شَيْئٌ، وَخَارِجَةُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وَضَعَّفَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ.
* تخريج: ق/الطہارۃ۴۸(۴۲۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۶)، وحم (۵/۱۳۶) (ضعیف جدا)
(خارجہ بن مصعب متروک ہے)
۵۷- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''وضو کے لیے ایک شیطان ہے، اسے ولہان کہاجاتاہے ،تم اس کے وسوسوں کے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے سے بچو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اورعبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابی بن کعب کی حدیث غریب ہے، ۳- اس کی سند محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے اس لیے کہ ہم نہیں جانتے کہ خارجہ کے علاوہ کسی اور نے اسے مسنداًروایت کیا ہو،یہ حدیث دوسری اورسندوں سے حسن (بصری)سے موقوفاً مروی ہے (یعنی اسے حسن ہی کاقول قراردیاگیاہے) اوراس باب میں نبی اکرم ﷺ سے کوئی چیز صحیح نہیں اورخارجہ ہمارے اصحاب ۱؎ کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں،ابن مبارک نے ان کی تضعیف کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی جب''اصحابنا''کہتے ہیں تو اس سے محدثین مرادہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- بَاب مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلاَةٍ
۴۴-باب: ہر صلاۃ کے لیے وضو کرنے کا بیان​


58- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ طَاهِرًا، أَوْ غَيْرَ طَاهِرٍ. قَالَ: قُلْتُ لأَنَسٍ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ أَنْتُمْ؟ قَالَ: كُنَّا نَتَوَضَّأُ وُضُوئًا وَاحِدًا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْمَشْهُورُ عَنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الأنْصَارِيِّ عَنْ أَنَسٍ. وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَى الْوُضُوءَ لِكُلِّ صَلاَةٍ اسْتِحْبَابًا، لاَ عَلَى الْوُجُوبِ۔
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۷۴۰) (ضعیف)
(محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں اور محمد بن اسحاق مدلس ، اور روایت ''عنعنہ'' سے ہے، لیکن متابعت جو حدیث:۶۰ پر آرہی ہے کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے)
۵۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ ہر صلاۃ کے لیے وضوکرتے باوضوہوتے یابے وضو۔ حمید کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایک ہی وضوکرتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: حمید کی حدیث بواسطہ انس اس سندسے غریب ہے، اور محدثین کے نزدیک مشہور عمرو بن عامروالی حدیث ہے جوبواسطہ انس مروی ہے،اوربعض اہل علم ۲؎ کی رائے ہے کہ ہرصلاۃ کے لیے وضومستحب ہے نہ کہ واجب۔
وضاحت ۱؎ : ایک ہی وضوسے کئی کئی صلاتیں پڑھتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : بلکہ اکثراہل علم کی یہی رائے ہے۔


59 - وَقَدْ رُوِيَ فِي حَدِيثٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ" قَالَ: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الأَفْرِيقِيُّ عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ . حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْمَرْوَزِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ عَنْ الأَفْرِيقِيِّ. وَهُوَ إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ: ذَكَرَ لِهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ هَذَا الْحَدِيثُ فَقَالَ: هَذَا إِسْنَادٌ مَشْرِقِيٌ. قَالَ: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ بِعَيْنِي مِثْلَ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ.
* تخريج: د/الطہارۃ۳۲(۶۲) ق/الطہارۃ۷۳(۵۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۸۵۹۰) (ضعیف)
( سندمیں عبدالرحمن افریقی ضعیف ہیں، اور ابوغطیف مجہول ہیں)
۵۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :'' جووضوپروضوکرے گا اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث افریقی نے ابوغطیف سے اورابوغطیف نے ابن عمر سے اورابن عمرنے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، ہم سے اسے حسین بن حریث مروزی نے محمد بن یزید واسطی کے واسطے سے بیان کیاہے اور محمدبن یزید نے افریقی سے روایت کی ہے اور یہ سند ضعیف ہے، ۲- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: انہوں نے اس حدیث کا ذکر ہشام بن عروہ سے کیاتو انہوں نے کہاکہ یہ سند مشرقی ہے ۱؎ ، ۳- میں نے احمد بن حسن کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے احمدبن حنبل کوکہتے سناہے : میں نے اپنی آنکھ سے یحیی بن سعید القطان کے مثل کسی کو نہیں دیکھا۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث کے رواۃ مدینہ کے لوگ نہیں ہیں بلکہ اہل مشرق (اہل کوفہ اور بصرہ ) ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے معتبرنہیں ہیں جتنااہل مدینہ ہیں۔


60- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ مَهْدِيٍّ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الاَنْصَارِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلاَةٍ، قُلْتُ: فَأَنْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ نُحْدِثْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ۔
* تخريج: خ/الطہارۃ ۵۴ (۲۱۴) ن/الطہارۃ ۱۰۱ (۱۳۱) ق/الطہارۃ ۷۲ (۵۰۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۰) حم (۳/۱۳۲، ۱۹۴، ۲۶۰)، دي/ الطہارۃ ۴۶ (۷۴۷) (صحیح)
۶۰- عمروبن عامرانصاری کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا : نبی اکرم ﷺ ہر صلاۃ کے لئے وضو کرتے تھے ، میں نے( انس سے) پوچھا: پھر آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم حدث نہ کرتے ساری صلاتیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور حمید کی حدیث جو انس سے مروی ہے جید غریب حسن ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45- بَاب مَا جَاءَ أَنَّهُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ
۴۵-باب: نبی اکرم ﷺکے ایک وضو سے کئی صلاۃ پڑھنے کابیان​


61- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ، فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ صَلَّى الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ. فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّكَ فَعَلْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ فَعَلْتَهُ؟ قَالَ: عَمْدًا فَعَلْتُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَزَادَ فِيهِ: "تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً".
قَالَ: وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ. وَرَوَاهُ وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ. قَالَ: وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مُرْسَلاً، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّهُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ يُحْدِثْ. وَكَانَ بَعْضُهُمْ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاْةٍ: اسْتِحْبَابًا وَإِرَادَةَ الْفَضْلِ. وَيُرْوَى عَنْ الأَفْرِيقِيِّ، عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ". وَهَذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ. وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ بِوُضُوئٍ وَاحِدٍ.
* تخريج: م/الطہارۃ ۲۵ (۲۷۷) د/الطہارۃ ۶۶ (۱۷۲) ق/الطہارۃ ۷۲ (۵۱۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۹۲۸) حم (۵/۳۵۰، ۳۵۱، ۳۵۸) دي/الطہارۃ ۳ (۶۸۵) (صحیح)
۶۱- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرم ﷺ ہرصلاۃ کے لیے وضو کرتے تھے ،اور جب فتح مکہ کا سال ہواتوآپ نے کئی صلاتیں ایک وضو سے اداکیں اوراپنے موزوں پرمسح کیا،عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیزکی ہے جسے کبھی نہیں کیاتھا ؟ آپ نے فرمایا:'' میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اوراس حدیث کو علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اورانہوں نے اس میں اتنا اضافہ کیاہے کہ '' آپ نے اعضائے وضوکو ایک ایک باردھویا''، ۳- سفیان ثوری نے بسند محارب بن دثارعن سلیمان بن بریدہ (مرسلاًروایت کیاہے) کہ ''نبی اکرم ﷺہر صلاۃ کے لیے وضو کرتے تھے''، ۴- اوراسے وکیع نے بسند سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدہ عن بریدہ سے روایت کیا ہے، ۵- نیز اسے عبدالرحمن بن مھدی وغیرہ نے بسند سفیان عن محارب بن دثارعن سلیمان بن بریدہ مرسلاً روایت کیاہے، اور یہ روایت وکیع کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎ ، ۶- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک وضو سے کئی صلاتیں ادا کی جاسکتی ہیں ، جب تک حدث نہ ہو، ۷- بعض اہل علم استحباب اورفضیلت کے ارادہ سے ہرصلاۃ کے لیے وضو کرتے تھے، ۸-نیز عبدالرحمن افریقی نے بسندابی غطیف عن ابن عمرروایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''جووضو پر وضو کرے گا تواس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا'' اس حدیث کی سند ضعیف ہے، ۹-اس باب میں جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک وضو سے ظہراور عصر دونوں پڑھیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والدکے واسطے کاذکرنہیں ہے وکیع کی مسندروایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والدکے واسطے کاذکرہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں،لیکن عبدالرحمن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے(جومولف کی پہلی سندہے)اوراس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگردکا اختلاف نہیں ہے جیساکہ محارب والے طریق میں ہے ، فافہم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46- بَاب مَا جَاءَ فِي وُضُوءِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ
۴۶-باب: مرد اورعورت دونوں کے ایک ہی برتن سے وضوکرنے کا بیان​


62- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ قَالَتْ: كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ مِنْ الْجَنَابَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ قَوْلُ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ: أَنْ لاَ بَأْسَ أَنْ يَغْتَسِلَ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ مِنْ إِنَائٍ وَاحِدٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَأُمِّ هَانِئٍ، وَأُمِّ صُبَيَّةَ الْجُهَنِيَّةِ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ: جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ.
* تخريج: م/الحیض۱۰ (۳۲۲) ن/الطہارۃ ۱۴۶ (۲۳۷) ق/الطہارۃ۳۵ (۳۷۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۰۹۷) حم (۶/۳۲۹) (صحیح)
۶۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : مجھ سے میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اور رسول اللہﷺدونوں ایک ہی برتن سے غسلِ جنابت کرتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثرفقہاء کایہ یقول ہے کہ مرداورعورت کے ایک ہی برتن سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں،۳- اس باب میں علی، عائشہ، انس، ام ہانی، ام حبیبہ، ام سلمہ اورابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : اور غسل جائز ہے تو وضو بدرجہ اولی جائز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ فَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ
۴۷-باب: عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کی کراہت کا بیان​


63- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي حَاجِبٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي غِفَارٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ فَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَرِهَ بَعْضُ الْفُقَهَاءِ الْوُضُوءَ بِفَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ: كَرِهَا فَضْلَ طَهُورِهَا، وَلَمْ يَرَيَا بِفَضْلِ سُؤْرِهَا بَأْسًا.
* تخريج: د/الطہارۃ۴۰(۸۲) ن/المیاہ۱۲(۳۴۵) ق/الطہارۃ ۳۴ (۳۷۳) (تحفۃ الأشراف: ۳۴۲۱)، حم (۴/۲۱۳،۶۶۵) (صحیح)
۶۳- قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی (حکم بن عمرو) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے(وضو کرنے سے) منع فرمایا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے،۲- بعض فقہا ء نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے کو مکروہ قراردیاہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے، ان دونوں نے عورت کے وضو سے بچے ہوے پانی کومکروہ کہا ہے لیکن اس کے جھو ٹے کے استعمال میں ان دونوں نے کوئی حرج نہیں جانا۔


64- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا حَاجِبٍ يُحَدِّثُ عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ، أَوْ قَالَ: بِسُؤْرِهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَأَبُو حَاجِبٍ اسْمُهُ سَوَادَةُ بْنُ عَاصِمٍ. وَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ فِي حَدِيثِهِ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَتَوَضَّأَ الرَّجُلُ بِفَضْلِ طَهُورِ الْمَرْأَةِ، وَلَمْ يَشُكَّ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ.
* تخريج: انظرما قبلہ (صحیح)
۶۴- حکم بن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی سے وضو کومنع فرمایا ہے، یافرمایا: عورت کے جھوٹے سے وضوکرے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اور محمد بن بشاراپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ مرد عورت کے وضوسے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے ۱؎ ،اورمحمدبن بشارنے اس روایت میں -أَوْ بِسُؤْرِهَا- والا شک بیان نہیں کیا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس نہی سے نہی تنزیہی مرادہے، یعنی نہ استعمال کرنا بہترہے، اس پر قرینہ وہ احادیث ہیں جوجوازپر دلالت کرتی ہیں، یا یہ ممانعت محمول ہوگی اس پانی پر جو اعضائے وضوسے گرتا ہے کیو نکہ وہ ماء مستعمل استعمال ہواپانی ہے۔
وضاحت ۲؎ : مطلب یہ کہ محمودبن غیلان کی روایت شک کے صیغے کے ساتھ ہے اور محمدبن بشارکی بغیرشک کے صیغے سے۔
 
Top