- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
11-كِتَاب الطَّلاَقِ وَاللِّعَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۱۱-کتاب: طلاق اور لعان کے احکام ومسائل
1- بَاب مَا جَاءَ فِي طَلاَقِ السُّنَّةِ
۱-باب: مسنون طلاق کا بیان
1175- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ يُونُسَ ابْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، وَهِيَ حَائِضٌ. فَقَالَ: هَلْ تَعْرِفُ عَبْدَاللهِ بْنَ عُمَرَ؟ فَإِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، وَهِيَ حَائِضٌ. فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا. قَالَ: قُلْتُ: فَيُعْتَدُّ بِتِلْكَ التَّطْلِيقَةِ؟ قَالَ: فَمَهْ. أَرَأَيْتَ إِنْ عَجَزَ وَاسْتَحْمَقَ.
* تخريج: خ/الطلاق ۲ (۵۲۵۲)، و ۴۵ (۵۳۳۳)، م/الطلاق ۱ (۱۴۷۱)، د/الطلاق ۴ (۲۱۸۳، ۲۱۸۴)، ن/الطلاق ۱ (۳۴۱۸)، و ۷۶ (۳۵۸۵)، ق/الطلاق ۲ (۲۱۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۷۳)، حم (۲/۴۳، ۵۱، ۷۹) (صحیح) و أخرجہ کل من : خ/تفسیر سورۃ الطلاق ۱ (۴۹۰۸)، والطلاق ۱ (۵۲۵۱)، و ۴۴ (۵۳۳۲)، والأحکام ۱۳ (۷۱۶۰)، م/الطلاق (المصدر المذکور) د/الطلاق ۴ (۲۱۷۹-۲۱۸۲)، ط/الطلاق ۲۱ (۵۳)، دي/الطلاق ۱ (۲۳۰۸)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۷۵- یونس بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہوتو انہوں نے کہا: کیاتم عبداللہ بن عمر کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے بھی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی، عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھاتوآپ نے انہیں ''حکم دیا کہ وہ اسے رجوع کرلیں''، یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا یہ طلاق شمار کی جائے گی؟ کہا: تو اور کیا ہوگی؟ (یعنی کیوں نہیں شمار کی جائے گی) ،بھلابتاؤ اگرو ہ عاجز ہوجاتا یا دیوانہ ہوجاتا تو واقع ہوتی یانہیں؟! ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جب رجعت سے عاجزہوجانے یا دیوانہ وپاگل ہوجانے کی صورت میں یہ طلاق شمارکی جائے گی تورجعت کے بعد بھی ضرورشمارکی جائے گی، اس حدیث سے معلوم ہواکہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی کیو نکہ اگروہ واقع نہ ہو تو آپ کا ''مره فليراجعها''کہنا بے معنی ہوگا، جمہور کا یہی مسلک ہے کہ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا حرام ہے لیکن اس سے طلاق واقع ہوجائے گی اور اس سے رجوع کرنے کاحکم دیاجائے گا، لیکن ظاہریہ کا مذہب ہے کہ طلاق نہیں ہوتی، ابن القیم نے زادالمعاد میں اس پر لمبی بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی، ابوداودکی ایک روایت (رقم: ۲۱۸۵) کے الفاظ ہیں ''لم يرها شيئاً''،محتاط یہی ہے کہ طلاق کے ضمن میں حالت حیض میں ظاہریہ کے مسلک کو اختیارکیاجائے تاکہ طلاق کھیل نہ بن جائے۔
1176- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فِي الْحَيْضِ. فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: "مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا أَوْ حَامِلاً". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَكَذَلِكَ حَدِيثُ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ طَلاَقَ السُّنَّةِ، أَنْ يُطَلِّقَهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ طَلَّقَهَا: ثَلاَثًا وَهِيَ طَاهِرٌ، فَإِنَّهُ يَكُونُ لِلسُّنَّةِ أَيْضًا. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ تَكُونُ ثَلاَثًا لِلسُّنَّةِ إِلاَّ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً وَاحِدَةً. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَإِسْحَاقَ. وَقَالُوا: "فِي طَلاَقِ الْحَامِلِ": يُطَلِّقُهَا مَتَى شَائَ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: يُطَلِّقُهَا عِنْدَ كُلِّ شَهْرٍ تَطْلِيقَةً.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۷۹۷) (صحیح)
۱۱۷۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی،ان کے والدعمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے مسئلہ پوچھاتو آپ نے فرمایا:'' اُسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرلے ، پھرطہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یونس بن جبیر کی حدیث جسے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، حسن صحیح ہے۔ اور اسی طرح سالم بن عبداللہ کی بھی جسے وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں،۲- یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اور وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ طلاقِ سنّی یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں جماع کیے بغیر طلاق دے، ۴- بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے طہر کی حالت میں تین طلاقیں دیں، تو یہ بھی طلاقِ سنّی ہوگی۔یہ شافعی اوراحمد بن حنبل کا قول ہے،۵- اوربعض کہتے ہیں کہ تین طلاق طلاق سنی نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ وہ ایک ایک طلاق الگ الگ کرکے دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۶- اور یہ لوگ حاملہ کے طلاق کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اسے جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،۷- اوربعض کہتے ہیں: اسے بھی وہ ہرماہ ایک طلاق دے گا ۔