• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
11- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُخْتَلِعَاتِ
۱۱-باب: خلع لینے والی عورتوں کا بیان​


1186- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ ذَوَّادِ بْنِ عُلْبَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ، لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۰۹۲) (صحیح)
(متابعت اور شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ''لیث بن ابی سلیم'' ضعیف، اور ''ابوالخطاب'' مجہول ہیں، ملاحظہ : صحیحہ رقم : ۶۳۲)
۱۱۸۶- ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے، اس کی سندقوی نہیں ہے،۲- نبی اکرمﷺ سے یہ بھی مروی ہے آپ نے فرمایا:'' جس عورت نے بلاکسی سبب کے اپنے شوہر سے خلع لیا ، تو وہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گی۔
وضاحت ۱؎ : یہ بطورزجروتوبیخ کہاہے یعنی یہ عورتیں ایسی ہیں جوجنت میں دخول اوّلی کی مستحق نہیں قرارپائیں گی کیونکہ بظاہریہ اطاعت گزار ہیں لیکن باطن میں نافرمان ہیں۔ اور یہ ارشاد بغیر کسی معقول وجہ کے خلع لینے والی عورتوں کے بارے میں ہے۔


1187- أَنْبَأَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاَقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
* تخريج: د/الطلاق ۱۸ (۲۲۲۶)، ق/الطلاق ۲۱ (۲۰۵۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۳)، حم (۵/۲۷۷، ۲۸۳)، دي/الطلاق ۶ (۲۳۱۶) (صحیح)
۱۱۸۷- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس عورت نے بغیر کسی بات کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور یہ عن ایوب،عن ابی قلابۃ، عن ابی اسماء، عن ثوبان کے طریق سے بھی روایت کی جاتی ہے،۳- بعض نے ایوب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
12- بَاب مَا جَاءَ فِي مُدَارَاةِ النِّسَاءِ
۱۲-باب: عورتوں کی خاطرداری کا بیان​


1188- حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ الْمَرْأَةَ كَالضِّلَعِ، إِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا، وَإِنْ تَرَكْتَهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا عَلَى عِوَجٍ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي ذَرٍّ وَسَمُرَةَ وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ.
* تخريج: م/الرضاع ۱۸ (۱۴۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۲۴۷) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/النکاح ۷۹ (۵۱۸۴)، م/الرضاع (المصدر المذکور)، حم (۲/۴۲۸، ۴۴۹، ۵۳۰)، دي/النکاح ۳۵ (۲۲۶۸) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۱۸۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عورت کی مثال پسلی کی ہے ۱؎ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگوگے توتوڑ دوگے اورا گر اسے یوں ہی چھوڑے رکھاتو ٹیڑھ کے باوجودتم اس سے لطف اندوز ہوگے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے اوراس کی سند جید ہے،۲- اس باب میں ابوذر، سمرہ، اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عورتوں کی خلقت ہی میں کچھ ایسی بات ہے، لہذا جس فطرت پر وہ پیداکی گئیں ہیں اس سے انہیں بدلانہیں جاسکتا۔ اس لیے ان باتوں کا لحاظ کرکے ان کے ساتھ تعلقات رکھنے چاہئیں تاکہ معاشرتی زندگی سکون اورآرام وچین کی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13- بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَسْأَلُهُ أَبُوهُ أَنْ يُطَلِّقَ زَوْجَتَهُ
۱۳-باب: باپ لڑکے سے کہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دوتوکیا کرے؟​


1189- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْحَارِثِ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أُحِبُّهَا، وَكَانَ أَبِي يَكْرَهُهَا، فَأَمَرَنِي أَبِي أَنْ أُطَلِّقَهَا فَأَبَيْتُ. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "يَا عَبْدَاللهِ بْنَ عُمَرَ! طَلِّقْ امْرَأَتَكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. إِنَّمَا نَعْرِفَهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ.
* تخريج: د/الأدب ۱۲۹ (۵۱۳۸)، ق/الطلاق ۳۶ (۲۰۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۰۱)، حم (۲/۴۲، ۵۳) (حسن)
۱۱۸۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے نکاح میں ا یک عورت تھی ، میں اس سے محبت کرتاتھا، اور میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں، لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ پھر میں نے اس کا ذکر نبی اکرمﷺ سے کیاتو آپ نے فرمایا:'' عبداللہ بن عمر! تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف ابن ابی ذئب ہی کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ روایت اس بات پرواضح دلیل ہے کہ اگرباپ بیٹے کوحکم دے کہ وہ اپنی بیوی کوطلاق دے دے تو اسے طلاق دے دینی چاہئے گووہ اسے بہت چاہتاہواورماں،باپ کے حکم میں بدرجہ اولیٰ داخل ہوگی اس لیے کہ بیٹے پر اس کا حق باپ سے بڑھ کر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14- بَاب مَا جَاءَ لاَ تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلاَقَ أُخْتِهَا
۱۴-باب: عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے​
1190- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لاَ تَسْأَلِ الْمَرْأَةُ طَلاَقَ أُخْتِهَا لِتَكْفِئَ مَا فِي إِنَائِهَا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰)، م/النکاح ۶ (۱۴۱۳/۵۲)، ن/النکاح ۲۰ (۳۲۴۱)، والبیوع ۱۶ (۴۴۹۶)، و۱۹ (۴۵۰۶)، و۲۱ (۴۵۱۰)، حم (۲/۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۳) (صحیح) وأخرجہ کل من: خ/الشروط ۸ (۲۷۲۳)، والنکاح ۵۳ (۵۱۵۲)، والقدر ۴ (۶۶۰۱)، م/النکاح (المصدر المذکور)، حم (۲/۲۷۴، ۳۱۱، ۳۹۴، ۴۱۰، ۴۸۷، ۴۸۹، ۵۰۸، ۵۱۶) من غیر ہذا الوجہ و بزیادۃ في السیاق۔ وانظر أیضا حدیث رقم ۱۱۳۴، وکذا مایأتي برقم: ۱۲۲۲، و ۱۳۰
۱۱۹۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' عورت اپنی سوکن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے کہ جو اس کے برتن میں ہے اُسے اپنے میں انڈیل لے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ام سلمہ سے بھی روایت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15- بَاب مَا جَاءَ فِي طَلاَقِ الْمَعْتُوهِ
۱۵-باب: پاگل اوردیوانے کی طلاق کا بیان​


1191- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، أَنْبَأَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَطَاءِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : "كُلُّ طَلاَقٍ جَائِزٌ، إِلاَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ عَجْلاَنَ. وَعَطَائُ بْنُ عَجْلاَنَ ضَعِيفٌ، ذَاهِبُ الْحَدِيثِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ طَلاَقَ الْمَعْتُوهِ الْمَغْلُوبِ عَلَى عَقْلِهِ لاَ يَجُوزُ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ مَعْتُوهًا، يُفِيقُ الأَحْيَانَ، فَيُطَلِّقُ فِي حَالِ إِفَاقَتِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۴۴) (ضعیف جدا)
(سند میں عطاء بن عجلان متروک الحدیث راوی ہے،صحیح ابوہریرہ کے قول سے ہے)
۱۱۹۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:'' ہرطلاق واقع ہوتی ہے سوائے پاگل اور دیوانے کی طلاق کے''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث کوہم صرف عطاء بن عجلان کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اورعطاء بن عجلان ضعیف اور ذاہب الحدیث (حدیث بھول جانے والے)ہیں، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کااسی پرعمل ہے کہ دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ ایسا دیوانہ ہو جس کی دیوانگی کبھی کبھی ٹھیک ہوجاتی ہو اور وہ افاقہ کی حالت میں طلاق دے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16- بَابٌ
۱۶-باب: طلاق سے متعلق ایک اور باب​


1192- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ شَبِيبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ، وَالرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ مَا شَائَ أَنْ يُطَلِّقَهَا. وَهِيَ امْرَأَتُهُ إِذَا ارْتَجَعَهَا وَهِيَ فِي الْعِدَّةِ. وَإِنْ طَلَّقَهَا مِائَةَ مَرَّةٍ أَوْ أَكْثَرَ. حَتَّى قَالَ رَجُلٌ لامْرَأَتِهِ: وَاللهِ! لاَ أُطَلِّقُكِ فَتَبِينِي مِنِّي، وَلاَ آوِيكِ أَبَدًا. قَالَتْ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟ قَالَ: أُطَلِّقُكِ. فَكُلَّمَا هَمَّتْ عِدَّتُكِ أَنْ تَنْقَضِيَ. رَاجَعْتُكِ. فَذَهَبَتِ الْمَرْأَةُ حَتَّى دَخَلَتْ عَلَى عَائِشَةَ فَأَخْبَرَتْهَا. فَسَكَتَتْ عَائِشَةُ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَخْبَرَتْهُ. فَسَكَتَ النَّبِيُّ ﷺ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 229]. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلاَقَ مُسْتَقْبَلاً، مَنْ كَانَ طَلَّقَ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ طَلَّقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۳۷) (ضعیف)
(سند میں ''یعلی''لین الحدیث ہیں) لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے اس کا معنی صحیح ہے (دیکھئے ارواء رقم : ۲۰۸۰)


1192/م- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ. حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ. وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ "عَنْ عَائِشَةَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَعْلَى بْنِ شَبِيبٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۳۶) (صحیح)
۱۱۹۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: لوگوں کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینی چاہتادے دینا رجوع کرلینے کی صورت میں وہ اس کی بیوی بنی رہتی ،ا گرچہ اس نے سویا اس سے زائد باراُسے طلاق دی ہو، یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اللہ کی قسم! میں تجھے نہ طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوجائے اورنہ تجھے کبھی پناہ ہی دونگا۔ اس نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا: میں تجھے طلاق دوں گا پھر جب عدت پوری ہونے کو ہوگی تو رجعت کرلوں گا۔ اس عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر انہیں یہ بات بتائی توعائشہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں، یہاں تک کہ نبی اکرمﷺ آئے توعائشہ نے آپ کواس کی خبردی۔ نبی اکرمﷺ بھی خاموش رہے یہاں تک کہ قرآن نازل ہوا {الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} ( البقرۃ: ۲۲۹) (طلاق(رجعی ) دوہیں، پھر یا تو معروف اوربھلے طریقے سے روک لینا ہے یا بھلائی سے رخصت کردینا ہے)۔عائشہ کہتی ہیں:تو لوگوں نے طلاق کو آئندہ نئے سرے سے شمارکرناشروع کیا ، جس نے طلاق دے رکھی تھی اس نے بھی، اور جس نے نہیں دی تھی اس نے بھی۔دوسری سندسے ہشام بن عروہ نے اپنے والد ہشام سے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے اور اس میں ابوکریب نے عائشہ کے واسطے کاذکرنہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ یعلیٰ بن شبیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔ (یعنی: مرفوع ہونا زیادہ صحیح ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17- بَاب مَا جَاءَ فِي الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا تَضَعُ
۱۷-باب: شوہر کی وفات کے بعد بچہ جننے والی عورت کی عدت کا بیان​


1193- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ بْنِ بَعْكَكٍ قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِثَلاَثَةٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا، فَلَمَّا تَعَلَّتْ تَشَوَّفَتْ لِلنِّكَاحِ، فَأُنْكِرَ عَلَيْهَا فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: "إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ حَلَّ أَجَلُهَا".
* تخريج: ن/الطلاق ۵۶ (۳۵۳۹)، ق/الطلاق ۷ (۲۰۲۷)، حم (۴/۳۰۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۵۳) (صحیح)
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ سند میں انقطاع ہے جسے مولف نے بیان کردیا ہے)


1193/م- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى. حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ، نَحْوَهُ. و قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي السَّنَابِلِ حَدِيثٌ مَشْهُورٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَلاَنَعْرِفُ لِلأَسْوَدِ سَمَاعًا مِنْ أَبِي السَّنَابِلِ. و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: لاَ أَعْرِفُ أَنَّ أَبَا السَّنَابِلِ عَاشَ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْحَامِلَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، إِذَا وَضَعَتْ فَقَدْ حَلَّ التَّزْوِيجُ لَهَا، وَإِنْ لَمْ تَكْنِ انْقَضَتْ عِدَّتُهَا. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: تَعْتَدُّ آخِرَ الأَجَلَيْنِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج : انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۱۹۳- ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا،اور جب وہ نفاس سے پاک ہوگئی تونکاح کے لیے زینت کرنے لگی، اس پر اعتراض کیاگیا، اورنبی اکرمﷺ سے اس کاذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا:'' اگرو ہ ایساکرتی ہے ( تو حرج کی بات نہیں) اس کی عدت پوری ہوچکی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسنابل کی حدیث مشہوراور اس سند سے غریب ہے، ۲- ہم ابوسنابل سے اسود کا سماع نہیں جانتے ہیں، ۳- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کو کہتے سناکہ مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرمﷺ کے بعد ابوسنابل زندہ رہے یانہیں،۴- اس باب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے بھی حدیث روایت ہے، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ حاملہ عورت جس کا شوہرفوت ہوچکاہو جب بچہ جن دے تو اس کے لیے شادی کرنا جائز ہے، اگرچہ اس کی عدت پوری نہ ہوئی ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۶- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہوگی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔


1194- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ أَنَّ أَبَاهُرَيْرَةَ وَابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَانِ تَذَاكَرُوا الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، الْحَامِلَ تَضَعُ عِنْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ تَعْتَدُّ آخِرَ الأَجَلَيْنِ، وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: بَلْ تَحِلُّ حِينَ تَضَعُ. وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي. يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ. فَأَرْسَلُوا إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: قَدْ وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ الأَسْلَمِيَّةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِيَسِيرٍ. فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللهِ ﷺ. فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر سورۃ الطلاق ۲ (۴۹۰۹)، م/الطلاق ۸ (۱۴۸۵)، ن/الطلاق ۵۶ (۳۵۴۲)، ۳۵۴۴)، حم (۶/۲۸۹)، دي/الطلاق ۱۱ (۲۳۲۵) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۵۷ و ۱۸۲۰۶) (صحیح)
وأخرجہ کل من : خ/الطلاق ۳۹ (۵۳۱۸)، م/الطلاق (المصدر المذکور)، ن/الطلاق ۵۶ (۳۵۳۹، ۳۵۴۰، ۳۵۴۱، ۳۵۴۳، ۳۵۴۵، ۳۵۴۶، ۳۵۴۷)، حم (۶/۳۱۲، ۳۱۹) من غیر ہذا الوجہ، ولہ أیضا طرق أخری بسیاق آخر، انظر حدیث رقم (۲۳۰۶)، عند أبي داود و۳۵۴۸) عند النسائي۔
۱۱۹۴- سلیمان بن یسار کہتے ہیں: ابوہریرہ ، ابن عباس اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہم نے آپس میں اس حاملہ عورت کاذکرکیا جس کاشوہرفوت ہوچکا ہو اور اس نے شوہر کی وفات کے بعد بچہ جناہو، ابن عباس رضی اللہ عنہما کاکہناتھا کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہوگی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، اورابوسلمہ کاکہناتھا کہ جب اس نے بچہ جن دیا تو اس کی عدت پوری ہوگئی، اس پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔پھران لوگوں نے (ایک شخص کو)ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا ،تو انہوں نے کہا: سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھراس نے رسول اللہ ﷺ سے (شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے (دمِ نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي عِدَّةِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
۱۸-باب: شوہر کی موت پر عورت کی عدت کا بیان​


1195- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِاللهِ ابْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ بِهَذِهِ الأَحَادِيثِ الثَّلاَثَةِ: قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ. فَدَعَتْ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ بِهِ جَارِيَةً. ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا. ثُمَّ قَالَتْ: وَاللهِ! مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَيَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ. إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ، أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
* تخريج: خ/الجنائز ۳۰ (۱۲۸۱)، والطلاق ۴۶ (۵۳۳۴)، و۴۷ (۵۳۳۹)، و ۵۰ (۵۳۴۵)، م/الطلاق ۹ (۱۴۸۶)، د/الطلاق ۴۳ (۲۲۹۹)، ن/الطلاق ۵۵ (۳۵۳۰، ۳۵۳۲) و۶۳ (۳۵۶۳)، ق/الطلاق ۳۴ (۲۰۸۴)، ط/الطلاق ۳۵ (۱۰۱) حم (۶/۳۲۵، ۳۲۶)، دي/الطلاق ۱۲ (۲۳۳۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۷۴) (صحیح)
۱۱۹۵- حمیدبن نافع سے روایت ہے،زینب بنت ابی سلمہ نے انہیں یہ تینوں حدیثیں بتائیں (ان میں سے ایک یہ ہے) زینب کہتی ہیں: میں ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے والد ابوسفیان صخربن حرب کا انتقال ہوا، توانہوں نے خوشبو منگائی جس میں خلوق یا کسی دوسری چیز کی زردی تھی، پھر انہوں نے ا سے ایک لڑکی کو لگایا پھر اپنے دونوں رخسار وں پر لگایا، پھرکہا: اللہ کی قسم ! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے اس پر وہ چارماہ دس دن تک سوگ کرے گی۔


1196- قَالَتْ زَيْنَبُ: فَدَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ فَمَسَّتْ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللهِ! مَا لِي فِي الطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ، أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا".
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸۷۹) (صحیح)
۱۱۹۶- (دوسری حدیث یہ ہے:)زینب کہتی ہیں: پھرمیں زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس آئی جس وقت ان کے بھائی کاانتقال ہواتوانہوں نے خوشبو منگائی اوراس میں سے لگایا پھرکہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں تھی ، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:'' اللہ اورآخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے شوہرکے ، وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی''۔


1197- قَالَتْ زَيْنَبُ: وَسَمِعْتُ أُمِّي، أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ. فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ ابْنَتِي تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا. وَقَدْ اشْتَكَتْ عَيْنَيْهَا. أَفَنَكْحَلُهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: " لاَ "، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ: "لاَ"، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّمَا هِيَ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا. وَقَدْ كَانَتْ إِحْدَاكُنَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تَرْمِي بِالْبَعْرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ فُرَيْعَةَ بِنْتِ مَالِكٍ أُخْتِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَحَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْنَبَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، تَتَّقِي فِي عِدَّتِهَا الطِّيبَ وَالزِّينَةَ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۵۹) (صحیح)
۱۱۹۷- (تیسری حدیث یہ ہے:)زینب کہتی ہیں: میں نے اپنی ماں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کوکہتے سناکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک عورت نے آکر عرض کیا: اللہ کے رسول!میری بیٹی کا شوہرمرگیا ہے، اور اس کی آنکھیں دکھ رہی ہیں، کیا ہم اس کو سرمہ لگادیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' نہیں''۔دو یا تین مرتبہ اس عورت نے آپ سے پوچھا اور آپ نے ہربار فرمایا : ''نہیں''، پھر آپ نے فرمایا:'' (اب تو اسلام میں) عدت چار ماہ دس دن ہے، حالاں کہ جاہلیت میں تم میں سے (فوت شدہ شوہروالی بیوہ) عورت سال بھر کے بعد اونٹ کی مینگنی پھینکتی تھی'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- زینب کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعیدخدری کی بہن فریعہ بنت مالک، اور حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم کا اسی پر عمل ہے کہ جس عورت کا شوہر مرگیا ہو وہ اپنی عدت کے دوران خوشبو اور زینت سے پرہیز کرے گی۔سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : سال بھرکے بعداونٹ کی مینگنی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کا شوہرجب انتقال کرجاتاتو وہ ایک معمولی جھونپڑی میں جارہتی اورخراب سے خرابکپڑاپہن لیتی تھی اورسال پورا ہو نے تک نہ خوشبواستعمال کرتی اور نہ ہی کسی اور چیزکو ہاتھ لگاتی پھرکوئی جانور ، گدھا ، بکری، یاپرندہ اس کے پاس لا یا جاتا اور وہ اس سے اپنے جسم اور اپنی شرم گاہ کو رگڑتی اور جس جانورسے وہ رگڑتی عام طورسے وہ مرہی جاتا، پھروہ اس تنگ وتاریک جگہ سے باہر آتی پھر اسے اونٹ کی مینگنی دی جاتی اور وہ اسے پھینک دیتی اس طرح گویا وہ اپنی نحوست دورکرتی اس کے بعدہی اسے خوشبووغیرہ استعمال کرنے اجازت ملتی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ
۱۹-باب: ظہار کرنے والے کا بیان جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے جماع کربیٹھے​


1198- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَائٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْمُظَاهِرِ يُوَاقِعُ قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، قَالَ: "كَفَّارَةٌ وَاحِدَةٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ وَمَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. و قَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا وَاقَعَهَا قَبْلَ أَنْ يُكَفِّرَ، فَعَلَيْهِ كَفَّارَتَانِ. وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
* تخريج: د/الطلاق ۱۷ (۲۲۱۳)، ق/الطلاق ۲۵ (۲۰۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۵۵)، حم (۵/۴۳۶)، دي/الطلاق ۹ (۲۳۱۹) (صحیح)
۱۱۹۸- سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس ظہار ۱؎ کرنے والے کے بارے میں جو کفارہ کی ادائیگی سے پہلے مجامعت کرلیتاہے فرمایا:'' اس کے اوپر ایک ہی کفارہ ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ سفیان ، شافعی،مالک ،احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کفارہ اداکرنے سے پہلے جماع کربیٹھے تو اس پر دوکفارہ ہے۔ یہ عبدالرحمن بن مہدی کا قول ہے۔
وضاحت ۱؎ : ظہارکامطلب بیوی سے ''أنتِ عَلَيّ کَظَہْرامِّي''(تومجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے)کہنا ہے، زمانہء جاہلیت میں ظہار کوطلاق سمجھاجاتاتھا، امت محمدیہ میں ایساکہنے والے پر صرف کفارہ لازم آتاہے، اوروہ یہ ہے کہ ایک غلام آزادکرے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے بلاناغہ دومہینے کے صیام رکھے اگردرمیان میں بغیر عذرشرعی کے صوم چھوڑ دیا تو نئے سرے سے پورے دومہینے کے صیام رکھنے پڑیں گے، عذرشرعی سے مرادبیماری یاسفرہے، اوراگرپے درپے دومہینہ کے صیام رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکین کو کھانا کھلائے۔


1199- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ ﷺ، قَدْ ظَاهَرَ مِنَ امْرَأَتِهِ فَوَقَعَ عَلَيْهَا. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي قَدْ ظَاهَرْتُ مِنْ زَوْجَتِي فَوَقَعْتُ عَلَيْهَا قَبْلَ أَنْ أُكَفِّرَ، فَقَالَ: "وَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ، يَرْحَمُكَ اللهُ؟" قَالَ: رَأَيْتُ خَلْخَالَهَا فِي ضَوْئِ الْقَمَرِ. قَالَ: فَلاَ تَقْرَبْهَا حَتَّى تَفْعَلَ مَا أَمَرَكَ اللهُ بِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الطلاق ۱۷ (۲۲۲۱، ۲۲۲۲) (مرسلا بدون ذکر ابن عباس و موصولا بذکرہ (برقم: ۲۲۲۳)، ن/الطلاق ۳۳ (۳۴۸۷)، ق/الطلاق ۲۶ (۲۰۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۳۶) (صحیح)
۱۱۹۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺکے پاس ایک آدمی آیا، اس نے اپنی بیوی سے ظہارکررکھا تھا اورپھر اس کے ساتھجماع کرلیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے اپنی بیوی سے ظہار کر رکھا ہے ا ور کفارہ اداکرنے سے پہلے میں نے اس سے جماع کرلیاتوکیاحکم ہے؟ توآپ نے فرمایا:'' اللہ تم پر رحم کرے کس چیز نے تجھ کو اس پر آمادہ کیا؟ اس نے کہا: میں نے چاند کی روشنی میں اس کی پازیب دیکھی (تومجھ سے صبرنہ ہوسکا) آپ نے فرمایا:'' اس کے قریب نہ جاناجب تک کہ اسے کرنہ لینا جس کااللہ نے تمہیں حکم دیا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ الظِّهَارِ
۲۰-باب: ظہارکے کفارے کا بیان​


1200- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْخَزَّازُ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو سَلَمَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَانِ بْنِ ثَوْبَانَ أَنَّ سَلْمَانَ بْنَ صَخْرٍ الأَنْصَارِيَّ، أَحَدَ بَنِي بَيَاضَةَ، جَعَلَ امْرَأَتَهُ عَلَيْهِ كَظَهْرِ أُمِّهِ حَتَّى يَمْضِيَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا مَضَى نِصْفٌ مِنْ رَمَضَانَ وَقَعَ عَلَيْهَا لَيْلاً. فَأَتَى رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ. فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَعْتِقْ رَقَبَةً". قَالَ: لاَ أَجِدُهَا. قَالَ: "فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ". قَالَ: لاَ أَسْتَطِيعُ. قَالَ: "أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا". قَالَ: لاَ أَجِدُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لِفَرْوَةَ بْنِ عَمْرٍو: "أَعْطِهِ ذَلِكَ الْعَرَقَ - وَهُوَ مِكْتَلٌ يَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا أَوْ سِتَّةَ عَشَرَ صَاعًا- إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. يُقَالُ سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ، وَيُقَالُ سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ الْبَيَاضِيُّ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، فِي كَفَّارَةِ الظِّهَارِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۱۱۹۸) (صحیح)
۱۲۰۰- ابوسلمہ اور محمد بن عبدالرحمن بن ثوبان کا بیان ہے کہ سلمان بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ نے جوبنی بیاضہ کے ایک فر دہیں اپنی بیوی کواپنے اوپرمکمل ماہِ رمضان تک اپنی ماں کی پشت کی طرح(حرام ) قراردے لیا۔تو جب آدھا رمضان گزرگیا توایک رات وہ اپنی بیوی سے جماع کربیٹھے، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اورآپ سے اس کا ذکر کیا،تو آپﷺ نے ان سے فرمایا:''تم ایک غلام آزاد کرو''، انہوں نے کہا: مجھے یہ میسرنہیں۔ آپ نے فرمایا: ''پھردوماہ کا مسلسل صوم رکھو''، انہوں نے کہا: میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتاتوآپ نے فرمایا:'' ساٹھ مسکین کو کھانا کھلاؤ''، انہوں نے کہا:میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، تو آپﷺ نے فروۃ بن عمرو سے فرمایا:'' اسے یہ کھجوروں کا ٹوکرا دے دو تاکہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلادے، عرق ایک پیمانہ ہے جس میں پندرہ صاع یاسولہ صاع غلہ آتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- سلمان بن صخرکوسلمہ بن صخربیاضی بھی کہاجاتاہے۔ ۳-ظہارکے کفارے کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
 
Top