• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
18- بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ
۱۸-باب: ایک بیع میں دوبیع کرنے کی ممانعت​


1231- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ. وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، أَنْ يَقُولَ: أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ، وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ، وَلاَ يُفَارِقُهُ عَلَى أَحَدِ الْبَيْعَيْنِ، فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَى أَحَدِهِمَا، فَلاَبَأْسَ إِذَا كَانَتْ الْعُقْدَةُ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمَا. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِنْ مَعْنَى نَهْيِ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، أَنْ يَقُولَ: أَبِيعَكَ دَارِي هَذِهِ بِكَذَا، عَلَى أَنْ تَبِيعَنِي غُلاَمَكَ بِكَذَا. فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلاَمُكَ وَجَبَتْ لَكَ دَارِي، وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، وَلاَ يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۵۰) (صحیح) وأخرجہ کل من : ن/البیوع ۷۳ (۴۶۳۶)، ط/البیوع ۳۳ (۷۲) (بلاغا) حم (۲/۴۳۲، ۴۷۵، ۵۰۳) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۳۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دوبیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے، ۴- بعض اہل علم نے ایک بیع میں د وبیع کی تفسیریوں کی ہے کہ ایک بیع میں دوبیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپئے میں اور ادھار بیس روپیے میں بیچتاہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیرکسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلاجائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جداہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقدہوگئی ہو،۵- شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپئے میں اس شرط پر بیچ رہاہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپئے میں بیچ دو ۔ جب تیراغلام میرے لیے واجب وثابت ہوجائے گا تو میرا گھرتیرے لیے واجب وثابت ہوجائے گا، یہ بیع بغیرثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ۲؎ اور بائع اورمشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہواہے۔
وضاحت ۱؎ : امام ترمذی نے دوقول ذکرکئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیربھی ذکرکی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینارکے عوض گیہوں خریدلے اورجب ایک ماہ گزرجائے تو جاکر اس سے گیہوں کامطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرامیرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دومہینے کے وعدے پر دوبوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دوبیع ہوئی۔
وضاحت ۲؎ : اوریہی جہالت بیع کے جائزنہ ہونے کی وجہ ہے گوظاہرمیں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
19- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ
۱۹-باب: جوچیز موجود نہ ہو اس کی بیع جائزنہیں​


1232- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ ابْنِ حِزَامٍ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَقُلْتُ: يَأْتِينِي الرَّجُلُ يَسْأَلُنِي مِنَ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي، أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ ثُمَّ أَبِيعُهُ؟ قَالَ: "لاَ تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: د/البیوع ۷۰ (۳۵۰۳)، ن/البیوع ۶۰ (۴۶۱۷)، ق/التجارات ۲۰ (۲۱۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۳۶)، حم (۳/۴۰۲، ۴۳۴) (صحیح)
۱۲۳۲- حکیم بن حز ام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا : میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کوبیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: ''جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے-حکم ۱۲۳۴میں آرہاہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے۔


1233- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: مَا مَعْنَى نَهَى عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ؟ قَالَ: أَنْ يَكُونَ يُقْرِضُهُ قَرْضًا ثُمَّ يُبَايِعُهُ عَلَيْهِ بَيْعًا يَزْدَادُ عَلَيْهِ. وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ يُسْلِفُ إِلَيْهِ فِي شَيْئٍ فَيَقُولُ: إِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عِنْدَكَ فَهُوَ بَيْعٌ عَلَيْكَ. قَالَ إِسْحَاقُ: (يَعْنِي ابْنَ رَاهَوَيْهِ) كَمَا قَالَ. قُلْتُ لأَحْمَدَ: وَعَنْ بَيْعِ مَا لَمْ تَضْمَنْ؟ قَالَ: لاَ يَكُونُ عِنْدِي إِلاَّ فِي الطَّعَامِ مَا لَمْ تَقْبِضْ، قَالَ إِسْحَاقُ كَمَا قَالَ، فِي كُلِّ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ، قَالَ أَحْمَدُ: إِذَا قَالَ أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ وَقَصَارَتُهُ. فَهَذَا مِنْ نَحْوِ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ. وَإِذَا قَالَ: أَبِيعُكَهُ، وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ فَلاَ بَأْسَ بِهِ. أَوْ قَالَ: أَبِيعُكَهُ وَعَلَيَّ قَصَارَتُهُ فَلاَبَأْسَ بِهِ. إِنَّمَا هُوَ شَرْطٌ وَاحِدٌ، قَالَ إِسْحَاقُ: كَمَا قَالَ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۲۳۳- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس چیزکے بیچنے سے منع فرمایا جومیرے پاس نہ ہو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: بیع کے ساتھ قرض سے منع فرمانے کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے کہا: اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو قرض دے پھر اس سے بیع کرے اور سامان کی قیمت زیادہ لے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی کسی سے کسی چیزمیں سلف کرے اور کہے : اگر تیرے پاس روپیہ فراہم نہیں ہوسکا توتجھے یہ سامان میرے ہاتھ بیچ دیناہوگا۔اسحاق (ابن راھویہ) نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمدنے کہی ہے،۳- اسحاق بن منصور نے کہا: میں نے احمد سے ایسی چیز کی بیع کے بارے میں پوچھا جس کا بائع ضامن نہیں تو انہوں نے جواب دیا، (یہ ممانعت) میرے نزدیک صرف طعام کی بیع کے ساتھ ہے جب تک قبضہ نہ ہویعنی ضمان سے قبضہ مرادہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جواحمدنے کہی ہے لیکن یہ ممانعت ہر اس چیز میں ہے جوناپی یا تولی جاتی ہو۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: جب بائع یہ کہے : میں آپ سے یہ کپڑا اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہے۔تو بیع کی یہ شکل ایک بیع میں دوشرط کے قبیل سے ہے۔ اور جب بائع یہ کہے : میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ ا س کی سلائی میرے ذمہ ہے۔ یابائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہاہوں کہ اس کی دھلائی میرے ذمہ ہے، تو اس بیع میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ ایک ہی شرط ہے۔اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جواحمدنے کہی ہے۔


1234- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو ابْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَاللهِ بْنَ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لاَ يَحِلُّ سَلَفٌ وَبَيْعٌ، وَلاَ شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، وَلاَ رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ، وَلاَ بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ. رَوَى أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَأَبُو بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَوْفٌ وَهِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَهَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ. إِنَّمَا رَوَاهُ ابْنُ سِيرِينَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ هَكَذَا.
* تخريج: د/البیوع ۷۰ (۳۵۰۴)، ن/البیوع ۶۰ (۴۶۱۵)، ق/التجارات ۲۰ (۲۱۸۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۶۶۴)، حم (۲/۱۷۹) (حسن صحیح)
۱۲۳۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے ۱؎ ، اورنہ ایک بیع میں د وشرطیں جائز ہیں ۲؎ اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھاناجائزہے جس کا وہ ضامن نہ ہو ۳؎ اور نہ ایسی چیزکی بیع جائزہے جوتمہارے پاس نہ ہو ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حکیم بن حزام کی حدیث حسن ہے(۱۲۳۲،۱۲۳۳)، یہ ان سے اوربھی سندوں سے مروی ہے۔اور ایوب سختیانی اور ابوبشر نے اسے یوسف بن ماہک سے اوریوسف نے حکیم بن حزام سے روایت کیا ہے۔ اور عوف اور ہشام بن حسان نے اس حدیث کو ابن سیرین سے اورابن سیرین نے حکیم بن حزام سے اورحکیم بن حزام نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے اوریہ حدیث (روایت) مرسل (منقطع) ہے۔ اسے (اصلاً) ابن سیرین نے ایوب سختیانی سے اورایوب نے یوسف بن ماہک سے اوریوسف بن ماہک نے حکیم بن حزام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ فروخت کنندہ ،بائع کہے کہ میں یہ کپڑاتیرے ہاتھ دس روپے میں فروخت کرتاہوں بشرطیکہ مجھے دس روپے قرض دے دو یایوں کہے کہ میں تمہیں دس روپے قرض دیتاہوں بشرطیکہ تم اپنایہ سامان میرے ہاتھ سے بیچ دو۔
وضاحت ۲؎ : اس کے متعلق ایک قول یہ ہے اس سے مرادایک بیع میں دوفروختیں اورامام احمدکہتے ہیں اس کی شکل یہ ہے کہ بیچنے والا کہے میں یہ کپڑاتیرے ہاتھ بیچ رہاہوں اس شرط پر کہ اس کی سلائی اوردھلائی میرے ذمہ ہوگی۔
وضاحت ۳؎ : یعنی کسی سامان کا منافع حاصل کرنااس وقت تک جائزنہیں جب تک کہ وہ اس کا مالک نہ ہوجائے اورا سے اپنے قبضہ میں نہ لے لے۔


1235- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ وَعَبْدَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ أَبُوسَهْلٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُالصَّمَدِ بْنُ عَبْدِالْوَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: نَهَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى وَكِيعٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ (عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ.) وَرِوَايَةُ عَبْدِ الصَّمَدِ أَصَحُّ. وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عِصْمَةَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ.
* تخريج: انظر حدیث رقم (۱۲۳۲) ( صحیح)
۱۲۳۵- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا ہے جومیرے پاس نہیں ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وکیع نے اس حدیث کو بطریق: ''يزيد بن إبراهيم، عن ابن سيرين،عن أيوب، عن حكيم بن حزام'' روایت کیا ہے اور اس میں یوسف بن ماہک کے واسطے کاذکر نہیں کیا ہے۔ عبدالصمد کی روایت زیادہ صحیح ہے (جس میں ابن سیرین کا ذکر ہے)۔اوریحییٰ بن ابی کثیر نے یہ حدیث بطریق: ''يعلى بن حكيم، عن يوسف بن ماهك، عن عبدالله بن عصمة، عن حكيم بن حزام، عن النبي ﷺ'' روایت کیا ہے،۲- اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ اس چیز کی بیع کو مکروہ سمجھتے ہیں جو آدمی کے پاس نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
20- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْوَلاَئِ وَهِبَتِهِ
۲۰-باب: میراث ولاء کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے کی کراہت کا بیان​


1236- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلاَئِ وَهِبَتِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلاَئِ وَهِبَتِهِ. وَهُوَ وَهْمٌ: وَهِمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ. وَرَوَى عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ وَعَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ.
* تخريج: خ/العتق ۱۰ (۲۵۳۵)، و الفرائض ۲۱ (۶۷۵۶)، م/ العتق ۳ (۱۵۰۶)، د/الفرائض ۱۴ (۲۹۱۹)، ن/البیوع ۸۷ (۴۶۶۶)، ق/ الفرائض ۱۵ (۲۷۴۷)، ویأتي برقم (۲۱۲۶)، (التحفہ: ۷۱۵، و۷۱۸۹)، و ط/العتق ۱۰ (۲۰)، وحم (۲/۹، ۷۹، ۱۰۷)، دي/ البیوع ۳۶ (۲۶۱۴)، والفرائض ۵۳ (۳۲۰۰) (صحیح)
۱۲۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ولاء ۱؎ کوبیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم اسے صرف بروایت عبداللہ بن دینار جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن عمرسے روایت کی ہے، ۳- یحییٰ بن سلیم نے یہ حدیث بطریق: ''عبد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي ﷺ'' روایت کی ہے کہ آپ نے ولاء کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔اس سند میں وہم ہے۔اس کے اندر یحییٰ بن سلیم سے وہم ہواہے، ۴- عبدالوھاب ثقفی،اورعبداللہ بن نمیر اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق: ''عبيد الله بن عمر، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے اور یہ یحییٰ بن سلیم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے،۵- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : ولاء اس حق وراثت کوکہتے ہیں جوآزادکرنے والے کوآزادکردہ غلام کی طرف سے ملتاہے۔
وضاحت ۲؎ : عرب آزادہونے والے کی موت سے پہلے ہی ولاء کوفروخت کردیتے ہاہبہ کردیتے تھے، تورسول اللہ ﷺنے اسے ممنوع قراردیاتاکہ ولاء آزادکرنے والے کے وارثوں کوملے یا اگرخودزندہ ہے تووہ خودحاصل کرے، لہذا ایسے غلام کا بیچنایااسے ہبہ کرنا جائزنہیں جمہور علماء سلف وخلف کا یہی مذہب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
21- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً
۲۱-باب: جانور کو جانورسے ادھار بیچنے کی کراہت کا بیان​


1237- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ مُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَسَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ. هَكَذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ، فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: د/البیوع ۱۵ (۳۳۵۶)، ن/البیوع ۶۵ (۴۶۲۴)، ق/التجارات ۵۶ (۲۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۳)، حم (۵/۱۲، ۲۱، ۲۲) (صحیح)
۱۲۳۷- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے جانور کو جانورسے ادھار بیچنے سے منع فرمایاہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲ - حسن کا سماع سمرہ سے صحیح ہے۔ علی بن مدینی وغیرہ نے ایساہی کہاہے،۳- اس باب میں ابن عباس ، جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا جانور کو جانورسے ادھار بیچنے کے مسئلہ میں اسی حدیث پر عمل ہے۔ سفیان ثوری اورا ہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ احمد بھی اسی کے قائل ہیں،۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور کے جانورسے ادھار بیچنے کی اجازت دی ہے۔اوریہی شافعی ،اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔


1238- حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ وَهُوَ ابْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْحَيَوَانُ؛ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ، لاَ يَصْلُحُ نَسِيئًا. وَلاَ بَأْسَ بِهِ يَدًا بِيَدٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/التجارات ۵۶ (۲۲۷۱)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۷۶) (صحیح)
۱۲۳۸- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''دو جانورکو ایک جانوروں سے ادھار بیچنا درست نہیں ہے، ہاتھوں ہاتھ (نقد) بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
22- بَاب مَا جَاءَ فِي شِرَائِ الْعَبْدِ بِالْعَبْدَيْنِ
۲۲- باب: ایک غلام کودو غلام سے خرید نے کا بیان​


1239- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ ﷺ عَلَى الْهِجْرَةِ. وَلاَ يَشْعُرُ النَّبِيُّ ﷺ أَنَّهُ عَبْدٌ. فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "بِعْنِيهِ" فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ. ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ، حَتَّى يَسْأَلَهُ "أَعَبْدٌ هُوَ؟"
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لاَ بَأْسَ بِعَبْدٍ بِعَبْدَيْنِ يَدًا بِيَدٍ. وَاخْتَلَفُوا فِيهِ إِذَا كَانَ نَسِيئًا.
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۳ (البیوع ۴۴)، (۱۶۰۲)، د/البیوع ۱۷ (۳۳۵۸)، ن/البیعۃ ۲۱ (۴۱۸۹)، و البیوع ۶۶ (۴۶۲۵)، ق/الجہاد ۴۱ (۲۸۹۶)، حم (۳/۳۷۲)، ویأتي عند المؤلف في السیر ۳۶ (۱۵۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۲۹۰۴) (صحیح)
۱۲۳۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا اوراس نے نبی اکرمﷺسے ہجرت پربیعت کی، نبی اکرم ﷺ نہیں جان سکے کہ یہ غلام ہے۔اتنے میں اس کا مالک آگیاوہ اس کامطالبہ رہا تھا، نبی اکرمﷺنے اس سے کہا: تم اسے مجھ سے بیچ دو، چنانچہ آپ نے اُسے دوکالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد آپ کسی سے اس وقت تک بیعت نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کرلیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں انس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے، ۳-اہل علم کااسی حدیث پرعمل ہے کہ ایک غلام کو دوغلام سے نقدانقدخریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب ادھار ہو تو اس میں اختلاف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
23- بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْحِنْطَةَ بِالْحِنْطَةِ مِثْلاَ بِمِثْلٍ كَرَاهِيَةَ التَّفَاضُلِ فِيهِ
۲۳-باب: گیہوں کو گیہوں سے برابر برابربیچنے اور اس کے اندر کمی وبیشی کے درست نہ ہونے کا بیان​


1240- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلاً بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلاً بِمِثْلٍ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلاً بِمِثْلٍ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مِثْلاً بِمِثْلٍ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلاً بِمِثْلٍ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلاً بِمِثْلٍ. فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ فَقَدْ أَرْبَى. بِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ. وَبِيعُوا الْبُرَّ بِالتَّمْرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، وَبِيعُوا الشَّعِيرَ بِالتَّمْرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَبِلاَلٍ وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ، وَقَالَ: "بِيعُوا الْبُرُّ بِالشَّعِيرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ". وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ الْحَدِيثَ، وَزَادَ فِيهِ: قَالَ خَالِدٌ: قَالَ أَبُو قِلاَبَةَ: "بِيعُوا الْبُرَّ بِالشَّعِيرِ كَيْفَ شِئْتُمْ" فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. لاَ يَرَوْنَ أَنْ يُبَاعَ الْبُرُّ بِالْبُرِّ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ. وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ. فَإِذَا اخْتَلَفَ الأَصْنَافُ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يُبَاعَ مُتَفَاضِلاً إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ. وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ قَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ: "بِيعُوا الشَّعِيرَ بِالْبُرِّ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالشَّعِيرِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: م/المساقاۃ ۱۵ (البیوع ۳۶)، (۱۵۸۷)، د/البیوع ۱۲ (۳۳۴۹، ۳۳۵۰)، ن/البیوع ۴۴ (۴۵۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۸۹)، حم (۵/۳۱۴، ۳۲۰) (صحیح)
وأخرجہ کل من : ن/۴۳ (۴۵۶۴، ۴۵۶۵)، ق/التجارات ۴۸ (۲۲۵۴)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۴۰- عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' سونے کو سونے سے ، چاندی کو چاندی سے ، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے ،نمک کونمک سے اور جوکو جو سے برابربرابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداًنقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجو ر سے نقداًنقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداًنقدجیسے چاہو بیچو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالدسے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ گیہوں کو جو سے نقدا نقد جیسے چاہوبیچو، ۳- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اورخالدنے ابوقلابہ سے اورابوقلابہ نے ابوالاشعث سے اورابوالاشعث نے عبادہ سے اور عبادہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے: خالد کہتے ہیں:ابوقلابہ نے کہا: گیہوں کو جو سے جیسے سے چاہو بیچو۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی،۴- اس باب میں ابوسعید ، ابوہریرہ ، بلال اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- اہل علم کا اسی پرعمل ہے، وہ لوگ گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے صرف برابر برابر ہی بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں اور جب اجناس مختلف ہوجائیں تو کمی ، بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بیع نقداًنقد ہو۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
شافعی کہتے ہیں: اس کی دلیل نبی اکرمﷺکا یہ فرمان ہے کہ جوکوگیہوں سے نقدا نقدجیسے چاہو بیچو، ۶- اہل علم کی ایک جماعت نے جوسے بھی گیہوں کے بیچنے کو مکروہ سمجھا ہے، الا یہ کہ وزن میں مساوی ہوں، پہلاقول ہی زیادہ صحیح ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
24- بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّرْفِ
۲۴-باب: صرف کا بیان​


1241- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا شَيبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ، فَحَدَّثَنَا أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ (سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ هَاتَانِ) يَقُولُ: "لاَ تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ، وَالْفِضَّةَ بِالْفِضَّةِ إِلاَّ مِثْلاً بِمِثْلٍ، لاَ يُشَفُّ بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ، وَلاَ تَبِيعُوا مِنْهُ غَائِبًا بِنَاجِزٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَهِشَامِ بْنِ عَامِرٍ وَالْبَرَائِ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ وَأَبِي بَكْرَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي الدَّرْدَائِ وَبِلاَلٍ.
قَالَ: وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الرِّبَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. إِلاَّ مَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَرَى بَأْسًا أَنْ يُبَاعَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مُتَفَاضِلاً. وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مُتَفَاضِلاً، إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ. و قَالَ: إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ. وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ شَيْئٌ مِنْ هَذَا. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ حِينَ حَدَّثَهُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: لَيْسَ فِي الصَّرْفِ اخْتِلاَفٌ.
* تخريج: خ/البیوع ۷۸ (۲۱۷۷)، م/المساقاۃ ۱۴ (البیوع ۳۵)، (۱۵۸۴)، ن/البیوع ۴۷ (۴۵۷۴)، (تحفۃ الأشراف: ۴۳۸۵)، ط/البیوع ۱۶ (۳۰)، حم (۳/۴، ۵۱، ۶۱) (صحیح)
۱۲۴۱- نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمردونوں ابوسعیدخدری کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا):'' سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچواور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم وبیش نہ کیاجائے اورغیرموجودکو موجودسے نہ بیچو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رباء کے سلسلہ میں ابوسعیدخدری کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبکر، عمر ، عثمان، ابوہریرہ، ھشام بن عامر،براء، زید بن ارقم، فضالہ بن عبید، ابوبکرہ ، ابن عمر، ابودرداء اور بلال رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۴- مگروہ جو ابن عباس سے مروی ہے کہ وہ سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، جب کہ بیع نقدانقد ہو، اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سود تو ادھار بیچنے میں ہے اورایساہی کچھ ان کے بعض اصحاب سے بھی مروی ہے،۵- اور ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ابوسعید خدری نے جب ان سے نبی اکرمﷺکی حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کرلیا، پہلاقول زیادہ صحیح ہے۔ اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔اوریہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے،اور ابن مبارک کہتے ہیں: صرف ۱؎ میں اختلاف نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : سونے چاندی کوبعوض سونے چاندی نقداً بیچنابیع صرف ہے۔


1242- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الإِبِلَ بِالْبَقِيعِ. فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ. فَآخُذُ مَكَانَهَا الْوَرِقَ. وَأَبِيعُ بِالْوَرِقِ. فَآخُذُ مَكَانَهَا الدَّنَانِيرَ. فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ، فَوَجَدْتُهُ خَارِجًا مِنْ بَيْتِ حَفْصَةَ. فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ "لاَبَأْسَ بِهِ بِالْقِيمَةِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَعِيدِ ابْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ. وَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، مَوْقُوفًا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لاَ بَأْسَ أَنْ يَقْتَضِيَ الذَّهَبَ مِنْ الْوَرِقِ، وَالْوَرِقَ مِنْ الذَّهَبِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، وَغَيْرِهِمْ ذَلِكَ.
* تخريج: د/البیوع ۱۴ (۳۳۵۴)، ن/البیوع ۵۰ (۴۵۸۶)، ق/التجارات ۵۱ (۲۲۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۷۰۵۳)، حم (۲/۳۳، ۵۹، ۹۹، ۱۰۱، ۱۳۹) (ضعیف)
(اس کے راوی ''سماک'' اخیر عمر میں مختلط ہوگئے تھے اور تلقین کو قبول کرتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف کیا ہے)
۱۲۴۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بقیع کے بازار میں اونٹ بیچا کرتاتھا،میں دیناروں سے بیچتا تھا ، اس کے بدلے چاندی لیتا تھا، اور چاندی سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتاتھا،میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورمیں نے آپ کو دیکھاکہ آپ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکل رہے ہیں تو میں نے آپ سے اس کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا: ''قیمت کے ساتھ ایساکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ہم اس حدیث کو صرف سماک بن حرب ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، ۲- سماک نے اسے سعید بن جبیر سے اورسعید نے ابن عمرسے روایت کی ہے اورداود بن أبی ھند نے یہ حدیث سعید بن جبیرسے اورسعیدنے ابن عمرسے موقوفاً روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کاعمل اسی حدیث پر ہے کہ اگر کوئی سوناکے بدلے چاندی لے یا چاندی کے بدلے سونا لے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔یہی احمد اوراسحاق کا بھی قول ہے،۴- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ جانا ہے۔


1243- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْتُ أَقُولُ: مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ؟ فَقَالَ: طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: أَرِنَا ذَهَبَكَ ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَاءَ خَادِمُنَا نُعْطِكَ وَرِقَكَ. فَقَالَ عُمَرُ: كَلاَّ، وَاللهِ! لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ. فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلاَّ هَائَ وَهَائَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلاَّ هَائَ وَهَائَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلاَّ هَائَ وَهَائَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلاَّ هَائَ وَهَائَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَمَعْنَى قَوْلِهِ (إِلاَّ هَائَ وَهَائَ) يَقُولُ يَدًا بِيَدٍ.
* تخريج: خ/البیوع ۵۴ (۲۱۳۴)، و۷۴ (۲۱۷۰)، و۷۶ (۲۱۷۴)، م/المساقاۃ (البیوع ۳۷)، (۱۵۸۶)، د/البیوع ۳۳۴۸)، ن/البیوع ۱۷ (۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۳۰)، حم (۱/۲۴، ۲۵، ۴۵)، دي/البیوع ۴۱ (۲۶۲۰) (صحیح)
۱۲۴۳- مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں(بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا: درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا؟ توطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہااور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھے: ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، اور جب ہمارا خادم آجائے تو ہمارے پاس آجاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔ ( یہ سن کر) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے : '' سونے کے بدلے چاندی لینا سودہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو،دوسرے ہاتھ سے لو ۱؎ ، گیہوں کے بدلے گیہوں لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو،دوسرے ہاتھ سے لو، جو کے بدلے جو لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو، اور کھجور کے بدلے کھجور لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو،دوسرے ہاتھ سے لو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔'' إلاھاء وھاء '' کا مفہوم ہے نقدانقد۔
وضاحت ۱؎ : چاندی کے بدلے سونا، اور سونا کے بدلے چاندی کم وبیش کرکے بیچنا جائز تو ہے، مگر نقدانقد اس حدیث کا یہی مطلب ہے، نہ یہ کہ سونا کے بدلے چاندی کم وبیش کرکے نہیں بیچ سکتے، دیکھیے حدیث (رقم ۱۲۴۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
25-بَاب مَا جَاءَ فِي ابْتِيَاعِ النَّخْلِ بَعْدَ التَّأْبِيرِ وَالْعَبْدِ وَلَهُ مَالٌ
۲۵- باب: پیوندکاری کے بعدکھجورکے درخت کو بیچنے کا اورایسے غلام کو بیچنے کا بیان جس کے پاس مال ہو​


1244- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَنِ ابْتَاعَ نَخْلاً بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلَّذِي بَاعَهَا، إِلاَّ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، وَمَنِ ابْتَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ، إِلاَّ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعَُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. هَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "مَنِ ابْتَاعَ نَخْلاً بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ، إِلاَّ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي، بَاعَهُ، إِلاَّ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنِ ابْتَاعَ نَخْلاً قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ، إِلاَّ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاع". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: "مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ، فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ، إِلاَّ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ". هَكَذَا رَوَاهُ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ عَنْ نَافِعٍ، الْحَدِيثَيْنِ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا. وَرَوَى عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَ حَدِيثِ سَالِمٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ: حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ، أَصَحُّ مَاجَاءَ فِي هَذَا الْبَابِ.
* تخريج: خ/الشرب والمساقاۃ ۱۷ (۲۳۷۹)، م/البیوع ۱۵ (۱۵۴۳)، ق/التجارات ۳۱ (۲۲۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۰۷) (صحیح) و أخرجہ کل من : خ/البیوع ۹۰ (۲۲۰۳)، و ۹۲ (۲۲۰۶)، والشروط ۲ (۲۷۱۶)، م/البیوع (المصدر المذکو ر)، د/البیوع ۴۴ (۳۴۳۳)، ن/البیوع ۷۵ (۴۶۳۹)، و۷۶ (۴۶۴۰)، ق/التجارات ۳۱ (۲۲۱۰)، ط/البیوع ۷ (۹)، حم (۲/۶، ۹، ۵۴، ۶۳، ۷۸)، من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۴۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ''جس نے تأبیر ۱؎ ( پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا ۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خرید تے وقت پھل کی) شرط لگالے۔اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خرید نے والا(خریدتے وقت مال کی) شرط لگالے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسی طرح اور بھی طرق سے بسند زہری عنسالم عن ابن عمرعن النبی ﷺ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: ''جس نے پیوندکاری کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الا یہ کہ خریدنے والا(درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگالے اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے کا ہوگا الا یہ کہ خرید نے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی ) شرط لگالے''،۳- یہ نافع سے بھی مروی ہے انہوں نے ابن عمرسے اورابن عمرنے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:'' جس نے کھجور کا کوئی درخت خریدا جس کی پیوند کاری کی جاچکی ہو تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوگا الایہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی ) شرط لگالے''، ۴- نافع سے مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس نے کوئی غلام بیچا جس کے پاس مال ہوتو اس کا مال بیچنے والے ہی کاہوگا الا یہ کہ خریدنے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی ) شرط لگالے، ۵- اسی طرح عبیدا للہ بن عمروغیرہ نے نافع سے دونوں حدیثیں روایت کی ہیں، ۶- نیزبعض لوگوں نے یہ حدیث نافع سے، نافع نے ابن عمرسے اورانہوں نے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے، ۷- عکرمہ بن خالد نے ابن عمرسے ابن عمر نے نبی اکرمﷺسے سالم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔ ۸-محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: ''سالم، عن أبيه ابن عمر، عن النبي ﷺ '' روایت کی ہے اس باب میں س سب سے زیادہ صحیح ہے، ۹- بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے۔ اور یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی قول ہے، ۱۰- اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : تأبیر: پیوند کاری کرنے کو کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ نرکھجورکا گابھا لے کرمادہ کھجورکے خوشے میں رکھ دیتے ہیں، جب وہ گابھا کھلتااورپھٹتاہے تو باذن الٰہی وہ پھل زیادہ دیتاہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر پیوند کا ری نہ کی گئی ہو تو پھل کھجور کے درخت کی بیع میں شامل ہوگا اور وہ خریدارکا ہوگا، جمہورکی یہی رائے ہے،جب کہ امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ دونوں صورتوں میں بائع کا حق ہے، اور ابن ابی لیلیٰ کا کہناہے کہ دونوں صورتوں میں خریدارکا حق ہے، مگریہ دونوں اقوال احادیث کے خلاف ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
26- بَاب مَا جَاءَ فِي الْبَيِّعَيْنِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا
۲۶-باب: بیچنے والا اورخریدار دونوں کو جب تک وہ جدانہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے​


1245- حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَىَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ يَخْتَارَا". قَالَ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا ابْتَاعَ بَيْعًا وَهُوَ قَاعِدٌ، قَامَ لِيَجِبَ لَهُ الْبَيْعُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ وَحَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَعَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو وَسَمُرَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَالُوا: الْفُرْقَةُ بِالأَبْدَانِ لاَ بِالْكَلاَمِ. وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ (مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا) يَعْنِي الْفُرْقَةَ بِالْكَلاَمِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ. لأَنَّ ابْنَ عُمَرَ هُوَ رَوَى عَنْ النَّبِيِّ ﷺ. وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوجِبَ الْبَيْعَ، مَشَى لِيَجِبَ لَهُ، وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ.
* تخريج: خ/البیوع ۴۲ (۲۱۰۷)، م/البیوع ۱۰ (۱۵۳۱)، ن/البیوع ۹ (۴۴۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۲۲) (صحیح) وأخرجہ کل من : خ/البیوع ۴۳ (۲۱۰۹)، و ۴۴ (۲۱۱۱)، و۴۵ (۲۱۱۲)، و۴۶ (۲۱۱۳)، م/البیوع (المصدر المذکور)، د/البیوع ۵۳ (۳۴۵۴)، ن/البیوع ۹ (۴۴۷۰-۴۴۷۷)، ق/التجارات ۱۷ (۲۱۸۱)، ط/البیوع ۳۸ (۷۹)، حم (۲/۴، ۹، ۵۲، ۵۴، ۷۳، ۱۱۹، ۱۳۵) من غیر ہذا الوجہ۔
۱۲۴۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' بیچنے والا اورخریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کوباقی رکھنے اورفسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کرلیں'' ۲؎ ۔
نافع کہتے ہیں:جب ابن عمر کوئی چیز خرید تے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہوجاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہوجائے( اور اختیار باقی نہ رہے)۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوبرزہ ، حکیم بن حزام ، عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمرو، سمرہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ اور یہی شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تفرق سے مراد جسمانی جدائی ہے نہ کہ قولی جدائی، یعنی مجلس سے جدائی مرادہے گفتگوکاموضوع بدلنا مرادنہیں،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺکے قول ''مالم يتفرقا'' سے مرادقولی جدائی ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہی اس کو نبی اکرمﷺسے روایت کیا ہے۔ اور وہ اپنی روایت کردہ حدیث کا معنی زیادہ جانتے ہیں اور ان سے مروی ہے کہ جب وہ بیع واجب(پکی) کرنے کا ارادہ کرتے تو (مجلس سے اٹھ کر) چل دیتے تاکہ بیع واجب ہوجائے،۵- ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عقدکو فسخ کر نے سے پہلے مجلس عقدسے اگربائع (بیچنے والا) اورمشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طورپر جدا ہوگئے تو بیع پکی ہوجائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیارحاصل نہیں ہوگا۔
وضاحت ۲؎ : اس صورت میں جدا ہونے کے بعدبھی شرط کے مطابق اختیار کاحق رہے گا،یعنی خیارکی شرط کرلی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیارباقی رہے گا۔


1246- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا، بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا، مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا". هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا. وَكَانُوا فِي سَفِينَةٍ. فَقَالَ: لاَ أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا.
وَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا". وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، إِلَى أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْكَلاَمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ. وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ أَنَّهُ قَالَ: كَيْفَ أَرُدُّ هَذَا؟ وَالْحَدِيثُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ صَحِيحٌ. وَقَوَّى هَذَا الْمَذْهَبَ. وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ (إِلاَّ بَيْعَ الْخِيَارِ) مَعْنَاهُ أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ. فَإِذَا خَيَّرَهُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ، فَلَيْسَ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِكَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ. وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا هَكَذَا. فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُ. وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ مَنْ يَقُولُ (الْفُرْقَةُ بِالأَبْدَانِ لاَ بِالْكَلاَمِ) حَدِيثُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/البیوع ۱۹ (۲۰۷۹)، و۲۲ (۲۰۸۲)، و۴۲ (۲۱۰۸)، و ۴۴ (۲۱۱۰)، و ۴۶ (۲۱۱۴)، م/البیوع ۱ (۱۵۳۲)، د/البیوع ۵۳ (۳۴۵۹)، ن/البیوع ۵ (۴۴۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۴۲۷) و حم (۳/۴۰۲، ۴۰۳، ۴۳۴) (صحیح)
۱۲۴۶- حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' بائع(بیچنے والا) اورمشتری(خریدار) جب تک جدانہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اورفسخ کردینے کا اختیار ہے ، اگر وہ دونوں سچ کہیں اورسامان خوبی اور خرابی واضح کردیں توان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگران دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے، وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ ابوبرزہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہو ئے ہواور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بائع اورمشتری کو جب تک (مجلس سے) جدانہ ہوں اختیار ہے، ۳- اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہوگی، یہی سفیان ثوری کا قول ہے،اوراسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے،۴- اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کردوں؟ جب کہ نبی اکرمﷺسے واردحدیث صحیح ہے،۵- اورانہوں نے اس کو قوی کہاہے۔نبی اکرمﷺکے قول ''إلا بيع الخيار'' کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دے دے، پھر جب مشتری بیع کو اختیار کرلے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا، اگرچہ وہ دونوں جدانہ ہوئے ہوں۔اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے،۶- اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں۔(آگے ہی آرہی ہے)
وضاحت ۱؎ : جدانہ ہوں سے مرادمجلس سے ادھراُدھرچلے جانا ہے، خود راوی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیرمروی ہے، بعض نے بات چیت ختم کردینامراد لیاہے جوظاہرکے خلاف ہے۔


1247- أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، إِلاَّ أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، وَلاَ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَمَعْنَى هَذَا أَنْ يُفَارِقَهُ بَعْدَ الْبَيْعِ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ. وَلَوْ كَانَتِ الْفُرْقَةُ بِالْكَلاَمِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ الْبَيْعِ، لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى. حَيْثُ قَالَ ﷺ: "وَلاَ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ".
* تخريج: د/البیوع ۵۳ (۳۴۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۹۷)، و حم (۲/۱۸۳) (حسن صحیح)
۱۲۴۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بائع اورمشتری جب تک جدانہ ہوں ان کو اختیار ہے الا یہ کہ بیع خیار ہو(تب جُداہو نے کے بعدبھی واپسی کا اختیارباقی رہتا ہے)، اور بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے ساتھی (مشتری) سے اس ڈر سے جدا ہوجائے کہ وہ بیع کوفسخ کردے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور اس کا معنی یہی ہے کہ بیع کے بعد وہ مشتری سے جُداہوجائے اس ڈرسے کہ وہ اسے فسخ کردے گا اور اگرجدائی صرف کلام سے ہوجاتی، اور بیع کے بعد مشتری کو اختیار نہ ہوتا تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوگاجو کہ آپ نے فرمایاہے: بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مشتری سے اس ڈرسے جُداہوجائے کہ وہ اس کی بیع کو فسخ کردے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
27- بَابٌ
۲۷-باب: بائع اورمشتری کی رضامندی اوراختیار سے متعلق ایک اور باب​


1248- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَهُوَ الْبَجَلِيُّ الْكُوفِيُّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "لاَ يَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَيْعٍ إِلاَّ عَنْ تَرَاضٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/البیوع ۵۳ (۳۴۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۲۴)، و حم (۲/۵۳۶) (حسن صحیح)
۱۲۴۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''بائع اورمشتری بیع (کی مجلس) سے رضامندی کے ساتھ ہی جداہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


1249- حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَيَّرَ أَعْرَابِيَّا بَعْدَ الْبَيْعِ. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: ق/التجارات ۱۸ (۲۱۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۸۳۴) (حسن)
۱۲۴۹- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے بیع کے بعد ایک اعرابی کو اختیار دیا۔یہ حدیث حسن غریب ہے۔
 
Top