• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَابٌ
۳۸-باب: خریدوفروخت (بیع وشراء) سے متعلق ایک اورباب​


1264- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَرِيكٍ وَقَيْسٌ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ. وَقَالُوا إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَلَى آخَرَ شَيْئٌ، فَذَهَبَ بِهِ، فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ شَيْئٌ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَحْبِسَ عَنْهُ بِقَدْرِ مَا ذَهَبَ لَهُ عَلَيْهِ. وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَقَالَ: إِنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَرَاهِمُ، فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ دَنَانِيرُ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَحْبِسَ بِمَكَانِ دَرَاهِمِهِ. إِلاَّ أَنْ يَقَعَ عِنْدَهُ لَهُ دَرَاهِمُ، فَلَهُ حِينَئِذٍ أَنْ يَحْبِسَ مِنْ دَرَاهِمِهِ بِقَدْرِ مَا لَهُ عَلَيْهِ.
* تخريج: د/البیوع ۸۱ (۳۵۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۳۶)، ودي/البیوع ۵۷ (۲۶۳۹) (صحیح)
۱۲۶۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''جوتمہارے پاس امانت رکھے اُسے امانت لوٹاؤ ۱؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ (بھی)خیانت نہ کرو'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمّہ کوئی چیز ہواور وہ اسے لے کرچلاجائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کرگیاہے، ۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے،اوریہی ثوری کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں: اگراس کے ذمہ درہم ہو اور( بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آگئے تواس کے لیے جائزنہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے، البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آجائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہوگا کہ اس کے دراہم میں سے اتناروک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم واجب ہے اس لیے کہ ارشادباری ہے:{إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} (النساء:58) ۔
وضاحت ۲؎ : یہ حکم استحبابی ہے اس لیے کہ ارشاباری ہے:{وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا} (الشورى:40) (برائی کی جزاء اسی کے مثل بُرائی ہے ) نیز ارشادہے:{وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ} (النحل:126)یہ دونوں آیتیں اس بات پردلالت کررہی ہیں کہ اپنا حق وصول کرلینا چاہئے، ابن حزم کا قول ہے کہ جس نے خیانت کی ہے اس کے مال پر قابوپانے کی صورت میں اپنا حق وصول لینا واجب ہے، اور یہ خیانت میں شمارنہیں ہوگی بلکہ خیانت اس صورت میں ہوگی جب وہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الْعَارِيَةَ مُؤَدَّاةٌ
۳۹-باب: عاریت لی ہوئی چیز کو واپس کرنے کا بیان​


1265- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ فِي الْخُطْبَةِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ: "الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ، وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ، وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ سَمُرَةَ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ وَأَنَسٍ. قَالَ: وَحَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَيْضًا، مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: ق/الصدقات ۵ (۲۳۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۴۸۸۴) (صحیح)
۱۲۶۵- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرمﷺکوحجۃ الوداع کے سال خطبہ میں فرماتے سنا:'' عاریت لی ہوئی چیز لوٹائی جائے گی، ضامن کو تاو ان دیناہوگا اور قرض واجب الاداء ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اوریہ ابوامامہ کے واسطے سے نبی اکرم ﷺ سے اوربھی طریق سے مروی ہے،۳- اس باب میں سمرہ ،صفوان بن امیہ اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1266- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ".
قَالَ قَتَادَةُ: ثُمَّ نَسِيَ الْحَسَنُ. فَقَالَ: فَهُوَ أَمِينُكَ لاَ ضَمَانَ عَلَيْهِ، يَعْنِي الْعَارِيَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا. وَقَالُوا: يَضْمَنُ صَاحِبُ الْعَارِيَةِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ. و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ: لَيْسَ عَلَى صَاحِبِ الْعَارِيَةِ ضَمَانٌ، إِلاَّ أَنْ يُخَالِفَ. وَهُوَ قَوْلُ الْثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاقُ.
* تخريج: د/البیوع ۹۰ (۳۵۶۱)، ق/الصدقات ۵ (۲۴۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۴)، و حم (۵/۱۲، ۱۳)، ودي/البیوع ۵۶ (۲۶۳۸) (ضعیف)
(قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے،اس لیے یہ سند ضعیف ہے)
۱۲۶۶- سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جوکچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادانہ کردے اس کے ذمہ ہے'' ۱؎ ،قتادہ کہتے ہیں: پھرحسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے ''جس نے عاریت لی ہے'' وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں: عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔اوریہی شافعی اور احمد کابھی قول ہے،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے، عاریت لی ہوئی چیزکی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں، اس بارے میں تین اقوال ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ ہرصورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو، ابن عباس ، زیدبن علی ، عطاء، احمد، اسحاق اورامام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہوگی تو اس کی ذمہ داری اس پرعائدنہ ہوگی، تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجودبھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کر ے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40- بَاب مَا جَاءَ فِي الاحْتِكَارِ
۴۰-باب: ذخیرہ اندوزی کا بیان​


1267- حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ نَضْلَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ يَحْتَكِرُ إِلاَّ خَاطِئٌ"، فَقُلْتُ: لِسَعِيدٍ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ! إِنَّكَ تَحْتَكِرُ. قَالَ: وَمَعْمَرٌ قَدْ كَانَ يَحْتَكِر. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ كَانَ يَحْتَكِرُ الزَّيْتَ وَالْحِنْطَةَ وَنَحْوَ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي أُمَامَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا احْتِكَارَ الطَّعَامِ. وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي الاحْتِكَارِ فِي غَيْرِ الطَّعَامِ. و قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: لاَ بَأْسَ بِالاِحْتِكَارِ فِي الْقُطْنِ وَالسِّخْتِيَانِ وَنَحْوِ ذَلِكَ.
* تخريج: م/المساقاۃ ۲۶ (البیوع ۴۷)، (۱۶۰۵)، د/البیوع ۴۹ (۳۴۴۷)، ق/التجارات ۶ (۲۱۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۸۱)، وحم (۶/۴۰۰) ودي/البیوع ۱۲ (۲۵۸۵) (صحیح)
۱۲۶۷- معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا :'' گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتاہے'' ۱؎ ۔محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے سعید بن المسیب سے کہا:ابومحمد! آپ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معمر بھی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- معمر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- سعید بن مسیب سے مروی ہے، وہ تیل، گیہوں اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے،۳- اس باب میں عمر، علی ،ابوامامہ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کھانے کی ذخیرہ اندوزی ناجائزکہا ہے ،۵- بعض اہل علم نے کھانے کے علاوہ دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت دی ہے،۶- ابن مبارک کہتے ہیں: روئی، دباغت دی ہوئی بکری کی کھال، اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں ہے۔
وضاحت ۱؎ : احتکار: ذخیرہ اندوزی کوکہتے ہیں،یہ اس وقت منع ہے جب لوگوں کو غلّے کی ضرورت ہو تو مزیدمہنگائی کے انتظارمیں اسے بازار میں نہ لایا جائے، اگربازار میں غلّہ دستیاب ہے تو ذخیرہ اندوزی منع نہیں۔کھانے کے سوا دیگرغیرضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب مَا جَاءَ فِي الْيَمِينِ الْفَاجِرَةِ يُقْتَطَعُ بِهَا مَالُ الْمُسْلِمِ
۴۲-باب: جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ہتھیانے کا بیان​


1269- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ". فَقَالَ الأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ: فِيَّ، وَاللهِ! لَقَدْ كَانَ ذَلِكَ. كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ. فَجَحَدَنِي. فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ. فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: "أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟" قُلْتُ: لاَ. فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ: "احْلِفْ". فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِذًا يَحْلِفُ فَيَذْهَبُ بِمَالِي. فَأَنْزَلَ اللهَ تَعَالَى {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً} إِلَى آخِرِ الآيَةِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَأَبِي مُوسَى وَأَبِي أُمَامَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ الأَنْصَارِيِّ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الشرب والمساقاۃ ۴ (۲۳۵۶)، والخصومات ۴ (۲۴۱۶)، والرہن ۶ (۲۵۱۵)، والشہادات ۱۹ (۲۶۶۶)، و ۲۰ (۲۶۶۹)، و۲۳ (۲۶۷۳)، و ۲۵ (۲۶۷۶)، وتفسیر آل عمران ۳ (۴۵۴۹)، والایمان والنذور ۱۱(۶۶۵۹)، و۱۷ (۶۶۷۶)، والأحکام ۳۰ (۷۱۸۳)، والتوحید ۲۴ (۷۴۴۵)، م/الإیمان ۶۱ (۲۲۰)، د/الأیمان والنذور ۲ (۳۲۴۳)، ق/الأحکام ۸ (۲۳۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۸و ۹۲۴۴)، وحم (۱/۳۷۷) (صحیح)
۱۲۶۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے جھوٹی قسم کھائی تاکہ اس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کا مال ہتھیالے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوگا''۔
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم ، آپ نے میرے سلسلے میں یہ حدیث بیان فرمائی تھی۔میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، اس نے میرے حصے کا انکار کیا تو میں اسے نبی اکرمﷺسے پاس لے گیا، رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: '' کیاتمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟'' میں نے عرض کیا: نہیں ، توآپ نے یہودی سے فرمایا:''تم قسم کھاؤ ''میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو قسم کھالے گا اور میرا مال ہضم کرلے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی{إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً} (آل عمران: ۷۷) (اورجولوگ اللہ کے قرار اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑا سامول حاصل کرتے ہیں ۔۔۔۔)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں وائل بن حجر ، ابوموسیٰ ، ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب مَا جَاءَ إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ
۴۳-باب: بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدینے والے) کے اختلاف کا بیان​


1270- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِاللهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، فَالْقَوْلُ قَوْلُ الْبَائِعِ. وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ. عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللهِ لَمْ يُدْرِكِ ابْنَ مَسْعُودٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، وَهُوَ مُرْسَلٌ أَيْضًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ: قُلْتُ لأَحْمَدَ: إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ وَلَمْ تَكُنْ بَيِّنَةٌ؟ قَالَ: الْقَوْلُ مَا قَالَ رَبُّ السِّلْعَةِ أَوْ يَتَرَادَّانِ، قَالَ إِسْحَاقُ كَمَا قَالَ، وَكُلُّ مَنْ كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ، فَعَلَيْهِ الْيَمِينُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ. مِنْهُمْ شُرَيْحٌ وَغَيْرُهُ نَحْوُ هَذَا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۵۳۱) (صحیح)
وانظر أیضا : د/البیوع ۷۴ (۳۵۱۱)، ن/البیوع ۸۲ (۴۶۵۲)، ق/التجارات ۱۹ (۲۱۸۶)، حم (۱/۴۴۶)
۱۲۷۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب بائع اورمشتری میں اختلاف ہوجائے تو بات بائع کی مانی جائے گی، اور مشتری کو اختیار ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث مرسل ہے، عون بن عبداللہ نے ابن مسعود کو نہیں پایا، ۲- اورقاسم بن عبدالرحمن سے بھی یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے ابن مسعود سے اورابن مسعودنے نبی اکرمﷺسے روایت کی ہے۔اور یہ روایت بھی مرسل ہے، ۳- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: جب بائع اورمشتری میں اختلاف ہوجائے اور کوئی گواہ نہ ہو تو کس کی بات تسلیم کی جائے گی؟ انہوں نے کہا: بات وہی معتبر ہوگی جوسامان کامالک کہے گا، یا پھر دونوں اپنی اپنی چیزواپس لے لیں یعنی بائع سامان واپس لے لے اورمشتری قیمت۔اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی کہاہے جو احمدنے کہاہے،۴- اوربات جس کی بھی مانی جائے اس کے ذمہ قسم کھانا ہوگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: تابعین میں سے بعض اہل علم سے اسی طرح مروی ہے، انہیں میں شریح بھی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- بَاب مَا جَاءَ فِي بَيْعِ فَضْلِ الْمَائِ
۴۴-باب: ضرورت سے زائدپانی کے بیچنے کا بیان​


1271- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَانِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدٍ الْمُزَنِيِّ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنْ بَيْعِ الْمَائِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَبُهَيْسَةَ، عَنْ أَبِيهَا، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِاللهِ ابْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ إِيَاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ كَرِهُوا بَيْعَ الْمَائِ. وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي بَيْعِ الْمَائِ. مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ.
* تخريج: د/البیوع ۶۳ (۳۴۷۸)، ن/البیوع ۸۸ (۴۶۶۶)، ق/الرہون ۱۸ (الأحکام ۷۹ (۲۴۶۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۷)، وحم (۳/۳۱۷)، ودي/البیوع ۶۹ (۲۶۵۴) (صحیح)
۱۲۷۱- ایاس بن عبدمزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے پانی بیچنے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ایاس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر ، بہیسہ ، بہیسہ کے باپ ، ابوہریرہ ، عائشہ ، انس اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ،۳- اکثر اہل علم کااسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے پانی بیچنے کو ناجائزکہا ہے،یہی ابن مبارک شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،۴- اوربعض اہل علم نے پانی بیچنے کی اجازت دی ہے، جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مرادنہروچشمے وغیرہ کا پانی ہے جوکسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو اوراگرپانی پر کسی طرح کا خرچ آیا ہوتو ایسے پانی کا بیچنامنع نہیں ہے مثلاً راستوں میں ٹھنڈاپانی یا مینرل واٹروغیرہ بیچناجائزہے۔


1272- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لاَ يُمْنَعُ فَضْلُ الْمَائِ، لِيُمْنَعَ بِهِ الْكَلأُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْمِنْهَالِ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مُطْعِمٍ، كُوفِيٌّ، وَهُوَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، وَأَبُو الْمِنْهَالِ سَيَّارُ بْنُ سَلاَمَةَ بَصْرِيٌّ، صَاحِبُ أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ.
* تخريج: خ/الشرب والمساقاۃ ۲ (۲۳۵۳)، م/البیوع ۲۹ (المساقاۃ ۸) (۱۵۶۶)، د/البیوع ۶۲ (۳۴۷۳)، ق/الأحکام ۱۹ (۲۴۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۸)، وط/الأقضیۃ ۲۵ (۲۹) وحم (۲/۲۴۴، ۲۷۳، ۳۰۹)، ۴۸۲، ۴۹۴، ۵۰۰) (صحیح)
۱۲۷۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیاجائے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ سوچ کردوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکاجائے کہ جب جانوروں کوپانی پلانے کو لوگ نہ پائیں گے تو جانورادھر نہ لائیں گے، اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لیے بچی رہے گی، یہ کھلی ہوئی خودغرضی ہے جو اسلام کو پسندنہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45- بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ عَسْبِ الْفَحْلِ
۴۵-باب: نرکومادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کی کراہت کا بیان​


1273- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ وَأَبُو عَمَّارٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ ابْنُ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ ﷺ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي قَبُولِ الْكَرَامَةِ عَلَى ذَلِكَ.
* تخريج: خ/الإجارۃ ۲۱ (۲۲۸۴)، د/البیوع ۴۲ (۳۴۲۹)، ن/البیوع ۹۴ (۴۶۷۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۲۳۳)، و حم (۲/۴) (صحیح)
۱۲۷۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے نرکومادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ، انس اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کام پر بخشش قبول کرنے کی اجازت دی ہے، جمہورکے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔
وضاحت ۱؎ : چونکہ مادہ کا حاملہ ہو نا قطعی نہیں ہے،حمل قرارپانے اور نہ پانے دونوں کا شبہ ہے اسی لیے نبی اکرمﷺنے اس کی اجرت لینے سے منع فرمایاہے۔


1274- حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِاللهِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ حُمَيْدٍ الرُّؤَاسِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلاً مِنْ كِلاَبٍ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ، فَنَهَاهُ. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّا نُطْرِقُ الْفَحْلَ فَنُكْرَمُ. فَرَخَّصَ لَهُ فِي الْكَرَامَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.
* تخريج: ن/البیوع ۹۴ (۴۶۷۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۰) (صحیح)
۱۲۷۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : قبیلہ ٔ کلاب کے ایک آدمی نے نبی اکرمﷺسے نرکومادہ پرچھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں پوچھاتوآپ نے اسے منع کردیا ، پھر اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم مادہ پرنر چھوڑتے ہیں توہمیں بخشش دی جاتی ہے (تواس کا حکم کیا ہے؟۔)آپ نے اسے بخشش لینے کی اجازت دے دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف ابراہیم بن حمیدہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46- بَاب مَا جَاءَ فِي ثَمَنِ الْكَلْبِ
۴۶-باب: کتے کی قیمت کا بیان​


1275- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِاللهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "كَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ، وَمَهْرُ الْبَغِيِّ خَبِيثٌ، وَثَمَنُ الْكَلْبِ خَبِيثٌ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ جَعْفَرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. كَرِهُوا ثَمَنَ الْكَلْبِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ.
* تخريج: م/المساقاۃ ۹ (البیوع ۳۰)، (۱۵۶۸)، د/البیوع ۳۹ (۳۴۲۱)، ن/الذبائح ۱۵ (۴۲۹۹)، تحفۃ الأشراف: ۳۵۵۵)، وحم (۳/۴۶۴، ۴۶۵)، و ۴/۱۴۱) (صحیح)
۱۲۷۵- رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''پچھنا لگانے والے کی کمائی خبیث (گھٹیا) ہے۱؎ زانیہ کی اجرت ناپاک ۲؎ ہے اور کتے کی قیمت ناپاک ہے'' ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، علی، ابن مسعود ، ابومسعود، جابر ، ابوہریرہ، ابن عباس، ابن عمر اور عبداللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کتے کی قیمت کوناجائزجاناہے ،یہی شافعی ،احمد اوراسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔اوربعض اہل علم نے شکاری کتے کی قیمت کی اجازت دی ہے۔
وضاحت ۱؎ : '' كسب الحجام خبيث ''میں خبیث کالفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیااورغیرشریفانہ ہونے کے معنی میں ہے رسول اللہ ﷺنے محیصہ رضی اللہ عنہ کویہ حکم دیاکہ پچھنالگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اورغلام کوفائدہ پہنچاؤ، نیز آپ نے خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کواس کی اجرت بھی دی، لہذا پچھنالگانے والے کی کمائی کے متعلق خبیث کالفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے لہسن اور پیاز کو خبیث کہا باوجودیکہ ان دونوں کااستعمال حرام نہیں ہے، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیرشریفانہ ہے۔یہاں خبیث بمعنی حرام ہے۔
وضاحت ۲؎ : چونکہ زنافحش اموراورکبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اورحرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہویا آزادہو۔
وضاحت۳؎ : کتاچونکہ نجس اورناپاک جانورہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہوگی، اس کی نجاست کاحال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کوجس میں کتامنہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کاحکم دیاہے جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب کتے کی خریدوفروخت اوراس سے فائداٹھانامنع ہے، الایہ کہ کسی شدیدضرورت سے ہو مثلاً گھر جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ پھر بھی قیمت لینا گھٹیا کام ہے، ہدیہ کردینا چاہیے۔


1276- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ح، و حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللهِ ﷺ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَمَهْرِ الْبَغِيِّ، وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۱۳۳ (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۱۰) (صحیح)
۱۲۷۶- ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے کتے کی قیمت ، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی مٹھائی سے منع فرمایاہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا گناہ عظیم ہے، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑمیں کاہن اورنجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47- بَاب مَا جَاءَ فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ
۴۷-باب: پچھنا لگانے والے کی کمائی کا بیان​


1277- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ مُحَيِّصَةَ أَخَا بَنِي حَارِثَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ ﷺ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ فَنَهَاهُ عَنْهَا. فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ، وَيَسْتَأْذِنُهُ حَتَّى قَالَ اعْلِفْهُ نَاضِحَكَ، وَأَطْعِمْهُ رَقِيقَكَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَجَابِرٍ، وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَيِّصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. و قَالَ: أَحْمَدُ إِنْ سَأَلَنِي حَجَّامٌ نَهَيْتُهُ، وَآخُذُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: د/البیوع ۳۹ (۳۴۲۲)، ق/التجارات ۱۰ (۲۱۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۳۸)، و ط/الاستئذان ۱۰ (۲۸مرسلا ) (صحیح)
۱۲۷۷- محیصہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرمﷺسے پچھنالگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، توآپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ بار بار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:'' اسے اپنے اونٹ کے چارہ پرخرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلادو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- محیصہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں رافع بن خدیج ، جحیفہ ، جابر اور سائب بن یزید سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کااسی پر عمل ہے،۴- احمد کہتے ہیں: اگرمجھ سے کوئی پچھنا لگانے والا مزدوری طلب کرے تومیں نہیں دونگااور دلیل میں یہی حدیث پیش کروں گا۔
وضاحت ۱؎ : یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیااورغیرشریفانہ عمل ہے، جہاں تک اس کے جوازکا معاملہ ہے تو آپ نے خود ابوطیبہ کو پچھنالگانے کی اجرت دی ہے جیساکہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے، جمہوراسی کے قائل ہیں اورممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48- بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ
۴۸-باب: پچھنا لگانے والے کی کمائی کے جائز ہونے کا بیان​


1278- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ؟ فَقَالَ أَنَسٌ: احْتَجَمَ رَسُولُ اللهِ ﷺ، وَحَجَمَهُ أَبُو طَيْبَةَ. فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَكَلَّمَ أَهْلَهُ فَوَضَعُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ، وَقَالَ: "إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الْحِجَامَةَ". أَوْ "إِنَّ مِنْ أَمْثَلِ دَوَائِكُمْ الْحِجَامَةَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
* تخريج: م/المساقاۃ ۱۱ (البیوع ۳۲) (۱۵۷۷)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۰) (صحیح)
۱۲۷۸- حمید کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ سے پچھنا لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھاگیا توانس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے پچھنا لگوایا،اورآپ کو پچھنا لگانے والے ابوطیبہ تھے،توآپ نے انہیں دوصاع غلہ دینے کا حکم دیا اوران کے مالکوں سے بات کی، توانہوں نے ابوطیبہ کے خراج میں کمی کردی اورآپ نے فرمایا: ''جن چیزوں سے تم دواکرتے ہوان میں سب سے افضل پچھنا ہے'' یا فرمایا: ''تمہاری بہتر دواؤں میں سے پچھنا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی، ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے پچھنا لگانے والے کی اجرت کو جائز قرار دیاہے۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے۔
 
Top