- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
38- بَابٌ
۳۸-باب: خریدوفروخت (بیع وشراء) سے متعلق ایک اورباب
1264- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَرِيكٍ وَقَيْسٌ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلاَ تَخُنْ مَنْ خَانَكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ. وَقَالُوا إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَلَى آخَرَ شَيْئٌ، فَذَهَبَ بِهِ، فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ شَيْئٌ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَحْبِسَ عَنْهُ بِقَدْرِ مَا ذَهَبَ لَهُ عَلَيْهِ. وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَقَالَ: إِنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَرَاهِمُ، فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ دَنَانِيرُ، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَحْبِسَ بِمَكَانِ دَرَاهِمِهِ. إِلاَّ أَنْ يَقَعَ عِنْدَهُ لَهُ دَرَاهِمُ، فَلَهُ حِينَئِذٍ أَنْ يَحْبِسَ مِنْ دَرَاهِمِهِ بِقَدْرِ مَا لَهُ عَلَيْهِ.
* تخريج: د/البیوع ۸۱ (۳۵۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۳۶)، ودي/البیوع ۵۷ (۲۶۳۹) (صحیح)
۱۲۶۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''جوتمہارے پاس امانت رکھے اُسے امانت لوٹاؤ ۱؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ (بھی)خیانت نہ کرو'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمّہ کوئی چیز ہواور وہ اسے لے کرچلاجائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کرگیاہے، ۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے،اوریہی ثوری کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں: اگراس کے ذمہ درہم ہو اور( بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آگئے تواس کے لیے جائزنہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے، البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آجائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہوگا کہ اس کے دراہم میں سے اتناروک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حکم واجب ہے اس لیے کہ ارشادباری ہے:{إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا} (النساء:58) ۔
وضاحت ۲؎ : یہ حکم استحبابی ہے اس لیے کہ ارشاباری ہے:{وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا} (الشورى:40) (برائی کی جزاء اسی کے مثل بُرائی ہے ) نیز ارشادہے:{وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ} (النحل:126)یہ دونوں آیتیں اس بات پردلالت کررہی ہیں کہ اپنا حق وصول کرلینا چاہئے، ابن حزم کا قول ہے کہ جس نے خیانت کی ہے اس کے مال پر قابوپانے کی صورت میں اپنا حق وصول لینا واجب ہے، اور یہ خیانت میں شمارنہیں ہوگی بلکہ خیانت اس صورت میں ہوگی جب وہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرے۔