• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
13-بَاب مَا جَاءَ فِي الْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ
۱۳-باب: ایک گواہ کے ساتھ مدعی قسم کھانا دعوی کوثابت کرناہے​


1343- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ ابْنُ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللهِ ﷺ بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ. قَالَ رَبِيعَةُ: وَأَخْبَرَنِي ابْنٌ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ: وَجْدنَا فِي كِتَاب سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسُرَّقَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ، حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: د/الأقضیۃ ۲۱ (۳۶۱۰)، ق/الأحکام ۳۱ (۲۳۶۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۶۴۰) (صحیح)
۱۳۴۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ دیا۔
ربیعہ کہتے ہیں: مجھے سعد بن عبادہ کے بیٹے نے خبردی کہ ہم نے سعد رضی اللہ عنہ کی کتاب میں لکھاپایاکہ نبی اکرمﷺ نے ''ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں )فیصلہ دیا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں علی، جابر، ابن عباس اور سرق رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ'' نبی اکرمﷺنے ایک گواہ اورمدعی کی قسم سے(مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا'' حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ اس صورت میں ہے جب مدعی کے پاس صرف ایک گواہ ہوتو دوسرے گواہ کے بدلے مدعی سے قسم لے کرقاضی اس کے حق میں فیصلہ کردے گا، جمہورکایہی مذہب ہے کہ مالی معاملات میں ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ درست ہے۔


1344- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ قَالاَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ.
* تخريج: ق/الأحکام ۳۱ (۲۳۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۷) (صحیح)
۱۳۴۴- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ایک گواہ اورمدی کی قسم سے (مدعی کے حق میں ) فیصلہ دیا۔


1345- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ، قَالَ: وَقَضَى بِهَا عَلِيٌّ فِيكُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ. وَهَكَذَا رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، مُرْسَلاً. وَرَوَى عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ وَيَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. رَأَوْا أَنَّ الْيَمِينَ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ جَائِزٌ فِي الْحُقُوقِ وَالأَمْوَالِ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَالُوا: لاَ يُقْضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ إِلاَّ فِي الْحُقُوقِ وَالأَمْوَالِ. وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ أَنْ يُقْضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ الْوَاحِدِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳۲۶) (صحیح)
۱۳۴۵- ابوجعفر صادق سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے (مدعی کے حق میں) فیصلہ کیا، راوی کہتے ہیں:اور علی نے بھی اسی سے تمہارے درمیان فیصلہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث زیادہ صحیح ہے، ۲- اسی طرح سفیان ثوری نے بھی بطریق : ''جعفر بن محمد، عن أبيه، عن النبي ﷺ'' مرسلاً روایت کی ہے۔اورعبدالعزیز بن ابوسلمہ اور یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کو بطریق: '' جعفر بن محمد، عن أبيه، عن علي، عن النبي ﷺ'' (مرفوعاً) روایت کیا ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، ان لوگوں کی رائے ہے کہ حقوق اور اموال کے سلسلے میں ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم کھلاناجائز ہے۔ مالک بن انس، شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ کابھی یہی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے صرف حقوق اور اموال کے سلسلے ہی میں فیصلہ کیاجائے گا۔ ۴-اوراہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم سے فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : باب کی یہ احادیث اہل کوفہ کے خلاف حجت ہیں،ان کا استدلال ''وأشهدوا ذوي عدل منكم إذا استشهدوا شهدين من رجالكم''سے استدلال کامل نہیں بالخصوص جبکہ وہ مفہوم مخالف کے قائل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
14-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَبْدِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيُعْتِقُ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ
۱۴-باب: دوآدمیوں کے درمیان مشترک غلام کا بیان جس میں سے ایک اپنے حصہ کو آزاد کردے​


1346- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا - أَوْ قَالَ شِقْصًا، أَوْ قَالَ شِرْكًا - لَهُ فِي عَبْدٍ، فَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ بِقِيمَةِ الْعَدْلِ، فَهُوَ عَتِيقٌ. وَإِلاَّ فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ". قَالَ أَيُّوبُ: وَرُبَّمَا قَالَ نَافِعٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: يَعْنِي فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ.
* تخريج: خ/الشرکۃ ۵ (۲۴۹۱)، و ۱۴ (۲۵۰۳)، والعتق ۴ (۲۵۲۲)، م/العتق ۱ (۱۵۰۱)، الأیمان والنذور ۱۲ (۱۵۰۱/۴۷-۵۰)، د/العتق ۶ (۳۹۴۰)، ن/البیوع ۱۰۵ (۴۷۱۲)، ق/العتق ۷ (۲۵۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۵)، وط/العتق ۱ (۱) وحم (۲/۲، ۱۵، ۳۴، ۷۷، ۱۰۵، ۱۱۲، ۱۴۲، ۱۵۶) (صحیح)
۱۳۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا''، اور ا س کے پاس اتنا مال ہو جو غلام کی واجبی قیمت کو پہنچ رہاہوتو وہ اس مال سے باقی شریکوں کا حصہ اداکرے گااورغلام(پورا) آزادہوجائے گا ورنہ جتنا آزاد ہوا ہے اتناہی آزاد ہوگا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے سالم بن عبداللہ نے بھی بطریق: ''عن أبيه، عن النبي ﷺ''اسی طرح روایت کیا ہے۔


1347- حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي عَبْدٍ، فَكَانَ لَهُ مِنَ الْمَالِ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ، فَهُوَ عَتِيقٌ مِنْ مَالِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۵) (صحیح)
۱۳۴۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'' جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا اور اس کے پاس اتنامال ہوجو اس کی قیمت کو پہنچ رہاہو (تو وہ باقی شریکوں کا حصہ بھی اداکرے گا) اوروہ اس کے مال سے آزادہوجائے گا''۔امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


1348- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا - أَوْ قَالَ شِقْصًا - فِي مَمْلُوكٍ، فَخَلاَصُهُ فِي مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ، قُوِّمَ قِيمَةَ عَدْلٍ، ثُمَّ يُسْتَسْعَى فِي نَصِيبِ الَّذِي لَمْ يُعْتَقْ، غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
* تخريج: خ/الشرکۃ ۵ (۲۴۹۲)، ۱۴ (۲۵۰۴)، والعتق ۵ (۲۵۲۷)، م/العتق ۱ (۱۵۰۳)، د/العتق ۴ (۳۹۳۴)، و۵ (۳۹۳۷)، ق/العتق ۷ (۲۵۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۱)، وحم (۲/۴۲۶، ۴۷۲) (صحیح)
1348/م- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، نَحْوَهُ. وَقَالَ: شَقِيصًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رَوَى أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ قَتَادَةَ، مِثْلَ رِوَايَةِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ. وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ قَتَادَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ أَمْرَ السِّعَايَةِ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السِّعَايَةِ. فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ السِّعَايَةَ فِي هَذَا. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. وَبِهِ يَقُولُ إِسْحاَقُ. وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، غَرِمَ نَصِيبَ صَاحِبِهِ وَعَتَقَ الْعَبْدُ مِنْ مَالِهِ. وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ، عَتَقَ مِنَ الْعَبْدِ مَا عَتَقَ، وَلاَ يُسْتَسْعَى. وَقَالُوا: بِمَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَهَذَا قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ. وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحاَقُ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۳۴۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا تو باقی حصے کی آزادی بھی اسی کے مال سے ہوگی اگر اس کے پاس مال ہے، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگائی جائے گی، پھر غلام کوپریشانی میں ڈالے بغیراسے موقع دیاجائے گا کہ وہ کمائی کرکے اس شخص کاحصہ ادا کردے جس نے اپنا حصہ آزادنہیں کیا ہے''۔
۱۳۴۸/م- محمدبن بشارسے بھی ایسے ہی روایت ہے اور اس میں '' شقصاً ''کے بجائے ''شقیصا'' ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوراسی طرح ابان بن یزید نے قتادہ سے سعید بن ابی عروبہ کی حدیث کے مثل روایت کی ہے،۳- اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو قتادہ سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے اس سے آزادی کے لیے کمائی کرانے کا ذکرنہیں کیا ہے، ۴- سعایہ (کمائی کرانے)کے سلسلے میں ا ہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم نے اس بارے میں سعایہ کو جائز کہا ہے۔اوریہی سفیان ثوی اور اہل کوفہ کابھی قول ہے ،اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۵- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۶- اوربعض اہل علم نے کہا ہے کہ جب غلام دوآدمیوں میں مشترک ہواوران میں سے ایک اپنا حصہ آزاد کردے تواگراس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ساجھی دار کے حصے کا تاوان اداکرے گا اور غلام اسی کے مال سے آزاد ہوجائے گا، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو غلام کو جتنا آزاد کیاگیا ہے اتنا آزاد ہوگا، اور باقی حصہ کی آزادی کے لیے اس سے کمائی نہیں کرائی جائے گی۔اوران لوگوں نے نبی اکرمﷺسے مروی ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کی رُوسے یہ بات کہی ہے،اوریہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے۔ اور مالک بن انس ، شافعی اور احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
15-بَاب مَا جَاءَ فِي الْعُمْرَى
۱۵-باب: عمریٰ کا بیان​


1349- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: "الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لأَهْلِهَا، أَوْ مِيرَاثٌ لأَهْلِهَا".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَجَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَائِشَةَ وَابْنِ الزُّبَيْرِ وَمُعَاوِيَةَ.
* تخريج: د/البیوع ۸۷ (۳۵۴۹)، (تحفۃ الأشراف : ۴۵۹۳) (صحیح)
۱۳۴۹- سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: ''عمریٰ ۱؎ جس کودیاگیا اس کے گھروالوں کا ہوجاتا ہے''، یا فرمایا:'' عمریٰ جس کو دیا گیا اس کے گھروالوں کی میراث ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں زید بن ثابت، جابر، ابوہریرہ، عائشہ، عبداللہ بن زبیر اور معاویہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کسی کو عمربھرکے لیے کوئی چیز ہبہ کرنے کوعمریٰ کہتے ہیں، مثلاً یوں کہے کہ میں نے تمہیں یہ گھرتمہاری عمربھر کے لیے دے دیا۔


1350- حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "أَيُّمَا رَجُلٍ أُعْمِرَ عُمْرَى لَهُ وَلِعَقِبِهِ، فَإِنَّهَا لِلَّذِي يُعْطَاهَا، لاَ تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْطَاهَا. لأَنَّهُ أَعْطَى عَطَائً وَقَعَتْ فِيهِ الْمَوَارِيثُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهَكَذَا رَوَى مَعْمَرٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ، مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ "وَلِعَقِبِهِ".
وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لأَهْلِهَا، وَلَيْسَ فِيهَا "لِعَقِبِهِ". وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: إِذَا قَالَ هِيَ لَكَ، حَيَاتَكَ وَلِعَقِبِكَ، فَإِنَّهَا لِمَنْ أُعْمِرَهَا، لاَ تَرْجِعُ إِلَى الأَوَّلِ. وَإِذَا لَمْ يَقُلْ " لِعَقِبِكَ " فَهِيَ رَاجِعَةٌ إِلَى الأَوَّلِ إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ. وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ. وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لأَهْلِهَا". وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. قَالُوا: إِذَا مَاتَ الْمُعْمَرُ فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ. وَإِنْ لَمْ تُجْعَلْ لِعَقِبِهِ. وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ.
* تخريج: خ/الہبۃ ۳۲ (۲۶۲۵)، م/الہبات ۴ (۱۶۲۶)، د/البیوع ۸۷ (۳۵۵۰-۳۵۵۲)، و ۸۸ (۳۵۵۳- ۳۵۵۷) و ۸۹ (۳۵۵۸)، ن/العمری ۲ (۳۷۵۸، ۳۷۶۰-۳۷۶۲، و ۳۷۶۶-۳۷۷۰)، و ۳ (۷۷۱-۳۷۷۳، ۳۷۸۲)، ۴ (۳۷۸۲)، ق/الہبات ۳ (۲۳۸۰)، و ۴ (۲۳۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۴۸) (صحیح)
۱۳۵۰- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:'' جس آدمی کو عمریٰ دیاگیاوہ اس کا ہے اور اس کے گھروالوں یعنی ورثاء کا ہے کیونکہ وہ اسی کا ہوجاتا ہے جس کو دیاجاتا ہے، عمری دینے والے کی طرف نہیں لوٹتاہے اس لیے کہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں میراث ثابت ہوگئی ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اوراسی طرح معمر اوردیگر کئی لوگوں نے زہری سے مالک کی روایت ہی کی طرح روایت کی ہے اوربعض نے زہری سے روایت کی ہے ، مگر اس نے اس میں '' ولعقبه'' کا ذکر نہیں کیا ہے،۳- اوریہ حدیث اس کے علاوہ اوربھی سندوں سے جابرسے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ''عمریٰ جس کو دیاجاتا ہے اس کے گھروالوں کاہوجاتا ہے'' اوراس میں '' لعقبه'' کاذکرنہیں ہے۔یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۴-بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب دینے والایہ کہے کہ یہ تیری عمرتک تیراہے اورتیرے بعدتیری اولاد کا ہے تو یہ اسی کا ہوگا جس کو دیاگیا ہے۔اوردینے والے کے پاس لوٹ کرنہیں جائے گا اور جب وہ یہ نہ کہے کہ( تیر ی اولاد )کابھی ہے تو جسے دیاگیاہے اس کے مرنے کے بعد دینے والے کا ہوجائے گا۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے ۱؎ ، ۵- اوردیگرکئی سندوں سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:''عمریٰ جسے دیا گیا ہے اس کے گھروالوں کا ہوجائے گا''،۶- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں: جس کوگھر دیاگیا ہے اس کے مرنے کے بعد وہ گھر اس کے وارثوں کاہوجائے گا اگرچہ اس کے وارثوں کو نہ دیاگیا ہو۔ سفیان ثوری ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ان کا کہناہے کہ اس نے اس آدمی کو اس چیز سے فائدہ اٹھانے کا اختیاردیاتھانہ کہ اس چیز کا اسے مالک بنادیاتھا۔
وضاحت ۲؎ : عمرہ کی تین قسمیں ہیں: ایک ہمیشہ ہمیش کے لیے دینا، مثلاً یوں کہے کہ یہ مکان ہمیشہ کے لیے تمہارا ہے یا یوں کہے کہ یہ چیز تیرے اور تیرے وارثوں کے لیے ہے، تو یہ اس کی ملکیت میں دینااورہبہ کرنا ہوگا جودینے والے کی طرف لوٹ کر نہیں آئے گا، دوسری قسم وہ ہے جو وقت کے ساتھ مقیدہو، مثلاً یوں کہے کہ یہ چیز تمہاری زندگی تک تمہاری ہے اس صورت میں نہ یہ ہبہ شمار ہوگی نہ تملیک بلکہ یہ عارضی طور پر ایک مخصوص مدت تک کے لیے عاریۃًدینا شمارہوگا، مدّت ختم ہو نے کے ساتھ یہ چیز پہلے کی طرف لو ٹ جائے گی اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ اس شرط کے ساتھ عمریٰ صحیح نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس طرح مشروط طورپر عمریٰ کرناصحیح ہے مگرشرط فاسدہے، پہلے کی طرف نہیں لوٹے گی، لیکن راجح قول پہلا ہی ہے، آخری دونوں قول مرجوح ہیں، اورتیسری قسم بغیر کسی شرط کے دینا ہے، مثلاً وہ یوں کہے کہ میں نے اپنا مکان تمہارے لیے عمریٰ کیا، جمہورنے اس صورت کو بھی تملیک پرمحمول کیا ہے، اس صورت میں بھی وہ چیز پہلے کی طرف واپس نہیں ہوگی، اورایک قول یہ بھی ہے کہ یہ منافع کی ملکیت کی صورت ہے، رقبہ کی ملکیت کی نہیں، لہذا جسے یہ چیز عمریٰ کی گئی ہے اس کی موت کے بعد وہ پہلے کی طرف لوٹ آئے گی، لیکن راجح جمہورہی کا قول ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
16-بَاب مَا جَاءَ فِي الرُّقْبَى
۱۶-باب: رقبیٰ کا بیان​


1351- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْعُمْرَى جَائِزَةٌ لأَهْلِهَا، وَالرُّقْبَى جَائِزَةٌ لأَهْلِهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ جَابِرٍ مَوْقُوفًا. وَلَمْ يَرْفَعْهُ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الرُّقْبَى جَائِزَةٌ مِثْلَ الْعُمْرَى. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَفَرَّقَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ بَيْنَ الْعُمْرَى وَالرُّقْبَى. فَأَجَازُوا الْعُمْرَى، وَلَمْ يُجِيزُوا الرُّقْبَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفْسِيرُ الرُّقْبَى أَنْ يَقُولَ: هَذَا الشَّيْئُ لَكَ مَا عِشْتَ. فَإِنْ مُتَّ قَبْلِي فَهِيَ رَاجِعَةٌ إِلَيَّ. وَقَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ: الرُّقْبَى مِثْلُ الْعُمْرَى. وَهِيَ لِمَنْ أُعْطِيَهَا. وَلاَ تَرْجِعُ إِلَى الأَوَّلِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۷۰۵) (صحیح)
۱۳۵۱- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''عمریٰ جس کودیا گیا اس کے گھر والوں کاہے اوررقبیٰ ۱؎ بھی جس کودیا گیاہے اس کے گھروالوں کا ہے ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اور بعض نے اسی سند سے ابوزبیرسے روایت کی ہے کہ انہوں نے اسے جابر سے موقوفاً نقل کیا ہے، اسے نبی اکرمﷺتک مرفوع نہیں کیا ہے، ۳- رقبیٰ کی تفسیر یہ ہے کہ کوئی آدمی کہے کہ یہ چیز جب تک تم زندہ رہوگے تمہاری ہے اور اگر تم مجھ سے پہلے مرگئے تو یہ پھر میری طرف لوٹ آئے گی،۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ عمریٰ کی طرح رقبیٰ بھی جسے دیا گیا ہے اس کے گھروالوں ہی کاہوگا۔ احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔اوراہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے عمریٰ اوررقبیٰ کے درمیان فرق کیا ہے،ان لوگوں نے عمریٰ کو تومعمر(جس کے نام چیزدی گئی تھی) کی موت کے بعداس کے ورثاء کاحق بتایاہے اوررقبیٰ کو کہاہے کہ ورثاء کاحق نہیں ہوگا بلکہ وہ دینے والی کی طرف لوٹ جائے گا۔
وضاحت ۱؎ : ''رقبیٰ'' ''رقب'' سے ہے جس کے معنی انتظار کے ہیں۔ اسلام نے اس میں اتنی تبدیلی کی کہ وہ چیز موہوب لہ (جس کو وہ چیز دی گئی) کی ہی رہے گی۔ موہوب لہ کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو وراثت میں تقسیم ہوگی۔ واہب کو بھی نہیں لوٹے گی، جیسے عمریٰ میں ہے۔رقبیٰ میں یہ ہوتا تھا کہ ہبہ کرنے والا یوں کہتا کہ ''یہ چیز میں نے تم کو تمہاری عمر تک دے دی، تمہاری موت کے بعد یہ چیز مجھے لوٹ آئے گی، اور اگر میں مر گیا تو تمہاری ہی رہے گی، پھر تم مرجاؤ گے تو میرے وارثوں کو لوٹ آئے گی۔'' اب ہر ایک دوسرے کی موت کا انتظار کیا کرتاتھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
17-بَاب مَا ذُكِرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي الصُّلْحِ بَيْنَ النَّاسِ
۱۷- باب: لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات​


1352- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِاللهِ ابْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلاَّ صُلْحًا حَرَّمَ حَلاَلاً أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلاَّ شَرْطًا حَرَّمَ حَلاَلاً أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الأحکام ۲۳ (۲۳۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۷۵) (صحیح)
(شواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ، ورنہ'' کثیر بن عبداللہ ''ضعیف راوی ہیں، دیکھئے : الارواء رقم ۱۳۰۳)
۱۳۵۲- عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''صلح مسلمان کے درمیان نافذہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کردے یا کسی حرام کو حلال ۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابندہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کردے یاکسی حرام کوحلال ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
18-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَضَعُ عَلَى حَائِطِ جَارِهِ خَشَبًا
۱۸-باب: پڑوسی کی دیوارپر لکڑی رکھنے کا بیان​


1353- حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدَكُمْ جَارُهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَهُ فِي جِدَارِهِ، فَلاَ يَمْنَعْهُ". فَلَمَّا حَدَّثَ أَبُو هُرَيْرَةَ، طَأْطَئُوا رُئُوسَهُمْ، فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكُمْ عَنْهَا مُعْرِضِينَ؟ وَاللهِ! لأَرْمِيَنَّ بِهَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَمُجَمِّعِ بْنِ جَارِيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ. وَرُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. مِنْهُمْ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ. قَالُوا: لَهُ أَنْ يَمْنَعَ جَارَهُ أَنْ يَضَعَ خَشَبَهُ فِي جِدَارِهِ. وَالْقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ.
* تخريج: خ/المظالم ۲۰ (۲۴۶۳)، م/المساقاۃ ۲۹ (البیوع ۵۰)، (۱۶۰۹)، د/الأقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۴)، ق/الأحکام ۱۵(۲۳۳۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۹۵۴)، وط/الأقضیۃ ۲۶ (۳۲)، وحم (۲/۳۹۶) (صحیح)
۱۳۵۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سنا: ''جب تم میں سے کسی کا پڑوسی اس کی دیوارمیں لکڑی گاڑنے کی اس سے اجازت طلب کرے تو وہ اُسے نہ روکے''۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو لوگوں نے اپنے سر جھکا لیے تو انہوں نے کہا: کیا بات ہے ، میں دیکھ رہاہوں کہ تم لوگ اس سے اعراض کررہے ہو؟ اللہ کی قسم میں اسے تمہارے شانوں پر مارکرہی رہوں گایعنی تم سے اسے بیان کرکے ہی رہوں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عباس اورمجمع بن جاریہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے۔ شافعی بھی اسی کے قائل ہیں،۴- بعض اہل علم سے مروی ہے : جن میں مالک بن انس بھی شامل ہیں کہ اس کے لیے درست ہے کہ اپنے پڑوسی کو دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع کردے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
19-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى مَا يُصَدِّقُهُ صَاحِبُهُ
۱۹-باب: قسم اسی چیز پرواقع ہوگی جس پر مدعی قسم لے رہاہے​


1354- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ الْمَعْنَى وَاحِدٌ قَالاَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْيَمِينُ عَلَى مَا يُصَدِّقُكَ بِهِ صَاحِبُكَ". وَ قَالَ قُتَيْبَةُ: عَلَى مَا صَدَّقَكَ عَلَيْهِ صَاحِبُكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ هُشَيْمٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ. وَعَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي صَالِحٍ هُوَ أَخُو سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ قَالَ: إِذَا كَانَ الْمُسْتَحْلِفُ ظَالِمًا، فَالنِّيَّةُ نِيَّةُ الْحَالِفِ. وَإِذَا كَانَ الْمُسْتَحْلِفُ مَظْلُومًا، فَالنِّيَّةُ نِيَّةُ الَّذِي اسْتَحْلَفَ.
* تخريج: م/الأیمان والنذور ۴ (۱۶۵۳)، د/الأیمان والنذور ۸ (۳۲۵۵)، ق/الکفارات ۱۴ (۲۱۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۸۲۶)، وحم (۲/۲۲۸)، و دي/النذور ۱۱ (۲۳۹۴) (صحیح)
۱۳۵۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قسم ا سی چیز پرواقع ہوگی جس پر تمہارا ساتھی (فریق مخالف) قسم لے رہاہے''۔(توریہ کا اعتبار نہیں ہوگا)
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے ہشیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے عبداللہ بن ابی صالح سے روایت کی ہے۔ اورعبداللہ بن ابی صالح ، سہیل بن ابی صالح کے بھائی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے، احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب قسم لینے والا ظالم ہوتو قسم کھانے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا، اور جب قسم لینے والا مظلوم ہوتو قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
20-بَاب مَا جَاءَ فِي الطَّرِيقِ إِذَا اخْتُلِفَ فِيهِ كَمْ يُجْعَلُ
۲۰-باب: راستے کے سلسلہ میں جب اختلاف ہو تو اسے کتنا چھوڑاجائے؟​


1355- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ سَعِيدٍ الضُّبَعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "اجْعَلُوا الطَّرِيقَ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۸)، وانظر ما یأتي (صحیح)
۱۳۵۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''راستہ سات ہاتھ(چوڑا) رکھو''۔


1356- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا تَشَاجَرْتُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاجْعَلُوهُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ.
* تخريج: خ/المظالم ۲۹ (۲۴۷۳)، م/المساقاۃ ۳۱ (البیوع ۵۲)، (۱۶۱۳)، د/الأقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۳)، ق/الأحکام ۱۶ (۲۳۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۲۳)، وحم (۲/۴۶۶) (صحیح)
۱۳۵۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب راستے کے سلسلے میں تم میں اختلاف ہو تو اسے سات ہاتھ( چوڑا) رکھو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ (سابقہ) وکیع کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- بشیر بن کعب کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، اوربعض نے اسے قتادہ سے اورقتادہ نے بشیربن نہیک سے اوربشیرنے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور یہ غیر محفوظ ہے،۳- اس باب میں ا بن عباس سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : سات ہاتھ راستہ آدمیوں اورجانوروں کے آنے جانے کے لیے کافی ہے، جسے دونوں فریق کو مل کر چھوڑنا چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
21-بَاب مَا جَاءَ فِي تَخْيِيرِ الْغُلاَمِ بَيْنَ أَبَوَيْهِ إِذَا افْتَرَقَا
۲۱-باب: ماں باپ کی جدائی کی صورت میں بچے کو اختیار دیئے جانے کا بیان​


1357- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زِيَادِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ الثَّعْلَبِيِّ، عَنْ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَيَّرَ غُلاَمًا بَيْنَ أَبِيهِ وَأُمِّهِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَجَدِّ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو مَيْمُونَةَ اسْمُهُ سُلَيْمٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالُوا: يُخَيَّرُ الْغُلاَمُ بَيْنَ أَبَوَيْهِ إِذَا وَقَعَتْ بَيْنَهُمَا الْمُنَازَعَةُ فِي الْوَلَدِ. وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ. وَقَالاَ: مَا كَانَ الْوَلَدُ صَغِيرًا فَالأُمُّ أَحَقُّ. فَإِذَا بَلَغَ الْغُلاَمُ سَبْعَ سِنِينَ خُيِّرَ بَيْنَ أَبَوَيْهِ. هِلاَلُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ هُوَ هِلاَلُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ أُسَامَةَ. وَهُوَ مَدَنِيٌّ وَقَدْ رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَفُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ.
* تخريج: د/الطلاق ۳۵ (۲۲۷۷)، ن/الطلاق ۵۲ (۳۵۲۶)، ق/الأحکام ۲۲ (۲۳۵۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۴۶۳)، وحم (۲/۴۴۷)، ودي/الطلاق ۱۵ (۲۳۳۹) (صحیح)
۱۳۵۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے ایک بچے کو اختیار دیا کہ چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے اپنی ماں کے ساتھ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور عبدالحمید بن جعفر کے دادا رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ماں باپ کے درمیان بچے کے سلسلے میں اختلاف ہوجائے تو بچے کو اختیار دیاجائے گا چاہے وہ اپنے باپ کے ساتھ رہے اور چاہے وہ اپنی ماں کے ساتھ رہے۔ یہی احمد اوراسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ جب بچہ کم سن ہوتو اس کی ماں زیادہ مستحق ہے۔اور جب وہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو اختیار دیاجائے ، چاہے تو باپ کے ساتھ رہے یا چاہے تو ماں کے ساتھ رہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
22-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَالِدَ يَأْخُذُ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ
۲۲-باب: باپ بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے​


1358- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَمَّتِهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ أَطْيَبَ مَاأَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ، وَإِنَّ أَوْلاَدَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ. وَأَكْثَرُهُمْ قَالُوا: عَنْ عَمَّتِهِ، عَنْ عَائِشَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ. قَالُوا: إِنَّ يَدَ الْوَالِدِ مَبْسُوطَةٌ فِي مَالِ وَلَدِهِ يَأْخُذُ مَا شَائَ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ يَأْخُذُ مِنْ مَالِهِ إِلاَّ عِنْدَ الْحَاجَةِ إِلَيْهِ.
* تخريج: د/البیوع ۷۹ (۳۵۲۸)، ن/البیوع ۱ (۴۴۵۴)، ق/التجارات ۱ (۲۱۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۹۲)، وحم (۶/۳۱، ۴۲، ۱۲۷، ۱۶۲، ۱۹۳، ۲۲۰)، دي/البیوع ۶ (۲۵۷۹) (صحیح)
۱۳۵۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲-بعض لوگوں نے عمارہ بن عمیر سے اورعمارہ نے اپنی ماں سے اور ان کی ماں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، لیکن اکثر راویوں نے''عن أمّه'' کے بجائے'' عن عمته'' کہا ہے یعنی عمارہ بن عمیرنے اپنی پھوپھی سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باپ کو بیٹے کے مال میں کلی اختیار ہے وہ جتنا چاہے لے سکتا ہے،۵- اوربعض کہتے ہیں کہ باپ اپنے بیٹے کے مال سے بوقت ضرورت ہی لے سکتا ہے۔
وضاحت ۱؎ : عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اسی معنی کی ایک حدیث مروی ہے، ''أَنْتَ وَ مَالُكَ لأَبِيْكَ'' (یعنی تم اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے) (سنن ابی داود رقم: ۳۵۳۰/صحیح) اس میں بھی عموم ہے، ضرورت کی قید نہیں ہے، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث میں سنن أبی داود میں (برقم: ۳۵۲۹) جو ''إذا احتجتم'' (جب تم ضرورت مند ہو) کی ''زیادتی'' ہے وہ بقول ابوداود ''منکر'' ہے، لیکن لڑکے کی وفات پر (پوتا کی موجودگی میں) باپ کو صرف چھٹا حصہ ملتا ہے، اس سے حدیث کی تخصیص ہوجاتی ہے۔ یعنی بیٹے کا کل مال باپ کی ملکیت نہیں، صرف بقدر ضرورت ہی لے سکتا ہے۔ واللہ اعلم۔
 
Top