• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَاضِي كَيْفَ يَقْضِي
۳-باب: قاضی فیصلہ کیسے کرے؟​


1327- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ الثَّقَفِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: "كَيْفَ تَقْضِي؟" فَقَالَ: أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللهِ، قَالَ: "فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللهِ؟" قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: "فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ؟" قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْيِي قَالَ: "الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللهِ ﷺ".
* تخريج: د/الأقضیۃ ۱۱ (۳۵۹۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۷۳)، ودي/المقدمۃ ۲۰ (۱۷۰) (ضعیف)
( سند میں''الحارث بن عمرو''اور''رجال من اصحاب معاذ''مجہول راوی ہیں)
۱۳۲۷- معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے معاذ کو (قاضی بناکر) یمن بھیجا ،تو آپ نے پوچھا:''تم کیسے فیصلہ کروگے؟'' انہوں نے کہا:میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: ''اگر ( اس کا حکم) اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہ ہوتو؟'' معاذ نے کہا:تورسول اللہ ﷺ کی سنت سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا:'' اگر رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی (اس کا حکم ) موجود نہ ہوتو؟'' معاذ نے کہا:(تب)میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔آپ نے فرمایا:'' اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو (صواب کی) توفیق بخشی''۔


1328- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ قَالاَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو، ابْنِ أَخٍ لِلْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ، عَنْ مُعَاذٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ. وَأَبُو عَوْنٍ الثَّقَفِيُّ، اسْمُهُ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللهِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (ضعیف)
۱۳۲۸- اس سندسے بھی معاذ سے اسی طرح کی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- اور اس کی سندمیرے نزدیک متصل نہیں ہے، ۳- ابوعون ثقفی کانام محمدبن عبیداللہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي الإِمَامِ الْعَادِلِ
۴-باب: امام عادل کا بیان​


1329- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَى اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا، إِمَامٌ عَادِلٌ، وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللهِ، وَأَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَجْلِسًا، إِمَامٌ جَائِرٌ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۲۸) (ضعیف)
(سند میں ''عطیہ عوفی''ضعیف راوی ہیں)
۱۳۲۹- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور بیٹھنے میں اس کے سب سے قریب عادل حکمراں ہوگا، اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور اس سے سب سے دوربیٹھنے والا ظالم حکمراں ہوگا''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے ۔


1330- حَدَّثَنَا عَبْدُالْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ مَعَ الْقَاضِي مَا لَمْ يَجُرْ، فَإِذَا جَارَ تَخَلَّى عَنْهُ وَلَزِمَهُ الشَّيْطَانُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ.
* تخريج: ق/الأحکام ۲ (۲۳۱۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۶۷) (حسن)
۱۳۳۰- عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''اللہ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے ۱؎ جب تک وہ ظلم نہیں کرتا، اورجب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اسے چھوڑکرالگ ہوجاتاہے ۔اور اس سے شیطان چمٹ جاتا ہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف عمران بن قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اللہ کی مدداس کے شامل حال ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَاضِي لاَ يَقْضِي بَيْنَ الْخَصْمَيْنِ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَهُمَا
۵-باب: قاضی جب تک دونوں فریق کی بات نہ سن لے فیصلہ نہ کرے​


1331- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِذَا تَقَاضَى إِلَيْكَ رَجُلاَنِ، فَلاَ تَقْضِ لِلأَوَّلِ حَتَّى تَسْمَعَ كَلاَمَ الآخَرِ، فَسَوْفَ تَدْرِي كَيْفَ تَقْضِي".
قَالَ عَلِيٌّ: فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا بَعْدُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: د/الأقضیۃ ۶ (۳۵۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۰۸۱) (حسن)
(متابعات کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ اس کے راوی ''حنش'' ضعیف ہیں، دیکھئے: ا لإرواء رقم : ۲۶۰۰)
۱۳۳۱- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جب تمہارے پاس دوآدمی فیصلہ کے لیے آئیں توتم پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو ۱؎ عنقریب تم جان لوگے کہ تم کیسے فیصلہ کرو''۔علی کہتے ہیں: اس کے بعد میں برابرفیصلے کرتارہا۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : اوراگردوسرا فریق خاموش رہے، عدالت کے سامنے کچھ نہ کہے، نہ اقرارکرے نہ انکار یا دوسرافریق عدالت کی طلبی کے باوجودعدالت میں بیان دینے کے لیے حاضرنہ ہوتو کیادوسرے فریق کے خلاف فیصلہ دیا جاسکتا ہے یانہیں؟ قرین صواب بات یہی ہے کہ اس صورت میں عدالت یک طرفہ فیصلہ دینے کی مجازہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ فِي إِمَامِ الرَّعِيَّةِ
۶-باب: رعایا کے حاکم کا بیان​


1332- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ، حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لِمُعَاوِيَةَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَا مِنْ إِمَامٍ يُغْلِقُ بَابَهُ دُونَ ذَوِي الْحَاجَةِ وَالْخَلَّةِ وَالْمَسْكَنَةِ، إِلاَّ أَغْلَقَ اللهُ أَبْوَابَ السَّمَائِ دُونَ خَلَّتِهِ وَحَاجَتِهِ وَمَسْكَنَتِهِ". فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُ رَجُلاً عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ. وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ الْجُهَنِيُّ، يُكْنَى أَبَا مَرْيَمَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف وانظر حم (۴/۲۳۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۸۹) (صحیح)
(اگلی حدیث اور معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ''ابوالحسن جزری'' مجہول اور ''اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر'' ضعیف ہیں۔)
۱۳۳۲- عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے سناہے:'' جوبھی حاکم حاجت مندوں ، محتاجوں اور مسکینوں کے لیے اپنے دروازے بندرکھتاہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضرورت ، حاجت اور مسکنت کے لیے اپنے دروازے بند رکھتاہے''،جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سناتولوگوں کی ضرورت کے لیے ایک آدمی مقرر کردیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے،۲- یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی مروی ہے،۳- اس باب میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- عمرو بن مرہ جہنی کی کنیت ابومریم ہے۔


1333- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ صَاحِبِ رَسُولِ اللهِ ﷺ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ. وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، شَامِيٌّ. وَبُرَيْدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، كُوفِيٌّ. وَأَبُو مَرْيَمَ هُوَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ الْجُهَنِيُّ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۷۳) (صحیح)
۱۳۳۳- ابومریم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺسے اسی حدیث کی طرح اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔
یزید بن ابی مریم شام کے رہنے والے ہیں اور برید بن ابی مریم کو فہ کے رہنے والے ہیں اور ابومریم کانام عمرو بن مرہ جہنی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ لاَ يَقْضِي الْقَاضِي وَهُوَ غَضْبَانُ
۷-باب: قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے​


1334- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: كَتَبَ أَبِي إِلَى عُبَيْدِاللهِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ وَهُوَ قَاضٍ، أَنْ لاَ تَحْكُمْ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَأَنْتَ غَضْبَانُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "لاَ يَحْكُمْ الْحَاكِمُ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَأَبُو بَكْرَةَ، اسْمُهُ نُفَيْعٌ.
* تخريج: خ/الأحکام ۱۳ (۷۱۵۸)، م/الأقضیۃ ۷ (۱۷۱۷)، ن/آداب القضاۃ ۱۸ (۴۵۰۸)، ق/الأحکام ۴ (۲۳۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۶۷۶)، وحم (۵/۳۶، ۳۷، ۴۶، ۵۲) (صحیح)
۱۳۳۴- عبدالرحمن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کو جوقاضی تھے خط لکھا کہ تم غصہ کی حالت میں فریقین کے بارے میں فیصلے نہ کرو،کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے:'' حاکم غصہ کی حالت میں فریقین کے درمیان فیصلے نہ کرے'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوبکرہ کانام نفیع ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس لیے کہ غصے کی حالت میں فریقین کے بیانات پرصحیح طورسے غوروفکرنہیں کیاجاسکتا، اسی پرقیاس کرتے ہوئے ہر اس حالت میں جوفکرانسانی میں تشویش کاسبب ہوفیصلہ کرنا مناسب نہیں اس لیے کہ ذہنی تشویش کی حالت میں صحیح فیصلہ تک پہنچنا مشکل ہوتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
8-بَاب مَا جَاءَ فِي هَدَايَا الأُمَرَائِ
۸-باب: حاکم کو تحفہ ہدیہ دینے کے حکم کا بیان​


1335- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الأَوْدِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ ﷺ إِلَى الْيَمَنِ، فَلَمَّا سِرْتُ، أَرْسَلَ فِي أَثَرِي، فَرُدِدْتُ فَقَالَ: "أَتَدْرِي لِمَ بَعَثْتُ إِلَيْكَ؟ لاَ تُصِيبَنَّ شَيْئًا بِغَيْرِ إِذْنِي فَإِنَّهُ غُلُولٌ، وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لِهَذَا دَعَوْتُكَ فَامْضِ لِعَمَلِكَ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَمِيرَةَ، وَبُرَيْدَةَ، وَالْمُسْتَوْرِدِ بْنِ شَدَّادٍ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُعَاذٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ دَاوُدَ الأَوْدِيِّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۵۵) (ضعیف الإسناد)
(سند میں ''داود بن یزید اودی''ضعیف ہیں ، لیکن دیگر احادیث سے اس کا معنی ثابت ہے)
۱۳۳۵- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے (قاضی بناکر) یمن بھیجا ، جب میں روانہ ہوا تو آپ نے میرے پیچھے(مجھے بلانے کے لیے) ایک آدمی کو بھیجا، میں آپ کے پاس واپس آیا توآپ نے فرمایا:'' کیاتم جانتے ہوکہ میں نے تمہیں بلانے کے لیے آدمی کیوں بھیجاہے؟ (یہ کہنے کے لیے کہ) تم میری اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ لینا، اس لیے کہ وہ خیانت ہے، اور جوشخص خیانت کرے گا قیامت کے دن خیانت کے مال کے ساتھ حاضر ہوگا، یہی بتانے کے لیے میں نے تمہیں بلایا تھا، اب تم اپنے کا م پر جاؤ''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے اس طریق سے بروایت ابواسامہ جانتے ہیں جسے انہوں نے داوداودی سے روایت کی ہے،۳- اس باب میں عدی بن عمیرہ ، بریدہ، مستور بن شداد، ابوحمید اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
9-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ
۹-باب: فیصلے میں رشوت دینے اور لینے والو ں پر وارد وعید کا بیان​


1336- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ .
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ حَدِيدَةَ، وَأُمِّ سَلَمَةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَلاَ يَصِحُّ. قَالَ: و سَمِعْت عَبْدَاللهِ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَانِ يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَحْسَنُ شَيْئٍ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَصَحُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۸۴)، وانظر حم ۵ (۲/۳۸۷، ۳۸۸) (صحیح)
۱۳۳۶- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- یہ حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے بھی مروی ہے انہوں عبداللہ بن عمروسے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے،۳- اورابوسلمہ سے ان کے باپ کے واسطے سے بھی مروی ہے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے، ۴- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی کوکہتے سنا کہ ابوسلمہ (بن عبد الرحمن) کی حدیث جسے انہوں نے عبداللہ بن عمرو سے اورانہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ اچھی اورسب سے زیادہ صحیح ہے۔ (جو آگے آرہی ہے) ۵- اس باب میں عبداللہ بن عمرو ، عائشہ ، ابن حدیدہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ اس سے حقوق العبادکی پامالی ہوتی ہے۔


1337- حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ خَالِهِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ ﷺ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/الأقضیۃ ۴ (۳۵۸۰)، ق/الأحکام ۲ (۲۳۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۶۴)، وحم (۱۶۴، ۱۹۰، ۱۹۴، ۲۱۲) (صحیح)
۱۳۳۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
10-بَاب مَا جَاءَ فِي قَبُولِ الْهَدِيَّةِ وَإِجَابَةِ الدَّعْوَةِ
۱۰-باب: ہدیہ تحفہ اور دعوت قبول کرنے کا بیان​


1338- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "لَوْ أُهْدِيَ إِلَيَّ كُرَاعٌ لَقَبِلْتُ، وَلَوْ دُعِيتُ عَلَيْهِ لأَجَبْتُ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَسَلْمَانَ، وَمُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَلْقَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۶) (صحیح)
۱۳۳۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اگرمجھے کھربھی ہدیہ کی جائے تو میں قبول کروں گا اورا گر مجھے اس کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں علی ، عائشہ ، مغیرہ بن شعبہ، سلمان ، معاویہ بن حیدہ اور عبدالرحمن بن علقمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ غریب آدمی کی دعوت اورمعمولی ہدیہ کو بھی قبول کیاجائے، اسے کم اورحقیر سمجھ کر ردّنہ کیاجائے، اس سے نبی اکرمﷺکی تواضع اورسادگی کا بھی پتہ چلتاہے کہ آپ کتنے سادہ اورمتواضع تھے، اپنے لیے آپ کسی تکلف اوراہتمام کوپسندنہیں فرماتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
11-بَاب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ عَلَى مَنْ يُقْضَى لَهُ بِشَيْئٍ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَهُ
۱۱-باب: قاضی کے فیصلے کی بنا پر دوسرے کامال لینے پرواردوعید کا بیان​


1339- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَإِنْ قَضَيْتُ لأَحَدٍ مِنْكُمْ بِشَيْئٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ، فَلاَ يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المظالم ۱۶ (۲۴۹۸)، والشہادات ۲۷ (۲۶۸۰)، والحیل ۱۰ (۶۹۶۷)، والأحکام ۲۰ (۷۱۶۹)، و ۲۹ (۷۱۸۱)، و۳ (۷۱۸۵)، م/الأقضیۃ ۳ (۱۷۱۳)، د/الأقضیۃ ۷ (۳۵۸۳)، ن/القضاۃ ۱۳ (۵۴۰۳)، ق/الأحکام ۵ (۲۳۱۷)، (تحفۃ الأشراف : ۱۸۲۶۱)، وط/الأقضیۃ ۱ (۱)، وحم (۶/۳۰۷، ۳۲۰) (صحیح)
۱۳۳۹- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تم لوگ اپنا مقدمہ لے کر میرے پاس آتے ہومیں ایک انسان ہی ہوں، ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنا دعویٰ بیان کرنے میں د وسرے سے زیادہ چرب زبان ہو ۱؎ تو اگر میں کسی کو اس کے مسلمان بھائی کا کوئی حق دلوادوں تو گویا میں اُسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہاہوں، لہذا وہ اس میں سے کچھ بھی نہ لے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ام سلمہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوہریرہ اورعائشہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اپنی دلیل دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اچھے طریقے سے پیش کرسکتا ہے۔
وضاحت ۲؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہری بیانات کی روشنی میں فیصلہ واجب ہے، حاکم کا فیصلہ حقیقت میں کسی چیز میں کوئی تبدیلی پیدانہیں کرسکتا، اورنفس الامر میں نہ حرام کو حلال کرسکتا ہے اور نہ حلال کو حرام، جمہورکی یہی رائے ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کا کہناہے کہ قاضی کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح نافذہوجاتاہے مثلاً ایک جج جھوٹی شہادت کی بنیادپر فیصلہ دے دیتاہے کہ فلاں عورت فلاں کی بیوی ہے باوجودیکہ وہ اجنبی ہے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اس مردکے لیے حلال ہوجائے گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
12-بَاب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي وَالْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ
۱۲-باب: گواہی مدعی پر اور قسم مدعیٰ علیہ پر ہے​


1340- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ. فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ هَذَا غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي. فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي وَفِي يَدِي لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِلْحَضْرَمِيِّ: "أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟" قَالَ: لاَ، قَالَ: "فَلَكَ يَمِينُهُ". قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ، لاَ يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ، وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْئٍ. قَالَ: "لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلاَّ ذَلِكَ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ لِيَحْلِفَ لَهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ لَمَّا أَدْبَرَ: "لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِكَ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ اللهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ".
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الإیمان ۶۱ (۲۲۳)، د/الأیمان والنذور ۲ (۳۲۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۶۸)، وحم (۴/۳۱۷) (صحیح)
۱۳۴۰- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دوآدمی ایک حضرموت سے اورایک کندہ سے نبی اکرمﷺ کے پاس آئے۔ حضرمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس(کندی) نے میری زمین پر قبضہ کرلیا ہے، اس پر کندی نے کہا:یہ میری زمین ہے اور میرے قبضہ میں ہے، اس پر اس(حضرمی) کا کوئی حق نہیں ہے۔ نبی اکرمﷺنے حضرمی سے پوچھا: ''تمہارے پاس کوئی گواہ ہے ؟'' اس نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا:'' پھر تو تم اس سے قسم ہی لے سکتے ہو''، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! وہ فاجر آدمی ہے اسے اس کی پرواہ نہیں کہ وہ کس بات پر قسم کھارہاہے۔ اور نہ وہ کسی چیز سے احتیاط برتتاہے، آپ نے فرمایا:'' اس سے تم قسم ہی لے سکتے ہو''۔ آدمی قسم کھانے چلا تو رسول اللہ ﷺ نے جب وہ پیٹھ پھیرکرجانے لگا فرمایا: اگر اس نے ظلماً تمہارا مال کھانے کے لیے قسم کھائی ہے تووہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گاکہ اللہ اس سے رخ پھیرے ہوگا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- وائل بن حجر کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں عمر، ابن عباس، عبداللہ بن عمرو، اور اشعث بن قیس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔


1341- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ: "الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ". هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ. وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِاللهِ الْعَرْزَمِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ. ضَعَّفَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُهُ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۷۹۴) (حسن)
(شواہد اورمتابعات کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ اس کے راوی''محمد بن عبیداللہ عزرمی''ضعیف ہیں، دیکھئے الارواء رقم: ۲۶۴۱)
۱۳۴۱- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے اپنے خطبہ میں فرمایا:''گواہ مدعی کے ذمّہ ہے اورقسم مدعی علیہ کے ذمّہ ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کی سند میں کلام ہے۔محمد بن عبید اللہ عرزمی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ ابن مبارک وغیرہ نے ان کی تضعیف کی ہے۔


1342- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَضَى أَنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ وَغَيْرِهِمْ أَنَّ الْبَيِّنَةَ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ.
* تخريج: خ/الرہن ۶ (۲۵۱۴)، والشہادات ۲۰ (۲۶۶۸)، وتفسیر سورۃ آل عمران ۳ (۴۵۵۲)، م/الأقضیۃ ۱ (۱۷۱۱)، د/الأقضیۃ ۲۳ (۳۶۱۹)، ن/القضاۃ ۳۶ (۵۴۴۰)، ق/الأحکام ۷ (۲۳۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۹۲)، وحم (۱/۲۰۳، ۲۸۸، ۳۴۳، ۳۵۱، ۳۵۶، ۳۶۳) (صحیح)
۱۳۴۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیاکہ قسم مدعی علیہ پر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ گواہ مدعی کے ذمّہ ہے اورقسم مدعی علیہ پر ہے۔
 
Top