- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
23-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُكْسَرُ لَهُ الشَّيْئُ مَا يُحْكَمُ لَهُ مِنْ مَالِ الْكَاسِرِ
۲۳-باب: جس کی کوئی چیز توڑدی جائے توتوڑنے والے کے مال سے اس کاتاوان لیاجائے گا
1359- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أَهْدَتْ بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ طَعَامًا فِي قَصْعَةٍ. فَضَرَبَتْ عَائِشَةُ الْقَصْعَةَ بِيَدِهَا. فَأَلْقَتْ مَا فِيهَا. فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "طَعَامٌ بِطَعَامٍ، وَإِنَائٌ بِإِنَائٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۷۷)، وراجع : خ/المظالم ۳۴ (۲۴۸۱)، والنکاح ۱۰۷ (۵۲۲۵)، د/البیوع ۹۱ (۳۵۶۷)، ن/عشرۃ النساء ۴ (۳۴۰۷)، ق/الأحکام ۱۴ (۲۳۳۴)، حم (۳/۱۰۵، ۲۶۳)، دي/البیوع ۵۸ (۲۶۴۰) (صحیح)
۱۳۵۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرمﷺکی کسی بیوی نے آپ کے پاس پیالے میں کھانے کی کوئی چیز ہدیہ کی ، عائشہ رضی اللہ عنہا نے (غصّے میں) اپنے ہاتھ سے پیالے کو مارکر اس کے اندر کی چیز گرادیا ،تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' کھانے کے بدلے کھانا اور پیالے کے بدلے پیالہ ہے '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی کوئی چیز کسی سے تلف ہو جائے تووہ ویسی ہی چیز تاوان میں دے اورجب اس جیسی چیز دستیاب نہ ہوتواس صورت میں اس کی قیمت اداکرنا اس کے ذمہ ہے۔
1360- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيزِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَعَارَ قَصْعَةً، فَضَاعَتْ فَضَمِنَهَا لَهُمْ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ. وَإِنَّمَا أَرَادَ عِنْدِي سُوَيْدٌ الْحَدِيثَ الَّذِي رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ. وَحَدِيثُ الثَّوْرِيِّ أَصَحُّ. اسْمُ أَبِي دَاوُدَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۸۸) (ضعیف جداً)
(سند میں ''سوید بن عبد العزیز'' سخت ضعیف ہے، صحیح واقعہ وہ جو اگلی حدیث میں مذکورہے)
۱۳۶۰- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے ایک پیالہ منگنی لیا وہ ٹوٹ گیا، توآپ نے جن سے پیالہ لیاتھا انہیں اس کا تاوان اداکیا۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث محفوظ نہیں ہے، ۲- سوید نے مجھ سے وہی حدیث بیان کرنی چاہی تھی جسے ثوری نے روایت کی ہے ۱؎ ، ۳- ثوری کی حدیث زیادہ صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : مطلب یہ ہے کہ سوید بن عبدالعزیزکو مذکورہ حدیث کی روایت میں وہم ہوا ہے انہوں نے اسے حمید کے واسطے سے انس سے ''أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ اسْتَعَارَ قَصْعَةً ''کے الفاظ کے ساتھ روایت کردیا جو محفوظ نہیں ہے بلکہ محفوظ وہ روایت ہے جسے سفیان ثوری نے حمید کے واسطے سے انس سے ''أهدت بعض أزواج النبي ﷺ''کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔